جمعہ، 21 مئی، 2010

کڑوا کڑوا تھُو تھُو

مسلمان بلکہ پاکستانی مسلمان اللہ میاں کی بھیڑیں ہیں۔ جس طرف ایک میں میں کرتی چل پڑے دوسری اس کے پیچھے سر جھُکائے بیں باں کرتی چل پڑتی ہیں آگے والی چاہے کھائی میں جاگرے لیکن پیچھے والی پھر میں باں باں کرتی پیروی کرتی جائیں گی حتی کہ کھائی میں خود بھی نہ گر جائیں۔
فیس بُک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے سلسلے میں ایک گروپ بنا اور لوگوں نے اس پر احتجاج شروع کردیا۔ کسی نے اس کے خلاف گروپ بنایا، کسی نے ہولوکاسٹ کے گروپ کو جوائن کرلیا، کسی نے اس پیج  کے خلاف رپورٹ کی اور کسی نے فیس بُک ویسے ہی چھوڑ دی۔ اس کے بعد اسلام کے ٹھیکیداروں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور کورٹ نے فیس بُک کو بلاک کروا دیا۔ اس فیصلے کی آڑ میں حکمرانوں نے یوٹیوب کو بھی بلاک کردیا، وجہ یہ بتائی گئی کہ اس پر بھی توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مواد موجود ہے۔ جتنا مواد موجود ہے وہ اچانک ہی یاد آگیا انھیں ورنہ یہ کونسا نئی بات تھی۔ اصل سیاپا تو ان ویڈیوز کا تھا جو میرے جیسے کمی کمین یوٹیوب پر اپلوڈ کردیتے تھے جن میں ان وزیروں مشیروں کے کچے چٹھے اور گندے پوتڑے دھوئے گئے ہوتے تھے۔ اصل سیاپا تو یہ تھا توہین رسالت کا تو نام لگا ہے بس ،اور مولوی بھی بے چارے مفت میں بدنام ہوگئے۔
اب یاران نکتہ داں اور نکتے نکال رہے ہیں کہ وکی پیڈیا پر بھی یہی کچھ موجود ہے اسے بھی بلاک کردو۔ اس کے بعد گوگل کو بھی بلاک کردیا جائے، یاہو کو بھی اور بنگ کو بھی۔ اور بلاگنگ کی ویب سائٹس کو بھی، کہ اس کے خلاف بھی بہت سے لوگ بہت عرصے سے سڑ رہے تھے کہ یہ کمی کمین انٹرنیٹ پر جاکر بکواس کرلیتے ہیں اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، وہ ذریعہ بھی بند کیا جائے۔
میرے یار پاکستانی فیس بُک اور اسلامی فیس بُک کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور میں حیران ہورہا ہو کہ اے کھلدی کیوں نئیں۔ یار کھلے تو صحیح  کہ میں یار کا نظارہ تو لوں کہ کیسے نظر آتے ہیں میرے سرکار۔ لیکن دو دن سے میں اس کے ربط pakfacebook.com پر جاکر اور انتظار کر کر کے پرابلم لوڈنگ پیج کا ایرر دیکھ کر واپس آجاتا ہوں۔ آج سے چند برس قبل جب پیپسی اور کوکا کولا کے خلاف مہمات چلیں تھیں تو مسلم کولا اور اس طرح کے کئی "مسلم" ڈرنک منظر عام پر آگئے تھے۔ ہم نے بھی دو ایک بار مذہبی جذبے سے لا کر اسے پیا لیکن اسے مستقل پینے کے لیے مجنوں ہونے کی ضرورت تھی جس کی لیلی کالی بھی اسے گوری لگتی تھی ۔ہم مجنوں نہ ہوسکے چناچہ اس دوسرے درجے کے ڈرنک کے عادی نہ ہوسکے اور جتھے دی کھوتی اوتھے آکھلوتی کے مصداق پھر کوکا کولا اور پیپسی پر واپس آگئے۔ مسلم کولا بھی ایک دن اپنی موت آپ مرگیا اور اب عرصے سے اس کا نام تک نہیں سنا ۔ اس ساری رام کہانی کا مقصد یہ تھا کہ صرف کی جھاگ کی طرح ہماری ایمانی جھاگ بہت چڑھی ہوئی ہے آج کل اور مسلم و پاکستانی فیس بُک کے نعرے لگ رہے ہیں، منہ سے کف اُڑ رہے ہیں لیکن میں شرط لگانے کو تیار ہوں چند ماہ میں یہ سب برابر ہوجائے گا اور سب ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے اپنے کاموں پر لگ جائیں گے۔ پاکستانی فیس بُک والے پھر مکھیاں مار رہے ہونگے اور اصلی یہودیوں والی فیس بُک پھر سے جلوہ گر ہوگی۔
بات تو یہ ہے نا سائیں کہ اپنے پلے کچھ ہوبھی۔ ہمارے پلے ٹکا بھی نہیں اور ہم چلے ہیں فیس بُک کے مقابلے کی ویب سائٹ بنانے۔ اتنی تو ہماری اوقات ہے نہیں کہ فیس بُک پر جاکر چار پیسے ہی کما لیں۔ اپنی ویب سائٹ کی پروموشن کروا لیں مفت میں، اس کے لیے ٹریفک جنریٹ کروا لیں۔ یہ اپنی فیلڈ سے متعلق گروپس جوائن کریں، فیلڈ کے ماہرین سے رابطے میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے مواقع پیدا کرلیں۔ ہماری تو اڑان اتنی ہے کہ فیس بک پر جاکر مافیا وارز کھیل لیں، قسمت کا حال بتانے والی ایپلی کیشنز کو سبسکرائب کرا لیں، فی میلز میں انٹرسٹڈ ہوں، جو کڑی نظر آئے فٹ اسے ایڈ کرلیں حتی کہ اس کے دوستوں کا کھانہ فُل ہوجائے اور اس کے بعد بھی میرے جیسے باز نہ آئیں مسلسل ایڈ کرنے کی کوششیں فرماتے رہیں کہ کبھی تو ایڈ ہوگی ہی۔
یو ٹیوب پر پابندی لگ گئی ہے، تو ایک عدد پاکستانی یوٹیوب بھی بنا لیں۔ کے خیال ہے جناب دا؟ لیکن وہی بات پھر سائیں کہ اوقات تو ہماری اتنی ہے کہ یو ٹیوب پر بھارتی اور انگریزی گانے تو سن سکتے ہیں جاکر ہم لیکن اتنا نہیں کرسکتے کہ اپنی زبان و ثقافت کے فروغ کے متعلق ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کریں۔
جتنی اوقات ہوتی ہے تو رب سائیں بھی اتنا ہی دیتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ چھتر پڑیں اور لگاتار پڑتے ہی جائیں۔ ہم چیخیں چلائیں بھی لیکن پھر بھی پڑتے چلے جائیں۔ ایک طرف چھتر یہ پڑے کہ فیس بُک پر توہین رسالت ہو اور ہم بس ٹاپتے رہ جائیں اور اس پر پابندی لگوا دیں۔ جس کے نتیجے میں اگر کوئی مثبت کام اس کے ذریعے ہوبھی سکتا تھا تو وہ بھی نہ ہوسکے۔ یو ٹیوب پر پابندی لگوادیں تاکہ سیاستدانوں کے سیاہ کارنامے تو نظر نہ آسکیں لیکن تعلیم سے متعلق جو کچھ وہاں تھا وہ بھی جاتا رہے۔ ابھی وکی پیڈیا پر پابندی باقی ہے وہ بھی لگی کے لگی اب۔ رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ جن کو اسائنمنٹ بنانے کے لیے یہاں سے مواد مل جاتا تھا وہ بھی گئے۔
لیکن آپ فکر نہ کریں ورلڈ سیکس ڈاٹ کام ابھی بھی کھلتی ہے یہاں، دیسی بابا ڈاٹ کام بھی کھلتی ہے۔ چناچہ تفریح جتنی مرضی کریں اور "اصلی تے وڈی" تفریح کریں۔ باقی تعلیم و ترقی کا کیا ہے سالی ہوتی ہی رہے گی۔ پہلے باسٹھ سالوں میں ہم نے کیا کرلیا جو اس انٹرنیٹ سے ہم نے کرلینا تھا۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ حکومت پاکستان پی ٹی وی کی طرح ایک انٹرنیٹ براڈکاسٹنگ سروس بنا لے اور پاکستان میں صرف یہ ویب سائٹ کھلا کرے۔ جو سب کچھ ہرا ہرا دکھائے، جہاں صدر، وزیر اعظم و ہمنواؤں کی روزانہ کی لمحہ لمحہ رپورٹ نشر کی جائے۔ ان کی تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ کی جائیں، جلسے جلوسوں میں عوام کا جوش خروش دکھایا جائے۔ باقی سب کچھ ہی بلاک کردیا جائے تاکہ عوام جو خراب ہورہی تھی، فیس بک پر وقت ضائع کرتی تھی، یوٹیوب پر انڈین گانے سنتی تھی اور بلاگز پر جاکر بکواس کرتی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی گھر بیٹھے اور شانتی کے شربت پیے۔
جیے پاکستان، جیے پاکستان کے ٹھیکے دار
جیویں اسلام کے ٹھیکے دار
اور اسلام کی خیر ہے، اس کا ٹھیکہ ویسے بھی اللہ نے لے رکھا ہے چناچہ اس کی کوئی فکر نہیں۔

8 تبصرے:

  1. پتہ نہیں آپ کی اس پوسٹ کا مطلب کیا ہے۔
    مایوسی ، ناامیدی ؟ اور فضول کھچ کھچ، یہ تو سڑک پر چلنے والا ہر بندہ بھی کر لیتا ہے۔ مغرب والوں کو تو اسلام فوبیا ہوا ہے، آپ جیسے لوگوں کو مسلمان فوبیا ہو چکا ہے۔ جسے چند مسلمانوں کا دیسی بابا کھولنا تو یاد آتا ہے لیکن عبدالستار ایدھی نظر نہیں آتا۔ ہر انسان وہی ایکسپریس کر سکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ تو بھرے بیٹھے تھے
    یہ بھی ہم پاکستانیوں کی ایک نشانی ہے کہ آپس میں ہی بحث شروع کردیتے ہیں
    اور پھر مسلئہ جوں کا توں
    کچھ لوگ ایک طرف ہیں اور کچھ دوسری طرف
    لو کرلو بات
    فیس بک کا متبادل دیتے ہیں تو ایک بھی میں نہیں سنائی دیتی
    کسی میں ہمت ہی نہیں ہے کہ ہاں میں ایک قدم بڑھا کر دکھائے
    پاکستانی پارٹی کو بیک کرنے کی بجائے الٹہ ان کے لتے لینے شروع کردیں تو پھر جو ہو رہا ہے وہ بھی کنویں میں ڈالنے کے برابر ہے
    مشرف کے زمانے میں شاید آپ سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر کیوں احتجاج کررہے تھے کیا آپ کے احتجاج سے دنیا زرا بھی بدلی
    میں اگر بھول نہیں رہا تو
    یار خفا نہ ہونا
    بدلے گا کچھ نہیں
    ہمارے لیے یہ کیا کم ہے کہ ہم نے ناموش رسالت کے لیے چند لمحے تو قربان کردے
    ورنہ یہاں سب وہی رہے گا جو لکھا جا چکا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. اتنی آگ؟
    پہلے ہی بہت گرمی ہے بھائی جی
    :(

    جواب دیںحذف کریں
  4. محترم اب تو اتنا کچھ اس موضوع پر پڑھ چکے کہ بری طرح تھک چکے ھیں۔سمجھ نہیں آرھی کہاں جائیں۔ایک طرف جذبات مجروح اور ایک طرف کسی کا نقصان ہر کوئی اپنی کہہ رہا ھے۔اور یقین مانئے آپ کی باتوں سے بھی متفق ھو جاتے ھیں اور دوسروں کی باتوں سے بھی۔عجیب طرح سے ذھن منتشر ھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. باتیں تو یہ سب صحیح ہیں مگر ہمیں اچھی نہیں لگتیں کیونکہ حقیقت ذرا تلخ ہی ہوتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. حکومتوں کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال کہ کسی طرح ایک ریاستی ٹی وی تک عوام کو محدود کردیا جائے اور باقی ہمارا تو احتجاج ہمیشہ سے اپنے گھر کو جلانے سے شروع ہوتا ہ ے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    واقعی باتیں توآپ نےٹھیک کیں ہیں۔لیکن کیاکیاجاسکتاہے۔ہم غصہ ہی کرسکتےہیں جوکہ کرلیااوریہ غصہ وقتی ہی ہوتاہےجوکہ جھاگ کی طرح آتاہےپھربیٹھ جاتاہے۔ اللہ تعالی ہم پراپناکرم کرے۔آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

    جواب دیںحذف کریں
  8. بہت ہی زبردست لکھا ہے، دل کی آواز لگتی ہے۔ طنز بھی ہے اور طعنہ بھی، اور حقیقت بھی، جس کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے۔
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔