پیر، 18 فروری، 2008

ووٹ ڈالنے گیا تو دیکھا

لو جی زندگی کا پہلا ووٹ ہم نے ڈال ہی دیا۔ ہمارے گھر کل ہی نون لیگ کے ایک امیدوار کی چھپی ہوئی پرچیوں پر والدین اور میرے ووٹ نمبر وغیرہ آچکے تھے۔ صبح ہم نے نو بجے کے قریب شناختی کارڈ ڈھونڈنے کا ڈول ڈالا۔ آخر پانچ سات منٹ کی تلاش بسیار کے بعد ہمارے کاغذات والے ڈبے سے مل ہی گیا۔ اسی دوران ہم نے محمد علی مکی کا فون بھگتایا جو انھوں نے اپنا وی وائرلیس بونس ختم کرنے کے لیے کیا تھا۔ انھیں بھی لگے ہاتھوں مشورہ دے ڈالا کہ ووٹ ڈالیں اور شیر کو ڈالیں تو کہنے لگے یار دو بار پہلے بھی ۔۔۔۔۔ آچکا ہے کچھ بھی نہیں کیا۔ خیر ہم نے انھیں اللہ حافظ کہنے کے بعد شناختی کارڈ ڈھونڈا امی سے پوچھ کر پرچی لی اور جیب میں لے کر امیدوار کے لگائے گئے ٹینٹ کی طرف چل دئیے۔

وہاں ایک محلے دار نے ہی ہماری رہنمائی پولنگ سٹیشن تک کی۔ قریبی پرائیویٹ سکول میں بننے والا یہ پولنگ سٹیشن مناسب حد تک پرہجوم تھا۔ ہم نے ایک سے پوچھا پھر دوسرے سے پھر تیسرے سے آخر مطلوبہ بندے کے پاس جاکر کہا کہ ہمارا ووٹ یہ ہے پرچی پر لکھ دو۔ لیکن یہ کیا ہمارا ووٹ تھا ہی نہیں اس لسٹ میں۔

آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم واپس گھر کو آئے۔ پھر اس امیدوار کے دفتر نما میں گئے اور پھر وہاں سے واپس پولنگ سٹیشن۔ پھر اس بندے نے ہمیں کہا کہ آپ کا ووٹ نہیں ہے یہاں یہ کوئی ماجد خان ہے۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر واپس آئے۔ پھر سوچا ان کے پاس نہیں تو پیپلز پارٹی والے سے پوچھ لیتے ہیں۔ اس کے دفتر چلے گئے تو وہ بےچارے اپنی پریشانیوں میں تھے۔ یکے بعد دیگرے لوگ ووٹ نمبر نکلوانے کے لیے نازل ہورہے تھے۔ آخر کچھ دیر اس کے ہاتھ میں شناختی کارڈ دینے کے بعد واپس لیا اور پھر ہمیں عقل آئی کہ ہماری گلی والا دفتر ادھر نہیں دوسری طرف ہے۔ وہاں گئے اور پھر نون لیگ والے امیدوار کے دفتر میں لسٹ پر نام نہ ملا۔ آخر ساتھ تیر والے دفتر میں ہمیں اپنا نام مل گیا اور ہم نے نعرہ بلند کردیا مل گیا مل گیا۔ دیکھنے والا لڑکا بے چارہ خوش ہوگیا کہ چلو ایک ووٹ بن گیا۔ ہم نے پرچی پر لکھوایا اور چلے پولنگ سٹیشن کو۔

وہاں پہنچ کر پھر اصل بندے کو ڈھونڈا۔ اب کے ہمیں چونکہ عقل آگئی تھی اس لیے اپنی گلی کا نمبر بتا کر مطلوبہ لسٹ والے بندے کے پاس گئے۔ اسے پرچی دکھائی۔ اس نے تصدیق کی اورلسٹ سے نام کاٹ کر ہمیں بوتھ نمبر دو کی طرف راہ دکھائی۔ وہاں گئے۔ پولنگ آفیسر کو شناختی کارڈ تھمایا۔ انگوٹھے پر نشان لگوایا۔ اس نے پرچی پر نشان لگادیا اور ہم پرچی لینے کے لیے لائن میں لگ گئے۔ ہماری باری آنے لگی تو افسر بولا یار ایک نیسلے کی بوتل لادو۔ اسے بوتل لا کر دی اور پھر انگوٹھا لگا کر بیلٹ پیپر لیا۔ آٹھ خانوں والی مہر اٹھائی "گیلی" کی اور بوتھ میں جاکر شیر پر ٹھپہ لگا دیا۔

ہمیں کئی بار خیال آیا کہ آزاد امیدوار کو ووٹ دے دیں۔ چونکہ وہ بندہ ہم جیسا ہی لگتا تھا۔ مثلًا اس کے "دفتر" پر ٹینٹ کی چھت بھی نہیں تھی۔ اور ایک ہی دفتر تھا اس کا جس میں وہ خود ہی ایک کرسی اور میز سمیت موجود تھا۔ حیرت ہے باقی پولنگ سٹیشن پر اس کا "نام لیوا" کون ہوگا۔ ہمیں ترس تو بہت آیا لیکن پھر دل پر پتھر رکھ لیا۔ نواز شریف کو بھی اس لیے ووٹ دیا ہے کہ وہ ججوں کی بحالی کا وعدہ کرتا ہے۔ ورنہ یہ امیدوار وہی پرانے گھگے تھے جو پچھلے تین چار الیکشنوں میں اسی ٹکٹ پر اسی حلقے سے کھڑے ہوتے ہیں۔

اجمل صاحب کی بات تھی تو سچ کہ اس کو ووٹ دیں جس کو آپ مل بھی سکیں۔ لیکن جس کو ملنے کی امید کی جاسکتی تھی اس کے کامیاب ہونے کی امید نہیں تھی ووٹ ضائع ہی جاتا۔ سو ہم نے سوچا نون لیگ ہی سہی۔ ورنہ تو تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا ارادہ تھا۔ مجھے عمران خان سے گلہ ہے اس نے بائیکاٹ کرکے اپنے کئی متوقع ووٹر کھودئیے اور ہمیں انتخابات میں چوائس سے محروم کردیا۔

آخر میں وہ تصاویر جو میں نے اپنے موبائل سے کھینچیں۔ آپ کو نون لیگ کا دفتر نظر آئے گا۔ تیر والوں کا بھی ساتھ ہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سائیکل والوں کو دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ادھر ان کی کتنی "عزت" ہے۔ موصوف دو حلقوں سے امیدوار ہیں اور ٹاؤن ناظم بھی تھے شاید اب بھی ہوں۔ لیکن مجھے جو بھی ملا اس نے کہا شیر کو یا تیر کو ووٹ ڈالنا۔ ایک دوست تو یہاں تک بولا اب یہ نہ کہہ دینا کہ سائیکل کو ووٹ ڈالا ہے۔ اور ایک آدھ تصویر میں آزاد امیدوار بھی نظر آئے گا جسے میں ووٹ ضرور دیتا۔۔۔۔مگر میں نے اپنے محلے کو دیکھنے کی بجائے قومی سطح پر دیکھا جہاں بڑے مسائل ہیں۔

ویسے اڑتی اڑتی سنی تھی کہ تیر والے 35 ووٹوں پر موٹر سائیکل دے رہے ہیں۔ اور سائیکل والے شناختی کارڈ جمع کروانے پر سائیکل دے رہے ہیں۔ لاہور میں مستنصر حسین تارڈ کو 1500 نقد ملے لیکن ادھر ابھی شاید رواج نہیں چلا۔ ورنہ میں تو تیار تھا کہ سائیکل ہی سہی۔ ووٹ کا کیا ہے ووٹ تو اپنی مرضی سے دینا ہوتا ہے۔ چوروں کو مور پڑ گئے تو کیا ہوجائے گا۔ خیر یہ تھی روائیدادِ الیکشن۔۔۔۔

ادھر ابھی تک کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں۔ اگرچہ سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق کم از کم دو جگہوں سے بیلٹ پیپر اڑائے جاچکے ہیں اور لاہور سمیت کئی جگہوں پر فائرنگ کے واقعات میں کئی لوگ بھی پرلوک سدھار چکے ہیں۔

8 تبصرے:

  1. [...] شاکر فیصل آباد میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کی روداد بیان  کی۔ تصاویر کے ساتھ [...]

    جواب دیںحذف کریں
  2. معلوم ہوتا ہے! وکلاء تحریک کا فائدہ شیر کو ہو گا!!!
    ووٹ دراصل مشرف حمایت اور مشرف مخالفت میں ڈل رہے ہیں!!

    جواب دیںحذف کریں
  3. اگر شناختی کارڈ جمع کروا دو گے تو پھر کیسے ووٹ دو گے؟ وہی جمع کروانے پر تو سائیکل ملنی تھی

    جواب دیںحذف کریں
  4. ہم صبح نو بے گئے اور سوا نو بجے ووٹ ڈال کر واپس بھی آ گئے لیکن انتخابات میں صحیح حصہ تو آپ نے لیا

    جواب دیںحذف کریں
  5. میری تو پریڈ‌ہوگئی جی اس بہانے۔
    بدتمیز بھائی سائیکل ملتی تو شناختی کارڈ چاہے اگلے دن مل جاتا خیر تھی۔ سائیکل تو سائیکل ہوتی ہے جی;)

    جواب دیںحذف کریں
  6. اسلام علیکم،
    وہ سائیکل کونسی دے رہے تھے ؟
    چلانے والی یا صرف دیکھنے والی۔۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. چلانے والی ہی سنا تھا۔ دیکھنے والی کو کونسا ہم نے سجانا تھا۔۔:D

    جواب دیںحذف کریں
  8. ہمارے علاقہ میں تو 1500 روپے میں ووٹ خریدے گئے لیکن پھر بھی سائیکل پنچھر ہوئی

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔