منگل، 23 جنوری، 2007

لوڈ شیڈنگ نہیں ہورہی

اس قوم کی کیا قسمت ہے کہ “آن دی ریکارڈ“ جو چیز موجود نہیں آف دی ریکارڈ وہ بڑے زور شور سے ہورہی ہوتی ہے۔ اب لوڈ شیڈنگ کو ہی لے لیں۔ دو چار دن لوڈ شیڈنگ ہوئی احتجاج ہوا۔ وزیر صاحب نے بیان جاری کیا کہ پاور ہاؤسز کو بجلی کی کمی پوری کرنے کے لیے زیادہ گیس سپلائی کرکے لوڈ شیڈنگ بند کی جارہی ہے۔ ساری عوام بہت خوش ہوئی۔ چلو جان چھوٹی۔
لیکن وائے ری قسمت جان تو اب پکڑی گئی ہے۔ وزیر صاحب بیان دے کر بڑے آرام سے بیٹھے ہوئے ہونگے۔ اور ہماری جان عذاب میں آگئی ہے۔ واپڈا نے اب بغیر اعلان کے لوڈ شیڈنگ شروع کردی ہے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی پارلیمنٹ لاجز میں، وزیر اعظم و صدر ہاؤسز میں اور ہر شہر کے پوش علاقوں میں۔ لیکن کیا کریں ہمیں ان میں سے کوئی جگہ بھی نصیب نہیں۔
اس لیے اب یہ حال ہے کہ واپڈا جب چاہے بجلی بند کردے۔ یعنی جو چاہے آپ کے حسن کرشمہ ساز کرے۔ کچھ مثالیں‌ ملاحظہ ہوں۔
پرسوں صبح چھ بجے بجلی چلی گئی، اس کے بعد کوئی بارہ بجے کے بعد گئی، پھر اگلے دن دس بجے کے قریب گئی اور کل رات کوئی ساڑے دس بجے بجلی چلی گئی۔
ہے کوئی دین ایمان ان لوگوں کا؟
لیکن میں واپڈا کو بے قصور سمجھتا ہوں سارا کیا دھرا موصوف وزیر کا ہے جن کے بیان کی وجہ سے واپڈا چھپ چھپ کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ کررہا ہے۔
بخدا مجھے ترس آرہا ہے واپڈا پر بھی اور اپنے عوام پر بھی۔ واپڈا جو چھپ چھپ کر لوڈشیڈنگ پر مجبور ہے عوام کی جھڑکیاں کھاتا ہے اوپر سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دیتا ہے اور بے چارے میرے جیسے جن کے الیکٹرونک آلات اس دوران کباڑا ہورہے ہیں۔
کاش میرے بس میں ہوتا تو وزیرو مشیروں کو اس معاملے میں “ختم کیا جارہا ہے“ جیسا بیان جاری کرنے پر پابندی لگا دیتا۔ کم از کم اس طرح بے چارے عوام اپنی روٹین تو سیٹ کرسکتے لوڈ شیڈنگ کے شیڈول کے مطابق۔
پر کتھوں؟ چھتر تو ہمارے مقدر میں لکھے ہوئے ہیں اور وہ بھی بھگو بھگو کر۔
:roll: :roll: :roll: :roll:

جمعہ، 12 جنوری، 2007

بسنت کا موسم اور ہمارے بچے

بسنت کا موسم آگیا ہے۔ عید کے گزرنے کے ساتھ ہی پہلا کام جو ہمارے بچوں کے ہاتھ لگا ہے وہ پتنگیں ہیں۔ جس طرف دیکھیں پتنگیں اڑتی نظر آرہی ہیں اور بچے ہاتھ میں چھاپے پکڑے انھیں لوٹنے کے لیے بھاگتے پھررہے ہیں۔
پتنگیں تو اڑ رہی ہیں‌ لیکن ہمیں ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی دھجیاں اڑتی نظر آرہی ہیں جس میں پتنگ بازی پر پابندی لگائی گئی تھی۔
چونکہ پاکستان ہے اور یہاں کون کسی کو پوچھتا ہے اس لیے اس کو بھی کوئی نہیں پوچھ رہا۔
پتنگ والے خوش ہیں کہ پھر سے روزی روٹی چل پڑی۔ بچے خوش ہیں کہ ایک کھیل ہاتھ آگیا اور قانون نافذ کرنے والے خوش ہیں کہ کچھ ہاتھ آنے کی سبیل بنی۔
ابھی تک کچھ نہیں ہوا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اتنا فرشتہ تو یہاں کوئی بھی نہیں جو تَندی اور دھات سے بنی ڈور سے پتنگ نہ اڑائے بلکہ ان دونوں سے زیادہ خطرناک پلاسٹک سے بنی ڈور ہے جسے یہ لوگ کیمیکل کہتے ہیں۔ یہ ڈور کھینچنے پر گوشت میں اترتی چلی جاتی ہے بجائے کہ ٹوٹ جائے۔
اب اس ڈور کی وجہ سے جانے کتنے گھروں کے معصوم چراغ اٹھ جائیں گے، کتنی اولادیں یتیم ہوجائیں گی۔ پھر سپریم کورٹ اٹھے گی اورایک بار پھر اسے پتنگ بازی پر پابندی لگ جائے گی۔
سڑکوں سے چھوٹے بڑے بال بچے پکڑ کر پتنگ بازی کے الزام میں عدالتوں میں پچھلی بار کی طرح گھسیٹے جائیں گے اور بات ختم۔ لیکن ان گھروں کی روشنی کا کیا ہوگا جو بجھ جائے گی؟
اس روپے کا کیا ہوگا جو ہوا میں اڑ جائے گا؟
اور ان روپوں کا کیا ہوگا جو ان پتنگ بازوں کی وجہ سے واپڈا کو بجلی کے نقصان کی صورت میں پھونکنے پڑیں گے؟
لیکن سنتا کون ہے۔ ہر ایک اپنی مستی میں مست ہے۔جب پانی سر سے اونچا ہوگا تب دیکھی جائے گی۔
تو صاحب آپ بھی کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں جائیے جاکر پتنگ اڑائیے۔۔روشن خیال بنئیے اور خوش رہیے۔یہ سب تو چلتا ہی رہے گا۔

منگل، 9 جنوری، 2007

لینکس نخریلی محبوبہ

لینکس میرے لیے اب تک ایک نخریلی محبوبہ کی طرح رہا ہے۔ جیسے بیڈ پر سونے والا کو بندہ اچانک سڑک پر آجائے ویسے احساسات میرے ہیں لیکن میں بھی ایسا ضدی ہوں کہ لینکس کے پیچھے ہی پڑا ہوں۔ نصب نہیں ہوتا تھا میں نے نیا پی سی لیا۔ ڈسپلے ٹھیک نہ تھا میں نے مانیٹر نیا لے لیا۔ انٹرنیٹ ڈائل اپ سے کام نہ چلتا تھا میں نے کیبل نیٹ لگوا لیا۔ پرانا کیبل نیٹ والا لینکس سے چیٹ جیسے اطلاقیے چلانے اور مربوط کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا میں نے کیبل نیٹ والا بدل ڈالا۔ نئے کیبل نیٹ والے کے پاس بھی دو ماہ بعد یہ سیٹنگ نصیب ہوئی کہ اب سب کچھ چلا سکتا ہوں وہ بھی اس طرح کہ اس نے روٹر کو نیٹ ورک سے منسلک کردیا ہے جس تک میری براہ راست بغیر پراکسی کے رسائی ہے اب جب کہ یہ بھی ٹھیک ہوگیا ہے میرے سامنے مسئلہ کھڑا ہے کہ وہ تمام اطلاقیے جو میں ونڈوز پر استعمال کرتا تھا لینکس پر چلا سکوں۔ وہ نہیں تو کوئی متبادل سہی۔ اس کا ایک حل وائن کی صورت میں مجھے ملا لیکن یہ بھی کوئی اتنی اچھی چیز نہیں لینکس میں ونڈوز کا ماحول فراہم کرکے اطلاقیہ چل تو جاتا ہے لیکن لولا لنگڑا ہوکر۔ آج کل مجھے شوق چڑھا ہوا ہے کہ پرانے پراجیکٹس کو ایک ماہ میں مکمل کرڈالوں۔ لبیک مکمل کرنا تھی کوئی یونیکوڈ مدوِن دستیاب نہ تھا آخر ایک عدد عربی مدوِن ملا جس سے کام چلا۔ ہماری بدقسمتی اول تو اردو کمپیوٹنگ کے لحاظ سے ونڈوز میں ہی کچھ خاص موجود نہیں لیکن لینکس تو بالکل ہی تہی داماں ہے۔ یہاں اردو کے لیے ایک مدوِن تک دستیاب نہیں ایک بنا تھا جو ابھی زیر تکمیل ہے۔ سافٹویر کے ترجمے اور فری سافٹویر فاؤنڈیشن کے اجازت ناموں کا اردو ترجمہ کرنا تھا اس کے لیے ایک لغت درکار تھی لیکن لینکس پر کوئی لغت سرے سے ہے ہی نہیں اردو کے لیے۔ ونڈوز والی لینکس پر چلانے کی کوشش کی تو اس کا اردو والا حصہ اکڑ گیا کہ نہیں چلنا۔ اب وائن کی طرح کا ایک اور لبادہ ڈھونڈا ہے وِن فور لِن کے نام سے جو ایک ملکتی سافٹویر ہے اور پیسوں سے ملتا ہے لیکن مجھے چونکہ کام کرنا ہے اور میرا شدید موڈ ہورہا ہے اس لیے میں نے اس کا ٹورنٹ کریک ڈھونڈ لیا ہے جو ابھی اتر رہا ہے شاید اس سے کچھ بات بن جائے۔ لیکن ایسے کب تک چلے گا۔ ہمیں کچھ تو کرنا ہوگا۔ لینکس کے لیے کم از کم ایک لغت تو دستیاب ہو۔ کم از کم ایک برا بھلا اردو مدوِن تو موجود ہو۔ جانے کب یہ خواب پورا ہوگا۔ ہم بہت دیر کردیتے ہیں۔بہت دیر۔۔۔۔

اتوار، 7 جنوری، 2007

لینکس کونسی قسم نصب کی جائے اور اس کا حصول

تو جناب اب بات کرتے ہیں کہ لینکس کو نصب کس طرح کیا جائے۔ نہیں اس سے پہلے بھی ایک کام ہے اور وہ ہے کہ آخر کونسا لینکس نصب کیا جائے۔
لینکس کی کئی اقسام ہیں۔ یہ لوگ اسے ڈسٹریبیوشن یا ڈِسٹرو بولتے ہیں۔ کوئی ایک ہزار سے زیادہ اقسام کے لینکس میں سے اپنی پسند کا لینکس چننا بہت مشکل ہے۔ ہر لینکس قسم کا اپنا ایک منشور ہے کوئی صارف کو آسانی مہیا کرنا چاہتا ہے، کوئی مفت سافٹویر کا نعرہ لگاتا ہے، کوئی قسم کاروباری پیمانے پر استعمال کے لیے قیمتًا جاری کی جاتی ہے۔ہم نے چونکہ اپنے ذاتی استعمال کے لیے لینکس نصب کرنا ہے اس لیے میں آپ کو دو قسموں کا مشورہ دوں گا اور وہ ہیں اوبنٹو اور کے اوبنٹو۔
اصل میں یہ ایک ہی کمپنی کے جاری کردہ ہیں۔ اصل پراجیکٹ اوبنٹو ہے لیکن کے ابنٹو یا مختصرًا کبنٹو اس کا بچہ بچونگڑا ہے جس میں کرنل وہی ہے لیکن ڈیسکٹاپ ماحول مختلف ہے۔
ڈیسکٹاپ ماحول کیا ہوتا ہے؟
لینکس اصل میں باہر سے بن کر آنے والے آٹو پارٹس کی طرح ہے جن کو پاکستان میں اسمبل کیا جاتا ہے۔ سمجھ لیں کہ ہر لینکس قسم والے نے اسمبلنگ کا کارخانہ لگا رکھا ہے۔ جس میں وہ باہر سے آنے والے پرزے جوڑ کر اپنی قسم تیار کرلیتے ہیں۔
ہر خدمتگار نظام( آپریٹنگ سسٹم) دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک اس کا مغز یعنی کرنل جو کہ سی پی یو سے براہ راست رابطہ رکھتا ہے اور کمانڈز کو اس تک پہنچاتا ہے دوسرا وہ تصویری مواجہ (گرافک یوزر انٹرفیس) ہے جو صارف کو نظر آتا ہے اور جس کے ساتھ کھیلنے کی صارف کو کھلی چھوٹ ہوتی ہے۔ لینکس میں کرنل الگ بنایا جاتا ہے اس کے مختلف ورژن ہیں جبکہ اس کے اوپر کام کرنے کے لیے مختلف ڈیسکٹاپ ماحول ہیں۔ ان میں سے کچھ کمرشل ہیں کچھ مفت لیکن مشہور اقسام دو تین ہی ہیں۔



ہوتا یہ ہے کہ ہر قسم کو تیار کرنے کے لیے پہلے ایک عدد لینکس کرنل لیا جاتا ہے اس کے بعد ڈیسکٹاپ ماحول کا انتخاب ہوتا ہے ان کو ملایا جاتا ہے ڈیسکٹاپ ماحول میں اپنی مرضی کے مطابق یا سمجھ لیں کمپنی کی پالیسی کے مطابق کچھ تبدیلیاں کرکے نئی خوبیاں ڈالی جاتی ہیں اور قسم جاری کردی جاتی ہے۔ ہر نئی اشاعت پر نیا لینکس کرنل ورژن، نیا ڈیسکٹاپ ماحول ورژن اور دوسرے عمومی استعمال کے اطلاقیے جو اس میں‌ موجود ہیں کے نئے ورژن ڈال کر نیا ورژن اتارنے کے لیے رکھ دیا جاتا ہے۔ آپ یقینًا سوچ رہے ہونگے اتنا آسان کام؟ ادھر ادھر سے چیزیں‌ اکٹھی کرو اور نیا لینکس نکال دو۔ اصل میں‌ یہ سب اتنا بھی آسان نہیں چونکہ تکنیکی معاونت مہیا کرنا، مختلف پراجیکٹس شروع کرنے کے لیے معاونت دینا،نئی خوبیوں کے مطالبات پر غور کرنا، تازہ کاریوں (اپڈیٹس) اور اصل ورژن کے اتارنے کے لیے سرور کمپیوٹر مہیا کرنا ایک لمبا درد سر ہے اور یہ کام وہی بندہ کرسکتا ہے جو خواب میں بھی لینکس کی کمانڈز میں بات کرے۔ :D :D
اصل میں اوبنٹو کو منتخب کرنے کی کچھ وجوہات ہیں۔ اگرچہ بڑے بڑے بابے لینکس موجود ہیں لیکن اوبنٹو کے کچھ فائدے ہیں جو ہم آپ کو آئندہ سطور میں بتاتے ہیں پہلے آپ کو کچھ مشہور اقسام کے نام بتائے دیتے ہیں۔


    لِن سپائر جو کبھی لنڈوز کے نام سے مارکیٹ میں آیا تھا اور اس کا مفت اور آزاد مصدر ورژن فری سپائر

اب بات کرتے ہیں‌ کہ اوبنٹو ہی کیوں؟
پہلی بات تو یہ کہ اوبنٹو کے تین ورژن اس وقت موجود ہیں جو کہ تین مختلف ڈیسکٹاپ ماحول استعمال کرتے ہیں۔ اوبنٹو میں گنوم استعمال ہوتا ہے، کے اوبنٹو میں کے ڈی ای اور ایکس اوبنٹو میں ایکس ایف سی ای۔ زیادہ مشہور اقسام پہلی دو ہی ہیں تیسری قسم کم ہی استعمال ہوتی ہے۔ ان تمام اقسام میں‌ کرنل ایک ہی ہے اور ہر نئی اشاعت پر ہر قسم کا نیا ورژن نکالا جاتا ہے جس میں بنیادی قسم کی چیزیں ہر ایک میں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ جیسے شٹ ڈاؤن کے انتخابات( آپشن) تینوں میں ایک جیسے ہونگے۔جبکہ دوسری اقسام کے لینکس کوئی ایک ہی ماحول استعمال کرتے ہیں جیسے فیڈورا کور میں گنوم استعمال ہوتا ہے یا ان کی مختلف ماحولات کے لیے الگ سے اشاعتیں‌ موجود نہیں۔
اوبنٹو کی بہت خاص خوبی اس کا ہر چھ ماہ کے بعد نیا ورژن آنا ہے جو کوئی بھی اور لینکس ڈسٹرو والے نہیں کرتے۔
اوبنٹو کی بہت ہی منظم برادری موجود ہے اس کی چوپالوں پر ہر درد کی دوا موجود ہے۔
اوبنٹو کی ایک خوبی جس کے لیے میں نے اسے پسند کیا تھا اس کی سی ڈیز کا پاکستان میں مفت مہیا کیا جانا تھا۔اگرچہ اب یہ لوگ اسے بند کررہے ہیں لیکن اس کے طویل مدتی معاونت شدہ ورژن اوبنٹو 6.06 کے لیے اب بھی یہ سہولت موجود ہے۔
اوبنٹو کی تازہ کاریاں بڑی باقاعدگی سے وارد ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے سسٹم کسی بھی قسم کے خطرے سے بچا رہتا ہے نیز سافٹویر کی تازہ کاریوں سے تازہ ترین ورژن نئی نئی خوبیوں کے ساتھ آپ کی دسترس میں‌ ہوتا ہے۔
ہاں آپ کو اس سلسلے میں کچھ مسائل درپیش ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اوبنٹو میں طےشدہ طور پر روٹ یعنی سسٹم کے منتظم ایڈمن صاحب کا کھاتہ بند ہے جس کی وجہ سے سافٹویر کی تنصیب میں‌ مشکلات ہوسکتی ہیں لیکن صارف اس کا عادی ہوجاتا ہے۔ اور ہاں اس کو کھولا بھی جاسکتا ہے ہم ذاتی طور پر اس کی تنصیب کے بعد پہلا کام روٹ کھاتہ کھولنے کا کرتے ہیں اور یہ گر آپ کو بھی بتا دیں‌ گے۔
دوسری مشکل جو درپیش ہوسکتی ہے وہ ہے گانوں اور عمومی نوعیت کی ویڈیو فائلز چلانے میں‌ دشواری چونکہ ان کے کوڈکس ایک ملکیتی مال ہیں اس لیے اوبنٹو کی بنیادی تنصیب کے ساتھ یہ نصب نہیں‌ ہوتے۔ صارف کو یہ بعد میں اتار کر نصب کرنا ہوتے ہیں لیکن یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں رہنمائیاں موجود ہں صرف ان پر عمل کرنے میں یا اتارنے میں وقت لگتا ہے بلکہ ایک بار پیکج اتار کر آپ اسے دوبارہ استعمال کے لیے محفوظ کرسکتے ہیں سی ڈی بنا سکتے ہیں۔
خیر یہ تو تھا اوبنٹو لینکس بمقابلہ دوسرے لینکس اب ہم بات کرتے ہیں اوبنٹو کو حاصل کس طرح کیا جائے۔
اوبنٹو کو اگر سی ڈی پر حاصل کرنا ہے تو آپ اوبنٹو شپ اٹ یا کے اوبنٹو شپ اٹ پر چلے جائیں۔وہاں مندرج ہوکر سی ڈیز کا آرڈر دے دیں اور سی ڈیاں آپ کے گھر پہنچ جائیں گی لیکن یہ کچھ وقت لے گا کوئی چار سے چھ ہفتے۔ لیکن ہوگا سب مفت اگر آپ نے جلدی حاصل کرنا ہے تو اس کی سی ڈی امیج اتار کر خود سے سی ڈی رائٹ کرسکتے ہیں۔ اگر کچھ پیسے خرچ کرنے کا موڈ ہے تو ان کے عالمی تقسیم کار موجود ہیں جو پیسے لے کر سی ڈی آپ کے گھر پہنچا دیں گے۔ پاکستان میں لینکس کی تمام اقسام کے تقسیم کار یعنی لینکس پاکستان والوں سے بھی اوبنٹو کی سی ڈیاں حاصل کی جاسکتی ہیں اور انتہائی سستے داموں صرف 35 روپے میں۔(مختلف قسم کے لیے ریٹس مختلف ہوسکتے ہیں) لیکن ان کا دفتر کراچی میں‌ ہے۔ اگر آپ خود کراچی نہیں رہتے تو اپنے کسی دوست سے جو کراچی میں رہتا ہو رابطہ کرکے سی ڈی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ سی ڈی خود ہی اتار کر اسے رائٹ کیجیے گا۔
اور آخر میں آپ کو بتاتے چلیں کہ تنصیب اور وضع قطع کے سارے مراحل کے اوبنٹو( اگرچہ تازہ ترین ورژن 6.10 ہے لیکن ہم سارا کام 6.06 والے ورژن پر کریں گے جو کہ زیادہ استحکام پذیر ہے اور یہ 2009 تک معاونت شدہ بھی ہے۔) پر طے ہونگے۔چونکہ ہم بنیادی طور پر کبنٹو کے صارف ہیں۔ اگرچہ اوبنٹو بھی اچھی چیز ہے لیکن کے ڈی ای کا سواد جس کو لگ جائے وہ کم ہی گنوم کی طرف دیکھتا ہے۔

پیر، 1 جنوری، 2007

عید قرباں اور نیا سال

آج عید تھی۔ آئی اور پہلا دن آدھا گزر بھی گیا۔ ہر بار یونہی ہوتا ہے۔ صبح حسب معمول تھی۔ نماز پڑھی ، کچھ دیر انٹرنیٹ پر لگائی اور پھر نہا کر عید کی نماز پڑھی۔ واپسی پر پھر کمپیوٹر کو رگڑنا شروع کردیا۔ ساڑھے دس بجے کے قریب چھوٹے بھائی کا دوست آیا جس سے مل کر قربانی کی اور اب اس کا گوشت بنا کر نیز کافی سارا کھا کر ہم آرام سے بیٹھے ہیں۔
خمار گندم کا تو بڑا شہرہ ہے لیکن خمار گوشت بھی الگ ہی چیز ہے۔ خصوصًا جب گوشت وہ بھی چھوٹا گوشت سال بھر بعد کھانے کو نصیب ہو۔ مجھے یہ کہنے میں‌ کوئی عار نہیں کہ میں نے بکرے کا گوشت پچھلی عید پر کھایا تھا یعنی ٹھیک ایک سال دس دن کم اور آج پھر کھایا ہے۔ ہماری حکومت کی مہربانیاں شاید یہ بھی آئندہ سالوں میں‌ نصیب نہ ہو۔ اب بھی یہ حال ہے کہ سب سے زیادہ مانگ گائے اور اور اس کے بچھڑوں کی تھی۔ بکروں کی قیمت پوچھ کر ہی لو صبر کرلیتے تھے۔ ہمارا بکرا جو ہم نے آج سے کوئی 2 ماہ پہلے 4400 روپے صرف میں‌ لیا تھا (ایک قریبی گاؤں سے اور اپنے عزیزوں کے کسی جاننے والے سے ) اس کی قبیل کا بکرا عید سے ہفتہ بھر پہلے یا عید کے قریب یہی کوئی 9000 روپے میں مل رہا تھا۔
یہ سب بتانے کے بعد ہم دوسروں کی طرح رونا رونے لگتے ہیں کہ موجودہ حکومت ٹھیک نہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے لیکن فائدہ کاہے کا؟؟ ہم سب ہی بے غیرت ہوگئے ہیں۔ سادہ سے الفاظ میں‌ اور آسان ترین لفظ یہی ملا ہے مجھے۔ پورا ایک ماہ میں‌ دس روپے کا چارا روزانہ اپنے بکرے کو کھلاتا رہا ہوں اور عید کے قریب آکر یہ حال ہوگیا تھا کہ بیس روپے کے چارے سے بھی اس کا پیٹ نہیں‌ بھرتا تھا وجہ یہ تھی کہ چارہ مہنگا کردیا گیا تھا۔۔موج ہے نا۔۔سب کی موج ہے اور ہر کوئی جب اس کا داؤ چل جائے کھال اتارنے سے کبھی دریغ نہیں‌کرتا۔
کھال سے یاد آیا ان تین دنوں میں‌کھال مانگنے والوں کا بھی بڑا رش ہوگا۔ جگہ جگہ کیمپ لگے ہوئے ہیں فلاں جماعت کو، فلاں مدرسے کو، فلاں ہسپتال کو، فلاں فاؤنڈیشن کو۔۔ہمارے محلے کے ایک قاری صاحب جو مدرسہ چلاتے ہیں عید قرباں والے دن اپنے شاگردوں کو چھٹی نہیں دیتے۔۔کھالیں جو جمع کرنی ہوتی ہیں۔سارے محلے سے ، شاگردوں و طلباء کے اپنے گھروں سے ان کے اقارب کے گھروں سے کھالیں اکٹھی کرنے کا کام یہ طلباء کرتے ہیں بار بار گھروں کے چکر لگاتے ہیں جانور ذبح ہوا یا نہیں مالکوں سے زیادہ انھیں قربانی کی فکر ہوتی ہے۔
کھالیں تو قصائی بھی اتارتے ہیں۔ جانوروں کی بھی اور انسانوں کی بھی۔ ایک عام گائے کرنے کے 3000 عام سی بات ہے ساتھ گوشت، کبھی موڈ ہو تو کھال بھی مانگ لیں اور کھانا پینا الگ سے۔ جس نے کبھی چھری کا منہ نہیں دیکھا ہوتا عید والے دن قصائی بن جاتا ہے، گوشت تو جو اس نے کرنا ہے سو کرنا ہے نخرے دیکھنے والے ہوتے ہیں ان کے۔ مالکوں کا بس نہیں چلتا کہ راہ چلتے کو روک کر اس سے قربانی کروا لیں حالانکہ ہاتھ سے سارا کام کرنا سنت ہے۔لیکن یہاں یہ کام جانتا کون ہے اگر کوئی جانے بھی ہے تو کرنے میں شرم محسوس کرے ہے۔
آج کل ایک اور بڑا ٹرینڈ چلا ہوا ہے اور وہ ہے گائے کی اجتمائی قربانی میں حصہ۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ گائے کی قربانی کا انتظام ہے، گائے کی قربانی میں حصہ ڈالیں کے بینر کہیں کہیں نظر آجایا کرتے تھے۔ اب کچھ جدت آگئی ہے مثلًا اب لکھا جانے لگا ہے کہ صحت مند گائے کی قربانی میں حصہ ڈالیں۔
اور شاید اگلے سالوں میں یہ بھی لکھا جانے لگے کہ اصلی گائے کی قربانی میں حصہ ڈالیں۔ یہ بھی اچھا کاروبار بنتا جارہا ہے۔ ہمارے ایک سٹوڈنٹ کے چاچو ایک مذہبی جماعت کے مقامی راہنما ہیں۔ ہر سال یہی کوئی پچیس کے قریب گائیں قربان کرتے ہیں۔ ایک ماہ پہلے پیسے جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور آخری ہفتے میں 10 بارہ کرکے گائیں حاصل کرلی جاتی ہیں۔ کچھ پیسے بچ جاتے ہونگے چلیں‌ نہ بھی بچیں لیکن کھالیں وہ بھی اکٹھی پچیس ان کی طرف سے “مرکز“ کو جاتی ہیں تو ان کی واہ واہ کیوں نہ ہوگی۔ بلکہ ہمیں تو اب سمجھ آئی ہے کہ مدارس، مساجد اور ایسے لوگوں کے ہاں یہ جو اجتماعی قربانی کا انتظام ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ کھالیں اپنی ہوجائیں۔۔
ہمارا شدت سے دل آرہا ہے کہ اگلے سال عید قرباں پر یا تو قصائی کا کام شروع کردیں تکبیر پھیرنا ہمیں آتی ہے۔ کیا جو دو بار چھری پھیرنا پڑے گی یا جانور کو زیادہ تکلیف برداشت کرنا پڑے گی دو تین گھنٹوں کا ہزار بارہ سو بن جائے گا۔اور ساتھ میں گوشت مانگنا کونسا مشکل ہے۔ چلیں یہ نہیں‌ نو
آئندہ سال کوئی جگہ کرائے پر لے کر اجتماعی گائے کی قربانی کا اعلان کرتے ہیں جس سے امید ہے ہمیں خاصی بچت ہوجائے گی۔۔ :roll: :roll:
عید تو آئی ہے ساتھ نیا سال بھی آگیا ہے۔ یہ سال کا بھی پتا نہیں چلتا ہے۔ 2006 ایویں گزر گیا پتا بھی نہیں چلا۔ کیا کیا سوچا تھا اس سال میں‌اور کیا کیا ہوگیا۔ 2006 کے شروع میں بہت پرامید تھا میں۔ بی کام پاس کرنے کی اور اچھے نمبروں سے پاس کرنے کی بہت امید تھی بلکہ ٹینشن ہی نہ تھی۔ اس کام کےلیے محنت بھی کی لیکن پھر جانے کیا ہوا۔ ایک میری توقع سے کم نمبر اور پھر آگے داخلہ نہ ہونا۔ اس سب نے پہلے تو مجھے ہلا ڈالا کئی دن میں اسی شاک میں رہا پھر اپنی فطرت سے مجبور ہوکر میں نے پر جھاڑے اور اس رنگ کو اتار دیا۔ کچھ دوستوں کو نوکری کا کہا اور سب کے مشورے سن کر آخر ٹیوشن پڑھانے کی طرف آگیا۔ ان دنوں میں جو دن نہیں‌مہینوں پر مشتمل ہیں اگرچہ میرے پاس بہت سارا وقت تھا لیکن پھر بھی میں ان پراجیکٹس کی طرف متوجہ نہ ہوسکا۔جن کی بہت ساری امیدیں خود سے لگا رکھی تھی۔
اردو ورڈپریس، اردو لینکس اور اس طرح کے کئی پراجیکٹس سب سے بڑھ کر ممتاز مفتی کی کتاب لبیک جسے مکمل کرنا تھا سب ادھورے پڑے ہیں۔ اگر اس سال میں اپنا حساب لگاؤں تو صرف اتنا حاصل ہوا کہ پی فور کمپیوٹر حاصل کیا، گریجویٹ کہلانے کا حقدار ہوگیا، کیبل نیٹ لگوائی، اپنا بلاگ اپنے ہاتھوں سے فری ہوسٹ پر بنایا(حکیم خالد کا شکریہ جنھوں نے میری بہت ساری مدد بھی کی اس سلسلے میں) پھر اپنے بلاگ پر الٹا سیدھا بہت سارا لکھا۔ پہلی بار میری ذاتی آمدن اتنی ہوگئی کہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو مانگنےپر دے سکوں، خصوصًا عید پر جب انھوں نے عید پر مجھ سے عیدی مانگی مجھے بہت اچھا لگا۔
نیا سال چڑھا آیا اور بہت کچھ ادھورا پڑا ہے۔ میں‌کوئی پلان بنا بھی لوں تو بھی اس کے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں میرے موڈ کا بہت دخل ہے جانے کیوں ابھی میرا موڈ نہیں بنتا کچھ بھی کرنے کا جو کرتا ہوں وہ بھی اس لیے کہ مجبوری ہے نہ کروں تو مسئلہ ہوگا۔ بس دعا ہے اور دعا کی درخواست بھی ہے کہ اپنے ذمے جو اتنے سارے کام لیے تھے انھیں پورا کرسکوں، اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کرسکوں کیونکہ سب سے بڑا میں ہی ہوں اور اپنا ڈھیر سارا پڑھ بھی لوں۔
آپ سب کو نیا سال اور عید قرباں مبارک ہو۔مستحقین کا خیال رکھیے گا اور سڑکوں کا بھی جن پر ہم نے چلنا ہے ان پر غلاظت ڈالنے سے گریز کیجیے گا۔
وسلام