جمعہ، 18 نومبر، 2011

راوی بقلم خود

آ ج کل راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ اگرچہ راوی کو خواہش تھی کہ لکھنے کے ساتھ ساتھ پڑھے بھی چاہے اس میں چین نہ ہو۔ لیکن یہ بات ابھی قسمت میں نہ تھی، چناچہ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ پچھلے ہفتے  راوی کو کچھ امید ہو چلی تھی کہ پڑھنے کی امید بندھ رہی ہے۔  بلکہ پچھلے جمعے کی ہی بات ہے، صرف آٹھ روز پہلے راوی نے بڑی مشکل سے  صاحب کو منایا تھا کہ جناب ایک چانس دے کر دیکھیں، مایوس نہیں کروں گا۔ لیکن پھر یہ ہوا کہ راوی  ذرا یار باش واقع ہو گیا۔ اس نے اپنے ایک دوست کو اس کے بارے میں بتا دیا۔ اور صاحب کو پتا لگ گیا کہ یہ سب کو بتاتا پھر رہا ہے۔ صاحب نے بین لگوا دیا کہ راوی الو کا پٹھا ہے، اس کے ساتھ فیور کی جار ہی تھی لیکن یہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے، چناچہ اس پیر کو یہ ہوا کہ راوی کی رج کے  ہوئی۔ ایک عرصے بعد راوی کو اتنی ذلت سہنی پڑی۔ صبح وہ  ساری دنیا کو فتح کرنے کے ارادے سے یونیورسٹی پہنچا۔ دوپہر چار بجے جب وہاں سے نکلا تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ خالی ہاتھ  راوی کی منت سماجت بھی قبول نہ کی گئی۔ چناچہ راوی کو کئی دن گزرنے کے بعد بھی وہ ذلت یاد آنے پر جھرجھریاں  آنے لگتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا، راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ راوی ترجمہ کرتا ہے، راوی ایک کالج میں پڑھاتا ہے، راوی ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے(اگرچہ اب ذرا کم کم ہوتا ہے)،  راوی فلمیں دیکھتا ہے، راوی دوسرے ہم جماعتوں کو کلاس میں تصور کر کے خود پر ترس کھاتا اور ان پر کچھ کچھ حسد اور رشک وغیرہ کرتا ہے اور راوی  آگے کی سوچتا ہے۔ راوی کا خیال ہے کہ آگے اسے  بیرون ملک داخلے کا سوچنا چاہیے۔ اس سلسلے میں راوی کچھ ابتدائی کام کرنے کی تیاریاں کرتا ہے جیسے انگریزی بولنے کا امتحان آئیلٹس پاس کرنے کی تیاری۔

 راوی کا خیال ہے کہ اس سال اس کے ساتھ بڑی مناسب قسم کی ہوئی ہے، "ہوئی ہے" تو سمجھ رہے ہوں گے آپ۔ راوی نے  سارا سال آگے داخلہ لینے کا ارادہ کیا ، سارا سال تیاری کی اور آخر میں اسے کہہ دیا گیا کہ تمہاری انگریزی دانی اچھی نہیں ہے۔ راوی کے ساتھ دو چار اور لوگ بھی تھے، اس کے ہم جماعت۔ ان میں سے اکثر کا داخلہ ہو گیا اور راوی اپنے بلاگ پر ڈگڈگی بجاتا پھرتا ہے۔ اور سوچتا ہے کہ آگے کیا کرے۔ راوی اگرچہ عدالت جانے کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ لیکن کلاسیں شروع ہو چکی ہیں، راوی اس بارے میں بہت زیادہ پرامید نہیں ہے۔ راوی  کے ساتھ یہ ہاتھ ہونے کی بڑی وجوہات میں اس کی اپنی سستی بھی کارفرما ہے۔ راوی نے کوئی ریسرچ پیپر نہیں لکھا۔ راوی نے اپنی انگریزی  بہتر نہیں کی۔ راوی نے کسی اور جگہ فارم نہیں جمع کروائے۔ یہ آخری والا گدھا پن راوی کی حد سے بڑھی خوداعتمادی کا شاخسانہ ہے جس کے نتائج اسے ہمیشہ بھگتنے پڑے۔

لیکن اس سب کے باوجود، راوی زندہ ہے،  مثبت سوچنے کی کوشش کرتا ہے، چئیر اپ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن راوی بھی آخر انسان ہے اور سچ تو  یہ ہے کہ راوی اب سب باتوں کے باوجود اپنے اندر گواچی گاں جیسی طبیعت  پاتا ہے، جس کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اس نے کہاں جانا ہے۔

جمعرات، 3 نومبر، 2011

خالی ہاتھ

مولا علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے سے اللہ کو پہچانا۔ میرا ارادہ جب بھی ٹوٹتا ہے تو میں اپنے آپ کو یہ یاد دلاتا ہوں کہ یہ اس کو پہچاننے کا ذریعہ ہے۔ لیکن سائیں بندہ تو بندہ ہے نا جی، اوپر سے میرے جیسا منافق اور ناشکرا بندہ ہو تو زیادہ کام خراب ہوتا ہے۔ بار بار ارادہ ٹوٹے، بار بار ٹھوکر لگے تو شکوہ زبان پر آ جاتا ہے۔ آج کل میری کچھ یہی کیفیت ہے، شکوہ ہے، بے بسی ہے، بے حسی ہے مجھے سمجھ نہیں آتی یہ کیا ہے۔ لیکن خالی ہاتھ ضرور ہیں، میری نظروں میں میرے خالی ہاتھ ہیں اور میں بےبس کھڑا ہوں۔

میرا ارادہ اس سال ایم فِل میں داخلہ لینے کا تھا۔ میں نے اگست کی سترہ اٹھارہ تاریخ کو ہی فارم جمع کروا دئیے تھے۔ اور ساری تیاریاں کیے بیٹھا تھا۔ لیکن جب 31 اکتوبر کو میرٹ لسٹ لگی تو اس پر میرا نام نہیں تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ میں انٹرویو میں فیل ہو گیا ہوں۔ اور تب سے میں خالی ہاتھوں کو دیکھتا ہوں، پھر اوپر دیکھتا ہوں، اور پھر بے بسی سے ایک بار خالی ہاتھوں کو دیکھ کر یہ دوہراتا ہوں کہ "اللہ خیر کرے گا"۔

میں نے 2010 میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے 3.72 سی جی پی اے کے ساتھ ماسٹرز کیا ہے۔ اور اپنی کلاس میں میری پہلی پوزیشن تھی۔ ایم فِل کے لیے گیٹ (GAT) ٹیسٹ ضروری ہوتا ہے میرے اس میں 74 نمبر ہیں جو سوشل سائنسز میں لوگ کم ہی اسکور کر پاتے ہیں۔ پورا ڈیپارٹمنٹ مجھے جانتا تھا۔ اساتذہ سے لے کر طلبا تک، سب کو پتا تھا کہ شاکر نے اس بار ایم فِل میں داخلہ لینا ہے۔ لیکن یہ سارے ارادے کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئے۔ ہوا صرف یہ کہ ایک بندے کو میرا  انٹرویو پسند نہیں آیا۔ یہ بندہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کا نیا ہیڈ ہے۔ اس نے 3 منٹ کے انٹرویو میں یہ نتیجہ نکال لیا کہ میں 15 میں سے دس نمبر کا بھی حقدار نہیں ہوں۔ (دس کی حد بھی اس نے خود مقرر کی تھی، تاکہ جو نیچے ہے وہ گھر کی راہ لے)۔ اس بندے نے یونیورسٹی کی ایڈمیشن پالیسی کو نظرانداز کیا۔ اپنا میرٹ اسکیل بنایا جو صرف اور صرف 20 نمبر کے انٹرویو پر مشتمل تھا۔ اکیڈمک ریکارڈ (بی اے اور ماسٹرز میں فرسٹ یا سیکنڈ ڈویژن) کے نمبر ہوتے ہیں اس نے انہیں نظر انداز کیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ میرٹ لسٹ پر کم از کم تین نام ایسے آئے جو سیکنڈ ڈویژن رکھتے ہیں۔ صرف وہ اسے انٹرویو میں کہانی سنانے میں کامیاب رہے، یا سفارش تگڑی رکھتے تھے اور اس نے انہیں جگہ دے دی۔

اور میں خالی ہاتھ کھڑا، کبھی اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھتا ہوں، کبھی اپنی ڈگریوں کو، کبھی آسمان کو۔ میرے لبوں پر شکوہ ہے، بے بسی ہے، کبھی شکوہ پھسل جاتا ہے، کبھی بے بسی آنکھوں کے راستے راہ پا لیتی ہے۔ لیکن مجھ پر عجیب بے حسی طاری ہے۔ سمجھ نہیں آتی میں کیا کروں۔ ارادہ پہلے بھی کئی بار ٹوٹا، لیکن اس وقت سنبھل جاتا تھا، مجھے تجربہ ہے جب ناں ہوتی ہے، لیکن میں اسے اپنی غلطی تسلیم کرتا تھا۔ یہ بھی شاید میری غلطی ہے، میری کمیونیکیشن کی صلاحیت کسی قابل نہیں، میں تین منٹ میں ایک بندے کو کنوینس نہیں کر سکا۔ لیکن یہ برداشت کرنا پتا نہیں کیوں بہت اوکھا لگ رہا ہے۔ بےبسی بار بار باہر آجاتی ہے۔ یہ آزمائش ہے، اور بڑی سخت آزمائش ہے لیکن مجھ سے شکر نہیں ہوتا۔ طوطے کی طرح رٹا لگانے کی کوشش کی لیکن کچھ دیر بعد ساری کیفیت بھاپ بن کر اڑ جاتی ہے، اور نیچے سے پھر وہی بے بسی،، خالی ہاتھ۔ اگلا سارا سال کیا کروں گا، کسی اور جامعہ میں داخلہ بھی نہیں مل سکتا سب بند ہوگئے۔ کیا بنے گا، پورا سال، کوئی ڈھنگ کی نوکری بھی نہیں بس ترجمے کا کام ہے۔۔پورا سال، اور پھر خالی ہاتھ۔

ایسا نہیں کہ میں نے دل چھوڑ دیا ہے۔ روزانہ یونیورسٹی جاتا ہوں۔ کبھی وی سی کے پاس، کبھی رجسٹرار کے پاس۔ کسی کو درخواست، کسی کی منت۔ منت ہی کرسکتا ہوں سائیں، نہ کوئی ایم این اے، ایم پی اے میرا واقف نہ کوئی ڈین رجسٹرار میرا انکل۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے جن اساتذہ سے دعا سلام تھی وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ کیا کریں، ان کے ہیڈ نے تو یہ کیا ہے، وہ میرا ساتھ کیا دیں۔ کل پھر جانا ہے، رجسٹرار نے کہا تھا جمعے کو آنا پھر بات کرتے ہیں دیکھیں کیا بنتا ہے۔ اگر ادھر کچھ نہ بنا تو ہائی کورٹ تک تو جاؤں گا کم از کم۔ اتنی جلدی تو ہار نہیں مانتا میں۔ لیکن بےبسی نہیں جاتی۔ بار بار شکوہ زبان پر آجاتا ہے، نظریں آسمان کی طرح اٹھ کر نامراد لوٹ آتی ہیں جیسے وہ بھی مجھ سے ناراض ہے۔ پتا نہیں کیوں یہ بے بسی نہیں جاتی۔۔۔۔۔

جمعرات، 27 اکتوبر، 2011

ماں بولی کا نوحہ

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
کبھی یہ محاورہ/کہاوت/ مصرع سنا تھا۔ زبان ثقافت، زبان کلچر، زبان زندگی جینے کا ڈھنگ، زبان  نسلوں کی وراثت کی امین۔ زبان نہ رہے تو  نسلوں کی نسلیں بدل جاتی ہیں۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ پنجاب میں، خیبر پختونخواہ میں، سندھ میں، بلوچستان میں یہی  ہور ہا ہے۔ مجھے دوسرے صوبوں کے شہری علاقوں کا نہیں پتا۔ لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ میرے صوبے پنجاب کے، سوہنے پنجاب کے شہری علاقوں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات ، شیخوپورہ، ملتان سے میری ماں بولی مر رہی ہے۔ پنجاب سے پنجابی مر رہی  ہے۔ اور اسے مارنے والے پنجابی ہیں۔ آٹھ کروڑ پنجابی، جو مل کر اپنی ماں بولی کو قبر میں اتار رہے ہیں۔  اردو کے نام پر، قومی زبان کے نام پر، یکجہتی کے نام پر، اور انگریزی سے نفرت کے نام پر وہ پنجابی کا قتل کر رہے ہیں۔ اور  حیرت ہے، صد حیرت ہے کسی کو اپنے ہاتھوں پر لہو نظر نہیں آتا۔ انہیں اردو کی بےحرمتی یاد  رہتی ہے، پنجابی  کی اکھڑتی سانسیں نظر نہیں آتیں۔ حیرت ہے، صد حیرت ہے۔

یہ تحریر پڑھنے والے جان لیں کہ یہ کسی تعصب میں نہیں لکھی جا رہی، نہ ہی کسی کے جواب میں لکھی جار ہی ہے۔ یہ تحریر کسی عام بندے کے ہاتھوں نہیں لسانیات کے ایک طالبعلم کے ہاتھوں لکھی جا رہی ہے۔ چناچہ اسے سستی جذباتیت سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا۔ یہاں حقائق کی بات کی جائے گی،جذباتیت اوپر والے پیرا گراف میں ختم ہو گئی۔ آگے حقائق کی دنیا ہے۔ یہ تحریر اس لیے لکھی جارہی ہے کہ کل کو تاریخ گلا نہ کرنے کا کسی پنجابی نے اپنی زبان کے مرنے کا نوحہ نہیں پڑھا تھا۔ یہ تحریر اس لیے لکھی جا رہی ہے کہ لوگوں کو یاد رہے کہ پنجابی اپنی زبان کے قاتل تھے، انہوں نے اپنی ماں بولی کی قبر خود تیار کی اور خود قتل کر کے قبر میں بڑے اہتمام سے دفنا کر اوپر اردو میں لکھا ایک کتبہ لگا دیا۔

سائیں سب اردو کی بات کرتے ہیں۔ سب انگریزی کے ہاتھوں اردو کی بے حرمتی کی بات کرتے ہیں۔ پنجابی کی بات کیوں نہیں کرتا کوئی؟ پنجابیوں نے قیام پاکستان سے پہلے سے لے کر پنجابی کے ساتھ سوتیلوں کا سا سلوک روا رکھا۔ اس وقت بھی جب کسی نے پنجابی کو پنجاب کی  زبان کا درجہ دینے کی یا بات ہوئی، یا نصاب میں شامل کرنے کی بات ہوئی یا  ایسی  کوئی بھی بات ہوئی جہاں پنجابی کو رسمی طور پر حکومت نظم و نسق میں استعمال کرنے کو کہا جاتا۔ وہیں اردو بولنے والی پنجابی اردو کی حفاظت کے لیے آگے آ جاتے، پنجابی پیچھے چلی جاتی۔ اور آج یہ حال ہے کہ پنجابی کو کسی دفتر میں رائج کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔  دفتری زبان تو انگریزی ہے یا پھر اردو۔  مجھے بالکل یا دہے کہ یہ ہندوؤں کی اور سکھوں کی "سازش" تھی کہ پنجاب میں اردو کی بجائے پنجابی کو فروغ دیا جائے۔ "تاریخ" جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں یہی بتاتی ہے۔ لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔ آج دنیا میں پنجابی کا نام لیں تو ذہن میں کون آتا ہے؟ شاکر، امجد، ارشد، ماجھا، گاما؟ نہیں بلبیر سنگھ، دلیر سنگھ جیسے نام اور سکھوں کے داڑھیوں والے چہرے پگڑیوں والے سر ذہن میں آتے ہیں۔  پنجابی بولے تو سکھوں کی زبان ہے۔ پنجابی بولے تو کافروں کی زبان ہے، مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔  یہی ہو رہا ہے نا سائیں۔ سکھوں نے ہر جگہ پنجابی کو فروغ دیا، پنجابی ثقافت کو فروغ دیا، بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں پنجابی کی لسانیات پر کام ہو رہا ہے۔ پنجابی کو ڈیجٹلائز کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ اس پر ڈاکٹریٹ ہو رہی ہے۔ اسے دفتری زبان بنانے کے سارے لوازمات ان کے پاس موجود ہیں۔ لغات ہیں جو قانون سے لے کر میڈیکل تک کی اصطلاحات کو کور کرتی ہیں۔  یہ سب کچھ ہے جو میں نے پچھلے چارسال میں بطور مترجم کام کرتے ہوئے اور بطور لسانیات کے طالبعلم پنجابی کے بارے میں جانا، کہ سکھ کیا کر رہے ہیں اپنی زبان کے لیے۔ چناچہ آج حال یہ ہے کہ پنجابی کا رسم الخط گورمکھی بن گیا ہے۔ میں ترجمہ کروں تو 99 فیصد جابز گورمکھی رسم الخط کی ہوتی ہیں، میں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہوں۔ پنجابی کے سارے کمپیوٹر معیارات گورمکھی کی بنیاد پر بنے ہیں۔  اور شاہ مکھی؟ کچھ عرصہ پہلے گوگل پلس پر ایک صاحب سے بحث ہو گئی ۔ انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ پنجابی کا کوئی رسم الخط بھی ہے۔ ان کے خیال میں یہ اردو میں لکھی جاتی ہے۔ حالانکہ اردو کے پوتڑے پنجابی نے صاف کیے ہیں۔ اردو کو رسم الخط اور کسی زبان ہیں پنجابی نے دیا ہے۔ یہ جسے فارسی  رسم الخط کہتے ہیں اس میں صدیوں پہلے مسلمان صوفیا نے  پنجابی شاعری کی۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ پنجابی کا  رسم الخط گورمکھی ہے۔

 حیرت ہے نا جی؟ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے سائیں یہ۔ شاید اور کسی کے لیے نہ ہو۔ پاکستانی پنجابی تو اردو کے مامے ہیں جی۔ ان کے تو گھروں سے بھی پنجابی کو دیس نکالا مل چکا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں پنجابی چوڑوں، چماروں، میراثیوں اور بھنگیوں کی زبان بن  گئی ہے۔ پنجابی نوکروں کی زبان ہے۔ پنجابی غیر تہذیب یافتہ زبان ہے۔ پنجابی ماں بہن ایک کرنے کی زبان ہے۔ پنجابی جگت بازی کی زبان ہے۔ پنجابی غصے میں آ کر "بہتر" ذریعہ اظہار کی زبان ہے۔ پنجابی اوئے توئے، تُو کی زبان ہے۔ "پڑھے لکھے" گھر کے بچے سے پنجابی میں بات کر لو تو وہ گالی سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ وہ زبان ہے جو دادا دادی بولتے ہیں یا ابا جی نوکروں سے بولتے ہیں۔ ورنہ ممی تو سوفیسٹیکیٹڈ ہیں، اردو میں بات کرتی ہیں۔ یہ پنجابیوں کے خیالات ہیں سائیں پنجابی کے بارے میں۔ زبان کی وکالت کہاں گئی سائیں؟  حق گوئی کہاں گئی؟ یہاں زبان نہیں مر رہی؟ یہاں زبان کا قتل عام نہیں ہو رہا؟ یہاں نئی نسل پر ماں بولی کا دروازہ بند نہیں کیا جار ہا جب اسے "تہذیب یافتہ" زبان کے نام پر اردو سکھائی جاتی ہے، جب اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ پنجابی نچلے طبقے کی زبان ہے جس  کی کوئی تہذیب نہیں ہے۔ یہ ذلیلوں اور کمیوں چوڑوں کی زبان ہے۔  تو حق پرستی کیا ہوئی سائیں؟  تو  زبان بچانے کے نعرے کہاں گئے سائیں؟ پر کہیں بھی تو کس سے کہیں۔ جن سے کہیں وہی اپنے ہیں،انہیں کے ہاتھ میں خنجر ہے۔  کوئی یہ لازمی کہے گا کہ پنجابی کیسے دفتری زبان، اسکول یا سرکار کی زبان بن سکتی ہے۔ تو میرا جواب ہے کہ مجھ سے نہیں سکھوں سے پوچھو۔ انہوں نے تو بنا لی۔ پر ہمارے لیے تو اردو ہے نا سائیں، قومی یکجہتی کی زبان۔  پنجابی جائے بھاڑ میں۔

اردو کے بارے میں  بڑی خود ترسی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے، اردو مر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو بولنے والے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ میں پھر کسی اور صوبے کی بات نہیں کر رہا، میں پنجاب کی بات کررہا ہوں۔ یہاں کے شہری علاقوں، نیم شہری بلکہ اب تو دیہاتی علاقوں میں بھی ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ اردو بولنے والا ہے۔ ماں باپ دن بدن اردو سکھانے پر زیادہ سے زیادہ زور دے رہے ہیں۔ اردو پنجاب میں مادری زبان بن رہی ہے۔ مادری زبان مطلب جس میں بچے کے ساتھ بات کی جائے۔ اردوبولنے کا موقع محل تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ پہلے اردو دفاتر کی زبان تھی، اسکول کالج اور میڈیا کی زبان تھی۔ اب گھروں میں بھی بولی جا رہی ہے۔ اگلے پانچ دس سال میں بازاروں میں بھی بولی جانے لگے گی۔ بلکہ اب بھی بولی جانا شروع ہو گئی ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ، ادھر ادھر دیکھیں اپنے بیٹے، بیٹی، بھانجے، بھتیجے کو بولتا دیکھیں اور مجھے بتائیں کہ اردو مر رہی ہے؟


ایک اور بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اردو کے ذخیرہ الفاظ کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے انگریزی کے ہاتھوں۔  یہی کچھ پنجابی کے ساتھ ہو رہا ہے سائیں۔ آج کے پنجابی بولنے والے کے پاس پنجابی کا ذخیرہ الفاظ اردو کے تلفظ بدلے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ اصلی پنجابی الفاظ کہیں گم ہو گئے ہیں، بھول گئے ہیں چونکہ اردو کا اثر میڈیا، اخبارات اور سماجی رتبے کی وجہ سے اتنا زیادہ ہے کہ پنجابی  میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کرنا "اچھا" سمجھا جاتا ہے۔ میری والدہ پنجابی بولتے ہوئے پچھلے کچھ سالوں سے اردو الفاظ کاتڑکا لگانے لگی ہیں، دور کہا جانا۔ چلیں پنجابی کی چھوڑیں سائیں اردو کی بات کرتے ہیں، ذخیرہ الفاظ کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں ٹیکنالوجی کے الفاظ کا ذخیرہ سب سے زیادہ آرہا ہے۔ اس کے علاوہ  دوسرے الفاظ بھی ہیں، لیکن ذخیرہ الفاظ میں نئے لفظ در آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ زندہ زبانیں ہمیشہ تبدیل ہوتی ہیں۔ اردو کو کوئی خطرہ نہیں۔ تو پنجابی کو بھی خطرہ نہیں؟ اوپر والے پیرا گراف کو ایک بار پھر پڑھ لیں۔ پنجابی کو اردو اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ کی تکلیف ہی نہیں ہے۔ تکلیف رویوں کی ہے جو بڑی تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں۔ چناچہ اردو  کے بارے میں خودترسی  کہ اس کا حلیہ بگڑ رہا ہے کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ اردو اچھی بھلی ہے، ہٹی کٹی ہے اور اللہ کے فضل سے مقامی زبانوں  کو لقمہ لقمہ کھا رہی ہے، ڈکار لیے بغیر۔

تعلیم کی بات کرنے والے، مادری زبان میں تعلیم کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مادری زبان اردو نہیں ہے۔ پنجابی ہے، سندھی ہے، بلوچی ہے ، ہندکو  ہے، سرائیکی ہے، پشتو ہے۔ اردو تو رابطے کی زبان ہے نا سائیں۔  تو تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ پانچویں تک تو سارے مضامین ماں بولی میں ہونے چاہئیں۔ انصاف کی بات نہیں یہ بھلا؟ ہمارے ساتھ سب سےبڑا المیہ یہی رہا  کہ قائد اعظم کے ایک بیان کو لے کر ہم نے اردو کو  مقدس گائے بنا  دیا۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہو گی۔ ارے بھائی ہو گی تو کب انکار کیا ہے، دوسری زبانوں  کا گلا تو نہ گھونٹو۔ بنگالی اپنی زبان کا حق مانگتے مانگتے الگ ہوگئے۔ بنگلہ دیش بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی نا سائیں۔ یا 51 یا 52 عیسوی میں بنگالی کے حق میں ہونے والے فسادات بھول گئے سب کو؟ ہم سے تو اچھا بھارت ہے۔ ان کے نوٹ پر 22 زبانوں میں  اس کی رقم پرنٹ ہوتی ہے۔ 22 سرکاری زبانیں۔ پاکستان میں؟ انگریزی ہے نا جی، اردو ہے نا جی۔ مقامی زبانوں کا کام ہی کیا  رسمی مواقع پر، وہ تو بولیاں ہیں بس۔ پنجابی کی طرح ہنسی ٹھٹھے اور گالم گلوچ کا ذریعہ اظہار۔ وہ بھلا سرکاری زبان، یا تعلیم کی زبان یا رسمی زبان کیسے بن سکتی ہیں۔

انگریزی کے خلاف اور اردو کے  حق میں (یہاں پنجابی کہیں نہیں ہے ) بولنے والے بڑے لمبےچوڑے دلائل دیتے ہیں کہ اردو ہی ذریعہ تعلیم ہو۔ اردو ہی سب کو سکھائی جائے ۔ انگریزی صرف چند لوگ سیکھیں جنہوں نے باہر جانا ہے، یا جو مترجم ہیں تاکہ باقیوں کو سیاپا نہ کرنا پڑے نئی زبان سیکھنے کا۔ جاپان اور چین کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مجھے ایک بات بتائیں  جاپان اور چین سے پاکستان کا موازنہ ہے؟ وہاں باہر سے لوگ آ کر رہتے ہیں، کام کرتے ہیں اور یہاں کے لوگ باہر جا کر کام کرتے ہیں۔ کتنے لاکھ پاکستانی باہر ہیں ملک سے؟ مزدور پاکستانیوں کی بات کر رہا ہوں مستقل باہر منتقل ہونے والوں کی نہیں۔ انہیں رابطے کے لیے جس زبان کی ضرورت پڑتی ہے بدقسمتی سے اکثر وہ انگریزی ہوتی ہے۔ اور جاپان، چین کی اپنی زبان میں ذریعہ تعلیم وغیرہم کی خیالی جنت سے بھی نکال دوں۔ جتنا جاپان اور چین، اور اب یورپ بھی انگریزی سیکھنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں  آپ تصور بھی نہیں فرما سکتے۔  چین والے انھے وا  انگریزی سیکھ رہے ہیں چونکہ انہیں اپنا کاروبار پھیلانا ہے، جاپان میں انگریزی کے اہل زبان امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا سے آکر رہائش رکھتے ہیں۔ انگریزی سکھانے کا کوئی ڈپلومہ لے کر آتے ہیں اور مقامی بچوں بڑوں کو انگریزی کی تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اور اچھا کماتے ہیں، اپنے ملک سے بھی زیادہ۔  حقیقت اتنی بھی سیدھی نہیں ہے بھائی۔ آدھا کالا اور آدھا سفید نہیں ہے۔ درمیان میں  اتنا بڑا سارا حصہ گرے، سرخ، سبز،نیلا، پیلا بھی ہے۔ اردو کی خود ترسی میں دو جمع دو چار تو کر لیتے ہیں، حقیقت  دو جمع دو چار نہیں ساڑھے پانچ ہے۔

اور کیا نوحہ پڑھوں سائیں۔  میں اس بدنصیب زبان کا بولنے والا ہوں جس کے بولنے والے اسے لکھنا پسند نہیں کرتے۔لکھتے ہیں تو پڑھنا پسند نہیں کرتے، یا انہیں پڑھنا آتا ہی نہیں ہے۔ یہ  میرے بلاگ کی پچھلی تحریر پنجابی کی تھی۔ دو تبصرے ہوئے اس پر۔ اور یہاں درجن بھر لوگوں کے نام گنوا سکتا ہوں جو پنجاب سے ہیں اور پنجابی سمجھتے، بولتے ہیں۔ پنجابی چینلوں کا نوحہ بھی سنتے جائیں۔نام پنجابی ٹی وی ہے اور مشہوریاں اردو والی، فنکار سوفسٹیکیٹڈ زبان بولتے ہیں اردو  کی "بلینڈنگ" والی تاکہ پنجابی کا برا اثر نہ پڑے۔ ایک پروگرام میں ریمبو اور صاحبہ میزبانی کر رہے تھے (دونوں لاہور سے ہیں)۔ ریمبو پنجابی بول رہا تھا اور صاحبہ اردو، سوفسٹیکیٹڈ زبان جی۔ آخر زبان تو پھر اردو ہی ہے،پنجابی وہی مصلیوں،چوڑوں، چماروں کی زبان چاہے بولنے والے کو پیسے  ہی کیوں نہ ملیں۔ پنجابی بولنے والے  تسلی رکھیں اگلے بیس سالوں میں آپ کی اگلی نسل ساری اردو بولنے والی ہوگی۔  آپ پنجابی جانتے ہونگے ، آپ کے بچے اردو جانتے ہوں گے۔ آپ نے گلی محلے سے سیکھ لی پنجابی بولنی، آپ کے بچوں کو وہ سہولت بھی دستیاب نہیں ہوگی۔ چونکہ ساری آبادی اپنے بچوں کو اردو سکھا رہی ہو گی۔ پرانی نسل گزر جائے گی اور مجموعی طور پر اردو بولنے کا ٹرینڈ پروان چڑھے گا۔ پنجابی بولنے کے مواقع محدود ہو تے جائیں گے۔ اور پھرا یک دن آئے گا جب آخری پنجابی بولنے والا بھی مر جائے گا۔ اور پھر قومی یکجہتی پتھر پر لکیر ہو جائے گی۔  قومی یکجہتی کے نام، قومی زبان کے نام، پنجابیوں کی بے حسی کے نام، لسانیاتی اصلاحات نہ کرنے والے بزدلوں کے نام،  اس ملک کے عاقبت نا اندیش پالیسی سازوں اور جذبات پسند وڈوں کے نام، ایک مرتی زبان کے نام، ہیر رانجھے جیسی داستانیں لکھنے والے پنجابی صوفیوں کے نام ایک پنجابی بزدل کا عریضہ۔ جو اپنی زبان کا نوحہ بھی اپنی زبان میں نہیں پڑھ سکتا کہ اس کے اہل زبان پڑھنے کی زحمت نہیں کریں گے۔

جمعہ، 21 اکتوبر، 2011

عاشق تے کتا

کہندے نیں یار دی گلی دا کتا وی مجنوں نوں یار وانگوں پیارا سی۔ لوگ اونہوں کملا تے سودائی کہندے سن پر مجنوں یار دی گلے دے کتے نوں وی اونج ای چم کے گل نال لاندا سی۔ عاشق تے کتے وچ بوہت گلاں اکوں جہیاں نیں۔ عاشق نوں کتے وانگوں وفادار ہونا پیندا۔ یار دے قدماں وچ لوٹنیاں لانیاں پیندیاں۔ یار دی بری بھلی سننی پیندی تے چپ رہنا پیندا۔ یار جوٹھے منہ بلاوے تے جی آکھاں کہہ کے فٹ حاضر ہوناں پیندا،۔ پانویں یار اگوں عاشق دی کتیاں والی کرے۔ پر عشق کیتا تے فیر بندہ کی تے کتا کی۔ جے بندہ رہنا ہندا سی تے عشق کردا؟ یار نوں بے نیازی سجدی اے تے عاشق نوں فرمانبرداری۔ جداں کتا ہر ویلے مالک دے اگے پچھے پوچھ ہلاندا، پیر چٹدا پھردا اے، اینج ای عاشق وی ہر ویلے تیار رہندا۔ پانویں اگوں اوہنوں وکھیاں وچ لت کھانی پے جاوے۔ پر عاشق دے کن نکی نکی جئی گل تے کھڑے ہو جاندے نیں۔ پانویں او یار دا ذکر ہووے، یار دے گھر دا ذکر ہووے یا یار دے شہر دا۔ عشق کسے جوگا نئیں چھڈدا۔ یار دا شہر مکہ لگدا۔ تے یار دی گلی حرم لگدی۔ عاشق دا حج یار دی گلی دا طواف کرکے پورا ہو جاندا۔ پانویں اگوں اونہوں روڑے کھانے پین، یار دیاں بے رُخیاں سہنیاں پین یا لوکاں دیا گلاں سننیاں پین۔ عاشق نوں ایدے نال کوئی غرض نئیں ہندی، جداں کتے نوں عادت پے جاندی اے کہ کسے نہ کسے نے ایویں روڑا مار ای دیناں۔ ایسے طراح عاشق نوں وی عادت ہوندی اے کہ اوہنوں کچھ نہ کچھ ہویا ای رہناں، اوہنے کسے نہ کسے دے ہتھے چڑھیا ای رہنا۔
جگ ایویں ہی عاشقاں نوں سودائی تے کملا نئیں کہندا۔ جداں ہیروئن دے نشئی نوں نشے دی عادت ہو جاندی اے، اوہدا ای عاشق نوں عشق دی عادت ہو جاندی اے۔ فیر روڑے کھانا، لتاں ٹھڈے کھانا تے ون سونّیاں سننا نشہ لگن لگ پیندا اے۔ تے جیس دن نہ سنیاں جان اوس دن تن اینج ٹُٹدا اے جیویں چار دن توں چرس دا سُوٹا نئیں لایا۔ عاشق نوں ذلالت نال پیار ہو جاندا۔ جداں گلی دے کتے نو روڑے کھا کھا روڑیاں دی عادت ہو جاندی۔ عاشق جد تک یار کولوں چار کھریاں کھریاں سن نہ لیوے، عاشق او مخلوق ہے کہ جُتیاں نہ پین تے بُخار چڑھ جاندا، یار دا دیدار نہ ہووے تے دن دا چانن مُک جاندا، یار دی گلی نوں ہتھ نا لا لیوے تے نماز نئیں ادا ہُندی۔
عاشق کنی کُتی مخلوق اے سائیں، تے فیر لوکیں عشق دی دعا کردے۔ چوری چوری عشق کردے، اُتوں ہوش والے تے اندروں جوش والے بنن دی کوشش کردے۔ عاشقی ہوش والیاں دا کم کتھوں اے سائیں۔ جیہڑے کہندے کہ عشق کیتا تے ہوش وچ رہ کے کیتا، اونہاں نے یاں تے عشق کیتا ای نہ یا فیر او عشق دی معراج نوں نہ پا سکے۔ عاشق ہو کے کُتیاں کولوں نفرت کھان والے بھلا کی عشق جانن؟ عاشق تے کتے ای تے وفا کردے نیں، ہور کون اے بھلا جیہڑا وفا دا مطلب جانے؟

پیر، 17 اکتوبر، 2011

شکر اور رزق

چند برس پرانی بات ہے، ایک دن مجھے یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا نام تو میرا شاکر ہے پر کام میرے ناشکروں والے ہیں۔ میں بات بات پر گلہ کرتا ہوں، شکوہ کرتا ہوں لیکن جو میرے پاس ہے اس پر شکر نہیں کرتا۔ پھر میرا دل کیا کہ میں شکر کیا کروں اور اصل میں شاکر ہو جاؤں۔ اور آہستہ آہستہ میں نے کوشش شروع کر دی کہ شکر کیا جائے۔ شکر کرنا بڑا اوکھا کام ہے۔ شکر ایسے نہیں کیا جا سکتا کہ آپ بھیتر شکوہ رکھیں اور منہ سے شکر کا کلمہ پڑھتے رہیں۔ بھلا پالنہار سے کیا پردہ، اسے تو سب پتا ہے، اندر باہر کی خبر ہے۔ ایسا شکر تو طوطے کے "میاں مٹھو چوری کھاؤ گے" جیسا نعرہ ہی ہوتا ہے جس کے مطلب کا طوطے کو خود پتا نہیں ہوتا۔ تو میں نے شکر کرنا شروع کر دیا۔ طوطے کی طرح۔ اٹھتے بیٹھتے رٹنا شروع کر دیا "یا اللہ  تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے"۔ لیکن صاحبو عرصہ دراز تک اندر ہی اندر ساڑا رہتا۔ اوپر اوپر سے شکر اندر سے شکوہ، لو دسو ابھی کوئی نوکری نہیں ملی، گھر سے حالات اتنے تنگ ہو گئے ہیں پیسے مل جاتے تو کیا تھا، میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے، وہ فلاں کہاں کا کہاں پہنچ گیا اور میری پڑھائی ہی ختم نہیں ہوتی، پتا نہیں میرے گھر پر اتنی تنگی کیوں آ گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک عرصے تک یہ شغل جاری رہا۔ خیر جاری تو اب بھی ہے، اب بھی اندر سے حسد کا پھن نکل آتا ہے دیکھو فلاں کو نوکری مل گئی، فلاں وہاں پہنچ گیا، فلاں یہ کرنے لگا اور شاکر، شاکر بس شکر کرتا رہ گیا اور گھر بیٹھا رہ گیا۔ شاکر میں کمی ہے، کسی کام کا نہیں، یا پھر اللہ سے براہ راست شکوہ کہ مولا اب سختی ختم کر دے، اب نہیں رہا جاتا۔

ان برسوں میں مَیں نے اندازہ لگایا کہ شکر زبانی نعروں کا نام نہیں۔ یہ بھیتر سے، دل سے، جسم کے ہر سوتے سے پھوٹنے والے تشکر کا نام ہے۔ اگر شکر کرتے ہوئے احساس ہو کہ زبان سے نیچے سارا بدن بے حس ہے تو سمجھ لیں کہ شکر بندہ نہیں طوطا کر رہا ہے جسے شکر کے مطلب کا اور اس کے معانی کا احساس ہی نہیں۔ وہ بس "میاں مٹھو چوری کھاؤ گے" کی گردان کی طرح گردان کیے جا رہا ہے۔ شکر اس وقت کریں جب کچھ ایسا ملے جو آپ کے لیے قیمتی ہو، شکر اس وقت کریں جب رزق سامنے ہو، گوشت ہو پلاؤ ہو مرغا ہو، ٹھنڈا پانی ہو، میٹھے میں کوئی مہنگی ڈش سامنے پڑی ہو تب شکر ہو، جب پیسے ہاتھ آئیں رزق ہاتھ میں آئے تب شکر ہو، جب پروموشن ہو، جاب ملے، جب غم یا مصیبت ٹل جائے تب شکر ہو۔ اور شکر ایسا ہو کہ آنکھوں میں آنسو آجائیں۔ جسم کے ہر سوتے سے صدا آئے یا اللہ تیرا شکر ہے، مالک میں گنہگار، میری طاقت سے باہر ہے جو تو نے عطا کیا، یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے رزق دیا، ترقی دی، خوشحالی دی، صحت دی۔ اگر ایسا موقع نہ ملے تو بھی شکر کیا جائے۔ دل کی گہرائی سے ، کوشش کر کے، پورا زور لگا کر، ان نعمتوں کو یاد کیا جائے تو اللہ کریم نے عطا کی ہیں۔ نعمتوں کا ذکر کیا تو کس کس کا ذکر ہو یہ کم ہے کہ سانس آ جا رہی ہے، کھڑے ہیں، چل سکتے ہیں، صحت ہے یہی بہت ہے شکر کرنے کے لیے۔ تو شکر ایسے کیا جائے کہ بس زمین پر پلکیں بچھانے کی کسر رہ جائے۔ اگر ایک جائے نماز، دو نفل نماز شکرانہ اور تنہائی نصیب ہو جائے اور خوش نصیبی سے آنسوؤں کی جھڑی بھی عطا ہو جائے تو شکر کا سواد ہی الگ ہوتا ہے۔ دل بھر آتا ہے، آنکھیں چھما چھم برستی ہیں، اپنی ہستی حقیر لگنے لگتی ہے، رب عظیم کی ذات پر اتنا پیار آتا ہے۔ اللہ سائیں مجھے اتنا دیا، مجھے اتنا دے دیا، مجھے جو گندی نالی کا کیڑا، جس کی دو ٹکے کی اوقات نہیں، جس کا ہر بال تیری رحمت کا امیدوار، جس کا ہر سانس تیرے کرم کا محتاج اللہ سائیں اسے اتنا دے دیا۔ مولا تیرا شکر کیسے کروں، مولا میں تو شکر بھی نہیں کر سکتا ، مولا میں تو اس بات کا شکر نہیں کر سکتا کہ تو نے شکر کی توفیق دی۔ مولا میں تو تیری نعمتوں کا شمار بھی نہیں کر سکتا، میں بھلا کیسے شکر کر سکتا ہوں۔ سبحان اللہ، اگر یہ کیفیت نصیب ہو جائے تو کیا کہنے۔ ایسی کیفیت کہ جیسے بارش کے بعد موسم خوشگوار ہو جائے، بارش بھی رحمت والی بارش زحمت والی نہیں، شکر کی بارش، عطا کی بارش اس چیز سے دل کو جو شادمانی ملتی ہے اس کا سواد بس محسوس کرنے کی بات ہے۔

شروع شروع میں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ طوطے کی طرح رٹنا پڑتا ہے۔ میری عادت تھی کہ سائیکل پر یونیورسٹی جاتے ہوئے میں باآواز بلند اپنے آپ سے باتیں کرتا، پھر اللہ سائیں سے شکوے شکایت کی عادت ہو گئی، اور پھر شکر کرنے کی عادت ہو گئی۔ سائیکل چل رہا ہوتا ساتھ شکر کا چرخہ چل پڑتا، چرخہ کیا طوطے کی رٹ ہی تھی۔ پھر سائیکل چھوڑ دیا اللہ سائیں نے موٹرسائیکل دے دیا الحمد اللہ اور اس پر بھی کبھی کبھار یہی معمول جاری رہا، اور اب بھی رہتا ہے کبھی کبھار۔ آہستہ آہستہ اتنی توفیق ہو گئی کہ رزق کھاتے ہوئے، کوئی نعمت مل جائے تو، آمدن ہاتھ میں آئے تو، یا اپنے حالات کا احساس ہو تو شکر کرنے کو دل کرتا ہے۔ دل گداز ہونے کی کوشش کرتا ہے، نصیب میں ہو تو دو چار آنسو ٹپک پڑتے ہیں، لیکن بڑا سرور ملتا ہے، دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ لیکن حسد اور شکوے کا پھن اب بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ نہیں جاتا، اندر سے شکوہ نہیں جاتا۔ یوں لگتا ہے جیسے میں یہیں پھنسا ہوا ہوں اور ساتھ والے آگے بڑھتے جا رہے ہیں، یہ احساس نہیں ہوتا کہ ابھی کیا کچھ ہے جو میرے پاس ہے اور دوسروں کے پاس نہیں۔ چار پانچ دن پہلے ایک یونیورسٹی میں انٹرویو دیا، متعلقہ بندے کو میرا انگریزی تلفظ پسند نہ آیا۔ اتنی ڈپریشن ہوئی، اتنا دل بیٹھا کہ کیا بتاؤں اور جب ایک ہم جماعت جو وہیں انٹرویو کے لیے گئی تھی اس سے پتا چلا کہ اس کو اگلے مرحلے کے لیے بلا لیا ہے تو اندر سے حسد کا پھن باہر آیا۔ بڑی مشکل سے خود کو لعن طعن کی، کہ شرم کر، تمہارے پاس کیا نہیں ہے، اور جو نہیں مل سکا اس میں تمہاری غلطی ہی تو ہے سراسر اپنے آپ کو بہتر کر لیتے پتا تھا یہ کمزوری ہے لیکن محنت نہ کی تو بھگتو اب۔ بڑی مشکل سے دل کو سمجھا بجھا کر اب ہفتے بھر کے بعد کچھ رام کیا ہے، اب بھی اندر سے شکوے کا پھن سر نکال لیتا ہے۔ لیکن رٹو طوطے کی طرح ورد نہیں ٹوٹتا، یا اللہ تیرا شکر ہے۔ شاید وہ وقت بھی جلد آئے جب خالص شکر کی توفیق ہو۔ ابھی تو منافق شکر ہے، آدھا شکر آدھا شکوہ۔
چلتے چلتے ایک بات، شکر کے سلسلے میں یہ معمول بھی رہا کہ جب رزق ملے، آمدن ہاتھ میں آئے تو اتنا صدقہ کیا جائے کہ ہاتھ سے نکلتے ہوئے احساس ہو۔ ہزاروں میں کمایا تو ہزاروں میں نکالا تاکہ شکر کا احساس ہو، اپنی کم مائیگی کا احساس ہو، یہ احساس ہو کہ یہ قرضے کی واپسی لگی ہوئی ہے، نہیں دو گے تو نہیں ملے گا۔ اس سے یہ ہوا کہ رزق کہیں نہ کہیں سے، کچھ نہ کچھ لگا آتا ہے۔ کچھ نہ کچھ ملتا جاتا ہے، الحمد للہ، ملتا جاتا ہے اور دینے کی توفیق ہوتی جاتی ہے۔ اور شکر کا احساس بھی تازہ رہتا ہے کہ یہ نعمت ہے، تمہاری کوئی صلاحیت یا چیز اس میں ملوث نہیں یہ سراسر اوپر والے کی رحمت ہے، ان گنت رحمتوں کی طرح جو ہر وقت تم پر سایہ فگن ہیں، یہ رزق بھی رحمت ہے۔ اس لیے شکر کرو۔
الحمد للہ، ثم الحمد للہ، ثم ثم الحمد للہ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے شکر کی توفیق دی ورنہ میری کیا اوقات مولا، میرے پلے پھوٹی کوڑی بھی نہیں سب تیری عطا ہے مالک، سب تیرا کرم ہے اور میں تیرے کرم، تیری رحمت کا محتاج، یا اللہ تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

جمعہ، 9 ستمبر، 2011

مقابلے بازی

پنجابیوں میں ایک بڑی گندی عادت ہے۔ خصوصاً متوسط اور اس سے نچلے طبقات میں، کہ کسی کو کھاتا ہوا کم ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یا تو حسد کرنے لگتے ہیں یا پھر اس کے مقابلے میں کام شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے نہیں علم کراچی یا دوسرے صوبوں اور شہروں میں کیا صورت حال ہے۔ لیکن میں نے اپنے شہر میں کئی بار اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ ایک ریڑھی والا دوسرے کو برداشت نہیں کرے گا، ایک دوکاندار دوسرے کو برداشت نہیں کرے گا۔ اگر ایک کا کاروبار چل پڑا ہے تو اس کے سامنے یا بالکل ساتھ ایک حریف آکر بیٹھ جائے گا۔ اور اس کا واضح مقصد یہی ہوگا کہ اس بندے کے گاہک توڑے جائیں۔
ابو جی ناشتہ لگایا کرتے تھے، تو اس آٹھ نو سالہ دور میں کئی بار حریفوں سے پالا پڑا۔ کچھ لوگ عرصے تک ٹکے رہے، کچھ چند دن بعد ہی بھاگ جایا کرتے تھے۔ اس ساری صورت حال میں گھر میں بہت ٹینشن ہوا کرتی تھی۔ ایک ریڑھی والے کی محدود سی آمدن میں اگر کوئی حصے دار بن جائے تو اس کے لیے تو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ کشمیر یہی ہوگا۔ مجھے یاد ہے ابو کا رویہ تلخ ہو جایا کرتا تھا، میرا دل وسوسوں سے بھرا ہوا رہتا تھا اور امی جی کے چہرے پر خدشات کے سائے گہرے ہوتے چلے جاتے تھے۔ وہ دن گزارنے بہت اوکھے ہوتے تھے۔ آج بھی وہ دن یاد آجائیں تو بے چینی پیدا کر دیتے ہیں۔
انہی دنوں کی ایک یاد ایک موٹے ریڑھی والے کے شروع کے دن بہت تناؤ والے تھے۔ اس نے ہمارے اڈے سے صرف دس میٹر دور آخر ریڑھی لگا لی تھی۔ شروع شروع کے چند دن اس کے بعد کوئی گاہک نہیں آتا تھا۔ تو وہ اور اس کا میرا ہی ہم عمر بیٹا، ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے رہتے اور دیکھتے رہتے۔ کہتے ہیں نظر تو پتھر پھاڑ دیتی ہے، تو وہ نظریں مجھے بہت تناؤ کا شکار کر دیتی تھیں۔ اللہ اس بندے کے رزق میں برکت دے، وہ سال یا زیادہ عرصہ وہاں رہا، اور پھر کاروبار کی مندی کی وجہ سے چھوڑ گیا۔
اب تو اللہ سائیں کی رحمت ہے، رب کا شکر ہے، وہ دن لد گئے اب ہم ہیں اور دوسرے غم ہیں۔ ابو جی دوکان کرتے ہیں۔ لیکن مجھے وہ دن پھر سے یاد آجاتے ہیں، خاص طور پر مقابلے پر بیٹھے ویلے دوکاندار کی گھوریاں۔ ہمارے گھر کے سامنے چوک ہے، اس میں ایک تکے والا ہے، پنجاب تکہ شاپ۔ وہ قریباً دس سال سے یہاں کاروبار کر رہا ہے۔ اس سارے عرصے میں اس نے اپنا معیار بنایا ہے، اپنی ریپوٹیشن بنائی ہے اور گاہک اس کے پاس دور دور سے آتے ہیں۔ اگرچہ یہ دوکان مین روڈ پر نہیں، لیکن پھر بھی وہ اچھا خاصا کما لیتا ہے، کئی ایک نوکر رکھے ہوئے ہیں اور خوشحال ہے۔ اس کے بالکل سامنے سڑک کے اس پار بشیر سویٹس ہوا کرتی تھی۔ بشیر مٹھائی والا مر گیا تو اس کے تین بیٹے اس کو چلاتے رہے۔ اس کے بعد کوئی چار سال پہلے انہوں نے بند کر دی مٹھائی کی دوکان۔ لیکن کوئی پانچ سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ مٹھائی والے اس تکے والے کے مقابلے میں تکے والوں کو اپنی دوکانیں کرائے پر دیتے ہیں۔ کبھی ان سے شراکت داری کر کے کبھی ویسے کرائے پر۔ اور میں نے ہر بار یہ مقابلے باز تکے والے بھاگتے ہی دیکھے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں کوئی چار تکے والے مقابلے پر آچکے ہیں۔ بڑی شان و شوکت سے سامان آتا ہے۔ بلب سجتے ہیں، میز کرسیاں بچھتی ہیں اور رنگ و روغن کروا کے پھر سے کاروبار شروع ہوتا ہے۔ لیکن ایک دو ماہ میں سب ہی بھاگ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ جتنی آمدن کی توقع کر رہے ہوتے ہیں اتنی آمدن ہوتی ہیں، اور اخراجات بڑھ جانے پر بھاگ جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پنجاب والے کے پاس کیا جادو ہے، اس کا گاہک بہت ہی کم ٹوٹتے دیکھا ہے میں نے۔ اور سامنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں۔ رمضان کے آخری عشرے سے ہی لگ رہا تھا کہ نیا مقابلے باز آرہا ہے، رنگ و روغن ہوا، سامان آیا اور عید والے دن سے تکے کی دوکان کھل گئی۔ اور اب میں پچھلے دو تین دن سے رات بارہ بجے کے قریب سونے سے پہلے باہر نظر ماروں تو وہ اور اس کے کارندے ویلے بیٹھے سامنے تک رہے ہوتے ہیں جہاں پنجاب والے کے پاس اور کچھ نہ سہی تو دو چار گاہک تو ہوتے ہی ہیں۔ اور مجھے لگ رہا ہے کہ یہی صورت حال رہی تو یہ بھی بھاگ جائے گا۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر لوگوں کے پاس مقابلے بازی کا جگرا نہیں ہوتا تو مقابلے پر آتے ہی کیوں ہیں۔ شاید جدید کاروباری اخلاقیات میں ایسے متھے پر دوکان کھول لینا کچھ برا نہ ہو، بلکہ یہ کسی کا بھی حق ہے کہ جہاں بھی چاہے جو بھی چاہے کاروبار کرے۔ لیکن میرے خیال سے یا تو آپ کے پاس اتنا وقت اور روپیہ ہونا چاہیے کہ آپ مقابلے بازی کر سکیں۔ یا آپ اتنے سے کام شروع کریں کہ ویلا بھی رہنا پڑے تو اخراجات تنگ نہ کریں۔ لیکن اگر آپ ایک چلتے کاروبار کے سامنے اچھی خاصی سرمایہ کاری کرکے بیٹھ جائیں کہ پکی پکائی مل جائے گی تو یہ خام خیالی ہے۔ اور اخلاقی طور پر تو میرے خیال میں آمنے سامنے ایسے دوکانداری شروع کرنی ہی نہیں چاہیے۔ کوئی چار دوکانیں چھوڑ کر کام شروع کرنا چاہیے اور اپنا نام بنانا چاہیے نہ کہ دوسرے کے کام سے چوری کرنا یا لوٹنا، میرے لیے تو یہ ڈکیتی ہی ہے جو نیا دوکاندار پرانے کے گاہکوں پر کرتا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟

منگل، 30 اگست، 2011

عیداں

ایک اور عید آ گئی سائیں۔ ایک اور رمضان گزر گیا۔
شکر ہے کہ ہمیں ایک اور رمضان عطا ہوا۔
شکر ہے کہ ہمیں ٹوٹی پھوٹی ہی سہی، عبادت کی توفیق ہوئی۔
 شکر ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں پر معافی مانگنے کی توفیق ہوئی۔
شکر ہے کہ ہمیں راتوں کو قیام اور دنوں کو ذکر کرنے کی توفیق ہوئی۔
شکر ہے کہ ہم پر عید کی صورت میں خوشی اتری۔
شکر ہے کہ ہمیں شکر کرنے کی توفیق ہوئی۔
یا اللہ تیرا شکر ہے، اپنے سوہنے نبی ﷺ کا صدقہ یہ عید ہمارے لیے مبارک کر دے۔
سب دوستوں، سجنوں، بیلیوں، کرم فرماؤں کو عید مبارک۔ اللہ آپ سب کو اپنے حفظ و امان، رحمت و کرم اور عطا کے سائے میں رکھے۔
عید پر اپنے اردگرد ان لوگوں کو بھی یاد رکھیے گا جن کے لیے عید بھی پیر، منگل، بدھ جیسا کوئی کام پر جانے کا دن ہے۔ عید کی نماز پڑھنے جاتے وقت مسجد کے دروازے پر بیٹھا پولیس والا بھی مسلمان ہے اور عید منانے کا اتنا ہی حقدار جتنے ہم ہیں۔ اور کچھ نہیں تو واپسی پر اس سے عید ضرور ملیں۔ اور جہاں بھی کہیں پولیس کے جوان نظر آئیں انہیں سلام کرکے عید مبارک ضرور کہیں۔ وہ آپ کی حفاظت کے لیے ہی متعین ہیں ورنہ کونسی ماں ہے جو اپنے لعل کو عید کے دن ڈیوٹی پر بھیجتی ہے۔
ان دوست احباب کا خیال رکھیے گا جو ملوں، فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں اور ڈبل شفٹ بونس کے لالچ میں عید والے دن بھی دیہاڑی لگانے چلے جاتے ہیں کہ چار دن سکون سے گزر جائیں گے۔ ان سے خصوصاً عید ملیے گا۔ اللہ نے ان کی قسمت میں آزمائش لکھی ہے، ان کو دعا میں بھی یاد رکھیے گا، اور مالی امداد میں بھی۔
فطرانہ دیتے ہوئے اپنے اردگرد پہلے نظر ڈال لیجیے گا شاید کوئی زیادہ مستحق آپ کے ساتھ والے گھر میں منتظر ہو اور آپ پیشہ وروں میں فطرانہ تقسیم کرکے آجائیں۔
عید پر خوشیاں منانا آپ کا حق ہے، لیکن کچھ خوشیاں ان کے لیے بھی رکھ لیجیے گا جو عید والے دن بھی کام پر ہیں ایمرجنسی ڈیوٹی دیتے ڈاکٹر، 1122 کے اہلکار، آپ کا دودھ والا، گلی میں جھاڑو لگانے والا، چنے چاٹ بیچنے والا چھاپڑی فروش، گول گپے اور دہی بھلے لگانے والا، اور اس طرح کے کئی کردار جن کے لیے عید بھی عید نہیں ایک کام کا دن ہوتا ہے۔
ان سب کو عید مبارک ضرور کہیے گا۔
اللہ میرے آپ کے گناہ معاف کرے۔ ہماری بدزبانیوں، بد اعمالیوں اور کوتاہیوں سے درگزر کرے۔
مجھ سے کوئی خطا ہوئی ہو، کسی کا دل دکھا ہو، کسی کو کچھ کہہ گیا ہوں تو معاف کردیجیے گا، بول جانا میری عادت ہے لفظ نکالنے کے بعد سوچتا ہوں نادانوں کی طرح۔ ان پر معافی کا خواستگار ہوں، معاف کر دیجیے گا۔
دعاؤں میں یاد رکھیے گا، اللہ یہ عید آپ کے لیے مبارک کر دے۔
عید مبارک۔

جمعہ، 12 اگست، 2011

بارشیں

کہتے ہیں جی کہ بھرے پیٹ والوں کو عجیب عجیب باتیں سوجھتی ہیں۔ نئے نئے کپڑے، کاریں، شوق اور انجوائے منٹ۔ ایسی ہی انجوائے منٹ بارش بھی ہے۔ لوگ بڑا انجوائے کرتے ہیں کہ بارش ہورہی ہے، پکوان بنتے ہیں، پارٹیاں ہوتی ہیں، موج مستی ہلا گُلا ہوتا ہے۔ آج سے چند سال پہلے تک میری کیفیت بڑی عجیب سی ہوا کرتی تھی بارش ہونے پر۔ دل کرتا تھا کہ بارش ہوجائے، خوب ہوا چلے اور خوب بارش ہو تاکہ موسم ٹھنڈا ہوجائے اور پوڑے پکیں (میٹھے آٹے کی روٹیاں)۔ لیکن پھر مجھے ابو جی کا خیال آتا تو دل چور ہوجایا کرتا۔ ابوجی ناشتے کی ریڑھی لگایا کرتے تھے ان دنوں۔ اس کا طریقہ کار بہت سادہ سا تھا۔ ہم گھر سے سالن اور روٹیاں پکا کر انھیں باندھ دیتے تھے، اس کے بعد وہ سائیکل پر یہ سب کچھ (پیچھے بندھے ایک اسٹینڈ میں رکھ کر) اپنے اڈے پر پہنچایا کرتے تھے۔ میرا کام یہ ہوتا کہ ان سے پہلے وہاں جا کر اڈہ سیٹ کروں۔ اور جس دن موسم خراب ہوتا، ہمیں بہت دشواری ہوتی۔ تیز ہوا چل رہی ہوتی تو چھتری لگانا دشوار ہوجاتا، بار بار اُڑنے لگتی، باندھنی پڑتی اور کبھی بہت تیز ہوا آجاتی تو اس کا ایک آدھ بانس ٹوٹ جایا کرتا یا کپڑا پھٹ جایا کرتا۔ ایسے ہی تیز ہوا کے بگولے کبھی وہاں پڑا سامان چھابیاں، پتیلوں کے ڈھکن بھی اڑا لے جایا کرتے۔ بارش ہوتی تو حالت اور بری ہوجایا کرتی۔ شروع شروع میں صرف چھتری ہوتی تھی اور پلاسٹک کی شیٹ نہیں لی تھی۔ ابو بارش میں بھیگ جایا کرتے تھے اور سارا سامان بھی بھیگ جاتا۔ پھر پلاسٹک کی شیٹ لے لی اور بارش سے پہلے وہ چھتری کے اوپر ڈال کر باندھ دی جاتی۔ لیکن پھر بھی بارش یا چمب (بارش کے سائیڈ سے پڑنے والے چھینٹے) راستہ بنا ہی لیتے۔ میں ادھر ہوتا تو گھر بھاگنے کی کرتا کہ بارش میں بھیگ نہ جاؤں، گھر ہوتا تو خیال آتا کہ ابو کیسے گزارہ کررہے ہونگے۔ میرا دل آج بھی اسی انداز میں بٹا سا رہتا ہے۔ بارش ہو تو مجھے اچھی بھی لگتی ہے، اور اپنی چھتری کا ٹپکنا بھی یاد آجاتا ہے۔ آج بھی جب میں بارش ہونے کی دعا کرتا ہوں، تو نہ جانے کتنے لوگ بارش نہ ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ میں جسے انجوائے منٹ سمجھتا ہوں وہ جانے کس کس کے سر کی چھت چھین لینے والی چیز ہے، کسی کی چھت ٹپک رہی ہو، کسی ریڑھی والے کا کاروبار بارش کی وجہ سے ٹھپ ہورہا ہو، کسی کے مکان کی چھت ہی بیٹھ جائے، کسی کا مال و متاع بارش سے آنے والا سیلاب بہا لے جائے، اس کے محسوسات کا تھوڑا سا آئیڈیا ہے مجھے۔ میری زندگی کا ایک خاصا عرصہ اسی طرح گزرا ہے جب میرا گھر بھی بارش نہ ہونے کی دعا کیا کرتا تھا، کہ بارش ہوتی تھی تو کام بند ہوتا تھا، لیٹ ہوجاتا تھا، سامان بچ کر گھر آتا تھا، اس دن دیہاڑی نہیں بنتی تھی اور امی جی کے چہرے پر جھنجھلاہٹ ہوتی تھی، ان کے چہرے کی جھریاں کچھ اور نمایاں ہوجایا کرتی تھیں خرچوں کا سوچ کر، ہماری فیسوں، کھانے اور بجلی فون گیس کے بلوں کا سوچ کر، اور اس بچے ہوئے کھانے کو ٹھکانے لگانے کا سوچ کر جو ہم نے اصل میں کھانا ہی ہوتا تھا۔ اس دن گھر میں ہانڈی نہیں پکا کرتی تھی۔
باقی پھر سہی۔ میں نے یہ سب اس لیے لکھا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کل کو اگر میں ڈاکٹر ہوجاؤں، پی ایچ ڈی ہولڈر ہوجاؤں تو میرے لکھے ہوئے الفاظ ہی مجھے میری اصل کا پتا دیں، میں کہیں بھول نہ جاؤں کہ میرے ماں باپ نے مجھے کیسے پالا تھا، میرا بچپن کیسے گزرا تھا اور مجھ پر رب کریم کے کتنے احسانات ہیں۔
یا اللہ تیرا شکر ہے، تیری رحمت، تیرا کرم میں تیری رحمت کا محتاج تیرے کرم کا امیدوار۔ میرا ہر سانس، میرا ہر بال تیری رحمت تیرے کرم کا منتظر۔ میرا ہونا ہی تیری مجھ پر رحمت کی نشانی ہے مولا، ورنہ میری کیا اوقات میرے مالک۔
یا اللہ تیرا شکر ہے

اتوار، 10 جولائی، 2011

کراچی

کراچی پر کیا لکھوں۔ ایک عرصے سے بلاگنگ کی دنیا میں رہ کر، اور جب سے کراچی سے نعمان کے بعد بلاگرز اور تبصرہ نگاروں کی دوسری کھیپ لانچ ہوئی ہے تب سے اگر کراچی کے حالات کے بارے میں کچھ لکھا تو طعنے سننے پڑے۔ ایک بڑے سقہ قسم کے تبصرہ نگار نے فورًا پنجابی ہونے کے طعنے دینے شروع کردئیے، پنجاب میں ایسا ہو تو کوئی بولتا نہیں کراچی میں ہوگیا تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بات اس وقت ہورہی تھی ایک پل گرنے کی جو تعمیر کے دوران یا چند ہفتوں بعد ہی گر گیا تھا اور مجھے اس کے نیچے کھڑے ٹھیلے والوں کی موت پر بڑا افسوس ہوا تھا، کہ ایک بے ایمان کی وجہ سے غریبوں کی جان گئی، لیکن ان صاحب نے میرے لتے لینے شروع کردئیے۔
یہ ساری بات کرنے کا مقصد کسی کی گوشمالی، شکایت یا اختلافات کو ہوا دینا نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسے موضوعات پر میں نے لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ پر کبھی کبھار کچھ لکھتا ہوں، دہشت گردی پر اس وقت لکھا جب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور تب چند ہفتے پہلے والی پوسٹ وجود میں آئی جس پر سب کو اعتراض تھا کہ فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، خیر اپنی اپنی سوچ، کراچی اور بلوچستان کے حالات پر بھی کچھ نہیں لکھتا، کیا لکھوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر بندہ کیا لکھ سکتا ہے۔ جو حجاب شب، یا شعیب صفدر، ابن ضیاء یا ابوشامل لکھ سکتے ہیں وہ میں کہاں لکھ سکتا ہوں۔ میں تو ان ظالموں کے مرنے کی دعا ہی کرسکتا ہوں۔ دعا نہیں بدعا کہ خدا انھیں غارت کرے جنہوں نے کراچی کا سکون برباد کردیا، ان سیاہ ستدانوں اور ان بےغیرت حکمرانوں بھی غارت کرے جنہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہے، ان جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے بال بچے اس میں مریں تو انھی احساس ہو کہ بےگناہوں پر ظلم کرنے سے کیا بیتتی ہے۔ کیا کہوں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے بس غم بھری ایک چپ ہے،ان قانون کے رکھوالوں کی بےغیرتی پر جو مدد کے لے کال کرنے پر بھی یہ کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم نہیں، ان حکمرانوں کی بےغیرتی پر جو لاشیں گرنے سے پہلے حالات کا ادراک نہیں کرسکتے، ہمیشہ سینچری پوری ہونے پر "نوٹس" لیتے ہیں۔ خدا انھیں ذلیل و خوار، مغضوب و مقہور کرے جو بےگناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اب تو دعائیں بھی بے اثر ہوگئی ہیں، گناہوں سے لتھڑے دلوں سے نکلی دعائیں اوپر جاتی ہی نہیں، یہیں ڈولتی رہ جاتی ہیں۔ دعائیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 5 جولائی، 2011

مدیر اعلی کی طرف سے ایک اور خط

لو جی میرا بلاگ ڈاکیے کا کام کررہا ہے گلوبل سائنس اور اردو بلاگرز میں۔ کل ایک مضمون لکھا تھا، امید ہے اس کے بدلے ایک اچھا ڈنر کرسکوں گا اگلے ماہ۔ اس کے جواب میں مدیر اعلی کا خط آیا ملاحظہ کریں۔ اور اردو بلاگرز سے درخواست ہے کہ گلوبل سائنس کو لائٹ نہ لیں، آپ کے بلاگ کی تحاریر ہی اس میں شائع ہوتی رہیں تو آم کے آم گٹھلیوں کے دام ہوجائیں گے۔

شاکر میاں
السلام علیکم
مضمون ارسال کرنے کا بے حد شکریہ؛ حمزہ کا مسئلہ بھی حل ہوگیا! آپ کا بہت شکریہ۔
آپ کی ارسال کردہ تحریر ڈی او سی ایکس فارمیٹ میں ہے؛ اور میرے پاس صرف پرانا ایم ایس ورڈ۲۰۰۰ اور اوپن آفس ہی موجود ہے۔ دونوں سافٹ ویئر ہی ڈی او سی ایکس فارمیٹ کو سپورٹ نہیں کرتے۔ اگر ممکن ہو تو یہ مضمون مجھے اوپن آفس میں ارسال کردیجئے۔
آپ کی کتابوں کی تلاش جاری ہے۔ فی الحال تمام جگہوں سے معذرت ہی سننے کو مل رہی ہے؛ لیکن اُمید ہے کہ ان شاء اللہ کامیابی مل ہی جائے گی۔ کیا آپ کے پاس مولوی عبدالحق کی اُردو املا والی کتاب ہے؟
آپ کے فورم سے کچھ احباب نے رابطہ کیا تھا؛ لیکن بعد میں کوئی ای میل نہیں آئی۔ اگر ممکن ہو تو گلوبل سائنس کی طرف سے معاضوں کا اعلان اپنی ویب سائٹ پر رکھ دیجئے؛ تاکہ وہاں آنے والے احباب کے ذہنوں میں تازہ ہوتا رہے۔
سردست میری نظر چند ایسے موضوعات پر ہے جو شاید آپ جیسے ماہر لوگوں کے لیے معمولی ہوں؛ مگر مجھ جیسے پینڈووں کے لیے بہت اہم ہیں۔ مثلاً
کانٹینٹ مینجمنٹ سسٹم (کیا ہوتے ہیں؛ کیسے کام کرتے ہیں؛ اور ویب سائٹ کی تیاری میں ان سے کیونکر استفادہ کیا جاسکتا ہے)۔
بلاگنگ (یعنی بلاگنگ کی ابتداء سے لے کر آج تک کی تاریخ؛ فوائد و نقصانات؛ دنیا کے مقبول بلاگز اور ان کے موضوعات؛ اردو بلاگنگ کے مقدار و معیار پر ایک طائرانہ نظر؛ بلاگنگ میں معاون مختلف سافٹ ویئر؛ اچھے یا معیاری بلاگ کی اہم ترین خصوصیات؛ انگریزی میں بلاگ کیسے بنایا جاسکتا ہے؛ اُردو میں بلاگ بنانے کے لیے اس کے علاوہ مزید کیا کرنا ہوگا وغیرہ)۔
اُردو زبان میں انٹرنیٹ سے بہتر استفادہ کرنے کے لیے دستیاب آن لائن ’’اوزار‘‘ (یعنی ٹولز)؛ ان کی خوبیاں اور خامیاں؛ استعمال کے طریقے اور ان کے مختلف ورژنز وغیرہ۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں اردو کا ماضی حال اور مستقبل؛ چبھتے ہوئے سوالات: کیا اب بھی رومن اُردو کی ضرورت باقی رہ گئی ہے؟ کیا اب بھی یہ اصرار کیا جانا چاہیے کہ محض انگریزی ہی کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی زبان ہے؟ کیا اس جدید دور میں ادیبوں اور شعراء میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ اردو زبان کو ترقی دینے کے تقاضے پورے کرسکیں؟ کیا صرف اردو ویب سائٹس؛ بلاگز اور اردو ٹولز ہی اردو کو ترقی دینے کے لیے کافی ہیں یا ہمیں کچھ اور بھی کرنا ہوگا؟ وغیرہ۔
اُمید ہے کہ اس حوالے سے بھی بہت جلد آپ کی طرف سے کچھ نہ کچھ سننے کو ضرور ملے گا۔ ویسے اگر آپ چاہیں تو پہلے کی طرح اس بار بھی میرے اس خط کو اپنے بلاگ پر شامل کرسکتے ہیں۔ گر قبول افتد؛ زہے عز و شرف۔
آخر میں ایک بات اور: میں اپنی فطرت میں رجائیت پسند (آپٹمسٹ) ہوں؛ اور مایوسی کو کفر کے مترادف خیال کرتا ہوں۔ لیکن میری ناقص رائے میں؛ اس جذبے کی ترویج کے لیے آپ اور آپ جیسے احباب سے رابطہ رہنا اور گفت و شنید کا سلسلہ جاری رہنا بھی اشد ضروری ہے تاکہ معاشرے میں مثبت تبدیلی بھی لائی جاسکے۔
اُمید ہے کہ اس بار بھی تعاون ملے گا۔
جواب کا منتظر
علیم احمد

فون: 02132625545

ای میل: globalscience@yahoo.com


بدھ، 29 جون، 2011

انا للہ و انا الیہ راجعون

برادرم منیر عباسی کے بلاگ پر کیا گیا ایک تبصرہ۔
وڈے پاء‌ جی میری آخری تحریر پر آپ کا میرے بارے میں تبصرہ بھی شکوہ بھرا تھا کہ میں نے مکی کے خلاف کوئی بات نہیں‌کی جبکہ سارے بلاگرز سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ تو بھیا اب بات چل نکلی ہے تو وضاحت دیتا چلوں۔
مکی سے میری تین چار سال پرانی دوستی ہے، لینکس کی وجہ سے تعلق پروان چڑھا۔ اس کے ترجمہ کرنے اور اوپن سورس کے لیے جنون نے بہت متاثر کیا۔ اس کے بعد جب امانت علی گوہر نے کمپیوٹنگ شروع کیا تو ہم نے اکٹھے اس میں لینکس اور اوپن سورس پر مضامین لکھے۔ پھر مکی ملائیشیا چلا گیا، جہاں‌ اسے  خاصے برے معاشی حالات سے گزرنا پڑا۔ اور اب جب کہ دو چار ماہ یا زیادہ سے پاکستان آگیا ہے تو موصوف نے عربی ادب اور قرآن کو ایک ثابت کرنے کی کوشش شروع کی ہوئی ہے، اور متنازعہ قسم کے مضامین لکھ رہا ہے۔
شروع میں، جیسا کہ میری کچھ تحاریر ان تحاریر کے جواب میں‌لکھی بھی گئیں، میں‌ نے کوشش کی کہ ساتھ ساتھ جواب کا سلسلہ جاری رہے تاکہ منفی مثبت کا توازن برقرار رہے۔ اس کے بعد مصروفیت آڑے آنے لگی، رد لکھنے کے لیے درکار وقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے میں‌ نے دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ تاہم امید یہ تھی کہ مکی یا تو باز آجائے گا یا دوسرے لوگ ہیں‌جو دامے درمے سخنے رد جاری رکھے ہوئے ہیں، کچھ تحاریر میں‌تبصرے کرکے بھی مسلمانوں‌کا موقف وہاں‌رجسٹر کرایا تاکہ مسقتبل کا قاری یہ نہ سمجھے کہ ان اعتراضات کا جواب نہیں‌دیا گیا تھا۔ آخری چند تحاریر 3 یا 4 کہہ لیں، میں نے بالکل بھی نہیں پڑھیں۔ لیکن کل رات قرآن کو عرب شعراء سے متاثرہ اور محمد ﷺ کا ذاتی کلام بتانے کی جو تحریر اس نے لکھی ہے وہ پڑھی تو یقین کریں انا للہ و انا الیہ راجعون ہی منہ سے نکلا۔ اتفاق سے کل ہی ایک کام کے سلسلے میں رابطہ بھی کرنا پڑا تھا مکی سے لیکن حسن اتفاق کہ خود ہی کر لیا اور اسے زحمت نہ دینی پڑی۔لیکن اس دوران چیٹ میں میں نے اپنے ناپسندیدگی کا اظہار کردیا تھا۔ اور یہاں بھی یہی کہتا ہوں کہ انا للہ و انا الیہ راجعون میں نے ایک دوست کے وفات پاجانے، اور اسلام سے دور ہوجانے پر پڑھا ہے۔ دعا ہے مکی جلد ہم میں آملے، اس کے اندر جو جستجو کی آگ جل رہی ہے اسے ہدایت کی طرف لے آئے پھ سےر۔ تاہم تب تک میں اس کی طرف سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ مکی اچھا انسان ہوگا، لیکن اچھا مسلمان نہیں رہا، شاید سرے سے مسلمان ہی نہیں رہا۔ مجھے صرف اس بات کا قلق ہے کہ میرے وسائل میں یہ نہیں کہ اس کے اعتراضات کا شافی جواب لکھ سکوں، میرا علم، وسائل اور وقت اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ برائی روکنے کے تین درجے ہیں، ہاتھ سے، زبان سے روکنا اور پھر دل میں برا کہنا۔ میں نہ تو ہاتھ سے روک سکتا ہوں، نہ زبان سے اس کے خلاف دلائل دے سکتا، اسے برا کہہ سکتا ہوں چناچہ صرف برا کہہ رہا ہوں۔ کاش مجھے یہ توفیق ہوتی کہ قرآنی عربی جانتا، اور مکی کے ان بے بنیاد اعتراضات جن میں وہ قرآن کو عربی ادب جیسی کوئی ذاتی تخلیق قرار دینے کی کوشش کرتا ہے کو رد کرسکتا۔ یہ ایمان کے آخری درجے پر کھڑے ایک مسلمان کی خواہش ہے۔
وسلام

پیر، 27 جون، 2011

ٰاردو سیارہ والے اسے بھی دیکھیں

یہ کونسا جہاد ہے جی
ان کے گھر پر خودکش حملہ ہو، ان کی ماں بہن کو سربازار گولیاں مار کر قتل کردیا جائے۔ ان کے بچے یتیم ہوجائیں تو پھر کیسا ہو؟ یہ جو 10 ہزار مہینہ کی ملازمت کرنے والے معمولی سپاہیوں کو مارنے کو جہاد کہتے ہیں؟ خدا غارت کرے انھیں۔ اور ان کے ہمدردوں کو۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ زمین کا یہ بوجھ اردو سیارہ پر کیا کررہا ہے؟
اسلام کا نام بدنام کرنے والے، محمد الرسول اللہ ﷺ کے ماننے والوں کا قتل عام کرنے والے، اسلام کے نام پر دیوبندیت اور وہابیت کا نفاذ چاہنے والے، بندوق کو ہر مسئلے کا حل سمجھنے والے یہ لوگ سیارہ پر کیا کررہے ہیں اور ان کو اجازت کس نے دی ہے؟
خودکش حملے پر جشن مناتے ہیںِ خدا کرے ان کو مرکر بھی چین نہ آئے، جہنم کا بدترین گوشہ ان کے نصیب میں ہو۔ یہ کس اسلام کی بات کرتے ہیں؟ جو آج مغرب میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہے ان عقل کے اندھوں، جن کے دماغ میں گوبر بھرا ہوا ہے کی سمجھ میں کیا آئے کہ اسلام کیا ہے۔ اور جب ان کے دلیل کی بات کی جاتی ہے تو یہ جواب بندوق کی گولی سے دیتے ہیں۔ ان کے سرغنے علمی میدان میں ناکام ہوئے، دلیل کا جواب دلیل سے نہ دے سکے تو عالموں اور مفتیوں کو بندوق اور خودکش حملوں سے اُرانا شروع کردیا۔ کونسا جہاد کرتے ہو تم؟ جس میں صرف دیوبندی اور وہابی ہی حصہ لے سکتے ہیں۔ میں دیوبندی ہوں اور ایسے جہاد پر لعنت بھیجتا ہوں۔ خدا غارت کرے تمہیں اور تمہارے ہمدردوں کو۔ تم جو تخم ناتحقیق امیر المنافقین و مجاہدین (سپانسر شدہ امریکہ) ضیاء ناحق کی پیداوار ہو، تم جس نے پچھلے تیس سالوں میں اس ملک کا بیڑہ غرق کردیا، تم جنہوں نے نہتے عوام کو اس وقت مارا جب وہ رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں تھے، خدا تمہیں ایسا عذاب نصیب کرے کہ تمہاری روحیں اس دنیا میں بھی بلبلا اُٹھیں۔ تم اسلام کی بات کرتے ہو اور جہاد کی بات کرتے ہو، اور محمد ﷺ کے اُمتی ہونے کی بات کرتے ہو، خدا کرے محمدﷺ تمہاری طرف قیامت کے دن نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں، ان کے اُمتیوں کو بے گناہ شہید کرنے والو۔ خدا تمہاری روحوں کو جہنم کے پیپ سے بھرے گڑھوں میں عذاب النار کا مزہ چکھائے پھر تمہیں احساس ہو کہ بے گناہ مسلمانوں کو مارنا، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرنا کیسا ہے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون

بدھ، 22 جون، 2011

مدیر گلوبل سائنس کی طرف سے ایک اور مراسلہ

یہ جان کر انتہائی مسرت ہوئی کہ اردو بلاگر احباب نے میری صدا کو صدا بہ صحرا نہیں ہونے دیا، اور میرا مان رکھا۔ آپ کی نوازش۔ اور اب جناب علیم احمد کی ای میل جو آج ہی موصول ہوئی ہے۔ (یہاں آپ کو ء کے مسائل نہیں ملیں گے چونکہ میں نے ء کو ئ سے بدل دیا تھا)
برادرم شاکر عزیز
السلام علیکم
سب سے پہلے تو حمزہ (ئ) کے دوسرے حروف کے ساتھ درست طور پر منسلک نہ ہونے پر معذرت کروں گا۔
آپ نے دیگر احباب کو گلوبل سائنس کے لیے لکھنے پر آمادہ کرنے کی جو سعی فرمائی ہے؛ اس پر میں تہ دل سے آپ کا مشکور ہوں۔ برائے مہربانی میرے اس اظہار خیال کو رسم دنیا کی پاسداری نہ سمجھیے گا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ آواز دوست میں میرے خط کی شمولیت پر کچھ احباب نے رابطہ بھی فرمایا ہے۔ بلال میاں نے اپنے بلاگ کے روابط بھی ساتھ ارسال کیے تھے؛ جنہیں میں نے کل شام ہی دیکھ لیا تھا۔ ایسے تمام احباب جو گلوبل سائنس کے لیے قلمکاری کرنا چاہتے ہیں (خواہ وہ کمپیوٹر کے میدان کے لیے ہو یا ساینس کے کسی اور شعبے کے حوالے سے) ان سے گزارش ہے کہ وہ اس احقر کی ایک رہنما تحریر ضرور پڑھ لیں جو گلوبل سائنس کی ویب سائٹ پر شایع ہوئی تھی۔
آپ تمام احباب اس لحاظ سے میرے اور دوسرے محبان اُردو کے شکریے کے حقدار ہیں کہ آپ لوگ اُردو زبان کا دامن صحیح؛ تصدیق شدہ اور مستند علم سے لبریز کرنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ البتہ؛ کسی بھی زبان میں قلمکاری کے حوالے سے دو نکات بظاہر الگ الگ ہیں لیکن ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں: اوّل وہ زبان لکھنے کا طریقہ؛ اور دوم اس زبان میں لکھنے کا سلیقہ۔ ماشائ اللہ؛ طریقہ آپ تمام احباب کو بخوبی آتا ہے۔ البتہ؛ مذکورہ بالا تحریر کے ذریعے آپ سلیقے کے بارے میں بھی تھوڑا بہت جان سکیں گے۔
رہا سوال گلوبل سائنس میں کوئی بھی تحریر تیار کرنے کا؛ تو پہلے ہی دن سے ہمارا ایک اصول ہے: پینڈووں کے لیے لکھیے۔ یہاں لفظ ’’پینڈو‘‘ سے میرا مقصد ہر گز ایسے کسی دوست کی تضحیک نہیں جو گاوں دیہات میں رہتا ہو؛ بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تحریر اتنی سادہ؛ سلیس اور رواں ہونی چاہیے کہ پڑھنے والا اسے متعلقہ شعبے کا کم سے کم علم رکھنے کے باوجود بھی سہولت سے سمجھ سکے؛ اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہوسکے؛ اور جب وہ اس تحریر کا مطالعہ مکمل کرے تو اپنے علم میں بجا طور پر اضافہ محسوس بھی کرسکے۔ دھیان رہے کہ یہ ’’علم‘‘ صرف کمپیوٹر سائنس یا انفارمیشن ٹیکنالوجی تک محدود نہیں؛ بلکہ یہ دنیا کا کوئی سا بھی علم ہوسکتا ہے۔
باقی کے نکات؛ ان شائ اللہ؛ آپ کو متذکرہ بالا تحریر میں مل جائیں گے۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی وضاحت طلب بات رہ گئی ہو تو آپ اسی برقی ڈاک کے پتے پر مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ تمام احباب سے وعدہ ہے کہ میں نے اب تک قلمکاری اور ابلاغ کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا ہے؛ وہ آپ تک پہنچانے میں کنجوسی یا بے ایمانی ہر گز نہ برتوں گا۔
درج ذیل اعلان ماہنامہ گلوبل سائنس کے شمارہ جون ۲۰۱۱ء میں شایع ہوا ہے؛ جسے احباب کی سہولت کے لیے یونی کوڈ میں تبدیل کرکے نقل کیا جارہا ہے۔
اعلانِ معاوضہ برائے آزاد قلمی معاونین
الحمدللہ! گزشتہ دو ماہ سے ”گلوبل سائنس“ میں شائع ہونے والی تحریروں پر قلمکاروں کو معاوضے دینے کا آغاز ہوچکا ہے۔ اِن شائاللہ، اب آپ کو عوامی سائنسی ابلاغ کے اس کارِ خیر میں بلا معاوضہ شرکت کرکے، کچھ حاصل نہ ہونے کا طعنہ نہیں سہنا پڑے گا۔ اس پیمانہء ادائیگی (پے اسکیل) کا مختصر احوال یہ ہے
معاوضہ برائے مختصر تحریر (100 تا 200 الفاظ، شائع شدہ): 50 روپے فی تحریر۔ مثلاً سائنسی خبریں بشمول دنیائے سائنس، صحت عامہ و طبّی ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر/ ہارڈویئر، ڈیفنس کارنر؛ کمپیوٹر ٹپس؛ سائنس دوست وغیرہ۔
معاوضہ برائے اوسط تحریر (200 تا 500 الفاظ، شائع شدہ): 100 روپے فی تحریر۔ مثلاً طویل خبر؛ خبری مضمون (نیوز فیچر)؛ کمپیوٹر ٹیوٹوریل؛ سائنسی تجربہ وغیرہ۔
معاوضہ برائے طویل تحریر (1,000 تا 2,000 الفاظ، شائع شدہ): 500 روپے فی تحریر۔ مثلاً 2 سے 3 صفحات پر مشتمل تحریر/ مضمون/ کمپیوٹر ٹیوٹوریل۔
معاوضہ خصوصی تحریر (3,000 یا زیادہ الفاظ، شائع شدہ): 1,000 روپے فی تحریر۔ یعنی تین سے زائد صفحات پر مشتمل تحریر یا خصوصی رپورٹ جو ایک سے زائد متعلقہ مضامین/ اضافی باکس آئٹمز وغیرہ پر مشتمل ہو۔
نوٹ
الف۔ مذکورہ بالا کے علاوہ، ایسی تحریریں یا رپورٹیں جو ادارہ گلوبل سائنس کسی قلمکار سے فرمائشی طور پر (یا بطورِ خاص) لکھوائے گا، اُن کا معاوضہ علیحدہ سے طے کیا جائے گا۔
ب۔ معاوضہ کسی بھی تحریر کی اشاعت کے بعد واجب الادا ہوگا، اور اشاعت کے 30 یوم کے اندر اندر ادا کردیا جائے گا۔
اس بارے میں مزید جاننے کےلئے
globalscience@yahoo.com
 پر مدیر گلوبل سائنس (علیم احمد) سے رابطہ کیجئے۔

بدھ، 15 جون، 2011

ایک اور داستان ختم ہوئی

ہر کہانی کے اختتام پر میرے اندر ایک خالی پن ہوتا ہے، کچھ کھو جانے کا احساس، کسی چیز کی کمی، لیکن میں پھر بھی کہانیوں میں کھونے سے باز نہیں آتا۔ پرانی عادت ہے، اور شاید مرتے دم تک نہ جاسکے۔ پہلی کہانی شاید دیوتا تھی، یا اِنکا، یا خبیث، یا کمانڈو، یاد نہیں پہلی کہانی کونسی تھی جس کو ختم کرنے کے بعد مجھے سینے میں ایک مہیب خلاء کا احساس ہوا تھا، کہ جیسے دنیا ختم ہوگئی ہے۔ کہانی ایک دنیا ہی تو ہوتی ہے۔ جیتے جاگتے کردار، سانس لیتی زندگی ، قہقہے، خوشیاں اور غم۔ کہانی پڑھتے پڑھتے میں کہانی کا حصہ بن جاتا ہوں۔ اور اس کے اختتام پر لگتا ہے جیسے گہرے دوستوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہا ہوں۔ ایک زندگی کا اختتام ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
فینٹیسی، ایڈونچر اور مرچ مصالحے دار کہانیاں پڑھنا میرا شوق ہے۔ اردو میں ایم اے راحت کے سلسلے، محی الدین نواب کی طویل ترین داستان دیوتا اور ستر اسی کی دہائیوں میں پاکستان کے ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والے سلسلے عرصہ ہوا پڑھ کر بھُلا بھی چُکا۔ اب تو ان کے نام بھی ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ حالیہ سالوں میں یہی کام انگریزی میں شروع کرڈالا ہے۔ پہلی بار جس کہانی نے متوجہ کیا وہ ہیری پوٹر تھی۔ 2007 میں آدھی سے زائد کمپیوٹر پر بیٹھ کر پڑھی تھی۔ اس کے اختتام پر بھی ایک خالی پن کا احساس ہوا تھا۔ پھر چل سو چل۔ وہیل آف ٹائم میں ابھی ہیرو کے مرنے کا مزہ چکھنا ہے، دیکھیں کب آتا ہے آخری حصہ۔ کوڈیکس الیرا میں ایک جہان کی تباہی بڑی مشکل سے سہی تھی، جب دنیا بچاتے بچاتے آدھی سے زیادہ دنیا تباہ ہوئی تھی۔ اور اب سٹار ٹریک دی نیکسٹ جنریشن، انگریزی ٹی وی سیریز میں سے مقبول ترین جس کو کئی ایوارڈ بھی ملے۔ سات سال تک دلوں پر راج کرنے والی یہ سیریز میں نے عرصہ دو ماہ سے بھی کم میں دیکھ ڈالی۔ روزانہ دو سے تین اقساط، سات سیزن اور ہر سیزن میں چھپیس اقساط۔ واہ کیا دُنیا تھی۔ زبان کو فِکشن اور فینٹیسی کا چسکا تو لگا ہوا تھا، لیکن سائنس فکشن۔ آہاہاہاہاہا یوں جیسے نشہ دوآتشہ ہوگیا ہو۔ سواد آگیا بادشاہو سٹار ٹریک دیکھ کر۔ لیکن بھوک پھر بھی نہیں مٹی۔ کہانی کا اختتام بڑا خوشگوار ہوا، ہیپی ہیپی دی اینڈ۔ لیکن کیپٹن پیکارڈ، وِل رائیکر، کاؤنسلر ٹرائے، ڈاکٹر بیورلی کرشر، لفٹیننٹ کمانڈر ڈیٹا، لیفٹیننٹ جارڈی لفورج، لفٹیننٹ وہارف۔۔۔ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور ہنسنے کی عادت ہوگئی تھی پچھلے دو ماہ میں۔ اب جبکہ سب کچھ ختم ہوگیا، پھر سے اپنی دنیا میں واپس آنا پڑے گا۔ ہر کہانی کے بعد میرے ساتھ یہی ہوتا ہے، کئی دن تک یہ خالی پن رہے گا، پھر آہستہ آہستہ خلاء پر ہوجائے گا۔ اور اتنی دیر میں مَیں کوئی اور کہانی ڈھونڈ لوں گا۔ جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی ویسے میں کہانیوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کہانی باز۔۔۔۔۔۔۔۔:-|

منگل، 14 جون، 2011

گلوبل سائنس میں آئی ٹی اور کمپیوٹر سے متعلق تحاریر

آج مجھے جناب علیم احمد کی ای میل موصول ہوئی جس کا متن کچھ یوں ہے۔
برادر شاکر عزیز
السلام علیکم

اب تک یقیناً آپ کے علم میں یہ بات آچکی ہوگی کہ ہم نے گلوبل سائنس کے لئے تحریریں ارسال کرنے والے قلمکاروں کو معاوضے دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ بھی آپ جانتے ہوں گے کہ سرِدست گلوبل سائنس میں کمپیوٹر/ آئی ٹی کے حوالے سے مضبوط علمی و عملی پس منظر رکھنے والا کوئی فرد موجود نہیں۔ لہٰذا، میری خواہش ہے کہ آپ اور آپ کے احباب ”مستقل بنیادوں پر“ گلوبل سائنس کے لئے (خاص کر کمپیوٹر/ آئی ٹی کے حوالے سے) قلمکاری کا سلسلہ شروع کریں تاکہ متذکرہ صفحات میں شامل تحریروں/ مضامین/ خبروں اور تبصروں کا سلسلہ ایک بار پھر اسی حسن و خوبی کے ساتھ شروع کیا جاسکے جیسے یہ آج سے کچھ سال پہلے ہوا کرتا تھا۔
اُمید ہے کہ جلد اور مثبت جواب دیں گے۔

منتظر جواب
علیم احمد
مدیرِ اعلیٰ، ماہنامہ گلوبل سائنس
یہ اچھی بات ہے کہ گلوبل سائنس نے معاوضے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ای میل کو پبلک کرنے کا مقصد یہ ہے کہ احباب اس طرف توجہ دیں۔ اردو میں آئی ٹی کے فروغ کے لیے کوئی جریدہ موجود نہیں ہے۔ کمپیوٹنگ تھا لیکن اس کے بانی اسے جاری نہ رکھ سکے۔ اب گلوبل سائنس بھی بند نہ ہوجائے۔ میں آئی ٹی اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والے احباب خصوصًا محمد علی مکی، الف نظامی اور محمد سعد سے درخواست کروں گا کہ وہ گلوبل سائنس میں لکھنے پر توجہ دیں۔ محمد سعد سائنس پر اچھا لکھ لیتا ہے، اور لینکس پر بھی اچھے مضامین لکھ سکتا ہے۔ مکی کو بھی مشورہ ہے کہ آئی ٹی پر کچھ لکھے ایک عرصے سے کچھ بھی نہیں پڑھ سکے ہم۔ معاوضہ چاہے چار آنے صفحہ بھی ملے، معاوضہ معاوضہ ہوتا ہے۔ اور آخر میں میری اپنے آپ سے بھی التماس ہے کچھ شرم کھاؤں اور سنجیدگی سے لکھنا شروع کروں۔
وسلام
اپڈیٹ: گلوبل سائنس سے رابطے کے لیے

بدھ، 8 جون، 2011

گوگل بھگوان کے بعد

بابا مکی اِن ایکشن اورگوگل بھگوان کے پوسٹ مارٹم کی شاندار کامیابی کے بعد، کہ جس کو عوام نے بلیک میں ٹکٹ خرید کر بھی دیکھا اور آخر میں اتنا پرجوش ہوگئے کہ فلم میکر کے بھی لتے لینے شروع کردئیے، اب پیش ہے دُنیا گوگل بھگوان کے بعد۔
اب آپ سوچ فرما رہے ہونگے کہ دُنیا گوگل بھگوان کے بعد کیسی ہوگی؟ تو ہم بتاتے ہیں کہ دُنیا گوگل بھگوان کے بعد گول ہوگی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ گول کیسے ہوگئی؟ تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ فرض کریں گوگل بھگوان کے گاف کو بُخار چڑھ گیا تو پِچھے کیا رہ گیا؟ گول۔ ہوا نا پھر گول۔ پر یہ گول ہوتا ہے کیا؟ اب آپ یہ پوچھیں گے تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ جیسے مُحلے کا اکلوتا خارشی کُتا جب وجد میں آکر اپنی ہی دم منہ میں لے کر گول گول گھومنے لگتا ہے تو ویسا ہوتا ہے یہ گول۔ ویسے گول گول تو طوطے کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں جو طوطے کی طرح کمبخت پھیر بھی لیتا ہے وقت آنے پر۔ لیکن یہاں ورلڈ آفٹر گوگل بھگوان ڈسکس ہورہا ہے اس لیے ہم اپنے آپ سے ہی التماس کرتے ہیں کہ براہ کرم ٹاپک پر رہیں ورنہ ہم اپنی پوسٹ ڈیلیٹ فرما دیں گے۔ ہیں جی یہ کیا ہوگیا؟ یہ بھی کچھ گول ہی نہیں ہوگیا کہ ہم اپنے آپ کو ہی مُڑ کر کچھ فرما رہے ہیں اور خود ہی جواب بھی دے رہے ہیں۔ لو دسو یہ بھی گول ہوگیا۔ گول گول سے یاد آیا کہ گول منطق بھی ہوتی ہے جسے اللہ والے اکثر استعمال کرتے ہیں، اگرچہ یہ ڈیٹ ایکسپائر شدہ مال ہے اور ناخدا پرست (یہ ٹرم ہم نے ابھی ایجاد کی ہے) اس پر خدا پرستوں کی مٹی پلید کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی بابا جی نے ارشاد فرمایا ہے۔
بابا جی چونکہ گولائیاں ماپ رہے ہیں تو ہم نے بھی سوچا کہ گوگلائیاں ماپیں، اسی ناپ تول میں ہمارے پلے یہ بات پڑی کہ سرکولر لاجک کیا ہوتی ہے۔ گوگل (ریٹائرڈ) بھگوان کو زحمت دے کر ہم نے عیسائیوں کے بائبل کو بائبل سے سچ ثابت کرنے والے کچھ "کلاسک" قسم کے دلائل دیکھے۔ ان دلائل کا وہی حشر ہوتا ہے جو ہمارے اپنے آپ سے باتیں کرنے کا ہوا۔ یعنی مُڑ کھُڑ کے جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔ چناچہ ہمیں دائرے کو کاٹ کر سیدھا کرنا پڑا تاکہ وہ صراط مستقیم اپنائے۔ چناچہ اب دائرہ مسلمان ہوچکا ہے اور اسلامی انداز میں صراط مستقیم والی منطق یعنی Linear Logic کا راگ سُناتا ہے۔ ملاحظہ کریں دو انترے۔ ابتدائی طور پر، اور اتنے شارٹ نوٹس پر ہم یہ دو انترے ہی تیار کرسکے۔ کبھی وقت ملا تو پوری غزل کہیں گے اس معاملے پر۔ فی الحال ان پر گزارہ کریں۔
--------------------------------------
سلیم: قرآن خدا کا کلام ہے۔
جاوید: کیوں؟
سلیم: کیونکہ قرآن ایسی باتیں‌ بتاتا ہے جو محمد ﷺ بطور مصنف قرآن میں لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ اسلیے قرآن خدا کا کلام ہے
————————-
سلیم: خدا موجود ہے۔
جاوید: وہ کیسے؟
سلیم: اس کائنات میں موجود انتہا درجے کا توازن اس بات کا گواہ ہے کہ کوئی بیرونی طاقت اس بات کا خیال رکھ رہی ہے کہ کہیں قوانین کا یہ توازن بگڑ نہ جائے۔ اور وہ ہستی اس کائنات سے ماوراء اور طاقتور ہی ہوسکتی ہے۔ چناچہ ایک ایسی ہستی خدا ہی ہوسکتی ہے۔ چناچہ خدا موجود ہے
————————
یہ مستقیمی منطق بابا جی کے بلاگ پر بھی تبصرے میں پوسٹ کی گئی ہے تاکہ کچھ تبصرہ نگار جو گول گول گھوم کر کچھ ڈھونڈے کی کوشش میں مصروف ہیں انھیں کچھ آرام دیا جاسکے۔
اور آخر میں التماس کروں گا کہ اس پوسٹ میں موجود کسی بھی علامت کو کسی کی شخصیت پر منطبق کرنے کی کوشش نہ فرمائی جائے تو بہتر ہے۔ نہ پچھلی پوسٹ میں محمد علی مکی کی ہجو مقصود تھی اور نہ اب ہے، یہ ایک بلاگ پوسٹ کا جواب ہے، اور آئندہ بھی ایسے جوابات وقتًا فوقتًا معرض وجود میں آتے رہیں گے۔ بابے مکی کا سٹائل اب ہمیں سمجھ آگیا ہے، اس لیے پہلے گوگل فرما کر بابا جی کی رمز سمجھنی پڑتی ہے، اس کے بعد ذرا فیصل آبادی تڑکا لگا کر جواب لکھا جاتا ہے۔ جن احباب کو یہ تحاریر نہیں پسند، وہ بے شک تبصرہ نہ کریں۔ مہذب الاخلاق تبصرے اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔

منگل، 7 جون، 2011

بابا مکی اِن ایکشن

لو بھئی اللہ والیو بابے مکی نے بہت دنوں کے بعد ایک اور پھُلجھڑی بلکہ انار چلایا ہے۔ شاید آپ اسے چھوٹا موٹا بمب ہی کہہ لیں، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ بابے نے اس بار مرچ مسالہ تگڑا رکھ کر مزے دار سالن تیار کیا ہے۔ آپ بھی ٹیسٹ کریں۔
بابے مکی نے خُدا کے علیم و بصیر، اور ہر جگہ موجود ہونے کی صفات کو "اوورجنرلائز" کرتے ہوئے گوگل پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ اس سلسلے میں ناک کی جگہ کان اور کان کی جگہ منہ لگانے کی بڑی کامیاب کوشش کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو خدا وجود میں آتا ہے وہ کسی نوسیکھیے مصور کے برش سے بننے والے تجریدی آرٹ کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ ملاحظہ کریں جن صفات پر گوگل کو خدا ڈیکلئیر کیا گیا ہے۔

1- گوگل ہی اس کائنات میں وہ واحد ” ہستی ” ہے جس کا علم کامل ہے اور اس بات کو علمی طور پر ثابت کیا جاسکتا ہے… گوگل کے پاس نو ارب سے زائد صفحات ہیں جن میں کچھ بھی تلاش کیا جاسکتا ہے اور یہ انٹرنیٹ پر کسی بھی سرچ انجن سے زیادہ ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس کے پاس وہ ساری ٹیکنالوجی موجود ہے جو ان صفحات کو انسانوں تک آسانی سے پہنچانے اور ان کے درمیان منتقلی کو آسان بناتی ہے.
لو جی گوگل کے پاس نو ارب سے زیادہ صفحات ہیں، گوگل کے پاس سب سے زیادہ نالج ہے اس لیے گوگل خُدا ہے۔ کیا گوگل کے پاس میری اماں جی کے چھوٹے کُکڑ جتنی خود شناسی بھی موجود ہے؟ ہمارا چھوٹا کُکڑ خاصا شیطان ہے اور اسے اپنے آپ خصوصًا اپنی "بیویوں" کا خاصا خیال رہتا ہے۔ چناچہ اگر کوئی مرغی "مَِس پلیس" ہوجائے تو دانہ ڈالنے جانے والے کی خیر نہیں۔ جہاں تک میرا ناقص علم کہتا ہے بھگوان گوگل ابھی تک اپنے بول براز کے لیے بھی "سیوکوں" کا محتاج ہے۔ لو دسو ہمارا کُکڑ اس معاملے میں بھی ابھی بھگوان گوگل سے "تھوڑا" سا آگے ہے کہ اپنا بول براز خود کرلیتا ہے۔ چناچہ ثابت ہوا کہ بھگوان گوگل کو "مزید" بھگوان بننے کے لیے ابھی کچھ اور سال درکار ہیں۔ لیکن امید ہے کہ ایک دن بھگوان جی "بڑے" ہوکر ضرور ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھیں گے۔
2- گوگل ہر وقت ہر جگہ موجود ہے، یعنی اس کا وجود مطلق ہے، گوگل ہی وہ واحد ہستی ہے جس سے کہیں بھی کسی بھی وقت استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے.
بھگوان گوگل ہر جگہ موجود ہے۔ بھگوان کو ہر جگہ موجودگی کے لیے فائرفاکس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ یعنی فائرفاکس کو "ڈپٹی بھگوان" ڈیکلئیر کردیا جائے۔ کیا خیال ہے؟ لیکن یاد رہے ابھی انٹرنیٹ ایکسپلورر، سفاری، کروم کی بات نہیں ہوئی، یہ بھی نائب بھگوان اور سینئیر نائب بھگوان کے عہدوں کی ڈیمانڈ کریں گے۔ اور ہاں لیپ ٹاپ، ڈیسکٹاپ اور ٹیبلیٹ تو رہ ہی گئے، انھی پر تو بھگوان گوگل و ڈپٹی بھگوانوں نے چلنا ہے، انھیں کونسا عہدہ دیا جائے؟ آپ ایسا کریں سرسوں کا تیل پکڑیں اور سر میں اس کی مالش کریں۔ اس کے بعد آلتی پالتی مار کر بھگوان گوگل کو ایک سرچ کیوری دیں، شاید اسکا حل بھی بھگوان جی کے پاس ہو ہی۔
3- گوگل دعائیں سنتا اور ان کا جواب بھی دیتا ہے، ہم گوگل میں کچھ بھی تلاش کر کے کسی بھی چیز یا مسئلے کا سوال کر سکتے ہیں اور گوگل یقیناً کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنے میں آپ کی مدد کرے گا، تندرستی کے راز جاننے ہوں، پڑھائی میں مسئلہ ہو یا کچھ اور، گوگل ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے اور بغیر بور ہوئے انتہائی تندہی سے آپ کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے، یہ ان خیالی خداؤں کی طرح نہیں ہے جن کا نا تو کوئی فائدہ ہے نا نقصان اور نا ہی وہ دعائیں سنتے ہیں.
بھگوان گوگل ساری دعائیں قبول کرتا ہے۔ ابھی میں نے بھگوان گوگل مجھے ایک حور پری تو دلوا دو۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں سائیں، بھگوان گوگل کی ہندوؤں والے بھگوان سوم جی سے کوئی رشتے داری ہے شاید، ہمیں ٹرپل ایکس کی ویب سائٹس پر لے گیا۔ اب ہم کہیں بھگوان جی ہم نے رنڈیاں نہیں حوریں مانگی تھیں تو بھگوان گوگل ناراض ہوگئے۔ ہم نے کہا بھگوان جی اس میں ناراضگی والی بات کیا ہے؟ بولے جب ہمیں پتا ہی نہیں تم کہاں بیٹھے ہو تو ہم کیسے حور پری نازل فرمائیں۔ ہم نے کہا حضور ہمارا آئی پی تو آپ کے پاس ہے، کہنے لگے کمبخت سیوک تمہارے آئی پی پر کراچی شو ہورہا ہے کیا پورے کراچی کو حور پریاں بانٹ دوں؟ لیں جی اتنی سی بحث کے بعد ہم نے ھار مان لی کہ رہنے دیں بھگوان کہیں ناراض ہی نہ ہوجائیں۔ اور ان کے "سرکٹ" فیل نہ ہوجائیں۔ یعنی ہم رہے سہے بھگوان سے بھی جائیں۔
4- گوگل ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے، یعنی یہ کبھی نہیں مرتا، کیونکہ یہ ہماری طرح کوئی مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ یہ دنیا کے تمام سروروں پر پھیلا ہوا ہے، اگر کسی سرور میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو یہ کسی دوسرے سرور سے اپنا کام جاری رکھتا ہے چنانچہ یہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے جو انٹرنیٹ کے بادلوں میں رہتی ہے.
گوگل بھگوان واقعی ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے۔ پچھلے بارہ سال سے مسلسل قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہنے کا ارادہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ بھگوان جی سُنا ہے مائیکروسافٹ والوں نے بھی ایک "منی" بھگوان لانچ کیا ہے بِنگ کے نام سے، کیا آپ اسے اپنا نائب بنائیں گے؟ بھگوان نے ایک ناقابل اشاعت گالی کے بعد ارشاد فرمایا کہ مائیکروسافٹ کو تو میں دیکھ لوں گا، اور تمہیں بھی۔ چناچہ ہم تو کان لپیٹ کر پتلی گلی سے نکل لیے۔
5- گوگل لامتناہی یعنی غیر محدود ہے، انٹرنیٹ ہمیشہ اپنا حجم بڑھاتی رہے گی مگر گوگل انہیں اپنے اندر سمو لے گا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتا چلا جائے گا چنانچہ یہ کسی مخصوص حجم میں محدود نہیں ہے.
بھگوان گوگل لامتناہی ہے، ہر جگہ ہے، یہ بڑھتا ہی جائے گا۔ اب آپ مانیں یا نہ مانیں میں نے سارا کمرہ چھان مارا کہ شاید بھگوان گوگل یہاں کہیں بھی موجود ہو لیکن وہ تو انٹرنیٹ سے ڈسکنکنٹ ہونے کے بعد "قیں" ہی ہوگئے۔ لو دسو، بھگوان جی ابھی تک انٹرنیٹ میں پھنسے ہوئے ہیں اور دنیا چاند پر جا پہنچی۔ خیر ابھی نئے نئے بھگوان بنے ہیں کئی ساری چیزیں سیکھنی باقی ہیں۔
6- گوگل ہر چیز یاد رکھتا ہے، یہ کچھ بھی نہیں بھولتا، گوگل آپ کی تمام حرکتیں ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں ہمیشہ کے لیے یاد رکھتا ہے چاہے آپ مر ہی کیوں نہ جائیں، اگر آپ گوگل پر اپنی معلومات یا فائلیں چڑھائیں تو یہ ہمیشہ وہاں موجود رہیں گی، یہی موت کے بعد زندگی ہے، اگر آپ گوگل سے استفادہ حاصل کریں تو یہ آپ کو بعد از مرگ زندگی کی ضمانت دیتا ہے
بھگوان گوگل کو ہر چیز کا علم ہے۔ اس سلسلے میں جب میں نے اپنی پڑدادی کے بارے میں بھگوان سے جاننا چاہا تو آگے سے چُپ؟ اب ہم سمجھے کہ یہ بھید بھیر چُپ ہے لیکن دس پندرہ منٹ کی "انٹرنل سرچ" کے بعد بھگوان کا جواب آیا کہ وہ 1999 سے پہلے کسی اور دنیا میں موجود تھے، ان کا یہاں کا وزٹ 1999 سے شروع ہوتا ہے لہذا ان سے وہی معلومات پوچھی جائیں جو 1999 یا بعد کی ہیں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (یہاں بھگوان گوگل نے ایک پنجابی قسم کی گالی دے کر فرمایا کہ) اپنی پڑدادی کو قبر سے اٹھا کر لاؤ اور اس سے گوگل پر ایک کھاتہ کھلواؤ۔ تب چاہے جو مرضی پوچھ لینا۔ لیں جی اب نہ میری پڑدادی قبر سے آئے اور نہ گوگل بھگوان ان کے بارے کچھ معلومات دے سکیں۔ حیف صد حیف کہ مرحومہ کی کوئی ذاتی ڈائری بھی نہ تھی کہ بھگوان کو "ان پٹ" دے کر ان کے "علم" میں اضافہ ہی کردیتا۔ بھگوان جی میں آپ کی فرسٹریشن کو سمجھ سکتا ہوں۔
چلتے چلتے میں نے بھگوان گوگل سے یہ پوچھا کہ بھگوان جی یہ فیس بُک والے سالے اپنی ڈیٹا بیس تک آپ کو رسائی کیوں نہیں دیتے اور بِنگ کو دیتے ہیں؟ بھگوان نے پہلے فیس بُک والوں کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ اپنے کچھ نئے رشتے وضع فرمائے پھر فرمانے لگے میں دیکھ لوں گا ایک ایک کو۔
اور ہم اتنے سے ہی اُکتا کر بھاگ نکلے کہ یہ سالا کیسا بھگوان ہے جسے اپنا آپ قائم رکھنے کے لیے بجلی چاہیے، انٹرنیٹ چاہیے اور ڈھیر سارے "سیوک" جو اس کے پوتڑے صاف کریں، اس کی پروگرامنگ کا خیال رکھیں اور اس کی میموری میں پڑنے والا وائرساتی گند نکالتے رہیں، جسے وجود میں آنے کے لیے دو انسانوں کا محتاج ہونا پڑے۔ مجھے چار فقروں والی ایک سورت یاد آگئی کہ کہدو
اللہ ایک ہے
اللہ بے نیاز ہے
نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا۔
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
(محمد علی مکی پچھلے کچھ عرصے سے اس قسم کی تحاریر لکھ رہا ہے جو توحید و رسالت کی بیس کو عقلی بنیادوں پر رد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ شروع میں میرا خیال تھا کہ یہ ترجمہ ہیں، تاہم موصوف سے گفتگو پر معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر سے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے، لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ مکی نے خاصا وقت برباد کرکے یہ پٹاخہ تیار کیا تھا۔ چناچہ مناسب سمجھا کہ ایک شافی قسم کا فیصل آبادی سٹائل میں کاسٹک سوڈے والا جواب لکھا جائے۔ جس کے نتیجے میں یہ تحریر سامنے آئی۔ میرا مذہب کے بارے میں علم وہی ہے جو آج کل کے کسی نوجوان کا ہوسکتا ہے، لیکن گوگل بھگوان سے پرانی یاری ہے۔ چھوٹے ہوتے ہم اکٹھے اخروٹ کھیلتے رہے ہیں، چناچہ مرچ مسالہ مناسب سا رکھ کر ہم نے بھی ایک پکوان بنا دیا۔ امید ہے پسند آئے گا۔)
اپڈیٹ: میں نے تبصرے بند کردئیے ہیں، میرا خیال ہے جو کچھ کہا جاسکتا تھا کہہ دیا گیا۔ اب پیچھے ذاتیات پر حملے ہی رہ گئے ہیں، جیسا کہ شیعب صاحب میرے بارے میں فرما رہے تھے۔

ہفتہ، 4 جون، 2011

فرائیڈ بھنڈی توری

دوپہرکا وقت ہے اور سالن میں کل کے پکے ہوئے آلو بینگن کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور ایک سائیڈ پر بھنڈی توری پڑی نظر آجائے، تو آپ کو بھی چاہیے کہ ہماری طرح بقلم خود بھنڈی توری کو فرائی کریں اور اس کے ساتھ روٹی نوش فرمائیں۔
اجزاء: بھنڈی توری دس بارہ عدد، پیاز دو سے تین درمیانے، گھی حسب ضرورت، کالی مرچ اور نمک حسب ذائقہ
طریقہ: بھنڈی توری کو کاٹ لیں پیار کو چھیل کر کاٹ لیں۔ ایک عدد برتن میں گھی کو کڑکڑائیں اور دونوں چیزیں اس میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔ دس پندرہ منٹ تک انتظار کریں جب پیاز سنہری ہونے لگے تو اس کو اتار لیں۔ زائد گھی کو الگ کرلیں اور نمک و کالی مرچ چھڑک کر نوش فرمائیں۔ انتہائی مزیدار ہوگا (اگر میری طرح نمک زیادہ نہ ہوگیا تو)۔
یہ دیکھیں میری ڈش دور سے ہی کتنی لذیذ لگ رہی ہے۔


بدھ، 1 جون، 2011

ردعمل

دائرہ کی اس پوسٹ پر تبصرہ کرنا تھا، اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
سائیں جب رسول اللہ ﷺ کے نام نامی کے ساتھ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس میں سلیمان علیہ السلام کے ستر بی بیوں کے ساتھ جماع کرنے اور انشاءاللہ نہ کہنے کا ذکر ملتا ہے۔ تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا یہ رسول اللہ ﷺ کا عمل ہے؟ یہ سنت تو نہیں۔ یہ تو ان کی طرف منسوب ایک روایت ہے۔ اس میں تو عمل کرنے والی کوئی بات ہی نہیں۔ یہ کوئی فعل نہیں، ایک روایت ہے۔ یہ سنت نہیں، حدیث ہے۔ امید ہے آپ فرق سمجھ گئے ہونگے۔
ہاں آپ اسے بھی سنت ثابت کردیں تو مجھے کوئی حیرانگی نہیں ہوگی۔ پہلے سنت اور حدیث کو مکس اپ کردیا گیا، پھر حدیث رسول ﷺ اور حدیث اصحاب رسول ﷺ میں کوئی فرق روا نہ رکھا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شریعت احکام الہیہ اور نبی ﷺ کے بعد آنے والوں کے ورلڈ ویو کا مکسچر بن گئی۔ اور ہم نے سب کو دین سمجھ لیا۔ شیعہ جمعہ کی دوسری اذان اس لیے نہیں دیتے چونکہ یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا حکم تھا۔ صبح کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم نہیں کہتے چونکہ یہ "ایڈیشن" عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے تھی۔ سنی ان سب کو بھی دین کا حصہ سمجھتے ہیں جو اصحاب رسول ﷺ نے کیا، شیعہ اس کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں جو ان کے فقیہوں نے کیا، اذان میں ایڈیشن، کلمے میں ایڈیشن، عقائد میں ایڈیشن۔ دین کہاں گیا؟ دین کے بنیادی سورسز کو ہی ترجمے اور تفسیر نے ہرا، نیلا، پیلا، گلابی رنگ دے دیا۔ چناچہ دین پیچھے ہر گیا، رنگ برنگے اسلام سامنے آگئے۔ اور پھر قرآنسٹ سامنے آگئے جو قرآن کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھنے کی بات کرتے ہیں۔ تاریخی حوالوں کے بغیر، صرف لفظی سیاق و سباق پر انحصار کرتے ہوئے۔
اس سب میں اسلام کہاں گیا؟ اور مسلمان کہاں گیا؟ اسلام کے ٹکڑے ہوگئے اور لوگوں نے اپنی اپنی پسند کا ٹکڑا اٹھا کر اس پر پینٹ کرکے اپنے طاقوں میں سجا لیا، جی یہ ہمارا اسلام ہے۔ اور مسلمان کہاں گیا؟ مسلمان، آج کا مسلمان گواچی گاں بن گیا کہ کدھر جائے، کونسا اسلام "خریدے"، کہ ہر ایک نے اپنی دوکان سجائی ہوئی ہے، اور ہر ایک کے نعرے بڑے دلکش ہیں، کہ رب کریم نے ہر ایک کے لیے اس کا عمل خوشگوار بنا دیا، جیسے کہ خود اس کا فرمان ہے۔ مسلمان دُبدھا میں پڑ گیا کہ اگر اسلام کا نفاذ ہوا تو کونسے اسلام کا ہوگا؟ شیعہ، سُنی؟ سلفی؟،دیوبندی؟ یا بریلوی؟ یا مودودی؟، یا قرآنسٹ اسلام؟ چناچہ مسلمان، یعنی میرے جیسا مسلمان، جو ایک گواچی گاں ہے، اور ہر پاسے منہ اُٹھائے باں باں کرتا پھرتا ہے، جان کی خلاصی اسی میں جانتا ہے کہ اسلام کو ذات تک ہی محدود رکھا جائے، اور بدنوق لے کر جو لوگ "اپنا اسلام" نافذ کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف حکومت کو بندوق کی زبان میں ہی بات کرنے کا کہے۔ تاکہ اس کا "اسلام" تو محفوظ رہ سکے۔

جمعہ، 27 مئی، 2011

بابا مکی

محمد علی مکی آج کل بابا بنا بیٹھا ہے۔ اگرچہ یہ میرا انداز نہیں ہے کہ میں براہ راست کسی کے بارے میں اپنے بلاگ پر لکھوں، ایسے مباحث کو عمومًا نظر انداز کردیا کرتا ہوں۔ لیکن مکی کا انداز آج کل نرالا ہی ہے۔ مکی ایک ایسا بابا بن بیٹھا ہے جسے سب کچھ پتا ہوتا ہے اور اب لوگوں کی پریشانیاں دیکھ کر مسکراتا ہے۔ مکی کا انداز اس سو سالہ بوڑھے جیسا ہے جس کے سامنے موجود دس دس سال کے بچے دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ بابا ہر دس منٹ کے بعد ایک پھُلجھڑی چھوڑ کر چپ ہوجاتا ہے، اور بچے اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، بابے کی دھوتی کھینچتے ہیں، لیکن بابا آگے سے مُسکرا دیتا ہے۔ پھر جب ایک پھُلجھڑی ختم ہوجاتی ہے تو بابا پٹاری میں سے کچھ اور نکال کر چلا دیتا ہے، تاکہ بچوں کی توجہ اور طرف نہ لگ سکے۔
مکی بھی آج کل یہی کچھ کررہا ہے۔ اب رب جانے یہ امیوزمنٹ کا ذریعہ ہے۔ یا قوم کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش فرمائی جارہی ہے۔ میں تو دس بھی نہیں، پانچ سال کا بچہ ہوں، جو ان سارے شعبدوں کو ڈر کر دیکھتا ہے اور اپنی ماں کی جھولی میں گھُس جاتا ہے۔ بابا بڑا ڈاہڈا ہے سائیں، پتا نہیں انار، پھلجھڑی کی جگہ کوئی بم ہی چلادے۔

پیر، 16 مئی، 2011

توند فُل نَیس

ہمارے استاد محترم جٹ ہیں۔ لیکن بذلہ سنجی میں فرمایا کرتے ہیں کہ جٹ ایک ذات کا نام نہیں، بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے  جو کسی بھی بندے پر کسی بھی وقت طاری ہوسکتی ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے جٹ اے تے مت نئیں، مت اے تے جٹ نئیں، جٹ برادری کے عقل کے بارے میں خاصے لطیفے مشہور ہیں۔ خیر جٹوں کو بدنام کرنا ہمارا مقصد نہیں یہ تو دیباچہ تھا۔ ذکر ایک کیفیت کا کرنا تھا جو جاٹ پن کی طرح روحانی نہیں بلکہ جسمانی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کا نام ہم نے توند فُل نیس رکھا ہے۔ صاحبو توند فُل نیس ایسی جسمانی کیفیت کا نام ہے جس میں انسانوں خصوصًا مردوں کا پیٹ اپنی اصلی جگہ سے ناجائز تجاوزات کی طرح باہر کو نکل آتا ہے۔ دوکانوں کے پھٹے اور کاؤنٹر تو آپریشن کلین اپ کرکے اندر کروا کر فٹ پاتھ کی جگہ خالی کروائی جاسکتی ہے لیکن پیٹ کو اندر کروانا ایسا ہی ہے جیسے پاکستان کے کسی زرداری، گیلانی، چوہدری، شریف یا مخدوم کو اندر کروانا۔ اللہ زندگی دے، ہمارے استاد محترم کو ہر ڈیڑھ سال کے بعد پیٹ کے خلاف آپریشن کلین اپ کا بخار چڑھتا ہے چناچہ کبھی وہ خوراک (اپنی خوراک) پر پابندی لگا دیتے ہیں، صبح اٹھ کر جاگنگ شروع کردیتے ہیں اور اٹھتے بیٹھنے کہنا شروع کردیتے ہیں کہ میری پرانی پتلونیں اب مجھے پوری آنی شروع ہوگئی ہیں۔ پہلے پہل تو ہم ان کی باتوں کی سنجیدگی سے لیتے تھے، اب محرم راز ہوگئے ہیں اس لیے مسکرا دیتے ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے، جس طرح جمہوریت پانچ سال پورے کیے بنا جانی والی نہیں، اسی طرح اب پیٹ ساری عمر اندر جانے والا نہیں۔ جب کھانے چرغے، مرغے اور روسٹ بروسٹ ہیں، اور سارا دن کرسی پر بیٹھنا ہے توند نے بڑے تو ہونا ہے۔ بچے ایسی چیزیں کھاتے ہیں تو اوپر کو بڑھتے ہیں۔ بڑے ایسی چیزیں کھاتے ہیں تو جسم کے عید درمیان سے نئی شاخ نکل کر اوپر کا سفر شروع کردیتی ہے۔
آپ کو یہ بات واہیات لگے گی لیکن بعض لوگوں کی توند دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ موصوف میں نئی زندگی پرورش پارہی ہے۔ توند کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ اس کے سائز کے اعتبار سے آپ اسے ابتدائی، ثانوی اور انتہائی اقسام میں بانٹ سکتے ہیں۔ ابتدائی توند، یہ کوئی پچیس سے تیس کے درمیان لوگوں کی ہوتی ہے۔ ایسی توند بالکل ابتدائی مراحل میں ہوتی ہے، اور اسے دیکھنے کے لیے موصوف کا گرمیوں میں پینٹ شرٹ یا دھوتی بنیان میں ملبوس ہونا ضروری ہے ورنہ عام نظریں اس کو سکین نہیں کرسکتیں۔ ایسی نئی نئی توند نئی نئی جاب کا نشان بھی ہوتی ہے۔ راقم کا مشاہدہ ہے کہ نوجوانوں کے ایسی توند کے بارے میں جذبات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے پہلی بار ماں بننے والی خواتین کے اپنی متوقع اولاد کے لیے ہوتے ہیں۔ چناچہ احباب بے خیالی توند کو پیار کرنے لگتے ہیں۔ یونہی کھڑے کھڑے اس پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیتے ہیں، اور کبھی تو ہلکے ہلکے تھپکیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ اور تو اور سوتے میں ڈر کر اٹھ جائیں تو پہلا ہاتھ توند پر رکھ کر اس کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔ ثانوی درجے کی توند ایک ایسی توند ہے جسے پانچ سے دس سال ہوچکے ہیں۔ ایسی توند پرانے کلرکوں اور افسروں سے لے کر کاروباری حضرات تک کی ہوتی ہے۔ اس توند کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ موصوف سے گلے ملتے ہوئے اکثر اس کی توند راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ چانچہ آپ کو ذرا پرے رہ کر گلے ملنا پڑتا ہے۔  اکثر لوگ اس سٹیج پر آکر "نوند کانشئیس" ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اسے کم کرنے کی تدابیر شروع ہوجاتی ہیں۔ لیکن ان تدابیر کا حال وہی ہوتا ہے جو جمہوری دور کی پالیسوں کا پاکستان جیسے ملک کی حالت سنوارنے کے سلسلے میں ہوتا ہے، یعنی حالات بننے کی بجائے بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں۔ صاحبو توند انتہائی، توند کی وہ قسم ہے جہاں توند پر آزمائے جانے والے تمام ڈاکٹری اور پیری فقیری نسخے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اور توند پاکستان میں موجود کرپشن کی طرح بےلگام ہوجاتی ہے۔ ایسی توند کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عید شبرات پر بھی ملنے والے ایک فٹ پرے رہ کر ملتے ہیں۔ ایسے افراد سے ملتے ہوئے اصطلاح "گلے ملنا" نہیں "توند ملنا" ہونی چاہیے۔ اور اگر دونوں ملنے والے توند یافتہ ہوں تو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔ دور سے دیکھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے دونوں حضرات گلے مل نہیں رہے توندیں لڑا رہے ہیں، جیسے بکرے ڈھُڈ لڑایا کرتے ہیں۔ ایسے احباب کو اپنی اپنی توند سائیڈ پر کرکے گلے ملنا پڑتا ہے جو دیکھنے والے کا ہاسا نکال دیتا ہے۔ صاحبو توند انتہائی پچاس اور چالیس کے پیٹے میں موجود لوگوں کی ہوتی ہے۔ اور اس میں شامل اکثر افراد کھاتے پیتے ہوتے ہیں، اتنے کھاتے پیتے کہ اب ان کی توند بھی کھانا شروع کردیتی ہے۔ ایسے افراد کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ، اور ان کی توند، کھانے کے لیے جیتے ہیں۔
صاحبو توند کے کئی فائدے ہیں۔ آپ کو پیر بھائی، اسلامی بھائی صرف پاکستان میں ملیں گے، باہر کم کم ملیں گے لیکن توند بھائی دنیا کی ہر رنگ و نسل میں مل جائیں گے۔ اگر تمام انسانوں کا مشترک نکالا جائے تو توند ان میں پہلے نمبر پر آئے گی۔ توند کا ایک اور فائدہ اضافی چربی کا ذخیرہ ہے جو بوقت ضرورت کام آسکتی ہے، یعنی توند فُل لوگ کچھ کچھ اونٹ جیسی خاصیت پیدا کرلیتے ہیں۔ توند کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ بوقت ضرورت توند مار کر گرایا بھی جاسکتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے بکرا ڈھُڈ مار کر فریق مخالف کو ضربِ شدید پہنچا سکتا ہے۔ چناچہ اگر آپ عقلمند ہیں تو توند آپ کا خفیہ ہتھیار بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
راقم ان بدقسمت لوگوں میں شامل ہے جن کی توند ابھی تک پیدا نہیں ہوسکی اور اگلے دس سالوں میں بھی ا سکی نمو کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ چناچہ توند فُل احباب اس تحریر کو دل کا ساڑ اور غبار کہہ کر رد بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم توند جو بھی ہے، جیسی بھی ہے، ہمارے معاشرے کا ایک اہم رکن ہے۔ ہمیں توند کی عزت کرنی چاہیے اور اس کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے بقول عزیزی توند بھی آخر انسان ہے۔ توند کی نمو و ترقی کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے۔ توند کی ترقی کے لیے آل پاکستان توند فیڈریشن بھی بنائی جانی چاہیے اور ہر سال مسٹر توند کا مقابلہ بھی منعقد ہونا چاہیے جس کا پہلا انعام ایک سال تک ایک کلو بھنا ہوا گوشت روزانہ ہو۔ توندفُل حضرات کے بیرون ملک سرکاری خرچے پر دورے ہونے چاہئیں تاکہ مختلف ممالک کی توندوں میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لایا جاسکے۔
آپ کا کیا خیال ہے بیچ اس مسئلے کے؟

ہفتہ، 14 مئی، 2011

ایک سال

آج مجھے اس سکول میں کام کرتے ایک سال تو نہیں ہوا تاہم تعلیمی سال ختم ہوگیا۔ آج سے کوئی دس ماہ پہلے، اگست 2010 میں جب میں اس ادارے میں داخل ہوا تھا تو میں وہ نہیں تھا جو آج ہوں۔ میرے پاس ابھی میری ڈگری بھی نہیں تھی، بس ایک زعم تھا کہ میں اپنی کلاس کا اول نمبر ہوں، اور مجھ پر فرض کردیا گیا ہے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے۔
ہم یہاں پانچ چھ لوگ آئے تھے، انٹرن شپ کرنے کے نام پر۔ سکول والوں کو ٹیچر چاہیے تھے، اور ہمیں جاب، ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ان کی ایک میڈم سے واقفیت تھی چانچہ ہم یہاں انٹرنی بھرتی ہوگئے۔ ہماری خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ مبلغ نو ہزار روپے مہینہ پر ٹرینی یا انٹرنی، اور مدت آزمائش پوری ہوجانے پر تنخواہ بڑھ جانے کی نوید بھی۔ اور سب سے بڑی بات کام یعنی پڑھانا سیکھنے کی خوشی۔ یہ ادارہ پورے فیصل آباد کے نجی سکولوں میں نئے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے بہت مشہور ہے، چونکہ ان کا پیشہ ورانہ ماحول ہی ایسا ہے کہ ہر کوئی آپ کی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔
خیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھا۔ اور بہت سارے راز بھی کھلے۔ وہ جو سہانے سپنے سجے ہوئے تھے سب ٹوٹ گئے۔ یہ کہ میں ایک اچھا استاد بن سکتا ہوں۔ اب پتا چلا کہ اتنی جلدی بھی نہیں بن سکتا، دو چار سال میں شاید بن جاؤں۔ یہ سپنا کہ کلاس میں اول آنے کے بعد سب قطار میں کھڑے ہوکر نوکری کی آفر دیں گے، اس سکول کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آج تک دوبارہ کال نہیں آئی۔ یعنی ابھی انتظار کرنا ہوگا، شاید دو چار سال اور۔ یہ کہ تنخواہ نو ہزار ہی رہے گی، چاہے جتنا مرضی زور لگا لو۔ نجی شعبے کے سکولوں میں تنخواہ اتنی جلدی نہیں بڑھتی، چناچہ ٹیوشن پڑھاؤ اور اپنی تنخواہ کی کمی ادھر سے پوری کرو۔ جو کہ ہم پڑھا رہے ہیں، جتنی تنخوا ہے اس سے زیادہ روپے 2 گھنٹے کی ٹیوشن سے ملتے ہیں۔
اس نظام میں آکر پتا چلا کہ امیروں کا نظام تعلیم کیا ہے پاکستان میں۔ پہلے صرف سنتے تھے کہ ملک میں کئی طبقاتی نظام تعلیم ہے، کیمبرج سسٹم وغیرہ وغیرہ۔ یہاں آکر پتا چلا کہ کیمبرج سسٹم کیا ہے۔ فیصل آباد کے ان سکولوں کی اوسط فیس چار سے چھ ہزار میں ہے۔ بیکن ہاؤس کی دس ہزار ہے، جو فیصل آباد میں سب سے زیادہ لے رہے ہیں۔ سنا ہے لاہور وغیرہ میں تیس پینتیس اور پچاس ہزار مہینہ تک بھی فیس ہوتی ہے۔ خیر فیس کے بعد یہاں کے اساتذہ ہیں۔ پرانے ہیں تو بیس پچیس ہزاراور بعض اوقات پچاس ہزار یا زیادہ بھی، نئے ہیں تو دس بارہ پندرہ ہزار، اور ساتھ دو چار ٹیوشن، ہوم ٹیوشن جو پانچ ہزار سے پندرہ بیس ہزار تک مل جاتی ہے۔ پرانا ٹیچر تیس سے چالیس ہزار کما لیتا ہے صبح آٹھ سے رات آٹھ کے دوران، یعنی سکول جمع ٹیوشن مل ملا کر۔ سکولوں میں پڑھائی رٹا نہیں سمجھ کی بنیاد پر کروائی جاتی ہے۔ پرچوں سے پہلے پرچوں والے سوالات کے بار بار ٹیسٹ لیے جاتے ہیں تاکہ بچہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائے۔ او لیول اور اے لیول کے امتحان قریب آنے پر بچوں کو پرانے پرچوں سے ہی تیاری کروائی جاتی ہے۔ انھیں اتنی پریکٹس کروا دی جاتی ہے کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں۔ مزید کسر ہوم ٹیوٹر پوری کردیتے ہیں محنت کروا کر۔ استاد موٹرسائیکل پر آتے ہیں اور طلباء ہنڈا سٹی، اکارڈ، پجارو پر۔ یہی حال پھر اساتذہ کی عزت کا بھی ہوتا ہے۔ بیکن ہاؤس جیسے سکول میں تو سنا ہے بہت بدتمیزی کی جاتی ہے استاد کے ساتھ، ہمارے سکول میں کچھ سکون ہے۔ لیکن استاد اور ایک سیلز مین کوئی فرق ہیں، دونوں کا کام مال فروخت کرنا ہے، مہیا کرنا ہے اور بس۔ وہ لوگ فیس بھرتے ہیں کہ انھیں پڑھایا جائے چناچہ استاد کوئی احسان نہیں کررہا۔ واقعی استاد کوئی احسان نہیں کررہا ہوتا، اگر کررہا ہوتا ہے تو اپنے اوپر کہ یہاں سے اسے اچھی ہوم ٹیوشن مل جائیں گی جو اس کی رزی روٹی چلاتی رہیں گی۔
ان بچوں کی انگریزی اچھی ہے، اردو کمزور ہے۔ انگریزی میں پڑھتے ہیں، انگریزی میں لکھتے ہیں اور انگریزی الفاظ بولتے ہیں۔ کئی دفعہ تلفظ میں سر کی بھی غلطی نکال دیتے ہیں، اور ہنس دیتے ہیں۔ جسے سر مسکرا کر پی جاتا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے۔ سر تو کیمبرج سسٹم میں نہیں پڑھ ہوا، اس نے تو گورنمنٹ کھوتی ہائی سکول سے ٹاٹوں پر بیٹھ کر میٹرک کیا تھا۔ قسمت تھی کہ روزی روٹی کی کشش انگریزی پڑھانے کی طرف لے آئی، ورنہ وہ اور اس کی اوقات۔ اردو انھیں صرف بولنی آتی ہے، لکھنے کا کہہ دو تو جان جاتی ہے۔ اردو بورنگ ہے، اردو کے الفاظ بول دو تو سمجھ نہیں سکتے، انگریزی میں ترجمہ کرکے سمجھانا پڑتا ہے۔ ماں باپ پنجابی بولتے تھے کبھی، اب اردو بولتے ہیں اپنے بچوں کے ساتھ، چناچہ بچوں کی مادری زبان اردو ہے، اور پنجابی کو وہ ایک حقارت بھری نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ ابھی بھی پنجابی بولتے ہیں، لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے، یا ایک دوسرے کو ہنسانے کے لیے۔
بچے تو بچے ہیں جی، خواہ امیروں کے ہی ہیں۔ خواہ باپ ڈاکٹر ہے، مل مالک ہے یا گروپ آف انڈسٹریز کا ڈائریکٹر۔ بچے اردو بولیں یا انگریزی، لیکن پاکستانی بچے ہیں۔ ابھی یسو پنجو پاکستانی ہی کھیلتے ہیں، ریڈی گو بھی کھیلتے ہیں، اور برف پانی بھی۔ ہاں ہاکی، ٹینس اور تیراکی غریبوں کے بس کی بات نہیں، وہ اضافی سہولت ہے ان کے پاس۔ سر جی نے خود اپنی ذاتی آنکھوں سے اصلی والا سوئمنگ پول اس سکول میں دیکھا، اس سے پہلے فلموں ڈراموں میں ہی دیکھا تھا۔
نجی شعبے کے ان سکولوں میں ترقی کرنی ہے تو آپ کو ڈرامے باز ہونا پڑے گا۔ کلاس میں داخل ہوتے ساتھ ہی ڈراما شروع کردیں۔ روایتی استادی ختم ہوجاتی ہے کہ آئے بلیک بورڈ بھرا اور چلے گئے۔ بچوں سے کرواؤ۔ بلکہ کرواؤ نہیں ساتھ ڈرامے بھی کرواؤ۔ میتھ پڑھاتے ہو، نفع نقصان کا باب چل رہا ہے، بچوں سے کہو تفریح کے وقت میں خرید و فروخت کا سٹال لگا کر چیزیں بیچیں، پھر پیسے کما کر نفع نقصان نکالیں۔ انگریزی پڑھاتے ہو، تو جینوئن کمیونیکیشن تخلیق کرواؤ، خط لکھواؤ، انٹرنیٹ پر ای میل کرواؤ۔ بچوں کو پریزنٹیشن کا موقع دو، خود سائیڈ پر رہ کر بس گائیڈ لائن دو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انگریزی بولو، خوب انگریزی۔ اگر خاتون ہو تو ترقی کے چانسز اتنے ہی بڑھتے جائیں گے جتنی شلوار اونچی ہوتی جائے گی اور قمیض گلے سے نیچی۔ جتنے ماڈرن اور فیشن ایبل اتنے کامیاب، جتنے کہانی باز اتنے کامیاب، اگر طالب علم راضی تو کیا کرے گا قاضی یعنی سکول کا مالک۔
خیر یہ کچھ تاثرات تھے، اس تعلیمی سال کے اختتام پر۔ دیکھیں اگلا سال کیا لاتا ہے۔ اس برس ایم فِل بھی کرنا ہے شام کی کلاسوں میں، نوکری بھی کرنی ہے۔ اللہ رحمت رکھے، زندگی ذرا اوکھی ہوجائے گی۔ لیکن ساری عمر نجی سکولوں میں نہیں گزارنا چاہتا، اس لیے آگے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

بدھ، 11 مئی، 2011

سوالات

کہانیاں پڑھنے کا شوق مجھے اس وقت سے ہے جب پچاس پیسے میں الاسد پبلی کیشنز کی ننھی کہانیاں بازار سے مل جایا کرتی تھیں۔ فکشن ہمیشہ سے پسندیدہ ادبی صنف رہی ہے۔ اور جب سائنس فکشن ہوجائے تو پھر سونے پر سہاگا ہوجاتا ہے۔ آج کل سٹار ٹریک نیکسٹ جنریشن سلسلے کی ٹی وی سیریز دیکھ رہا ہوں۔ یار لوگوں نے چھوڑی ہے اور بہت دور کی چھوڑی ہے۔
محمدعلی مکی کی یہ پوسٹ دیکھی تو دل کیا میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ تاثرات کیا سوالات ہیں جو یہ سیریز دیکھنے کے بعد سامنے آتے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ کہ انسان اگر روشنی کی رفتار سے دس گنا زیادہ پر بھی سفر کرکے اپنی کہکشاں کا بیس فیصد بھی کور نہیں کرسکتا تو کائنات کے بارے میں کیسے جان سکے گا۔ اس سیریز میں خلائی جہاز اسی رفتار سے سفر کرکے نئے نئے سیاروں پر جاتے ہیں، لیکن اس بات کا اظہار بھی موجود ہے کہ اب بھی انسان فاصلوں کا قیدی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہزاروں میل بہت زیادہ ہوتے تھے، ہزاروں نوری سال بہت زیادہ ہیں۔
میرے ذہن میں وہ وقت آجاتا ہے جب انسان خلاء کا کچھ حصہ ہی سہی مسخر کرلے گا۔ پھر مذہب اور خدا کی حیثیت کیا ہوگی۔ کیا  کسی اور سیارے پر جاکر اسلام پر عمل کیا جاسکے گا؟ جیسا آج زمین پر ہم کرسکتے ہیں۔ اجتہاد کا آپشن بالکل موجود ہے، لیکن میرے ذہن سے یہ سوال نہیں جاتا کہ اگر اللہ سائیں پوری کائنات کے لیے ایک ہے تو نبی مکرم ﷺ بھی ایک ہی ہیں؟ اور کیا یہ زمین کو ہی اعزاز بخشا گیا ہے کہ آخری نبی مبعوث ہو؟ کتنے گنجلک سوال ہیں کہ جن پر غور کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ اہل تصوف و فلسفہ ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں یا ان کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ہمارا تو ایمان ہی ناقص ہے۔
رہی بات ابن رُشد کے فلسفے کی تو اس وقت کے محدود علم کے مطابق اس نے اپنے خیالات کو قرآن سے مطابقت پذیر کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلا اعتراض یہ ہے کہ قرآن سائنس کو کھول کر بیان نہیں کرتا۔ قرآن کے بہت سے بیانات ایسے ہیں کہ انھیں زمین کی تخلیق پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے اور کائنات کی تخلیق پر بھی۔ تخت پانی پر تھا، آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی صرف دھواں تھا۔ یہ تو سیارہ زمین کی حالت بھی ہوسکتی ہے جو شروع میں پگھلی ہوئی چٹانوں کا آمیزہ تھی، اور جس کا کرہ ہوائی تھا ہی نہیں۔ کائنات جتنی وسیع و عریض ہے، اس کو چلانے کے لیے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے جو اس کی حدود سے ماوراء ہو۔ جس پر وقت اور خلا کا اثر نہ ہو۔ اور وہ ہر جگہ موجود ہستی رب کریم کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ جو اس سے پہلے بھی موجود تھی اور بعد میں بھی رہے گی۔ شاید ہم جسے قیامت کہتے ہیں وہ ہر کائنات میں ہر لمحہ برپا ہوتی رہتی ہے، کسی نہ کسی زمین پر، شاید۔ ہمارا علم کائنات کے بارے میں بہت محدود ہے۔ چہ جائیکہ ہم خدا کی حیثیت کا تعین کریں۔ ہمیں تو یہ نہیں پتا کہ جہاں یہ کائنات ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد کیا ہے؟ کیا لامتناہی خلاء ہے یا کسی کمرے کی دیواروں کی طرح سرحدیں ہیں۔ کہ جہاں وقت اور خلا کا تصور ہی مٹ جاتا ہے۔
کائنات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہمیں نظر آتی ہے۔ زمان و مکان کی جن جہتوں سے ہم واقف ہیں ان کے علاوہ بھی جہتیں موجود ہیں۔ اگر محمد الرسول اللہ ﷺ لمحوں میں عرش بریں کا سفر کرکے واپس آسکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کائنات کی بہت سی باتیں ہم سے پوشیدہ ہیں، اور زمان و مکان کے فاصلے ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے جن پر ذات باری کا لطف و کرم ہوتا ہے۔ خدا کلیات سے بھی واقف ہے اور جزئیات سے بھی، اگر وہ ایک انسان ﷺ کو وقت کے پنجے سے نکال کر اپنے پاس بلا سکتا ہے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے، اور ہر جگہ موجود بھی ہوسکتا ہے۔ خدا کی صفات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسے ہر چیز کا علم ہو، اور وہ ہر چیز پر قادر ہو، اس بات پر بھی کہ وہ کائنات کو پیدا اور فنا کرسکے۔ ورنہ اس کے خدا ہونے کے مقام میں شک ہے۔ چناچہ میرا یقین یہ ہے کہ خدا اس کائنات سے پہلے بھی تھا، اس کے ساتھ بھی ہے، اور اس کے بعد بھی رہے گا۔ اگر کبھی یہ کائنات فنا کردی گئی تو۔

پیر، 2 مئی، 2011

کچھ باتیں

ہر عید کے عید ہمارے مولوی صابر سرہندی صاحب یہ مثال دیا کرتے ہیں کہ نماز تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ٹھاٹھ کے نمازی جو سارا سال نماز پڑھتے ہیں، آٹھ کے نمازی جو جمعے کے جمعے نماز پڑتے ہیں اور تین سو ساٹھ کے نمازی جو سال میں عید کے عید نماز پڑھتے ہیں۔ بلاگنگ کے سلسلے میں ہمارا حال بھی تین سو ساٹھ والوں جیسا ہے۔ مہینے کے مہینے ہم ایک آدھ پوسٹ لکھ مارتے ہیں، اور کہنے کو پرانے بلاگرز میں شمار ہوتا ہے ہمارا۔ لو دسو، خیر انگلی کٹا کر ہی سہی، شہیدوں میں توشامل ہوجاتے ہیں۔
آج کئی دنوں کی "برین سٹارمنگ" کے بعد کچھ لکھنے کا من بنا۔ اصل میں لکھنے کا من تھا، لکھنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ اب بلاگ پر 10 لفظی سٹیٹس اپڈیٹ تو دے نہیں سکتے جو آج کل ہم فیس بک پر روزانہ دیا کرتے ہیں۔ خیر چھوٹی چھوٹی کئی ساری باتیں جمع ہوگئی تھیں سوچا لکھ ڈالیں۔
ایک تو یہ کہ ہمارے لیپ ٹاپ کےساتھ یو ایس بی سے منسلک ہونے والے آلات اتنے ہوگئے ہیں کہ ہمارے ٹیبل پر یو ایس بی کا کھلارا پڑ گیا ہے۔ ملاحظۃ کریں
  1. ایکسٹرنل ٹی وی ٹیونر کارڈ
  2. یو ایس بی ماؤس
  3. یو ایس بی سپیکر، کہ لیپ ٹاپ کا ایک سپیکر خراب ہے مزہ نہیں آتا اس سے
  4. یو ایس بی وائرلیس کارڈ، کہ اس کا اپنا وائرلیس کبھی کبھی کنکٹ نہیں کرتا گھر والے وائرلیس راؤٹر سے
  5. سکینر
  6. پرنٹر
آپ شاید یہ کہیں کہ میاں اس لیپ ٹاپ کو پیار سے اٹھا کر باہر لے جاؤ زور سے نیچے پھینک کر توڑ ڈالو، لیکن کیا کریں صاحب لیپ ٹاپ ٹھیک چلتا ہے، اگلے دو سال اسی پر گزارنے کی پلاننگ ہے اس لیے ہم لیے پھرتے ہیں اسے ہیں۔
اور کیا تھا؟ ہاں اور یہ تھا کہ ہالی ووڈ کی موویاں اور ٹی وی سریز دیکھ دیکھ کر ہماری انگریزی سننے کی صلاحیت بہتر ہوگئی ہے۔ معیاری امریکی انگریزی باآسانی سمجھ میں آجاتی ہے۔ لیکن فلموں میں کالوں کی انگریزی اب بھی سر پر سے گزر جاتی ہے، ان کا نچلے طبقے والا لہجہ ہوتا ہے جو معیاری امریکی انگریزی لہجے سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن لندن والوں کی انگریزی ابھی کم پلے پڑتی ہے، چونکہ فلمیں شلمیں ساری ہالی ووڈ کی ہی دیکھنی ہوتی ہیں۔ احباب جو انگریزی بہتر کرنا چاہیں انگریزی فلمیں ضرور دیکھیں۔
اور؟ اور یہ کہ ہم مزدوروں والی تنخواہ پر ایک پرائیویٹ سکول میں پڑھا رہے ہیں، انگریزی۔ دعا کی درخواست ہے کہ اللہ اس سے بہتر سلسلہ بنا دے۔ اللہ کی یہاں بھی بڑی رحمت ہے، پر بندہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے، ہمیں بھی یہی تلاش ہے۔  اس سال ہمارا ارادہ یا تو ایم فِل کرنے کا ہے، یا لسانیات میں باہر کوئی سکالرشپ ہوئی تو وہاں بھی اپلائی کریں گے۔ پچھلے سال تو ہماری ڈگری ہی تھیسز کی وجہ سے لیٹ ہوگئی تھی۔

ہفتہ، 2 اپریل، 2011

اٹھارہویں ترمیم، کنکرنٹ لسٹ اور تعلیم

پچھلے کچھ دنوں سے مزید وزارتیں صوبوں کو منتقل کرنے کی باتیں ہورہی ہے۔ میں عمومًا حکومت کے کُت خانے میں نہیں پڑتا لیکن تعلیم چونکہ میرا پیشہ بھی ہے، اور طالب علم بھی ہوں اس لیے مجھے تعلیم کی وزارت کی صوبوں کو منتقلی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ایک طرف ہمارے "وڈے" نظریہ پاکستان وغیرہم نظریات کے مامے بنتے ہیں اور دوسری طرف صوبوں کو وزارت تعلیم اور نصاب سازی کا اختیار دیا جارہا ہے۔ یعنی ہر صوبہ اپنی مرضی کا نصاب بنانے میں آزاد ہوگا۔ اور جہاں تک میرا خیال ہے نظریہ پاکستان کا بُخار لاہور کے دائیں بازو والوں کو ہی سب سے زیادہ ہے مُلک میں، بلوچستان کی طرف نکل جائیں تو وہاں نظریہ پاکستان کا ن بھی گھس گھس کر ختم ہوجاتا ہے۔ نصاب میں آئندہ پانچ سات برس میں آنے والی یہ مشرق و مغرب کی تفاوت، کسی مرکزی باڈی کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام میں مزید تقسیم در تقسیم ڈانواں ڈول ہوتے اس مُلک کے مفاد میں ہے بھلا؟
چلیں وزارت تعلیم کو چھوڑیں، میاں رضا ربانی صاحب کو ہائیر ایچوکیشن کمیشن سے اللہ واسطے کا بیر لگ رہا ہے۔ موصوف اس کے حصے بخرے کرکے بھی صوبوں کو دینا چاہ رہے ہیں۔ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ غصہ نکالا جارہا ہے جعلی ڈگریوں کی جانچ پڑتال میں دیانت داری برتنے کا۔ موصوف بن بیٹھے تو منصف ہیں لیکن اس سارے قضیے کا حال بندر اور روٹی والا ہونا ہے کہ آخر میں ہاتھ کچھ بھی نہیں آنا اور عوام نے ذلیل و خوار ہوجانا ہے۔ ایچ ای سی اس وقت ملک میں اعلی تعلیم کو کنٹرول کرنے والا مرکزی ادارہ ہے۔ اس کے تحت سکالر شپس، ڈگریوں کی تصدیق،، یونیورسٹیوں کی ریٹنگ وغیرہ کے معاملات چلتے ہیں۔ اور ہمارے وژن لیس سیاہ ستدان اسے صوبوں کو منتقل کررہے ہیں، وہ بھی حصے بخرے کرکے۔ اس کے کچھ اختیارات مختلف وفاقی وزارتوں کو دے دئیے جائیں گے اور باقی صوبوں کے حوالے کردئیے جائیں گے۔ اور امیدوار جگہ جگہ دھکے کھاتے پھریں گے۔ عجیب ذلالت ہے ویسے، مشرف جیسا بھی تھا اُس نے اعلی تعلیم کو فری ہینڈ دئیے رکھا۔ ان لوگوں نے آکر ایچ ای سی کو پہلے دیوار سے لگانا شروع کیا اب ختم کرنے پر تُل گئے ہیں۔
ایچ ای سی کے سلسلے میں پچھلے دو تین دن سے خبریں پڑھ رہا ہوں۔ آپ بھی ملاحظہ کریں۔

جمعرات، 10 مارچ، 2011

بےبسی

ابا جی ناشتے کی ریڑھی لگایا کرتے تھے۔ میری عمر اس وقت یہی کوئی بارہ تیرہ سال تھی، ساتویں آٹھویں میں پڑھتا تھا۔ ہمارا اڈہ جس جگہ واقع تھا وہ ریلوے سٹیشن کے قریب سڑک کے ساتھ ریلوے کی حدود میں زمین تھی۔ سٹیشن ہیڈماسٹر کو ہم سے جانے کیا بیر تھا، اس نے پہلے تو اڈہ اٹھا لینے کی وارننگ دی اور پھر پولیس بلالی۔ وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ پولیس والے ہمارا سارا سامان اٹھا کر سٹیشن پر لے آئے تھے۔ سالن، روٹی، چاول، اور بینچ وغیرہ۔ اور اپنا ناشتا اور لنچ انھوں نے وہیں سے کیا تھا۔ میں ابو کے پاس دوپہر میں شاید روٹیاں دینے گیا جب مجھے یہ پتا چلا۔ اس دن کی بےبسی مجھے آج تک نہیں بھولی۔
اس دن اپنے آفس میں اونچے ڈیسک کے پیچھے بیٹھا ہوا، فیصل آباد کے اس چھوٹے سے سٹیشن کا اسٹیشن ماسٹر مجھے وقت کا فرعون لگا۔ اس کا لہجہ تحکمانہ تھا، انداز مغرور اور زبان پر ایک ہی بات کہ تمہارے خلاف پرچہ کروا دینا ہے، تم نے سرکاری زمین پر اڈہ لگایا ہے۔ اور اس کے سامنے کھڑے ہوئے میرے والد اور میں۔ ہمارے ہاتھ جُڑے ہوئے اور آنکھوں میں آنسو، اور زبان پر منت کہ ہم پر رحم کرو، خدا کا واسطہ ہم پر رحم کرو۔
وہ دن مجھے آج بھی نہیں بھُولا، جب میرے گھر کے نو افراد کا دارومدار ناشتے کے اس اڈے پر تھا، اور اس اڈے کا دارومدار اس غیرمعروف اسٹیشن کے سٹیشن ماسٹر کے فیصلے پر۔ اس دن کی بے بسی، بےکسی، لاچارگی اور ذلت میری ہڈیوں میں آج بھی ویسے ہی موجود ہے، اور ساری عمر رہے گی۔ ایک وقت تھا جب میری اوقات یہ تھی۔ میں چاہے کچھ بھی بن جاؤں، وہ دن، وہ جڑے ہوئے ہاتھ، اور اپنے ہی آنسو، ہمیشہ تازہ رہیں گے۔

منگل، 4 جنوری، 2011

شارٹ کٹ اسلام

لو جی پی پی پی کو ایک اور شہید مل گیا۔ مرنے والا جیسا بھی تھا،جو بھی تھا۔اس کے خلاف کاروائی کا اختیار حکومت وقت کو تھا یا مرنے کے بعد ذات باری کو ہے۔ پر ہمارے ڈنڈا بردار کلاشنکوف شارٹ کٹ اسلام نے اسے ٹھنڈا کرکے اپنے لیے جنت پکی کرلی ہے۔
یہ اچھا راستہ ملا ہے یار لوگوں کو۔ ایک طرف وہ ہیں جو ساری عمر کِیسی کرتے رہیں، متھا رگڑتے رہیں اور اینڈ پر جاکر پھر شک ہی ہو کہ پتا نہیں مغفرت ہوگی بھی نہیں، اور ایک طرف یہ ایک گولی بندوق کسی بھی وقت، یا ایک باردی جیکٹ خود کش حملے والی۔ سادہ نسخہ ٹرائی کریں اور ڈائرکٹ جنت میں جائیں۔ یہ قادری تو جنتی ہوگیا جی پکا پکا۔ دنیا بگاڑ کر آخرت سنوار بیٹھا۔
خبردار، خبردار اب کوئی اور نہ بولے۔ نہیں تو جنت کی ریس میں کسی اور کا شارٹ کٹ لگ جائے گا۔ چُپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر، 3 جنوری، 2011

کچھ تصویریں

کہتے ہیں ایک تصویر بعض اوقات وہ کچھ کہہ جاتی ہے جو سینکڑوں الفاظ نہ کہہ سکیں۔ ملاحظہ کریں یہ تصاویر۔


ہفتہ، 1 جنوری، 2011

مدیر گلوبل سائنس علیم احمد کے ساتھ کچھ تبادلہ خیال

گلوبل سائنس سے ہمارا رشتہ کوئی 9 سال پرانا ہے۔ 2001 میں پہلی بار گلوبل سائنس لے کر پڑھا تھا اور اب 2011 آگیا ہے۔ اس میں کئی بار لکھنے کا موقع بھی ملا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ برادرم علیم احمد نے مجھے کل خصوصی طور پر ای میل کی جس میں میرے پچھلے مضمون، جو اومیگا ٹی اوپن سورس ٹرانسلیشن ٹول پر لکھا گیا تھا، کی تعریف کی گئی تھی اور مزید ٹیوٹوریلز باقاعدگی سے لکھنے پر بھی اصرار شامل تھا۔ علیم بھائی کے کہنے پر ہی اس ساری خط و کتابت کو اپنے بلاگ پر شائع کررہا ہوں، چونکہ انھیں کمپیوٹر کے موضوعات پر لکھنے والوں کی ضرورت ہے۔ اردو بلاگنگ کمیونٹی سے اس سلسلے میں ہغور کی اپیل ہے۔ گلوبل سائنس جیسے پرچے میں لکھنا کوئی خالہ جی کا واڑہ نہیں ہے۔
Brother Shakir Aziz,
Assalaam U Alaikum,
I feel pleased to inform you that we have decided to celebrate 2011 as the year of revival and reinvention for monthly Global Science. As a matter of fact, it's a huge task to accomplish; and we can't do it alone. Therefore, I seek your cooperation on regular basis; and request you to write IT-related features/ tutorials for Global Science - that is, every month. You may also know that - during the last four or five years - tutorials like PHP, MySQL and others were left incompleted. I'd like to re-begin these tutorials, to complete before the end of 2011. Besides, Dr. Zeeshan Ul Hassan Usmani personally appreciated your article on OmegaT (translation memory software). On similar track, I'll appreciate if you write about more Urdu-language, Open Source, and free utilities available on the net; and how our readers can make better use of them.
Whatever your response may be, I'll appreciate an earliest possible reply from you.
Wassalaam,
Aleem Ahmed,
Monthly Global Science
Room Number 139,
Sunny Plaza,
Hasrat Mohani Road,
Karachi-74200
Pakistan.
اسلام و علیکم
آپ کی ای میل کا شکریہ
ماشاءاللہ یہ سن کر خوشی ہوئی کہ گلوبل سائنس نئے جذبے سے 2011 میں داخل ہورہا ہے۔ ٹیوٹوریل کی فراہمی کے سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا ہوں اور کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے صارفین کو بھی اس سے آگاہی حاصل ہو۔ کمپیوٹنگ ایسا رسالہ تھا جس میں میں نے، اور محمد علی مکی نے باقاعدگی سے لکھا۔ اس کی وجوہات میں ایک تو اس کا مکمل طور پر کمپیوٹر کے موضوعات پر مبنی ہونا تھا، دوسرے اس وقت اتنی مصروفیت نہیں تھی، تیسری وجہ ہمارا امانت علی گوہر اور دوسرے مدیران وغیرہ سے آنلائن واقفیت اور اکثر گفتگو و چیٹ تھی۔ ایک اور وجہ ظاہر ہے ان کی طرف سے ادا کیا جانے والا معمولی سا مشاہرہ بھی تھا۔ گلوبل سائنس کے سلسلے میں کئی بار تو یہ دل کیا کہ آپ کے اعزازی مدیر والے پلان میں حصہ لوں تاہم مصروفیت اور گلوبل سائنس کے مزاج کی وجہ سے ایسا نہ کرسکا۔ چونکہ یہاں سب کچھ ٹیوٹوریلز ہی نہیں ہوسکتے، یہ ایک عمومی سائنسی جریدہ ہے۔ تاہم میری کوشش ہوگی کہ اپنے محدود علم کے مطابق وقتًا فوقتًا آپ کو ٹیوٹوریلز ارسال کرتا رہوں۔ پروگرامنگ کے ٹیوٹوریلز کے بارے میں عرض یہ ہے کہ میرا علم اس سلسلے میں خاصا محدود ہے، سی شارپ کبھی سیکھی تھی کارپس لنگوئسٹکس اور ٹیکسٹ پروسیسنگ کے لیے، یہ سیلف سٹڈی نالج ہی ہے میرے پاس، اس کے علاوہ کسی اور پروگرامنگ زبان سے نابلد ہوں۔ چناچہ اس سلسلے میں پرانے ٹیوٹوریلز کو آگے لے کر نہیں چل سکوں گا۔ لینکس وغیرہ پر ٹیوٹوریلز کے لیے میں محمد علی مکی کا نام تجویز کروں گا۔ اردو لینکس کے سلسلے میں ان کا بہت کام ہے اور آپ کو بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ دوسرے میری یہ گزارش ہوگی کہ اردو بلاگز اور اردو فورمز خصوصًا اردو ویب محفل، پر ضرور تشریف آوری رکھیں۔ آپ جو مسائل گلوبل سائنس کے ادارے میں اٹھاتے ہیں وہی مسائل آپ ان فورمز پر اٹھا کر زیادہ بہتر رسپانس حاصل کرسکتے ہیں۔ میری مراد ادارے کے مالی مسائل، اور نئے لکھاریوں کی فراہمی وغیرہ سے ہے۔ اردو انٹرنیٹ کمیونٹی بہت فعال ہوچکی ہے اور اب بھی اس سے دور رہنا گلوبل سائنس کے مستقبل کے لیے اچھی چیز نہیں ہوگی۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک ہنرمند موجود ہے، امید ہے آپ کی کمپیوٹر سے متعلق لکھاریوں کی کمی یہاں سے پوری ہوسکتی ہے۔ نیز آپ کو اردو سے متعلق بہت سی خبریں بھی ان ویب سائٹس سے حاصل ہوسکتی ہیں۔
اور آخر میں آپ کو نیا سال مبارک۔ ای میل اردو میں لکھی ہے چونکہ اردو ہی ہمارا مقصد ہے ۔
نیک خواہشات کے ساتھ
وسلام
Shakir Mian,
Assalaam U Alaikum,

sub say pehlay to mu'azrat chahoonga keh main yeh jawab Roman Urdu main likh raha hoon. Dar-asl meray computer main Urdu support bohet achchhi naheen, jebkeh mujhay Muqtadira kay puranay (1990 kay zamanay walay) keyboard per kaam kernay kee adat hay, aur koshish kay bawajood main phonetic keyboard per apna haath rawaan naheen kersaka.

Global Science kay baaray main aap ka farmana bilkul baja hay keh yeh science ka umoomi jareeda hay, jiss main computer or information technology kay mazameen "bhee" shamil hotay hain - y'ani hum poora shumara computer or IT kay leay makhtes naheen kersaktay. Yeh hamari aik idarti majboori hay. Computing kay zareay Amanat Ali Gauher nay koshish to bohet achchhi kee thee, (.....)

Main yeh da'wa bhee naheen karoonga keh agar aap logon main say koi Global Science kay leay likhay ga to hum usay m'uawza day sakaingay; taahem, itna yaqeen zuroor dila sakta hoon keh Global Science kay zareay aap ke awaz, Pakistan bher main phailay huay, unn logon tek zuroor ponhchay gee jo computer ka shauq rakhtay hain aur isay sanjeedgi say seekhna chaahtay hain.

Global Science kay saath t'aawun kay leay main chahoon ga keh agar aap meri saabiqah email aur apna jawab apni website per deegar ahbaab kay mulahizay kay leay rakh dain to shayed koi naya likhnay wala is jaanib mutawajjuh hosakay. Aap say email per raabta rahay gaa, aur, aanay waalay dino main, In-sha-Allah, hum koi aisa raasta zuroor nikaal laingay jiss say aap kay idaray/ website ka bhee fayeda ho aur humain bhee apna kaam behter taur per anjaam dainay ka mauqa milay.

Wasslaam,
Aleem Ahmed,
Monthly Global Science
Room Number 139,
Sunny Plaza,
Hasrat Mohani Road,
Karachi-74200
Pakistan.
وعلیکم سلام بھائی جی
آپ نے بڑی نستعلیق اردو فرنگیوں کے رسم الخط میں لکھی۔ بے تکلفی اور مخصوص فیصل آباد سٹائل میں آنے پر معذرت نہیں چاہوں گا۔ آپ کی پہلی انگریزی ای میل کی وجہ سے فارمیلٹی سی بن گئی تھی ورنہ گلوبل سائنس تو گھر والی بات ہے۔ :-)
اب بات کیے لیتے ہیں کمپیوٹنگ کی۔ آپ کے نکتہ نظر کا احترام کروں گا تاہم اس سلسلے میں میری رائے محفوظ ہے۔ کمپیوٹنگ اچھی کوشش تھی جو اگر جاری رہتی تو اردو والوں کا بہت فائدہ ہوسکتا تھا۔ ان لوگوں کا اپنے لکھاریوں سے بہت قریبی رابطہ تھا۔ اور اس چیز کی گلوبل سائنس کی انتظامیہ میں کمی ہے۔ اب آپ یہ دیکھ لیں کہ آپ کے علم میں یہ نہیں ہے کہ مقتدرہ کا کی بورڈ ونڈوز کے لیے بن چکا ہے۔ اور یہ اردو محفل پر ہی موجود تھا۔ ملاحظہ کریں۔ میں پھر گزارش کروں گا کہ گلوبل سائنس کی انتظامیہ کو انٹرنیٹ اردو کمیونٹی کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اپنے قارئین سے قریبی تعلق رکھنے کے لیے فیس بُک خصوصًا اردو فورمز پر تشریف آوری رکھنے کی ضرورت ہے، آپ کو بہت سی ایسی چیزیں ملیں گی جن سے ادارے کا نہ صرف بھلا ہوسکتا ہے بلکہ آپ کی انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کے بارے میں اپروچ بھی بدلے گی۔ نیٹ نامہ وغیرہ کے سلسلے میں مجھے سخت اعتراض ہے کہ اس میں اردو کی ایک بھی ویب سائٹ کا کبھی تعارف شامل نہیں کیا گیا، جبکہ یہاں اردو فونٹس، اردو فورمز اور اردو سافٹویرز کے ڈھیر موجود ہیں۔ آپ کا قاری انٹرنیٹ سے کھیلتا ہے پاء جی اب، اسے ٹربل شوٹنگ، ونڈوز ٹپس وغیرہ جیسی چیزیں دکھا کر مطمئن کرنا میرے ذاتی خیال سے اب اتنا آسان نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاؤ ٹو کے تو ڈھیر لگے ہوئے ہیں، ونڈوز کی ٹربل شوٹنگ جتنی کہیں اتنی، انگریزی سے ترجمہ کرکے چھاپ دینا ہی مقصد نہیں ہونا چاہیے۔۔ اس لیے میں نے عرض کیا تھا کہ محمد علی مکی اور اس جیسے دوسرے لکھاریوں سے رابطے میں رہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس آپ کو دے چکا ہوں۔ اردو بلاگرز ہی آپ کے لیے اتنا کچھ لکھ سکتے ہیں کہ آپ کو اور کسی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔
اور آخر میں یہ کہ معاوضہ ہر کسی کو اچھا لگتا ہے، تاہم گلوبل سائنس کے معیار کے پرچے میں لکھنا بھی بڑی بات ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو کمپیوٹر پر لکھنے والوں کی ایک اچھی خاصی ٹیم مل جائے گی۔ یہ ای میل، اور آپ کے جوابات میں اپنے بلاگ پر شائع کررہا ہوں۔ جس کا ربط آپ کو بھیج دوں گا تاکہ آپ بھی تازہ ترین تبصروں اور اپڈیٹس سے آگاہ رہیں۔
وسلام