بدھ، 11 مئی، 2011

سوالات

کہانیاں پڑھنے کا شوق مجھے اس وقت سے ہے جب پچاس پیسے میں الاسد پبلی کیشنز کی ننھی کہانیاں بازار سے مل جایا کرتی تھیں۔ فکشن ہمیشہ سے پسندیدہ ادبی صنف رہی ہے۔ اور جب سائنس فکشن ہوجائے تو پھر سونے پر سہاگا ہوجاتا ہے۔ آج کل سٹار ٹریک نیکسٹ جنریشن سلسلے کی ٹی وی سیریز دیکھ رہا ہوں۔ یار لوگوں نے چھوڑی ہے اور بہت دور کی چھوڑی ہے۔
محمدعلی مکی کی یہ پوسٹ دیکھی تو دل کیا میں بھی اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔ تاثرات کیا سوالات ہیں جو یہ سیریز دیکھنے کے بعد سامنے آتے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ کہ انسان اگر روشنی کی رفتار سے دس گنا زیادہ پر بھی سفر کرکے اپنی کہکشاں کا بیس فیصد بھی کور نہیں کرسکتا تو کائنات کے بارے میں کیسے جان سکے گا۔ اس سیریز میں خلائی جہاز اسی رفتار سے سفر کرکے نئے نئے سیاروں پر جاتے ہیں، لیکن اس بات کا اظہار بھی موجود ہے کہ اب بھی انسان فاصلوں کا قیدی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ہزاروں میل بہت زیادہ ہوتے تھے، ہزاروں نوری سال بہت زیادہ ہیں۔
میرے ذہن میں وہ وقت آجاتا ہے جب انسان خلاء کا کچھ حصہ ہی سہی مسخر کرلے گا۔ پھر مذہب اور خدا کی حیثیت کیا ہوگی۔ کیا  کسی اور سیارے پر جاکر اسلام پر عمل کیا جاسکے گا؟ جیسا آج زمین پر ہم کرسکتے ہیں۔ اجتہاد کا آپشن بالکل موجود ہے، لیکن میرے ذہن سے یہ سوال نہیں جاتا کہ اگر اللہ سائیں پوری کائنات کے لیے ایک ہے تو نبی مکرم ﷺ بھی ایک ہی ہیں؟ اور کیا یہ زمین کو ہی اعزاز بخشا گیا ہے کہ آخری نبی مبعوث ہو؟ کتنے گنجلک سوال ہیں کہ جن پر غور کرتے ہوئے پر جلتے ہیں۔ اہل تصوف و فلسفہ ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں یا ان کے بارے میں سوچنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ہمارا تو ایمان ہی ناقص ہے۔
رہی بات ابن رُشد کے فلسفے کی تو اس وقت کے محدود علم کے مطابق اس نے اپنے خیالات کو قرآن سے مطابقت پذیر کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلا اعتراض یہ ہے کہ قرآن سائنس کو کھول کر بیان نہیں کرتا۔ قرآن کے بہت سے بیانات ایسے ہیں کہ انھیں زمین کی تخلیق پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے اور کائنات کی تخلیق پر بھی۔ تخت پانی پر تھا، آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو ابھی صرف دھواں تھا۔ یہ تو سیارہ زمین کی حالت بھی ہوسکتی ہے جو شروع میں پگھلی ہوئی چٹانوں کا آمیزہ تھی، اور جس کا کرہ ہوائی تھا ہی نہیں۔ کائنات جتنی وسیع و عریض ہے، اس کو چلانے کے لیے کوئی ایسی ہستی ہونی چاہیے جو اس کی حدود سے ماوراء ہو۔ جس پر وقت اور خلا کا اثر نہ ہو۔ اور وہ ہر جگہ موجود ہستی رب کریم کی ذات ہی ہوسکتی ہے۔ جو اس سے پہلے بھی موجود تھی اور بعد میں بھی رہے گی۔ شاید ہم جسے قیامت کہتے ہیں وہ ہر کائنات میں ہر لمحہ برپا ہوتی رہتی ہے، کسی نہ کسی زمین پر، شاید۔ ہمارا علم کائنات کے بارے میں بہت محدود ہے۔ چہ جائیکہ ہم خدا کی حیثیت کا تعین کریں۔ ہمیں تو یہ نہیں پتا کہ جہاں یہ کائنات ختم ہوجاتی ہے اس کے بعد کیا ہے؟ کیا لامتناہی خلاء ہے یا کسی کمرے کی دیواروں کی طرح سرحدیں ہیں۔ کہ جہاں وقت اور خلا کا تصور ہی مٹ جاتا ہے۔
کائنات اتنی سادہ نہیں ہے جتنی ہمیں نظر آتی ہے۔ زمان و مکان کی جن جہتوں سے ہم واقف ہیں ان کے علاوہ بھی جہتیں موجود ہیں۔ اگر محمد الرسول اللہ ﷺ لمحوں میں عرش بریں کا سفر کرکے واپس آسکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کائنات کی بہت سی باتیں ہم سے پوشیدہ ہیں، اور زمان و مکان کے فاصلے ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے جن پر ذات باری کا لطف و کرم ہوتا ہے۔ خدا کلیات سے بھی واقف ہے اور جزئیات سے بھی، اگر وہ ایک انسان ﷺ کو وقت کے پنجے سے نکال کر اپنے پاس بلا سکتا ہے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے، اور ہر جگہ موجود بھی ہوسکتا ہے۔ خدا کی صفات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسے ہر چیز کا علم ہو، اور وہ ہر چیز پر قادر ہو، اس بات پر بھی کہ وہ کائنات کو پیدا اور فنا کرسکے۔ ورنہ اس کے خدا ہونے کے مقام میں شک ہے۔ چناچہ میرا یقین یہ ہے کہ خدا اس کائنات سے پہلے بھی تھا، اس کے ساتھ بھی ہے، اور اس کے بعد بھی رہے گا۔ اگر کبھی یہ کائنات فنا کردی گئی تو۔

7 تبصرے:

  1. شکر ہے آپکو خدا کی ذات پر یقین ہے ایسی باتیں ہوتی ہیں جو کہ سوچی بھی نہیں جاتیں لیکن یار لوگ انہیں لکھ اپنے آپ کو فلسفی اور جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں شکر ہے کہ آپ نے مثبت لکھا ہے ورنہ ایسے ایسے تبصرے اور خیالات کا خطرہ ہوتا ہے جس میں گستاخی کا پہلو شامل ہوتا ہے
    ہمارے پاس اور بھی کئی موضوعات ہیں جن پر ابھی بات کی جانی چاہئے مطلب یہ کہ ایسی بات نہ کریں کہ اللہ کی ذات ناراض ہوجائے۔
    شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. پہلے تو آپ کو "تجدید ایمان" مبارک ہو۔
    دوسرا یہ کہ پوری انسانی تاریخ میں خدا کے وجود کا انکار تو بہت کم ہوا ہے۔ یہ محض تصور خدا ہے جس میں اختلاف رہا ہے۔ جہاں کہیں دو ذہن موجود ہوں گے ان کا تصور خدا کسی نہ کسی سطح پر جا کر ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔

    آپ کا اللہ پہ ایمان پڑھ کر کر جی خوش ہوگیا۔

    قرآن کریم تاریخی یا سائنسی کتاب نہیں کہ ہر واقعہ یا ہر راز کو کھول کر بیان کرے۔ قرآن کریم ایک الہامی کتاب ہے ۔ جس میںاچھوں اور بروں کے چیدہ چیدہ حالات زندگی بیان کرنے کے بعد۔ انکی اچھائیوں اور برائیوں پہ جزا و سزا اور انکا انجام بیان کیا گیا ہے۔ اچھے برے کی تمیز سکھائی گئی ہے۔ زندگی کے بنیادی قانون قاعدوں کے بارے احکامات ہیں۔ یعنی باالفاط دیگر قرآن کریم بنی نوع انسان کے لئیے انفرادی اور اجتماعی ھدایت اور رحمت ہے۔

    اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ کوئی اس سے کیسے رہنمائی پاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. کم و بیش ایسے ہی خیالات میرے ہیں
    اور ایسے ہی سوالات میرے ذہن میں بھی آتے رہتے ہیں
    لیکن چونکہ میں انہیں ایسے بیان نہیں کرسکتا جیسا آپ نے کیا۔
    جزاک اللہ خیر
    لکھ تو دیا ہے، آپ اس کا تمسخر اڑا تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. سائنس چینل پر ابھی کچھ دن پہلے ایک سیریرز آئی تھی تھرو دی ورم ہول۔ بہت دلچسپ اور اسٹار ٹریک سے بھی دو ہاتھ آگے اور حقیقی سائنس۔ اس سے آپ کو شاید پہلے سوال کا جواب مل جائے کہ نوری سالوں میں سفر کرنے کے لیے شاید کچھ شارٹ کٹ موجود ہیں۔
    http://science.discovery.com/tv/through-the-wormhole/

    باقی جی غور و فکر اور گفتگو سے ایمان ضائع نہیں ہوتے ایمان اگر اتنی نازک چیز ہے تو پھر اس پر اتنی کڑی سزا اور جزا بے معنی ہوجائے گی۔۔ تقلید ذہن میں جالے ڈال دیتی ہے اس سے اجتناب کریں۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. کائنات کی ساخت ، وقت اور رب سائیں
    میں نے یه پنجابی میں کچھ لکھا تھا دو سال پہلے

    اگر پنجابی کی سمجھ لگے تو
    http://khawarking.blogspot.com/2009/01/blog-post_7236.html
    رب بہت وڈا ہے جی
    جو میرے ذہن میں تصور هے
    اس میں یه کائنات ، جس کی وسعت کو بندھ نهیں پا سکا
    اس جیسی کچھ اور بھی هوں تو
    اس طرح هو سکتا هے که ایک ایک سلیٹ پر سب لاٹو چل رهے هوں اور"وه"ان پر نظر رکھے نظیر محیط کبیر قریب ،سب کچھ هو

    جواب دیںحذف کریں
  7. ہزاروں سال پہلے ایک سوال کچھ اس طرح کا تھا۔
    ’زمین بہت بڑی ہے اس کے دوسرے کنارے تک جانے کے لئے آّپ کو ایک تیز رفتار گھوڑے کی ضرورت ہو گی فرض کریں ایک گھوڑا تقریباً ایک ہزار کلومیٹر تک آپ کو لے جائے تو پھر بھی آپ کو بیسیوں گھوڑوں کی ضرورت ہو گی اور یہ گھوڑے ہزاروں من خوراک کھا جائیں گے۔ یہ خوراک کہاں سے آئے گی اور سفر میں ساتھ کیسے جائے گی اس لئے زمین کے دوسرے کنارے تک جانا ناممکن ہے۔‘
    کیا اب آپ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ سائنس ابھی اتنی ترقی نہیں کر سکتی کہ موجودہ دور کے ان موجودہ سوالوں کا جواب دے سکے۔
    اللہ تعالی اپنے پسندیدہ بندوں کے لئے زمان و مکان کی قید ختم کر دیتا ہے۔ اللہ کے یہی بندے ان سارے سوالوں کے جواب بھی جانتے ہیں۔ جو اللہ نے اپنے کرم سے ان کو عطا کیے ہیں۔ جس کو ایسے سوالوں کے جواب جاننے کی ضرورت ہو وہ کوشش کرے کہ اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو جائے۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔