ہفتہ، 11 اپریل، 2009

یہ اچھا نہیں ہوا

بلوچستان میں ہونے والے تین رہنماؤں کا قتل جس نے بھی کروایا ہے بہت عیار اور چالاک ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے یہ ایک اور مصیبت ہے۔ اور عین وقت پر آنے والی مصیبت۔ بلوچستان پہلے ہی حقوق سے محرومی کی آگ میں جل رہا ہے اوپر سے یہ سب۔ یااللہ کیا بنے گا ہمارا۔ آج کے ایکسپریس میں محمد عامر خاکوانی کا کالم پڑھنے کا لائق ہے۔
مجھے تو یہ پڑھ کر پھریریاں آرہی ہیں کہ پورے کوئٹہ میں صرف ایک سی این جی سٹیشن ہے۔ اور یہاں جس ماں کے خصم کو چاہے اٹھا کر سی این جی سٹینش کا لائسنس دے دیتے ہیں۔ پانچ پانچ سو میٹر کے فاصلے پر سی این جی سٹیشن بنے ہوئے ہیں اور کبھی دو ساتھ ساتھ کے پلاٹوں پر سی این جی سٹیشن بنے ہوئے ہیں۔ جو موبائل فون کمپنیوں کی طرح گاہک گھیرنے کے لیے کبھی سستی گیس بیچتے ہیں کبھی ڈسکاؤنٹ دیتے ہیں کبھی کوئی اور بچت سکیم کا متعارف کرواتے ہیں۔
آخر بلوچستان کو کیوں حق نہیں دیا جاتا۔ یہاں فیصل آباد میں بیٹھے ہم پنجابی اس گیس کے زیادہ مامے ہیں جو سینکڑوں میل دور سوئی اور دوسرے علاقوں سے نکلتی ہے۔ ان کی عقلیں کہاں ہیں اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کدھر ہے۔ پرویز مشرف بھی میگا پراجیکٹس کی ڈگڈگی بجاتے رخصت ہوگیا اور اب شاید یہی کچھ یہ کررہے ہیں۔

بدھ، 8 اپریل، 2009

پینڈو

لو جی بات کوئی اتنی خاص بھی نہیں۔ لیکن عام بھی نہیں۔ ہمارے لیے۔ آپ کے لیے نہیں۔ تو بات اتنی سی ہے۔ لیکن ٹھہریں اتنی سی بات سے پہلے ذرا آپ اس کا پس منظر سن لیں۔ لو جی پس منظر بھی اتنا کوئی خاص نہیں۔ قصہ یہ ہے کہ ہم آج کل شام کو جاب شاب کررہے ہیں پڑھائی کے ساتھ۔ کہاں؟ ارے وہیں یار اپنے ڈیپارٹمنٹ میں ہی۔ کلرکی شلرکی کررہے ہیں۔ کہ روزی روٹی بھی چلتی رہے اور پڑھائی بھی۔ تو ہم عرض کررہے تھے کہہ ہمارے ساتھ کوئی بات ہوئی تھی۔ نہیں ہوئی نہیں بس ہوتے ہوتے رہ گئی۔ گل اتنی سی تھی یار کہ ہم نے طہارت کرنی تھی۔ وُضو کرنے کے لیے۔ تو چونکہ اب ہم بھی فیکلٹی ممبر ہیں۔ ٹیچر یار۔۔ تو ہم نے سوچا ذرا ٹیچروں والا واش روم استعمال کرکے دیکھیں۔ وہی یار جسے پنجابی میں لیٹرین کہتے ہیں۔ خیر ہم نے طہارت کے لیے واش روم کا رُخ کیا۔ ۔۔چلیں ذرا امریکی تڑکا لگا لیتے ہیں۔۔۔ ریسٹ روم کا رخ کیا۔ دروازہ بند کیا۔ پیچھے مڑے تو یہ کیا؟ دھک سے رہ گئے۔ عجیب کرسی سی پڑی ہوئی ہے۔ ہم ٹھہرے پکے پینڈو۔۔ لوٹا نہ ہو تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی فرض رہ گیا ہے۔ ہم نے پہلے اپنی پچیس سالہ ۔۔ کم و بیش۔۔ زندگی کو کھنگالا۔۔ اور اس ولائتی سیاپے کو استعمال کرنے کا کوئی تجربہ نا پاکر، اور کوئی رسک لینے پر تیار نہ ہوتے ہوئے ،نیز اپنی ماہرانہ نظر سے اس عجیب الخلقت شے کا معائنہ کرنے کے بعد استنجا کرنے کی کوئی راہ نا پاکر۔ ہم نے۔۔۔۔۔۔۔ باہر کی راہ لی۔ اور سٹوڈنٹس والے(بے) واش روم میں جاکر سکون دائمی حاصل کیا۔
آہ۔۔۔ لوٹا دیکھ کر کیسا روحانی سکون محسوس ہوتا ہے۔ ہے نا؟ آپ کا کیا خیال ہے۔ لوٹا جہاں بھی ہو اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ واش روم میں ہو یا اسمبلی میں۔ ایک کمینہ سا خیال یہی آتا ہے۔ ہے تو وہی نا استنجے کی۔۔۔۔ چلیں جانے دیں آگے آپ سمجھ دار ہیں۔
آپ کو کبھی پینڈو ہونے کا احساس ہوا؟
ہوا تو ہمارے ساتھ شئیر کیجیے نا۔

اتوار، 5 اپریل، 2009

کس کو سنیں کس کو نہ سنیں؟

پچھلے دو دن سے میڈیا پر جو طوفان اٹھا ہوا ہے اور جو اب طوفان بدتمیزی میں بدلتا جارہا ہے، پہلے ہمارا خیال تھا کہ جان دیو کیا لکھنا وہی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرو اس کو بھی پی جاؤ۔ لیکن اجمل صاحب کی اس پوسٹ اور اس کے علاوہ کچھ دوسرے بلاگرز کی متواتر تحاریر نے مجبور کردیا کہ کچھ لکھا جائے۔ لیکن کیا لکھا جائے؟ اتنے سارے پر کیا کہا جاسکتا ہے۔ میں جو ایک عام شہری ہوں۔ جس کے سامنے بے شمار امکانات ہیں کہ یہ ویڈیو جعلی بھی ہوسکتی ہے، بیرونی سازش بھی ہوسکتی ہے۔ چلیں مان لیتے ہیں یہ اصلی ہے۔ اور میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ کل اگر اس بچی کے ساتھ یہ ہوا تو میری بہن کے ساتھ بھی کوئی دین کا ماما یہ کرسکتا ہے۔ لیکن اگر یہ اصل بھی ہے تو اس کی وجوہات کیا تھیں؟ ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا پڑے گا۔
پچھلے پانچ سال سے ہماری حکومت کی رِٹ کہا جارہی ہے؟ کبھی سوچا ہے آپ نے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ ہمارے حکمران شمالی علاقوں پر اپنی گرفت کھو رہے ہیں۔
ہماری حکومت روشن خیالی اور جمہوریت کی آڑ میں لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسی آگ بڑھکا رہی ہے جو خانہ جنگی کی طرف ہی لے کر جاسکتی ہے۔ اور لے جا بھی رہی ہے۔
میں آپ کو اپنا حال بتاتا ہوں۔ ایک طرف یہ خود کش حملے ہیں، بم دھماکے ہیں اور دوسری طرف جب مین فحش ناچ گانا اور اپنے شہر فیصل آباد کے تھیٹروں میں ہونے والے ڈرامے اور ان میں ناچنے والی رنڈیوں کے ننگے پوسٹر دیکھتا ہوں تو میرا دل کیا کرے گا۔ کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے؟
جب میں اپنے معاشرے کی اخلاقی تنزلی دیکھوں گا، جھوٹ، ، رشوت اور ناانصافی کو پنپتا دیکھوں گا تو پھر میں کیا سوچوں گا؟
جناب پھر میرے ذہن میں یہی جواب آتا ہے کہ اگر آج سوات میں یہ کچھ ہورہا ہے تو کل فیصل آباد کی باری ہے۔ پھر پاکستان کی باری ہے۔
یہ حقیقت ہے جناب کہ ہم اس وقت دو انتہاؤں کی طرف تیزی سے جارہے ہیں۔ یہ دو انتہائیں اس قدر شدید ہیں کہ شاید یہ قومیتی اور صوبائی اختلافات کو بھی اپنے اندر سمیٹ لیں۔ اور تقسیم ایسی ہوجائے کہ کچھ صوبے یا نسلی گروہ بنیادہ پرست ہوجائیں اور کچھ مادر پدر آزادی کو ترجیح دیں۔
یہ ساری تقسیم پاکستان کو برباد کردے گی جناب اگر آپ نے میں نے یہ نا سوچا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔
اگر طالبان اٹھ رہے ہیں تو اس کی وجوہات ہیں جناب۔
اس کی وجوہات مرد مومن مرد ناحق کی وہ کوڑھ کی کاشت ہے جس نے اس ملک کا بیڑہ غرق کردیا۔
اس کی وجوہات وہ یو ٹرن ہے جو 2001 میں لیا گیا جناب جس نے ایسا ردعمل پیدا کیا جو آج شدید تر ہوتا جارہا ہے۔
اس کی وجوہات میں طاقت کا وحشیانہ استعمال بھی شامل ہے جناب جو پچھلے پانچ سال میں شمالی علاقوں میں امریکی آشیرواد پر اندھا دھند استعمال کی گئی۔
اس کی وجوہات میں طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا بھی شامل ہے جناب۔
اس کی وجوہات میں سوات پر پچھلے دو سال میں ہونے والا آپریشن بھی ہے جناب۔
اس کی وجوہات میں عام آبادی پر توپوں سے گولہ باری اور ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ بھی شامل ہے جناب۔
اس کی وجوہات میں ان زمینی حقائق سے مجرمانہ غفلت اور انٹیلی جنس سسٹم کی ناکامی بھی شامل ہے جناب۔
یہ بات نوٹ کرلیجیے جناب کہ اگر آج بھی ڈائیلاگ کی بات نہ کی گئی، طاقت کو ہی آخری حل سمجھا گیا اور حاکموں کا محاسبہ نہ کیا گیا تو اس ملک کا کچھ نہیں بچے گا جناب۔ اس ملک کے روشن خیال جمہوریت پسند حکمران اسلام آباد میں بیٹھے چھنکنے بجاتے رہ جائیں گے جیسے حامد کرزئی کابل میں بیٹھا چھنکنے بجاتا اور بیان جاری کرتا رہتا ہے۔
جناب یہ صورت حال اس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنی نظر آرہی ہے۔ اور اس کا حل اتنا سادہ نہیں جتنا سادہ بیان کیا جاتا ہے۔ کہ طاقت کے استعمال سے ظالمان کو نیست و نابود کردیا جائے۔ جناب یہ وہ کینسر ہے جو آپ کے جسم کے ان ان حصوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے جس کا آپ کو احساس بھی نہیں۔ اور اس کینسر کے خلاف ہونے والے آپریشن نے اس ملک کو ٹھیک کرنے کی بجائے مفلوج کرڈالا ہے۔
ہمیں اعتدال کی ضرورت ہے جناب اور ٹھنڈی طبیعت سے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جناب۔
اس ملک میں رہنے والوں کو اپنے حقوق و فرائض اور اس ملک کا مستقبل پھر سے مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا جناب۔ ورنہ کسی خونی انقلاب کی چاپیں بہت قریب آگئی ہیں جناب۔ شاید خونی انقلاب نہیں خانہ جنگی۔

جمعرات، 2 اپریل، 2009

عرض کیا ہے

میرا پاکستان کے محمد افضل صاحب نے پچھلے دنوں ایک تحریر لکھی تھی۔ اس تحریر کے بعد اور پھر اصلی تے وڈے بلاگ پرجاکر تحریر پڑھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
  • عروض بے کار چیز ہے
  • غالب اور اقبال وغیرہم کا کلام آدھے سے زیادہ عروض سے باہر ہے۔
  • اس سلسلے میں مشکلات غالب کے نام سے کسی عظیم آدمی نے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے۔
  • موجودہ دور کے عظیم ترین بلاگرز، اردو کے مامے اور ادیب عالمی اخبار پر بیٹھے ہیں۔
  • یہ دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ ہے جسے دن میں پانچ بار اپڈیٹ کیا جاتا ہے۔ سبحان اللہ اور یہ رفتار دنیا کے بڑے سے بڑے اخبار کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے۔
  • مذکورہ بلاگ کے علاوہ انٹرنیٹ پر اردو میں جو کہا جاتا ہے وہ بکواس ہے۔ بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ اردو کے ماموں کو انٹرنیٹ کا انچارج بنا دینا چاہیے تاکہ اردو کی ترقی عین ممکن ہوسکے۔ چونکہ ہر چوہڑے چمار نے جس کے پاس تھوڑے سے پیسے ہوں بلاگ بنا کر بیٹھ جانا ہے جو اردو کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
  • عالمی اخبار پر حق گوئی، بے باکی اور سچائی کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ اور عوام الناس کو نصیحت ہے کہ وہاں جاکر فیضیاب ہوں اور اپنی عزت کا جنازہ نکلوائیں۔
اوپر مذکور ارشادات کی روشنی میں ہم نے آج ایک "گزل" کہنے کی کوشش کی۔ چونکہ اردو کے مامے ہمیں اس بات کی اجازت دے چکے ہیں کہ عروض بے کار چیز ہے۔ اور نثری شاعری باقاعدہ ایک فن کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ چناچہ ہم نے اپنے تخیل کو وسیع کیا۔ قریب موجود گندے نالے کے کنارے گھنٹوں ٹہل کر اور اس کے کالے پانی میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے ہم نے ایک عدد گزل کہنے کی کوشش کی ہے۔ شاعری خداداد چیز ہوتی ہے جناب اور یہ سیدھی آسمان سے اترتی ہے۔ چناچہ ہم پر بھی آج بہت سے راز افشا ہوئے۔ دوسری کی ریاضی کی کتاب کو پکڑ کر ہم نے جو تخیل کی اڑان بھری تو اس کا نتیجہ اس گزل کی صورت میں نکلا۔ ملاحظہ کیجیے
ایک دونی دونی
دو دونی چار
تین دونی چھ
چار دونی اٹھ
پنج دونی دس
چھ دونی بارہ
ست دونی چودہ
اٹھ دونی سولہ
نو دونی اٹھارہ
دس دونی وی
سبحان اللہ، واہ جی واہ کیا کہنے۔ اپنے آپ کو شاباش دینے کو بڑا ہی دل کرتا ہے یعنی ہم شاعر ہوگئے ہیں۔ ہماری درج بالا گزل مزید لمبی ہوسکتی تھی لیکن ہم نے سوچا نئی نئی شاعری سیکھ رہے ہیں ذرا ہتھ ہولا رکھیں۔ مزید کے لیے ہمارا بلاگ پڑھتے رہیں۔
نوٹ: یہ تبصرے کی صورت میں اردو کے اصلی دے وڈے عالمی اخبار پر پیش کیا گیا تھا لیکن چونکہ ہم ابھی طفل مکتب ہیں اور ہماری تعریف میں کچھ کمیاں رہ گئی تھیں اس لیے اردو کے مامے حضرات نے اسے حذف کردیا۔