جمعرات، 22 نومبر، 2007

ایک نیا کھلونا

مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے کوئی دس سال پہلے میرے ماموں کی بیٹھک میں ڈاکٹر قدیر خان کا ایک پورٹریٹ ہوا کرتا تھا۔ جس پر لکھا تھا محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان۔ ایک عرصے تک ڈاکٹر قدیر خان ہمارا ہیرو رہا۔ ہم اس کے گن گاتے رہے۔ پھر مشرف آیا اور اسے بند کردیا۔ ہم نے کچھ عرصہ تک احتجاج کیا۔ دبی دبی کراہیں بلند ہوئیں اور معاملہ دب دبا گیا۔ کبھی کبھی کوئی اخبار والا بین کردیتا ہے اور فرض کفایہ ادا ہوجاتا ہے۔
پھر اس سال مارچ میں ہمیں ایک اور کھلونا مل گیا۔ یہ افتخار محمد چوہدری تھا۔ پرویز مشرف نے اس کے خلاف ریفرنس کیا بھیجا ساری قوم کو جیسے آگ لگ گئی اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ملک کے پھنے خاں صدر نے بھی ہاتھ کھڑے کردئیے۔ افتخار چوہدری جو اس سے پہلے ایک عام سا چیف جسٹس تھا ہمارے لیے بہت خاص بن گیا۔ جیسے یہی اس قوم کا مسیحا ہو۔ اخبار، میڈیا اور میرے جیسوں کی زبانیں اس کی تعریف میں سہرے کہنے لگیں۔ لیکن حالیہ ایمرجنسی نے ہم سے ہمارا یہ کھلونا بھی چھین لیا۔ اب افتخار چوہدری کوئٹہ میں نظر بند پڑا ہے۔ کبھی کبھار اس کے بارے میں کوئی ذکر کرلیتا ہے اور بات ختم۔
اب ہمیں اک نیا کھلونا مل گیا ہے۔ پوجنے کے لیے ایک نیا چہرا۔ عمران خان، گریٹ خان پاکستان کا سابق کپتان اور پاکستان تحریک انصاف کا صدر۔ امید باندھنے والوں کو تو بس ایک آس چاہیے ایک ہلکی سی آس سو انھوں نے اس کے ساتھ لگا لی ہے۔ عمران خان ہی شاید مسیحا ہے میرے جیسے یہ سوچتے ہیں۔ عمران خان ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہے سچا کھرا انسان ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ہر کوئی اپنے انداز میں اس کی تعریفیں کررہا ہے۔ ان عام انتخابات میں --اگر ہوئے تو-- اس کی پارٹی اچھی خاصی نشستیں‌ جیتنے کی امید کرسکتی ہے۔
بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے لگا شاید ہم پچاری ہیں۔ محمد بن قاسم کی آمد سے بھی پہلے کے پچاری، بس بت بدل گئے ہیں۔ جلدی جلدی بدلنے لگے ہیں یا ہم کسی بت سے جلد ہی اکتا جاتے ہیں۔ ہمارا کام بس پوجا کرنا ہے، یا کھیلنا۔ یہ ہمارے کھلونے ہیں جن سے ہم کھیلتے ہیں اور جب ایک چھن جاتا تو ہم دوسرا تراش لیتے ہیں۔
ہم بچے ہیں، نادان بچے جنھیں اپنے کھلونے سے غرض ہے، بس ایک کھلونا ملا رہے اور اس ایک کھلونے کے بل پر ہم اپنے خوابوں خیالوں میں جانے کیا کیا کرگزرتے ہیں۔

5 تبصرے:

  1. واقعی پتے کی بات کہی ہے آپ نے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. شاکر بھائی آپ نے موجودہ حالات کے تناظر میں بہت اہم موضوع چھیڑا ہے۔ واقعتاً اس پر گفتگو ہونا بہت ضروری بھی ہے۔
    اصل میں ہمارا مجموعی قومی مزاج یہ ہے کہ ہم آغاز تو اظہار ہمدردی سے کرتے ہیں لیکن پھر جست لگاتے ہوئے پہلے اظہار محبت اور پھر اظہار عقیدت تک پہنچ جاتے ہیں اور Hero worship کا مادہ من حیث القوم ہم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اور کیونکہ بحیثیت مجموعی قوم کو موجودہ بحران سے نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی اس لیے اس اندھے راستے پر اسے جو کرن دکھائی دیتی ہے اس سمت سفر شروع ہو جاتاہے۔ اور یہ رویہ بہت زیادہ خطرناک بھی ہے کہ پورے معاشرے کا سارا بوجھ ایک فرد پر کس طرح ڈالا جا سکتا ہے اور کس طرح یہ امید باندھی جا سکتی ہے کہ اب جو کچھ کرنا ہے ایک فرد نے کرنا ہے۔ تبدیلی کے لیے تو بہت سی قوتوں کا اس کے ساتھ کھڑا ہونا ضروری ہے لیکن یہ بھی کافی نہیں کیونکہ کھڑے ہونے اور بوجھ بانٹنے میں بڑا فرق ہے۔ یہ بالکل اس طرح ہے کہ آپ کے سر پر دس من وزن ہے اور میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ہماری مجموعی نفسیات یہ ہے کہ ہم اچھا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے خطرات اور اندیشوں کا سامنا کرنے کو تیار نہیں اور بزدلوں اور نامردوں کی طرح یہ خواہش رکھتے ہیں کہ خطرات و اندیشے کوئی انگیز کرلے اور اچھا کام ہو جائے۔ اس عمل میں اگر خطرات و اندیشوں سے نمٹنے والے کا نقصان ہو جائے تو میں اس پر آٹھ آٹھ آنسو بہا لوں گا، اس کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملا دوں گا، قصیدہ گوئی کروں گا، قلم سے صفحات سیاہ کر دوں گا لیکن خطرہ مول نہیں لوں گا۔ فوجی آمریت نے معاشرے کی علامت بن کر ابھرنے والی ہر کرن کو قتل کیا اور ہمارا ردعمل صرف اور صرف وقتی رہا اور کچھ عرصے بعد بالکل ایسے سکون سے بیٹھ گئے جیسے مردے کو دفنانے کے بعد دلوں کو قرار آ جاتا ہے۔ اور یہی ہمارا مزاج ہے کہ ڈاکٹر قدیر اور افتخار چوہدری کے بعد جیسےہی عمران خان "نظر" آئے سب ان کی طرف دوڑ پڑے۔ کہا جاتا ہے کہ آخرت میں ہر کسی کو اپنا بوجھ خود اٹھانا ہوگا، آخرت کیا دنیا میں بھی یہی اصول ہے اور جو لوگ دنیا میں اپنا بوجھ دوسرے کے سر ڈال کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچ گئے، انہیں معلوم نہیں اللہ تعالٰی پھر انہیں کوئی بھی بار اٹھانے کے لائق نہ سمجھتے ہوئے تاریخ کے سفر کی ہر ذمہ داری سے محروم کر دیتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. [...] شاکر عزیز نے موجودہ حالات کے تناظر میں بہت اہم موضوع چھیڑا ہے۔ موضوع ہے “شخصیت پرستی” اور خصوصاً پاکستان کے [...]

    جواب دیںحذف کریں
  4. یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں ادارے مضبوط ہی نہ ہوسکے صرف شخصیتیں‌ مضبوط ہوئیں‌۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. [...] صفدر، شاکر عزیز اور اس کے بعد ابو شامل نے ایک نیا اور اچھوتا سلسلہ شروع [...]

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔