اتوار، 3 جنوری، 2010

لوڈ شیڈنگ

پاکستان میں دسمبر کے آخری اور جنوری کے شروع کے ہفتے پچھلے تین سال سے لوڈ شیڈنگ کے عروج کے دن ہوتے ہیں۔ دن میں بیس گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اس کی وجوہات کو پچھلے تین سالوں سے حل نہیں کیا جاسکا بلکہ یہ مسئلہ شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔
سردیوں‌میں‌ہمارےپاس ایندھن کی کمی ہوتی ہے۔ ہماری گیس گھروں میں ہی اتنی لگ جاتی ہے کہ فیکٹریاں بند ہوجاتی ہیں۔ سی این جی سٹیشنز کو گیس کی دو دن فی ہفتہ بندش اسی وجہ سے ہے۔ پاور سٹیشنز کو بھی گیس نہیں ملتی اور کام پورا ہوجاتا ہے۔ پچھلے چار پانچ سالوں سے ہمارے ڈیم بھر ہی نہیں‌ رہے، جیسے ہی سرما میں ڈیم بند کیے جاتے ہیں سارا پاور سسٹم ختم ہوجاتا ہے۔ پیچھے ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی ہوجاتی ہے۔ یاد رہے سردیوں میں چار ہزار میگا واٹ کی کمی گرمیوں کی چار ہزار میگا واٹس کی کمی سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔ گرمیوں میں پیداوار پندرہ ہزار کے اریب قریب اور کھپت بیس ہزار کے اریب قریب ہوتی ہے۔ سردیوں میں کھپت دس ہزار میگاواٹ سے بہت کم ہوتی ہے اور میں سے چار ہزار میگا واٹ کی کمی کا مطلب ہے فیصد میں ستر سے نوے فیصد تک بجلی کی کمی۔ پچھلے تین سال سے دسمبر کے آخری دو ہفتے اور جنوری کے پہلے دو ایک ہفتے اتنہائی بدترین لوڈ شیڈنگ کے ہوتے ہیں۔ اس سال سے تو گیس بھی کم آنے لگی ہے۔ بجلی بند ہوتے ہی گیس بھی کم ہوجاتی ہے، چولہا جلائیں تو گیس بلب نہیں جلتا وہ جلائیں‌ تو چولہے پر روٹی بھی نہیں پکتی۔ ہماری گیس زیادہ سے زیادہ اگلے آٹھ سال تک کے لیے ہے وہ بھی تب جب نئے کنکشن نہ دئیے جائیں اور سی این جی سٹیشن نہ لگائے جائیں۔ گیس کہاں سے آئے گی کا خیال کیے بغیر گاڑیوں کو بلامنصوبہ بندی سی این جی پر کیا گیا اور آج گھروں  میں روٹی پکانے کے لیے بھی گیس نہیں‌ ہوتی سردیوں‌ میں۔ قصبوں‌ اور دیہوں میں سیاسی بنیادوں پر گیس کنکشن دئیے گئے اور گنجان آباد شہروں‌ کے رہنے والے جہاں‌ کوئی اور ایندھن بھی دستیاب نہیں آئے دن گیس کی بندش کے خلاف مظاہرے کر رہے ہوتے ہیں۔ عجیب سسٹم ہے ہمارا۔ ڈنگ ٹپاؤ۔ کھاتے جاؤ۔ جب ختم ہوگا دیکھی جائے گی۔
 ہمارے پاس ابھی تک متبادل ذرائع توانائی سے بجلی کے حصول کے لیے کوئی جامع منصوبہ، پالیسی یا ادارہ موجود نہیں ہے۔ متبادل توانائی بورڈ کے ملتے جلتے نام سے ایک حکومتی ادارہ مشرف دور میں کچھ سرگرم رہا ہے۔ ان لوگوں نے ٹھٹھہ بدین وغیرہ میں غیرملکی کمپنیوں کو پوَن چکیاں لگانے کے لیے زمین بھی الاٹ کی۔ لیکن ابھی تک ایک آدھ پوَن چکی ہی آپریشنل ہوسکی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی بجلی بھی دس روپے سے زیادہ فی یونٹ لاگت کی حامل ہے۔ شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کے لیے کبھی بھی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اسلام آباد کے قریب ایک ماڈل دیہہ جو شمسی توانائی پر چلتا ہے پچھلے کئی سال سے موجود ہے، پنجاب میں ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر کرنے کی بڑھک پچھلے دنوں خادم اعلی کی جانب سے سنائی دی۔ اب اس پر عمل کتنا ہوگا رب جانے اور خادم اعلی جانیں۔
ہمارے پانی کے ذخائر تیزی سے انحطاط کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ہمارے دریاؤں پر پچھلے پانچ سال میں کئی بڑے اور بیسیوں چھوٹے ڈیم بنا چکا ہے جس کی وجہ سے آج راوی گندہ نالا ہے اور اس وقت چلتا ہے جب سیلاب آنا ہو۔ جہلم آدھا خشک ہوچکا ہے اور ستلج کو تو سندھ طاس معاہدہ کھا گیا۔ بھارت کے وولر بیراج اور بگلیہار ڈیم پر عالمی عدالت انصاف میں جانے کے لیے نہ مشرف دور میں کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ موجودہ حکومت پچھلے ڈیڑھ سال سے کچھ کرسکی ہے۔ جماعت علی شاہ، ہمارا نام نہاد واٹر کمشنر پتا نہیں کیا کرتا پھر رہا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس عہدے پر موجود یہ شخص کن کا ایجنٹ ہے اور اسے پانی کی کمی نظر کیوں نہیں آتی۔ ہمارا بارشوں کا نظام تیزی سے نارمل سے ہٹ رہا ہے۔ بلوچستان جیسے علاقوں میں غیرموسمی بارشوں سے قریبًا ہرسال سیلاب آجاتا ہے اور  ماضی کے بارانی علاقے اب آسمان کو بادلوں سے عاری دیکھ دیکھ کر ترس جاتے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں کے تحت پانی سٹور کرنے کے لیے ہماری  پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی یا جدت نہیں لائی گئی۔صرف ایک دیامر بھاشا ڈیم جس پر کام اگلے دس سال میں مکمل ہوگا اسے شروع کیا گیا ہے۔
ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہماری کوئی پالیسی نہیں۔ اور ہماری حکومت یہ ہے کہ ہماری کوئی حکومت نہیں۔ اور ہماری قوم یہ ہے کہ یہ کوئی قوم نہیں ہجوم ہے۔

2 تبصرے:

  1. ایک محاورہ ہے " در نقار خانہ آوازِ طوطی چہ معنی دارد"۔ سو اس شور شرابے کی دنیا میں جو ہمارا ملک ہے آپ کی یا میری آواز کون سُنے گا ؟
    جب بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوران سی این جی اسٹیشن لگانے کا منصوبہ بنا تو میں نے پوری تفصیل اخبار کو لکھ کر بھیجی اور اخبار والوں کی مہربانی کہ انہوں نے چھاپ دیا میرا خط۔ میں نے اُس میں یہا تک لکھا تھا کہ گیس کے ذجائر پندرہ سال تک کے ہیں جو مدت سی این جی اسٹیشن لگانے سے کم ہو جائے گی ۔ ہمارے پاس گھروں میں جلانے کو اور کوئی ایندھن نہیں ہے تو کھانا کیسے پکائیں گے ؟ مجھے یاد ہے کہ ایک وزير نے کہا تھا کہ گیس امپورٹ کریں گے ۔ ہمارے لیڈروں کو اپنی جیبیں بھرنے اور نعرے مارنے کے علاوہ آتا ہی کیا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. ہر بندے کو یہ فکر ہوتی ہے کہ اگلے الیکشن میں ووٹ کیسے لئے جائیں۔ ویسے بھی وعدہ تو گیس کی پائپ لائن بچھانے کا کیا جاتا ہے گیس فراہم کرنے کا تو نہیں۔ ہمارے آبائی شہر نارووال میں بھی سُنا ہے دھڑا دھڑ گیس پائپ لائن بچھ رہی ہے۔ اس میں چھوڑنے کو گیس کہاں سے آئے گی یہ معلوم نہیں۔ لیکن احسن اقبال کی وفاداری کا اتنا سا تو اجر میاں صاحبان دے ہی سکتے ہیں کہ پیسہ تو پاکستان کا ضائع ہورہا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔