کل میں آنلائن نہیں ہوسکا آج دیکھا تو بی بی سی اردو کی ایک خبر کی ڈھنڈیا مچی ہوئی ہے۔ ملک طالبانائز ہورہا ہے۔ ہر طرف پھڑ لو پھڑ لو مچی ہوئی ہے ۔ یہ وہ۔۔۔
ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ ہمارے سر پر جو بھوت سوار ہوجاتا ہے پھر ارنے بھینسے کی طرح ہم سر جھکا کر اسی طرف پل پڑتے ہیں۔
ہمارے ہاں آہستہ آہستہ ہر دو معاملات میں جنون بڑھتا جارہا ہے۔ ایک طرف اگر ویلنٹائن ڈے کو اتنا فروغ دیا جارہا ہے اور یوم محبت کا نام دیا جارہا ہے دوسری طرف کچھ مذہبی تہواروں کو بھی اسی قسم کی شکل دی جارہی ہے اور ان پر پہلے کے مقابلے میں بڑی شدت سے عمل کیا جارہا ہے ۔۔
آج سے دس بارہ سال پہلے کسی کو نہیں پتا تھا کہ ویلنٹائن ڈے کیا ہوتا ہے اور اب آٹھویں کا بچہ بھی جاتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کیا ہوتا ہےا ور اس پر کیا کیا ،"کِیا" جاسکتا ہے۔
مذہب کے حوالے سے دیکھیں تو عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کبھی ہمارے مولوی صاحب بتاتے تھے کہ یہی بیس پچیس سال پہلے کسی کو اتنا پتا نہیں تھا۔ لیکن اب یہ ایک رچوال بنتا جارہا ہے۔ گھر کو جھنڈیوں سے سجانا، سڑکوں کو سبز جھنڈوں سے سجانا، بینر لگانا، سٹکر لگانا اور اب مرحبا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعرے لگانا۔
میں اس کی مذہبی حیثیت پر بحث نہیں کرتا چاہتا ورنہ اسے بڑی آسانی سے بدعت کہا جاسکتا ہے اور کہا بھی جاتا ہے۔
میرا یہاں یہ کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ سب ہوکیا رہا ہے۔
ویلنٹائن ڈے، فلانا ڈے یہ ڈے وہ ڈے اور مذہب کے نام پر یہ تہوار عروس یہ وہ۔ یہ سب آہستہ آہستہ فیشن بنتے جارہے ہیں ہردو طبقوں میں۔ ان میں بھی جو دنیا دار ہیں اور ان میں بھی جو مذہبی سمجھے جاتے ہیں۔ اور اس سب کا فائدہ کس کوہورہا ہے؟
اس کا فائدہ سراسر ان کو ہورہا ہے جو ہمارے لیے قطعًا مخلص نہیں۔ ہم دین کو چھوڑ کر چند بے معنی رسومات سے جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں۔ مغربی تہوار ہمارے اندر میڈیا کے ذریعے زبردستی گھسیڑے جارہے ہیں۔ اب تو مذہبی تہواروں پر بھی میڈیا بڑے "اچھے" انداز میں نشریات پیش کرتا ہے۔ اب ربیع االاول کو ہی دیکھ لیں۔ ہمارا سرکاری ٹی وی رحمت اللعالمین کے نام سے نشریات پیش کررہا ہے، صبح آدھے گھنٹے کے گانوں کی جگہ نعتیں پیش کی جارہی ہیں، میزبان صاحب رائزنگ پاکستان میں آکر تلقین کرتے ہیں کہ اس مہینے خصوصًا درود شریف کی کثرت رکھی جائے وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح ویلنٹائن ڈے پر رج کے بے ہودگی کی جاتی ہے اور اسے حسین لبادوں میں لپیٹ کر ہمارے دماغوں میں داخل کیا جاتا ہے۔
یہ سب آخر کس طرف لے کر جارہا ہے؟
ہمیں رسومات کا عادی بنایا جارہا ہے۔ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنا صرف ایک اسی مہینے کے لیے ہے؟ ان کی سالگرہ منانا، نعرے بازی کرنا، جھنڈے لگانا، چار نعتیں پڑھ لینا، بس؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس ملک کا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ یہاں کی حکومت کے گوڈوں میں پانی نہیں رہا۔ وہ خود بھی منافق ہوچکے ہیں اور باقی قوم کو بی منافقت کا سبق دے رہے ہیں۔ بلکہ دے کیا رہے ہیں مناق ہوچکے ہیں ہم۔
قوانین کو عجیب انداز سے مبہم بنایا جارہا ہے کہ کسی پر کوئی چیک نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ عوام کو روزی روٹی اور بھوک کی فکر ڈال دی گئی ہے۔ ہر دو قسم کے جنونیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
اگر اسلام آباد میں جامعہ حفصہ جیسے ادارے موجود ہیں جو صرف محلے والوں کی درخواست پر خواتین کو اٹھوا لیتے ہیں تو دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے لیے بدکاری جسٹ نارمل سی بات ہے۔ میرا دوست اسلام آباد میں زیر تعلیم ہے اور اسے کسی واقف کار کے مطابق کسی برگیڈیر صاحب کی بیٹی کے ان کی بڑی اچھی سلام دعا رہی ہے اور بڑے عرصے تک وہ اس سے "فیضیاب " ہوتا رہا ہے بلکہ کئی بار اپنے دوستوں کو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے لے جاچکا ہے۔
شاید آپ مجھے بے شرم کہیں لیکن سچ بولنے میں مجھے کوئی عار نہیں۔ اگر اس نے ایسا کہا ہے تو واقعی ایسا ہوگا۔ چلیں وہ جھوٹ بول لے کوئی بات نہیں آپ میں سب جانتے ہیں کہ یہاں کیا "ممکن" نہیں۔ بس روکڑا چاہیے ہر قسم تفریح مل سکتی ہے۔
یہ سب جنون نہیں تو اور کیا ہے؟
اور حکومت کیا کررہی ہے؟
حکومت بے حس بنی بیٹھی ہے۔ سڑکوں کے افتتاح ہورہے ہیں، پلوں کے افتتاح ہورہے ہیں، سیورج لائنوں کے افتتاح ہورہے ہیں اور ان کو استعمال کرنے والوں کے ساتھ کیا بیت رہی ہے انھیں کوئی ٹینشن نہیں۔
پھر نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ یا تو ڈاڑھیوں اور سر پر پگڑیوں اونچی شلواروں والی مخلوق پیدا ہورہی ہے جو دین پر عمل کروانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہیں نہ صرف عام جنتا کو ذلیل کرتے ہیں بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے ہیں۔
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو دین کو پس پشت ڈالے ہر الٹے سیدھے کام میں بڑی ڈھٹائی سے ملوث ہیں، سود خوری ہورہی ہے، رشوت خوری ہورہی ہے، بدکاری ہورہی ہے، سرعام بلیو پرنٹ فلموں کا لین دین ہورہا ہے دیکھی جارہی ہیں۔ دکھائی جارہی ہیں۔
اگر کوئی ان کے علاوہ ہیں تو وہ چپ بیٹھے ہوئے ہیں کہ کیا کریں؟
میرے جیسوں کو پتا ہے کہ اسلام آباد میں غلط ہورہا ہے، وزیرستان میں غلط ہورہا ہے اس کا سدباب کرنا چاہیے لیکن کون کرے گا؟ میں کروں؟ میں اپنی روزی روٹی کی اپنے گھر کی فکر کروں یا اس کی فکر کروں۔
میرے جیسے جن کو پتا ہے کہ اپنے محلے ہی میں کہاں کہاں کیا ہورہا ہے کس کے گھر میں بے غیرتی ہورہی ہے، کس انٹرنیٹ کلب پر نوجوانان ملت کو جنس کے جال میں پھنسا کر گھلایا جارہا ہے۔ لیکن میں کیا کروں اس کے لیے؟ اس کو روکوں جاکر؟ مجھے اپنے گھر کی فکر ہے اپنی روزی روٹی کی فکر ہے میں ان کو کیا دیکھوں۔
تو پھر کون یہ کرے گا؟ ۔۔۔۔۔کیا حکومت؟؟؟ یا عوام؟؟؟
یا اس طرح کے لٹھ براداران دین؟؟؟
آپ کا کیا خیال ہے کون ہوگا جو یہ کرے گا؟؟
مجھے تو لگتا ہے کہ ہم پر حجاج بن یوسف جیسا کوئی حکمران متعین کردیا جائے جو اس قوم کو ذلیل و خوار کرکر کے سیدھا کردے اور تو کوئی صورت نظر نہیں آتی۔۔۔