منگل، 27 جولائی، 2010

پھوڑے پھنسیاں

پھوڑے یا پھنسیاں  برصغیر پاک و ہند میں برسات میں بہتات میں ہوجاتے ہیں۔ جلد پر کسی جگہ درد شرو ع ہوتی ہے، وہ جگہ سوج جاتی ہے اور سرخ ہوجاتی ہے اور پھر وہاں سے ایک سر یا منہ نمودار ہونے لگتا ہے۔ جس پر ہاتھ لگانے سے شدید درد ہوتا ہے۔ یہی چیز پھوڑا کہلاتی ہے۔ پھوڑا بننے کی بڑی وجوہات جلد  میں آجانے والےکریکس ہیں۔ جلد ہمارے لیے ایک غلاف کی طرح ہوتی ہے جو بیرونی دشمنوں کے خلاف پہلی ڈھال کا کا م کرتی ہے۔ بعض اوقات بلاوجہ خارش کرتے ہوئے، یا کوئی ننھا سا زخم یا کٹ لگ جانے کی صورت میں جلد میں شگاف پڑ جاتا ہے۔ ہم اسے نظر انداز کردیتے ہیں لیکن ہمارے دشمن اس میں آکر ڈیرا جما لیتے ہیں اور اپنی تعداد بڑھانے لگتے ہیں۔ یہ دشمن یعنی بیکٹیریا گھس بیٹھیے ہوتے ہیں جن کا مقصد جلد سے گزر کر جسم میں داخل ہونا ہوتا ہے ۔ لیکن ہمارے جسم کا دفاعی نظام انھیں ایسا کرنے نہیں دیتا۔ چناچہ خون فورًا اپنے سفید خلیات کو ان سے مقابلہ کرنے کے لیے بھیجنے لگتا ہے۔ متعلقہ مقام کی ناکہ بندی کردی جاتی ہے تاکہ کوئی بھی جسیمہ وہاں سے اندر کی طرف نہ آسکے۔ خون کے سفید خلیات بیکٹریا سے لڑتے ہیں اور اپنے آپ کو قربان کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس سارے عمل کے دوران اس جگہ شدید سوزش، درد اور ابھار بنتا ہے۔ یہ ابھار جو انگریزی میں ہیڈ اور اردو میں پھوڑے کا منہ کہلاتا ہے اصل میں بیکٹیریا کو باہر نکالنے کے لیے بنتا ہے۔ خون کے سفید خلیات کے مردہ اجسام اور بیکٹریا نیز کچھ اور  اینٹی باڈیز وغیرہ سے مل کر بنا یہ مادہ جسے پیپ کہتے ہیں پھوڑے میں جمع ہوتا ہے۔ اسے باہر نکالنے کے لیے پھوڑا باہر کی طرف بڑھتا ہے اور آخر کار ایک مقرر وقت پر بہہ نکلتا ہے۔ اسے پھوڑے کا پک جانا بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات پھوڑا ایک ہی بار بہہ نکلتا ہے اور اس کو کسی جراثیم کش سے دھو کر زخم صاف کرلینےسے آرام آجاتا ہے۔ بعض اوقات پیپ سے بنا ہوا سخت مادہ جسے اردو میں کیل کہا جاتا ہے اس کے اندر ہی رہ جاتا ہے۔ یہ سخت مادہ بڑے بوڑھے دبا کر نکالنے کے حق میں ہوتے ہیں۔ جبکہ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ یہ سخت مادہ دو تین دن میں خودبخود ہی  وقفے وقفےسے بہہ نکلتا ہے۔ احتیاط صرف یہ کی جانی چاہیے کہ پھوڑے کا زخم جراثیم کش سے دن میں تین چار بار صاف کرتے رہیں اور اس کے منہ کو کھلا رکھیں۔ اگر منہ بند ہوجائے گا تو یہ پھر سے بھرنے لگے گا اور پھر درد اور اکڑاؤکا باعث ہوگا۔ پھوڑے کے مقام پر گرمائش دینے سے بھی یہ جلدی پک جاتا ہے اور بہہ نکلتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  گرمی دینے سے سفید خلیات کی جراثیم کو ہلاک کرنےصلاحیت بڑھ جاتی ہے۔  بعض اوقات پھوڑا خود نہیں بہتا بلکہ جراح کو دکھانا پڑتاہے جو وہاں سن کرنے والی دوا استعمال کرکے جراحی کرکے گند نکال دیتا ہے۔ تاہم جراحی کسی ہسپتال سے ہی کرانی چاہیے۔ پھوڑوں کے علاج کے لیے ہمارے ہاں نیم  کا عرق نکال کر پیا جاتا ہے جو قدرتی جراثیم کش ہے۔ انگریزی دواؤں میں اینٹی بائیوٹکس  استعمال کرائی جاتی ہیں۔ تاہم پھوڑا بننے سے پہلے ہی یہ دوائیں کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔ جب منہ بننا شرو ع ہوجائے تو اینٹی بائیوٹکس یا دیسی دوائیں بے کار ہوجاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک بار پیپ بن جانے کے بعد اس کا جسم سے نکلنا ضروری ہوجاتا ہے جس کے لیے پھوڑے کا منہ ہی ذریعہ اخراج ہوتا ہے۔ تاہم پھوڑا بننے سے قبل ہونی والی درد اور سوزش  کے وقت ہی اگر دوا لینی شروع کردی جائے تو متاثرہ جگہ حملہ آور بیکٹیریا اندر ہی اندر ہلا ک کردئیے جاتے ہیں چناچہ پھوڑا نہیں بنتا، اور اضافی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے۔ پھوڑا اصل میں ہمارے دفاعی نظام کا ایک اہم ہتھیار ہے جس کی وجہ سے وہ گھس بیٹھیوں کو جسم سے نکال باہر کرتا ہے۔ تاہم اگر پھوڑے کی وجہ سے بخار ہورہا ہو، یا وہ کسی نازک مقام جیسے کمر ، بغل یا زیر ناف ہو تو ڈاکٹر کو دکھانا اشد ضروری ہوجاتا ہے۔

12 تبصرے:

  1. وہ تو سب ٹھیک ہے لیکن پھوڑا کس جگہ موجود کہ اس پر بلاگ لکھنا ضروری ہوجاتا ہے۔
    (:

    جواب دیںحذف کریں
  2. مضمون نامکمل ہے ۔ اس کے آگے لکھيئے کہ بالکل اسی طرح ہماری قوم يا ملک ميں دشمن گھس آئ اور ہم نے مروجہ احتياط برتنے کی بجائے ان کی آؤ بھگت کی او اس کا نتيجہ ہمارے سامنے ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. السلام علیکم شاکر بھائی مجھے آپ کا ای میل چاہے مل جائے گا پلیز میل کرنی ہے آپ کو

    جواب دیںحذف کریں
  4. خرم میرا ایڈریس یہ ہے۔
    true.friend2004
    جی میل پر ہے یہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. ہمم یہ نا مکمل تو ہے اس میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ہمارے ملک میں پیپ کی شکل میں پیدا ہونے والے نا پسندیدہ عناصر کو بھی باہر نکال دینا ضروری ہے بمعہ کیل کے۔ کیل جب تک اپنی جگہ پہ موجود ہے زخم دوبارہ بنتا رہے گا۔ کسی نازک مقام پہ اگر پھوڑا نکل آئے تو اسکی بائیوپسی بھی کروانا ضروری ہو جاتا ہے۔ مبادا کسی قسم کے کینسر کی شروعات ہو۔ اسے تجزیاتی رپورٹ کہتے ہیں۔ اگر پھوڑا صحیح ہو جائے اور پھر کسی جگہ دوبارہ نکل آءے اور یہ زنجیر چلتی رہے تو مکمل صحتیابی کے لئے اسکا ریکارڈ رکھنا ضروری ہوتا ہے اسے تاریخ کہتے ہیں۔
    ایسی باتیں سن سن کر کبھی کبھی دماغ کا پھوڑا بن جاتا ہے اس صورت میں دو گولی شیر کے نشان والی لے کر شفیق الرحمان کی مزید حماقتیں پڑھیں۔ دماغ کی پیپ ہنسی کے ذریعے منہ سے باہر نکل جائے گی۔ کیل رہ جائے تو فکر نہ کریں۔ دناغ میں گڑی کیلیں انسان کو کچھ اور بننے میں بڑی مدد دیتی ہیں۔ مثلاً چڑیا وغیرہ۔ اسکے بعد دماغ کا پھوڑا بننے کا امکان خاصہ کم ہو جاتا ہے۔
    میرا خیال ہے یہ اب مکمل ہو گیا ہے۔ میں اڑوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. دلچسپ معلومات ہیں۔ دلچسپ اس لحاظ سے کہ انٹرنیٹ پراردو میں اور وہ بھی سادہ انداز میں ایسی معلومات خال خال ہی دستیاب ہیں۔ بہت اچھے، جاری رکھیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. پھوڑے صاحب کے بارے میں معلومات دینے کا شکریہ۔۔۔۔ D:
    یہ بر صغیر پاک وہند میں ہی کیوں نکلتے ہیں زیادہ اور برسات میں ہی کیوں۔۔؟

    جواب دیںحذف کریں
  8. شکریہ عمر، عین لام میم میرے نزدیک برسات میں چونکہ ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے اور جراثیم بھی نیز خارش و الرجی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں چناچہ پھوڑے پھنسیاں زیادہ ہوجاتے ہیں۔
    مجھے اصل میں کئی سالوں بعد بڑا جبرون قسم کا پھوڑا نکلا تھا پچھلے دنوں جو اب بھی مکمل ٹھیک نہیں ہوا تو میں نے اس کے بارے میں ریسرچ کی پھر۔ اور لکھنا تواردو وکی پیڈیا پر چاہتا تھا لیکن یہ بلاگ پوسٹ ہی تھی وکی آرتیکل نہیں چناچہ بلاگ پر ہی لکھا پر۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. ہومیو پیتھی میں اس کا علاج سیلیشیا کی چھوٹی طاقت سے بخوبی ہو جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. اس کے علاوہ دیسی طریق علاج میں خون صاف کرنے والی دوائیں بھی اچھا اثر رکھتی ہیں۔ ہمدرد کی صافی اچھی دوا ہے۔ ورنہ نیم کے پتے گھوٹ کر پئیں ۔ اور اگر "سچی بوٹی" مل چاۓ تو اس کا عرق نہار منہ پینے سے بھی افاقہ ہوتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  11. پھوڑے کاالاج کیا ہیں بھائی

    جواب دیںحذف کریں
  12. اس کے لیے اینٹی بائیوٹک کھائیں۔ دیسی علاج میں نیم کے پتے مفید رہتے ہیں۔ ہمدرد کی صافی اور قرشی کی مصفین بھی بہتر ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔