جمعہ، 23 نومبر، 2007

منظر نامہ

اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ "گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو" کا نعرہ لگانے والے ایک بار پھر سے اسی دیوار میں چن دئیے گئے ہیں۔ پرویز مشرف نے ایک بار پھر سے میدان مار لیا ہے۔ ایمرجنسی لگانے کا وقت اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ملک میں عام انتخابات قریب تھے۔ امن و امان کا بہانہ موجود تھا چناچہ ملک پر ایمرجنسی لگا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی مشرف نے "ناپسندیدہ" ججوں اور میڈیا والوں نے نجات حاصل کرلی۔ اگرچہ اس کا خمیازہ پاکستان کو معاشی ترقی میں سست رفتاری اور دولت مشترکہ کی رکنیت کی ایک بار پھر معطلی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے لیکن یہ تو پھر سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت جبکہ عام انتخابات نزدیک ہیں ہر پارٹی ان میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے دانت تیز کررہی ہے۔ بات جہاں تک اصول کی ہے تو پہلے کس نے یہاں اصول پر سیاست کی ہے۔ بی بی اور نواز شریف کہاں چاہیں گے کہ ان کا حریف انتخابات میں ہو اور وہ آؤٹ ہوں۔ اپوزیشن کا ایک نکتے پر متفق ہوکر انتخابات کا بائیکاٹ کرنا جوئے شیر لانے سے بھی اوپر کی چیز لگ رہا ہے۔ مشرف کی سعودی عرب یاترا کے بعد نواز خاندان کی واپسی کے اشارے مل رہے ہیں۔ اگر وہ واپس آرہے ہیں‌ تو اس کا مطلب ہے کہ انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔ ن لیگ اگر حصہ لیتی ہے تو باقی کون ہے جو پیچھے ہٹے گا بی بی تو ویسے ہی امریکہ سیاں کی لاڈلی ہے۔ پیچھے ایم ایم اے رہ جاتی ہے تو وہ بھی اس دوڑ میں چاہے آخری نمبر پر آئیں حصہ ضرور لیں گے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ سول سوسائٹی کے چند دردمند لوگ، وکلاء اور صحافیوں کی قربانیوں اور احتجاج کا کوئی ثمر نہیں ملنے والا۔ عمران خان جیسا ایک آدھ پاگل ہی شاید اور ہے جو انتخابات کے بائیکاٹ کی بات کرتا ہے۔ لیکن اس کی کون سنے گا۔ اگرچہ اس کی تعریفیں ہورہی ہیں لیکن تعریف سے پیٹ نہیں بھرتا بات ووٹ کی ہے۔ عام ووٹر ایک عرصے سے * لیگ اور * پارٹی کا عادی ہے اور اس بار بھی انھیں ہی ووٹ ڈالے گا۔ مشرف یافتہ لیگ اس بار بھی پالا مارنے کے چکر میں ہے آکر پانچ سال جم کر شہنشاہ کا ساتھ دیا ہے۔ موجودہ حکومت اور مقامی حکومتیں ان پر ضرور اپنی "رحمتیں" نازل کریں گی۔
وہ ساٹھ جج جو اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں شاید ان کی قربانیاں رائیگاں جائیں، اور اگلی بار کسی افتخار چوہدری اور بھگوان داس کو حلف نہ اٹھانے کی جرات نہ ہوسکے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔