پیر، 26 اکتوبر، 2009

سیکیورٹی

ہم نے دو تین دن پیشتر ایک پوسٹ میں جی سی یو کی سیکیورٹی کی حالت کا رونا رویا تھا (مع نقشہ) جس پے ایک تبصرہ نگار نے کہا یوں لگتا ہے جیسے دہشت گردوں کے لیے سارا کچھ لکھا جارہا ہے کہ پڑھیں اور الا اللہ کرکے حملہ کردیں۔ :D خیر ہمارا یہ مقصد تو بالکل نہیں تھا۔ چونکہ جس نے حملہ کرنا ہے اس نے میری تحریر کی بجائے اپنے ذاتی مشاہدے کو ترجیح دینی ہے۔ میں نے تو ان سیکیورٹی ہولز کی نشاندہی کی تھی جو آنے والے دنوں میں کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتے تھے۔
اس سلسلے میں آج جب پانچ دن بعد ہماری یونیورسٹی پھر کھلی تو سیکیورٹی پہلے سے سخت تھی۔ ہمیں دو عدد سیکیورٹی گیٹ مہیا کیے گئے ہیں جن میں سے ایک گیٹ نمبر دو کے پاس لگایا گیا ہے تاکہ گاڑی پارک کرکے آنے والے چیک ہوسکیں اور دوسرا پیدل گزرگاہ والے انٹرسیکشن گیٹ پے لگایا گیا ہے۔ اسکے علاوہ گاڑیوں والے گیٹ کے سامنے تین عدد رکاوٹیں بھی لگا دی گئی ہیں چناچہ کوئی بھی گاڑی آہستہ ہوئے بغیر آگے جاہی نہیں سکتی۔ ایسی ہی ایک رکاوٹ مین گیٹ جو کہ بند ہے کہ سامنے بھی لگائی گئی ہے۔ آتے جاتے کارڈز چیک کیے جارہے ہیں۔

خیر یہ تو انتظامات تھے، لیکن ابھی خاردار تار نہیں لگائی گئی۔ جیسا کہ میں ذکر کرچکا ہوں کہ جی سی کے ارد گرد موجود دیوار کی جگہ لگایا گیا جنگلہ بہت بڑا سیکیورٹی رسک ہے۔ اسے پھلانا جاسکتا ہے اور میرے جسا چھریرے بدن کا انسان اس میں سے گزر بھی سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اوپر خاردار تار لگائی جائے جوکہ ابھی چند میٹر پر ہی لگائی گئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے نیچے سے بھی ایسے کور کیا جائے کہ اس میں سے کوئی چیز بھی پار نہ کی جاسکے۔ چونکہ باہر موجود  گولے گپے والے، سموسے والے، چاٹ والے ایسے ہی اپنی مصنوعات کی ترسیل یونیورسٹی میں ممکن بناتے ہیں۔ لیکن اس راستے سے کسی بم کی ترسیل بھی عین ممکن ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے جی سی یو کارڈز ابھی تک نہیں بن سکے۔ ان کی جگہ عارضی کارڈز چل رہے ہیں۔ نئے آنے والے سمسٹرز کو بھی آج ہنگامی بنیادوں پر کاغذ پر پرنٹ نکال کر کارڈز مہیا کیے گئے ہیں۔ اب بندہ پوچھے کہ یہ ڈیزائن تو کوئی بھی مائیکروسافٹ ورڈ میں بنا سکتا ہے۔ اور پرنٹ لے کے تصویر بھی لگا سکتا ہے۔ اس میں سیکیورٹی کہاں ہے؟ الٹا یہ سیکیورٹی رسک ہے۔ خیر ڈنگ ٹپاؤ۔ جیسا کہ سارا ملک بھی ایسے ہی چل رہا ہے کہ یہ وقت گزارو بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔

خیر یہ تو قلیل مدتی پالیسی ہے۔ لیکن طویل مدت میں یہ سب کچھ ممکن نہیں ہے۔ جلد ہی چیک کرنے والے بھی اکتا جائیں گے اور کرانے والے بھی۔ کاش یہ حکومت کوئی ڈھنگ کی پالیسی بنا لے۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں کہاں سوئی پڑی ہیں۔ اور یہ جو آئے دن اخبارات میں امریکیوں کی پراسرار سرگرمیوں کی  رپورٹس چھپتی رہتی ہیں ان پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے کیوں پڑی ہے۔
پس موضوع: آج وزیرستان کے مہاجرین کی تصاویر دیکھیں۔ ان کے تو سوات کے مہاجرین سے بھی برے حالات ہیں۔ اللہ ان کو صبر اور حوصلہ دے۔ اور ہمیں ان کی مدد کرنے کی توفیق دے۔ امریکی کدھر ہیں ماں کے۔۔۔۔۔۔۔ ان کو پتا نہیں کہ ان کی جنگ ہم لڑرہے ہیں اپنوں کی قیمت پر۔ امداد کیوں نہیں دیتے یہ بھین کے۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ہفتہ، 24 اکتوبر، 2009

بلاگر پوسٹ ایڈیٹر میں اردو فونٹ

بلاگر کا  پوسٹ ایڈیٹر انٹرنیٹ کے آثار قدیمہ میں سے ہے۔ گوگل بھی بلاگر کو خرید کر اب بھول چکا ہے۔ کہیں سال بعد اس میں کسی اپڈیٹ کی خبر سنائی جاتی ہے۔ خیر آج یونہی پنگے بازی کرتے ہوئے ہمارے ہاتھ ایک نکی جئی ٹپ لگی۔ سوچا آپ سے شئیر کرتے جائیں۔
بلاگر کے پوسٹ ایڈیٹر میں اردو لکھتے ہوئے دنیا کے بدصورت ترین فونٹس میں سے کسی ایک سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔ اس وجہ سے بہت سے احباب ونڈوز لائیو رائٹر قبیل کی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ میرے جیسے جو سارا کام براؤزر میں کرنا چاہتے ہیں وہ کہاں جائیں؟ تو ان کے لیے یہ حل ہے کہ بلاگر کے پوسٹ ایڈیٹر میں فونٹ بدل لیں۔ اور اس کا طریقہ بھی بہت سادا سا ہے۔ سیٹنگز سے فارمیٹنگ میں جائیں۔ صفحہ نیچے سکرول کریں تو پوسٹ ٹیمپلیٹ پر نظر پڑے گی۔ وہاں یہ 
کوڈ پیسٹ کرکے محفوظ کردیں۔
<font face="Jameel Noori Nastaleeq", "Nafess Web Naskh", "Urdu Naskh Asiatype", "Tahoma", "Lucida Sans Unicode","Verdana","sans-serif"></font>
 سائن آؤٹ ہو کے پھر داخل ہوں۔ نئی پوسٹ کریں۔ اور آپ کا فونٹ بدل گیا۔ اب یہ لازمًا جمیل نوری نستعلیق ہوگا۔ کم از کم لکھتے ہوئے اچھے فونٹ سے دماغ پر خوشگوار اثرات ضرورت مرتب ہونگے۔ ویسے یہ کوئی بابا قسم کا حل نہیں ہے۔ اس کی بھی حدود ہیں۔ جو آپ پوسٹ لکھتے ہوئے دیکھ لیں گے۔ تاہم نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔

فن پارے

لیجیے جناب فن پارے دیکھیں۔
فن کار کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ لیکن میرا ذوق شاید ریڑھی والوں جیسا ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ تصویریں(؟) دیکھ کر "آلو لے گوبھی لے ٹینڈے لے ٹماٹر لے" کی صدائیں یاد آرہی ہیں جو ہماری گلی میں سبزی والے دیتے ہیں اور شاید اپنے آپ کو شاعر بھی سمجھتے ہیں۔ :/

بدھ، 21 اکتوبر، 2009

موجاں

کل بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی پر ہونے والے خودکش حملے کے افسوسناک واقعے کے بعد ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کرئیے گئے ہیں۔ اکثر انھیں ایک ہفتے کے لیے بند کیا گیا ہے لیکن پنجاب حکومت نے تاحکم ثانی بندش کا حکم دیا ہے۔ ہم بھی خاصے غور و خوص کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ آج یونیورسٹی نہ ہی جایا جائے۔ چناچہ یہ موجاں اس سلسلے میں ہورہی ہیں۔ چھٹی :) اس چھٹی کی قیمت بہت بڑی تھی :(
جی سی یونیورسٹی جیسے کہ نام سے ظاہر ہے پہلے ایک کالج تھا۔ اب اس کو ارد گرد کی تھوڑی سی زمین مزید عطاء کردی گئی ہے اور یہاں دو نئے بلاکس بن چکے ہیں جہاں یونیورسٹی کی کلاسز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ مزید دو زیر تعمیر ہیں۔ اس نقشے میں آپ کو بہت تازہ ترین تفصیلات تو نہیں ملیں گی لیکن اندازہ ہوجائے گا کہ جی سی یو ایف کا محل وقوع کیا ہے۔

View Larger Map
جی سی یو کے چہار اطراف سڑکیں ہیں۔ اور اس کے چھ گیٹ ہیں۔ پچھلے وی سی صاحب نے دیوار تڑوا کر اس کی جگہ جنگلہ لگوا دیا جس کو باآسانی کہیں سے بھی پھلانگا جاسکتا ہے۔ چھریرے بدن والے اس میں سے گزر بھی سکتے ہیں کئی جگہوں سے۔ یونیورسٹی کی اپنی سیکیورٹی ہے لیکن ان کا مقصد نمائشی ہے۔ جوڑوں کی صورت میں بیٹھے طلباء کو اٹھانا ان کا سب بڑا اور اہم کام سمجھا جاتا ہے۔۔ پچھلے چھ ماہ سے یونیورسٹی کے چھ گیٹس میں سے صرف دو کھلے رہتے ہیں۔ پہلے گیٹ نمبر 1 اور 2 تھے اور اب 2 اور انٹرسیکشن گیٹ ہیں۔ نمبر 2 گاڑیوں کے لیے اور انٹرسیکشن گیٹ پیدل آمدورفت کے لیے۔ موخر الذکر گیٹ کے اردگرد رکشاؤں اور دوسری سواریوں کا ہجوم رہتا ہے اور آنے جانے والوں کا بھی۔ صرف ایک چھوٹا گیٹ کھلا ہوتا ہے لیکن وہاں موجود دو گارڈز جن کے ہاتھ میں ڈنڈا تک نہیں ہوتا اس ساری صورت حال کو کسی ایمرجنسی میں بالکل بھی کنٹرول نہیں کرسکتے۔ چناچہ دو یا تین دن کی ریکی کے بعد مواقع تلاش کرنا کوئی مشکل بات نہیں اور اس کے بعد اللہ تیری یاری ایک عدد سادہ سا خودکش حملہ باآسانی کیا جاسکتا ہے۔
جب گیٹس بند کئے گئے تھے تب سے طلباء کے عارضی کارڈز بھی بنائے گئے ہیں لیکن یہ پچھلے دو تین ماہ سے چیک نہیں کیے جاتے۔ جی سی یو ایف دہشتگردوں کے لیے انتہائی ترنوالہ ہے اور اس کی سیکیورٹی کے انتظامات کے سلسلے میں بہت سی بہتریاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس میں سرفہرت تو بیرونی جنگلے کے گرد خاردار تار لگوانا ہونا چاہیے تاکہ کوئی بھی اسے پھلانگ نہ سکے۔ اس کے بعد یونیورسٹی گیٹ کے قریب پارکنگ کی بالکل بھی اجازت نہ ہو۔ اور اس کے بعد اگلا کام یہ کیا جائے کہ پیدل گزرگاہ کے لیے مخصوص گیٹ پر سیکیورٹی گیٹس مہیا کیے جائیں تاکہ اسلحہ اور بارود چیک کیا جاسکے۔
میری ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ ہماری جانوں پر رحم کریں۔ جی سی یو ایف تو اسلامک یونیورسٹی کی طرح وسیع و عریض بھی نہیں۔ یہاں تو جہاں بھی چلے جائیں طلباء کا رش رہتا ہے۔ کم و بیش دس ہزار طلباء سارا دن جی سی یو ایف میں آتے جاتے ہیں اور ان میں سے پانچ ہزار کے قریب ایک وقت میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم نے نئے بلاکس کی تعمیر میں پچھلے کئی سال سے ہونے والی تاخیر برداشت کرلی، ہم نے یہ برداشت کرلیا کہ کلاس رومز کی کمی ہے، ہم نے اساتذہ کی عدم دستیابی پر بھی سمجھوتہ کرلیا لیکن ہم اپنی جانوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کم از اکم مجھے کوئی شوق نہیں کہ میں ایک عدد خودکش حملے میں جی سی یو ایف جیسی غیر اہم جگہ پر وفات حسرت آیات پا جاؤں۔ بندہ کوئی وڈہ سارا کم کردا ہویا فوت ہوئے یار۔

جمعہ، 9 اکتوبر، 2009

دل بولے ہڑپہ

لو جی آج ہمارے پاس کچھ وقت تھا تو ہم نے انڈین مووی دل بولے ہڑپہ دیکھی۔ لگان، چک دے انڈیا وغیرہ کی طرح ایک اور کھیل کے گرد گھومتی کہانی اور اس بار پھر سے کرکٹ۔ اور کرکٹ بھی انڈیا پاکستان کی۔ اچھی کہانی ہے لیکن جگہ جگہ یہ لگتا ہے کہ فلمی کہانی ہے۔ اتفاقات اتنے ڈھیر سارے ہیں جن میں رانی مکھر جی کے مردانہ کیرکٹر سے لے کر اس کے شاہد کپور سے ملنے تک کئی واقعات شامل ہیں۔ مووی کا اختتام خاصا جذباتی ہے۔ جیسا کہ بالی وڈ کی فلموں کا خاصا ہے۔ جذبات میں لتھڑا ہوا یہ دی اینڈ بہت سے ننھے ننھے جھول بھی لیے ہوئے ہے۔ جیسے  میچ میں شاہد کپور کے ہاتھ ہیروئن کے مرادانہ گیٹ اپ کا حصہ اس کا لینز آجاتا ہے جبکہ مونچھ داڑھی نہیں آتی حیرت کی بات ہے۔ یعنی ہیرو جوتوں سمیت آنکھوں میں گھس کر لینز نکال لاتا ہے گویا۔
20 20 میچ میں پاکستان کے دو سو سے زیادہ رن کا پہاڑ کھڑا کروایا گیا اور پھر اسے بڑے سٹائل سے آخری تین چار اورز میں پورا کروایا گیا۔ لمبی چھوڑی ہے فلم لکھنے والے نے بھی۔ بہرحال جی اچھی فارمولا فلم تھی دو گھنٹے اچھے گزر گئے۔
آپ کے سر سے اگر یہ پوسٹ گزر گئی ہو تو معذرت کے ساتھ۔ آپ پہلے اوپر دئیے گئے ربط سے فلم اتاریں، دیکھیں اور پھر اس پوسٹ کو پڑھیں۔ چونکہ ہم نے پہلے کسی فلم پہ تبصرہ نہیں کیا اس لیے آپ کو عجیب سا لگ رہا ہوگا۔ ;)
سمجھ لیں دل کا ساڑ نکالا ہے۔ کمبختوں نے ملوانا ہیرو ہیروئن کو تھا پاکستان کو ایویں گھسیڑ دیا بیچ میں اور اسے بھی آخر میں ہروا دیا۔ لے دس جاتے جاتے ایک اور بات ہیروئن کھڑی لاہور میں ہے اور مثالیں دئیے جاتی ہے اندراگاندھی اور رانی جھانسی کی۔ لے دس تماشائی تو پاکستانی ہیں تم ان سے مخاطب ہو یا فلم دیکھنے والوں سے۔ غالبًا فلم دیکھنے والوں سے ہی مخاطب ہوگی۔ خیر تسیں فلم دیکھو۔ :)

جمعرات، 8 اکتوبر، 2009

بدھ، 7 اکتوبر، 2009

جونئیررز

ہماری یونیورسٹی کے نئے سمسٹر کی کلاسز شروع ہوگئی ہیں۔ اس بار نئے داخلے بھی ہوئے ہیں تو ہم سینئیر ہوگئے ہیں اور ایک عدد کلاس ہمارے نیچے بھی آگئی ہے بنام جونئیرز۔ بات کرنے سے پہلے میں تھوڑا سا تعارف کرواتا چلوں۔ ہمارے ہاں دو قسم کی کلاسز ہوتی ہیں۔ ایک بی ایس آنرزلنگوئسٹکس کی چار سالہ کلاس۔ اور ایک عدد ایم ایس سی اپلائیڈ لنگوئسٹکس کی دو سالہ کلاس۔ اول الذکر میں طلبا بارہ پڑھ کر آتے ہیں اور موخر الذکر میں بی اے کرکے یعنی چودہ پڑھ کے۔ اب ان دو کورسز کے لوگوں کے مابین فرق بھی قدرتی ہے۔ بی ایس والے زیادہ فعال ہوتے ہیں، زیادہ بے تکلف اور بے فکرے۔ چونکہ انھوں نے چار سال رہنا ہوتا ہے تو اساتذہ کے ساتھ بھی ان کی اچھی سلام دعا ہوتی ہے۔ یہ لوگ یونیورسٹی لائف سے زیادہ مانوس ہوتے ہیں۔ جی سی یو ایف میں مخلوط طرز تعلیم ہے چناچہ یہ لوگ اس ماحول سے بھی اچھی طرح مانوس ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ایم ایس سی کے طلباء ہیں جو چودہ سال کسی بوائز یا گرلز کالج میں پڑھ کر آتے ہیں۔ ان میں پرائیویٹ بی اے کرنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ چناچہ ان کا یہ سماجی و تعلیمی پس منظر ان میں تھوڑی سی جھجک پیدا کردیتا ہے۔ انھوں نے صرف دو سال رہنا ہوتا ہے چناچہ یہ آنرز کے طلبا کے زیر سایہ رہ کر گزار دیتے ہیں۔ یہ لوگ مخلوط طرز تعلیم سے آشنا نہیں ہوتے چناچہ شروع میں لڑکیوں اور لڑکوں میں جھجک پائی جاتی ہے اور بطور کلاس یہ آپس میں کبھی بھی ویسے نہیں ہوسکتے جیسے آنرز کے طلباء چار سال کے عرصے میں ہوجاتے ہیں۔
یہ تو دو انتہائیں تھیں جن کا ذکر اس پوسٹ کے لیے ضروری تھا۔ (چلتے چلتے یہ بات بھی ہوجائے کہ چار سالہ آنرز اور دو سالہ ایم ایس سی کی اسناد برابر تصور کی جاتی ہیں اور انھیں کسی بھی ادارے میں مساوی درجہ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ بہت سے احباب کے علم میں یہ بات ہوگی پہلے سے۔ چلیں اب موضوع کی طرف آتے ہیں۔)
موضوع ہے جونئیرز کو خوش آمدید کہنا اور ان کی فُولنگ کرنا۔ ہماری کلاسیں اسی ہفتے شروع ہوئی ہیں اگرچہ ابھی تک یہ بہت زیادہ باقاعدہ نہیں لیکن شروع ہوگئی ہیں۔ میں اپنی کلاس کا سی آر بھی ہوں تو ہم یہ پلان کررہے تھے کہ اپنے جونئیرز کو ویلکم کریں۔ لیکن ہمارے یہ سارے پلانز دھواں بن کر اس وقت اڑ گئے جب آج ہم وہاں پہنچے۔ قصہ سادہ سا ہے کہ ہمارے آنرز کے دوستوں نے ہمارے سوچتے سوچتے اس پر عمل کرڈالا۔ آنرز کی کلاسز صبح ساڑھے آٹھ سے ساڑھے بارہ ہوتی ہیں۔ انھوں نے پہلے آنرز فرسٹ سمسٹر کے طلباء کو ویلکم کہا اور پھر ان سے ان کا تعارف لیا۔ اب یہ تعارف کیسا تھا بس سمجھ لیں خاصا ان کمفرٹ ایبل قسم کا تعارف تھا۔ ایک ایک طالب علم کو سامنے بلایا جاتا، اس کا تعارف پوچھا جاتا اور پھر اس سے کچھ الٹے سیدھے سوالات کیے جاتے اس دوران ضمنی طور پر جگتیں اور فقرے بازی بھی چلتی رہتی۔ سنا ہے کہ کچھ طلباء واک آؤٹ بھی کرگئے۔ بے چارے :) ان کے ساتھ بہت اچھی نہیں ہوئی۔
صاحب اب ہماری انٹری ہوتی ہے تو آنرز والوں سے نمٹا جاچکا ہے اور ہمارے جاتے ہیں آنرز کے سینئیرز ہمیں لے کر ایم ایس سی کی کلاس میں جاگھسے۔ اس کے بعد آنرز کے جونئیرز والا سین یہاں بھی دوہرایا گیا۔ ہماری قریبًا آدھی کلاس مع مابدولت وہاں موجود تھی۔ اس سارے میں ہم نے بھی حصہ لیا لیکن سو میں سے بیس یا تیس فیصد کہہ لیں۔ چونکہ ہمیں رحم آجاتا تھا لیکن آنرز والے احباب نے کسی کو بھی نہیں بخشا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ماسٹرز کے جونئیرز آخرمیں اچھے خاصے غصے ہوچکے تھے۔ چونکہ لسانیات کو آرٹس کے تحت سمجھا جاتا ہے اس لیے یہاں لڑکیاں عمومًا زیادہ ہوتی ہیں۔ اس کلاس میں بھی لڑکیاں زیادہ تھیں چناچہ انھوں نے اس بات کا خاصا برا منایا کہ ان پر فقرے بازی ہورہی ہے یا انھیں زبردستی شعر سنانے وغیرہ وغیرہ پر مجبور کیا جارہا ہے۔
اب بات کرتے ہیں میرے نکتہ نظر کی۔ اوپر جو سماجی پس منظر بیان کیا گیا ہے اس کی وجہ سے (میری نظر) میں ہمارے آنرز کے احباب کو یہ بات بالکل بھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ بعض جگہ زیادتی کررہے ہیں۔ جبکہ یہ بات میں نے بہت زیادہ محسوس کی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ وہی سماجی پس منظر تھا چونکہ یہ احباب پچھلے تین یا دو سال سے ہیں اس لیے وہ اس بے تکلفی کو روٹین کا حصہ سمجھ رہے ہیں۔ جبکہ ایک بی اے کرکے آنے والا لڑکا یا لڑکی جس نے اپنی ساری عمر مخلوط طرز تعلیم میں تعلیم حاصل نہیں کی اس بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی بے عزتی کی جارہی ہے اور صنف مخالف کے سامنے بے عزتی کی جارہی ہے۔ چناچہ ان میں عزت نفس مجروح ہونے کا احساس بہت شدید ہوتا ہے جسے ہمارے آنرز کے احباب محسوس نہیں کرسکے۔ ہم ایم ایس سی سینئیر نے یہ بات محسوس بھی کی تو ہم ان کو روک نہیں سکے۔ وجہ وہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ذرا دبا دبا سا محسوس کرتے ہیں یا ہمارے آنرز والے دوست مسلط ہونے کی زیادہ خوبیاں رکھتے ہیں۔ بہرحال صاحب بات یہاں پہنچی کہ اس سارے ڈرامے کے بعد جب ہم نے بعد میں اپنی کلاس میں یہ بیٹھ کر ڈسکس کیا تو میرا پہلا تبصرہ یہ تھا کہ یہ بہت زیادہ ہوگیا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ واقعی آنرز والے احباب زیادہ ہی کرگئے۔ لیکن کچھ کے خیال میں ایسا ہونا چاہیے تھا یہ یونیورسٹی لائف کا حصہ ہے۔
اس سارے واقعے کی وجہ سے آج میں اچھا خاصا ٹینشن میں رہا اور مجھے اپنے ان مذاق اڑاتے فقروں پر بھی شرم آئی۔ اگرچہ وہ کچھ اس قسم کے تھے کہ دونی کا پہاڑہ سناؤ، نصیبو لعل کے کسی گانے کو انگریزی میں ٹرانسلیٹ کرو ( یہ لڑکے کو کہا گیا تھا) وغیرہم۔ تو جناب ہم نے جذباتی ہوکر یہ سوچا کہ کل جاکر اپنے ایم ایس سی فرسٹ سمسٹرز کے دوستوں سے معذرت بھی کریں اور انھیں اپنی کلاس کا تعارف بھی کروائیں اور ساتھ ویلکم بھی کردیں۔ اس سارے میں سے معذرت والی بات میرے ہم جماعتوں کو پسند نہیں آئی جبکہ باقی سب وہ کرنے کو تیار تھے۔ چناچہ ہم نے بھی اس کو فہرست سے نکال دیا۔ اب ہم کل جاکر انھیں اپنی طرف سے ویلکم کہیں گے اور اپنا تعارف دیں گے چونکہ ان کا تو آج لے ہی چکے :D
اس ساری رام کہانی کے بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ سے رائے لی جائے۔ اوپر بیان کردہ واقعات آپ کے خیال میں ٹھیک تھے؟ اور کیا ہمیں یعنی ایم ایس سی تھرڈ سمسٹر کو معذرت کرنی چاہیے؟ یا یہ انٹروڈکشن لینا اور فُولنگ کرنا یونیورسٹی لائف کا حصہ ہے اور یہ ہر سینئیر کا پیدائشی حق ہوتا ہے؟ یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ ہم نے فولنگ کے اس سے بھی بدترین واقعات سن رکھے ہیں۔ اگرچہ ہمارے والے قصے میں فولنگ کی شدت بہت کم تھی لیکن ہمیں یہ ڈر ہے کہ ہمارے ایم ایس سی فرسٹ کے محترم دوست اس بات کو اپنی عزت نفس مجروح کرنا نہ سمجھ لیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسا ہونا چاہیے؟ یہ غلط ہے یا ٹھیک ہے؟ ہمارے واقعے میں یہ ٹھیک ہوا؟ یا غلط ہوا؟ یا اس پر معذرت کی جائے؟ یا ایسے ہی رہنے دیا جائے چونکہ ایسی چیزیں سینئیرز اور جونئیرز میں بے تکلفی بڑھاتی ہیں؟ اور ان میں اعتماد پیدا کرتی ہیں؟
آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔
وسلام

اتوار، 4 اکتوبر، 2009

چینی کا بحران اور عدلیہ

میرے کچھ احباب کو یہ بات بڑی چبھ رہی تھی کہ عدلیہ بحال ہوگئی اور کام اس نے ٹکے کا بھی نہیں کیا۔ پچھلے ایک ماہ سے جاری کشمکش، اپیلوں، رِٹس اور تاریخوں کے بعد آخر کار سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دے ہی دیا کہ وہ چینی 40 روپے فی کلوگرام کا نوٹس جاری کرے۔ ملاحظہ ہو خبر

آخر کار سپریم کورٹ نے حکومت اور سرمایہ داروں کے حلقوم پر ہاتھ رکھ ہی دیا۔ لیکن اس سب کا فائدہ کیا ہوگا؟
اس کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سسٹم ٹھیک نہ ہو۔ لوگ عدالتوں میں بیٹھنے والوں کو فرعون کہنے لگے ہیں، اسے طرح طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں پچھلے کئی دنوں سے یہ سوچ رہا تھا کہ یہ جو عدلیہ آزاد ہوئی ہے تو یہ کتنی آزاد ہوئی ہے۔ صاحبو کئی دن تک اپنے پی ون پروسیسر جیسے دماغ کو زحمت دینے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ گن کے پانچ عدالتوں کے جج اگر ٹھیک کام کر بھی رہے ہیں تو ان سینکڑوں ماتحت عدالتوں کا کیا جو اب بھی ویسے ہی کام کررہی ہیں؟ جناب مسئلہ سسٹم میں ہے مسئلہ عدلیہ کی آزادی میں نہیں۔ وہ تو جو ہونا تھا ہوگیا اور بہترین ہوگیا۔ اب آگے کام ہے سسٹم کو ٹھیک کرنا۔
عدلیہ آزاد ہوگئی۔ عدلیہ ازخود نوٹس بھی لے رہی ہے۔ عدلیہ سماعتیں بھی رکرہی ہے۔ لیکن بات پھر یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کس نے کرانا ہے؟ ٹھیک سمجھے! انتظامیہ نے۔ اور انتظامیہ اگر نہ عمل کرنا چاہے تو کون مائی کا لال اسے روک سکتا ہے؟ پاکستان کی نوکر شاہی کے تاخیری حربے تو ویسے بھی کلاسکس کی حیثیت رکھتے ہیں۔
بات اتنی سی ہے کہ گنتی کے چند لوگ جو عدالتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں جادو کی چھڑی سے سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتے۔ اس کے علاوہ بھی عمل ہونا چاہیے۔ ہم نے سمجھا کہ عدلیہ ٹھیک ہوگئی تو سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ پھول نگر کے واقعے پر کسی بلاگر نے عدلیہ کو کوسنے دیے، اہم مقدمات کی لمبی لمبی تاریخیں دینے پر گل افشانیاں کی گئیں۔ لیکن بات پھر وہی ہے کہ عدلیہ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں۔ ان ججوں کی بھی حدود ہیں۔ انتظامی بھی اور انسانی بھی۔ کتنے مقدمات کی سماعت کرلیں؟ آخر کتنے؟ آخر انھوں نے اپنے خاندان کو بھی وقت دینا ہے اور خود آرام بھی کرنا ہے۔ یہاں تو ہر دوسرا واقعہ ازخود نوٹس کا متقاضی ہے کیا کیا کر لیں عدالتیں۔ یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ چینی بحران جیسے ایشو پر ہی ایکشن لے رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چینی مافیا کے پاس ابھی کارڈز کا یہ بڑاسارا ڈھیر ہے جسے کھیل کر وہ بڑے آرام سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ ان میں سرفہرست ملوں کی بندشن اور مل مزدوروں کی "سپانسرڈ" ہڑتالیں ہیں۔ یہی ہڑتالیں کسانوں سے بھی کروائی جاسکتی ہیں جن کی فصل کھیتوں میں تیار کھڑی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے گوڈوں میں پانی ہے یا نہیں۔ کیا وفاقی حکومت یا کم از کم حکومت پنجاب جس نے ملوں پر پولیس تعینات کردی ہے ملوں کو اپنی تحویل میں لے کر چلوا سکے گی؟ کیا یہ لوگ اتنے قابل ہیں؟
اب یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ افتخار چوہدری خود آکر ملیں بھی چلوانا شروع کردے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ عدالتوں کو کوسنے کے بعد معاشرےکو بھی دیکھیں وہاں کیا کیا ہے جو عدالتیں نہیں کرسکتیں۔ کسی بھی صورت نہیں۔ چونکہ عدالتی کاروائی ریکارڈ اور گواہوں کی محتاج ہے۔ اس کا ایک طریقہ کار ہے جو کم از ہمارے موجودہ حالات میں بہت وقت طلب کام ہے۔ جب کہ ہمیں انتظامی سطح پر ایسی ہی بحالی درکار ہے جیسی عدالتوں میں ہوئی۔
باقی ساڈا کی جاندا اے۔ جتھے چار گالاں کڈدے او اوتھے اٹھ کڈو۔ نہ عدالتاں دا کچھ جانا اے تے نا حکومت دا۔ سب نے چلدیا رہنا۔ اساں تُساں کڑھدیاں رہنا تے زندگی ٹردی جانی اے۔