اتوار، 18 مارچ، 2007

جینز پہننا ہماری نظر میں

قدیر نے دوسری بار اپنے بلاگ پر ہمیں گھسیٹ لیا ہے اس لیے یہ لکھ رہے ہیں۔ جینز کے ساتھ ہمارا ناتہ کوئی اتنا پرانا نہیں۔


بچپن میں جب کسی کو جینزے پہنے دیھکتے تو دل کرتا اپنے پاس بھی اس طرح کی چیزہو اور ہم بھی گھٹے گھٹے اور اکڑے اکڑے پھریں۔ یونہی محلے میں چکر لگائیں اور شریکاں نوں اگ لگائیں ;)


لیکن کیا کہیے عرصے تک ہماری یہ حسرت حسرت ہی رہی پھر ایک دن ایسے ہی ایک دوست سے جینز کا تذکرہ چل گیا ہم نے اپنے اشتیاق کا کچھ اس طرح اظہار کیا کہ اس بے چارے نے اگلے ہی دن ہمیں ایک عدد جینز گفٹ کردی۔ اللہ اس پر اپنی رحمت رکھے بڑا اچھا دوست ہے ہمارا یہ الگ بات ہے ہم اس کے کبھی اس طرح کام نہ آسکے ۔ خیر وہ جینز ہم نے بڑے چاؤ سے پہنی۔ پہن کر پورے محلے کا چکر لگایا  دن میں دو بار اس سے ملنے گئے۔ کھانا کھانے سے پہلے جینز اتار لی تاکہ خراب نہ ہوجائے ہماری پرانی عادت ہے کھانا کھاتے وقت سالن لازمی گر جاتا ہے کپڑوں پر۔


لیکن قسمت کو ہم پر شاید غصہ تھا غصہ بھی شدید قسم کا۔ جینز صرف ایک بار ہی پہننا نصیب ہوئی دوسری بار دھو کر پہنی تو وہ پہلے سے نوے فیصد رہ گئی تھی۔ اس نوے فیصد نے ہمیں ولایتی مولوی بنا دیا۔ ٹخنوں سے اونچی جینز پہن کر ہم نے گھر کے دو چار چکر لگائے اور پھر اتار کر چوم کر بڑے احترام سے رکھ دی آج کل چھوٹے بھائی کے زیر استعمال ہے۔ ہاہ (یہ ایک ٹھنڈی آہ ہے اور ادھر سارا ماحول برف ہوگیا ہے)۔


دوسری بار جینز ہم نے ضد کرکے ابو حضور کی جیب سے خریدی۔ ناتجربہ کاری کے باعث ہم نے جو جینز لی اس کی وجہ سے ہمیں کئی باتیں سننا پڑیں۔  مسئلہ وہی کہ اس کو پہن کر بیٹھنا بڑی ٹیکنیک کا کام ہے بلکہ ایک الگ سائنس ہے ہم اس سے آج تک واقف نہیں ہوسکے۔ چناچہ کہیں بھی چلے جائیں مسلسل کھڑے رہنا پڑتا ہے اگر بیٹھیں بھی تو اس طرح جیسے ٹانگوں میں درد ہو یا گوڈے رہ گئے ہوں۔ کئی بار اس وجہ سے ہسپتال جانے کے مشورے مل چکے ہیں۔ اور اب اس جینز کے ساتھ یہ حال ہوگیا ہے کہ اگر وہ پہن کر کھانا کھا لیں تو اترتی نہیں اگر کھانا کھا کر پہن لیں تو پہنی نہیں جاتی۔


خیر جینز پہننا ہم نے پھر بھی نہیں چھوڑا کبھی کبھار شوق پورا کرہی لیا کرتے ہیں۔ سچ بتائیں تو جینز کے کچھ فائدے بھی ہیں جیسے قدیر نے بتایا بندہ خوامخواہ ہی ماڈرن لگتا ہے۔ اپنے آپ کو مریخی قسم کی مخلوق لگنے لگتا ہے۔ اگر ساتھ کوئی شوخ سی شرٹ پہنی ہو تو ایویں سیٹیاں مارنے کو دل کرتا ہے۔ موسم سہانا لگتا ہے اور اگر بندہ (ہماری طرح) سائکل سوار بھی ہوتو ایویں ہاتھ چھوڑ کر جھوم جھوم کر سائیکل چلانے کو دل کرتا چاہے سامنے سے آتی کھوتا گاڑی سے بغلگیر ہونا پڑے(الحمد اللہ ہم اس سے محفوظ ہیں ابھی تک یہ خصوصًا بدتمیز کے شر سے بچنے کے لیے لکھا گیا ہے ہمیں پتا ہے اس کا کام ہی محلے کی بی جمالو کی طرح ہر بات میں کیڑے نکالنا ہے)۔


جینز کے نقصانات کا کچھ ذکر تو قدیر نے کردیا کچھ ہماری باتیں بھی ہوگئیں اس بارے ایک بات شئیر کرتے جائیں گرمی میں جینز یا اسی قسم کا کوئی لباس جس سے ٹانگوں کو ہوا نہ لگے ڈاکٹروں کے نزدیک خاصا قابل اعتراض ہے( نمازیوں کے نزدیک تو ایسی جینز بہت زیادہ قابل اعتراض ہے اور ہم ذاتی طور پر ایسی جینز کے خلاف ہیں جس میں یہ لگے کہ بندے کو اس میں رکھ کر جینر سی گئی ہے)۔ یہ گلوبل سائنس  کے لکھاری سید عرفان احمد کے کسی کتابچے میں پڑھا تھا کہ اس قسم کے تنگ کپڑے پہننے سے مردوں کی جنسی صحت متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے انھوں نے تو گرمیوں میں جانگیا پہننے کی بھی مخالفت کی ہے۔


ویسے ہم اعتدال کے قائل ہیں۔ چیز استعمال کریں لیکن حد میں رہ کر۔ جینز پہنیں لیکن مناسب حد تک کھلی تاکہ صحت کو بھی نقصان نہ پہنچے اور اٹھنا بیٹھنا بھی دشوار نہ ہو۔ نیز فیشن کا فیشن ہوجائے۔


وسلام

10 تبصرے:

  1. بہت خُوب ۔ پُرلطف تحریر ہے ۔ اتفاق سے ہم اس شوق سے محروم ہی رہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکریہ۔
    ویسے مجھے انگور کھٹے جانے کیوں یاد آگئی۔
    ;)

    جواب دیںحذف کریں
  3. ایک فائدہ اور بھی ہے۔ جینز کے

    جواب دیںحذف کریں
  4. صاف یا میلے ہونے کا پتہ نہیں چلتا اور میں تو تب دھلواتا ہوں جب بو کے ذریعے اسکا علم ہوتا ہے۔ خیر مذاق اپنی جگہ لیکن پاکستانی موسم میں تو جینز واقعی نہیں پہنی جا سکتی۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. بہت اعلیٰ
    لگتا ہے ابھی تک بدتمیز کا یہاں پر گزر نہیں ہوا
    ؛)

    جواب دیںحذف کریں
  6. ہاہاہاہا
    ہاں لگتا ہے
    جی فیصل بھائی آپ کی بات ٹھیک ہے جینز سردیوں میں ہی “برداشت“ ہوسکتی ہے

    جواب دیںحذف کریں
  7. ڈریس پینٹ تو کافی پہنتا ہوں مگر جینز کو میٹرک میں ہی پہنی تھی!!!

    جواب دیںحذف کریں
  8. اور اس بات کو دس سال ہوچکے ہونگے لازمًا۔ دوسرے لفظوں میں آپ کے ہم عمر کوے بھی فوت ہوچکے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. بہت خوب شاکر بھائی! اچھے تجربے رہے ہیں آپ کے بھی۔میں نے اپنے زندگی کے کل بیس سالوں میں شاید دو تین بار ہی جینز پہنی ہوگی اور پھر اس کے بعد سے توبہ کرلی۔ اٹھنا بیٹھنا دشوار ہوگیا تھا۔ مجھ جیسے دیسی لوگوں کے لیے شلوار قمیض ہی بھلی۔۔۔ یا پھر کبھی ڈریس پینٹ۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. :mrgreen: جی بجا فرمایا۔ لیکن کبھی کبھی مزہ چکھ لینے میں حرج ہی کیا ہے :wink:

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔