پیر، 20 فروری، 2006

21 فروری

21 فروری کا دن ہمیشہ کی طرح‌آئے گا اور گزر جائے گا۔ شاید کوئی نام نہاد عالمی دن بھی منایا جاتا ہو اس تاریخ‌کو مگر میں‌آج آپ کو اس دن سے ایک اور ہستی کے حوالے سے روشناس کرانے کی کوشش کروں گا۔
آئیے ذرا تاریخ میں‌چلتے ہیں۔ یہ آج سے کوئی چار سو سال پہلے کی بات ہے۔ گورے اپنی ریاستوں‌سے نکل کر پوری دنیا میں‌بحری راستوں‌سے پھیل رہے تھے۔ یورپ کے کئی ملکوں‌کے لوگ افریقہ بھی پہنچ چکے تھے جہاں‌انھوں‌نے اپنی نو آبادیاں‌قائم کرلی تھی۔وہ کالوں‌پر جانوروں‌کی طرح‌ ظلم کرتے اور انھیں‌جانوروں‌کی طرح‌ہی رکھتے۔پھر کولمبس نے امریکہ دریافت کرلیا۔ گورے جوق در جوق اس نئے دیس میں‌ ہجرت کرنے لگے۔متمول گورے اپنے ساتھ اپنے غلام بھی وہاں‌ لے گئے۔ یہ کالے جنھیں‌افریقہ میں‌بھی بے دردی سے انکے حقوق سے محروم رکھا گیا اب انھیں‌نئی سرزمین پر ان کی مرضی کے خلاف لے جایا جارہا تھا۔انھیں‌بھیڑ بکریوں‌کی طرح‌جہازوں‌میں‌ٹھونس دیا جاتا۔ نامناسب خوراک،رہائش ناقص جس کے نتیجہ میں‌ راستے میں کئی مرنے لگے۔ گورے وحشی ایسے لوگوں‌ کو بڑے آرام سےسمندر میں ڈال دیتےجنھیں‌وہ شارک مچھلیاں‌ بسم‌اللہ کر کے کھالیتیں‌جو ان جہازوں کا تعاقب کرکے سیکھ چکی تھیں‌ کہ کھانایہیں‌سے ملتاہے۔ان سمندروں‌کا پیٹ‌بھرنےکے بعد یہ مظلوم جو آدھے سے بھی کم رہ جاتے کو نئی اور اجنبی سر زمین پر لاکھڑا کیا جاتااور ان کی زندگی پہلے سے بھی بدتر کر دی جاتی۔ ان سے بدترین مشقت لیجاتی اور نتیجے میں‌ صرف جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے چند لقمے خوراک کے۔یہ مظلوم لوگ جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے‌صحابی بلال رض کی نسل سے تھے،موٹے ہونٹوں‌اور بھدے پیروں‌اور کالے رنگ کے یہ لوگ جن کے دل گورے تھے جن میں‌میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور ان کے نام لیوا بھی موجود تھے جنھیں‌ان کتوں‌نے اسلیے قید کر لیا تھا کہ وہ صورت شکل میں کالے ہیں۔یہ لوگ جن میں ‌بلا تخصیص‌مسلم و غیر مسلم صرف کالے موجود تھے ان کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ وہ اپنا آپ تک بھولتے گئے۔ انھیں‌یہ یاد تک نہ رہا کہ ان کی مادری زبانیں‌کیا تھیں۔وہ کس قبیلے یا قوم سے متعلق تھے بس انھیں‌یہ یاد تھاکہ گورا صاحب انھیں‌افریقہ سے لایا تھا ان سے غلامی کروانے کے لیے۔
اب آئیے بیسویں‌صدی کے شروع اور انیسویں‌صدی کے اواخر میں جب امریکہ میں آخر ان مظلوموں‌کی خدا نے سن لی اور غلامی غیر قانونی قرار دے دی گئی۔ مگر پھر بھی کوئی ان کی قومی شناخت نہ لوٹا سکا انھیں‌ نفرت اور حقارت سے گورے نے Nigerاور Negroکہنا شروع کر دیا۔اس معاشی اور معاشرتی استحصال کے بعد ان کے اندر ایک طرف کالوں‌کے اندر اس کے خلاف مزاحمت پیدا ہوئی تو دوسری طرف ان کی معاشی اورمعاشرتی حالت اس حد تک گر گئی کہ صرف سوچا جا سکتا ہے۔ معاشرے کی تمام برائیاں‌ان کے اندر موجود تھیں،غنڈے،موالی،نشے باز یہ لوگ جنھیں‌اپنے دین دنیا کی کوئی خبر نہ تھی،اگر کسی چیز کی خبر تھی تو وہ یہ کہ اگر ان کے بالوں‌کے کنڈل ختم ہوجائیں‌اور رنگ کسی طرح‌تھوڑا سفید ہوجائے تو ان کا سٹیٹس معاشرے میں‌بلند ہو جائے گا۔
اس کاباپ پہلے طبقےسے متعلق تھا۔مارکس گاروی کا پیروکار یہ شخص کالوں‌میں‌اس بات کہ تبلیغ کرتا کہ انھیں‌ایک دن اپنے دیس افریقہ میں‌واپس جانا ہے۔اسی سلسلہ میں ایک رات اس کے گھر پر حملہ ہوا اور وہ مارا گیا۔اس کے بعد وہ اور اس کے دیگر سات بہن بھائی کچھ عرصہ اپنی ماں‌کے ساتھ پلے۔ اسکی ماں ویسٹ انڈین دوغلی تھی اور وہ کہتا ہے کہ میری ماں‌ کو ساری عمر اس خون سے نفرت رہی جو کسی گورے نے اس کی ماں‌کے ذریعے رگوں‌میں‌انڈیل دیا تھا۔ اس کا نمبر پانچواں‌تھا۔باپ کے مرنے کے بعد ان کی ماں‌ نے ان کی پرورش کرنے کی کوشش کی مگر جلد ہی اخراجات حد سے باہر نکلنے لگے۔انھوں‌نے قرض لے کر گزاراہ کیا۔لیکن آہستہ آہستہ معاملات حد سے باہر نکلنے لگے اور ریاست کی فلاح‌ سے متعلق ادارے کے لوگ ان کے گھر آنےجانے لگے انھوں‌ نے نفسیاتی تشدد کر کر کے ان کی ماں‌کو بالآخر پاگل کر دیا۔ اب بچوں‌کے مختلف مخیر لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا اسے بھی جو اپنے سرخ بالوں‌جو اسے ماں‌کی طرف سےملے تھے کی وجہ سے ریڈ پکارا جاتا تھا کو ایک مخیًر گھرانے میں دے دیا گیا۔اس کا نام میلکم لٹل تھا مگر اکثر اسے ریڈ‌ کہہ کر بلایا جاتا۔ وہاں‌اس نے آٹھ درجوں‌تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد سب چھوڑ چھاڑ دیا۔
عام کالوں‌کی طرح‌وہ بھی اس کریز میں‌مبتلا ہوگیا کہ گوروں‌کی طرح‌اس کی بھی معاشرے میں‌عزت ہو۔ اس نے بوٹ پالش کرنے کی نوکری کی کلب میں۔اپنے بالوں‌کو کانک(کنڈل ختم کروانا)کروایا، کالے اس کے ہلکے سیاہ رنگ کو دیکھ کر رشک کرتے سرخ سے بال اس کی شان ہی اور بڑھا دیتے۔ اس زمانے میں میلکم نے اپنے آپ کو سنوارنے کے لیے قرضہ تک اٹھایا۔ وہ کلب کی تقریبات میں‌ شریک ہونے کے لیے ادھار پر سوٹ خریدتا۔
اس کی عمر یہی کوئی پندرہ سال کے قریب ہوگی جب کسی لڑکی سے اس کے تعلقات بنے۔دوستوں‌کے مشورے اور حالات کا رخ دیکھ کر وہ نیویارک چلا آیا۔ اس دوران وہ دوسرے ایک دو شہروں‌میں‌بھی کام کرچکاتھا۔ کام یہ ہی کہ کلبوں‌میں‌گوروں‌کے جوتے پالش کردینے یا بیرا گیری۔نیویارک آکر اس نے ہارلم کے علاقے کو‌ رہائش اور کام کے لیے چنا جو ان دنوں‌کالوں‌کا مرکز بن رہا تھا اور جہاں‌سے یہودی علاقہ چھوڑ چھاڑ‌کے نکل رہ تھے۔ یہاں‌کے کئی کلبوں‌میں‌اس نے کام کیا،آہستہ آہستہ وہ نشے کی طرف آیا اور ماری جوآنا اور اس قسم سے بھرے سگریٹ جنھیں‌ ریفرز کہتے بیچنے لگا۔اس نے طوائفوں‌ کے دلال تک کا کام کیا۔گورے جو منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کالی طوائفیں‌مانگتے اور گوری عورتیں‌جو کالنے مردوں‌کی طلب گار ہوتیں۔آہستہ آہستہ وہ ہسٹلنگHustlingکی طرف متوجہ ہوا اور بیس سے بھی کم عمر میں‌یہ کام کرنے لگا۔بٹوہ چھین لینا،نقلی چیزیں‌ اصلی کہہ کے بیچ دینا،نشہ بیچنا،چوری کرنا،نقب زنی کرنا غرض‌اس نے ہر غلط کام کیا۔ آخری زمانے میں‌ اس نے اپنا ایک گروہ بھی بنا لیا جس میں‌اس کا ایک دوست،ایک گوری لڑکی جو اس کی داشتہ بھی تھی اور اس کی بہن شامل تھے۔ لڑکیاں مکان میں‌جاسوسی کے لیےجاتیں‌اور یہ رات کو نقب زنی کرتے۔اس دور میں‌اس نے بے تحاشا نشہ استعمال کیا خود بتاتا ہے کہ وہ کام کے وقت غیر معمولی طور پر چست رہنے کے لیے بے تحاشا نشہ استعمال کرتا تھا۔ اسی دوران ایک دفعہ اس کی واقفیت گوری لڑکیوں‌کے ساتھ کھل گئی اور پولیس نے اسے گرفتار کر لیا اس کے اپارٹمنٹ‌کی تلاشی کے بعد نقب زنی کے شواہد بھی ملے جس ک بعد اسے دس سال کی سزا ہوگئی۔اس کی سزا صرف دوسال بنتی تھی مگر وہ خود بتاتاہے کہ اس کا اصل جرم گوری لڑکیوں‌سے دوستی تھا جس کی اسےیہ سزا ملی۔
ان دس سالوں اس کی زندگی کو بدل دینے میں‌ اہم کرداد ادا کیا۔ اپنے بہن بھائیوں‌اور دوستوں‌کے کہنے پر اس نے جیل میں اپنے آپ کو سنوارنے کی کوشش شروع کردی۔ اسے ایک اصلاحی جیل میں‌منتقل کروا دیا گیا جہاں‌کتب خانے کی سہولت بھی موجود تھی۔وہاں اس نے انگریزی سیکھی،وہ خود بتاتا ہے کہ اس کا ذخیرہ الفاظ چند الفاظ تھے جوغنڈہ گردی میں‌مستعمل عام اصطلاحات تھیں۔اس نے لغت کو یاد کیا اپنی انگریزی بہتر کی اس کے بعد کتب خانہ جو کوئی اس جیل کو وصیت میں‌عطیہ کر گیا تھا سے استفادہ کرنا شروع کر دیا۔ اس پر گوروں کے مظالم واضح ہونے لگے۔اس دوران اس نے اپنے اندر مباحثے کی صلاحیت پیدا کی۔ جیل میں‌ بحث مباحثے ہوتے اور میلکم ان میں‌ حصہ لیتا اس چیز نہ آئندہ زندگی میں‌اس کی بڑی مدد کی۔پھر اس کا بھائی اس سے ایک دن ملا اور اسے ایلیا محمد(Elijah Muhammad) کے بارے میں‌بتایا جس کی تعلیمات کا وہ پیرو ہوگیا تھا۔اس نے میلکم کو بھی قوم اسلام(The Nation of Islam) میں‌شمولیت کی دعوت دی۔ میلکم بتاتا ہے کہ میں‌حیران رہ گیا کہ میرا بھائی صاف ستھرےلباس میں‌ملبوس تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ میں‌جھوٹ‌نہیں‌بولتا اور شراب نہیں پیتاسور بھی نہیں‌کھاتا کیونکہ مسلمان یہ سب نہیں‌کرتے۔اس کے بعد میلکم نے جیل سے ایلیا محمد سے خط و کتابت شروع کردی۔ اس خط و کتابت کے ذریعے اسے اسلام کی تعلیمات کا پتہ چلا اورجب1952 کے موسم بہارمیں وہ جیل سے باہر آیا تو سب سے پہلا کام جواس نے کیا وہ ایلیا محمد کی تعلیمات قبول کرنے کا اعلان تھا۔
ایلیا محمد ایک شخص‌ڈبلیو ڈی فارڈ‌کو خدا کہتا تھا جس نےاسے اپنا نبی مقرر کیا تھا۔ اس نے ایک تنظیم قوم اسلام کے نام سے قائم کی اور اپنے عقائد کالوں میں پھیلانے شروع کردیے مگر جب میلکم اس میں‌شامل ہوا تو یہ سب اتنا نہیں پھیلا تھا۔ وہ گوروں کا دشمن تھا انھیں سفید شیطان کہہ کر پکارتا اس سلسلے میں اس نے ایک دیو مالائی قصہ بھی گھڑ رکھا تھا جس کے مطابق اصل انسان کالے تھے مگر ان میں ملاوٹ کرکے گوری نسل پیدا کی گئی۔ایلیا محمد کی تعلیمات چند گمراہ کن عقائد کے علاوہ تمام کی تمام اسلامی تھیں مگر اس نے تحریف ضرور کر دی تھی۔ایلیا محمد نے کئی اسلامی ممالک کو دورے بھی کیے جن میں‌ایوب دورمیں‌پاکستان بھی آیا۔ وہ 1975 میں‌مرا۔
تو بات میلکم لٹل کی ہورہی تھی۔ میلکم نے تنظیم میں‌شمولیت کے بعد اس میں‌ایک نئی روح‌پھونک دی۔ یہاں‌آکر اسے پتا چلا کہ زندگی کیا ہے۔ ایک صاف ستھری اور بامقصد زندگی، تنظیم کے نظم و ضبط کو بیان کرتے وہ کہتا ہے کہ مسلمان جی جان سے ایلیامحمد کی تعلیمات کی پیروی کرتے تھے‌‌‌‌،ثمر اسلام(‌The Fruit Of Islam) کے نام سے تنظیم کا ایک شعبہ قائم تھا جو نظم و ضبط کا ذمہ دار تھا۔ میلکم جو کبھی گورے رنگ کا دیوانہ تھا اب گوروں سے نفرت کرنے لگا۔ بنیادی طور پر وہ ایک غیر معمولی انسان تھا،ایک پیچھے نہ ہٹنے والا شخص،ایلیا محمد نے اس کی تربیت کی اور میلکم اس کی تعلیمات کو پھیلانے لگا۔ وہ عام کالے کی نفسیات سے واقف تھا اس لیے انھیں باآسانی قائل کر لیتا کہ فلاح‌صرف ایلیا محمد کی تعلیمات میں‌ہی ہے۔ اس کی عمر اس زمانے میں تیس برس کے قریب تھی۔میلکم جسے اب تنظیم کی طرف سے ایکس کاخطاب مل گیا تھااتنی محنت کی کہ چند معبدوں سے اس نے تنظیم کےمعابد کی تعداد ساتھ ستر کردی۔ ایلیا محمد نے اسے اپنا وزیر بنا دیا۔ میلکم ایکس اس زمانے کے بار ےمیں‌بتاتا ہے کہ اسے آرام کرنے کا بھی ہوش نہ تھا وہ یہ کام بھی جہاز یا ٹرین میں‌ کرتا۔
1956 میں‌اسے تنظیم کی طرف سے ایک شیور لیٹ ملی اس کی لگن کا اندزہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس نے پانچ ماہ کے عرصے میں‌ اس پر تیس ہزار میل کا سفر کیا۔ایلیا محمد کی قوم اسلام کو اس نے پورے امریکہ میں‌پھیلانے کا عزم کیااور اس کے لیے کام بھی کیا۔ اسی دوران نیویارک میں ایک جھگڑے کی وجہ سے یہ تنظیم پریس کی نگاہ میں‌آگئی جس کے بعد قوم اسلام کو پریس میں بھی جگہ ملنے لگی۔اس کے بعد میلکم ایکس ناراض‌میلکم ایکس کے نام سے مشہور ہوگیا کیونکہ وہ ہر مباحثے اور تقریر میں گوروں کو برملابرا بھلا کہتا اور کالوں‌کی موجودہ حالت کا ذمہ دار انھیں‌ٹھہراتا۔
اسی طرح‌قریبًا بارہ سال کام کرنے کے بعد ایک دن اس کی ساری خدمات کو نظر انداز کرکے اسے بودا سابہانہ کرکے تنظیم سے علیحدہ کر دیاگیا۔ایلیا محمد اس کی مقبولیت سے خائف تھا اس کے حاسدوں‌نےا س نے فائدہ اٹھایا اور تنظیم سے الگ کردیا گیا۔(ایلیا محمد پر ایک اپنی سیکرٹریوں سے ناجائز تعلقات کا الزام اس دوران لگ چکا تھا جسے امریکی پریس نے بہت اچھالا) اس دوران میلکم ایکس شادی بھی کرچکا تھا بیٹی ایکس ایک نرس تھی جس کےبطن سے اس کی چار بیٹیاں‌پیدا ہوئیں۔
پھر اسی دوران وہ تاریخی لمحہ آیا جب ایک کالے نے گورے کو باکسنگ کے میدان میں شکست دی اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ کیسئیس کلے سے محمد علی کلے بننے والا یہ شخص جب مقابلہ کررہا تھا تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے میلکم ایکس وہاں‌موجود تھا۔اگرچہ میلکم ایکس قوم اسلام سے الگ ہوگیا تھا مگر محمد علی کلے اس تنظیم سے منسلک رہا بعد میں‌میلکم ایکس نے خود ہی اس سے ملنا کم کردیا تھا(بہت کم لوگ شاید یہ جانتے ہوں‌کہ محمد علی کلے نے جب اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اس سے مراد ایلیا محمد کی قوم اسلام کا تحریف شدہ اسلام تھا)۔
میلکم ایکس کو اس دوران پتا چلا کہ اس کے قتل کی سازشیں‌ہورہی ہیں۔ اس کے بہی خواہوں نے اسے خبردار کیا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ پھر اس کی ملاقات ڈاکٹر یوسف شورال سے ہوئی۔ جنھوں ‌نے اسے صحیح‌اسلام سے روشناس کرایا۔اس کے بعد میلکم ایکس نے حج کا ارادہ کیا اور براستہ قاہرہ جدہ کو روانہ ہوا۔وہاں‌اس کی ملاقات ڈاکٹر محمد شورابی سے ہوئی جنھوں‌نے اس کے تصور اسلام کی مزید تطہیر کی۔آخر اس نے جدہ کا قصد کی مگر اسے نومسلم اور امریکی ہونے کی وجہ سے روک لیا گیا۔ مسافر خانے میں اسے نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا گیا وہ بتاتا ہےکہ جھکنا اور گھٹنےموڑ کر بیٹھنا اس کے لیے عذاب سے کم نہیں تھا اس دوران اس کا ٹخنہ بھی سوج گیا۔آخر ڈاکٹر عمر اعظم کو فون کرکے اس نے اپنے مسئلے کے بارے میں بتایا۔جس کے بعد اسے سرکاری مہمان کا درجہ مل گیا۔ اس نے مطواف کی نگرانی میں حج ادا کیا۔ اس دوران اس کے گوارا مخالف جزبات پر مثبت اثر پڑا اور اسلام کی عالمی اخوت کا تصور مضبوط ہوا۔دوران حج اس نے امریکہ خطوط لکھے جنھیں‌پریس نے بھی کوریج دی۔اس کے خطوط سے اس کے رجحانات کی تبدیلی کا واضح‌پتا چلتاہے۔اس دوران قوم اسلام نے اس پر کئی مقدمات قائم کردیے تھے جو ان کی بدنیتی کی ثبوت تھے۔
حج کے دوران اس کی ملاقات شہزادہ فیصل سے بھی ہوئی ۔اس کے بعد اس نے کئی افریقی اور مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ جہاں‌کالوں کو درپیش مسائل کے بارے میں‌تبادلہ خیال کیا گیا۔ آخر میکلم ایکس واپس امریکہ پہنچ گیا۔وہاں جانے کے بعد اس نے اسلام کے صحیح‌ تصور کو پھیلانا شروع کردیا۔ مگر دشمنوں کو یہ بات پسند یہ آئی اور یہ گوہر نایاب نہ جانے کتنے دلوں کو روتا چھوڑ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہ خود کہا کرتا تھا کہ مجھے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے مگر میں اس کی پرواہ نہیں‌کروں‌گا۔ 21 فروری 1965 کا دن تھا نیویارک میں‌ دی آڈیو بون بال روم اس کی تنظیم نے کرائے پر حاصل کررکھا تھا جہاں اس کا لیکچر تھا۔ جب وہ خطاب کرنے آیا تو ایک طرف سے آواز آئی “میری جیب سے ہاتھ نکالو“ لوگوں ‌کی توجہ اس طرف ہونے کی دیر تھی کہ اگلی قطار سے تین آدمیوں نے جو ریوالور اور شاٹ گن سے لیس تھے اس پر بے دریغ فائرنگ کردی۔ میلکم ایکس موقع پر ہی شہید ہوگیا۔ اللہ اسے اپنے جوار رحمت میں‌جگہ دے عجب آزاد مرد تھا۔ساری عمر بے چین رہا جب برا تھا تب بھی اورجب اچھا تھا تب بھی۔ مرتے وقت اس کی عمر صرف چالیس سال سے کچھ عرصہ کم تھی۔اس کا جنازہ شیخ الحاج ہشام جابر نے پڑھایا اس کی قبر پرستاروں نےگورے گورکنوں‌کے کھودنے نہیں‌ دی اور اپنے ہاتھوں ‌نے ساراکام کیا۔اس کی قبرپرجو قطبہ لگایا گیا اس پر لکھا تھا
“الحاج ملک الشہباز 29 مئی 1925تا 21 فروری 1965“
ایلیا محمد کے بعد نیشن آف اسلام کی تخت نشینی اس کے بیٹے والس محمد نے سنبھالی۔ یہ شخص اسلام کے بارے میں سنجیدہ نکتہ نظر رکھتا تھا۔ چناچہ اس نے اپنی تنظیم کا نام ورلڈ کمیونٹی آف اسلام ان دا ویسٹ رکھا پھر بدل کر دی امریکن مسلم کردیا جس میں امریکی گورے مسلمانوں کو بھی داخلے کی اجازت تھی۔ والس محمد نے اسلام قبول کرلیا تھا جس کیوجہ سے ایلیا محمد کے کچھ پیروکار اس سےالگ ہوگئے لوئیس فرخان اس تنظیم کا سربراہ بنا۔اس شخص پر نسل پرستانہ ذہنیت کا الزام لگا اور میلکم ایکس کے قتل کے سلسلے میں‌مقدمہ بھی چلا۔اس نے کئی سال ایلیا محمد کے نظریات پھیلائے۔16 اکتوبر 1995 کو اس نے واشنگٹن میں‌ملین مارچ کا انعقاد کیا جسے دنیا میں‌کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
ورلڈ فرینڈ شپ ٹور میں اس نے 20 کے قریب اسلامی ممالک کا دورہ بھی کیا جن میں‌ایران ،لیبیا اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔ کرنل معمر قذافی نے اسے 5۔2 لاکھ پونڈ کا انعام بھی دیا۔ بنگلہ دیش میں اس کا استقبال مجلس تحفظ ختم نبوت کے سیکرٹری مولانا شفیق لاسلام نے کیا جس سے مسلمانوں‌کی اس تنظیم کے عقائد سے بے خبری واضح ہوتی ہے۔ پاکستان میں‌البتہ راجہ ظفرالحق نے اس کے دورے کی اطلاع پاکر اس بارے میں‌پتا لگنے پر اسے بروقت منسوخ‌کردیا۔فروری 2002 میں لوئیس فرخان اور والس محمد میں‌اتحا د ہوگیا اور لوئیس فرخان نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر ایمان کا اعلان کرتے ہوئے اہلسنت کا مسلک اختیار کیا۔
امریکہ میں‌اسلام کے پھلینے کی جدوجہد کا ایک محتصر سا احوال تھا آج ہمیں‌میلکم ایکس الحاج ملک الشہباز کا جذبہ درکار ہے اگر ہم نے اسلام کی اشاعت کرنا ہے ورنہ
“مل گئے کعبے کو پاسباں صنم خانے سے“ کے مصداق اللہ تو اپنے دین کی اشاعت کے لیے ذرائع پیدا کر ہی دیاکرتاہے۔اللہ آپس کے اختلافات ختم کرکے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
(آج مورخہ 21 فروری 2006 خاکسار کی سالگرہ بھی ہے آج عمر عزیز کے21 سال گزر گئے۔ یہ ایک اور وجہ تھی کہ میں‌نے یہ تحریر آج کے دن لکھی۔)

5 تبصرے:

  1. You are right .



    some of my friends told me that michael jackson converted to islam.

    I searched the web, but I found that it was only rumour, someone named him Jacko X.


    still my frinds insist that he is a muslim.


    http://en.wikipedia.org/wiki/Malcom_X

    جواب دیںحذف کریں
  2. معلوماتی تحریر..... کافی باتوں کا علم تھا مگر چند ایک نئی ہیں میرے لئے خوب!

    جواب دیںحذف کریں
  3. شکریہ جناب۔
    مائیکل جیکسن کے قبول اسلام کے بارے میں‌نے بھی کسی اخبار میں‌پڑھا تھا مگر مزید تصدیق نہیں‌ہوسکی۔ اس کا بھائی یا کوئی اور رشتہ دار تو مسلمان ہے یہ بھی مصدقہ اطلاع نہیں‌ویسے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. اکیس فروری بنگالی زبان کا بھی دن ہے۔ اس دن مشرقی پاکستان میں بنگالی کو قومی زبان کا درجہ نہ دینے پر احتجاج ہوا تھا جس میں لوگ مارے گءے تھے۔ یہ آج بھی بنگلہ‌دیش میں منایا جاتا ہے۔

    http://en.wikipedia.org/wiki/Language_Movement_Day

    جواب دیںحذف کریں
  5. معلومات دینے کا شکریہ۔
    ویسے اکیس فروری کا دن میرے لیے یوں‌ اہم ہے کے میرا یوم پیدائیش ہے۔:-)

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔