جمعہ، 30 نومبر، 2007

آخر اردو میں ہی کیوں نہیں انگریزی بھی تو ہیں؟

زکریا کا یہ اعتراض وزن دار ہے کہ پاکستانی بلاگز انگریزی میں‌ بھی تو ہیں تو پھر اردو میں کیوں نہیں؟
میں پہلی پوسٹ میں کچھ سنجیدہ مع رنجیدہ ہوگیا تھا جو کہ عمومًا پاکستانیوں کی عادت ہے۔ اب ذرا جذبات سے ہٹ کر تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
بات پھر میری ہی آجانی ہے کرلو گلاں خیر۔۔۔
میں پچھلے دو سال سے بلاگنگ کررہا ہوں۔ اور اردو میں کررہا ہوں نہ کہ انگریزی میں۔ میں نے جب بلاگنگ شروع کی تو مجھے اس کی الف بے کا بھی نہیں پتا تھا آج دوسال بعد بھی میں نیم حکیم ہوں۔ جس کے ہاتھ آیا تھیم یا تو اردو ہوجاتا ہے یا اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے کوئی درمیانی راہ نہیں نکلتی۔ عرض یہ تھی کہ اردو بولنے والی کمیونٹی پاکستان میں‌کمی کمین گنی جاتی ہے۔ وہی حال انٹرنیٹ پر ہے۔ انگریزی بلاگرز زیادہ عقلمند، قابل اور پتا نہیں کیا کیا خوبیوں والے بندے ہیں۔ اردو بلاگرز میرے آپ جیسے تھکے ہوئے لوگ ہیں۔ جنھیں ایک تھیم بھی اردو کرنے کے لیے چار جگہ دھائی اور ات مچانی پڑتی ہے۔
دوسری چیز جو میری ناقص عقل کہتی ہے وہ ہے ریوارڈ یا انعام۔ پیسہ کہہ لیں۔ اردو بلاگنگ کرکے ہم کچھ بھی نہیں‌ کما سکتے۔ اگر ہم اردو بلاگنگ میں‌اپنا وقت دیتے ہیں۔ بالفرض میں اگر اوپن سورس کی خبریں‌ ہی انگریزی سے اردو ترجمہ کرکے پیش کرتا ہوں‌ تو ایک اوسط درجے لمبائی کی خبر کم از کم آدھا گھنٹہ لیتی ہے ترجمے کے لیے۔ اگر میں روز کوئی ایسی پوسٹ، کوئی ٹیوٹوریل پیش کرتا ہوں یعنی آدھا گھنٹا بلاگ کو دیتا ہوں تو مجھے کیا ملتا ہے؟ امب (پنجابی والا آم)۔ میں اپنی ہر پوسٹ کے نیچے گوگل ایڈسیسن کا کوڈ ڈال دیتا ہوں اور مزے کی بات ہے کہ اس ماہ کسی ایک بندے نے بھی اس پر کلک نہیں کیا۔ جبکہ یہیں محفل پر کل ایک صاحب سو ڈالر نصف جس کے پچاس ڈالر ہوتے ہیں کمانے کی بات کررہے تھے صرف چار ماہ میں۔ میں حریان ہوکر ان کی ویب سائٹ پر گیا تو فورم تھا انگریزی فورم اور وہ بھی فری ہوسٹ پر۔
میرے سامنے تو میری اور اپنی زبان اردو کی اوقات آگئی ہے۔۔۔
آپ کا کیا خیال ہے اس بارے میں؟
جاتے جاتے ایک اور بات۔۔یونیکوڈ میں‌ ٹیوٹوریل لکھنے سے لوگ اب بھی گھبراتے ہیں کیوں؟ کوئی چرا نہ لے یہاں لوگ پورا تھیم اپنے نام کروا لیتے ہیں تو ایک پوسٹ یا ٹیوٹوریل کس کھیت کی مولی ہیں۔۔۔اب ایک تھکا ہوا بلاگر جو ایک تھکے ہوئے ملک کی ایک تھکی ہوئی زبان میں بلاگنگ کررہا ہے کیا کرے؟؟؟؟؟
کوئی جوب ہے آپ کے پاس؟
معذرت میں کچھ جذباتی ہوگیا حالانکہ نہ ہونے کا کہہ بھی چکا ہوں اوپر۔۔

اردو میں بلاگنگ کیوں نہیں؟

محب علوی نے اہم مسئلہ اٹھایا ہے کہ جب ساری دنیا میں لوگ بلاگنگ کو اتنا سنجیدگی سے لے رہے ہیں تب پاکستان میں لوگ اسے کھیڈ تماشا کیوں سمجھ رہے ہیں۔
میں آپ کو اپنی بات بتاتا ہوں۔ میں ایک مڈل کلاسیا ہوں۔ والد ناشتے کی ریڑھی لگاتے ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کا خرچہ مرچہ میں اپنے پلے سے پورا کرتا ہوں یا چھوٹے بھائی کی مہربانی کہ وہ کام کرتا ہے اور کیبل نیٹ کی فیس اکثر دے دیا کرتا ہے۔ میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ساتھ اس لیے اکثر و بیشتر پایا جاتا ہوں کہ میرا سوشل سرکل بہت محدود ہے۔ خاندان میں‌ پچھلے دس سال سے کوئی شادی اٹینڈ نہیں کی میں نے۔ دوست وہ جو یونیورسٹی وغیرہ میں ہیں۔ محلے میں بس کسی کسی سے سلام دعا ہے۔ تو میں جب کچھ نہیں کرتا تو انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنا خون جلاتا ہوں۔ سڑتا کڑھتا ہوں اور بلاگنگ کرتا ہوں۔
اگر میں ایسا کرتا ہوں تو باقی لوگ کیوں نہیں کرتے؟
اول تو کسی کو اس کا شعور ہی نہیں۔ لوگ انٹرنیٹ کے بارے میں جانتے ہیں بلاگنگ کے بارے میں نہیں۔ میرے چھوٹے بھائی کو پتا ہے کہ میں بلاگنگ بھی کرتا ہوں۔ لیکن وہ اسی انٹرنیٹ پر بیٹھ کر آرکٹ کو وزٹ کرنا پسند کرتا ہے اور کسی بی بی سے چیٹ کرنا اسے زیادہ مرغوب ہے۔
جو لوگ اس وقت بلاگنگ کررہے ہیں ان میں سے بہت سے بیرون ممالک سے بلاگنگ کرتے ہیں۔ یا کم از کم پردیس پلٹ ہیں۔
پاکستان میں بلاگنگ کرنے والے یا تو فارغ و البال قسم کے احباب ہیں۔ یا پھر وہ معاشی طور پر خوشحال لوگ ہیں۔ میرے جیسے چند ایک ہی ہیں یا پھر وہ لوگ جن کا وقت زیادہ تر نوکری کے سلسلے میں کمپیوٹر پر گزرتا ہے۔
انٹرنیٹ پر وقت یہاں فحش ویب سائٹس دیکھنے اور اس کے بعد چینٹنگ کرنے اور آرکٹ جیسی ویب سائٹس کو دیکھنے میں گزرتا ہے۔
بلاگنگ کیا خاک ہوگی؟
ابھی پاکستانیوں کو کم از کم پانچ سال مزید چاہییں کہ انھیں ٹیکنالوجی کا صحیح اندازہ ہوسکے۔

جمعرات، 29 نومبر، 2007

سکائپ لینکس بی‌ٹا 2

سکائپ نے لینکس کے لیے اپنا بی ٹا 2 ورژن جاری کردیا ہے۔ اس ورژن میں ویڈیو کالز کی سہولت شامل کی گئی ہے۔ یہ سہولت سکائپ کے ونڈوز اور میک ورژنز میں موجود تھی لیکن لینکس ورژن میں اسے اب شامل کیا گیا ہے۔ سکائپ کو لینکس پر ویڈیو کالز کے لیے استعمال کرنے کے سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ سپورٹ شدہ ویب کیم ڈھونڈنا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ لینکس کے ساتھ ہارڈوئیر والے سوتیلوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔اس وقت سکائپ بی ٹا کے بائنری پیکجز اوبنٹو 7.04، ڈیبین 4 اییچ، میپش، زنڈراس، سینٹ او ایس، فیڈورا کور 6، فیڈورا 7، اوپن سوسی 10 و جدید اور مینڈریوا کے لیے دستیاب ہے۔
سکائپ کو اوبنٹو میں انسٹال کرنے کے لیے یہ پیکجز درکار ہونگے: Qt 4.2.1, D-Bus 1.0.0, اور libasound2 1.0.12۔ سکائپ کے مواجے میں بظاہر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ آپشنز کے مینیو میں ایک نئے زمرے ویڈیو ڈیوائسز کا اضافہ کیا گیا ہے۔

بدھ، 28 نومبر، 2007

اردو کوڈر “ری لوڈڈ”

محمد علی مکی ایک عرصے تک اردو کوڈر فورم چلاتے رہے ہیں۔ پھر گردش زمانہ اور عنایت خسروانہ فری ہوسٹ کی وجہ سے یہ فورم ڈیلیٹ ہوگیا۔ کچھ عرصے تک آفلائن رہنے کے بعد کچھ میرے کہنے اور کچھ اپنے کہنے پر مکی بھائی نے اردو کوڈر فورم پھر سے شروع کیا ہے۔ فری ہوسٹ پر دوران اپگریڈ ان کی ہارڈ ڈسک کریش کرگئی اور سارا قیمتی ڈیٹا برباد ہوگیا۔ چناچہ اب ہمیں دوبارہ صفر سے گنتی گننی پڑ رہی ہے۔ اس بار اردو کوڈر کا مقصد صرف لینکس ہے۔ لینکس کے سافٹویرز، مسائل، ٹیوٹوریلز اور اوپن سورس کی خبریں سب کچھ اردو میں فراہم کیا جائے گا۔ یہ دعوٰی تو نہیں کہ یہ اردو میں‌ بہترین لینکس فورم ہوگا لیکن ہماری پوری کوشش رہے گی اس سلسلے میں۔ اردو کے ہر فورم کا دعوٰی ہے کہ وہ "فلانا" پہلا یونیکوڈ فورم ہے تو ہم بھی دعوٰی کیے دیتے ہیں۔
یونیکوڈ اردو میں "پہلا لینکس فورم"۔ :D :D :D
خیر یہ تو مذاق تھا۔ دعا کیجیے گا کہ ہم اپنی انفرادیت کو قائم رکھ سکیں اور اچھی سروس دے سکیں۔ اس سارے خطبے کے بعد بھی اگر آپ کی سمجھ میں نہ آئے کہ آپ کو فورم پر آنے کی دعوت دی جارہی ہے تو پھر یا میں پاگل ہوں یا پھر۔۔۔۔میں ہی پاگل ہوں۔ ;) :D
آپ کو تو کہہ نہیں سکتا کہ آپ ہمارے متوقع صارف بھی ہوسکتے ہیں۔ ;)
چناچہ پاء جی تشریف لائیے اردو کوڈر پر ہم آپ کے منتظر ہیں۔

کنونشل نے اوبنٹولینکس ڈویلپرز سروس جاری کردی

اوبنٹو لینکس نے سافٹویر ڈویلپمنٹ اور ڈویلپرز کے لیے ایک نئی سروس لانچ کی ہے۔ یہ سروس اوبنٹو کے ڈیسکٹاپ، سرور اور موبائل ایڈینشنز کے لیے اطلاقیے لکھنے میں استعمال کی جائے گی۔
کنونشیل لیمٹڈ جو اوبنٹو کو سپانسر بھی کرتے ہیں نے ایک اعلان میں کہا ہے کہ نئی لانچ پیڈ پرسنل پیکج آرکائیو کو موجودہ لانچ پیڈ ڈویلپمنٹ ویب سائٹ میں شامل کردیا گیا ہے۔ یہ گروپس کو پیکجز کے معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ساتھ انفرادی ڈویلپرز کو بھی آزاد مصدر اطلاقیوں کے ذاتی ورژن ہوسٹ کرنے کی سہولت دے گی۔
ڈویلپرز پی پی اے کو استعمال کرتے ہوئے ایک گیگا بائٹ کی سپیس حاصل کرے گا جہاں وہ اپنا سافٹویر پیکج چڑھا سکے گا۔ جبکہ شریک کار اس میں ہاتھ بٹا سکیں گے۔ یہ سپیس کنونشل کی طرف سے صرف فری سافٹویر کے لیے فراہم کی جائے گی۔
"پی پی اے جو آزمائشی مراحل میں تھا اب مکمل طور پر جاری کردیا گیا ہے" کمپنی نے کہا
" بہت سے ڈویلپرز موجودہ پیکجز میں تبدیلی یا اپنے سافٹویرز کے نئے پیکج بنانا چاہتے ہیں" کرسٹان روبوٹم ریز جنھوں نے کنونشل میں پی پی اے کے پراجیکٹ کی قیادت کی ہے نے ایک بیان میں کہا۔ "پی پی اے سروس ہر کسی کو اوبنٹو کا ڈویلپر بننے کی اجازت حاصل کیے بغیر اپنا پیکج شائع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ فری سافٹویر برادری میں دھماکہ خیز اضافہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ پی پی اے پراجیکٹ ڈویلپرز اور ڈویلپمنٹ ٹیموں کو ان کے سافٹویر سازی کے بہترین تصورات کو صارف تک پہنچانے اور ان سے آراء کے حصول میں معاون ثابت ہوگا۔"
"انھیں تجربہ کار پیکج کاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی موقع ملے گا۔" انھوں نے کہا۔" پی پی اے ایک تعمیر کار اور اشاعتی نظام ہے جس میں کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ہم لانچ پیڈ سے موبائل ماحول کے لیے پیکجز تیار کرنے کی صلاحیت شامل کرنے کے سلسلے میں کافی پرجوش ہیں۔ "
کنونشل نے کہا کہ پی پی اے سروس ڈویلپرز کو براہ راست صارفین کے ساتھ ملادے گی اور صارفین یہ پیکج حاصل کرکے اپنے سسٹم میں صرف ایک اپڈیٹ سے نصب کرسکیں گے۔ نیز پی پی اے پر پیکج کا نیا ورژن جاری ہونے پر متعلقہ صارفین کو خودکارانہ اپڈیٹس بھی فراہم کی جائیں گی۔
بحوالہ

منگل، 27 نومبر، 2007

دنیا بھی آخرت بھی :D

فری رائس ویب سائٹ پر جائیں۔ اپنا انگریزی کا ذخیرہ الفاظ بڑھائیں۔ کرنا صرف یہ ہے کہ ایک لفظ آپ کے سامنے ہے اور اس کے کچھ ممکنہ جوابات نیچے ہیں۔ جواب پر کلک کریں ٹھیک ہے تو مبارک ہو غلط ہے تو کوئی بات نہیں آپ کو ایک نئے لفظ کا مطلب پتا چل گیا۔ لیکن اتنا ہی نہیں آپ کو اس کے ساتھ ساتھ ہر صحیح جواب پر فری رائس اقوام متحدہ کو دس دانے چاول دان کرتی ہے تاکہ اسے انھیں امدادی پروگراموں میں استعمال کیا جاسکے۔ کہتے ہیں قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔ یہاں بھی دانہ دانہ کرکے بوری ہوہی جائے گی اور لفظ لفظ کرکے "لغت"۔۔
انجوائے کیجیے۔

پیر، 26 نومبر، 2007

آخر نوازشریف نے سرزمین پاک کو چھو ہی لیا!!

سابق وزیر اعظم نواز شریف آج لاہور پہنچ گئے ہیں۔ مارشل لاء حکومت کے صدر پرویز مشرف کے سعودی عرب کے مختصر دورے میں نجانے کیا کھچڑی پکی ہے کہ نواز شریف کو واپسی کی اجازت مل گئی ہے۔ حاسدوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل کا ہی نتیجہ ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس بار سعودی عرب بھی امریکہ کے ساتھ اس ڈیل میں ملوث ہے۔ مارشل لاء حکومت تو ایسے لگتا ہے جیسے شترمرغ ریت میں سر دے لیتا ہے۔ نواز شریف کی طرف سے بھی ایسے بیان آرہے ہیں کہ پرویز مشرف کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے لیکن ہمارا ایجنڈا مختلف ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایجنڈا کیا ہے۔ حالات واقعی نو مارچ والے نہیں ہیں۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو ایک ڈگڈگی چاہیے تھی جو انھیں چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی صورت میں مل گئی اور انھوں نے اچھی طرح بجا بھی لی۔ اب کی بار ان کے پاس الیکشن کی ڈگڈگی ہے۔ جسے بجا کر انھیں اصلی تے وڈا فائدہ مل سکتا ہے۔ چناچہ ہر کوئی دبے پاؤں الیکشن کی تیاری میں ہے۔ چند ایک سرپھرے ہیں جو ببانگ دہل بائیکاٹ کا اعلان کررہے ہیں۔ بلوچ پہلے ہی فوجی صدر سے کسی قسم کی بات چیت سے انکار کرچکے ہیں۔ عمران خان ابھی 'نواں آیاں اے سوہنیا' ہے۔ وکلاء کو اپنے چیف جسٹس کی فکر ہے چناچہ وہ تو تحریک جاری رکھیں گے ہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اے پی ڈی ایم کی چھتری تلے نوازشریف کی طرف سے کیا حکمت عملی طے ہوتی ہے۔ آیا کوئی "درمیانی" راہ نکل آتی ہے یا۔۔۔۔۔بے نظیر نے تو آج کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے بیان دے دیا ہے کہ نواز شریف کی واپسی قومی مفاہمتی آرڈیننس کا نتیجہ ہے۔

اتوار، 25 نومبر، 2007

سوات: آخر بندوق ہی حل کیوں؟

جب لال مسجد کے واقعے کے بعد سوات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی مجھے اسی وقت لگا تھا کہ اگلا وزیرستان سوات ہوگا۔ یہ بدترین اندیشے درست ثابت ہوئے۔ آج سوات میں عام لوگوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ پاکستان کا سوئزرلینڈ کہلانے والی وادی اب اپنے رہائشیوں کے لیے جہنم بن گئی ہے۔ حملے، جوابی حملے، خودکش حملے ، فائرنگ، کوبرا اور جانے کون کونسے ہیلی کاپٹرز سے بمباری۔۔یہاں کے مکین اس دوہری آگ کی دیوار میں پس رہے ہیں۔
وہاں کے لوگ اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ بارہ سو سے زیادہ سکول یا تو بے کار پڑے ہیں، یا مقامی طالبان انھیں عقوبت خانوں کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ آئے دن کے کرفیو نے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل کردیا ہے۔ جو تعلیمی ادارے کھلے بھی ہیں وہاں حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
آخر ہماری سمجھ میں یہ کیوں نہیں آتا کہ ہر مسئلے کا حل بندوق نہیں؟ پاکستانی فوج کے سامنے ہمیشہ فتح کرنے کے لیے اپنا ملک ہی کیوں ہوتا ہے؟
ایک عرصے تک یہ بھیرویں الاپتے رہنے بعد کہ دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے اس کے اسباب کا بھی جائزہ لیا جائے آج ہماری فوجی حکومت اس طرف سے آنکھیں بند کیے بم برسا رہی ہے اور بدلے میں خودکش دھماکے وصول رہی ہے۔ اس کے بنیادی اسباب ہیں ہی کیا کہ اسلام نافذ کرر؟
تو کردو نا۔ اسلام نافذ کرنا کیا حاکموں کی ذمہ داری نہیں؟ ان سے مل بیٹھ کر مذاکرات کرکے اسلام کے ایک ورژن پر متفق ہوا جاسکتا ہے۔ ٹھیک ہے وہ اسلام کو انتہائی غلط انداز میں لے رہے ہیں تو فوج کونسا صحیح انداز میں لے رہی ہے۔ ان کے مطالبات مانگے جائیں جوابی مطالبات پیش کئے جائیں کسی جگہ تو دونوں اطراف میں اتفاق ہوجائے گا یا نہیں؟
فوج کے خیال میں جواب نہیں ہے اس لیے وہ اپنے کوبرا ہیلی کاپٹر، توپیں اور بندوقیں وہاں آزما رہے ہیں۔ اگر کوئی مر بھی جاتا ہے تو پانچ ہزار ماہانہ والا سپاہی ہی ہے کوئی مسئلہ نہیں۔ اس کی بیوہ اور بچوں کو قوم کے سپرد کرکے یہ لوگ آرام سے ریٹائر منٹ کی زندگی گزاریں گے۔ رہے مزاحمت کار اور عام لوگ تو وہ تو ہیں ہی کیڑے مکوڑے۔اول الذکر کا تو ٹھکانہ ہی جہنم ہے موخرالذکر اگر مارا بھی گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔
زندہ باد ایسی عقلمندیاں اور پھرتیاں۔
سوات والوں کو اپنی پڑی ہے اور لاہور والوں کو اپنی۔ ایک کو جان کا ڈر ہے دوسرے کو نواز شریف کی آمد کا۔ کراچی میں اپنے مسئلے ہیں اور فیصل آباد میں اپنے۔ کوئی مرتا ہے مرے جیتا ہے جئیے کسی کو کیا۔ جس پر گزرے کی نمٹ لے گا۔

ہفتہ، 24 نومبر، 2007

ایمرجنسی کے بعد امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے: تو پھر یہ کیا ہے؟

ایمرجنسی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی آئینی درخواستوں میں ایمرجنسی کا دفاع کرتے ہوئے مارشل لاء حکومت کے وکیل نے یہ دلائل دئیے تھے کہ ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے ایمرجنسی لگائی گئی۔ موصوف کا یہ دعوٰی بھی تھا کہ امن و امان کی صورت اب بالکل ٹھیک ہے۔
بی بی سی اردو کے مطابق راولپنڈی میں دو خودکش حملے ہوئے ہیں۔
ان حملوں میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ نشانہ واضح طور پر پاکستانی فوج سے متعلقہ افراد تھے۔
میرا خیال سے امن و امان کی صورت حال واقعی "بہتر" ہوئی ہے۔

لینکس کی ہلکی پھلکی ڈِسٹروز

لینکس میں اس وقت کئی تصویری مواجے دستیاب ہیں۔ جیسے گنوم ، کیڈی اور ایکس ایف سی ای۔ اول الذکر دو ڈیسکٹاپ ماحول نسبتًا ماڈرن پی سی کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ان میں تبدیلیاں بہت تیزی کے ساتھ آتی ہیں اور ان کا بنیادی مقصد صارف کو ایک مکمل تصویری مواجہ فراہم کرنا ہے۔ تاکہ وہ ہر کام اپنے لینکس سسٹم ہر رہتے ہوئے کرسکے۔ چناچہ ان تصویری مواجوں کو استعمال کرنے والے بھی زیادہ ہیں اور ان کی "پیدائیشی" ڈویلپمنٹ کٹس میں تیار کئے گئے اطلاقیے لینکس دنیا میں تھوک کے حساب سے مل جاتے ہیں۔ چونکہ ان کا مقصد ہر سہولت تصویری مواجے میں‌ فراہم کرنا ہے اس لیے پرانے پی سی جیسے پی ٹو 450 میگا ہرٹز پر ان کا چلنا خاصا اوکھا کام ہے۔ خصوصًا کیڈی تو پرانے پی سی کا ویری ہے ذرا سی میموری کم ہے یا سپیڈ کم ہے تو سسٹم اڑیل ٹٹو کی طرح بار بار کھڑا ہوجاتا ہے۔
دوسری طرف لینکس کے لیے کچھ ایسے تصویری مواجے بھی دستیاب ہیں جو یا تو بہت ہی ہلکے پھلکے ہیں یا پھر ان کے اطلاقیے نسبتًا سادہ اور کام چلاو پالیسی کے تحت بنائے گئے ہیں۔ ایسے مواجے عمومًا فائل مینجر کہلاتے ہیں۔ کیڈی اورگنوم میں بھی فائل مینجر ہوتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جہیز میں اور بھی بہت کچھ آجاتا ہے۔ ان کی عام مثال فلکس باکس
Free Image Hosting at www.ImageShack.us
اور انلائٹمنٹ وغیرہ ہیں۔ یہ فائل مینجر سادہ، آسان اور ہلکے پھلکے ہیں چناچہ اگر آپ کا پی سی دادا پڑدادا قسم کا ہے تو اچھی رفتار کے حصول کے لیے انھیں استعمال کیجیے۔
جہاں تصویری مواجے کی سطح پر یہ تحریک چل رہی ہے وہیں ڈسٹرو کی سطح پر بہت سی ہلکی پھلی ڈسٹروز موجود ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ پرانے 486 سسٹم پر بھی یہ ڈسٹروز چل جاتی ہیں۔ پپی لینکس اس قسم کی ڈسٹروز کی مثال ہے۔
پپی لینکس سے قطع نظر چونکہ ہم بھی 486 کو اب کوڑے کی زینت بنانا پسند کریں گے ہم آپ کو پی ٹو اور تھری سسٹمز کے لیے ایک آدھی اچھی اور ہلکی پھلی ڈسٹرو کا مشورہ دیں گے۔ اوبنٹو کے ایک عاشق نے فلکس باکس کو اوبنٹو پر لگا کر ایک نئی ڈسٹرو بنائی ہے۔
فلکس بنٹو
اوبنٹو کی روائیتی آزادی اور فلکس باکس کے "ہلکے پن" کے ساتھ پرانے پی سی کے لیے ایک بہترین انتخاب ہے۔ اس کی تنصیب کوئی مشکل کام نہیں۔ سادہ سا ٹیکسٹ بیسڈ انسٹالر استعمال کرنے میں بہت آسان ہے۔
اسی قسم کی ایک اور تحریک مینڈریوا کے فورمز پر بھی چل رہی ہے۔
جہاں مینڈریوا کا ایک ہلکا پھلکا بہروپ تیار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اگر دیسی چیز استعمال کرنے کا ارادہ ہے تو اردو سلیکس بھی استعمال کرسکتے ہیں جسے محمد علی مکی نے کچھ فونٹس اور وال پیپرز ڈال کر "مسلمان" کیا ہے۔

جمعہ، 23 نومبر، 2007

منظر نامہ

اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ "گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو" کا نعرہ لگانے والے ایک بار پھر سے اسی دیوار میں چن دئیے گئے ہیں۔ پرویز مشرف نے ایک بار پھر سے میدان مار لیا ہے۔ ایمرجنسی لگانے کا وقت اس سے بہتر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ملک میں عام انتخابات قریب تھے۔ امن و امان کا بہانہ موجود تھا چناچہ ملک پر ایمرجنسی لگا دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی مشرف نے "ناپسندیدہ" ججوں اور میڈیا والوں نے نجات حاصل کرلی۔ اگرچہ اس کا خمیازہ پاکستان کو معاشی ترقی میں سست رفتاری اور دولت مشترکہ کی رکنیت کی ایک بار پھر معطلی کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے لیکن یہ تو پھر سے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت جبکہ عام انتخابات نزدیک ہیں ہر پارٹی ان میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے دانت تیز کررہی ہے۔ بات جہاں تک اصول کی ہے تو پہلے کس نے یہاں اصول پر سیاست کی ہے۔ بی بی اور نواز شریف کہاں چاہیں گے کہ ان کا حریف انتخابات میں ہو اور وہ آؤٹ ہوں۔ اپوزیشن کا ایک نکتے پر متفق ہوکر انتخابات کا بائیکاٹ کرنا جوئے شیر لانے سے بھی اوپر کی چیز لگ رہا ہے۔ مشرف کی سعودی عرب یاترا کے بعد نواز خاندان کی واپسی کے اشارے مل رہے ہیں۔ اگر وہ واپس آرہے ہیں‌ تو اس کا مطلب ہے کہ انتخابات میں بھی حصہ لیں گے۔ ن لیگ اگر حصہ لیتی ہے تو باقی کون ہے جو پیچھے ہٹے گا بی بی تو ویسے ہی امریکہ سیاں کی لاڈلی ہے۔ پیچھے ایم ایم اے رہ جاتی ہے تو وہ بھی اس دوڑ میں چاہے آخری نمبر پر آئیں حصہ ضرور لیں گے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ سول سوسائٹی کے چند دردمند لوگ، وکلاء اور صحافیوں کی قربانیوں اور احتجاج کا کوئی ثمر نہیں ملنے والا۔ عمران خان جیسا ایک آدھ پاگل ہی شاید اور ہے جو انتخابات کے بائیکاٹ کی بات کرتا ہے۔ لیکن اس کی کون سنے گا۔ اگرچہ اس کی تعریفیں ہورہی ہیں لیکن تعریف سے پیٹ نہیں بھرتا بات ووٹ کی ہے۔ عام ووٹر ایک عرصے سے * لیگ اور * پارٹی کا عادی ہے اور اس بار بھی انھیں ہی ووٹ ڈالے گا۔ مشرف یافتہ لیگ اس بار بھی پالا مارنے کے چکر میں ہے آکر پانچ سال جم کر شہنشاہ کا ساتھ دیا ہے۔ موجودہ حکومت اور مقامی حکومتیں ان پر ضرور اپنی "رحمتیں" نازل کریں گی۔
وہ ساٹھ جج جو اسیری کے دن کاٹ رہے ہیں شاید ان کی قربانیاں رائیگاں جائیں، اور اگلی بار کسی افتخار چوہدری اور بھگوان داس کو حلف نہ اٹھانے کی جرات نہ ہوسکے۔

ایک اور جنازہ اٹھتا ہے

میر بالاچ مری ایک عرصے تک بلوچ مزاحمت کی علامت بنا رہا۔ اب خبر آئی ہے کہ اسے ایک کاروائی میں‌ ہلاک کردیا گیا ہے۔ اس واقعے پر سندھ اور بلوچستان میں ہنگامے ہورہے ہیں‌ جن میں کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوچکے ہیں‌۔

میں نہیں‌ جانتا وہ صحیح‌ تھا یا غلط۔ بقول میرے ایک جاننے والے کے قبائلی صرف ڈنڈے کی زبان سمجھتے ہیں۔ چناچہ ان پر ہیلی کاپٹروں‌ سے آگ برسا کر بالکل ٹھیک کیا جارہا ہے۔ میں اس وقت بھی ان صاحب سے متفق نہیں تھا اور اب بھی نہیں‌۔ مذاکرات ہر مسئلے کا حل ہوتے ہیں۔ قوم پرستوں‌ کے مطالبات ایسے نہیں‌ کہ انھیں پورا نہ کیا جاسکے۔ لیکن کیا کہیں ہماری فوج کا جسے اپنی تربیت بھی تو کہیں آزمانی ہے۔ گولہ بارود پڑا سڑتا رہے اس سے بہتر ہے کہ کہیں "کام" آجائے۔

جمعرات، 22 نومبر، 2007

ایک نیا کھلونا

مجھے اچھی طرح یاد ہے آج سے کوئی دس سال پہلے میرے ماموں کی بیٹھک میں ڈاکٹر قدیر خان کا ایک پورٹریٹ ہوا کرتا تھا۔ جس پر لکھا تھا محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان۔ ایک عرصے تک ڈاکٹر قدیر خان ہمارا ہیرو رہا۔ ہم اس کے گن گاتے رہے۔ پھر مشرف آیا اور اسے بند کردیا۔ ہم نے کچھ عرصہ تک احتجاج کیا۔ دبی دبی کراہیں بلند ہوئیں اور معاملہ دب دبا گیا۔ کبھی کبھی کوئی اخبار والا بین کردیتا ہے اور فرض کفایہ ادا ہوجاتا ہے۔
پھر اس سال مارچ میں ہمیں ایک اور کھلونا مل گیا۔ یہ افتخار محمد چوہدری تھا۔ پرویز مشرف نے اس کے خلاف ریفرنس کیا بھیجا ساری قوم کو جیسے آگ لگ گئی اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ملک کے پھنے خاں صدر نے بھی ہاتھ کھڑے کردئیے۔ افتخار چوہدری جو اس سے پہلے ایک عام سا چیف جسٹس تھا ہمارے لیے بہت خاص بن گیا۔ جیسے یہی اس قوم کا مسیحا ہو۔ اخبار، میڈیا اور میرے جیسوں کی زبانیں اس کی تعریف میں سہرے کہنے لگیں۔ لیکن حالیہ ایمرجنسی نے ہم سے ہمارا یہ کھلونا بھی چھین لیا۔ اب افتخار چوہدری کوئٹہ میں نظر بند پڑا ہے۔ کبھی کبھار اس کے بارے میں کوئی ذکر کرلیتا ہے اور بات ختم۔
اب ہمیں اک نیا کھلونا مل گیا ہے۔ پوجنے کے لیے ایک نیا چہرا۔ عمران خان، گریٹ خان پاکستان کا سابق کپتان اور پاکستان تحریک انصاف کا صدر۔ امید باندھنے والوں کو تو بس ایک آس چاہیے ایک ہلکی سی آس سو انھوں نے اس کے ساتھ لگا لی ہے۔ عمران خان ہی شاید مسیحا ہے میرے جیسے یہ سوچتے ہیں۔ عمران خان ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ہے سچا کھرا انسان ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔ ہر کوئی اپنے انداز میں اس کی تعریفیں کررہا ہے۔ ان عام انتخابات میں --اگر ہوئے تو-- اس کی پارٹی اچھی خاصی نشستیں‌ جیتنے کی امید کرسکتی ہے۔
بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجھے لگا شاید ہم پچاری ہیں۔ محمد بن قاسم کی آمد سے بھی پہلے کے پچاری، بس بت بدل گئے ہیں۔ جلدی جلدی بدلنے لگے ہیں یا ہم کسی بت سے جلد ہی اکتا جاتے ہیں۔ ہمارا کام بس پوجا کرنا ہے، یا کھیلنا۔ یہ ہمارے کھلونے ہیں جن سے ہم کھیلتے ہیں اور جب ایک چھن جاتا تو ہم دوسرا تراش لیتے ہیں۔
ہم بچے ہیں، نادان بچے جنھیں اپنے کھلونے سے غرض ہے، بس ایک کھلونا ملا رہے اور اس ایک کھلونے کے بل پر ہم اپنے خوابوں خیالوں میں جانے کیا کیا کرگزرتے ہیں۔

منگل، 20 نومبر، 2007

اور اب اوبنٹو کی بورڈ

یار لوگ ابھی تک صرف ونڈوز کی بورڈ استعمال کرتے آئے ہیں جس پر کنٹرول اور آلٹ کے مابین مائیکروسافٹ ونڈوز کے نشان والا ایک بٹن گھسیٹر کر "شدھی" کیا گیا ہے۔ اوبنٹو بھی پیچھے نہیں رہا۔ اگرچہ طریقہ کار وہی ہے کہ دونوں سائیڈز پر ونڈوز کی جگہ اب اوبنٹو بٹن نظر آتا ہے۔
یو ایس بی کی بورڈ کی قیمت صرف پچیس ڈالر ہے۔ اگر اوبنٹو پر اتنے فدا ہوچکے ہیں کہ ونڈوز کی شکل کی بورڈ پر بھی گوارہ نہیں تو پچیس ڈالر خرچ کرکے اپنی جیب ضرور ہلکی کیجیے۔
Free Image Hosting at www.ImageShack.us

ہفتہ، 17 نومبر، 2007

احتجاج؟

ایمرجنسی لگے دو ہفتے ہونے کو ہیں۔ ہر جگہ احتجاج کی باتیں ہورہی ہیں یا احتجاج ہورہا ہے۔ حالات تیزی سے فوجی صدر کے خلاف ہوتے جارہے ہیں۔ میڈیا کی آزادی نے اس بار لوگوں کو بہت تیزی سے اس صورت حال سے باخبر کیا۔ اس کے نتیجیے میں مقبول ٹی وی چینلز کی بندش اور اس کے بعد جیو کے ختم ہونے کی خبر بھی سننی پڑی۔
میرے دوست احباب ساتھی بلاگرز بڑی شدو مد کے ساتھ ایمرجنسی کی مذمت کررہے ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج کے طریقے لکھ رہے ہیں۔ اردو تو اردو انگریزی بلاگرز بلاشبہ زیادہ منظم ہیں وہ احتجاج کو کوریج دے رہے ہیں لمحہ لمحہ کی رپورٹ دے رہے ہیں۔ میرے کئی احباب نے احتجاج میں‌ حصہ ڈالنے کے لیے نجی ٹی وی چینلز کے روابط تک اپنی سائٹس پر ڈال دئیے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو مظاہرین کی تعریفیں کرکے ہی دل کی بھڑاس نکالی جارہی ہے۔
اوپر سب کچھ بیان کیا گیا حقیقت ہے۔ مجھے اسے تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انٹرنیٹ کی اس چھوٹی سی دنیا اور سول سوسائٹی، صحافیوں، وکلاء اور طلباء کے چھوٹے سے گروہ کے علاوہ احتجاج کرنے والا کوئی نہیں۔ سیاسی کارکن یا تو اندر ہے یا پھر اس کا احتجاج اپنے لیڈر کے اشارے کا مرہون منت ہے۔ یہاں احتجاج سے میرا وہ احتجاج ہے جو میڈیا، عدلیہ کی آزادی کے لیے کیا جارہا ہے۔ میرے اردگرد سب کچھ ویسا ہی ہے۔ بشیر مٹھائی والے کی دوکان ایسے ہی چل رہی ہے۔ منیر پٹرول والا اب بھی اسی سکون سے پٹرول بیچتا ہے اور جب میں اس کے قریب سائیکل پر سوار گزروں تو مجھے رانا صاحب کہہ کر ویسے ہی چھیڑتا ہے۔ میرے والد کو اب بھی اپنے کاروبار کی فکر ہے۔ میری والدہ کو اب بھی وہی فکر ہے کہ اب گھی ختم ہے اور یوٹیلٹی سٹور سے کوئی پتا کرے کہ آیا ہے یا نہیں تاکہ لائن میں‌ لگ کر لیا جاسکے۔ میری یونیورسٹی میں وہی گہما گہمی ہے کلاسز ہورہی ہیں طلباء آرہے ہیں جارہے ہیں۔ وہی آنکھ مٹکا چل رہا ہے، وہی سٹوڈنٹانہ ادائیں برقرار ہیں۔
یہ سب کیوں ہے؟ جب میرے اندر بھانبھڑ جل رہے ہیں۔ میں‌ جب سٹاپ پر اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک پیلا پڑتا پوسٹر نما لے کر کھڑا ہوتا ہوں جس پر عدلیہ کو آزاد کرو اور آئین بحال کرو جیسے گھسے پٹے نعرے درج ہیں‌تو سب میری طرف ایسے کیوں دیکھتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے جیسے ان کی نظریں کہتی ہیں "سالا پاگل ہے"۔ ایمرجنسی لگنے کے باوجود سب کچھ ویسا ہی کیوں ہے؟ لوگوں نے جیو چھوڑ کر سٹار پلس دیکھنا شروع کردیا ہے۔ یا دو چار گالیاں مشرف کو بک کر پھر اپنے کام کیوں لگ جاتے ہیں جیسے کوئی دن میں‌ ایک آدھ بار کھانس د ے اور بس۔۔۔
شیرازی ویڈیو سی ڈی والا یہ کیوں کہتا ہے کہ ہم سب ۔۔۔۔۔۔ ہیں اور ہم سے بڑا ۔۔۔۔۔۔۔ مشرف ہے۔ جیسی قوم ویسا لیڈر۔ یہ قوم پہلے نعرہ لگاتی ہے پھٹے چک دیاں گے اور جب پھٹے چکنے کی باری آتی ہے تو سب غائب ہوتے ہیں۔
آخر مسئلہ کیا ہے؟
میں نے اس پر بہت سوچا۔ بہت سوچا لیکن مجھے اس کی کوئی وجہ یا حل نظر نہیں آیا۔ یہ بے حسی ہے لیکن یہ بے حسی کس وجہ سے طاری ہوگئی ہے میری ننھی سی عقل میں‌ نہیں آسکا۔
چلیں ایک اندازہ لگاتے ہیں۔ شاید یہ ناخواندگی کی وجہ سے ہے۔ یا پھر مہنگائی کی وجہ سے کہ ہر کسی کو اپنی روزی روٹی کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
اگر یہ اس وجہ سے ہے تو اس کا تدارک کیسے کیا جائے؟
آخر کونسی چیز ہے جو عام آدمی کو یہ باور کروا سکتی ہے کہ یہ غلط ہورہا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ میری نظر میں‌ یہ ایک لمبا طریقہ کار ہے۔ مختصر دورانیے یا شارٹ ٹرم میں‌ اگر یہ لوگ جاگ بھی گئے تو چک دیاں گے پھٹے کہہ کر پھر غائب ہوجائیں گے۔ ضرورت یہ ہے کہ لانگ ٹرم میں کچھ کیا جائے۔ کچھ ایسا بندوبست جو اپنے اندر ہمیشگی رکھتا ہو۔
بات بڑی سیدھی سی اور صاف ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم بھیڑ بکریوں کی طرح کبھی اس کے پیچھے کبھی اس کے پیچھے اور کبھی اکیلے ہی باں باں کرتے رہیں گے یا پانچ انگلیوں کی بجائے مکا بن کے مخالف کے منہ پر پڑیں گے۔ اس کا واحد حل میری نظر میں‌ ایک ہی ہے وہ ہے ایک عدد تنظیم۔۔۔
سیاسی نہیں لیکن غیر سیاسی بھی نہیں۔ ایک ایسی تنظیم جو الطاف حسین کی متحدہ کی طرح اشارہ ملنے پر مرنے مارنے پر اتر آئے۔ یہ سچ ہے کہ عام آدمی میں شعور کی کمی ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ سوچنا کم ہی گوارہ کرتا ہے۔ چھڈ یار کہہ کر ایک طرف ہوجاتا ہے یا سر نیچے کرکے اپنے کام سے لگا رہتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ باشعور لوگ اس بھیڑ بکری شعور کو سیدھے راستے پر لگائیں۔
شاید اب تک آپ کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی ہو۔ مجھے عادت ہے لمبی لمبی چھوڑنے کی۔ ہم محفل پر بھی اسی طرح کی ایک چیز کی بات کرچکے ہیں۔ اور سارا پیپر ورک مکمل ہونے کے بعد بڑے آرام سے ٹھنڈے ٹھنڈے گھروں کو جاچکے ہیں اب اس دھاگے کو کوئی ہفتے میں ایک بار بھی نہیں دیکھتا۔ یہ سب کچھ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر تو کبھی نہیں ہوسکے گا۔ اس کے لیے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنا ہوگا۔ میں پھر کہہ رہا ہوں بلاگ لکھ دینا۔ بی بی سی اردو سے احتجاج کی تصاویر اٹھا کر پوسٹ کردینا۔ صاحب اقتدار کو گالیاں دے دینا بے کار ہے۔ کمی ہے اور وہ کمی ہے جراءت کی۔ باتیں بہت ہوسکتی ہیں۔ میں ایک گھنٹے میں‌ ایک تنظیم کا ڈھانچہ تیار کرکے مہیا کرسکتا ہوں۔ دو چار لوگ تعریف کریں گے میں‌ خوش ہوجاؤں گا اور بات آئی گئی ہوجائے گی۔ کیسی بحالی کہاں کی بحالی اور ترقی۔ سب جائے بھاڑ میں مَیں پھر سے اپنے کام لگ جاؤں گا۔
صاحبان حل یہ ہے کہ میرے بزرگ احباب جو بلاگر ہیں اور جو محفل پر موجود ہیں اور میرے وہ دوست جو انٹرنیٹ پر اندرون و بیرون ملک موجود ہیں مل کر جدوجہد کرنے کی بنیاد رکھیں۔ اس سلسلے میں ایک سادہ سا قدم اردو بلاگرز کی میٹنگ ہوسکتا ہے۔ جس میں بیٹھ کر اردو بلاگنگ پر بھی گفتگو ہو سکتی ہے اور کسی ایسی تنظیم یا آرگنائزیشن کی بھی۔ جو کچھ میں‌ یہاں کہہ رہا ہوں اس سے زیادہ تلخ حقیقتیں اس روبرو میٹنگ میں سامنے آئیں گی اور ان کا تدارک تب ہی ممکن ہے۔ تب ہی سوچا جاسکے گا کہ کیا کیا جائے، کیا کِیا جاسکتا ہے اور کیسے کیا جاسکتا ہے۔
اگر آپ کے خیال میں ایس کچھ عملی طور پر ممکن نہیں۔ یا آپ جدوجہد کو مجازی دنیا میں ہی چلانے پر مصر ہیں۔ تو موج کیجیے۔ اس ملک کا کیا ہے خصماں نوں کھائے۔ ساتھ سے چل رہا ہے آگے بھی چل ہی جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ دو چار ٹوٹے ہوجائیں گے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمان بھی تو الگ ہیں‌ وہ بھی جی رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی بھی جی رہے ہیں ہم بھی جی لیں گے۔ پھر پشاور کراچی اور کوئٹہ جانے کے لیے ویزہ چاہیے ہوا کرے گا اور تو کچھ نہیں۔
رب راکھا

جمعرات، 15 نومبر، 2007

ایک بار پھر سے

عزیزان من ہم ایک بار پھر سے آنلائن ہیں۔ مکی بھائی کا شکریہ جن کے ساتھ مل کر ہم نے نئی بلاگ ہوسٹنگ لی ہے۔ اس عرصے میں بہت کچھ ہوگیا۔ فرصت ملنے پر اس پر لکھوں گا۔


تھیم شاید آپ کو فائر فاکس پر تنگ کرے۔ لیکن گزارہ کیجیے فی الحال۔ چونکہ ہماری عادت ہے کہ بلاگ نیا تو تھیم بھی نیا اور اپنے ہاتھ سے لولا لنگڑا اردو کیا ہوا۔ کسی سادے سے تھیم کو اب دیکھتے ہیں مزید اردو کرنے کے لیے۔


وسلام