بدھ، 14 جولائی، 2010

آخر لکھنا ہی پڑا

میں پچھلے ایک ماہ سے چلنے والی بکواسیات سے دامن بچا کر گزر رہا تھا لیکن آج معاملے کی انتہا سی ہوگئی ہے۔ ایک خاتون بلاگنگ چھوڑ کر جارہی ہیں اور اردو کے ایک بابے بلاگر نے بھی ان کے حق میں پوسٹ لکھ ماری ہے۔ تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ بابا جی کی پیروی میں ایک پوسٹ لکھوں جس میں اس کی مذمت کی گئی ہو۔ رب جانے یہ بکواس کہاں سے شروع ہوئی تھی، لیکن سادہ الفاظ میں ایسی کسی بھی بکواس کی مذمت کرنا اور اس پر لعنت بھیجنا بھی پسند نہیں کرتا۔ میری نظر میں اس سارے ڈرامے کی اتنی اوقات ہے۔ اب جبکہ اس ڈرامے کا اینڈ ہونے جارہا ہے تو کچھ "ہمدردوں" نے، جیسا کہ پاکستانی معاشرے کی خاصیت ہے کہ خاتون کے بھائی ہر طرف سے نکل آتے ہیں اور جوق در جوق نکل آتے ہیں، ہمدردی کرتے ہوئے پھر اپنی زبان پلید کرنی شروع کردی ہے۔ پھر کمینہ وغیرہ وغیرہ قسم کی اصطلاحات استعمال ہورہی ہیں اور پھر لوگوں کے لیے تفریح کا سامان پیدا ہورہا ہے۔ لوگ آتے ہیں پڑھتے ہیں، اچھا یہ بات تھی، لطف لیتے ہیں، ایک تیلی اور پھینکتے ہیں اور نکل لیتے ہیں۔ ڈرامے کے اینڈ پر ایک اور ڈرامہ لگ گیا ہے۔ کس قسم کی اجتماعی فطرت ہے ہماری اور کتنی گندی فطرت ہے یہ۔
اس پوسٹ پر کوئی تبصرہ نہیں ہوگا، معذرت کے ساتھ میں اپنے بلاگ پر ایک اور ڈرامہ نہیں لگانا چاہتا۔