ہفتہ، 22 مئی، 2010

ٹور پروجیکٹ

ٹور پروجیکٹ انٹرنیٹ پر بے جا پابندیوں کو بائی پاس کرنے اور اپنی شناخت چھپا کر ویب سرفنگ کرنے کا ایک آسان، مفت اور اوپن سورس ذریعہ ہے۔ یہ پوری دنیا میں اپنے آنلائن صارفین کے ذریعے ایک نیٹ ورک بنا لیتا ہے جس کے ذریعے بلاک شدہ ویب سائٹس کو باآسانی کھولا جاسکتا ہے۔ فائرفاکس کے پورتیبل ورژن کے ساتھ اس کا یو ایس بی ورژن بھی اتار جاسکتا ہے جبکہ اسے ویسے بھی انسٹال کیا جاسکتا ہے۔ یہ فائرفاکس کے ساتھ ایک ایکسٹنشن کے ذریعے متصل ہوجاتا ہے اور اپنی انٹری سسٹم سٹارٹ اپ میں ڈال دیتا ہے۔ فائرفاکس کے سٹیٹس بار میں نظر آنے والے ایک بٹن کے ذریعے ٹور کو فعال یا غیرفعال کیا جاسکتا ہے۔ میرا مقصد یوٹیوب کو چلانا تھا لیکن اس کے ذریعے فلیش ویڈیوز نہیں چلتیں، ہر باری فلیش پلگ ان انسٹال کرنے کا ایرر آجاتا ہے جبکہ فیس بُک وغیرہ کھل جاتی ہیں۔ ابھی دیکھا تو اٹھائیس ہزار ایک سو چونسٹھ سے ممبر ہوچکے تھے اس گروپ کے جس کا نام آنر پرافٹ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ الحمد اللہ میں بھی اس کا ایک رکن ہوں۔
بات صرف انداز نظر کی ہے، یہ الو کے پٹھے اگر اس پیج کو بلاک نہیں بھی کرتے تو کیا، میں اپنی بساط کے مطابق انھیں کے انداز میں انھیں جواب دوں گا۔ میں کسی پاکستان بلاگز ایسوسی ایشن کا صدر، جنرل سیکرٹری یا بانی رکن نہیں ہوں، فیصل آباد سے ایک کمی کمین سا بلاگر ہوں، فیصل آباد جو اگرچہ پاکستان میں ہی آتا ہے لیکن کراچی والوں کو زیادہ حق حاصل ہے کہ وہ کراچی میں رہ کر بھی پاکستان کی نمائندگی کی بات کریں اور پاکستان بلاگز ایسوسی ایشن وغیرہم تشکیل دیں۔ اور ایسی تنظمیں چاہے فیس بُک پر پابندی کے حق میں کانفرنس کریں یا اس کی مخالفت میں، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
ویسے جس دن فیصل آباد سے ایک سے دو بلاگر ہوگئے تو میں بھی ایک عدد آل پاکستان بلاگرز ایسوسی ایشن بنا لوں گا، صدر میں اور جنرل سیکرٹری نیا بلاگر ہوگا۔ چناچہ اگر کوئی فیصل آباد آنلائن ہے تو رابطہ کرے، اردو بلاگ تشکیل دے تاکہ آل پاکستان بلاگرز ایسوسی ایشن تشکیل دی جاسکے۔
اپڈیٹ: یوٹیوب چلانے کے لیے ٹور بٹن پر کلک کرکے ترجیحات میں جائیں اور پلگ انز کو فعال کردیں پہلا ہی آپشن ہے۔

جمعہ، 21 مئی، 2010

کڑوا کڑوا تھُو تھُو

مسلمان بلکہ پاکستانی مسلمان اللہ میاں کی بھیڑیں ہیں۔ جس طرف ایک میں میں کرتی چل پڑے دوسری اس کے پیچھے سر جھُکائے بیں باں کرتی چل پڑتی ہیں آگے والی چاہے کھائی میں جاگرے لیکن پیچھے والی پھر میں باں باں کرتی پیروی کرتی جائیں گی حتی کہ کھائی میں خود بھی نہ گر جائیں۔
فیس بُک پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے سلسلے میں ایک گروپ بنا اور لوگوں نے اس پر احتجاج شروع کردیا۔ کسی نے اس کے خلاف گروپ بنایا، کسی نے ہولوکاسٹ کے گروپ کو جوائن کرلیا، کسی نے اس پیج  کے خلاف رپورٹ کی اور کسی نے فیس بُک ویسے ہی چھوڑ دی۔ اس کے بعد اسلام کے ٹھیکیداروں نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور کورٹ نے فیس بُک کو بلاک کروا دیا۔ اس فیصلے کی آڑ میں حکمرانوں نے یوٹیوب کو بھی بلاک کردیا، وجہ یہ بتائی گئی کہ اس پر بھی توہین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مواد موجود ہے۔ جتنا مواد موجود ہے وہ اچانک ہی یاد آگیا انھیں ورنہ یہ کونسا نئی بات تھی۔ اصل سیاپا تو ان ویڈیوز کا تھا جو میرے جیسے کمی کمین یوٹیوب پر اپلوڈ کردیتے تھے جن میں ان وزیروں مشیروں کے کچے چٹھے اور گندے پوتڑے دھوئے گئے ہوتے تھے۔ اصل سیاپا تو یہ تھا توہین رسالت کا تو نام لگا ہے بس ،اور مولوی بھی بے چارے مفت میں بدنام ہوگئے۔
اب یاران نکتہ داں اور نکتے نکال رہے ہیں کہ وکی پیڈیا پر بھی یہی کچھ موجود ہے اسے بھی بلاک کردو۔ اس کے بعد گوگل کو بھی بلاک کردیا جائے، یاہو کو بھی اور بنگ کو بھی۔ اور بلاگنگ کی ویب سائٹس کو بھی، کہ اس کے خلاف بھی بہت سے لوگ بہت عرصے سے سڑ رہے تھے کہ یہ کمی کمین انٹرنیٹ پر جاکر بکواس کرلیتے ہیں اور اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں، وہ ذریعہ بھی بند کیا جائے۔
میرے یار پاکستانی فیس بُک اور اسلامی فیس بُک کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اور میں حیران ہورہا ہو کہ اے کھلدی کیوں نئیں۔ یار کھلے تو صحیح  کہ میں یار کا نظارہ تو لوں کہ کیسے نظر آتے ہیں میرے سرکار۔ لیکن دو دن سے میں اس کے ربط pakfacebook.com پر جاکر اور انتظار کر کر کے پرابلم لوڈنگ پیج کا ایرر دیکھ کر واپس آجاتا ہوں۔ آج سے چند برس قبل جب پیپسی اور کوکا کولا کے خلاف مہمات چلیں تھیں تو مسلم کولا اور اس طرح کے کئی "مسلم" ڈرنک منظر عام پر آگئے تھے۔ ہم نے بھی دو ایک بار مذہبی جذبے سے لا کر اسے پیا لیکن اسے مستقل پینے کے لیے مجنوں ہونے کی ضرورت تھی جس کی لیلی کالی بھی اسے گوری لگتی تھی ۔ہم مجنوں نہ ہوسکے چناچہ اس دوسرے درجے کے ڈرنک کے عادی نہ ہوسکے اور جتھے دی کھوتی اوتھے آکھلوتی کے مصداق پھر کوکا کولا اور پیپسی پر واپس آگئے۔ مسلم کولا بھی ایک دن اپنی موت آپ مرگیا اور اب عرصے سے اس کا نام تک نہیں سنا ۔ اس ساری رام کہانی کا مقصد یہ تھا کہ صرف کی جھاگ کی طرح ہماری ایمانی جھاگ بہت چڑھی ہوئی ہے آج کل اور مسلم و پاکستانی فیس بُک کے نعرے لگ رہے ہیں، منہ سے کف اُڑ رہے ہیں لیکن میں شرط لگانے کو تیار ہوں چند ماہ میں یہ سب برابر ہوجائے گا اور سب ٹھنڈے ٹھنڈے اپنے اپنے کاموں پر لگ جائیں گے۔ پاکستانی فیس بُک والے پھر مکھیاں مار رہے ہونگے اور اصلی یہودیوں والی فیس بُک پھر سے جلوہ گر ہوگی۔
بات تو یہ ہے نا سائیں کہ اپنے پلے کچھ ہوبھی۔ ہمارے پلے ٹکا بھی نہیں اور ہم چلے ہیں فیس بُک کے مقابلے کی ویب سائٹ بنانے۔ اتنی تو ہماری اوقات ہے نہیں کہ فیس بُک پر جاکر چار پیسے ہی کما لیں۔ اپنی ویب سائٹ کی پروموشن کروا لیں مفت میں، اس کے لیے ٹریفک جنریٹ کروا لیں۔ یہ اپنی فیلڈ سے متعلق گروپس جوائن کریں، فیلڈ کے ماہرین سے رابطے میں رہ کر اپنے مستقبل کے لیے مواقع پیدا کرلیں۔ ہماری تو اڑان اتنی ہے کہ فیس بک پر جاکر مافیا وارز کھیل لیں، قسمت کا حال بتانے والی ایپلی کیشنز کو سبسکرائب کرا لیں، فی میلز میں انٹرسٹڈ ہوں، جو کڑی نظر آئے فٹ اسے ایڈ کرلیں حتی کہ اس کے دوستوں کا کھانہ فُل ہوجائے اور اس کے بعد بھی میرے جیسے باز نہ آئیں مسلسل ایڈ کرنے کی کوششیں فرماتے رہیں کہ کبھی تو ایڈ ہوگی ہی۔
یو ٹیوب پر پابندی لگ گئی ہے، تو ایک عدد پاکستانی یوٹیوب بھی بنا لیں۔ کے خیال ہے جناب دا؟ لیکن وہی بات پھر سائیں کہ اوقات تو ہماری اتنی ہے کہ یو ٹیوب پر بھارتی اور انگریزی گانے تو سن سکتے ہیں جاکر ہم لیکن اتنا نہیں کرسکتے کہ اپنی زبان و ثقافت کے فروغ کے متعلق ویڈیوز بنا کر اپلوڈ کریں۔
جتنی اوقات ہوتی ہے تو رب سائیں بھی اتنا ہی دیتا ہے۔ ہماری اوقات ہی یہ ہے کہ چھتر پڑیں اور لگاتار پڑتے ہی جائیں۔ ہم چیخیں چلائیں بھی لیکن پھر بھی پڑتے چلے جائیں۔ ایک طرف چھتر یہ پڑے کہ فیس بُک پر توہین رسالت ہو اور ہم بس ٹاپتے رہ جائیں اور اس پر پابندی لگوا دیں۔ جس کے نتیجے میں اگر کوئی مثبت کام اس کے ذریعے ہوبھی سکتا تھا تو وہ بھی نہ ہوسکے۔ یو ٹیوب پر پابندی لگوادیں تاکہ سیاستدانوں کے سیاہ کارنامے تو نظر نہ آسکیں لیکن تعلیم سے متعلق جو کچھ وہاں تھا وہ بھی جاتا رہے۔ ابھی وکی پیڈیا پر پابندی باقی ہے وہ بھی لگی کے لگی اب۔ رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی۔ جن کو اسائنمنٹ بنانے کے لیے یہاں سے مواد مل جاتا تھا وہ بھی گئے۔
لیکن آپ فکر نہ کریں ورلڈ سیکس ڈاٹ کام ابھی بھی کھلتی ہے یہاں، دیسی بابا ڈاٹ کام بھی کھلتی ہے۔ چناچہ تفریح جتنی مرضی کریں اور "اصلی تے وڈی" تفریح کریں۔ باقی تعلیم و ترقی کا کیا ہے سالی ہوتی ہی رہے گی۔ پہلے باسٹھ سالوں میں ہم نے کیا کرلیا جو اس انٹرنیٹ سے ہم نے کرلینا تھا۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ حکومت پاکستان پی ٹی وی کی طرح ایک انٹرنیٹ براڈکاسٹنگ سروس بنا لے اور پاکستان میں صرف یہ ویب سائٹ کھلا کرے۔ جو سب کچھ ہرا ہرا دکھائے، جہاں صدر، وزیر اعظم و ہمنواؤں کی روزانہ کی لمحہ لمحہ رپورٹ نشر کی جائے۔ ان کی تصاویر اور ویڈیوز اپلوڈ کی جائیں، جلسے جلوسوں میں عوام کا جوش خروش دکھایا جائے۔ باقی سب کچھ ہی بلاک کردیا جائے تاکہ عوام جو خراب ہورہی تھی، فیس بک پر وقت ضائع کرتی تھی، یوٹیوب پر انڈین گانے سنتی تھی اور بلاگز پر جاکر بکواس کرتی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی گھر بیٹھے اور شانتی کے شربت پیے۔
جیے پاکستان، جیے پاکستان کے ٹھیکے دار
جیویں اسلام کے ٹھیکے دار
اور اسلام کی خیر ہے، اس کا ٹھیکہ ویسے بھی اللہ نے لے رکھا ہے چناچہ اس کی کوئی فکر نہیں۔

جمعرات، 20 مئی، 2010

آج پھٹے چک لین دے

لو جی اس وقت ہمارے ڈیزل انجن لیپ ٹاپ پر ایک عدد گانا لگا ہوا ہے اور ہم اس پر جھوم جھوم کر پوسٹ لکھ رہے ہیں۔ قصہ اس پوسٹ لکھنے کا مختصر یہ کہ ہم نے اس پر اوبنٹو 10.04 انسٹال کرہی لیا ہے۔ کل ہمارا مڈٹرم کا آخری پرچہ تھا اور واپس آکر ہم نے پہلے اس کی خبر لی۔ اس پر پہلے سے انسٹال ونڈوز سیون نے پارٹیشن ایسے بنائی تھیں کہ لینکس ان کو سپورٹ نہیں کرتا۔ ڈائنامک پارٹیشنز جانے کب سپورٹ ہونگی لینکس میں، سنا ہے یہ 2000 تک بھی بنائی جاسکتی ہیں جبکہ پرائمری ایکسٹنڈڈ کی دُکّی چھبیس تک ہی جاسکتی ہے شاید۔ خیر رب جانے کیا بات ہے ہم نے سارے آپشن ٹرائی کرنے کے بعد دیسی حل ہی سوچا۔ لیپ ٹاپ کو ہوم نیٹورک سے منسلک کرکے اہم ڈیٹا ڈیسکٹاپ پر منتقل کیا اور ساری ہارڈ ڈرائیو کر جھاڑو پھیر دی۔ ایکس پی کی سی ڈی ڈال کر پارٹیشنز کیں اور اس کے بعد ونڈوز 7 دوبارہ، پھر اس کا میک اپ وغیرہ کیا، اپڈیٹ کیا اور پھر اوبنٹو لوسڈ انسٹال کرلیا۔
یہ ساری کارگزاری کل تین سے رات آٹھ بجے تک کی ہے جبکہ اس کے بعد ایک بجے اٹھ کر ہم نے اوبنٹو کے شگن کرنے شروع کیے اور صبح پانچ بجے تک کیے۔ آپس کی بات ہے لینکس استعمال کریں یا نہیں ہمیں اس کا بُوتھا سرخی پوڈر لگا ہی پسند ہے۔ اپنی پسند کے اطلاقیے ہوں جن میں بینشی ہے اور اس بار جس میں رئیل میڈیا فائلز کو لائبریری میں شامل کرنے کی سہولت بھی آگئی ہے، کبھی گنوم ڈو بھی ہوتا تھا لیکن اب لانچی ہے، اوپر والا پینل اڑا کر نیچے والے پینل پر سنگل مینیو لگانا جو اس بار ہمیں گِنو مینیو کی شکل میں ملا ظالموں نے کیا نقل اتاری ہے وسٹا کے سٹارٹ مینیو کی، ایک عدد بیک گراؤنڈ چینجر جیسے ڈریپس اور ایک دو سکرین لیٹس۔ یعنی گندی سی انگریزی زبان میں سیکسی سا ڈیسکٹاپ جو دیکھنے والے کے ڈیلے باہر نکلوا دے۔ تو ہمارا تقریبًا اسی قسم کا سسٹم تقریًبا تیار ہے اور یہ پوسٹ ہم اس کی تکمیل و افتتاح کی خوشی میں لکھ رہے ہیں۔ اس افتتاحیہ تقریب کے مہمان خصوصی و صدر نشین ہم بذات خود ہی تھے اور یہ ابھی ابھی ختم ہوچکی ہے۔ نیچے ہم کچھ سکرین شاٹس دے رہے ہیں جو کہ ہم نے ابھی ابھی لیے ہیں۔
ان میں ایک ہمارے بلاگ کی انگریزی ٹرانسلیشن کا بھی ہے۔ ہنسی بھی آرہی ہے اور خوشی بھی ہورہی ہے کہ چلو جیسا بھی ہے اردو کو بھی لفٹ کرائی گوگل نے۔

From Laptop
From Laptop
From Laptop
From Laptop
From Laptop
From Laptop

جمعرات، 13 مئی، 2010

فیس بُک ہائے ہائے

انڈین فلموں میں دس بارہ ایکسٹرے اکٹھے کرکے منتریوں اور بڑے لوگوں کے خلاف ہائے ہائے کے نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ اوپن سورس کی دنیا میں بھی ہائے ہائے کے نعرے لگتے رہتے ہیں جن کا نشانہ عمومًا مائیکروسافٹ اور اس کی پراڈکٹس ہوتی ہیں۔ اور اس کے "حواری" بھی نہیں بچتے، جیسے نوویل جو ڈاٹ نیٹ فریم ورک کا اوپن سورس متبادل مونو بناتی ہے۔ خیر بات تھی فیس بُک کی ہائے ہائے کی۔ اوپن سورس والے جب کسی کی ہائے ہائے کرنا چاہیں تو اس چیز کا اوپن سورس متبادل شروع کردیتے ہیں۔ فلیش پلئیر کا اوپن سورس متبادل آیا جی نیش، چلا یا نہیں چلا یہ الگ بات ہے۔ اسی طرح مائیکروسافٹ آفس کا متبادل اوپن آفس ہے جو کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر والی بات ہے۔
تو جناب اب فیس بُک کے حالیہ پرائیویسی کے خلاف اقدامات نے بہت سے لوگوں کے احتجاج پر مجبور کردیا۔ قصہ ان کا یہ ہے کہ فیس بُک اپنی پارٹنر ویب سائٹس کے ساتھ آپ کی پروفائل سے معلومات شئیر کرے گا چناچہ جب آپ فیس بُک سے وہاں تشریف لے جائیں گے تو آپ کی آںکھوں کے سامنے وہی چیزیں نچائی جائیں گی جنھیں آپ نے وش لسٹ میں رکھا ہوا ہے یا فیورٹ لسٹ میں جیسے کوئی کتاب جو آپ پڑھنا چاہ رہے ہیں۔ امریکی سینٹرز سے لے کر عام لوگوں تک سب نے اس بات پر فیس بُک کو لعن طعن کیا ہے لیکن فیس بُک نے نہیں مان کر دی۔ تو اب اوپن سورس والے میدان میں آگئے، چار طلباء نے مل کر ڈائیاسپورا تشکیل دینے کا سوچا ہے جو کہ فیس بُک کی طرح کی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہوگی لیکن آپ کے کنٹرول میں، آپ کی مرضی کے مطابق پرئیویسی مہیا کرتے ہوئے۔ اور اس کام کے لیے انھوں نے فنڈ ریزنگ بھی شروع کی ہوئی ہے۔ فی الحال ان کے پاس اٹھاون ہزار ڈالر ہوچکے ہیں اور ابھی ان کے بیس دن باقی ہیں چندہ مہم کے۔ یعنی ایک لاکھ ڈالر سے اوپر ہوجائے گا اور اس کے بعد یہ نیٹ ورکنگ سائٹ شروع ہوگی۔ اور میں تو اس کا رکن دوڑ کر بنوں گا استعمال چاہے میں فیس بُک ہی کروں۔ آخر انگلی کٹا کر شہیدوں میں بھی تو شامل ہونا ہے۔ ہمیشہ کی طرح جیسے لینکس میرے پاس  انسٹال ہوتا ہے استعمال کروں نا کروں، اوپن آفس بھی انسٹال ہوتا ہے استعمال کروں نا کروں، اس کی رکنیت بھی ہوگی استعمال ۔۔۔۔۔
فیس بُک کے باغی ڈائیاسپورا میں پناہ لے سکتے ہیں انھیں ویلکم کہا جائے گا، منیر عباسی ایک اور فیس بُک آگئی ہے ہر ڈومین سے فیس بُک نکلے گی تم کتنی فیس بُک چھوڑو گے۔
یہ معلومات یہاں سے چرائی گی ہیں۔

بدھ، 12 مئی، 2010

میرا آئی بی ایم تھنک پیڈ ٹی 61

یہ ہے جی میرا لیپ ٹاپ۔ آئی بی ایم تھنک پیڈ ٹی 61۔


اس کی تفاصیل کچھ یوں ہیں۔

  • پروسیسر 2 گیگا ہرٹز کور ٹو ڈوئل سینٹرینو ٹیکنالوجی
  • ہارڈ ڈسک 160 جی بی
  • ریم 1 جی بی، دو ماڈیولز میں
  • 14 انچ سکرین
  • وائی فائی جو کہ کچھ مسئلہ کرتا ہے، چیک کرانا پڑے گا آج
  • سی ڈی اور ڈی وی ڈی روم
  • اور ایک عدد کی بورڈ بھی ہے اس میں ;)

ہائے مائیکروسافٹ

میری عادت ہے کہ عمومًا ایک سے زیادہ آفس سوئٹ انسٹال ہوتے ہیں میرے پاس. اور ایک سے زیادہ آپریٹنگ سسٹم بھی۔ اوبنٹو اور ونڈوز کا کمبی نیشن پچھلے پانچ سال سے استعمال کررہا ہوں۔ ہر پی سی پر یہ ہوتا ہے ہاں کبھی نیا ورژن آنا ہو تو کچھ وقت کے لیے لینکس اڑ جاتا ہے، یا ونڈوز دوبارہ کی ہو تو وقت کی کمی اور سستی کی وجہ سے ڈوئل بوٹ پر نہیں آپاتا کئی دن تک۔ ونڈوز کے اندر بھی میری عادت ہے کہ اوپن آفس اکثر انسٹال ہوتا ہے اور اپنا ذاتی کام مجھے اس میں کرنا پسند ہے، یہ الگ بات ہے کہ کچھ فیچرز کی کمی یہ کسی خاص انداز میں کام نہ کرنے کی وجہ سے میں اس سے اکتا بھی جاتا ہوں، جیسے ایکسل 2007 اور اب 2010 میں گراف بہت فینسی قسم کے بنتے ہیں جبکہ اوپن آفس کیلک اس معاملے میں غریب ہے ابھی۔
عرض یہ کرنا تھا بعد اس تمہید کے، کہ اوپن آفس میں بھی چونکہ کام کرتا رہتا ہوں تو اوپن ڈاک فارمیٹ میں کچھ فائلیں بھی ہوتی ہیں ہمیشہ۔ اب م  س کا 2010 آفس آگیا ہے جس میں اوپن ڈاک کی سپورٹ بھی ہے، اگرچہ یہ 2007 کے سروس پیک میں بھی فراہم کردی گئی تھی لیکن میرے پاس اس کا پرانا ورژن ہی تھا، تو میں اوپن ڈاک فائلیں بھی م س میں ہی کھول لیتا ہوں۔ لیکن کیلک کی فائل محفوظ کرتے وقت ایکسل ہر بار ایرر دیتا ہے۔ میری عادت ہے کہ ہر چند سیکنڈ کے بعد محفوظ کرنا ہوتا ہے چونکہ بجلی کا تو کوئی بھروسہ نہیں لیکن یہ ایرر بہت تکلیف دیتا ہے۔ ایرر بڑا سادہ سا ہے کہ یہ فائل فارمیٹ کچھ فیچرز کو سپورٹ نہیں کرتا۔
ایسی ہی ایک وارننگ اوپن آفس بھی دیتا ہے جب فائل کو ورڈ کے فارمیٹ میں محفوط کیا جارہا ہو۔ لیکن وہاں ہر بار اس پیغام سے بچنے کے لیے ایک آپشن ہوتا ہے کہ آئندہ نہ دکھاؤ۔ لیکن م س آفس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ م س آفس میں زیادہ خوبیاں سہی لیکن مائیکروسافٹ کا انداز ہمیشہ آگ لگانے والا ہوتا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں ہمارے ہاں بکری نے دودھ بھی دیا تو مینگنیاں ڈال کر۔ سو حساب مائیکروسافٹ کا ہے۔

جمعرات، 6 مئی، 2010

ہونا ہمارا صاحب لیپ ٹاپ

لو جی ہم بھی صاحبِ لیپ ٹاپ ہوگئے۔ اگرچہ یہ پرانا سا ہے اور ماڈرن سا بھی نہیں لگتا لیکن یہ ایک لیپ ٹاپ ضرور ہے جس کی ہمیں خواہش کئی سالوں سے تھی۔ لیکن ہر بار منہ سنوار کر رہ جاتے تھے۔ اب اللہ کریم نے توفیق دی تو ایک عدد آئی بی ایم تھنک پیڈ لیا ہے۔ اگرچہ پرانا ہے لیکن ہمارے لیے نیا ہی ہے۔ اور انھے ہتھ بٹیرے جیسی کوئی بات بھی لگ رہی ہے۔ خیر اللہ کریم کا شکریہ۔۔ تھینک یو اللہ جی کہ تُسیں انھے ہتھ بٹیرا پھڑایا۔
مزید تفصیلات کے لیے ہمارے ساتھ رہیں، چونکہ یہ ابھی ہمارے پاس نہیں ہے اس لیے ماڈل و تصاویر مہیا نہیں کرسکتے اس وقت۔