جمعہ، 28 دسمبر، 2007

بےنظیر چلی گئی۔۔۔۔۔

بی بی سی پر تازترین میں‌ بینظیر کی ہلاکت کی خبر موجود ہے۔ ابھی سرکاری ٹیلی وژن نے بھی یہی خبر دی ہے۔ میں بے نظیر سے نظریاتی اختلاف رکھتا تھا اور بے شک میں‌ اسے ووٹ بھی نہ دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ وہ جیسی بھی تھی ایک لیڈر تھی۔ لیڈر میں‌ پوری قوم کی جان ہوتی ہے۔ لیڈر کی موت قوم کے اندر ایسے نامٹنے والے زخم چھوڑ جاتی ہے جو ناسور بن کر قوم کو کھا جاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی موت ایک سیاسی عمل کی موت ہے۔ اگر پہلے انتخابات سے ہمیں‌ کچھ بہتری کی امید بھی تھی تو بھی نہیں‌۔ بے نظیر ایک ایسے طبقہ فکر کی نمائندہ تھی جو ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھنا چاہتا تھا۔ بے شک اس کی موت کا خلاء کبھی بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
بےنظیر ایک جینوئن لیڈر تھی۔ بلاشک ذولفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کی تربیت ایسے ہی کی تھی۔ اس کے اندر اظہار کی جرات تھی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف اس کا موقف بہت سخت اور واضح تھا۔ یہی موقف اس کی موت کا سبب بن گیا۔ لعنت ہے ایسی حکومت پر جو ایک لیڈر کو سیکیورٹی بھی فراہم نہ کرسکی۔ یہ سب کچھ مشرف کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس ایک ہلاکت کے ردعمل میں کیا کیا فتنے سراٹھائیں‌گے ان کا تصور ہی لرزہ طاری کردیتا ہے۔ اب پیچھے رہ ہی کیا گیا ہے لوٹے اور چمچے۔
اللہ سائیں لواحقین کو صبر جمیل عطاء کرے اور مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام نصیب فرمائے۔ یاللہ ہمیں‌ استقامت اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطاء‌فرما۔ آمین

پیر، 24 دسمبر، 2007

ویکیا (Wikia) کے پرائیویٹ بی‌ٹا کا اجراء

ویکیا ایک اوپن سورس تلاش گر کا نام ہے۔ تلاش گری یعنی سرچ انجن کے میدان کا بادشاہ گوگل ہے۔ کبھی یاہو اور الٹا وسٹا کا نام بھی اسی ضمن میں بہت اونچا تھا آجکل لوگ ان کی طرف کم کم ہی جاتے ہیں۔ تلاش گری میں مائیکروسافٹ نے بھی ونڈوز لائیو سرچ کی صورت میں ٹانگ اڑائی ہوئی ہے لیکن گوگل کو ان پر واضح برتری حاصل ہے۔
ویکیا سرچ کا قیام شاید گوگل کی حاکمیت کو چیلنج ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسی لیے گوگل نے نول پراجیکٹ کے نام سے وکی پیڈیا کے مقابل ایک مجمع العلوم بنا ڈالا ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے یا نہیں یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اصل میں بتانا یہ تھا کہ ویکیا کے قیام کا اعلان ہوئے کوئی سال بھر ہونے کو ہے۔ اس کے بعد اب جاکر ویکیا کے بانی جمی ویلز نے ویکیا کے پرائیویٹ بی ٹا ورژن کے اجراء کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ویکیا کی ایک میلنگ لسٹ میں کیا گیا ہے تفصیل آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ ویکیا کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اس کی ویب سائٹ سے رجوع کیجیے۔ میں ویکیا کے لیے اپنے سسٹم کے کچھ ریسورسز دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں تاکہ یہ اوپن سورس پراجیکٹ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ قابل استعمال حالت میں آسکے۔

اتوار، 23 دسمبر، 2007

اردو کوڈر فورم اپگریڈ کے بعد

محمد علی مکی کو عربی اور عربوں سے روحانی قسم کی وابستگی ہے۔ چناچہ سافٹویرز کو عربی سے اردو کرنا ان کی اضافی خوبی ہے۔ اردو کوڈر کو بھی ایک عربی فورم پیکج پر اپگریڈ کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ساتھ عربی مترجم لائیں ۔۔۔سافٹویر کا اردو ترجمہ احتیاطًا کردیا گیا تھا۔ یہ فورم سافٹویر پی ایچ پی بی بی کی اولاد میں سے ہی لگتا ہے شاید اس کا کوئی کزن شزن ہے۔ یعنی تھوڑا سا مختلف ہے کچھ اختیارات زیادہ ہیں جیسے ذیلی فورم وغیرہ۔ چناچہ آپ بلاخطر تشریف لائیے اور ہمیں اس اپگریڈ کی خوبیوں اور خامیوں سے بھی آگاہ کیجیے۔ فورم کا ٹیپلیٹ ابھی ڈیفالٹ سا ہے اسے بدلنا ہے۔
وسلام

ہفتہ، 22 دسمبر، 2007

اردو کوڈر فورمز کی اپگریڈ

اردو کوڈر فورمز اپگریڈ کے سلسلے میں بند ہیں۔ محمد علی مکی آج اسے پی ایچ پی بی بی کے ایک ایکسٹرا پیکج پر اپگریڈ کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ آپ اور میں دونوں دیکھتے ہیں کہ کیا بنتا ہے یا تو اپگریڈ ہوجائے گا یا موج ہوجائے گی۔ ;)

جمعہ، 21 دسمبر، 2007

دوستوں سجنوں کو عید مبارک

عید کی نماز میں‌ ایک گھنٹے کے قریب وقت رہ گیا ہے اور میں اس وقت تمام دوستوں کو ایس ایم ایس کرنے بیٹھا ہوں‌۔ سوچا یہ پوسٹ بھی لکھ لی جائے۔
ّ

عید مبارک


خوش رہیے مسکراتے رہیے شاد آباد رہیے۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم آپ کی قربانی قبول کرے اور ہم سب پر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی رحمت رکھے۔
آمین

جمعرات، 20 دسمبر، 2007

گوگل ٹاک میں اب زبانوں کے مابین ترجمہ

اگرچہ یہ خبر اوپن سورس سے متعلق نہیں لیکن مجھے اتنی پسند آئی کہ اس کے بارے میں‌ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔
گوگل ٹرانسلیٹ‌ کی سہولت سے ایک زمانہ واقف ہے اور رزانہ لاکھوں‌ یا شاید کروڑوں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ اب تو گوگل نے عربی انگریزی ترجمے کی سہولت بھی دینی شروع کردی ہے۔ شاید کسی دن اردو انگریزی کی سہولت بھی میسر آجائے۔ خیر خبر یہ ہے کہ گوگل ٹرانسلیٹ‌ کی طرح ترجمہ کرنے کی یہ سہولت اب گوگل ٹاک میں‌ بھی دستیاب ہوگی۔ یعنی آپ انگریز ہیں اور آپ کا چیٹ‌ کرنے والا دوست چینی تو بھی آپ دونوں اپنی زبانوں یعنی انگریزی اور چینی میں ایک دوسرے سے گفتگو کرسکتے ہیں۔ کرنا صرف یہ ہے کہ آپ کو کنورسیشن میں‌ ترجمہ کرنے کے لیے ایک عدد گوگل بوٹ شامل کرنا ہوگا۔ جیسے انگریزی سے چینی میں ترجمے کے لیے یہ بوٹ شامل کرنا ہوگا:‌en2zh@bot.talk.google.com۔ اسی طرح چینی سے انگریزی میں ترجمے کے لیے بھی ایک عدد بوٹ شامل کرنا ہوگا۔ آپ کے چینی دوست کا پیغام انگریزی ترجمہ کرنے والے بوٹ‌ کے پاس جائے گا اور پھر چیٹ ونڈو میں آپ کو انگریزی میں ترجمہ ہوکر دکھائی دے گا۔ یہی حال انگریزی سے چینی ترجمہ کرنے والا بوٹ آپ کی انگریزی کا کرے گا۔ ونڈو ملاحظہ کیجیے۔ ترجمہ صرف انگریزی سے غیر انگریزی زبان میں نہیں بلکہ دو غیر انگریزی زبانوں‌ کے لیے بھی دستیاب ہوگا جیسے فرنچ اور ہسپانوی زبانیں‌ وغیرہ۔ زبانوں‌ کے ترجمے کے لیے متعلقہ بوٹس کے کوڈز یہاں‌‌ سے حاصل کریں۔

بدھ، 19 دسمبر، 2007

ہاہاہاہاہا

قدیر رانا انتہائی نامعقول اور مہزب‌ الاخلاق چیز ہے۔ ذرا س کے بلاگ کی یہ تصویر ملاحظہ فرمائیں۔
Free Image Hosting at www.ImageShack.us
اوپر دائیں کونے میں لکھے گئے انتباہ میں کس ڈھٹائی سے اپنے "خصوصی" کپڑوں کا ذکر کررہا ہے۔
:D :D :D :D :D :D :D
آپ بھی پڑھیں گے تو آپ کے ہنسی کے فوارے چھوٹ پڑیں گے۔
;)

مجلس سائنس

مجلس سائنس اردو فورمز میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ محمد سعد نے اس چوپال کو خالصتًا سائنسی موضوعات پر گفتگو و معلومات کے لیے بنایا ہے۔ اس سلسلے میں تھوڑا سا تعاون اردو کوڈر کا بھی ہے کہ ہم نے اپنے مسکین سے ہوسٹ پر انھیں ہوسٹنگ فراہم کی ہے۔ ابھی فورم پر آپ کو شاید ایک آدھ پوسٹ ہی نظر آئے لیکن امید ہے سعد کی محنت اور سائنس سے محبت رکھنے والوں کے تعاون سے یہ فورم بھی ہل چل والی محفل میں بدل جائے گا۔ ابھی فورم کا حلیہ بھی خاصا ڈیفالٹ سا ہے ذرا اس پر چہل پہل ہو تو ہم انشاءاللہ پی ایچ پی بی بی کے نئے تھیم اور بہتر سہولیات دینے والے موڈز بھی مہیا کردیں گے۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ اب عمومی انداز سے ہٹ کر مخصوص قسم کے فورمز بھی اردو میں بن رہے ہیں۔ اردو کوڈر پر بھی ہماری کوشش ہے کہ مقصد صرف اور صرف لینکس اور اوپن سورس ہی ہو لیکن ہمارے اراکین کا اصرار ہے کہ کچھ مزید زمرے بھی بنائے جائیں۔ ہم ان کی خواہشات کے احترام میں کچھ مزید فورمز تو بنا دیں گے لیکن بحیثیت انتظامیہ ہمارا فوکس لینکس اور اوپن سورس ہی ہوگا۔ اسی امید کے ساتھ کہ سعد بھی اپنے فورم کو پاکستان کا بہترین اردو سائنس فورم بنا دیں گے۔ اللہ انھیں مزید اچھا کام کرنے کی توفیق دے۔
اتنا سارا خطبہ سن لیا آپ نے اور مجلس سائنس کا وزٹ نہیں کیا۔ اب میں آپ کو کیا کہہ سکتا ہوں۔
:D

زبان:‌ کیا ہونا چاہیے اور کیا ہوتا ہے!!

لسانیات میں‌ ہمیں دو بہت ہی اہم تصورات سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر لسانیات اور خصوصًا اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics) میں زیادہ تر کام انگریزوں کا ہے یا ایسے لوگوں کا جو انگریز نہیں لیکن انگریزی بول سکتے ہیں اور انھوں نے یہ کام انگریزی کے نکتہ نظر سے کیا۔ اطلاقی لسانیات کی بات چلی تو بتاتا چلوں زبان کو سیکھانے کے سلسلے میں ہونے والے تمام اعمال اسی شعبے میں آتے ہیں۔ اچھا لینگوئج ٹیچر اطلاقی لسانیات پر گہری نظر رکھتا ہے اور اس میں ہونے والی پیشرفت سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے جیسے سکھانے کے نئے طریقے وغیرہ۔
واپس موضوع کی طرف آتے ہیں ان تصورات کی طرف۔ اٹھارہویں صدی یا اس سے پہلے انگریزی کے ماہرین لسانیات ایک چیز پر بڑی سختی سے اعتقاد رکھتے تھے اور وہ تھا کہ زبان کو "پابند" ہونا چاہیے۔ پابندی سے مراد یہاں یہ ہے کہ گرامر لکھتے وقت یہ بتایا جاتا کہ انگریزی ایسے لکھی اور بولی جائے نہ کہ کسی اور طرح۔ "معیاری" اور "غیر معیاری" زبان کے بارے میں‌ ان کا نظریہ یہ تھا کہ معیاری زبان وہ ہے جو ماہرین گرامر و لسانیات کے بیان کردہ قواعد کے مطابق لکھی اور بولی جاتی ہے۔ غیر معیاری سے مراد وہ زبان تھی جو عام لوگ بولتے تھے اور عمومًا ان قواعد سے ہٹ‌ کر۔ اب یہ قواعد کیا تھے؟ انگریزی کی "آبائی" زبانوں یعنی لاطینی، یونانی وغیرہ کے قوانین جو وہ اس پر بھی لاگو کرنے کی کوشش کرتے۔ اس نظریے کو Prescriptive Approach کے نام سے ہمیں پڑھایا جاتا ہے۔ یعنی زبان میں "کیا ہونا چاہیے"۔
وقت نے ان کے اِن نظریات کو غلط ثابت کیا اور آج ہم جانتے ہیں کہ زبان ایک دریا کی مانند ہے۔ جو وقت کے راستے پر بہتا چلا جاتا ہے۔ اس پر ہم بند نہیں باندھ سکتے۔ اگر باندھیں گے بھی تو یہ کسی اور طرف سے آگے جانے کا راستہ نکال لے گا۔ چناچہ زبان کو پرانے قواعد کا پابند کرنے کی بجائے ہمیں صرف موجودہ حالت کو "بیان" کرنا چاہیے۔ بجائے کہ ہم یہ بتائیں یہ ایسے نہیں ایسے ہونا چاہیے ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ اس زبان کے بولنے والے یہ چیز اس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اسے ہم Descriptive Approach کے نام سے جانتے ہیں۔
بیان کردینے کا مطلب یہ نہیں کہ زبان قواعد کی پابندیوں سے آزاد ہوگئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان زبانوں کے قواعد کی جان اب چھوڑ دی جائے جو کئی سو سال پہلے اس زبان کی آبائی یا مادری زبانوں میں موجود تھے۔ انگریزی اب ایک الگ زبان ہے چناچہ اس پر لاطینی اور یونانی زبان کے قواعد لاگو نہیں ہوسکتے۔ اگر انگریزی نے وہاں سے گرامر، ذخیرہ الفاظ اور آوازیں مستعار لی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان زبانوں کے تمام قواعد اس پر فٹ بیٹھیں گے۔
اصل میں اس سارے پس منظر کا مقصد اردو کے حوالے سے کچھ ایسی ہی گفتگو کرنا تھا۔ اردو کی آبائی زبانیں فارسی، عربی، قدیم ہندی یا ہندوی اور دوسری علاقائی زبانیں ہیں۔ اردو جب ظہور پذیر ہورہی تھی تو اس نے بہت سی چیزیں عربی، فارسی اور سنسکرت وغیرہ سے لیں۔ لیکن آج چار سو سال کے بعد اردو کی اپنی ایک شناخت ہے۔ اس کا اپنا ذخیرہ الفاظ، الفاظ بنانے اور ملانے کی تراکیب، گرامر اور آوازیں ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ یا سب ہی کسی دوسری زبان جیسے عربی یا فارسی سے اخذ کردہ ہیں تو کیا ہوا؟ اردو کی ہر چیز اپنے اندر مکمل ہے اور اس کے صارفین کی ضروریات کو بہ احسن پورا کرتی ہے۔
اکثر احباب قواعد کی غلطیوں کو عربی، فارسی اور ہندی تک لے جاتے ہیں۔ چند دن ہوئے محفل پر املاء کی درستگی کے دھاگے میں کسی دوست نے بات کی کہ "لاپرواہ" نہیں‌ بے پرواہ ہونا چاہیے۔ چونکہ لا عربی سے ہے اور عربی میں‌ پ کی آواز کی نہیں ہوتی اس لیے لاپرواہ کی بجائے بے پرواہ ہونا جاہیے۔ اسی طرح کبھی سکول میں غلط درست محاورے وغیرہ رٹا لگایا کرتے تھے وہ وہاں‌ بھی کچھ اس قسم کے قواعد بتائے جاتے تھے کہ فلاں‌ فارسی سے اور فلاں ہندی سے چناچہ ان کو ملانا درست نہیں۔
میرا اس معاملے میں استدلال یہ ہے کہ یہ اردو ہے اور اس میں ہمارے پاس یہ قواعد موجود ہیں کہ ہم کسی سابقے یا لاحقے کو دوسرے لفظ سے مرکب کرکے نئی ترکیب تشکیل دے سکتے ہیں قطع نظر اس بات کے کہ اس لفظ‌ کا ماخذ‌ عربی، فارسی یا ہندی ہے۔ ان میں یہ لفظ یقینًا اس طرح استعمال نہیں‌ ہوتا ہوگا اور نوے فیصد یہ چانس ہے کہ یہ لفظ‌ سرے سے اس شکل میں موجود ہی نہیں‌ ہوگا۔
زبان میں تبدیلی آرہی ہے آپ اسے غلط جانیں یا صحیح۔ املاء میں بہت تیزی کے ساتھ بولی کے حساب سے لکھنے کا رواج فروغ پا رہا ہے ۔ مختلف حروف کی آوازیں آپس میں بہت تیزی سے گڈ‌ مڈ‌ہورہی ہیں اور میں نے جہاں تک دیکھا ہے ذ اور ز کی املاء‌کی غلطیاں اب بہت سامنے آرہی ہیں۔
جاتے جاتے ایک تصویر دیکھیے آپ کو یقین آجائے گا کہ زبان بدلتی ہے۔

آپ اسے برا جانیں یا اچھا لیکن یہ حقیقت ہے۔ میرے گھر کے قریب ہی ایک ریسٹوران کا بورڈ ہے یہ۔ ال عربی کا آرٹیکل ہے جیسے انگریزی میں‌دی ہوتا ہے۔ ال کسی نام کے ساتھ لگا کر اسے خاص بنا دیا جاتا ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ یہ ترکیب صرف عربی نژاد الفاظ یا اسماء کے ساتھ ہی آسکتی ہے لیکن صارفین ثابت کررہے ہیں کہ وہ عربی تھی یہ اردو ہے۔ میں اسے غلط ٹھیک نہیں‌کہہ رہا صرف بیان کررہا ہوں کہ "ایسے ہوتا ہے"۔
ذرا سوچئیے اور غور کیجیے آپ کے اردگرد زبان میں کس کس طرح تبدیلیاں آرہی ہیں اور زبردستی آرہی ہیں۔

اتوار، 16 دسمبر، 2007

میں 16 دسمبر 1971 کا نوحہ کہوں یا اپنے حال کا؟

آج سولہ دسمبر ہے۔ اہل دل اور اہل وطن یقینًا خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارا بازو کٹ کر جدا ہوگیا۔ لیکن میں جو ایک عام آدمی ہوں اس پر کیا کہوں؟
کیا لکھوں؟
میرا حال یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی ملنی مشکل ہوگئی ہے۔ سارا سارا دن یوٹیلٹی سٹور پر لائن میں کھڑے ہو کر چار کلو گھی اور ایک تھیلا آٹے کا ملتا ہے۔ ساتھ میں یوٹیلیٹی سٹور والا اور خریداری کے بغیر گھی اور آٹا بھی نہیں دیتا۔ کہتا ہے ہم نے یہ کہاں بیچنا ہے۔
ہر تین گھنٹے بعد بجلی بند ہوجاتی ہے۔ یہ آنکھ مچولی سارا دن جاری رہتی ہے میں کاروبار کیا خاک کروں؟
میرے ملک کے حکمران اس بات پر سراپا فخر و غرور ہیں کہ ایک کروڑ عوام کے پاس موبائل ہیں۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی ریل پیل ہوچکی ہے اور خزانہ بھرا ہوا ہے۔ کیا یہ موبائل فون، یہ کاریں اور موٹر سائیکل مجھے دو وقت کی روٹی دے سکتے ہیں؟
مجھے کھانے کو نہ ملے تو کیا ان موبائل فونوں کو ہی چبانا شروع کردوں؟
میں کس بات کا نوحہ پڑھوں؟
اپنے اور اپنے خاندان کے فاقہ زدہ اور محروم چہروں کا یا چھتیس سال پہلے کا؟
کوئی بتائے مجھے میں کس کی نوحہ خوانی کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 15 دسمبر، 2007

مونو (Mono) میری نظر سے

منگوئل ڈی اکازا صاحب جن کی جوہر شناس نظروں نے ڈاٹ نیٹ کے ابتدائی دور سے ہی بروا کے چکنے چکنے پات پہچان لیے تھے۔ اسی دوران انھوں میں سی شارپ میں بطور مشق سی شارپ کا ہی ایک عدد کمپائلر لکھا۔ کمپائلر وہ سافٹویر ہوتا ہے جو ہائی لیول لینگوئج جیسے جاوا، سی شارپ وغیرہ کو مشین کوڈ یعنی صفر ایک کے "قابل پڑھائی" کوڈ میں بدلتا ہے تاکہ کمپیوٹر اسے سمجھ سکے اور اس پر عمل بھی کرسکے۔ زیمین وہ کمپنی تھی جس میں یہ صاحب کام کررہے تھے۔ زیمین ایک مرحوم کمپنی ہے جو لینکس اور یونکس کے لیے آزاد سافٹویر بنانے میں خاصی مشہور تھی بعد میں اسے نووِل نے خرید لیا اور آج کل اس کے ڈویلپرز نووِل کے انڈر ہی کام کررہے ہیں۔ سو بات یہاں پہنچی کی زیمین کو بھی منگوئل صاحب کا آئیڈیا پسند آٰیا اور انھوں نے ڈویلپرز کی اکھاڑ پچھاڑ کرکے ایک عدد پراجیکٹ تشکیل دے ڈالا جس کا نام مونو رکھا گیا۔ اس کے بارے میں پہلا اعلان مورخہ 19 جولائی 2001 کو ایک کانفرنس میں کیا گیا۔Mono
مونو کا پہلا ورژن تین سال کی محنت کے بعد 30 جون 2004 میں جاری کیا گیا جسے مونو 1.0 کہا جاتا ہے۔
مونو کا نشان ایک بندر ہے۔ ہسپانوی میں مونو بندر کو کہتے ہیں۔
مونو مائیکرو سافٹ ڈاٹ نیٹ فریم ورک کا آزاد مصدر متبادل ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ڈاٹ نیٹ کو لینکس ،یونکس، بی ایس ڈی اور میک تک پھیلایا جائے۔ مائیکرو سافٹ کے ایک بیان کے مطابق وہ تحقیق و تلاش کے سلسلے میں مختص اپنے وسائل کا اسی فیصد ڈاٹ نیٹ پر خرچ کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاٹ نیٹ فریم ورک بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے اور اس میں شامل زبانوں کا ڈھیر ہی لگتا جارہا ہے۔ ڈاٹ نیٹ فریم ورک ایک پھر دو، تین اور اب 3.5 موجود ہے۔ اس رفتار کا مقابلہ کرنا مونو جیسے پراجیکٹ کے لیے شاید ممکن بھی نہیں۔ تاہم اس وقت مونو کی صورت حال یہ ہے کہ اس کے تازہ ترین ورژن 1.2.6 بتاریخ 12 دسمبر 2007 میں سی شارپ 2 اور وژوئل بیسک ڈاٹ نیٹ مع سی شارپ 3 کی جزوی سپورٹ موجود ہے۔ ونڈوز ڈاٹ فارمز اور دوسری اے پی آئیز کی سپورٹ ابھی تک مکمل نہیں ہے۔ ڈاٹ نیٹ فریم ورک 3 کی سپورٹ تجرباتی ورژن بنام اولیو تلے ارتقائی مراحل میں ہے تاہم ابھی اس کو جاری کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
میں تکنیکی باتوں میں جانے سے قاصر ہوں چونکہ اتنا علم میرے پاس نہیں کہ اس کی وضاحت کرسکوں۔ مونو کی تاریخ کے سلسلے میں معلومات انگریزی وکی پیڈیا اور اس کی آفیشل سائٹ سے لی گئی ہیں۔ میں اس کے دوسرے پہلوؤں پر کچھ گفتگو کرنا چاہوں گا۔
مونو مائیکرو سافٹ کے ملکیتی مال کی اوپن سورس نقل ہے۔ اور اس میں مائیکرو سافٹ کی ہی پینٹنٹ شدہ کچھ ٹیکنالوجیز بھی استعمال کی جارہی ہیں۔ اے ایس پی۔ نیٹ، اڈو۔ نیٹ اور ونڈوز فارمز نامی کئی حصے ایسے ہیں جو مونو میں اس لیے شامل ہیں تاکہ اسے ونڈوز کے ساتھ مشابہہ رکھا جاسکے۔ لیکن ان کی بنیاد پر مائیکرو سافٹ مونو پر مقدمہ بھی کرسکتا ہے۔ مونو کا سب سے بڑا سپانسر نوویل ہے۔ نوویل اوپن سورس حلقوں میں ایک متنازعہ کمپنی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ ریڈ ہیٹ کی طرح یہ سوسی لینکس انٹر پرائز ایڈیشن کے نام سے ایک لینکس او ایس تیار کرتی ہے۔ سوسی لینکس کا ایک عدد کمیونٹی ورژن بھی ہے جو اوپن سورس کے عمومی فلسفے کے تحت مل جل کر تیار اور جاری کیا جاتا ہے۔ نوویل مائیکرو سافٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو برا نہیں سمجھتی۔ اس سلسلے میں اس نے مائیکرو سافٹ سے کئی ایک معاہدے بھی کررکھے ہیں جیسے لینکس اور ونڈوز سرورز کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا معاہدہ۔۔اس کے ساتھ مائیکرو سافٹ کئی کمپنیوں کے ساتھ ایک دوسرے پر پیٹنٹ مقدمات نہ کرنے کے معاہدے بھی کرچکی ہے جس میں نوویل بھی شامل ہے۔
اوپن سورس والوں کو اعتراض اس بات پر ہے کہ مائیکرو سافٹ پر اعتبار کیونکر کیا جائے۔ پچھلے بیس سالوں میں م س نے جب چاہا اپنے معیارات بدل ڈالے، اس کے معاہدوں کا اعتبار نہیں اور اسے صرف اپنی اجارہ داری قائم رکھنے سے غرض ہے تو ڈاٹ نیٹ کو اوپن سورس میں کیوں قبول کیا جائے۔ اوپن سورس کا یہ اعتراض کہ کل کو اگر م س نے اپنے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مونو پر مقدمہ کردیا تو یہ پراجیکٹ تو ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا۔ نیز مونو صرف اور صرف ڈاٹ نیٹ کی نقل ہے چناچہ م س جب چاہے اپنے معیارات آئندہ آنے والے ورژنوں میں بدل کر مونو کی ساری ترقی کا بیڑہ غرق کرسکتا ہے۔
لیکن بعض لوگ مونو کے سلسلے میں بہت پرامید ہیں۔ بلاشبہ م س نے ڈاٹ نیٹ میں اب تک کی تمام اہم زبانوں کی خوبیاں سمو دی ہیں۔ سی، سی پلس پلس اور جاوا کے بہترین فیچرز سی شارپ میں موجود ہیں۔ سب سے اہم بات ڈاٹ نیٹ کا جاوا کے بائٹ کوڈ کی طرح کا طرز عمل ہے۔ ڈاٹ نیٹ کی درجن بھر سے زیادہ زبانیں پہلے ایک انٹرمیڈیٹ لینگوئج میں ترجمہ ہوتی ہیں جہاں سے اس کو ڈاٹ نیٹ فریم ورک مشین کوڈ میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ خوبی ان تمام زبانوں کے کوڈ کو ایک دوسرے کی کلاسز استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جاوا میں یہی کام جاوا رن ٹائم انوائرمنٹ کرتا ہے لیکن اس میں صرف جاوا کا بائٹ کوڈ ہوتا ہے جو کہ پلیٹ فارم کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ ڈاٹ نیٹ میں کوڈ نہ صرف پلیٹ فارم کی قید سے آزاد ہے بلکہ جاوا کی طرح صرف جاوا میں لکھنے کی قید نہیں۔ آپ سی شارپ استعمال کرسکتے ہیں، وی بی ڈاٹ نیٹ اپنی پیشرو وی بی 6 سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے اسے آزمائیں۔ جاوا شارپ موجود ہے جو جاوا کو ڈاٹ نیٹ سے ملاتی ہے۔ پائتھون کے لیے بھی آئرن پائتھون کے نام سے ایک زبان موجود ہے۔
پچھلے چھ سال سے مونو لینکس یونکس مارکیٹ میں پہچانا جارہا ہے اور 3 سال سے اس کے مستحکم ورژن مارکیٹ میں موجود ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوگ اب بھی مونو کا نام ہی کیوں جانتے ہیں؟ اس سلسلے میں کئی قسم کی رکاوٹیں موجود ہیں۔ مونو کو اوپن سورس برادری کا اعتبار شاید ابھی مکمل طرح سے حاصل نہیں ہوسکا۔ اس میں کچھ بگز بھی موجود ہیں۔ بیگل ایک ڈیسکٹاپ تلاش گر ہے لیکن اکثر اوقات جب یہ چلے تو میموری لیک ہونے کی شکایت کی جاتی ہے۔ یعنی آپ کا سسٹم یکلخت کی میموری کے قحط میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پچھلے دنوں میں نے ایک مونو میں بنا ہوا فائل مینجر اتارا۔ یہ چند کلو بائٹس کا ڈیبین پیکج تھا۔ لیکن جب میں نے اسے اپنے کبنٹو سسٹم پر انسٹال کرنے کےلیے چلایا تو موصوف نے مجھے 73 پیکجز کی ڈیپنڈنسی لسٹ پکڑا دی۔ لینکس میں ڈیپنڈنسی سے مراد وہ سافٹویرز یا پیکجز ہوتے ہیں جو پروگرام چلنے کے لیے مطلوبہ سپورٹ و ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ان پیکجز میں مونو کے پیکج بھی شامل تھے۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ مونو کو ابھی تک ڈسٹروز میں آفیشلی شامل نہیں کیا گیا۔ چاہیے تو یہ کہ اسے ڈسٹرو کی انسٹالیشن سی ڈی میں شامل کیا جائے نا کہ متعلقہ پروگرام کی تنصیب کے وقت صارف کو اسے اتارنا پڑے۔
مونو میں ابھی تک تجارتی استعمال کے لیے کوئی خاص اطلاقیہ سوائے آئی فولڈر کے نہیں لکھا جاسکا۔ البتہ ڈیسک ٹاپ کے لیے کافی اطلاقیے یعنی ایپلی کیشنز لکھی جاچکی ہیں۔ جو خاصے مقبول بھی ہوئے ہیں۔ کچھ دن ہوئے میں نے پالڈو کے بارے میں سنا جس کا پیکجنگ سسٹم یو پیکج نامی ایک نظام پر مشتمل ہے جو مونو اور ایکس ایم ایل کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ کئی ایک اطلاقیے اور پروجیکٹس ایسے ہیں جن میں مونو کا استعمال جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ ان میں وکی پیڈیا بھی شامل ہے جو اپنے تلاش کے نظام کے لیے مونو کی بنیاد پر بنے ہوئے اطلاقیوں سے کام لیتا ہے۔
مونو ابھی اتنا مقبول نہیں جتنا ڈاٹ نیٹ ہوچکا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر بننے والے اطلاقیے اب منظر عام پر آرہے ہیں۔ مونو کا مستقبل بلاشبہ روشن ہے۔ اس پراجیکٹ نے مجھے متوجہ کیا کہ میں ڈاٹ نیٹ سیکھوں۔ پچھلے کچھ دن سے میں اس سلسلے میں کچھ کام کررہا ہوں۔ مونو کو بنیاد بنا کر شاید میں سی شارپ یا وی بی ڈاٹ نیٹ نہ سیکھ سکوں لیکن سیکھنے کے بعد میں مونو میں پروگرامز لکھنا پسند کروں گا۔ آپ بھی اسے ٹرائی کیجیے اور یقین کریں آپ مایوس نہیں ہونگے۔

جمعرات، 13 دسمبر، 2007

چین میں‌ لینکس مارکیٹ

چین میں 2003 سے 2006 کے دوران لینکس کی مارکیٹ بیس ملین ڈالر کے حساب سے بڑھی ہے۔ اگر اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو لینکس ڈیکسٹاپ سافٹویر کی مارکیٹ سولہ فیصد سے بارہ فیصد پر آچکی ہے۔ لیکن سی سڈ کنسلٹنگ کے مطابق اس سال کی تیسری سہ ماہی میں لینکس ڈیسکٹاپ سافٹویر کی فروخت 25.1 فیصد بڑھی ہے۔
چینی حکومت کی سافٹویر قذاقی کے خلاف مہم نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں دو قانون پاس کیے تھے جن کے مطابق حکومتی ادارے اور مقامی حکومتیں چوری شدہ ملکیتی سافٹویرز کی جگہ اب کم قیمت لینکس سافٹویر استعمال کررہی ہیں۔ حکومت نے کم قیمت لینکس ڈیسکٹاپ پر اپنا خرچ بھی بڑھا دیا ہے۔ پچھلے سال یہ مہم صرف بڑے شہروں اور وہاں کی مقامی حکومتوں تک محدود تھی لیکن اب یہ گاؤں اور قصبوں تک پھیل گئی ہے۔ اس وقت حکومت لینکس سافٹویر مارکیٹ کے ایک چوتھائی کی خریدار ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ چین کے اپنے بنائے گئے ریڈ فلیگ لینکس کا ہے۔
انڈسٹری کے صارفین جیسے ہوٹل، لاٹری سیلر اور ٹیلی مواصلاتی کمپنیوں نے بھی اس سال لینکس ڈیسکٹاپ کے سلسلے میں اپنے فنڈز کو بڑھا دیا ہے۔سی سی ڈبلیو ریسرچ کے مطابق چین کی ہوٹل انڈسٹری کے آنلائن کاروبار نے اس سال 30 فیصد سے زیادہ ترقی کی ہے جس نے یہاں کمپیوٹرز اور سستے لینکس سافٹویرز کی کھپت کو بڑھا دیا ہے۔
چین میں اکثر کمپیوٹرز لینکس کی تنصیب کے ساتھ فروخت کئے جارہے ہیں جن کی وجہ سے لینکس کا مارکیٹ میں حصہ مزید بڑھ جائے گا۔ لیکن اس سارے عمل کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ صارفین کمپیوٹر خریدنے کے بعد لینکس کو اڑا کر ونڈوز کا چوری شدہ ورژن نصب کرلیتے ہیں۔ کمپیوٹر فروخت کرنے والے بھی صارفین کو لینکس اڑا کر ونڈوز کا چوری شدہ ورژن انسٹال کردیتے ہیں۔ دوسری طرف مائیکروسافٹ نے بھی ونڈوز کی قمیتیں چین میں بہت کم کردی ہیں جو قریبًا لینکس کمپنیوں کی سروس فیس کے برابر ہیں۔ چناچہ لوگ ونڈوز کو استعمال کرنا زیادہ پسند کررہے ہیں۔ تاہم یہ لینکس کی فتح ہے کہ مائیکروسافٹ کو اپنی پراڈکٹس کی قمیتیں کم کرنا پڑی ہیں۔

اتوار، 9 دسمبر، 2007

مونو(Mono): مونو کے ساتھ میں؟ چہ معنی دارد

بندہ کس کو دوش دے۔ اردو محفل کے لوگوں کو جنھوں نے میرا اتنا دماغ خراب کردیا کہ میرے جیسا سیدھا سادھا بندہ جو زیادہ زیادہ ایم بی اے کرکے کسی فرم میں چھوٹے موٹے عہدے پر لگ جاتا، کچھ سال بعد ٹنڈ ہوجاتی اور صاحب توند ہوجاتا۔ ایک بیوی مع چند بچوں کے معرض وجود میں آجاتی اور پھر فوت ہوجاتا۔ چند ایک لوگ جانتے کہ فلانا تھا اور چنگا تھا فوت ہوگیا۔
2005 کی بات ہے شاید ستمبر تھا جب پہلی بار میں اردو محفل پر آیا۔ اس کے بعد جو میں نے یہ پنگا اور وہ پنگا یعنی پنگا در پنگا لینا شروع کیے۔ کبھی ورڈپریس کا ترجمہ، پھر بلاگنگ کی شروعات۔ اس کے بعد ورڈپریس پر بلاگنگ۔ فری ہوسٹس کے چکر۔ پھر لینکس کا بھوت سوا ہوا۔ لینکس چلائی، اڑائی پھر چلائی پھر اڑائی، کبھی اوپن آفس کی لغت بنائی۔ ان دوسالوں نے مجھے بدل دیا۔ میں جو ایک بی "کامی" کمین تھا میرا دن میں آدھے سے زیادہ وقت اس موئے نیٹ پر گزرنے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ میرا بی کام کے بعد ایم کام میں ایڈمیشن نہ ہوسکا اور اگلے چھ ماہ میں نے ٹیوشنز پڑھا کر اور انٹرنیٹ گردی میں گزارے۔ پھر ۔۔۔پھر یہ ہوا کہ مجھے دو فرشتے مل گئے۔ یہ میرے اساتذہ تھے سر عاصم اور سر راشد۔۔۔پی ایچ ڈی کی ریسرچ کررہے تھے اور موضوع تھا پاکستانی انگلش۔۔۔انھیں ایک بندہ چاہیے تھا جو ڈیٹا کی پروسیسنگ کا کام کرسکے۔ میں ویلا تھا سو میں نے حامی بھر لی۔ کہتے ہیں جی جو قسمت میں ہو مل ہی جاتا ہے جانا کدھر تھا اور آکدھر گیا۔ انھوں نے اوپن آفس کے لیے اردو ورڈ لسٹ کی شمولیت کے بارے میں جانا اور جب یہ پتا چلا کہ اس کی تیاری میں کچھ کوشش میری بھی شامل ہے تو مجھے لسانیات کی طرف آنے کا مشورہ دے دیا۔ اور میں تو جیسے تیار بیٹھا تھا۔ گھر مشورہ کیا دو ایک دن سوچا اور اللہ تیری یاری فیس جمع کروا دی۔ ایسا نہ ہوتا تو میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم بی اے کررہا ہوتا۔
اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ دنیا کتھے وسدی ہے۔ ان کا شعبہ کارپس لسانیات تھا۔ انھوں نے تجزیے وغیرہ کے لیے کوئی بیس لاکھ الفاظ پاکستانی انگریزی کے اکٹھے کئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستانی انگریزی کو بطور ایک ورائٹی تسلیم کروایا جائے۔ کارپس لنگوئسٹکس اور کمپیوٹیشنل لنگوئسٹکس میں بس تھوڑا سا فرق ہے۔ کارپس والے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں مختلف سافٹویر اور ٹول درکار ہوتے ہیں۔ ان سافٹویرز اور ٹولز کو بنانا ایک پروگرامر مع لنگوئسٹ کا کام ہے۔ یعنی جو ہر دو شعبوں میں مہارت رکھتا ہو۔ عمومًا ایسے لوگ بڑے "گوڑھے" پروگرامر ہوتے ہیں۔ ایپلی کیشن بنانا خالہ جی کا واڑہ نہیں۔ اور وہ بھی جس میں بہت ہی خاص قسم کی پروسیسنگ اور معیار و نتائج درکار ہوتے ہیں۔
میرے اساتذہ اس معاملے میں بالکل کورے تھے۔ چناچہ جب پاکستانی انگریزی کو پروسیس کرنے کا مرحلہ آیا تو اول تو درکار سافٹویرز دستیاب ہی نہ تھے جو دستیاب تھے ان کے استعمال کا پتا نہ تھا۔ نیز پاکستانی انگریزی کی "گھنڈیاں" ان سے سلجھائی ہی نہ جاسکتی تھیں۔ ( آپ کے لیے شاید انگریزی انگریزی ہی ہو جیسے سارے چینی اور جاپانی اور کورین ایک جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہی ہر ملک کی انگریزی بس انگریزی ہے۔ لیکن اہل فن و علم جانتے ہیں کہ زبان میں کس کس لیول پر کس طرح کے تغیرات ہوسکتے ہیں اور ان کی بنیاد پر زبان کی مزید ذیلی اقسام کیسے بن جاتی ہیں۔ سادہ سی مثال وکلاء اور ججوں کی انگریزی ہے جو وہ فیصلوں میں لکھتے ہیں یا بائبل اور قرآن کے انگریزی تراجم جن کے الفاظ ہی عام مروج زبان سے مختلف اور بڑے روایتی قسم کے ہوتے ہیں) یہاں آکر مجھے پتا چلا کہ میں نے اگر لسانیات میں کچھ کرنا ہے تو مجھے پروگرامر بننا پڑے گا۔ کم از کم اتنا کہ لینکس میں بیٹھ کر دو چار سکرپٹس لکھ سکوں یا پہلے سے موجود پروگرامز میں کچھ تبدیلی کرسکوں جو میرے مقصد کے تحت کام آسکیں۔ شاید زندگی میں پہلی بار میں نے اس فیلڈ میں سوچ سمجھ کر قدم رکھا ہے۔ اور ساری کشتیاں جلا کر اس سپین میں داخل ہوا ہوں۔ اب میرے سامنے لسانیات کی وسیع و عریض دنیا ہے اور پیچھے مڑا تو شاید پتھر کا ہی ہوجاؤں۔ میرا مقصد یہ بھی تھا کہ اردو زبان کے لیے کچھ کام کیا جائے۔ گرامر پر کام کرنا ایک تو مجھے پسند ہے دوسرے اردو کی گرامر پر ابھی تک کوئی خاص کام نہیں ہوسکا اگرچہ اس پر کچھ محققین مختلف جگہوں پر کام کررہے ہیں لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کرلپ لاہور میں بہت قابل قدر کام ہورہا ہے اور اگر زندگی رہی اور جذبہ بھی رہا تو ڈاکٹر سرمد حسین سے بھی ضرور رہنمائی لوں گا۔ ان سب مقاصد کو مدنظر رکھ کر میری منزل یہ ہے کہ لسانیات میں ایم ایس سی تو کرنا ہی ہے ساتھ کوئی پروگرامنگ کورس وغیرہ بھی کروں۔ ایک عرصے سے اس سلسلے میں متجسس تھا۔ کل رات بھی سر سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو پھر واپس آکر کافی دیر مونو اور ڈاٹ نیٹ کے بارے میں تحقیق کی۔
کمپیوٹنگ فورمز، اردو محفل پر جو وقت گزرا اس سے یہ پتا چلا کہ ڈاٹ نیٹ اس وقت آسان ترین لینگوئج ہے جس میں پروگرامنگ کی جاسکتی ہے۔ لینکس میرا شوق ہے اور ونڈوز میری مجبوری۔ چناچہ مونو کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ اس کی وجہ سے ونڈوز کی ایپلیکیشنز لینکس پر چلائی جاسکیں گی۔ اگرچہ ابھی پروگرامنگ کی دنیا میں میرے دودھ کے دانت بھی نہیں آئے اور مجھے پروگرامنگ کی الف بے کا بھی پتا نہیں سوائے وی بی سکس کے ان اسباق کے جو میں نے چھ سال پہلے میٹرک کرنے کے بعد کمپیوٹر پر اپنی ابتدائی کورس کے ساتھ دو تین ماہ ایویں مذاق ہی مذاق میں پڑھے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ بنیادی تصورات سیکھنے کے بعد مجھے ڈاٹ نیٹ کو ہی سیکھنا ہوگا اور اسی لیے میں نے مونو کے بارے میں رات تفصیلًا تحقیق کی۔ اور وہ تحقیق کیا تھی یہ اگلی کسی قسط میں ملاحظہ کیجیے۔ آپ کا شکریہ آپ نےاتنی دیر تک میری میں میں برداشت کی۔

مونو (Mono) لینکس میں ڈاٹ نیٹ ٹیکنالوجی کا پلیٹ فارم

اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہیں بلکہ بج گئے ہیں اور پچھلے تین گھنٹوں‌ سے میں مونو کے بارے میں کئی ویب پیج اور آرٹیکلز کھنگال چکا ہوں‌۔ اس وقت میرا دماغ بقول محمد علی مکی لسی کے ساتھ ساتھ شاید کچی لسی ہورہا ہے۔ کل بروز اتوار اس پر اپنے مطالعے کے نتائج لکھوں گا مع ان "تکالیف" کے جن کی وجہ سے میرے ذہن پر اس کے بارے میں جاننے کا بھوت سوار ہوا۔
(اردو بلاگرز سے معذرت کے ساتھ باوجود کوشش کے میں‌ اس وقت کے ہاٹ ٹاپک یعنی عورتوں کو گھورنا شورنا پر لکھنے کا موڈ نہیں بنا سکا۔ لکھتا کیا کہنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔)

جمعہ، 7 دسمبر، 2007

ایران کا سپر کمپیوٹر اور اے ایم ڈی

کمپیوٹر ورلڈ کی ایک خبر کے مطابق ایرانیوں نے اپنے ایک تحقیقاتی مرکز میں چھوٹا موٹا کلسٹر کمپیوٹر بنا لیا ہے۔ گیگا فلوپس کی حد میں آنے والا یہ سپر کمپیوٹر بقول ایرانیوں کے اے ایم ڈی کے آپٹرون پروسیسرز کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جس میں آپریٹنگ سسٹم کے طور پر لینکس کو استعمال کیا گیا ہے۔ ایرانی بھی عجیب لوگ ہیں اب امریکہ بہادر میں پسوڑی پڑی ہوئی ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کو امریکی کمپنی نے کس طرح ٹیکنالوجی مہیا کردی۔ ادھر اے ایم ڈی حریان و پریشان ہے کہ میرے نال بنی کی۔۔۔
ایران والے ویسے بھی پراپیگنڈے میں خاصے ماہر ہیں اور میزائل، جنگی کشتیاں اور اب جنگی طیارے بھی اپنے ہاں ہی "بنا" رہے ہیں۔ اب رب جانے یا ایران والے جانیں کہ یہ بھی ایران کے پروپیگنڈے کا ہی حصہ ہے یا سچ مچ میں کچھ کام ہوا ہے۔ کمپیوٹر ورلڈ والوں کو کچھ کچھ شک ہوا ہے کہ شاید ایران کے اس تحقیاتی مرکز کی فوٹو گیلری میں موجود تصویریں یو اے ای کی طرف کوئی اشارہ کررہی ہیں۔
ہمیں بہرحال خوشی ہے کہ ایران نے مغرب کو پسوڑی پائی ہوئی ہے۔ اور دعا ہے کہ یہ خبر سچ ہی ہو۔ ان کے مطابق اسے موسمیاتی پیش گوئیوں وغیرہ میں استعمال کیا جائے گا۔

سورس فورج مارکیٹ‌ پلیس

سورس فورج کو انٹرنیٹ کی بڑی ویب سائٹوں میں شمار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کے ایک دعوے کے مطابق اس وقت قریبًا سترہ لاکھ صارفین ان کے پاس مندرج ہیں۔ سورس فورج کی بنیادی خاصیت اس کی وہ خدمات ہیں جو یہ اوپن سورس پراجیکٹس کی ہوسٹنگ کی صورت میں فراہم کرتی ہے۔ سورس فورج پر ان کے بقول اس وقت ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد پراجیکٹس رجسٹر ہیں۔
اس سال مئی سے سورس فورج ایک بی ٹا سروس چلا رہی تھی۔ کبھی آپ سورس فورج پر گئے ہوں تو کسی بھی پراجیکٹ سے فائل اتارنے والے صفحے پر Get Support For xxx کا آئکن بھی نظر آتا ہوگا۔ میں بھی ایک عرصے تک اس بارے میں حیران ہوتا رہا ہوں۔ بہرحال اب سورس فورج نے اس سروس کو آزمائشی بنیادوں سے نکال کر آفیشلی جاری کردیا ہے۔ اسے سورس فورج مارکیٹ پلیس کا نام دیا گیا ہے۔ اس نئے چہرے و انداز کی بدولت سورس فورج اب اوپن سورس سافٹویرز کی مفت میں میزبانی کے ساتھ ساتھ ان کی خرید و فروخت میں بھی حصہ لےگا اور گاہک و پروفیشنل میں رابطے کا ذریعہ بنے گا۔ اس وقت مارکیٹ پلیس پر رجسٹرڈ پراجیکٹس کی تعداد 700 کے قریب ہے جس میں بہت تیزی سے بڑھوتری کی توقع کی جارہی ہے۔

بدھ، 5 دسمبر، 2007

سی این آر کا اجراء

لِن سپائر اور فری سپائر کے ڈویلپرز لِن سپائر کارپوریشن نے سی این آر ڈاٹ کوم کا بی ٹا ورژن جاری کردیا ہے۔ یہ ویب 2 پر مشتمل سافٹویر ڈیلیوری سروس ہے جو دنیا بھر کے لینکس صارفین کے لیے جاری کی گئی ہے۔ اس سروس کا مقصد ڈیبین اور آر پی ایم بیسڈ لینکس سسٹمز کے لیے سافٹویر کا حصول اور ان کی تنصیب آسان بنانا ہے۔ سی این آر کا یہ نیا اور مفت ورژن فی الحال فری سپائر 2، لِن سپائر 6، اوبنٹو 7.04 اور 7.10 کے لیے دستیاب ہے۔ جلد ہی اس کی معاونت مقبول لینکس ڈسٹروز کے لیے بھی جاری کردی جائے گی جیسے ڈیبین، فیڈورا، سوسی وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے سی این آر لِن سپائر کی کمرشل سافٹویر سروس تھی۔ لیکن فری سپائر کے اجراء کے بعد انھوں نے اسے فری سپائر میں بھی متعارف کروایا۔ اس سروس کو استعمال کرنے کے لیے ایک سافٹویر بنام سی این آر کلائنٹ فری سپائر کے ورژن 1.0 میں موجود تھا۔ لِن سپائر نے وعدہ کیا تھا کہ اس ملکیتی مال کی جگہ سی این آر کا آزاد مصدر اور مفت ورژن ڈویلپ کیا جائے گا۔ یہ اعلان اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ فری سپائر 2 سے اسے اوبنٹو بیسڈ کردیا گیا ہے۔ یعنی لِن سپائر اوبنٹو کو لے کر اس کے مواجے میں کچھ تبدیلیاں کرکے(فری سپائر کا طےشدہ ڈیسکٹاپ مواجہ کیڈی پر مشتمل ہے) اور کلوزڈ سورس ڈرائیورز و پلگ انز ڈال کر اسے فری سپائر کے نام سے جاری کرتا ہے۔ لِن سپائر نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ سی این آر اوبنٹو کے لیے جلد ہی دستیاب ہوگا اور اب اسے سب سے پہلے اوبنٹو کے لیے ہی جاری کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعد میں دوسری ڈسٹروز کے لیے بھی جاری کردیا جائے گا۔ ایک عام صارف کے لیے لینکس میں سافٹویر انسٹال کرنا اچھا خاصا درد سر ہوتا ہے۔ چونکہ اس کام کے لیے کئی پیکج مینجمنٹ سسٹم ہیں۔ ڈیبین کا .deb اور ریڈ ہیٹ و فیڈورا پر مشتمل ڈسٹروز کا .rpm اور تو اور مینڈریوا کا اپنا الگ ہی پیکج سسٹم ہے۔ پیکج لینکس میں ایگزی فائل کی طرح ہی ہوتے ہیں جو سافٹویر کو انسٹال کرنے کے کام آتے ہیں۔ لینکس دنیا میں ایک عرصے سے کسی ایک پیکج مینجمنٹ سسٹم پر اتفاق کے سلسلے میں متفق ہونے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ ایسے نظام جاری بھی کیے گئے ہیں جو ڈسٹرو سے آزاد ہوتے ہیں یعنی ایسے فارمیٹ میں موجود سافٹویر کسی بھی ڈِسٹرو میں انسٹال ہوسکتا ہے۔ سی این آر بھی اسی سلسلے کی ایک منظم اور مربوط کڑی ہے۔
بحوالہ

مینڈریوا فلیش 2008

مینڈریوا نے 2008 مینڈریوا فلیش 4 جی بی متعارف کروائی ہے۔ مینڈریوا فلیش فیملی کی نئی رکن اس پراڈکٹ کی مدد سے آپ اپنا ڈیسکٹاپ ساتھ اٹھا کر جہاں چاہیں لے جا سکتے ہیں۔ اس میں ezBoot نامی ایک نیا فنکشن شامل کیا گیا ہےجس کی بدولت پی سی بائیوس میں جائے بغیر لینکس میں ری بوٹ ہوجاتا ہے۔ مینڈریوا کا یہ ورژن جو کہ کیڈی پر مشتمل ہے کسی بھی قسم کی تنصیب نہیں مانگتا۔ یہ ایک بوٹ ایبل یو ایس بی فلیش پر ہے۔ آپ صرف اس کو پی سی میں لگائیں اور مینڈریوا چلنے کے لیے تیار۔ اس میں 4 جی بی تک کی سپیس موجود ہے جس کے ذریعے تمام اہم امور سے باآسانی نمٹا جاسکتا ہے۔ اس میں ویڈیو کارڈز، موڈیمز اور وائرلیس اڈاپٹرز وغیرہ کے ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ سافٹویرز کی بہترین کلیکشن موجود ہے۔ کیڈی، فائرفاکس، جاوا، فلیش پلئیر، رئیل پلئیر، سکائپ اور اوپن آفس اسے آپ کے ہر قسم کے کام کے لیے ایک دم تیار کردیتے ہیں۔ رہی بات قیمت کی تو یہ صرف 79 یورو یا 89 ڈالر ہے۔ حاصل کرنے کے لیے مینڈریوا سٹور سے رابطہ کیجیے۔ ورنہ پڑھ کر سر دھنیے۔
بحوالہ

پیر، 3 دسمبر، 2007

پی ٹی سی ایل کا پاکستان پیکج


ملک کی پرائیویٹ شدہ قومی فون کمپنی نے ایک نیا پیکج شروع کیا ہے۔ سرکاری چینل کے ساتھ ساتھ دوسرے چینلز پر بھی یہ مشہوری بڑے زوروشور سے آرہی ہے کہ اب پورے پاکستان میں لامحدود وقت کے لیے کال کریں۔ لیکن ان کی ویب سائٹ پر تشریف لے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس میں‌ کتنا جھوٹ ملا کر بول رہے ہیں۔
    پہلی چیز کہ یہ مفت نہیں ہے صارف کو اس کے لیے ماہانہ 200 روپیہ (ایک روپیہ کم کرلیں) علاوہ ٹیکس ادا کرنا پڑیں گے
    یہ وقت لامحدود نہیں ہے صرف پانچ ہزار منٹ ہیں۔
    یہ لوکل کالز پر لاگو نہیں ہوگا۔ یعنی اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے رشتے دار بیرونی شہروں میں‌ ہوں۔
    َ

    سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ آپ پر یہ سروس زبردستی لگا دی گئی ہے۔ یعنی اگر استعمال نہیں کرنی تو اسے ڈی ایکٹیویٹ کرواؤ


    غضب خدا کا ہونا تو یہ چاہیے تھا جو کوئی چاہتا اسے ایکٹیویٹ کروا لیتا لیکن ان کی منطق ہی نرالی ہے۔ کوئی ان کے باپ کا نوکر ہے جو فون کرکر کے اس کو ڈی ایکٹیویٹ کرواتا پھرے۔

سب سے بڑا نقصان ان بے چاروں کو ہے جنھیں پتا ہی نہیں کہ انھیں‌ ہر ماہ اضافی بل پڑنا شروع ہوگیا ہے۔ چاہے وہ اسے استعمال کریں یا نہ کریں۔ دیہات کے سیدھے سادھے پی ٹی سی ایل صارفین کی تو واٹ لگ گئی۔ آپ بھی اگر اس زبردستی کے ڈھول سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں تو 1236 پر کال کرکے اسے ختم کروائیے۔
اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہی دیجیے تاکہ اگر لوگ نہ اسے استعمال نہ کرنا چاہیں تو اس زبردستی کے ڈھول کو اتار پھینکیں۔
اس ملک کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ عجیب لوگ ہیں اور عجیب حکومت ہے جس کو ذرا بھی خیال نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ پی ٹی اے والے کہاں سوئے پڑے ہیں۔

اتوار، 2 دسمبر، 2007

حسب معمول سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹی جائے گی

سوات میں‌ہونے والا "آپریشن" اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ طالبان کا "صفایا" کردیا گیا ہے۔
اب ہر طرف امن اور سکھ چین ہے۔
اطلاعات سے پتا چل رہا ہے کہ طالبان اچانک اپنے مورچے چھوڑ کر غائب ہوگئے ہیں۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ شاید اب وہ چھاپہ مار جنگ کریں۔ لیکن اس سے بھی وڈی چیز وہ سوالیہ نشان ہیں جو لال مسجد آپریشن کے بعد قوم کے سامنے ناچتے رہے۔ اب پھر سے خٹک ڈانس کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بڑے سادہ سے سوالات ہیں۔
جیسے مولانا فضل اللہ کو آخر اتنی ڈھیل ہی کیوں دی گئی؟
ایک عرصے تک آخر کیسے اپنا ایف ایم ریڈیو مولانا موصوف بغیر کسی رکاوٹ کے چلاتے رہے؟ آپس کی بات ہے اگر میں مشرف کی جگہ ہوتا تو پہلے اس ریڈیو کے ٹاور پر نیپام بم گروا کر اس کو نیست کرواتا اور پھر کوئی اور کام کرواتا۔
طالبان نے پولیس اسٹیشنوں پر قبضہ کیوں کیا اور انھیں‌ وہ خالی ہی کیوں ملتے رہے؟ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
چونکہ یہ ہماری پرانی عادت ہے کہ سانپ نکل جائے تو پھر لکیر پیٹنا شروع کرتےہیں۔ سو اخبارات میں‌ بھی کالم نگاروں کو اس سلسلے میں‌ ہوش آگیا ہے۔ حمید اختر ایکسپریس کے سینئیر کالم نگار ہیں ان کا دو حصوں میں‌ موجود کالم پڑھیے اور سر دھنئے۔



قیاسات اور خیالی گھوڑوں کی ایک فوج ہے جو دوڑائی جاسکتی ہے۔ لیکن جس نے بھی یہ کیا ہے بڑے منظم انداز میں کیا ہے۔ ادھر بی بی سی اردو پر ملاحظہ کیجیے مشرف صاحب کا بیان
پتا نہیں اس شخص کے جانے کے بعد ہمیں کب تک اس کے "ضمنی اثرات" سے نمٹنا ہوگا۔

ہفتہ، 1 دسمبر، 2007

تلاش گری کا جن اب وائرلیس کے میدان میں

تلاش گروں کا گرو گوگل اب موبائل اور وائرلیس نیٹ ورکس میں بھی ٹانگ اڑانے کی کوشش میں ہے۔ گوگل کی اینڈرائڈ سافٹویر ڈیلوپمنٹ کٹ کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہونگے۔ اینڈرائد موبائل کی ایپلی کیشنز تیار کرنے کے لیے ایک اوپن ڈویلپمنٹ کٹ ہے۔ اس سلسلے میں گوگل کو موبائل انڈسٹری کے دیووں کا تعاون حاصل ہے۔
اب گوگل امریکہ میں اپنا ایک وائرلیس نیٹ ورک شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ماہ پہلے گوگل نے اعلان کردیا تھا کہ وہ امریکہ میں ہونے والی 700 میگا ہرٹز وائرلیس طیف کے لیے بولی لگائے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ریڈیائی امواج کی مختلف فریکوئنسی ہوتی ہے۔ مختلف قسم کے آلات کو بذریعہ وائرلیس چلانے کے لیے ان سے نکلنے والی امواج کو ایک خاص فریکوئنسی حد ہی الاٹ کی جاتی ہے۔ جبکہ طیف سے مراد ہم ایسا سکیل لیتے ہیں جس پر مختلف امواج کو ان کی فریکوئنسی یا طول موج کے حساب سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ طیف کی سادہ سی مثال سورج کی روشنی کو منشور میں سے گزارنے سے حاصل ہونے والے رنگ ہیں۔ یہ سات رنگ جب سفید کاغذ پر ظاہر ہوتے ہیں تو ان کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے۔
گوگل اس طیف یعنی 700 میگا ہرٹز طیف کے لیے اگر بولی جیت جاتا ہے تو وہ اپنا وائرلیس نیٹ ورک لانچ کرسکے گا یا پھر ہوسکتا ہے وہ کسی کو اپنا پارٹنر بنا لے۔ اپنی سروس دینے کے ساتھ ساتھ گوگل وائرلیس سروس "تھوک" کے بھاؤ بھی بیچ سکتا ہے جسے آگے اینڈ یوزر تک دوسرے لوگ پہنچائیں گے۔

جمعہ، 30 نومبر، 2007

آخر اردو میں ہی کیوں نہیں انگریزی بھی تو ہیں؟

زکریا کا یہ اعتراض وزن دار ہے کہ پاکستانی بلاگز انگریزی میں‌ بھی تو ہیں تو پھر اردو میں کیوں نہیں؟
میں پہلی پوسٹ میں کچھ سنجیدہ مع رنجیدہ ہوگیا تھا جو کہ عمومًا پاکستانیوں کی عادت ہے۔ اب ذرا جذبات سے ہٹ کر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
بات پھر میری ہی آجانی ہے کرلو گلاں خیر۔۔۔
میں پچھلے دو سال سے بلاگنگ کررہا ہوں۔ اور اردو میں کررہا ہوں نہ کہ انگریزی میں۔ میں نے جب بلاگنگ شروع کی تو مجھے اس کی الف بے کا بھی نہیں پتا تھا آج دوسال بعد بھی میں نیم حکیم ہوں۔ جس کے ہاتھ آیا تھیم یا تو اردو ہوجاتا ہے یا اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے کوئی درمیانی راہ نہیں نکلتی۔ عرض یہ تھی کہ اردو بولنے والی کمیونٹی پاکستان میں‌کمی کمین گنی جاتی ہے۔ وہی حال انٹرنیٹ پر ہے۔ انگریزی بلاگرز زیادہ عقلمند، قابل اور پتا نہیں کیا کیا خوبیوں والے بندے ہیں۔ اردو بلاگرز میرے آپ جیسے تھکے ہوئے لوگ ہیں۔ جنھیں ایک تھیم بھی اردو کرنے کے لیے چار جگہ دھائی اور ات مچانی پڑتی ہے۔
دوسری چیز جو میری ناقص عقل کہتی ہے وہ ہے ریوارڈ یا انعام۔ پیسہ کہہ لیں۔ اردو بلاگنگ کرکے ہم کچھ بھی نہیں‌ کما سکتے۔ اگر ہم اردو بلاگنگ میں‌اپنا وقت دیتے ہیں۔ بالفرض میں اگر اوپن سورس کی خبریں‌ ہی انگریزی سے اردو ترجمہ کرکے پیش کرتا ہوں‌ تو ایک اوسط درجے لمبائی کی خبر کم از کم آدھا گھنٹہ لیتی ہے ترجمے کے لیے۔ اگر میں روز کوئی ایسی پوسٹ، کوئی ٹیوٹوریل پیش کرتا ہوں یعنی آدھا گھنٹا بلاگ کو دیتا ہوں تو مجھے کیا ملتا ہے؟ امب (پنجابی والا آم)۔ میں اپنی ہر پوسٹ کے نیچے گوگل ایڈسیسن کا کوڈ ڈال دیتا ہوں اور مزے کی بات ہے کہ اس ماہ کسی ایک بندے نے بھی اس پر کلک نہیں کیا۔ جبکہ یہیں محفل پر کل ایک صاحب سو ڈالر نصف جس کے پچاس ڈالر ہوتے ہیں کمانے کی بات کررہے تھے صرف چار ماہ میں۔ میں حریان ہوکر ان کی ویب سائٹ پر گیا تو فورم تھا انگریزی فورم اور وہ بھی فری ہوسٹ پر۔
میرے سامنے تو میری اور اپنی زبان اردو کی اوقات آگئی ہے۔۔۔
آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟
جاتے جاتے ایک اور بات۔۔یونیکوڈ میں‌ ٹیوٹوریل لکھنے سے لوگ اب بھی گھبراتے ہیں کیوں؟ کوئی چرا نہ لے یہاں لوگ پورا تھیم اپنے نام کروا لیتے ہیں تو ایک پوسٹ یا ٹیوٹوریل کس کھیت کی مولی ہیں۔۔۔اب ایک تھکا ہوا بلاگر جو ایک تھکے ہوئے ملک کی ایک تھکی ہوئی زبان میں بلاگنگ کررہا ہے کیا کرے؟؟؟؟؟
کوئی جوب ہے آپ کے پاس؟
معذرت میں کچھ جذباتی ہوگیا حالانکہ نہ ہونے کا کہہ بھی چکا ہوں اوپر۔۔

اردو میں بلاگنگ کیوں نہیں؟

محب علوی نے اہم مسئلہ اٹھایا ہے کہ جب ساری دنیا میں لوگ بلاگنگ کو اتنا سنجیدگی سے لے رہے ہیں تب پاکستان میں لوگ اسے کھیڈ تماشا کیوں سمجھ رہے ہیں۔
میں آپ کو اپنی بات بتاتا ہوں۔ میں ایک مڈل کلاسیا ہوں۔ والد ناشتے کی ریڑھی لگاتے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کا خرچہ مرچہ میں اپنے پلے سے پورا کرتا ہوں یا چھوٹے بھائی کی مہربانی کہ وہ کام کرتا ہے اور کیبل نیٹ کی فیس اکثر دے دیا کرتا ہے۔ میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ساتھ اس لیے اکثر و بیشتر پایا جاتا ہوں کہ میرا سوشل سرکل بہت محدود ہے۔ خاندان میں‌ پچھلے دس سال سے کوئی شادی اٹینڈ نہیں کی میں نے۔ دوست وہ جو یونیورسٹی وغیرہ میں ہیں۔ محلے میں بس کسی کسی سے سلام دعا ہے۔ تو میں جب کچھ نہیں کرتا تو انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنا خون جلاتا ہوں۔ سڑتا کڑھتا ہوں اور بلاگنگ کرتا ہوں۔
اگر میں ایسا کرتا ہوں تو باقی لوگ کیوں نہیں کرتے؟
اول تو کسی کو اس کا شعور ہی نہیں۔ لوگ انٹرنیٹ کے بارے میں جانتے ہیں بلاگنگ کے بارے میں نہیں۔ میرے چھوٹے بھائی کو پتا ہے کہ میں بلاگنگ بھی کرتا ہوں۔ لیکن وہ اسی انٹرنیٹ پر بیٹھ کر آرکٹ کو وزٹ کرنا پسند کرتا ہے اور کسی بی بی سے چیٹ کرنا اسے زیادہ مرغوب ہے۔
جو لوگ اس وقت بلاگنگ کررہے ہیں ان میں سے بہت سے بیرون ممالک سے بلاگنگ کرتے ہیں۔ یا کم از کم پردیس پلٹ ہیں۔
پاکستان میں بلاگنگ کرنے والے یا تو فارغ و البال قسم کے احباب ہیں۔ یا پھر وہ معاشی طور پر خوشحال لوگ ہیں۔ میرے جیسے چند ایک ہی ہیں یا پھر وہ لوگ جن کا وقت زیادہ تر نوکری کے سلسلے میں کمپیوٹر پر گزرتا ہے۔
انٹرنیٹ پر وقت یہاں فحش ویب سائٹس دیکھنے اور اس کے بعد چینٹنگ کرنے اور آرکٹ جیسی ویب سائٹس کو دیکھنے میں گزرتا ہے۔
بلاگنگ کیا خاک ہوگی؟
ابھی پاکستانیوں کو کم از کم پانچ سال مزید چاہییں کہ انھیں ٹیکنالوجی کا صحیح اندازہ ہوسکے۔

جمعرات، 29 نومبر، 2007

سکائپ لینکس بی‌ٹا 2

سکائپ نے لینکس کے لیے اپنا بی ٹا 2 ورژن جاری کردیا ہے۔ اس ورژن میں ویڈیو کالز کی سہولت شامل کی گئی ہے۔ یہ سہولت سکائپ کے ونڈوز اور میک ورژنز میں موجود تھی لیکن لینکس ورژن میں اسے اب شامل کیا گیا ہے۔ سکائپ کو لینکس پر ویڈیو کالز کے لیے استعمال کرنے کے سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ سپورٹ شدہ ویب کیم ڈھونڈنا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ لینکس کے ساتھ ہارڈوئیر والے سوتیلوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔اس وقت سکائپ بی ٹا کے بائنری پیکجز اوبنٹو 7.04، ڈیبین 4 اییچ، میپش، زنڈراس، سینٹ او ایس، فیڈورا کور 6، فیڈورا 7، اوپن سوسی 10 و جدید اور مینڈریوا کے لیے دستیاب ہے۔
سکائپ کو اوبنٹو میں انسٹال کرنے کے لیے یہ پیکجز درکار ہونگے: Qt 4.2.1, D-Bus 1.0.0, اور libasound2 1.0.12۔ سکائپ کے مواجے میں بظاہر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ آپشنز کے مینیو میں ایک نئے زمرے ویڈیو ڈیوائسز کا اضافہ کیا گیا ہے۔

بدھ، 28 نومبر، 2007

اردو کوڈر “ری لوڈڈ”

محمد علی مکی ایک عرصے تک اردو کوڈر فورم چلاتے رہے ہیں۔ پھر گردش زمانہ اور عنایت خسروانہ فری ہوسٹ کی وجہ سے یہ فورم ڈیلیٹ ہوگیا۔ کچھ عرصے تک آفلائن رہنے کے بعد کچھ میرے کہنے اور کچھ اپنے کہنے پر مکی بھائی نے اردو کوڈر فورم پھر سے شروع کیا ہے۔ فری ہوسٹ پر دوران اپگریڈ ان کی ہارڈ ڈسک کریش کرگئی اور سارا قیمتی ڈیٹا برباد ہوگیا۔ چناچہ اب ہمیں دوبارہ صفر سے گنتی گننی پڑ رہی ہے۔ اس بار اردو کوڈر کا مقصد صرف لینکس ہے۔ لینکس کے سافٹویرز، مسائل، ٹیوٹوریلز اور اوپن سورس کی خبریں سب کچھ اردو میں فراہم کیا جائے گا۔ یہ دعوٰی تو نہیں کہ یہ اردو میں‌ بہترین لینکس فورم ہوگا لیکن ہماری پوری کوشش رہے گی اس سلسلے میں۔ اردو کے ہر فورم کا دعوٰی ہے کہ وہ "فلانا" پہلا یونیکوڈ فورم ہے تو ہم بھی دعوٰی کیے دیتے ہیں۔
یونیکوڈ اردو میں "پہلا لینکس فورم"۔ :D :D :D
خیر یہ تو مذاق تھا۔ دعا کیجیے گا کہ ہم اپنی انفرادیت کو قائم رکھ سکیں اور اچھی سروس دے سکیں۔ اس سارے خطبے کے بعد بھی اگر آپ کی سمجھ میں نہ آئے کہ آپ کو فورم پر آنے کی دعوت دی جارہی ہے تو پھر یا میں پاگل ہوں یا پھر۔۔۔۔میں ہی پاگل ہوں۔ ;) :D
آپ کو تو کہہ نہیں سکتا کہ آپ ہمارے متوقع صارف بھی ہوسکتے ہیں۔ ;)
چناچہ پاء جی تشریف لائیے اردو کوڈر پر ہم آپ کے منتظر ہیں۔

کنونشل نے اوبنٹولینکس ڈویلپرز سروس جاری کردی

اوبنٹو لینکس نے سافٹویر ڈویلپمنٹ اور ڈویلپرز کے لیے ایک نئی سروس لانچ کی ہے۔ یہ سروس اوبنٹو کے ڈیسکٹاپ، سرور اور موبائل ایڈینشنز کے لیے اطلاقیے لکھنے میں استعمال کی جائے گی۔
کنونشیل لیمٹڈ جو اوبنٹو کو سپانسر بھی کرتے ہیں نے ایک اعلان میں کہا ہے کہ نئی لانچ پیڈ پرسنل پیکج آرکائیو کو موجودہ لانچ پیڈ ڈویلپمنٹ ویب سائٹ میں شامل کردیا گیا ہے۔ یہ گروپس کو پیکجز کے معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی ڈویلپرز کو بھی آزاد مصدر اطلاقیوں کے ذاتی ورژن ہوسٹ کرنے کی سہولت دے گی۔
ڈویلپرز پی پی اے کو استعمال کرتے ہوئے ایک گیگا بائٹ کی سپیس حاصل کرے گا جہاں وہ اپنا سافٹویر پیکج چڑھا سکے گا۔ جبکہ شریک کار اس میں ہاتھ بٹا سکیں گے۔ یہ سپیس کنونشل کی طرف سے صرف فری سافٹویر کے لیے فراہم کی جائے گی۔
"پی پی اے جو آزمائشی مراحل میں تھا اب مکمل طور پر جاری کردیا گیا ہے" کمپنی نے کہا
" بہت سے ڈویلپرز موجودہ پیکجز میں تبدیلی یا اپنے سافٹویرز کے نئے پیکج بنانا چاہتے ہیں" کرسٹان روبوٹم ریز جنھوں نے کنونشل میں پی پی اے کے پراجیکٹ کی قیادت کی ہے نے ایک بیان میں کہا۔ "پی پی اے سروس ہر کسی کو اوبنٹو کا ڈویلپر بننے کی اجازت حاصل کیے بغیر اپنا پیکج شائع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ فری سافٹویر برادری میں دھماکہ خیز اضافہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پی پی اے پراجیکٹ ڈویلپرز اور ڈویلپمنٹ ٹیموں کو ان کے سافٹویر سازی کے بہترین تصورات کو صارف تک پہنچانے اور ان سے آراء کے حصول میں معاون ثابت ہوگا۔"
"انھیں تجربہ کار پیکج کاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی موقع ملے گا۔" انھوں نے کہا۔" پی پی اے ایک تعمیر کار اور اشاعتی نظام ہے جس میں کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ہم لانچ پیڈ سے موبائل ماحول کے لیے پیکجز تیار کرنے کی صلاحیت شامل کرنے کے سلسلے میں کافی پرجوش ہیں۔ "
کنونشل نے کہا کہ پی پی اے سروس ڈویلپرز کو براہ راست صارفین کے ساتھ ملادے گی اور صارفین یہ پیکج حاصل کرکے اپنے سسٹم میں صرف ایک اپڈیٹ سے نصب کرسکیں گے۔ نیز پی پی اے پر پیکج کا نیا ورژن جاری ہونے پر متعلقہ صارفین کو خودکارانہ اپڈیٹس بھی فراہم کی جائیں گی۔
بحوالہ

منگل، 27 نومبر، 2007

دنیا بھی آخرت بھی :D

فری رائس ویب سائٹ پر جائیں۔ اپنا انگریزی کا ذخیرہ الفاظ بڑھائیں۔ کرنا صرف یہ ہے کہ ایک لفظ آپ کے سامنے ہے اور اس کے کچھ ممکنہ جوابات نیچے ہیں۔ جواب پر کلک کریں ٹھیک ہے تو مبارک ہو غلط ہے تو کوئی بات نہیں آپ کو ایک نئے لفظ کا مطلب پتا چل گیا۔ لیکن اتنا ہی نہیں آپ کو اس کے ساتھ ساتھ ہر صحیح جواب پر فری رائس اقوام متحدہ کو دس دانے چاول دان کرتی ہے تاکہ اسے انھیں امدادی پروگراموں میں استعمال کیا جاسکے۔ کہتے ہیں قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ یہاں بھی دانہ دانہ کرکے بوری ہوہی جائے گی اور لفظ لفظ کرکے "لغت"۔۔
انجوائے کیجیے۔

پیر، 26 نومبر، 2007

آخر نوازشریف نے سرزمین پاک کو چھو ہی لیا!!

سابق وزیر اعظم نواز شریف آج لاہور پہنچ گئے ہیں۔ مارشل لاء حکومت کے صدر پرویز مشرف کے سعودی عرب کے مختصر دورے میں نجانے کیا کھچڑی پکی ہے کہ نواز شریف کو واپسی کی اجازت مل گئی ہے۔ حاسدوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل کا ہی نتیجہ ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس بار سعودی عرب بھی امریکہ کے ساتھ اس ڈیل میں ملوث ہے۔ مارشل لاء حکومت تو ایسے لگتا ہے جیسے شترمرغ ریت میں سر دے لیتا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے بھی ایسے بیان آرہے ہیں کہ پرویز مشرف کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارا ایجنڈا مختلف ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایجنڈا کیا ہے۔ حالات واقعی نو مارچ والے نہیں ہیں۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو ایک ڈگڈگی چاہیے تھی جو انھیں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی صورت میں مل گئی اور انھوں نے اچھی طرح بجا بھی لی۔ اب کی بار ان کے پاس الیکشن کی ڈگڈگی ہے۔ جسے بجا کر انھیں اصلی تے وڈا فائدہ مل سکتا ہے۔ چناچہ ہر کوئی دبے پاؤں الیکشن کی تیاری میں ہے۔ چند ایک سرپھرے ہیں جو ببانگ دہل بائیکاٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ بلوچ پہلے ہی فوجی صدر سے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کرچکے ہیں۔ عمران خان ابھی 'نواں آیاں اے سوہنیا' ہے۔ وکلاء کو اپنے چیف جسٹس کی فکر ہے چناچہ وہ تو تحریک جاری رکھیں گے ہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اے پی ڈی ایم کی چھتری تلے نوازشریف کی طرف سے کیا حکمت عملی طے ہوتی ہے۔ آیا کوئی "درمیانی" راہ نکل آتی ہے یا۔۔۔۔۔بے نظیر نے تو آج کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے بیان دے دیا ہے کہ نواز شریف کی واپسی قومی مفاہمتی آرڈیننس کا نتیجہ ہے۔

اتوار، 25 نومبر، 2007

سوات: آخر بندوق ہی حل کیوں؟

جب لال مسجد کے واقعے کے بعد سوات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی مجھے اسی وقت لگا تھا کہ اگلا وزیرستان سوات ہوگا۔ یہ بدترین اندیشے درست ثابت ہوئے۔ آج سوات میں عام لوگوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ پاکستان کا سوئزرلینڈ کہلانے والی وادی اب اپنے رہائشیوں کے لیے جہنم بن گئی ہے۔ حملے، جوابی حملے، خودکش حملے ، فائرنگ، کوبرا اور جانے کون کونسے ہیلی کاپٹرز سے بمباری۔۔یہاں کے مکین اس دوہری آگ کی دیوار میں پس رہے ہیں۔
وہاں کے لوگ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ بارہ سو سے زیادہ سکول یا تو بے کار پڑے ہیں، یا مقامی طالبان انھیں عقوبت خانوں کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ آئے دن کے کرفیو نے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل کردیا ہے۔ جو تعلیمی ادارے کھلے بھی ہیں وہاں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
آخر ہماری سمجھ میں یہ کیوں نہیں آتا کہ ہر مسئلے کا حل بندوق نہیں؟ پاکستانی فوج کے سامنے ہمیشہ فتح کرنے کے لیے اپنا ملک ہی کیوں ہوتا ہے؟
ایک عرصے تک یہ بھیرویں الاپتے رہنے بعد کہ دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے اس کے اسباب کا بھی جائزہ لیا جائے آج ہماری فوجی حکومت اس طرف سے آنکھیں بند کیے بم برسا رہی ہے اور بدلے میں خودکش دھماکے وصول رہی ہے۔ اس کے بنیادی اسباب ہیں ہی کیا کہ اسلام نافذ کرر؟
تو کردو نا۔ اسلام نافذ کرنا کیا حاکموں کی ذمہ داری نہیں؟ ان سے مل بیٹھ کر مذاکرات کرکے اسلام کے ایک ورژن پر متفق ہوا جاسکتا ہے۔ ٹھیک ہے وہ اسلام کو انتہائی غلط انداز میں لے رہے ہیں تو فوج کونسا صحیح انداز میں لے رہی ہے۔ ان کے مطالبات مانگے جائیں جوابی مطالبات پیش کئے جائیں کسی جگہ تو دونوں اطراف میں اتفاق ہوجائے گا یا نہیں؟
فوج کے خیال میں جواب نہیں ہے اس لیے وہ اپنے کوبرا ہیلی کاپٹر، توپیں اور بندوقیں وہاں آزما رہے ہیں۔ اگر کوئی مر بھی جاتا ہے تو پانچ ہزار ماہانہ والا سپاہی ہی ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کی بیوہ اور بچوں کو قوم کے سپرد کرکے یہ لوگ آرام سے ریٹائر منٹ کی زندگی گزاریں گے۔ رہے مزاحمت کار اور عام لوگ تو وہ تو ہیں ہی کیڑے مکوڑے۔اول الذکر کا تو ٹھکانہ ہی جہنم ہے موخرالذکر اگر مارا بھی گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔
زندہ باد ایسی عقلمندیاں اور پھرتیاں۔
سوات والوں کو اپنی پڑی ہے اور لاہور والوں کو اپنی۔ ایک کو جان کا ڈر ہے دوسرے کو نواز شریف کی آمد کا۔ کراچی میں اپنے مسئلے ہیں اور فیصل آباد میں اپنے۔ کوئی مرتا ہے مرے جیتا ہے جئیے کسی کو کیا۔ جس پر گزرے کی نمٹ لے گا۔

ہفتہ، 24 نومبر، 2007

ایمرجنسی کے بعد امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے: تو پھر یہ کیا ہے؟

ایمرجنسی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی آئینی درخواستوں میں ایمرجنسی کا دفاع کرتے ہوئے مارشل لاء حکومت کے وکیل نے یہ دلائل دئیے تھے کہ ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے ایمرجنسی لگائی گئی۔ موصوف کا یہ دعوٰی بھی تھا کہ امن و امان کی صورت اب بالکل ٹھیک ہے۔
بی بی سی اردو کے مطابق راولپنڈی میں دو خودکش حملے ہوئے ہیں۔
ان حملوں میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نشانہ واضح طور پر پاکستانی فوج سے متعلقہ افراد تھے۔
میرا خیال سے امن و امان کی صورت حال واقعی "بہتر" ہوئی ہے۔

لینکس کی ہلکی پھلکی ڈِسٹروز

لینکس میں اس وقت کئی تصویری مواجے دستیاب ہیں۔ جیسے گنوم ، کیڈی اور ایکس ایف سی ای۔ اول الذکر دو ڈیسکٹاپ ماحول نسبتًا ماڈرن پی سی کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ان میں تبدیلیاں بہت تیزی کے ساتھ آتی ہیں اور ان کا بنیادی مقصد صارف کو ایک مکمل تصویری مواجہ فراہم کرنا ہے۔ تاکہ وہ ہر کام اپنے لینکس سسٹم ہر رہتے ہوئے کرسکے۔ چناچہ ان تصویری مواجوں کو استعمال کرنے والے بھی زیادہ ہیں اور ان کی "پیدائیشی" ڈویلپمنٹ کٹس میں تیار کئے گئے اطلاقیے لینکس دنیا میں تھوک کے حساب سے مل جاتے ہیں۔ چونکہ ان کا مقصد ہر سہولت تصویری مواجے میں‌ فراہم کرنا ہے اس لیے پرانے پی سی جیسے پی ٹو 450 میگا ہرٹز پر ان کا چلنا خاصا اوکھا کام ہے۔ خصوصًا کیڈی تو پرانے پی سی کا ویری ہے ذرا سی میموری کم ہے یا سپیڈ کم ہے تو سسٹم اڑیل ٹٹو کی طرح بار بار کھڑا ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف لینکس کے لیے کچھ ایسے تصویری مواجے بھی دستیاب ہیں جو یا تو بہت ہی ہلکے پھلکے ہیں یا پھر ان کے اطلاقیے نسبتًا سادہ اور کام چلاو پالیسی کے تحت بنائے گئے ہیں۔ ایسے مواجے عمومًا فائل مینجر کہلاتے ہیں۔ کیڈی اورگنوم میں بھی فائل مینجر ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جہیز میں اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے۔ ان کی عام مثال فلکس باکس
Free Image Hosting at www.ImageShack.us
اور انلائٹمنٹ وغیرہ ہیں۔ یہ فائل مینجر سادہ، آسان اور ہلکے پھلکے ہیں چناچہ اگر آپ کا پی سی دادا پڑدادا قسم کا ہے تو اچھی رفتار کے حصول کے لیے انھیں استعمال کیجیے۔
جہاں تصویری مواجے کی سطح پر یہ تحریک چل رہی ہے وہیں ڈسٹرو کی سطح پر بہت سی ہلکی پھلی ڈسٹروز موجود ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پرانے 486 سسٹم پر بھی یہ ڈسٹروز چل جاتی ہیں۔ پپی لینکس اس قسم کی ڈسٹروز کی مثال ہے۔
پپی لینکس سے قطع نظر چونکہ ہم بھی 486 کو اب کوڑے کی زینت بنانا پسند کریں گے ہم آپ کو پی ٹو اور تھری سسٹمز کے لیے ایک آدھی اچھی اور ہلکی پھلی ڈسٹرو کا مشورہ دیں گے۔ اوبنٹو کے ایک عاشق نے فلکس باکس کو اوبنٹو پر لگا کر ایک نئی ڈسٹرو بنائی ہے۔
فلکس بنٹو
اوبنٹو کی روائیتی آزادی اور فلکس باکس کے "ہلکے پن" کے ساتھ پرانے پی سی کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے۔ اس کی تنصیب کوئی مشکل کام نہیں۔ سادہ سا ٹیکسٹ بیسڈ انسٹالر استعمال کرنے میں بہت آسان ہے۔
اسی قسم کی ایک اور تحریک مینڈریوا کے فورمز پر بھی چل رہی ہے۔
جہاں مینڈریوا کا ایک ہلکا پھلکا بہروپ تیار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اگر دیسی چیز استعمال کرنے کا ارادہ ہے تو اردو سلیکس بھی استعمال کرسکتے ہیں جسے محمد علی مکی نے کچھ فونٹس اور وال پیپرز ڈال کر "مسلمان" کیا ہے۔

جمعہ، 23 نومبر، 2007

منظر نامہ

اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ "گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو" کا نعرہ لگانے والے ایک بار پھر سے اسی دیوار میں چن دئیے گئے ہیں۔ پرویز مشرف نے ایک بار پھر سے میدان مار لیا ہے۔ ایمرجنسی لگانے کا وقت اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ملک میں عام انتخابات قریب تھے۔ امن و امان کا بہانہ موجود تھا چناچہ ملک پر ایمرجنسی لگا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی مشرف نے "ناپسندیدہ" ججوں اور میڈیا والوں نے نجات حاصل کرلی۔ اگرچہ اس کا خمیازہ پاکستان کو معاشی ترقی میں سست رفتاری اور دولت مشترکہ کی رکنیت کی ایک بار پھر معطلی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے لیکن یہ تو پھر سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت جبکہ عام انتخابات نزدیک ہیں ہر پارٹی ان میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے دانت تیز کررہی ہے۔ بات جہاں تک اصول کی ہے تو پہلے کس نے یہاں اصول پر سیاست کی ہے۔ بی بی اور نواز شریف کہاں چاہیں گے کہ ان کا حریف انتخابات میں ہو اور وہ آؤٹ ہوں۔ اپوزیشن کا ایک نکتے پر متفق ہوکر انتخابات کا بائیکاٹ کرنا جوئے شیر لانے سے بھی اوپر کی چیز لگ رہا ہے۔ مشرف کی سعودی عرب یاترا کے بعد نواز خاندان کی واپسی کے اشارے مل رہے ہیں۔ اگر وہ واپس آرہے ہیں‌ تو اس کا مطلب ہے کہ انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔ ن لیگ اگر حصہ لیتی ہے تو باقی کون ہے جو پیچھے ہٹے گا بی بی تو ویسے ہی امریکہ سیاں کی لاڈلی ہے۔ پیچھے ایم ایم اے رہ جاتی ہے تو وہ بھی اس دوڑ میں چاہے آخری نمبر پر آئیں حصہ ضرور لیں گے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ سول سوسائٹی کے چند دردمند لوگ، وکلاء اور صحافیوں کی قربانیوں اور احتجاج کا کوئی ثمر نہیں ملنے والا۔ عمران خان جیسا ایک آدھ پاگل ہی شاید اور ہے جو انتخابات کے بائیکاٹ کی بات کرتا ہے۔ لیکن اس کی کون سنے گا۔ اگرچہ اس کی تعریفیں ہورہی ہیں لیکن تعریف سے پیٹ نہیں بھرتا بات ووٹ کی ہے۔ عام ووٹر ایک عرصے سے * لیگ اور * پارٹی کا عادی ہے اور اس بار بھی انھیں ہی ووٹ ڈالے گا۔ مشرف یافتہ لیگ اس بار بھی پالا مارنے کے چکر میں ہے آکر پانچ سال جم کر شہنشاہ کا ساتھ دیا ہے۔ موجودہ حکومت اور مقامی حکومتیں ان پر ضرور اپنی "رحمتیں" نازل کریں گی۔
وہ ساٹھ جج جو اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں شاید ان کی قربانیاں رائیگاں جائیں، اور اگلی بار کسی افتخار چوہدری اور بھگوان داس کو حلف نہ اٹھانے کی جرات نہ ہوسکے۔

ایک اور جنازہ اٹھتا ہے

میر بالاچ مری ایک عرصے تک بلوچ مزاحمت کی علامت بنا رہا۔ اب خبر آئی ہے کہ اسے ایک کاروائی میں‌ ہلاک کردیا گیا ہے۔ اس واقعے پر سندھ اور بلوچستان میں ہنگامے ہورہے ہیں‌ جن میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوچکے ہیں‌۔

میں نہیں‌ جانتا وہ صحیح‌ تھا یا غلط۔ بقول میرے ایک جاننے والے کے قبائلی صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں۔ چناچہ ان پر ہیلی کاپٹروں‌ سے آگ برسا کر بالکل ٹھیک کیا جارہا ہے۔ میں اس وقت بھی ان صاحب سے متفق نہیں تھا اور اب بھی نہیں‌۔ مذاکرات ہر مسئلے کا حل ہوتے ہیں۔ قوم پرستوں‌ کے مطالبات ایسے نہیں‌ کہ انھیں پورا نہ کیا جاسکے۔ لیکن کیا کہیں ہماری فوج کا جسے اپنی تربیت بھی تو کہیں آزمانی ہے۔ گولہ بارود پڑا سڑتا رہے اس سے بہتر ہے کہ کہیں "کام" آجائے۔

جمعرات، 22 نومبر، 2007

ایک نیا کھلونا

مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے کوئی دس سال پہلے میرے ماموں کی بیٹھک میں ڈاکٹر قدیر خان کا ایک پورٹریٹ ہوا کرتا تھا۔ جس پر لکھا تھا محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان۔ ایک عرصے تک ڈاکٹر قدیر خان ہمارا ہیرو رہا۔ ہم اس کے گن گاتے رہے۔ پھر مشرف آیا اور اسے بند کردیا۔ ہم نے کچھ عرصہ تک احتجاج کیا۔ دبی دبی کراہیں بلند ہوئیں اور معاملہ دب دبا گیا۔ کبھی کبھی کوئی اخبار والا بین کردیتا ہے اور فرض کفایہ ادا ہوجاتا ہے۔
پھر اس سال مارچ میں ہمیں ایک اور کھلونا مل گیا۔ یہ افتخار محمد چوہدری تھا۔ پرویز مشرف نے اس کے خلاف ریفرنس کیا بھیجا ساری قوم کو جیسے آگ لگ گئی اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ملک کے پھنے خاں صدر نے بھی ہاتھ کھڑے کردئیے۔ افتخار چوہدری جو اس سے پہلے ایک عام سا چیف جسٹس تھا ہمارے لیے بہت خاص بن گیا۔ جیسے یہی اس قوم کا مسیحا ہو۔ اخبار، میڈیا اور میرے جیسوں کی زبانیں اس کی تعریف میں سہرے کہنے لگیں۔ لیکن حالیہ ایمرجنسی نے ہم سے ہمارا یہ کھلونا بھی چھین لیا۔ اب افتخار چوہدری کوئٹہ میں نظر بند پڑا ہے۔ کبھی کبھار اس کے بارے میں کوئی ذکر کرلیتا ہے اور بات ختم۔
اب ہمیں اک نیا کھلونا مل گیا ہے۔ پوجنے کے لیے ایک نیا چہرا۔ عمران خان، گریٹ خان پاکستان کا سابق کپتان اور پاکستان تحریک انصاف کا صدر۔ امید باندھنے والوں کو تو بس ایک آس چاہیے ایک ہلکی سی آس سو انھوں نے اس کے ساتھ لگا لی ہے۔ عمران خان ہی شاید مسیحا ہے میرے جیسے یہ سوچتے ہیں۔ عمران خان ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہے سچا کھرا انسان ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ہر کوئی اپنے انداز میں اس کی تعریفیں کررہا ہے۔ ان عام انتخابات میں --اگر ہوئے تو-- اس کی پارٹی اچھی خاصی نشستیں‌ جیتنے کی امید کرسکتی ہے۔
بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے لگا شاید ہم پچاری ہیں۔ محمد بن قاسم کی آمد سے بھی پہلے کے پچاری، بس بت بدل گئے ہیں۔ جلدی جلدی بدلنے لگے ہیں یا ہم کسی بت سے جلد ہی اکتا جاتے ہیں۔ ہمارا کام بس پوجا کرنا ہے، یا کھیلنا۔ یہ ہمارے کھلونے ہیں جن سے ہم کھیلتے ہیں اور جب ایک چھن جاتا تو ہم دوسرا تراش لیتے ہیں۔
ہم بچے ہیں، نادان بچے جنھیں اپنے کھلونے سے غرض ہے، بس ایک کھلونا ملا رہے اور اس ایک کھلونے کے بل پر ہم اپنے خوابوں خیالوں میں جانے کیا کیا کرگزرتے ہیں۔

منگل، 20 نومبر، 2007

اور اب اوبنٹو کی بورڈ

یار لوگ ابھی تک صرف ونڈوز کی بورڈ استعمال کرتے آئے ہیں جس پر کنٹرول اور آلٹ کے مابین مائیکروسافٹ ونڈوز کے نشان والا ایک بٹن گھسیٹر کر "شدھی" کیا گیا ہے۔ اوبنٹو بھی پیچھے نہیں رہا۔ اگرچہ طریقہ کار وہی ہے کہ دونوں سائیڈز پر ونڈوز کی جگہ اب اوبنٹو بٹن نظر آتا ہے۔
یو ایس بی کی بورڈ کی قیمت صرف پچیس ڈالر ہے۔ اگر اوبنٹو پر اتنے فدا ہوچکے ہیں کہ ونڈوز کی شکل کی بورڈ پر بھی گوارہ نہیں تو پچیس ڈالر خرچ کرکے اپنی جیب ضرور ہلکی کیجیے۔
Free Image Hosting at www.ImageShack.us

ہفتہ، 17 نومبر، 2007

احتجاج؟

ایمرجنسی لگے دو ہفتے ہونے کو ہیں۔ ہر جگہ احتجاج کی باتیں ہورہی ہیں یا احتجاج ہورہا ہے۔ حالات تیزی سے فوجی صدر کے خلاف ہوتے جارہے ہیں۔ میڈیا کی آزادی نے اس بار لوگوں کو بہت تیزی سے اس صورت حال سے باخبر کیا۔ اس کے نتیجیے میں مقبول ٹی وی چینلز کی بندش اور اس کے بعد جیو کے ختم ہونے کی خبر بھی سننی پڑی۔
میرے دوست احباب ساتھی بلاگرز بڑی شدو مد کے ساتھ ایمرجنسی کی مذمت کررہے ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج کے طریقے لکھ رہے ہیں۔ اردو تو اردو انگریزی بلاگرز بلاشبہ زیادہ منظم ہیں وہ احتجاج کو کوریج دے رہے ہیں لمحہ لمحہ کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ میرے کئی احباب نے احتجاج میں‌ حصہ ڈالنے کے لیے نجی ٹی وی چینلز کے روابط تک اپنی سائٹس پر ڈال دئیے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو مظاہرین کی تعریفیں کرکے ہی دل کی بھڑاس نکالی جارہی ہے۔
اوپر سب کچھ بیان کیا گیا حقیقت ہے۔ مجھے اسے تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ کی اس چھوٹی سی دنیا اور سول سوسائٹی، صحافیوں، وکلاء اور طلباء کے چھوٹے سے گروہ کے علاوہ احتجاج کرنے والا کوئی نہیں۔ سیاسی کارکن یا تو اندر ہے یا پھر اس کا احتجاج اپنے لیڈر کے اشارے کا مرہون منت ہے۔ یہاں احتجاج سے میرا وہ احتجاج ہے جو میڈیا، عدلیہ کی آزادی کے لیے کیا جارہا ہے۔ میرے اردگرد سب کچھ ویسا ہی ہے۔ بشیر مٹھائی والے کی دوکان ایسے ہی چل رہی ہے۔ منیر پٹرول والا اب بھی اسی سکون سے پٹرول بیچتا ہے اور جب میں اس کے قریب سائیکل پر سوار گزروں تو مجھے رانا صاحب کہہ کر ویسے ہی چھیڑتا ہے۔ میرے والد کو اب بھی اپنے کاروبار کی فکر ہے۔ میری والدہ کو اب بھی وہی فکر ہے کہ اب گھی ختم ہے اور یوٹیلٹی سٹور سے کوئی پتا کرے کہ آیا ہے یا نہیں تاکہ لائن میں‌ لگ کر لیا جاسکے۔ میری یونیورسٹی میں وہی گہما گہمی ہے کلاسز ہورہی ہیں طلباء آرہے ہیں جارہے ہیں۔ وہی آنکھ مٹکا چل رہا ہے، وہی سٹوڈنٹانہ ادائیں برقرار ہیں۔
یہ سب کیوں ہے؟ جب میرے اندر بھانبھڑ جل رہے ہیں۔ میں‌ جب سٹاپ پر اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پیلا پڑتا پوسٹر نما لے کر کھڑا ہوتا ہوں جس پر عدلیہ کو آزاد کرو اور آئین بحال کرو جیسے گھسے پٹے نعرے درج ہیں‌تو سب میری طرف ایسے کیوں دیکھتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے جیسے ان کی نظریں کہتی ہیں "سالا پاگل ہے"۔ ایمرجنسی لگنے کے باوجود سب کچھ ویسا ہی کیوں ہے؟ لوگوں نے جیو چھوڑ کر سٹار پلس دیکھنا شروع کردیا ہے۔ یا دو چار گالیاں مشرف کو بک کر پھر اپنے کام کیوں لگ جاتے ہیں جیسے کوئی دن میں‌ ایک آدھ بار کھانس د ے اور بس۔۔۔
شیرازی ویڈیو سی ڈی والا یہ کیوں کہتا ہے کہ ہم سب ۔۔۔۔۔۔ ہیں اور ہم سے بڑا ۔۔۔۔۔۔۔ مشرف ہے۔ جیسی قوم ویسا لیڈر۔ یہ قوم پہلے نعرہ لگاتی ہے پھٹے چک دیاں گے اور جب پھٹے چکنے کی باری آتی ہے تو سب غائب ہوتے ہیں۔
آخر مسئلہ کیا ہے؟
میں نے اس پر بہت سوچا۔ بہت سوچا لیکن مجھے اس کی کوئی وجہ یا حل نظر نہیں آیا۔ یہ بے حسی ہے لیکن یہ بے حسی کس وجہ سے طاری ہوگئی ہے میری ننھی سی عقل میں‌ نہیں آسکا۔
چلیں ایک اندازہ لگاتے ہیں۔ شاید یہ ناخواندگی کی وجہ سے ہے۔ یا پھر مہنگائی کی وجہ سے کہ ہر کسی کو اپنی روزی روٹی کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
اگر یہ اس وجہ سے ہے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟
آخر کونسی چیز ہے جو عام آدمی کو یہ باور کروا سکتی ہے کہ یہ غلط ہورہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ میری نظر میں‌ یہ ایک لمبا طریقہ کار ہے۔ مختصر دورانیے یا شارٹ ٹرم میں‌ اگر یہ لوگ جاگ بھی گئے تو چک دیاں گے پھٹے کہہ کر پھر غائب ہوجائیں گے۔ ضرورت یہ ہے کہ لانگ ٹرم میں کچھ کیا جائے۔ کچھ ایسا بندوبست جو اپنے اندر ہمیشگی رکھتا ہو۔
بات بڑی سیدھی سی اور صاف ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم بھیڑ بکریوں کی طرح کبھی اس کے پیچھے کبھی اس کے پیچھے اور کبھی اکیلے ہی باں باں کرتے رہیں گے یا پانچ انگلیوں کی بجائے مکا بن کے مخالف کے منہ پر پڑیں گے۔ اس کا واحد حل میری نظر میں‌ ایک ہی ہے وہ ہے ایک عدد تنظیم۔۔۔
سیاسی نہیں لیکن غیر سیاسی بھی نہیں۔ ایک ایسی تنظیم جو الطاف حسین کی متحدہ کی طرح اشارہ ملنے پر مرنے مارنے پر اتر آئے۔ یہ سچ ہے کہ عام آدمی میں شعور کی کمی ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ سوچنا کم ہی گوارہ کرتا ہے۔ چھڈ یار کہہ کر ایک طرف ہوجاتا ہے یا سر نیچے کرکے اپنے کام سے لگا رہتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ باشعور لوگ اس بھیڑ بکری شعور کو سیدھے راستے پر لگائیں۔
شاید اب تک آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی ہو۔ مجھے عادت ہے لمبی لمبی چھوڑنے کی۔ ہم محفل پر بھی اسی طرح کی ایک چیز کی بات کرچکے ہیں۔ اور سارا پیپر ورک مکمل ہونے کے بعد بڑے آرام سے ٹھنڈے ٹھنڈے گھروں کو جاچکے ہیں اب اس دھاگے کو کوئی ہفتے میں ایک بار بھی نہیں دیکھتا۔ یہ سب کچھ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر تو کبھی نہیں ہوسکے گا۔ اس کے لیے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنا ہوگا۔ میں پھر کہہ رہا ہوں بلاگ لکھ دینا۔ بی بی سی اردو سے احتجاج کی تصاویر اٹھا کر پوسٹ کردینا۔ صاحب اقتدار کو گالیاں دے دینا بے کار ہے۔ کمی ہے اور وہ کمی ہے جراءت کی۔ باتیں بہت ہوسکتی ہیں۔ میں ایک گھنٹے میں‌ ایک تنظیم کا ڈھانچہ تیار کرکے مہیا کرسکتا ہوں۔ دو چار لوگ تعریف کریں گے میں‌ خوش ہوجاؤں گا اور بات آئی گئی ہوجائے گی۔ کیسی بحالی کہاں کی بحالی اور ترقی۔ سب جائے بھاڑ میں مَیں پھر سے اپنے کام لگ جاؤں گا۔
صاحبان حل یہ ہے کہ میرے بزرگ احباب جو بلاگر ہیں اور جو محفل پر موجود ہیں اور میرے وہ دوست جو انٹرنیٹ پر اندرون و بیرون ملک موجود ہیں مل کر جدوجہد کرنے کی بنیاد رکھیں۔ اس سلسلے میں ایک سادہ سا قدم اردو بلاگرز کی میٹنگ ہوسکتا ہے۔ جس میں بیٹھ کر اردو بلاگنگ پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے اور کسی ایسی تنظیم یا آرگنائزیشن کی بھی۔ جو کچھ میں‌ یہاں کہہ رہا ہوں اس سے زیادہ تلخ حقیقتیں اس روبرو میٹنگ میں سامنے آئیں گی اور ان کا تدارک تب ہی ممکن ہے۔ تب ہی سوچا جاسکے گا کہ کیا کیا جائے، کیا کِیا جاسکتا ہے اور کیسے کیا جاسکتا ہے۔
اگر آپ کے خیال میں ایس کچھ عملی طور پر ممکن نہیں۔ یا آپ جدوجہد کو مجازی دنیا میں ہی چلانے پر مصر ہیں۔ تو موج کیجیے۔ اس ملک کا کیا ہے خصماں نوں کھائے۔ ساتھ سے چل رہا ہے آگے بھی چل ہی جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ دو چار ٹوٹے ہوجائیں گے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان بھی تو الگ ہیں‌ وہ بھی جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی بھی جی رہے ہیں ہم بھی جی لیں گے۔ پھر پشاور کراچی اور کوئٹہ جانے کے لیے ویزہ چاہیے ہوا کرے گا اور تو کچھ نہیں۔
رب راکھا

جمعرات، 15 نومبر، 2007

ایک بار پھر سے

عزیزان من ہم ایک بار پھر سے آنلائن ہیں۔ مکی بھائی کا شکریہ جن کے ساتھ مل کر ہم نے نئی بلاگ ہوسٹنگ لی ہے۔ اس عرصے میں بہت کچھ ہوگیا۔ فرصت ملنے پر اس پر لکھوں گا۔


تھیم شاید آپ کو فائر فاکس پر تنگ کرے۔ لیکن گزارہ کیجیے فی الحال۔ چونکہ ہماری عادت ہے کہ بلاگ نیا تو تھیم بھی نیا اور اپنے ہاتھ سے لولا لنگڑا اردو کیا ہوا۔ کسی سادے سے تھیم کو اب دیکھتے ہیں مزید اردو کرنے کے لیے۔


وسلام

پیر، 15 اکتوبر، 2007

سبحان اللہ دل خوش ہوگیا

افتخار اجمل صاحب کی حالیہ پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ آج ذرا فراغت تھی میں نے سنت کی آئینی حیثیت از ابواعلٰی مودودی کا دیا گیا پی ڈی ایف ربط اتار لیا۔ ابھی صرف ایک سو پچاسی صفحات پڑھے ہیں۔ شاید مزید پڑھنے کی بھی توفیق نہ ہو۔ لیکن بخدا مزہ آگیا ایک بار۔


وہ منکر حدیث صاحب کج بحث اور نئے اعتراضات جڑنے کے ماہر ہی معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی علمی بات تو ان سے ہو نہیں رہی۔ بس بودے اعتراضات کیے چلے جارہے ہیں۔ ایک دو جگہ مجھے اپنی کم علمی کی وجہ سے اعتراضات میں وزن لگا لیکن جب قرآن سے اس کا ثبوت مودودی صاحب نے نکال کر دیا تو سب کچھ آئینے کی طرح شفاف ہوگیا۔


یہ کوئی پچاس سال پرانی بات ہے۔ لیکن اعتراضات وہی ہیں جو ابھی کچھ دن پہلے ہی محفل پر کیے جارہے تھے۔ احادیث کو لکھا کیوں نہیں گیا۔ ان کتب میں ہر چیز قابل اعتبار کیوں نہیں ۔یہ کیوں نہیں وہ کیوں نہیں۔ یہ کتب روایات ہیں۔ اور پھر جب موسیقی کے حلال حرام کا قصہ آیا تو قرآن کی ایک آیت جس کا مفہوم ہے تم پر جو چیزیں حلال کی گئی ہیں ان سے پچھے نہ ہٹو وغیرہ کا حوالہ دے کر مطمئن ہوجانا۔ لیکن دین صرف قرآن کا نام ہی نہیں۔ صاحب قرآن کے احکامات اور اطاعت کا نام بھی ہے۔


بخدا میرے تصورات اس کتاب کے معاملے سے مزید کلئیر ہوئے ہیں۔ یہ حق و باطل کی جنگ بڑی پرانی ہے چناچہ مجھے اب کوئی چنتا نہیں۔ اللہ سائیں بہتر کرے گا۔ اگر اس وقت ابو لاعلٰی مودودی جیسے علماء موجود تھے تو آج بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقین موجود ہیں۔

اتوار، 14 اکتوبر، 2007

اور عید گزر ہی گئی

پچھلے پانچ سال سے معمول کی طرح عید کی نماز کے بعد میرے پاس کرنے کےلیے کچھ نہیں تھا۔ دو ایک فلمیں دیکھیں۔ بھلا ہو ایک دوست کا اس کا فون آگیا۔ اس کی طرف دو گھنٹے گزر گئے ۔ گھر آکر کچھ دیر نیند لی۔ اس دوران جو رہ گئے تھے انھیں عید مبارک کے میسج کیے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر جھک مارا اور اب شام کے پانچ بج چکے ہیں۔ یعنی عید گزر گئی۔


آہ۔۔۔۔۔ کیا دن تھے جب عید کو انجوائے کیا کرتے تھے۔ اب تو وہ سب خواب ہوگیا ہے۔ عیدی اول تو ملتی نہیں مل بھی جائے تو کیا کرنی ہے۔

جمعرات، 11 اکتوبر، 2007

عید مبارک

تمام احباب کو عید الفطر کی مبارکباد۔ دعا ہے یہ عید ہم سب پر ڈھیروں خوشیاں لائے۔


آمین۔


بدھ، 10 اکتوبر، 2007

نادرا کیاسک ہمارا تجربہ

ہماری حکومت کی آئی ٹی کمپنی نادرا نئے نئے "سٹیپ دکھاتی" رہتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے نادرا کیاسک کے نام سے نئی سروس شروع کی ہے۔ شناختی کارڈ کی تصدیق کروائیں، بل جمع کروائیں، موبائل فون کارڈ لیں۔ آج ہم نے بینک میں کھاتہ کھلوانا تھا لیکن اس کے لیے اب گواہی کی بجائے نادرا سے شناختی کارڈ کی تصدیق کروانا پڑتی ہے۔ ہمارے ساتھ والے محلے میں ایک کیاسک مشین نصب کی گئی ہے کچھ عرصہ پہلے۔ وہاں گئے تو  وہاں بیٹھے بابا جی بولے بھئی یہ تو تصدیق کا کام نہیں کرتی۔ کئی دن سے خراب ہے ٹھیک کرنے والے آتے ہی نہیں۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ اکبر چوک چلا جاؤں وہاں بھی ایک مشین ہے۔ میں نے سوچا چلو شہر چلتے ہیں یونیورسٹی سے بھی ہولیں گے اور یہ کام بھی ہوجائے گا۔ یونیورسٹی سے واپسی پر پہلے نادرا کے رجسٹریشن سنٹر گیا وہاں سے پتا چلا کہ وہ تو پیچھے ہے جہاں سے آیا ہوں۔ چناچہ پیدل مارچ کرکے واپس امین پور بازار آیا (فیصل آباد کے آٹھ بازاروں میں سے ایک)، پوچھ پاچھ کر اس دوکان پر پہنچا وہاں پہلے ہی پانچ چھ بندے بیٹھے ہوئے تھے بیماران کیاسک۔ کوئی بل جمع کروانے آیا تھا اور کوئی شناختی کارڈ کی تصدیق کروانے۔ لیکن مشین کا پرنٹر ہی کام نہیں کررہا تھا۔ آخر بیس پچیس منٹ بیٹھ کر میں لوٹ آیا۔  اب کل دوبارہ اکبر چوک جاکر ٹرائی کروں گا اگر وہ میرے جانے سے پہلے خراب نہ ہوگئی تو۔


ہماری یہ بڑی گندی عادت ہے کہ سکیم شروع کردیتے ہیں پھر اس کو چلانا اور اس کی دیکھ بھال کا کوئی مربوط اور منظم نظام نہیں ہوتا۔ بس سروس سے لے کر کیاسک تک یہی حال ہے۔

دوسال

میرے بلاگ کی پہلی پوسٹ پر 9 اکتوبر 2005 کی تاریخ درج ہے. بلاگ سپاٹ پر میں نے اکتوبر 2005  کے زلزلے کے ایک دن بعد پہلی پوسٹ لکھی تھی۔ اس کے بعد کبھی لکھا کبھی نہ لکھا اور پھر اسے ورڈپریس پر منتقل کرلیا۔ دوسال۔۔۔


پتا نہیں ان دوسالوں میں مَیں نے کچھ اچھا کام بھی کیا ہے یا نہیں۔ لیکن مجھے اتنا احساس ہے کہ اردو بلاگنگ نے مجھے شعور بخشا۔ میں آج اگر بلاگنگ کرتا ہوں، یا ویب کے بارے میں میرے پاس کچھ علم ہے تو یہ میرے ان احباب کی کرم فرمائی ہے جو اردو محفل پر اور اردو بلاگنگ کی دنیا میں موجود ہیں۔


ان سب کا شکریہ جنھوں نے مجھے بلاگ شروع کرنے میں مدد دی، قدیر رانا، نبیل نقوی، زکریا اجمل اور محفل کے سارے دوست۔ ان سب کا شکریہ جن کے تبصروں اور حوصلہ افزائی نے مجھے مہمیز کیا کہ میں بھی لکھ سکتا ہوں۔

پیر، 8 اکتوبر، 2007

ہماری کٹو بیگم

پرائمری میں اردو کی کتاب میں ایک سبق پڑھا تھا کٹو بیگم۔ ایک مرغی جسے اپنے آپ پر بڑا غرور ہوتا ہے۔ ہماری مرغی بھی کٹو بیگم لگتی ہے۔ اب تو اس کے پیارے پیارے سے چوزے بھی ہیں جو ابھی صرف تین دن کے ہیں۔ بیس سے زیادہ انڈے اس کے نیچے رکھے تھے۔ جن میں سے گیارہ چوزے نکلے ہیں۔ اللہ کرے یہ بلی اور بیماریوں سے بچ جائیں اب۔


 


اتوار، 7 اکتوبر، 2007

اوبنٹو 7.10 گسٹی گبن


ٹھیک گیارہ دن بعد اوبنٹو کا نیا ورژن گسٹی گبن جاری کیا جارہا ہے۔ اس ورژن میں کافی ساری نئی چیزیں متعارف کروائی گئی ہیں۔




  • گوگل ڈیسکٹاپ جو اس سال لینکس کے لیے بھی جاری کردیا گیا تھا  کے مقابلے پر اوبنتو اور کبنٹو دونوں میں ڈیسکٹاپ تلاش گر متعارف کروائے گئے ہیں۔ امید ہے یہ "پیدائشی" اطلاقیے گوگل ڈیسکٹاپ کی نسبت بہتر اور تیزی سے کام کریں گے۔

  •  این ٹی ایف ایس فائل سسٹم کی رائٹنگ سپورٹ شامل کردی گئی ہے۔ اس سے پہلے اوبنٹو لینکس اور اس کے "بچڑے" صرف اس کو پڑھ ہی سکتے تھے۔ یہ کام این ٹی ایف ایس 3 جی نامی ایک ڈرائیور کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

  • اوبنٹو میں سہ جہتی اثر کے لیے کمپز بیرائل طےشدہ طور پر شامل کردیا گیا ہے۔ اگر آپ کا سسٹم اس قابل ہے (یعنی کم از کم 512 میگا بائٹ ریم اور 64 میگا بائٹ سے زیادہ گرافکس کارڈ میموری والا) تو سہ جہتی ڈیسکٹاپ خود بخود دوران تنصیب فعال ہوجائے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ صرف اوبنٹو میں کیا گیا ہے۔ کبنٹو میں یہ سارا کام خود سے کرنا ہوگا۔

  • کبنٹو میں کنکرر کی چھٹی کرکے ڈولفن کو فائل مینجر بنا دیا گیا ہے۔ اگرچہ کنکرر بھی یہ کام کرتا رہے گا۔

  • کے ڈی ای 4 اس اشاعت میں شامل نہیں۔ اس کا مستحکم ورژن اکتوبر کی بجائے اب نومبر میں متوقع ہے۔

  • کبنٹو میں ایجوکیشن اوبنتو کے پیکج شامل کردیئے گئے ہیں۔ ایجو اوبنتو اصل میں اوبنٹو کا ایک بچڑا ہے جو کہ خصوصًا بچوں اور اساتذہ کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن اس کے سارے اطلاقیے کے ڈی ای ایجوکشن پروجیکٹ سے لیے گئے ہیں جبکہ ڈیسکٹاپ گنوم ہے۔ اب یہ سارے اطلاقیے آپ کبنٹو میں ایک کمانڈ سے نصب کرسکتے ہیں۔



sudo apt-get install edubuntu-desktop-kde




  • فائر فاکس اور کنکرر میں پلگ انز کی تنصیب زیادہ آسان کردی گئی ہے۔ خصوصًا فائر فاکس میں اب انھیں ونڈوز کی طرح پلگ ان سرچ سے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔

  • اوبنٹو میں سکرین ریزولوشن کم زیادہ کرنے کے لیے ایک ٹول شامل کیا گیا ہے

  • ملکیتی ڈرائیورز کو منظم کرنے کے لیے ایک ڈرائیور مینجر الگ سے دونوں میں شامل کیا گیا ہے۔

  • اوبنٹو میں پرنٹرز کی تنصیب کے بارے میں مزید بہتری لائی گئی ہے۔ اب یہ خودکارانہ نصب ہوتے ہیں۔

  • اوبنٹو میں غیر مفت پروگرام انسٹال کرنے کے لیے ایک پیکج ترتیب دیا گیا تھا۔ اسی طرح کا پیکج اب کبنٹو کے لیے بھی kubuntu-restricted-extras  کے نام سے دستیاب ہے۔ اس میں جاوا، فلیش پلئیر، کوڈکس وغیرہ شامل ہیں۔

  • کبنٹو کا آرٹ ورک اور اس کی دستاویزات کو بھی جدید کیا گیا ہے۔


ہم تو ابھی سے دانت تیز کررہے ہیں کہ سسٹم کو اپگریڈ کریں۔

 




 

ہفتہ، 6 اکتوبر، 2007

بریت

"اوئے مودے کچھ سنا تم نے۔" شیدے نے بڑے رازدارانہ انداز میں اس کے قریب آکر کہا۔


 

"کیوں کیا ہوگیا ہے" مودے چرسی نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے مسرور لہجے میں کہا۔


 

"اوئے سنا ہے نیا قانون آیا ہے اور دس سال کے مقدمے معاف۔"


 

"سچیں شیدے تو کہیں مذاق تو نہیں کررہا؟" مودے چرسی کا سارا نشہ ہرن ہوگیا تھا۔


 

" او نہیں یار اپنا باؤ اشفاق سب کو خبریں پڑھ کر سنا رہا تھا وہاں تھڑے پر۔ وہاں سے پتا لگا ہے۔" شیدے نے منہ بنا کر جواب دیا۔


 

"اوئے پھر تو ہم بھی حاجی ہوگئے ہیں۔ اوئے میرے اوپر چرس بیچنے کا مقدمہ دس سال پرانا ہی ہے۔ اوئے وہ تو گیا۔" مودا چرسی جیسے ہواؤں میں اڑنے لگا۔


 

 "میرے اوپر حاجیوں کی مرغیاں چوری کرنے کا الزام بھی اب ختم ہوجائے گا۔" شیدے نے کُکڑ کی طرح سینہ پھلاتے ہوئے کہا۔


 

"او چل بھئی پھر تھڑے پر جاکر بیٹھتے ہیں۔ اب ہم بھی عزت دار لوگ ہیں۔" مودے چرسی نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اور اسے پھینکتے ہوئے بولا۔


 

"ہاں ہاں۔ باؤ اشفاق سے خبریں سنتے ہیں۔ بلکہ اس کے لیے مٹھائی لے کر چلتے ہیں۔" شیدے نے جیب پر ہاتھ مارتے ہوئے ایک پچاس کا نوٹ نکالا۔


 

"کیوں بھئی آج بڑی مٹھائیاں کھلا رہے ہو۔" ریٹائرڈ ماسٹر محمد اسلم نے مودے کے ہاتھ سے برفی لے کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔


 

"ماسٹر جی آپ کو نہیں پتا۔آج کا اخبار کیا کہہ رہا ہے؟"


 

"کیا کہہ رہا ہے بھئی" ماسٹر اسلم نے جیسے مزہ لیتے ہوئے کہا۔


 

"او جی اب سارے مقدمے معاف ہوجائیں گے۔ اب ہم مشتبہ بھی نہیں رہیں گے جی۔ محلے کا تھانے دار ہمیں تنگ نہیں کرے گا۔ اب ہم بھی عزت دار لوگ ہیں جی۔ نیا قانون جو پاس ہوا ہے۔" مودے چرسی نے چرس کے بغیر نشے میں آکر کہا۔


 

اور اس کی یہ بات سن کر تھڑے پر بڑے زور کا قہقہہ پڑا۔ باؤ اشفاق نے ہنسی سے دوہرے ہوتے ہوئے کہا


 

" مودے تجھے کس نے کہہ دیا کہ تیرے مقدمے معاف ہوگئے ہیں۔"


 

"جناب جب قانون بنتاہے تو سب کے لیے ہوتا ہے نا۔ تو ہم بھی تو یہیں رہتے ہیں۔" مودے کی آواز میں ہلکی  سی ہکلاہٹ آگئی۔


 

"او بھولے بادشاہ یہاں قانون خاص لوگوں کے لیے بنتے ہیں۔ یہ قانون تیرے میرے لیے نہیں وڈے بدمعاشوں کے لیے ہے۔ ان کے دس سال کے مقدمے معاف ہوگئے ہیں۔ تاکہ پھر ہماری رگوں سے آکر لہو نچوڑیں۔ یہاں قانون سب کے لیے نہیں صرف وڈے لوگوں کے لیے بنتا ہے۔" باؤ اشفاق کا لہجہ زہر میں بجھا ہوا تھا۔


 

"تے فیر ہمارے مقدمے ویسے ہی رہیں گے۔" مودے چرسی اور شیدے کے منہ پھر سے لٹک گئے۔


 

"ہاں تمہارے مقدمے ایسے ہی رہیں گے۔ اگر تم نے بھی مقدمے معاف کروانے ہیں تو اچھی نسل کا جرم کرکے آؤ۔ اس قوم کو لوٹو۔ کرپشن کرو۔ پولیس مقابلوں میں بندے مرواؤ۔ اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمے درج کرواؤ۔ پھر تمہیں معافی مل سکتی ہے۔" اس بار ماسٹر اسلم کے لہجے میں بلا کی کاٹ تھی۔ اور مودا شیدے کے کندے پر ہاتھ رکھ کر واپس پلٹ پڑا۔ چل یار دو سُوٹے لگاتے ہیں بیٹھ کر۔


 

 

جمعہ، 5 اکتوبر، 2007

بلڈی پورز

ہر بچہ پڑھ جائے گا تے ملک ترقی پائے گا۔


صاحب کیا واقعی ایسا ہی ہوگا۔


ہاں ہاں کیوں ایسا ہورہا ہے۔ تم نے ٹیلی وژن پر نہیں دیکھا۔ بچے سکول جارہے ہیں۔ انھیں کتابیں مل رہی ہیں۔ میں روز تو پڑھا لکھا پنجاب ہمارا کے ساتھ ٹیلی وژن پر آتا ہوں۔


پر صاحب ہمارے محلے میں جو ہائی سکول ہے اس میں تو صرف ڈیڑھ سو بچہ رہ گیا ہے باقی سب بھاگ گئے ہیں۔


اچھا اسے چھوڑو یہ سنو۔ سب کی خدمت فرض ہمارا صحت مند پنجاب ہمارا۔ دیکھا پنجاب کتنا صحت مند ہوگیا ہے۔ پہلے کبھی ایسا ہوا تھا؟


پر صاحب ہمارے محلے میں جو ہسپتال جتنی بڑی ڈسپنسری تھی اس میں اب ناظم نے دفتر بنا لیا ہے۔


اوئے کم عقل جو میں دکھاتا ہوں وہ دیکھو۔ چھوٹے لوگ اور چھوٹی سوچ کی جان چھوڑ دو۔ ٹیلی وژن پر دیکھو یہ آج کی حقیقت ہے باقی سب چھوڑو۔


صاحب اس پر تو اربوں روپے لگتے ہونگے نا مشہوری دینے کے لیے؟ اگر یہ عوام پر لگتے تو کتنا اچھا ہوتا۔


ابے چپ کر۔ جنرل صاحب ٹھیک کہتے ہیں بڈی پورز انھیں ذرا بھی تمیز نہیں۔ دفع ہوجاؤ

منگل، 2 اکتوبر، 2007

نیوز پورٹل

یہ تھیم اس وقت مورخہ 7 جنوری 2007 کو ہمارے بلاگ کے زیر استعمال ہے۔ اس تھیم میں ایک آدھ ناقابل غور غلطیوں کے علاوہ اور کوئی غلطی موجود نہیں۔مکمل اردو ترجمہ شدہ ہے اور ویب پیڈ اس بار ہم نے تھیم کے فولڈر میں ہی رکھ دیا ہے اب صارف کو صرف اسے حاصل کرکے ورڈپریس کی /wp-contetn/themes ڈائرکٹری میں چڑھانے کی زحمت کرنا پڑے گی اور کچھ نہیں۔ اس تھیم میں قدیر احمد رانا کی مہربانی سے ایک اور چھوٹی سی خوبی بھی شامل کی گئی ہے کہ اس کا فونٹ اپنی پسند کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔ یہ کھڑاگ اس لیے پھیلانا پڑا کہ ہم جو پاک نستعلیق کے بڑے دعویدار بنے پھرتے تھے لینکس پر اس کے درست نظر نہ آنے کا سن کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اور مجبوًا اردو نسخ ایشیا ٹائپ کو بنیادی فونٹ بنانا پڑا دوبارہ سے۔ البتہ اس جاوا سکرپٹ میں پاک نستعلیق کا انتخاب بھی شامل کردیا گیا ہے۔ دعا ہے کہ پاک نستعلیق کا لینکس پر پیشکش کا مسئلہ جلد حل ہو اور ہم اپنے بلاگ اور آئندہ تھیموں کا بنیادی فونٹ اسے بنا سکیں۔ اگر آپ کو اچھا لگے تو دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔ وسلام Free Image Hosting at www.ImageShack.us اتارنے کے لیئے یہاں کلک کریں متبادل ربط


 

فلوئڈ سلوشن

بہت دنوں بعد ایک تھیم اردو کیا ہے۔ اور پہلی بار اپنے بلاگ پر لگانے کی بجائے اردو کے لیے اردو کیا ہے۔ چناچہ قبول کیجیے۔ سادہ سا تھیم ورڈپریس 2.3 کے ساتھ چلنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ نفیس رقعہ فونٹ کو سرخیوں پر استعمال کرنے سے اس کی خوبصورتی اور بھی بڑھ گئ ہے۔


 


Free Image Hosting at www.ImageShack.us


اتارنے کے لیے یہ ربط ملاحظہ کریں۔


 

پیر، 1 اکتوبر، 2007

محب علوی اردو ورژن

محب علوی کے ساتھ ہمارا ایک معاہدہ تھا کہ ان پر اس وقت تک نہیں لکھوں گا جب تک یہ میرے بارے نہیں لکھ دیتے۔ لیکن انھوں نے چونکہ ایسا کافی عرصے سے نہیں کیا تو ہم معاہدے کے "سو سال" پورے ہونے پر اسے کالعدم سمجھتے ہوئے بسم اللہ کرتے ہیں۔ یہ پہلے لکھی گئی پنجابی پوسٹ کا اردو ورژن ہے۔
محب علوی اب تو اچھی طرح یاد بھی نہیں محفل پر کب آیا تھا۔ شاید ہمیشہ سے محفل پر ہی تھا۔ آپ یقین کریں یا نہیں مجھے زندگی میں پہلا ملنے والا علوی محب علوی ہی تھا۔ شادی شہداء بندہ ہے لیکن کام اس کے کاکوں والے ہیں۔
ٹیلی فون کرے تو پونا گھنٹا تو گیا۔ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ فون اکتا کر اس کے ہاتھوں سے بھاگتا ہے تب یہ کال ختم کرتا ہے۔ اردو کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اس کے اندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ اب یہ ٹھاٹھیں کس قسم کی ہیں میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ہوسکتا ہے اونچی ایڑی والے سینڈل کی "ٹھا ٹھا" ہوں۔
ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے، لیکن یہ وہ بندا ہے جو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ باتیں اس طرح سناتا ہے کہ اگلا بندہ کہتا ہے بس دنیا تو یہی ہے۔ اس کی اسی خاصیت کی وجہ سے اسے اردو لائبریری کا افسر تعلقات عامہ بنایا گیا ہے۔ اردو ٹیک پر گیا تو وہاں بھی سائیاں اسے مزدوروں کا ہیڈ بنا دیا ہے۔
سٹیٹ لائف والوں کی بدقسمتی یہ ان کو نہیں مل سکا۔ چکما دے کر سافٹ وئیر پروگرامنگ کی طرف نکل آیا۔ ورنہ اس کے لچھن انشورنس ایجنٹوں والے ہیں۔ باتوں باتوں میں بیمار کو کھڑا کرے اور کھڑے کو بیمار کردے بیچارہ ہائے ہائے کرتا پھرے۔ اچھے بھلے بندے کو آسمان پر چڑھا دیتا ہے۔ خود بے نیازی سے آگے بڑھ جاتا ہے پیچھے وہ غریب چاہے اپنی ہڈی پسلی تڑوا بیٹھے۔
شروع شروع میں مجھے بھی اس نے آسمان پر چڑھایا تھا۔ لیکن شکر ہے بچ بچا ہوگیا۔ ورنہ مجھے تو اپنے اندر وہ وہ خوبیاں نظر آنے لگی تھیں کہ کبھی خواب میں نہیں سوچا تھا۔ ایسے بندے سے تو بندہ حسد بھی نہیں کرسکتا۔ حسد کس چیز پر کرے۔ الٹا یہ آپ کو پتنگ کی طرح آسمان پر چڑھا دے گا۔
کوئی پراجیکٹ چلانا اس کے بائیں ہاتھ کی مار ہے۔ سب کو ایک دفعہ گھن چکر بنا ڈالتا ہے۔ تم بھی آجاؤ، تم بھی آجاؤ۔ ایسے ایسے بندے لے آتا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ لوگ نا نا کرکے بھی کام کر جاتے ہیں۔ بس اتنا ہی، ہاں ٹھیک ہے اتنا ہی۔ اچھا تھوڑا سا اور چلو دے دو یہ بھی۔ اور اتنے میں کام ہی ختم ہوجاتا ہے۔
میں مشورہ دوں گا جن ماؤں کے بچے سکول نہیں جاتے، کڑوی دوا پلانے پر تنگ کرتے ہیں۔ وہ چینی کی جگہ محب علوی کو ٹرائی کریں انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔
اس بندے کا نام محب علوی نہیں محبوب علوی ہونا چاہیے تھا۔ اردو کے ساتھ محبت رکھنے والے محب علوی سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا اصلی نام فاروق ظفر ہے۔ جس سے شک پڑتا ہے کہ یہ ایس ایم ظفر کا کوئی رشتے دار ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ اپنا اصلی نام پبلک نہیں کرتا۔
خیر ہمیں یار کی یاری سے غرض۔ محب علوی سدا خوش رہے۔ بیبا بندہ ہے۔ (بی با پنجابی میں اچھے بندے کو کہتے ہیں)۔ دعا ہے اس کا ہمارا اور اردو کا ساتھ ہمیشہ قائم رہے۔ آمین۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور لسانیات

ہمارے اگلے سمسٹر میں ایک مضمون پڑھایا جائے گا ہمیں جس کا نام سٹائلسٹکس ہے۔ اردو ترجمہ کریں تو انداز بیاں۔ اس کا کام یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے انداز بیاں کا کھوج لگائے۔ یہ انداز کسی لکھاری کا بھی ہوسکتا ہے جیسے آپ ممتاز مفتی کو اس کی تحریر سے پہچان لیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ مخصوص الفاظ، کچھ گرامر کے پیٹرنز کا بے تکلفانہ استعمال کرتا ہے۔ گرامر کے پیٹرن کا ایک رف سا خاکہ یہ ہوسکتا ہے کہ محی الدین نواب کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ گئی، گیا نہیں لکھتا ہمیشہ یہ لکھے گا کہ چلتی ہوئی گئی، چلتا ہوا گیا۔ یہ چلتا ہوا گیا جو کہ ایک فعل گیا کی جگہ استعمال ہورہا ہے ایک خاص گرامر پیٹرن ہے۔۔کم از کم میں فورًا پہچان جاتا ہوں کہ یہ بندہ محی الدین نواب ہے۔


اگر ہم عمومی سٹائلسٹکس کی بات کریں تو یہ انداز کسی خاص شعبہ زندگی کے لوگوں کا ہوسکتا ہے۔ جیسے قانون سے تعلق رکھنے والوں کی ایک مخصوص پیشہ ورانہ زبان ہوتی ہے۔ جسے وہ عدالتوں، کچہریوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان کو بھی ان کے انداز بیاں سے پہچان لیتے ہیں۔


کسی بندے کا تکیہ کلام اس کے انداز بیاں کا حصہ ہے چناچہ اکثر آپ تکیہ کلام کے بل پر دوسرے بندے کو پہچان لیتے ہیں۔ سٹائلسٹکس میں کئی مثالیں موجود ہیں جن میں کسی بے نام لکھاری کی تحاریر کو اس تجزے کی بنیاد پر شناخت کرلیا گیا۔ کام صرف اتنا تھا کہ بے نام لکھاری کی تحاریر کا سٹائلسٹکس تجزیہ کیا جائے، کس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے، فعل زیادہ یا اسماء زیادہ، کونسے گرامر پیٹرن زیادہ استعمال کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کام کو ان لکھاریوں کی تحاریر کے تجزیے سے ملایا گیا جن کے بارے میں کنفرم تھا کہ اس تحریر کا لکھاری یہی ہے۔ اس طرح گمنام لکھاریوں کو انداز بیاں ایک ہونے کی بناء پر جانے مانے لکھاری سے ملایا گیا اور بعض اوقات سو سال بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ گمنام تحریر فلاں لکھاری کی ہے۔


اسی بنیاد پر میں نے آج سوچا کہ اگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سٹائلسٹکس تجزیہ کیا جائے تو کیسا رہے؟ یہ خیال مجھے محفل پر کئی ماہ تک پڑی رہنے والی کھپ کی وجہ سے آیا جس میں یار لوگوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچ ہونے پر انگلیاں اٹھائیں۔


اس تجزیے کے لیے ایک ایسا بندہ درکار ہوگا جو عربی اور لسانیات کی اس شاخ یعنی سٹائلسٹکس پر عبور رکھتا ہو۔ نیز عربی کا مشینی تجزیہ کرنے کے لیے کئی سافٹویر بھی درکار ہونگے۔ یعنی اچھا خاصا ایک پراجیکٹ بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارا کام تو تجویز دینا تھا۔ پتا نہیں یہ قابل عمل بھی ہے یا نہیں۔ چونکہ احادیث کو جانچنے کے کئی معیارات صدیوں سے مستعمل ہیں۔ اسماء الرجال اور شاید صرف و نحو بھی۔ ان میں شاید انداز بیاں کا تجزیہ جیسی کوئی چیز بھی ہو۔


آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟

اتوار، 30 ستمبر، 2007

محب علوی

محب علوی نال میرا ایک معاہدہ ہویا سی کے او میرے اُتے لکھن گے تے فیر میں کاؤنٹر اٹیک کراں گا۔ لیکن عرصہ ہویا ایس گل نوں۔ اج اونھاں نال گل ہورہی سی تے میں سوچیا چلو اے وی فرض ادا کردے چلئیے۔ چونکہ معاہدے دے مطابق میں کاؤنٹر اٹیک کرناں سی ایس لئی اردو دی جگہ پنجابی وچ لکھن لگا واں۔


محب علوی مینوں ہن تے یاد وی نئیں آؤنداں محفل سے کدوں آیا سی۔ لگدا اے جیویں اے ہمیشہ توں محفل تے سی۔ تسی یقین کرو یا نہ کرو زندگی وچ پہلی دفعہ جس علوی نال ملیا او محب علوی سی۔ حالانکہ شادی شہداء بندہ اے لیکن ایدے کم کاکیاں والے نیں۔


ٹیلی فون کرے گا تے پونا کینٹا کتے نئیں گیا۔ مینوں تے اینج لگدا اے فون اَک کے ایدے ہتھوں نکل کے نسدا اے تے اے کال مکاؤندا اے۔ اردو واسطے کجھ کرن دا جذبہ ایدے اندر ٹھاٹھاں ماردا اے۔ اے ٹھاٹھاں کس قسم دیاں نیں میں کجھ کہہ نئیں سکدا۔ شاید اُچی اڈی والے سینڈل دیاں ٹھاٹھاں۔


ہون نوں بہت کجھ ہوسکدا اے، لیکن اے ایسا بندا اے جیڑا بہت کجھ کرسکدا اے۔ گلاں اینج سناؤندا اے کہ اگلا بندہ کہندا اے بس دنیا تے اے ہو ای اے۔ ایدی ایسے خاصیت دی وجہ توں اینھوں اردو لائبریری دا افسر تعلقات عامہ بنایا گیا اے۔ اردو ٹیک تے گیا تے اوتھے وی سائیاں اینھوں مزدوراں دا ہیڈ بنا چھڈیا۔


سٹیٹ لائف والیاں دی بدقسمتی کہ اونھاں نو نئیں مل سکیا چکانویں دے کے سافٹ وئیر پروگرامنگ ول آگیا۔ ورنہ ایدھے لچھن انشورنش ایجنٹاں والے نیں۔ گلاں گلاں وچ بیمار نو کھڑا کر دوے دے کھڑے نوں لمے پا دوے وچارہ ہائے ہائے کردا پھرے۔ چنگے پلے بندے نوں زمینوں چک کے اسمانیں چڑھا دندا اے۔ فیر آپ بے نیازی نال اگے ودھ جاندا اے پچھوں پانویں او غریب اپنی ہڈی پسلی تڑا بیٹھے۔


شروع شروع چ مینوں وی اسمانیں چڑھایا۔ لیکن شکر اے بچ بچا ہوگیا۔ ورنہ مینوں اپنے آپ وچ او او خوبیاں نظر آؤن لگ پیاں سی جہیڑیاں کدی میں خواب وچ وی نئیں سی سوچیاں۔ ایہو جئے بندے کولوں تے بندہ سڑ وی نئیں سکدا۔ بھئی سڑے کس چیز تے، الٹا آپ تھلے بے کے تہانوں گڈی وانگ اسمانیں چاڑھد دندا ے۔


کوئی پراجیکٹ چلاؤنا ایدے کھبے ہتھ دی مار اے۔ ساریاں نوں ایک دفعہ تے گھن چکر بنا دیندا اے۔ فلانیاں نوں وی آجا ٹینگڑیا توں وی آجا۔ ایسے ایسے بندیاں نوں لے آؤندا اے کہ تسی سوچ وی نئیں سکدے۔ لوکیں نا نا کرکے وی کم کرجاندے نیں۔ بس اینھاں ای، ہاں ٹھیک اے اینھاں ای۔ اچھا تھوڑا جئا ہور چل دے اے وی۔تے اینیں دیر وچ کم ای مک گی ہندا اے۔


میں مشورہ دواں گا جنھاں ماواں دے بچے سکول نئیں جاندے، کوڑی دوائی پین لگے تنگ کردے نیں۔ او چینی دی بجائے محب علوی نوں ٹرائی کرن انشاءاللہ افاقہ ہوئے گا۔


ایس بندے دا ناں محب علوی نئیں محبوب علوی ہوناں چائیدا سی۔ اردو نال محبت رکھن والے محب علوی نال وی محبت رکھدے نیں۔ اے علیحدہ گل اے کہ پاء جی ہوراں دا اصل ناں فاروق ظفر اے۔ مینوں ایس ایم ظفر دے کوئی قریبی شریبی لگے نیں، شاید ایسے وجہ توں محب علوی کہلواؤندے نیں۔


خیر سانوں یار دی یاری نال غرض۔ محب علوی سدا خوش رہوے۔ بیبا بندا اے۔ (نہ بی بی نا بابا، بلکہ بی با رب جانے کیس سیانے نے اے لفظ ایجاد کیتا سی خیر چھڈو تسیں اگے پڑھو) دعا اے ایدا ساڈا تے اردو دا ساتھ سدا قائم رہے۔ اور آ

جمعہ، 28 ستمبر، 2007

امید

چیف جسٹس معطل ہوئے تو پوری قوم کو جیسے 440 وولٹ کا کرنٹ لگ گیا۔ اس وقت تک سب چین سے نہیں بیٹھے جب تک چیف جسٹس بحال نہیں ہوگئے۔ چیف جسٹس بحال کیا ہوئے سب کی نظریں ان پر لگ گئیں جیسے اب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ہماری یہ بڑی بری عادت ہے کہ اتنی جلدی امید لگا لیتے ہیں جیسے ابھی کوئی معجزہ ہوگا، جادو کی چھڑی گھومے گی، کوئی چھومنتر کہے گا اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔


آج بی بی سی کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے صدر مشرف کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے آئینی درخواستیں خارج کردی ہیں۔ اس قسم کے آثار ججوں کے تبصروں سے ہی دکھ رہے تھے۔ جانے اس خبر سے کتنوں کو دھچکا لگے گا۔ جانے کتنے بے ہوش ہونگے، چاہے کسی کا دم ہی نکل جائے۔ اور کتنے غصے میں آکر سپریم کورٹ کو طنز کا نشانہ بنائیں گے۔


لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب پورے جسم پر سڑے ہوئے زخم ہوں تو ان کا علاج کیا ایک دن میں ہوجاتا ہے؟ نہیں ہوتا۔ یہی حال ہمارا ہے۔ بحیثیت قوم ہماری کیفیت کوڑھ کے مریض جیسی ہے۔ جو اس بات کا منتظر ہے کہ آسمان سے بارش ہوگی اور اپنے ساتھ اس کے کوڑھ زدہ زخموں کو بہا لے جائے گی۔


لیکن یہ اس کی بھول ہے۔ کوڑھ صدیوں کی کاشت ہوتی ہے۔اور اسے ٹھیک ہونے میں بھی اتنا ہی عرصہ چاہیے۔ پاکستانی قوم کا کوڑھ عشروں کی کاشت ہے۔ یہ اتنی جلدی نہیں جانے والا۔


جن کی امیدیں ٹوٹیں مجھے بڑا افسوس ہے۔ لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ یہی حال باقی امیدوں کا بھی ہوگا۔ پرویز مشرف پھر سے صدر منتخب ہوجائے گا۔ حزب اختلاف کے استعفے بے کار جائیں گے۔ یہ لوگ عوام کو اس ایشو پر بھی سڑکوں پر لانے میں ناکام رہیں گے۔ کاروبار زندگی ایسے ہی چلتا رہے گا۔ گدھے کام کرتے رہیں گے ۔ ان کے رکھوالے موج کرتے رہیں گے۔ بس ہوگا یہ کہ گدھوں پر بوجھ کچھ مزید بڑھ جائے گا۔ کچھ مہنگائی ہوجائے گی۔ کچھ ٹیکس اور لگ جائیں گے۔ یہ جو غبارے میں پریشر بڑھا ہوا تھا۔ بڑے پیار سے آہستہ آہستہ نکل جائے گا۔


ہاں ایک راستہ ہے۔ جیسے ایران میں ہوا تھا۔ ایک خونی انقلاب، جو شاید اس قوم کی تقدیر کو بدل دے ۔ لیکن انقلاب بہت کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ ماؤں کے بیٹے، بہنوں کے بھائی، سہاگنوں کے تاج اور بچوں کے والی۔ اگر انقلاب نہیں تو پھر نشتر بہت احتیاط سے چلانا ہوگا۔ تاکہ صحت یابی بھی ہو اور خون بھی کم نکلے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی، محفل پر کچھ گفتگو ہورہی ہے۔ بس یونہی ہمیں لگا شاید ہم کچھ کرسکتے ہیں۔ آپ کا خیال اگر ہم سے ملتا ہے، کہ ہم میں دم ہے ابھی، کچھ کرسکتے ہیں۔ تو آئیے شاید ہم سچ میں ہی کچھ کرسکیں۔


وسلام


 

بدھ، 26 ستمبر، 2007

بسم اللہ

ساڈے ابا جی فرماؤندے ہندے نیں کُنڈ چک لیا تے نچن توں کی ڈرنا۔ میں اج سویرے سوچیا بندیا تو بلاگ لکھدا ایں تے اپنی ماں بولی وچ وی لکھ۔ چلو وکھرا بلاگ نئیں اردو بلاگ وچ ای ایک پاسے اینھوں جگہ دے لے۔ ایسے خیال دا عملی نمونہ تہاڈے سامنے پیش اے۔


میری پنجابی جدوں لکھن لگیاں تاں پتا لگیا اے اینیں چنگی وی نئیں۔ ایویں اردو وڑ وڑ جاندی اے۔ لفظ ای کوئی نئیں ہیگا کول لکھن واسطے۔ پنجابی اسیں صرف طنز تے ہاسے واسطے رکھی ہوئی اے۔ پنجابی وچ لکھن دا خیال مینوں پشتو تے سندھی بلاگ ویکھ کے آیا۔ سادے او پرا اپنی ماں بولی وچ لکھ سکدے نیں تے اساں کیوں نئیں۔


چلو اے تے اج دے بلیٹن دا ابتدائیہ سی۔ کجھ اج دا حال سن لو۔ ہونا کی سی۔ ایک پرچہ سی ساڈا ناں اودا ایڈوانسڈ انگلش گرامرز۔ سمجھ لو جداں بکرے لئی قصائی ہندا اے یا ڈکیتاں وچ سردار اوداں ای اے پرچا سارے پرچیاں دا پیو سی۔


اسیں سویرے سُقنے پئے ہوئے ساں رب جانے کی بننی اے۔ کئیاں تے سوچ لیا سی کہ اج صئی منجی ٹھک سیں۔ منجی ٹھکنا نئیں سمجھے تے اپنے کسے پنجابی بولن والے یار کو سمجھ لیا جے۔ اے خاص اصطلاح اے تے ترجمہ کردیاں اوکھا جیا کم اے۔


گل ہورہی سی پرچے دی، لو جی جدوں آیا تے سارے گلے شکوے پُل گئے۔ ایڈا اٰسان پرچہ۔ نہ پچھو۔ بس آپاں پندرہ منٹ پہلے کیتا اے تے فیر نالدیاں دے سر کھادے نیں۔ گانے گا کے تے فقرے کس کے۔


لیکن ساڈی ٹینشن مک گئی ہے۔


سناؤ سجنو کیسا لگا پنجابی بلیٹن؟ انشاءاللہ اے ہون باقیدہ چلیا کرے گا ایس بلاگ تے۔ امید اے دوسرے پنجابی یار وی پنجابی وچ لکھن گے۔ میری املاء کجھ غلط اے، اردو دے الفاظ استعمال کر جاناں واں لیکن ہولی ہولی عادت پے جائے گی۔ پہلی کوشش کیتی اے زندگی وچ پنجابی لکھن دی۔ الفاظ دی املاء بولن دے مطابق بناون دی کوشش کیتی اے۔ غلط ہووے تے درگزر کرنا.


اجازت دیو رب راکھا


 


 

پیر، 24 ستمبر، 2007

ورڈپریس 2.3 کے ٹیگ پلگ انز

ورڈپریس ابھی آیا نہیں لیکن ڈھنڈورا گلی گلی پٹ رہا ہے۔ ورڈپریس والوں نے سادہ ٹیگ متعارف کروائے ہیں یار لوگوں نے اس بنیاد پر تین تین منزلہ پلازے کھڑے کرلیے ہیں۔ دو پلگ انز ملے ہیں دونوں ہی مجھے پسند آئے ہیں اگرچہ دونوں ہی میرے ہاں کام نہیں کررہے۔


آپ پریشان نہ ہوں آپ کے ہاں لازمی کریں گے۔ میرے پوسٹ پیج پر تو ٹنی ایم سی ای بھی عرصہ ہوا نہیں چلتا۔ چونکہ مجھے ورڈپریس سے پنگے بازی کی عادت ہے اس لیے سارا پوسٹ پیج تب سے ہی خراب ہے۔ اور سرور بھی ایسا ناراض ہوا ہے کہ کئی اپگریڈوں کے بعد بھی حالات ویسے ہیں ہیں۔ مجھے نبیل کا اردو کردہ ایف سی کے ایڈیٹر استعمال کرنا پڑتا ہے۔


خیر آپ اس کو چھوڑیں اور یہ پلگ انز دیکھیں۔ کیا شاندار چیز ہے۔ اور اجمل صاحب کے لیے خصوصًا: ورڈپریس ڈاٹ کوم پر ٹیگ کی سپورٹ شامل کردی گئ ہے۔ آپ اپنے پوسٹ پیج پر تحریر خانے کے نیچے ایک اور خانہ دیکھ سکتے ہیں جو کہ ٹیگز دینے کا ہے۔


ایڈوانسڈ ٹیگ انٹری



یہ پلگ ان آپ کے پوسٹ پیج کو خاصا لمبا کردیتا ہے۔ ٹیگ کا سلگ شامل کرنے کی سہولت مجھے کام کی لگی ہے اس طرح ٹیگ اردو ہونگے اور ان کا ربط انگریزی بنے گا۔ یعنی کیٹگری سلگ کی طرح اردو انگریزی دونوں۔


کلک ٹیگز



کلک سے ٹیگ شامل کرنے کے لیے اچھی چیز ہے۔ بالکل ویجٹ پلگ ان کی طرح اپنے ٹیگز کو ماؤس سے گھسیٹیے اور موج کیجیے۔


وسلام

تھیم میں ورڈپریس ٹیگ سپورٹ


آج  ورڈپریس والوں کو اپنا ورژن 2٫3 جاری کرنا تھا لیکن جانے کیوں نئے لوگوں کی آمد کا راگ الاپا جارہا ہے لیکن نیا ورژن نہیں جاری کیا گیا۔ خیر ہم نے تو صبح ہی اشاعتی امیدوار نمبر ایک یعنی آر سی ون پر اپنا بلاگ اپگریڈ کرلیا تھا اور تھیم میں دو پی ایچ پی فنکشن ڈال لیے تھے۔ آپ بھی یہ کرلیں۔ اگر ڈویلپمنٹ ورژن میں پڑ کر بلاگ داؤ پر لگانے کا موڈ نہیں تو ایک آدھ دن تک مستحکم اشاعت کا انتظار کریں تب تک اپنے تھیم میں یہ دو فنکشن شامل کرلیں۔ ایک فنکشن آپ کو انڈیکس اور سنگل پوسٹ پی ایچ پی میں شامل کرنا پڑے گا تاکہ پوسٹ کے میٹا میں ٹیگز بھی شامل ہوجائیں اور دوسرا ایک طرف سائیڈ بار یا نیچے فوٹر کے قریب شامل کرنا ہوگا تاکہ ٹیگز کا جھگھٹا (Tag Cloud) بھی نظر آسکے۔


تو اپنے تھیم کی مین انڈیکس ٹیمپلیٹ فائل کو کھولیں۔ اس میں یہ والا کوڈ تلاش کریں۔


َ

<?php while( have_posts() ) : the_post(); ?>
<div class="post" id="post-<?php the_ID(); ?>">
<h2><a href="<?php the_permalink() ?>" rel="bookmark" title="Permanent Link to <?php the_title(); ?>">
<?php the_title(); ?></a></h2>
<?php the_category( ', ' ); ?> <?php the_author(); ?> <?php the_time('F jS, Y'); ?>
<?php edit_post_link('Edit',' ',''); ?> <br/> <?php comments_popup_link('No Comments', '1 Comment', '% Comments'); ?>
<?php the_content(); ?>
</div>
<?php endwhile; ?>


ورڈپریس والے اسے لوپ کہتے ہیں۔ اس میں پوسٹ کے اوپر نظر آنے والی معلومات جیسے تاریخ وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ آپ اس میں یہ فنکش بھی شامل کردیں تو انڈیکس کے تحت نظر آنے والی تمام تحاریر میں ٹیگ بھی نظر آئیں گے۔



<?php the_tags(‘before’, ’separator’, ‘after’); ?>



یہ ٹیگ شامل کرنے کا ایک سٹائل ہے۔ مزید سٹائل یہ ہوسکتے ہیں۔


ہر ٹیگ نئی لائن میں:


<?php the_tags('Tags:'',''<br />'); ?>



تیر کے ساتھ الگ کئے گئے ٹیگز



<?php the_tags('Social tagging: ',' > '); ?>


وغیرہ وغیرہ۔ پسندیہدہ کوڈ کو آپ کونٹنیٹ فنکشن کے اوپر یا نیچے جہاں چاہیں شامل کردیں۔ ذاتی طور پر میں نے انھیں نیچے ہی شامل کیا ہے چونکہ یہ انگریزی میں ہونگے زیادہ تر۔ اگلی بات ہے ٹیگ جمگھٹے کی اس کو آپ سائیڈ بار میں شامل کردیں۔ سادہ سا کوڈ یہ ہوسکتا ہے۔


 

<?php if ( function_exists('wp_tag_cloud') ) : ?>
<li>
<h2>Popular Tags</h2>
<ul>
<?php wp_tag_cloud('smallest=8&largest=22'); ?>
</ul>
</li>

<?php endif; ?>


ٹیگ آپ کے پوسٹ پیج پر تحریر خانے کے نیچے ایک اور خانے میں دئیے جاسکتے ہیں۔ اس تحریر کے لیے میں نے ورڈپریس کوڈکس کے ان موضوعات ایک اور دو اور اس بلاگ سے استفادہ کیا ہے۔ 










اتوار، 23 ستمبر، 2007

عام سے لوگ اور عام سی باتیں

کئی دن سے ایک رسالہ لائبریری سے آیا ہوا تھا کل وہ واپس دینے گیا تو وہاں باتوں ہی باتوں میں وہی عام سی باتیں شروع ہوگئیں۔


لائبریرین عرفان بھائی نے حسب معمول کاروبار کا موضوع چھیڑ دیا۔ کہنے لگے کچھ بھی نہیں رہا۔ دونمبر کام کرنے والوں کے مزے ہیں اور مزدور آدمی کو دو وقت کی روٹی ملنا مشکل سے مشکل ترین ہوگئی ہے۔ گندم چھ سو روپے من ہوگئی ہے۔ لائبریری کا طریقہ کار یہ ہے کہ کتاب کی رقم کے برابر سیکیورٹی رکھوا کر پھر کتاب کرائے پر ایشو کی جاتی ہے۔ بتانے لگے اب لوگ پیسے رکھنے سے کترانے لگے ہیں۔ کسی کا دو سو روپیہ بھی جمع ہے تو کہتا ہے بس واپس کردو۔


عرفان بھائی لائبریری کو سروے پلیس کہتے ہیں۔  ہر طرح کے لوگ یہاں آتے ہیں تو سروے خود ہی ہوجاتا ہے۔ اور ان کے اس سروے کے مطابق عام آدمی اس وقت ایسی حالت میں ہے جیسے کسی نے گِچی(گردن)  سے کَس کر پکڑ رکھا ہو۔ ایک خاتون کا قصہ سنانے لگے کہ اس دن آئی تو کہنے لگی عرفان بھائی رمضان ہے بچے افطار کے وقت سیب مانگتے ہیں کہاں سے لا کر دیں اتنے مہنگے ہیں۔ پھر خود ہی سبزیوں کے ریٹ بتانے لگے کہ ستر روپے تک کلو  ہوگئی ہیں۔ کریلے اور ٹینڈے جنھیں میرے جیسے منہ لگانا پسند نہیں کرتے تھے اب قریب نہیں آنے دیتے۔ آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی چیز نہیں مل رہی۔ حکومت والے کہتے ہیں یوٹیلٹی سٹور پر دستیاب ہے۔ ان کے باپ کے نوکر ہیں جو یوٹیلٹی سٹور سے جاکر قطاروں میں لگ کر یوٹیلٹی سٹور والے کی منتیں کرکے ساتھ اور بھی زبردستی کی خریداری کرکے آٹا لیں۔


عام سی باتیں کرتے کرتے کئی اور دوست اکٹھے ہوگئے اور پھر بات مشرف کے الیکشن تک پہنچ گئی۔ ایک دوست کا خیال تھا اس قوم کو چھِتر ہی پڑنے چاہئیں۔ نہ یہ ان لیڈروں کو منتخب کرے اور نہ وہ ان کا استحصال کریں۔ عرفان بھائی کا خیال تھا کہ کون ایسا کرے۔ کوئی بھی نہیں کرے گا۔ ہمارے اندر اتحاد کی کمی ہے اور سب سے بڑھ کر لیڈرشپ موجود نہیں۔ اس سوال پر کہ لیڈرشپ کہاں سے آئے وہ بولے ہم تو یہ نہیں کرسکتے اب تو یہ نوجوانوں کا کام ہے۔ وہ آگے بڑھیں۔


اور میں سوچنے لگا کہ نوجوان کیا کررہے ہیں۔ نوجوان کراچی میں ہیں تو لسانی مذہبی تنظیموں کے چنگل میں پھنس کر اپنا آپ گنوا رہے ہیں۔ نوجوان پنجاب میں ہیں تو انھیں دو وقت کی روٹی کی فکر ہے یا یہ کہ اچھی نوکری مل جائے پڑھ لکھ کر۔ نوجوان سرحد اور بلوچستان میں ہیں تو اتنے زہریلے اور کڑوے کہ اپنوں کو ہی ڈنک مار رہے ہیں۔ اور ان کے علاوہ باقی قوم؟


باقی قوم دو وقت کی روٹی کی فکر میں بھاگے چلے جارہی ہے بھاگے چلے جارہی ہے۔ تَیلی کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں صبح شام شام رات رات صبح پھر شام اور یہی چکر ازل سے ابد حتٰی کہ ایک دن لڑکھڑا کر گرتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ ان کی جگہ نیا بندہ لاکر کھڑا کردیا جاتا ہے پھر وہی چکر۔


اور لیڈر کیا کررہے ہیں۔ لیڈروں کو اپنی کرسیاں بچانے کی پڑی ہے۔ منافع کی پڑی ہے۔ اب اس چیز کو مہنگا کردو۔ اس کو بلیک کردو۔ یہ پرمٹ لے لو۔ اس بات یہ ڈیل کرلو۔ فلانا ہاتھ آیا ہے کام نکلوا لو۔ صدر کو اپنی صدارت کی ہے۔ وزیروں کو وزارت کی ہے۔ چوہدریوں کو چوہدراہٹ کی ہے۔


اگر آپ پاکستان کو اوپر سے دیکھیں تو ایسے لگے گا جیسے عام آدمی گلے کی بکریاں ہیں جو سرجھکائے بکریوں نہیں گدھوں کی طرح کام میں جتے ہوئے ہیں اور ان  کی رکھوالی کرنے والے آپس میں کتوں کی طرح ہڈی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ دور کسی بلندی پر کوئی بیٹھا کچھ دیر بعد ان کے لیے ایک ہڈی پھینک دیتا ہے اور وہ پھر سے اس ہڈی کے لیے لڑنے لگتے ہیں۔


عجب طُرفہ تماشا ہے۔

ہفتہ، 22 ستمبر، 2007

ورڈپریس 2.3 سوموار کو آرہا ہے

ورڈپریس 2.3 سوموار کو جاری کیا جارہا ہے۔ اس ورژن میں ٹیگز کی سپورٹ بھی شامل ہوگی۔ نئے ورژن میں شامل ٹیگز کے فیچر کو پرانے تھیمز میں شامل کرنے کے لیے ایک عدد ٹیوٹوریل انشاءاللہ اسی دن بلاگ پر پیش کردیا جائے گا۔

بدھ، 19 ستمبر، 2007

جگاڑ

کراچی والے دوست تکے لگانے کو شاید جگاڑ لگانا بولتے ہیں۔ صاحبو آج ہم نے بھی ایک جگاڑ لگائی ہے۔ اس جگاڑ کو آپ ہمارے بلاگ کے سائیڈ بار میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


یہ گوگل تلاش ہے جس میں ہم نے اوپن پیڈ گھسیڑ دیا ہے۔ اب گوگل بیبے بچوں کی طرح اردو یونیکوڈ میں تلاش کرے گا۔


یہ سب ہوا کیسے؟ کافی پرانا قصہ ہے۔ایک بار جب قدیر نے گوگل کسٹم سرچ پیج بنایا تھا جس میں صرف اردو کے صفحات تلاشے جاسکتے تھے میں نے اسے یہ آئیڈیا دیا تھا کہ گوگل کی اصلی تے وڈی والی تلاش میں ویب پیڈ (اب اوپن پیڈ) شامل کیا جانا چاہیے۔ قدیر نے تو یہ کام نہیں کیا لیکن میں آج ایویں یہ سب کر بیٹھا۔


کرنا کچھ تھا کر کچھ لیا۔ اپنا گوگل ایڈ سینس کھولا تو مبلغ چار ڈالر کی آمدن دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ سوچا بلاگ کو مزید "گوگلا" لوں۔ چناچہ اوپر اور دائیں اشتہارات موجود ہونے کے باوجود گوگل تلاش کا ایک اور آپشن ڈال دیا کہ مرغا کہیں تو پھنسے گا


مرغا کیا پھنستا ہم ایک بار پھر اردو کے چکر میں پھنس گئے۔ اپنے بلاگ کے تلاش خانے کو نیچے کیا اور اس کو اوپر کرکے اس میں ویب پیڈ کا کوڈ ڈالا۔ تھوڑی سی لیپا پوتی کی دو تین لیبل اردو کیے اور اب گوگل بیبا پاکستانی بچہ ہے۔ اگرچہ اس کی زبان انگریزی ہے لیکن کام یہ اردو والوں کے لیے کرے گا۔ غرض تھی کہ صارف اس سے تلاشے گا اور کہیں نہ کہیں کسی سپانسرڈ لنک پر جاپھنسے گا لیکن اب اردو ہوگیا تو کہاں کے لنک۔۔اردو میں تو سپانسرڈ لنک ہی نہیں۔ چلو خیر ہمیں یہ خوشی ہے کہ گوگل بغیر اردو سپورٹ کے اردو تلاش کردے گا۔


آپ بھی اپنے بلاگ میں اردو گوگل کو ڈال لیں۔ طریقہ بڑا سادہ سا ہے۔ گوگل ایڈسینس میں جائیں اپنے لیے ایڈسینس برائے تلاش منتخب کریں۔ پسند کے مطابق کوڈ سیٹ کرنے کے بعد اپنے بلاگ کے مطلوبہ حصے میں ڈال دیں۔


اس کے بعد اس کوڈ کا معائنہ کریں تو آپ کو یہ حصہ نظر آئے گا۔


<input type="text" name="q" size="31" maxlength="255" value="" id="sbi"></input>
بس اس کے نیچے اوپن پیڈ کو کال کرنے وال کوڈ ڈال دیں۔

<script language="javascript" type="text/javascript">makeUrduEditor("q", 16)</script>


یہاں یہ فرض کیا گیا ہے کہ اوپن پیڈ آپ کے تھیم میں پہلے سے شامل ہے۔ اگر ایسا نہیں تو اس کو پہلے اپنے تھیم کی ڈائرکٹری میں کاپی کریں اس کے بعد ہیڈر ڈاٹ پی ایچ پی فائل میں جاکر


</header>


کے ٹیگ سے فورًا اوپر یہ کوڈ ڈال دیں۔


<script type="text/javascript" src="<?php bloginfo('stylesheet_directory'); ?>/urdu-open-pad.js"></script>
<script type="text/javascript">
initUrduEditor();
</script>


ایک اور اللہ لوک سا کوڈ یہ ہے جو ویب پیڈ شدہ خانے میں زبان کو بدل سکتا ہے۔ یہی کام آپ کنٹرول سپیس سے بھی کرسکتے ہیں۔ ہمارے لینکس پر چونکہ سسٹم میں زبان بدلنے کا شارٹ کٹ بھی یہی ہے اس لیے زبان اردو پر اردو ہوجاتی ہے بجائے کہ انگریزی ہو۔ چناچہ ہمارے لیے تو یہ مجبوری ہے اگرچہ کافی بھدا سا لگ رہا ہے یہ۔ لیکن آپ اپنی مرضی کے مطابق اس کوڈ کو بھی ڈال سکتے ہیں۔ ورنہ کنٹرول جمع سپیس سے زبان بدلنے کا شارٹ کٹ ایک جملے میں بتا دیں۔


 English<input type="radio" value="English" name="toggle" onclick='setEnglish("q")'><font face="Urdu Naskh Asiatype">اردو</font><input type="radio" value="Urdu" checked name="toggle" onclick='setUrdu("q")'


یہی کام پی ایچ پی بی بی فورمز اور اردو ویب سائٹس کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح ایڈسینس کے ساتھ ساتھ گوگل پر اردو تلاش کو بھی فروغ ملے گا۔ شاید گوگل کو اس طرح اردو والوں پر کچھ رحم آجائے اور زیادہ استفسارات ملنے کی صورت میں اردو صفحات کی قدر بھی بڑھ جائے۔


وسلام