جمعرات، 12 نومبر، 2009

ہو چُوپو

لو جی الطاف پائین و ہمنواؤں نے این آر او کھا کے ڈکار بھی نہیں لی۔ ملاحظہ کیجیے۔
قانونی ماہرین کے مطابق متحدہ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے کیس ختم کرنے کے حوالے سے آئینی و قانونی سنگین بے قاعدگیاں کی گئی ہیں
کراچی ۔۔۔ متحدہ قومی مو ومنٹ نے این آر او کے ذریعے اپنے قائد الطاف حسین اور مرکزی رہنماؤں سمیت کارکنوں کے 3ہزار5سو70 مقدمات ختم کروائے ہیں جن میں بیشتر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں۔ختم کرائے گئے مقدمات میں قتل، اقدام قتل، چوری ڈکیتی، پولیس مقابلہ، جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے مقدمات شامل ہیں۔مرکزی رہنماؤں سمیت متحدہ قومی مو ومنٹ کا کوئی بھی کارکن این آر او کے تحت مقدمات ختم کرانے کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے روبرو پیش ہی نہیں ہوا لیکن ا سکے باوجود حکومتی اثر و رسوخ استعمال کر کے مقدمات ختم کرالئے گئے ۔ذرائع کے مطابق مشرف دور میں این آر او جاری ہونے کے بعد حکومت سندھ نے ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی جس نے این آر او کے مقدمات کا جائزہ لیکر ان پر سفارشات وزیر اعلیٰ کو بھیجنا تھیں جو این آر او کے تحت مقدمات ختم کرنے کی ا تھارٹی تھی۔ذرائع کے مطابق مذکورہ کمیٹی نے متحدہ قومی مو ومنٹ کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف زیر سماعت 4 ہزار سے زائد مختلف مقدمات پیش کئے تھے ۔کمیٹی نے مختصر سے وقت میں کسی بھی قسم کی تفتیش اور مناسب جائزہ لئے بغیر متحدہ قومی مو ومنٹ کے خلاف 90 فیصد سے زائد مقدمات یک جنبش قلم ختم کرنے کی سفارشات وزیر اعلیٰ کو بھیج دیں جو اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم نے منظور کر لی بعدازاں حکومت سندھ نے ان مقدمات کے خاتمے کیلئے متعلقہ عدالتوں میں درخواستیں جمع کراکے مقدمات باقاعدہ ختم کرادئے تھے ۔سندھ کی سطح پر بننے والی این آر او کمیٹی میں اس وقت کے ایڈو وکیٹ جنرل خواجہ نوید احمد اور سندھ کے سیکریٹری قانون سید غلام نبی شاہ بھی ممبران کے طور پر شامل تھے ۔ختم کرائے جانے والے مقدمات میں متحدہ قومی مو ومنٹ کے مرکزی رہنماؤں الطاف حسین، فاروق ستار، وسیم اختر اور دیگر کارکنان و رہنماؤںکے مقدمات شامل تھے ۔متعدد قانونی ماہرین نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ قانونی لحاظ سے مقدمات دو نوعیت کے ہوتے ہیں ایک قابل رضامندی (compoundable) اور دوسرے ناقابل رضامندی (non-compoundable) قتل ، اقدام قتل قابل رضامندی مقدمات تو ضرور ہیںلیکن ان مقدمات کے خاتمے کیلئے متاثرہ فریق کی رضامندی ضروری ہے ۔قتل کے مقدمے کو مقتول کے ورثاء کے سوائے حکومت یا ریاست کسی طور پر معاف نہیں کرسکتی ہے جبکہ چوری، ڈکیتی ، اغواء، دہشت گردی، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے والے مقدمات بھی ناقابل رضامندی مقدمات کے زمرے میں آتے ہیں جنہیں معاف کرنے کا حق مقدمے کے متاثرہ فریق سے لیکر کسی کو بھی نہیںہوتا ہے ۔قانونی ماہرین کے مطابق متحدہ کے کارکنوں اور رہنماؤں کے کیس ختم کرنے کے حوالے سے آئینی و قانونی سنگین بے قاعدگیاں کی گئی ہیں۔


10 تبصرے:

  1. ان مقدموں پہ کیا بات کروں
    کچھ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے
    کمزور سا میں اک آدمی ہوں
    الطاف بھائی کا جتھہ ہلکا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. اس طرح کے گھٹیا ہتھکنڈوں کا مقصد متحدہ کو پورے ملک میں پھیلنے سے روکنا ہے دشمن پہلے بھی ناکام ہوئے تھے اور انشاءاللہ آئندہ بھی ناکام ہی ہوں گے کیونکہ حق آنے کے لیئے اور باطل مٹ جانے کے لیئے ہے،الطاف حسین نے کہا ہے کہ اعلی عدالتیں اگر دوبارہ ان کیسوں کو کھلوا کر ان کے کارکنوں کو طلب کریں گی تو وہ دوبارہ حاضر ہونے کو بھی تیار ہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. سائیں ہمیں کونسا سندھ ہائی کورٹ کا گھیراؤ بھول گیا ہے۔ ابھی کل کی ہی بات ہے 12 مئی اور متحدہ کے کارکنوں کے کارنامے۔
    مانا بطور قوم ہماری یادداشت کمزور ہے لیکن اتنی بھی کمزور نہیں۔
    اللہ خیر رکھے اگر متحدہ انگلینڈ اور ٹیلیفون کے چنگل سے نکل آتی ہے تو ست بسم اللہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. شاکر صاحب جسے آپ عدالتوں کا گھیراؤ کہ رہے ہیں وہ تمام وہ گواہان تھے جنہیں عدالت نے طلب کیا تھا کہ جو لوگ 12 مئی کے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں وہاں آکر اپنا بیان ریکارڈ کروائیں ،
    خیر اس کا ایک فائدہ تو ہوا کہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ کراچی میں متحدہ کا کوئی ووٹ بنک نہیں اور وہ صرف پریشر پالیٹکس کرتی ہے انکی آنکھیں کھل گئیں ،اور اسی جلن میں انہوں نے یہ بکواس کی کہ متحدہ کے لوگوں نے عدالتوں کا گھیراؤ کیا!
    12 مئی کی کہانی بھی جلد یا بدیر سامنے آہی جائے گی جیسے جناح پور اور ٹارچر سیلوں کی بکواس کی اصلیت کا لوگوں کو پتہ چل گیا!
    باقی ضروری تو نہیں کے ہر شخص حق اور سچ کی پہچان رکھتا ہو بہت سے لوگ سورج چمکتا دیکھ کر بھی اندھیرا کہتے ہیں تو انکا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے:)

    جواب دیںحذف کریں
  5. بس پاء جی کچھ آپ کی دعاؤں سے اور کچھ ادھر اُدھر کے ٹی وی چینلوں سے لائیو دیکھ کر ہمیں یہ اندھیرا یہاں تک نظر آگیا تھا۔ ;)

    جواب دیںحذف کریں
  6. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. شاکر صاحب کراچی میں حقیقی بھی موجود ہے جو متحدہ کو ختم کرنے کے لیئے آپ کے بڑوں نے بنائی تھی اور ان کے جھنڈے بھی متحدہ جیسے ہی ہیں اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ جو لوگ متحدہ کے جھنڈے لے کر قتل و غارت گری کررہے تھے وہ متحدہ کے ہی لوگ تھے؟ جس نے اس خونی کام کا پروگرام بنایا تھا کیا وہ اس بات کا خیال نہ رکھتا کہ کچھ ایسا ہو کہ عام بے وقوف پاکستانی فورا ہی اس بات پر ایمان لے آئے کہ یہ سب متحدہ نے کروایا حالانکہ اگر عقل کو ہتھ مارا جائے تو متحدہ کو کیا ضرورت پڑی تھی یہ سب کرنے کی،اتنی محنت کے بعد جب لوگ متحدہ سے متاثر ہونا شروع ہو گئے تھے تو خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لیتی اوتر اگر ایسا کوئی ارادہ تھا بھی تو لاکھوں کی ریلی میں معصوم بچوں خواتیں اور بوڑھوں کو لانے کی کیا ضرورت تھی؟خیر جنہوں نے یہ گیم کھیلا انہوں نے بے وقوفوں کی حد تک تو اپنا مقصد حاصل کر ہی لیا باقی عقل مند لوگ اب بھی اسے ایک سازش ہی سمجھتے ہیں اور یہ عقل مند صرف کراچی مین نہیں پنجاب اور دیگر صوبوں میں بھی موجود ہیں اور اس کا ایک ثبوت تمام تر سازشوں کے باوجود گلگت بلتستاں کے انتخابات میں متحدہ کا سیٹ جیت جانا ہے دوسری سیٹ پر اگر حکومت اڑی نہ کرے تو وہ بھی متحدہ کی ہی ہے،اور ابھی ایک علاقے میں ان کے امیدوار کے انتقال کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہو گئے ہیں دیکھیں وہاں کیا ہوتا ہے!

    جواب دیںحذف کریں
  8. میاں جی کراچی میں اس وقت حکومت متحدہ کی تھی، صدر متحدہ کا ماما تھا اور گورنر متحدہ کا اور وزیر اعلٰی اپنے باپ کے بعد کسی سے مخلص تھا تو وہ متحدہ تھی۔ جان دیو پاء جی حقیق کی تو ماں بہن مشرف اور متحدہ نے ایسی ایک کی کہ آٹھ سال تک حقیقی والے نظر نہیں آسکے۔ مشرف کے جانے کے بعد کہیں ان کو دیکھا گیا ہے۔ اور ان کی بھی دُرگت ایسی شاندار بنائی گئی کہ کیا کہنے۔ وہ تصاویر یہیں کہیں موجود ہونگی جن میں خواتین کو مارا جارہا ہے۔
    جان دیو پاء جی ایویں بے کار کی بحث میں پڑ گئے۔ کراچی میں حکومت کرو ہمیں پتا ہے کہ وہاں متحدہ کا ہولڈ ہے، میٹرک کے پرچے سے لے کر فٹ پاتھ پر دوکان لگانے تک ہر کام کی متحدہ سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ مولا وسدیاں رکھے متحدہ نوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. شاکر صاحب حقیقی والے اپکو نظر نہیں آئے ہوں گے ہمیں تو ہر وقت نظر آتے تھے اور ہیں اور آئے دن پریس کانفرنسیں بھی کرتے ہیں اور اپنی خبریں بھی لگواتے ہیں چاہے دو کالمی ہی ہوں، اور وہ یہ سب مشرف اور متحدہ کے دور میں بھی کرتے رہے ہیں اور ان کی پیٹھ پر پیپلز پارٹی والوں نے ہاتھ رکھا ہوا تھا اسی لیئے یہ اکثر مخدوم امین فہیم اور دیگر کی پریس کانفرنسوں میں موجود بھی ہوتے تھے چاہیں تو اس وقت کے اخبارات ملاحظہ فرمالیں ،حقیقی کی درگت اگر کسی نے بنائی ہے تو وہ کراچی کے لوگوں نے بنائی ہے کیونکہ وہ ان کی حقیقت کو پہلے بھی پہچانتے تھے اورآج بھی پہچانتے ہیں ،آپ کو جن باتوں کا پتہ نہ ہو ان پر تبصرہ فضول ہے!
    باقی اگر حکومتیں اتنی ہی پاور فل ہوا کرتیں تو بھٹو جیسے پاور فل حکمراں کو پھانسی نہ ہوتی اور آپ کے امیر المومنین کا دو تہائی اکثریت کے باوجوداس طرح دھڑن تختہ نہ ہوتا! متحدہ بے چاری کی تو صرف شہر کے 33 فیصد حصے پر ہی حکومت ہے ، اور اسی شہر میں پیپلز پارٹی ، اے این پی اور جماعت اسلامی بھی موجود ہیں اور کھل کر سیاست کررہی ہیں، رہ گئی خواتین کو مارنے کی بات تو کیونکہ آپ لوگوں کو پوری بات کا علم تو ہوتا نہیں ہے بس یونہی سنی سنائی پر یقین کیا کرتے ہیں،وہاں پیپلز پارٹی کے لوگوں نے متحدہ کے لوگوں پر شیشے کی بوتلیں پھینکی جس سے کافی لوگ زخمی ہوئے اس پر متحدہ کے جزباتی رکن جوکہ ایک بلوچی ہیں نے ان مردوں پر حملہ کیا جنہیں بچانے کے لیئے خواتین درمیان میں آگئیں اورآپ جیسے لوگوں نے رائی کا پہاڑ بنا ڈالا یقین نہ ہو تو اس وقت کے کراچی کے اخبار اٹھا کر پڑھ لیں حقیقت حال واضح ہوجائے گی، اتنا بھی آنکھیں بند کر کے بات کرنا ٹھیک نہیں ہوتا!
    ویسے آپ کی دعا کے لیئے جزاک اللہ :)

    جواب دیںحذف کریں
  10. if you want to know how power full any goverment in Pakistan is please read this Article
    http://ejang.jang.com.pk/11-20-2009/pic.asp?picname=07_03.gif

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔