پیر، 15 اکتوبر، 2007

سبحان اللہ دل خوش ہوگیا

افتخار اجمل صاحب کی حالیہ پوسٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ آج ذرا فراغت تھی میں نے سنت کی آئینی حیثیت از ابواعلٰی مودودی کا دیا گیا پی ڈی ایف ربط اتار لیا۔ ابھی صرف ایک سو پچاسی صفحات پڑھے ہیں۔ شاید مزید پڑھنے کی بھی توفیق نہ ہو۔ لیکن بخدا مزہ آگیا ایک بار۔


وہ منکر حدیث صاحب کج بحث اور نئے اعتراضات جڑنے کے ماہر ہی معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی علمی بات تو ان سے ہو نہیں رہی۔ بس بودے اعتراضات کیے چلے جارہے ہیں۔ ایک دو جگہ مجھے اپنی کم علمی کی وجہ سے اعتراضات میں وزن لگا لیکن جب قرآن سے اس کا ثبوت مودودی صاحب نے نکال کر دیا تو سب کچھ آئینے کی طرح شفاف ہوگیا۔


یہ کوئی پچاس سال پرانی بات ہے۔ لیکن اعتراضات وہی ہیں جو ابھی کچھ دن پہلے ہی محفل پر کیے جارہے تھے۔ احادیث کو لکھا کیوں نہیں گیا۔ ان کتب میں ہر چیز قابل اعتبار کیوں نہیں ۔یہ کیوں نہیں وہ کیوں نہیں۔ یہ کتب روایات ہیں۔ اور پھر جب موسیقی کے حلال حرام کا قصہ آیا تو قرآن کی ایک آیت جس کا مفہوم ہے تم پر جو چیزیں حلال کی گئی ہیں ان سے پچھے نہ ہٹو وغیرہ کا حوالہ دے کر مطمئن ہوجانا۔ لیکن دین صرف قرآن کا نام ہی نہیں۔ صاحب قرآن کے احکامات اور اطاعت کا نام بھی ہے۔


بخدا میرے تصورات اس کتاب کے معاملے سے مزید کلئیر ہوئے ہیں۔ یہ حق و باطل کی جنگ بڑی پرانی ہے چناچہ مجھے اب کوئی چنتا نہیں۔ اللہ سائیں بہتر کرے گا۔ اگر اس وقت ابو لاعلٰی مودودی جیسے علماء موجود تھے تو آج بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقین موجود ہیں۔

اتوار، 14 اکتوبر، 2007

اور عید گزر ہی گئی

پچھلے پانچ سال سے معمول کی طرح عید کی نماز کے بعد میرے پاس کرنے کےلیے کچھ نہیں تھا۔ دو ایک فلمیں دیکھیں۔ بھلا ہو ایک دوست کا اس کا فون آگیا۔ اس کی طرف دو گھنٹے گزر گئے ۔ گھر آکر کچھ دیر نیند لی۔ اس دوران جو رہ گئے تھے انھیں عید مبارک کے میسج کیے۔ کبھی ادھر کبھی ادھر جھک مارا اور اب شام کے پانچ بج چکے ہیں۔ یعنی عید گزر گئی۔


آہ۔۔۔۔۔ کیا دن تھے جب عید کو انجوائے کیا کرتے تھے۔ اب تو وہ سب خواب ہوگیا ہے۔ عیدی اول تو ملتی نہیں مل بھی جائے تو کیا کرنی ہے۔

جمعرات، 11 اکتوبر، 2007

عید مبارک

تمام احباب کو عید الفطر کی مبارکباد۔ دعا ہے یہ عید ہم سب پر ڈھیروں خوشیاں لائے۔


آمین۔


بدھ، 10 اکتوبر، 2007

نادرا کیاسک ہمارا تجربہ

ہماری حکومت کی آئی ٹی کمپنی نادرا نئے نئے "سٹیپ دکھاتی" رہتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے نادرا کیاسک کے نام سے نئی سروس شروع کی ہے۔ شناختی کارڈ کی تصدیق کروائیں، بل جمع کروائیں، موبائل فون کارڈ لیں۔ آج ہم نے بینک میں کھاتہ کھلوانا تھا لیکن اس کے لیے اب گواہی کی بجائے نادرا سے شناختی کارڈ کی تصدیق کروانا پڑتی ہے۔ ہمارے ساتھ والے محلے میں ایک کیاسک مشین نصب کی گئی ہے کچھ عرصہ پہلے۔ وہاں گئے تو  وہاں بیٹھے بابا جی بولے بھئی یہ تو تصدیق کا کام نہیں کرتی۔ کئی دن سے خراب ہے ٹھیک کرنے والے آتے ہی نہیں۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ اکبر چوک چلا جاؤں وہاں بھی ایک مشین ہے۔ میں نے سوچا چلو شہر چلتے ہیں یونیورسٹی سے بھی ہولیں گے اور یہ کام بھی ہوجائے گا۔ یونیورسٹی سے واپسی پر پہلے نادرا کے رجسٹریشن سنٹر گیا وہاں سے پتا چلا کہ وہ تو پیچھے ہے جہاں سے آیا ہوں۔ چناچہ پیدل مارچ کرکے واپس امین پور بازار آیا (فیصل آباد کے آٹھ بازاروں میں سے ایک)، پوچھ پاچھ کر اس دوکان پر پہنچا وہاں پہلے ہی پانچ چھ بندے بیٹھے ہوئے تھے بیماران کیاسک۔ کوئی بل جمع کروانے آیا تھا اور کوئی شناختی کارڈ کی تصدیق کروانے۔ لیکن مشین کا پرنٹر ہی کام نہیں کررہا تھا۔ آخر بیس پچیس منٹ بیٹھ کر میں لوٹ آیا۔  اب کل دوبارہ اکبر چوک جاکر ٹرائی کروں گا اگر وہ میرے جانے سے پہلے خراب نہ ہوگئی تو۔


ہماری یہ بڑی گندی عادت ہے کہ سکیم شروع کردیتے ہیں پھر اس کو چلانا اور اس کی دیکھ بھال کا کوئی مربوط اور منظم نظام نہیں ہوتا۔ بس سروس سے لے کر کیاسک تک یہی حال ہے۔

دوسال

میرے بلاگ کی پہلی پوسٹ پر 9 اکتوبر 2005 کی تاریخ درج ہے. بلاگ سپاٹ پر میں نے اکتوبر 2005  کے زلزلے کے ایک دن بعد پہلی پوسٹ لکھی تھی۔ اس کے بعد کبھی لکھا کبھی نہ لکھا اور پھر اسے ورڈپریس پر منتقل کرلیا۔ دوسال۔۔۔


پتا نہیں ان دوسالوں میں مَیں نے کچھ اچھا کام بھی کیا ہے یا نہیں۔ لیکن مجھے اتنا احساس ہے کہ اردو بلاگنگ نے مجھے شعور بخشا۔ میں آج اگر بلاگنگ کرتا ہوں، یا ویب کے بارے میں میرے پاس کچھ علم ہے تو یہ میرے ان احباب کی کرم فرمائی ہے جو اردو محفل پر اور اردو بلاگنگ کی دنیا میں موجود ہیں۔


ان سب کا شکریہ جنھوں نے مجھے بلاگ شروع کرنے میں مدد دی، قدیر رانا، نبیل نقوی، زکریا اجمل اور محفل کے سارے دوست۔ ان سب کا شکریہ جن کے تبصروں اور حوصلہ افزائی نے مجھے مہمیز کیا کہ میں بھی لکھ سکتا ہوں۔

پیر، 8 اکتوبر، 2007

ہماری کٹو بیگم

پرائمری میں اردو کی کتاب میں ایک سبق پڑھا تھا کٹو بیگم۔ ایک مرغی جسے اپنے آپ پر بڑا غرور ہوتا ہے۔ ہماری مرغی بھی کٹو بیگم لگتی ہے۔ اب تو اس کے پیارے پیارے سے چوزے بھی ہیں جو ابھی صرف تین دن کے ہیں۔ بیس سے زیادہ انڈے اس کے نیچے رکھے تھے۔ جن میں سے گیارہ چوزے نکلے ہیں۔ اللہ کرے یہ بلی اور بیماریوں سے بچ جائیں اب۔


 


اتوار، 7 اکتوبر، 2007

اوبنٹو 7.10 گسٹی گبن


ٹھیک گیارہ دن بعد اوبنٹو کا نیا ورژن گسٹی گبن جاری کیا جارہا ہے۔ اس ورژن میں کافی ساری نئی چیزیں متعارف کروائی گئی ہیں۔




  • گوگل ڈیسکٹاپ جو اس سال لینکس کے لیے بھی جاری کردیا گیا تھا  کے مقابلے پر اوبنتو اور کبنٹو دونوں میں ڈیسکٹاپ تلاش گر متعارف کروائے گئے ہیں۔ امید ہے یہ "پیدائشی" اطلاقیے گوگل ڈیسکٹاپ کی نسبت بہتر اور تیزی سے کام کریں گے۔

  •  این ٹی ایف ایس فائل سسٹم کی رائٹنگ سپورٹ شامل کردی گئی ہے۔ اس سے پہلے اوبنٹو لینکس اور اس کے "بچڑے" صرف اس کو پڑھ ہی سکتے تھے۔ یہ کام این ٹی ایف ایس 3 جی نامی ایک ڈرائیور کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

  • اوبنٹو میں سہ جہتی اثر کے لیے کمپز بیرائل طےشدہ طور پر شامل کردیا گیا ہے۔ اگر آپ کا سسٹم اس قابل ہے (یعنی کم از کم 512 میگا بائٹ ریم اور 64 میگا بائٹ سے زیادہ گرافکس کارڈ میموری والا) تو سہ جہتی ڈیسکٹاپ خود بخود دوران تنصیب فعال ہوجائے گا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ صرف اوبنٹو میں کیا گیا ہے۔ کبنٹو میں یہ سارا کام خود سے کرنا ہوگا۔

  • کبنٹو میں کنکرر کی چھٹی کرکے ڈولفن کو فائل مینجر بنا دیا گیا ہے۔ اگرچہ کنکرر بھی یہ کام کرتا رہے گا۔

  • کے ڈی ای 4 اس اشاعت میں شامل نہیں۔ اس کا مستحکم ورژن اکتوبر کی بجائے اب نومبر میں متوقع ہے۔

  • کبنٹو میں ایجوکیشن اوبنتو کے پیکج شامل کردیئے گئے ہیں۔ ایجو اوبنتو اصل میں اوبنٹو کا ایک بچڑا ہے جو کہ خصوصًا بچوں اور اساتذہ کے لیے بنایا گیا ہے۔ لیکن اس کے سارے اطلاقیے کے ڈی ای ایجوکشن پروجیکٹ سے لیے گئے ہیں جبکہ ڈیسکٹاپ گنوم ہے۔ اب یہ سارے اطلاقیے آپ کبنٹو میں ایک کمانڈ سے نصب کرسکتے ہیں۔



sudo apt-get install edubuntu-desktop-kde




  • فائر فاکس اور کنکرر میں پلگ انز کی تنصیب زیادہ آسان کردی گئی ہے۔ خصوصًا فائر فاکس میں اب انھیں ونڈوز کی طرح پلگ ان سرچ سے ڈھونڈا جاسکتا ہے۔

  • اوبنٹو میں سکرین ریزولوشن کم زیادہ کرنے کے لیے ایک ٹول شامل کیا گیا ہے

  • ملکیتی ڈرائیورز کو منظم کرنے کے لیے ایک ڈرائیور مینجر الگ سے دونوں میں شامل کیا گیا ہے۔

  • اوبنٹو میں پرنٹرز کی تنصیب کے بارے میں مزید بہتری لائی گئی ہے۔ اب یہ خودکارانہ نصب ہوتے ہیں۔

  • اوبنٹو میں غیر مفت پروگرام انسٹال کرنے کے لیے ایک پیکج ترتیب دیا گیا تھا۔ اسی طرح کا پیکج اب کبنٹو کے لیے بھی kubuntu-restricted-extras  کے نام سے دستیاب ہے۔ اس میں جاوا، فلیش پلئیر، کوڈکس وغیرہ شامل ہیں۔

  • کبنٹو کا آرٹ ورک اور اس کی دستاویزات کو بھی جدید کیا گیا ہے۔


ہم تو ابھی سے دانت تیز کررہے ہیں کہ سسٹم کو اپگریڈ کریں۔

 




 

ہفتہ، 6 اکتوبر، 2007

بریت

"اوئے مودے کچھ سنا تم نے۔" شیدے نے بڑے رازدارانہ انداز میں اس کے قریب آکر کہا۔


 

"کیوں کیا ہوگیا ہے" مودے چرسی نے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے مسرور لہجے میں کہا۔


 

"اوئے سنا ہے نیا قانون آیا ہے اور دس سال کے مقدمے معاف۔"


 

"سچیں شیدے تو کہیں مذاق تو نہیں کررہا؟" مودے چرسی کا سارا نشہ ہرن ہوگیا تھا۔


 

" او نہیں یار اپنا باؤ اشفاق سب کو خبریں پڑھ کر سنا رہا تھا وہاں تھڑے پر۔ وہاں سے پتا لگا ہے۔" شیدے نے منہ بنا کر جواب دیا۔


 

"اوئے پھر تو ہم بھی حاجی ہوگئے ہیں۔ اوئے میرے اوپر چرس بیچنے کا مقدمہ دس سال پرانا ہی ہے۔ اوئے وہ تو گیا۔" مودا چرسی جیسے ہواؤں میں اڑنے لگا۔


 

 "میرے اوپر حاجیوں کی مرغیاں چوری کرنے کا الزام بھی اب ختم ہوجائے گا۔" شیدے نے کُکڑ کی طرح سینہ پھلاتے ہوئے کہا۔


 

"او چل بھئی پھر تھڑے پر جاکر بیٹھتے ہیں۔ اب ہم بھی عزت دار لوگ ہیں۔" مودے چرسی نے سگریٹ کا آخری کش لگایا اور اور اسے پھینکتے ہوئے بولا۔


 

"ہاں ہاں۔ باؤ اشفاق سے خبریں سنتے ہیں۔ بلکہ اس کے لیے مٹھائی لے کر چلتے ہیں۔" شیدے نے جیب پر ہاتھ مارتے ہوئے ایک پچاس کا نوٹ نکالا۔


 

"کیوں بھئی آج بڑی مٹھائیاں کھلا رہے ہو۔" ریٹائرڈ ماسٹر محمد اسلم نے مودے کے ہاتھ سے برفی لے کر منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔


 

"ماسٹر جی آپ کو نہیں پتا۔آج کا اخبار کیا کہہ رہا ہے؟"


 

"کیا کہہ رہا ہے بھئی" ماسٹر اسلم نے جیسے مزہ لیتے ہوئے کہا۔


 

"او جی اب سارے مقدمے معاف ہوجائیں گے۔ اب ہم مشتبہ بھی نہیں رہیں گے جی۔ محلے کا تھانے دار ہمیں تنگ نہیں کرے گا۔ اب ہم بھی عزت دار لوگ ہیں جی۔ نیا قانون جو پاس ہوا ہے۔" مودے چرسی نے چرس کے بغیر نشے میں آکر کہا۔


 

اور اس کی یہ بات سن کر تھڑے پر بڑے زور کا قہقہہ پڑا۔ باؤ اشفاق نے ہنسی سے دوہرے ہوتے ہوئے کہا


 

" مودے تجھے کس نے کہہ دیا کہ تیرے مقدمے معاف ہوگئے ہیں۔"


 

"جناب جب قانون بنتاہے تو سب کے لیے ہوتا ہے نا۔ تو ہم بھی تو یہیں رہتے ہیں۔" مودے کی آواز میں ہلکی  سی ہکلاہٹ آگئی۔


 

"او بھولے بادشاہ یہاں قانون خاص لوگوں کے لیے بنتے ہیں۔ یہ قانون تیرے میرے لیے نہیں وڈے بدمعاشوں کے لیے ہے۔ ان کے دس سال کے مقدمے معاف ہوگئے ہیں۔ تاکہ پھر ہماری رگوں سے آکر لہو نچوڑیں۔ یہاں قانون سب کے لیے نہیں صرف وڈے لوگوں کے لیے بنتا ہے۔" باؤ اشفاق کا لہجہ زہر میں بجھا ہوا تھا۔


 

"تے فیر ہمارے مقدمے ویسے ہی رہیں گے۔" مودے چرسی اور شیدے کے منہ پھر سے لٹک گئے۔


 

"ہاں تمہارے مقدمے ایسے ہی رہیں گے۔ اگر تم نے بھی مقدمے معاف کروانے ہیں تو اچھی نسل کا جرم کرکے آؤ۔ اس قوم کو لوٹو۔ کرپشن کرو۔ پولیس مقابلوں میں بندے مرواؤ۔ اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمے درج کرواؤ۔ پھر تمہیں معافی مل سکتی ہے۔" اس بار ماسٹر اسلم کے لہجے میں بلا کی کاٹ تھی۔ اور مودا شیدے کے کندے پر ہاتھ رکھ کر واپس پلٹ پڑا۔ چل یار دو سُوٹے لگاتے ہیں بیٹھ کر۔


 

 

جمعہ، 5 اکتوبر، 2007

بلڈی پورز

ہر بچہ پڑھ جائے گا تے ملک ترقی پائے گا۔


صاحب کیا واقعی ایسا ہی ہوگا۔


ہاں ہاں کیوں ایسا ہورہا ہے۔ تم نے ٹیلی وژن پر نہیں دیکھا۔ بچے سکول جارہے ہیں۔ انھیں کتابیں مل رہی ہیں۔ میں روز تو پڑھا لکھا پنجاب ہمارا کے ساتھ ٹیلی وژن پر آتا ہوں۔


پر صاحب ہمارے محلے میں جو ہائی سکول ہے اس میں تو صرف ڈیڑھ سو بچہ رہ گیا ہے باقی سب بھاگ گئے ہیں۔


اچھا اسے چھوڑو یہ سنو۔ سب کی خدمت فرض ہمارا صحت مند پنجاب ہمارا۔ دیکھا پنجاب کتنا صحت مند ہوگیا ہے۔ پہلے کبھی ایسا ہوا تھا؟


پر صاحب ہمارے محلے میں جو ہسپتال جتنی بڑی ڈسپنسری تھی اس میں اب ناظم نے دفتر بنا لیا ہے۔


اوئے کم عقل جو میں دکھاتا ہوں وہ دیکھو۔ چھوٹے لوگ اور چھوٹی سوچ کی جان چھوڑ دو۔ ٹیلی وژن پر دیکھو یہ آج کی حقیقت ہے باقی سب چھوڑو۔


صاحب اس پر تو اربوں روپے لگتے ہونگے نا مشہوری دینے کے لیے؟ اگر یہ عوام پر لگتے تو کتنا اچھا ہوتا۔


ابے چپ کر۔ جنرل صاحب ٹھیک کہتے ہیں بڈی پورز انھیں ذرا بھی تمیز نہیں۔ دفع ہوجاؤ

منگل، 2 اکتوبر، 2007

نیوز پورٹل

یہ تھیم اس وقت مورخہ 7 جنوری 2007 کو ہمارے بلاگ کے زیر استعمال ہے۔ اس تھیم میں ایک آدھ ناقابل غور غلطیوں کے علاوہ اور کوئی غلطی موجود نہیں۔مکمل اردو ترجمہ شدہ ہے اور ویب پیڈ اس بار ہم نے تھیم کے فولڈر میں ہی رکھ دیا ہے اب صارف کو صرف اسے حاصل کرکے ورڈپریس کی /wp-contetn/themes ڈائرکٹری میں چڑھانے کی زحمت کرنا پڑے گی اور کچھ نہیں۔ اس تھیم میں قدیر احمد رانا کی مہربانی سے ایک اور چھوٹی سی خوبی بھی شامل کی گئی ہے کہ اس کا فونٹ اپنی پسند کے مطابق بدلا جاسکتا ہے۔ یہ کھڑاگ اس لیے پھیلانا پڑا کہ ہم جو پاک نستعلیق کے بڑے دعویدار بنے پھرتے تھے لینکس پر اس کے درست نظر نہ آنے کا سن کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ اور مجبوًا اردو نسخ ایشیا ٹائپ کو بنیادی فونٹ بنانا پڑا دوبارہ سے۔ البتہ اس جاوا سکرپٹ میں پاک نستعلیق کا انتخاب بھی شامل کردیا گیا ہے۔ دعا ہے کہ پاک نستعلیق کا لینکس پر پیشکش کا مسئلہ جلد حل ہو اور ہم اپنے بلاگ اور آئندہ تھیموں کا بنیادی فونٹ اسے بنا سکیں۔ اگر آپ کو اچھا لگے تو دعاؤں میں یاد رکھیئے گا۔ وسلام Free Image Hosting at www.ImageShack.us اتارنے کے لیئے یہاں کلک کریں متبادل ربط


 

فلوئڈ سلوشن

بہت دنوں بعد ایک تھیم اردو کیا ہے۔ اور پہلی بار اپنے بلاگ پر لگانے کی بجائے اردو کے لیے اردو کیا ہے۔ چناچہ قبول کیجیے۔ سادہ سا تھیم ورڈپریس 2.3 کے ساتھ چلنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ نفیس رقعہ فونٹ کو سرخیوں پر استعمال کرنے سے اس کی خوبصورتی اور بھی بڑھ گئ ہے۔


 


Free Image Hosting at www.ImageShack.us


اتارنے کے لیے یہ ربط ملاحظہ کریں۔


 

پیر، 1 اکتوبر، 2007

محب علوی اردو ورژن

محب علوی کے ساتھ ہمارا ایک معاہدہ تھا کہ ان پر اس وقت تک نہیں لکھوں گا جب تک یہ میرے بارے نہیں لکھ دیتے۔ لیکن انھوں نے چونکہ ایسا کافی عرصے سے نہیں کیا تو ہم معاہدے کے "سو سال" پورے ہونے پر اسے کالعدم سمجھتے ہوئے بسم اللہ کرتے ہیں۔ یہ پہلے لکھی گئی پنجابی پوسٹ کا اردو ورژن ہے۔
محب علوی اب تو اچھی طرح یاد بھی نہیں محفل پر کب آیا تھا۔ شاید ہمیشہ سے محفل پر ہی تھا۔ آپ یقین کریں یا نہیں مجھے زندگی میں پہلا ملنے والا علوی محب علوی ہی تھا۔ شادی شہداء بندہ ہے لیکن کام اس کے کاکوں والے ہیں۔
ٹیلی فون کرے تو پونا گھنٹا تو گیا۔ مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ فون اکتا کر اس کے ہاتھوں سے بھاگتا ہے تب یہ کال ختم کرتا ہے۔ اردو کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ اس کے اندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ اب یہ ٹھاٹھیں کس قسم کی ہیں میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ہوسکتا ہے اونچی ایڑی والے سینڈل کی "ٹھا ٹھا" ہوں۔
ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے، لیکن یہ وہ بندا ہے جو بہت کچھ کرسکتا ہے۔ باتیں اس طرح سناتا ہے کہ اگلا بندہ کہتا ہے بس دنیا تو یہی ہے۔ اس کی اسی خاصیت کی وجہ سے اسے اردو لائبریری کا افسر تعلقات عامہ بنایا گیا ہے۔ اردو ٹیک پر گیا تو وہاں بھی سائیاں اسے مزدوروں کا ہیڈ بنا دیا ہے۔
سٹیٹ لائف والوں کی بدقسمتی یہ ان کو نہیں مل سکا۔ چکما دے کر سافٹ وئیر پروگرامنگ کی طرف نکل آیا۔ ورنہ اس کے لچھن انشورنس ایجنٹوں والے ہیں۔ باتوں باتوں میں بیمار کو کھڑا کرے اور کھڑے کو بیمار کردے بیچارہ ہائے ہائے کرتا پھرے۔ اچھے بھلے بندے کو آسمان پر چڑھا دیتا ہے۔ خود بے نیازی سے آگے بڑھ جاتا ہے پیچھے وہ غریب چاہے اپنی ہڈی پسلی تڑوا بیٹھے۔
شروع شروع میں مجھے بھی اس نے آسمان پر چڑھایا تھا۔ لیکن شکر ہے بچ بچا ہوگیا۔ ورنہ مجھے تو اپنے اندر وہ وہ خوبیاں نظر آنے لگی تھیں کہ کبھی خواب میں نہیں سوچا تھا۔ ایسے بندے سے تو بندہ حسد بھی نہیں کرسکتا۔ حسد کس چیز پر کرے۔ الٹا یہ آپ کو پتنگ کی طرح آسمان پر چڑھا دے گا۔
کوئی پراجیکٹ چلانا اس کے بائیں ہاتھ کی مار ہے۔ سب کو ایک دفعہ گھن چکر بنا ڈالتا ہے۔ تم بھی آجاؤ، تم بھی آجاؤ۔ ایسے ایسے بندے لے آتا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ لوگ نا نا کرکے بھی کام کر جاتے ہیں۔ بس اتنا ہی، ہاں ٹھیک ہے اتنا ہی۔ اچھا تھوڑا سا اور چلو دے دو یہ بھی۔ اور اتنے میں کام ہی ختم ہوجاتا ہے۔
میں مشورہ دوں گا جن ماؤں کے بچے سکول نہیں جاتے، کڑوی دوا پلانے پر تنگ کرتے ہیں۔ وہ چینی کی جگہ محب علوی کو ٹرائی کریں انشاءاللہ افاقہ ہوگا۔
اس بندے کا نام محب علوی نہیں محبوب علوی ہونا چاہیے تھا۔ اردو کے ساتھ محبت رکھنے والے محب علوی سے بھی محبت رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا اصلی نام فاروق ظفر ہے۔ جس سے شک پڑتا ہے کہ یہ ایس ایم ظفر کا کوئی رشتے دار ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ اپنا اصلی نام پبلک نہیں کرتا۔
خیر ہمیں یار کی یاری سے غرض۔ محب علوی سدا خوش رہے۔ بیبا بندہ ہے۔ (بی با پنجابی میں اچھے بندے کو کہتے ہیں)۔ دعا ہے اس کا ہمارا اور اردو کا ساتھ ہمیشہ قائم رہے۔ آمین۔

حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور لسانیات

ہمارے اگلے سمسٹر میں ایک مضمون پڑھایا جائے گا ہمیں جس کا نام سٹائلسٹکس ہے۔ اردو ترجمہ کریں تو انداز بیاں۔ اس کا کام یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے انداز بیاں کا کھوج لگائے۔ یہ انداز کسی لکھاری کا بھی ہوسکتا ہے جیسے آپ ممتاز مفتی کو اس کی تحریر سے پہچان لیتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ مخصوص الفاظ، کچھ گرامر کے پیٹرنز کا بے تکلفانہ استعمال کرتا ہے۔ گرامر کے پیٹرن کا ایک رف سا خاکہ یہ ہوسکتا ہے کہ محی الدین نواب کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ گئی، گیا نہیں لکھتا ہمیشہ یہ لکھے گا کہ چلتی ہوئی گئی، چلتا ہوا گیا۔ یہ چلتا ہوا گیا جو کہ ایک فعل گیا کی جگہ استعمال ہورہا ہے ایک خاص گرامر پیٹرن ہے۔۔کم از کم میں فورًا پہچان جاتا ہوں کہ یہ بندہ محی الدین نواب ہے۔


اگر ہم عمومی سٹائلسٹکس کی بات کریں تو یہ انداز کسی خاص شعبہ زندگی کے لوگوں کا ہوسکتا ہے۔ جیسے قانون سے تعلق رکھنے والوں کی ایک مخصوص پیشہ ورانہ زبان ہوتی ہے۔ جسے وہ عدالتوں، کچہریوں میں استعمال کرتے ہیں۔ ہم ان کو بھی ان کے انداز بیاں سے پہچان لیتے ہیں۔


کسی بندے کا تکیہ کلام اس کے انداز بیاں کا حصہ ہے چناچہ اکثر آپ تکیہ کلام کے بل پر دوسرے بندے کو پہچان لیتے ہیں۔ سٹائلسٹکس میں کئی مثالیں موجود ہیں جن میں کسی بے نام لکھاری کی تحاریر کو اس تجزے کی بنیاد پر شناخت کرلیا گیا۔ کام صرف اتنا تھا کہ بے نام لکھاری کی تحاریر کا سٹائلسٹکس تجزیہ کیا جائے، کس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے، فعل زیادہ یا اسماء زیادہ، کونسے گرامر پیٹرن زیادہ استعمال کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس کام کو ان لکھاریوں کی تحاریر کے تجزیے سے ملایا گیا جن کے بارے میں کنفرم تھا کہ اس تحریر کا لکھاری یہی ہے۔ اس طرح گمنام لکھاریوں کو انداز بیاں ایک ہونے کی بناء پر جانے مانے لکھاری سے ملایا گیا اور بعض اوقات سو سال بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ گمنام تحریر فلاں لکھاری کی ہے۔


اسی بنیاد پر میں نے آج سوچا کہ اگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سٹائلسٹکس تجزیہ کیا جائے تو کیسا رہے؟ یہ خیال مجھے محفل پر کئی ماہ تک پڑی رہنے والی کھپ کی وجہ سے آیا جس میں یار لوگوں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سچ ہونے پر انگلیاں اٹھائیں۔


اس تجزیے کے لیے ایک ایسا بندہ درکار ہوگا جو عربی اور لسانیات کی اس شاخ یعنی سٹائلسٹکس پر عبور رکھتا ہو۔ نیز عربی کا مشینی تجزیہ کرنے کے لیے کئی سافٹویر بھی درکار ہونگے۔ یعنی اچھا خاصا ایک پراجیکٹ بن سکتا ہے۔ لیکن ہمارا کام تو تجویز دینا تھا۔ پتا نہیں یہ قابل عمل بھی ہے یا نہیں۔ چونکہ احادیث کو جانچنے کے کئی معیارات صدیوں سے مستعمل ہیں۔ اسماء الرجال اور شاید صرف و نحو بھی۔ ان میں شاید انداز بیاں کا تجزیہ جیسی کوئی چیز بھی ہو۔


آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟