ہفتہ، 14 مئی، 2011

ایک سال

آج مجھے اس سکول میں کام کرتے ایک سال تو نہیں ہوا تاہم تعلیمی سال ختم ہوگیا۔ آج سے کوئی دس ماہ پہلے، اگست 2010 میں جب میں اس ادارے میں داخل ہوا تھا تو میں وہ نہیں تھا جو آج ہوں۔ میرے پاس ابھی میری ڈگری بھی نہیں تھی، بس ایک زعم تھا کہ میں اپنی کلاس کا اول نمبر ہوں، اور مجھ پر فرض کردیا گیا ہے کہ مجھے سب کچھ آتا ہے۔
ہم یہاں پانچ چھ لوگ آئے تھے، انٹرن شپ کرنے کے نام پر۔ سکول والوں کو ٹیچر چاہیے تھے، اور ہمیں جاب، ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی ان کی ایک میڈم سے واقفیت تھی چانچہ ہم یہاں انٹرنی بھرتی ہوگئے۔ ہماری خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ مبلغ نو ہزار روپے مہینہ پر ٹرینی یا انٹرنی، اور مدت آزمائش پوری ہوجانے پر تنخواہ بڑھ جانے کی نوید بھی۔ اور سب سے بڑی بات کام یعنی پڑھانا سیکھنے کی خوشی۔ یہ ادارہ پورے فیصل آباد کے نجی سکولوں میں نئے اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے بہت مشہور ہے، چونکہ ان کا پیشہ ورانہ ماحول ہی ایسا ہے کہ ہر کوئی آپ کی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔
خیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھا۔ اور بہت سارے راز بھی کھلے۔ وہ جو سہانے سپنے سجے ہوئے تھے سب ٹوٹ گئے۔ یہ کہ میں ایک اچھا استاد بن سکتا ہوں۔ اب پتا چلا کہ اتنی جلدی بھی نہیں بن سکتا، دو چار سال میں شاید بن جاؤں۔ یہ سپنا کہ کلاس میں اول آنے کے بعد سب قطار میں کھڑے ہوکر نوکری کی آفر دیں گے، اس سکول کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آج تک دوبارہ کال نہیں آئی۔ یعنی ابھی انتظار کرنا ہوگا، شاید دو چار سال اور۔ یہ کہ تنخواہ نو ہزار ہی رہے گی، چاہے جتنا مرضی زور لگا لو۔ نجی شعبے کے سکولوں میں تنخواہ اتنی جلدی نہیں بڑھتی، چناچہ ٹیوشن پڑھاؤ اور اپنی تنخواہ کی کمی ادھر سے پوری کرو۔ جو کہ ہم پڑھا رہے ہیں، جتنی تنخوا ہے اس سے زیادہ روپے 2 گھنٹے کی ٹیوشن سے ملتے ہیں۔
اس نظام میں آکر پتا چلا کہ امیروں کا نظام تعلیم کیا ہے پاکستان میں۔ پہلے صرف سنتے تھے کہ ملک میں کئی طبقاتی نظام تعلیم ہے، کیمبرج سسٹم وغیرہ وغیرہ۔ یہاں آکر پتا چلا کہ کیمبرج سسٹم کیا ہے۔ فیصل آباد کے ان سکولوں کی اوسط فیس چار سے چھ ہزار میں ہے۔ بیکن ہاؤس کی دس ہزار ہے، جو فیصل آباد میں سب سے زیادہ لے رہے ہیں۔ سنا ہے لاہور وغیرہ میں تیس پینتیس اور پچاس ہزار مہینہ تک بھی فیس ہوتی ہے۔ خیر فیس کے بعد یہاں کے اساتذہ ہیں۔ پرانے ہیں تو بیس پچیس ہزاراور بعض اوقات پچاس ہزار یا زیادہ بھی، نئے ہیں تو دس بارہ پندرہ ہزار، اور ساتھ دو چار ٹیوشن، ہوم ٹیوشن جو پانچ ہزار سے پندرہ بیس ہزار تک مل جاتی ہے۔ پرانا ٹیچر تیس سے چالیس ہزار کما لیتا ہے صبح آٹھ سے رات آٹھ کے دوران، یعنی سکول جمع ٹیوشن مل ملا کر۔ سکولوں میں پڑھائی رٹا نہیں سمجھ کی بنیاد پر کروائی جاتی ہے۔ پرچوں سے پہلے پرچوں والے سوالات کے بار بار ٹیسٹ لیے جاتے ہیں تاکہ بچہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائے۔ او لیول اور اے لیول کے امتحان قریب آنے پر بچوں کو پرانے پرچوں سے ہی تیاری کروائی جاتی ہے۔ انھیں اتنی پریکٹس کروا دی جاتی ہے کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائیں۔ مزید کسر ہوم ٹیوٹر پوری کردیتے ہیں محنت کروا کر۔ استاد موٹرسائیکل پر آتے ہیں اور طلباء ہنڈا سٹی، اکارڈ، پجارو پر۔ یہی حال پھر اساتذہ کی عزت کا بھی ہوتا ہے۔ بیکن ہاؤس جیسے سکول میں تو سنا ہے بہت بدتمیزی کی جاتی ہے استاد کے ساتھ، ہمارے سکول میں کچھ سکون ہے۔ لیکن استاد اور ایک سیلز مین کوئی فرق ہیں، دونوں کا کام مال فروخت کرنا ہے، مہیا کرنا ہے اور بس۔ وہ لوگ فیس بھرتے ہیں کہ انھیں پڑھایا جائے چناچہ استاد کوئی احسان نہیں کررہا۔ واقعی استاد کوئی احسان نہیں کررہا ہوتا، اگر کررہا ہوتا ہے تو اپنے اوپر کہ یہاں سے اسے اچھی ہوم ٹیوشن مل جائیں گی جو اس کی رزی روٹی چلاتی رہیں گی۔
ان بچوں کی انگریزی اچھی ہے، اردو کمزور ہے۔ انگریزی میں پڑھتے ہیں، انگریزی میں لکھتے ہیں اور انگریزی الفاظ بولتے ہیں۔ کئی دفعہ تلفظ میں سر کی بھی غلطی نکال دیتے ہیں، اور ہنس دیتے ہیں۔ جسے سر مسکرا کر پی جاتا ہے اور اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے۔ سر تو کیمبرج سسٹم میں نہیں پڑھ ہوا، اس نے تو گورنمنٹ کھوتی ہائی سکول سے ٹاٹوں پر بیٹھ کر میٹرک کیا تھا۔ قسمت تھی کہ روزی روٹی کی کشش انگریزی پڑھانے کی طرف لے آئی، ورنہ وہ اور اس کی اوقات۔ اردو انھیں صرف بولنی آتی ہے، لکھنے کا کہہ دو تو جان جاتی ہے۔ اردو بورنگ ہے، اردو کے الفاظ بول دو تو سمجھ نہیں سکتے، انگریزی میں ترجمہ کرکے سمجھانا پڑتا ہے۔ ماں باپ پنجابی بولتے تھے کبھی، اب اردو بولتے ہیں اپنے بچوں کے ساتھ، چناچہ بچوں کی مادری زبان اردو ہے، اور پنجابی کو وہ ایک حقارت بھری نظر سے دیکھتے ہیں۔ کچھ ابھی بھی پنجابی بولتے ہیں، لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے، یا ایک دوسرے کو ہنسانے کے لیے۔
بچے تو بچے ہیں جی، خواہ امیروں کے ہی ہیں۔ خواہ باپ ڈاکٹر ہے، مل مالک ہے یا گروپ آف انڈسٹریز کا ڈائریکٹر۔ بچے اردو بولیں یا انگریزی، لیکن پاکستانی بچے ہیں۔ ابھی یسو پنجو پاکستانی ہی کھیلتے ہیں، ریڈی گو بھی کھیلتے ہیں، اور برف پانی بھی۔ ہاں ہاکی، ٹینس اور تیراکی غریبوں کے بس کی بات نہیں، وہ اضافی سہولت ہے ان کے پاس۔ سر جی نے خود اپنی ذاتی آنکھوں سے اصلی والا سوئمنگ پول اس سکول میں دیکھا، اس سے پہلے فلموں ڈراموں میں ہی دیکھا تھا۔
نجی شعبے کے ان سکولوں میں ترقی کرنی ہے تو آپ کو ڈرامے باز ہونا پڑے گا۔ کلاس میں داخل ہوتے ساتھ ہی ڈراما شروع کردیں۔ روایتی استادی ختم ہوجاتی ہے کہ آئے بلیک بورڈ بھرا اور چلے گئے۔ بچوں سے کرواؤ۔ بلکہ کرواؤ نہیں ساتھ ڈرامے بھی کرواؤ۔ میتھ پڑھاتے ہو، نفع نقصان کا باب چل رہا ہے، بچوں سے کہو تفریح کے وقت میں خرید و فروخت کا سٹال لگا کر چیزیں بیچیں، پھر پیسے کما کر نفع نقصان نکالیں۔ انگریزی پڑھاتے ہو، تو جینوئن کمیونیکیشن تخلیق کرواؤ، خط لکھواؤ، انٹرنیٹ پر ای میل کرواؤ۔ بچوں کو پریزنٹیشن کا موقع دو، خود سائیڈ پر رہ کر بس گائیڈ لائن دو۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انگریزی بولو، خوب انگریزی۔ اگر خاتون ہو تو ترقی کے چانسز اتنے ہی بڑھتے جائیں گے جتنی شلوار اونچی ہوتی جائے گی اور قمیض گلے سے نیچی۔ جتنے ماڈرن اور فیشن ایبل اتنے کامیاب، جتنے کہانی باز اتنے کامیاب، اگر طالب علم راضی تو کیا کرے گا قاضی یعنی سکول کا مالک۔
خیر یہ کچھ تاثرات تھے، اس تعلیمی سال کے اختتام پر۔ دیکھیں اگلا سال کیا لاتا ہے۔ اس برس ایم فِل بھی کرنا ہے شام کی کلاسوں میں، نوکری بھی کرنی ہے۔ اللہ رحمت رکھے، زندگی ذرا اوکھی ہوجائے گی۔ لیکن ساری عمر نجی سکولوں میں نہیں گزارنا چاہتا، اس لیے آگے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

11 تبصرے:

  1. خوب لکھا ہے! لیکن سکول وہی اچھا ہے جہاں پڑھنے کے بعد ٹیوشن پڑھنے کی حاجت نہ ہو۔ اگر ٹیوشن پڑھنے کی حاجت باقی ہے تو سمجھ لو کہ رٹا سسٹم کسی نہ کسی سطح پر موجود ہوگا۔
    اللہ تعالی آپ کو ایم فل اور نوکری میں کامیابی دے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ایک سوال اگر بتانا چاہیں تو۔۔
    کس جماعت کو پڑھا رہے ہیں ؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. جی میں ساتویں کو پڑھا رہا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. نجی اسکولز میں پڑھانا میرا تجربہ بھی رہ چکا ہےلیکن آپ ہمت والے ہیں، میں ہمت ہار چکا ہوں۔ مجھ میں کچھ کرنے کی سکت نہیں رہی۔ اگر چہ عمر کی تیئسویں بہار دیکھنے جارہا ہوں۔ مجھ میں ماحول بدلنے کی ہمت نہیں تھی، اس لیے خود بدلنے کی آس لگائے بیٹھاہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. روائیےی استادی خےم ہو چکی ہے۔ اور اسے ختم ہونا چاہئیے تھا۔ ہم جب یونیورسٹی سطح پہ تھے تو ہمیں بھی ان مضامین کو زیادہ وقت نہیں دینا پڑتا تھا۔ جس میں استاد تھوڑا ڈرامہ کرتے ہیں۔ کلاس شروع ہونے پہ ذرا سا ڈرامہ بچوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور بار بار اٹھ کر انکی مرت نہیں لگانی پڑتی۔ اوئے کھوتے دے پتر بند کر اپنی بولتی اوئے۔
    اگر اپنے ماحول سے مثالیں دی جائین تو بڑی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہیں۔۔ کم از کم میرے اسٹوڈنٹس کو خاب سمجھ میں آجاتی تھیں۔
    جدید طریقہ ء تعلیم زیادہ مددگار ہے۔ آپ نے جو عیوب گنوائے ہیں انکی وجوہات طریقہ ء تعلیم نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی عمومی حالت ہے۔ جہاں ریاکاری ہر جگہ موجود ہے۔
    میں خود اپنی بچی کو پڑھانے کے لئے خوب ڈرامے بناتی ہوں اور ابھی تک مجھے یہ نوبت نہیں آئ کہ بیٹھ کر رٹآ لگواءوں جیسا کہ میں اکثر والدین سے سنتی ہوں۔ اور پریشان ہوتی پھروں کہ میں اپنے بچے کو کیسے گھول کر پلادوں۔
    گلے کے نیچے ہونے اور شلوار کے اونچے ہونے کا تعلق کیا زیادہ جدید تعلیم سے ہے یا دولت کے طبقاتی نظام سے۔
    اس پہ آپکو دوبارہ سوچنا چاہئیے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. میرے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ سکول کی نوکری سے جلد از جلد نکل جانا چاہیے۔ ورنہ یہ ساری عمر پکڑ کر رکھتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. ميں جانتا ہوں کہ عصرِ حاضر کی جوان نسل مجھ سے اتفاق نہيں کرے گی مگر حقيقت جو ہے وہ ہے ۔ ميرے بڑے بيٹے زکريا اور ميری بڑی بہو نے جارجيا انسٹيٹيوٹ آف ٹيکنالوجی ۔ اٹلانٹا ۔ جارجيا سے اليکٹريکل اينڈ کمپيوٹر انجنيئرنگ ميں ايم ايس کيا تو اُن کی گريجوئيشن سيريمنی جسے ہمارے ہاں کنووکيشن کہتے ہيں جون 1999ء ميں منعقد ہوئی ۔ ہميں شامل ہونے کا دعوت نامہ ملا ۔ ميں چلا گيا ۔ ايک دن بيٹے سے کہا کہ مجھے يونيورسٹی کی لائبريری لے جائے اور کسی پروفيسر سے بھی ملوائے ۔ وہ مجھے لے گيا ۔ ميں نے لائبريری ميں انجنيئرنگ کے کورسز ديکھے تو بی ايس مکينکل کا کورس ہُو بہُو وہی تھا جو ہميں بی ايسی انجنيئرنگ کيلئے ۔ انجنيئرنگ کالج لاہور ميں پڑھايا گيا تھا ۔ بعد ميں زکريا نے ايک پروفيسر سے ملاقات کروائی تو اُس سے مزيد معلومات حاصل کرنے کے بعد ميں نے کہا "ہمارے مُلک ميں بہت غُوغا ہے کہ دنيا بہت آگے چلی گئی تعليم کا نظام بدل گيا ہم صدی پرانا نظام لئے بيٹھے ہيں مگر ميں نے يہاں بی ايس انجنيئرنگ کا کورس ديکھا ہے تو وہی ہے جو ميں نے پاکستان ميں 1956ء سے 1960ء تک پڑھا تھا"۔ پروفيسر بولے "ساری دنيا ميں ايسا ہی ہے ۔ کچھ تبديلی ايم ايس کے کورسز ميں آئی ہے مگر پی ايچ ڈی کے کورسز کافی ہو گئے ہيں ۔ بنيادی تعليم تو نہيں بدلی جا سکتی"

    خيال رہے کہ ميں نے انجنيئرنگ کی ڈپلومہ کلاسز کو ڈھائی سال اور بی ايسی انجيئرنگ کی کلاسز کو 3 سال پڑھايا ہوا تھا

    اب بات ہمارے زمانے کے سکول کی ۔ ميں مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال راولپنڈی ميں پڑھتا تھا ۔ ہماری فيس 10 روپے ماہانہ تھی ۔ آٹھويں جماعت ميں ہمارے انگريزی کے اُستاذ اللہ بخشے نذير احمد قريشی صاحب ہميں کلاس ميں انگريزی کے علاوہ کسی زبان ميں بات نہيں کرنے ديتے تھے ۔ کلاس سے باہر مگر سکول کے اندر صرف اُردو بولنے کی اجازت تھی ۔ ہم نے نہ ٹيوشن پڑھی اور گھر پر آ کر صرف دہرائی کرتے تھے کيونکہ اُستاذ نے اس خوبی اور لگن سے پڑھايا ہوتا تھا کہ سب سمجھ آ گيا ہوتا تھا ۔ صرف ہمارے سائنس کے اُستاذ پريکٹيکل کے دوران پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ اداکاری کر کے ہميں ہنساتے تھے ۔ اُستاذ کو ديکھ کر بڑے بڑے پھنے خان طالبعلم بھی چوہے بن جاتے تھے ۔ طلباء کے والدين بھی اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے

    ہمارے مُلک ميں تعليم کا ستياناس اُس وقت مارا گيا جب قائدِ عوام نے تمام نجی سکول اور کالج سرکاری تحويل ميں لے کر وہاں اپنے جيالے لگا ديئے ۔ البتہ سينٹ ميری کانوينٹ يا سينٹ پيٹرک کانوينٹ قسم کے سکولوں کو نہيں قوميايا گيا تھا

    جواب دیںحذف کریں
  8. واہ جناب، زبردست لکھا ہے حال دل، لکھا آپ نے۔ ڈرامے بازی والی بات خوب کہی۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. شاکر اتنا زبردست لکھا ہے آپ نے کہ پڑھ کر بس چلا جاتا کچھ کہے بنا یہ نا مناسب لگا۔

    بعض باتیں تو بہت ہی قابل غور اور کمال کی لگیں:
    جتنی تنخواہ ہے اس سے زیادہ روپے 2 گھنٹے کی ٹیوشن سے ملتے ہیں۔۔۔
    کئی دفعہ تلفظ میں سر کی بھی غلطی نکال دیتے ہیں، اور ہنس دیتے ہیں۔ جسے سر مسکرا کر پی جاتا ہے۔۔۔
    اس نے تو گورنمنٹ کھوتی ہائی سکول سے ٹاٹوں پر بیٹھ کر میٹرک کیا تھا۔۔۔
    کچھ ابھی بھی پنجابی بولتے ہیں، لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے، یا ایک دوسرے کو ہنسانے کے لیے۔۔۔
    اگر خاتون ہو تو ترقی کے چانسز اتنے ہی بڑھتے جائیں گے جتنی شلوار اونچی ہوتی جائے گی اور قمیض گلے سے نیچی۔ ۔۔

    بھئی کمال لکھا ہے ماشاء اللہ۔
    اللہ کریم آپ کو آپ کے کیریئر میں کامیابی اور راحت سے نوازے۔ آمین۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. شاکر باو، تو نے بہت آگے جانا ہے انشاءاللہ
    یہ تو سستانے کے لیے پڑاو ہیں
    تیرے جیسے بندوں نے اس ملک کو بدلناہے
    یہ میرا یقین ہے۔
    نہ کہ ہمارے جیسے بھگوڑوں نے

    جواب دیںحذف کریں
  11. مزہ آیا دوست ۔۔
    خاص طور پر گورنمنٹ کھوتی ہائی سکول پر تو میرا بڑا وڈا سارا ہاسا نکل گیا تھا۔۔
    مزید یہ کہ اللہ نے آاپکو بہت نوازنا ہے ۔۔ انشاء اللہ
    میں خود نے کہہ رہا یہ ،
    :)

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔