بدھ، 8 جون، 2011

گوگل بھگوان کے بعد

بابا مکی اِن ایکشن اورگوگل بھگوان کے پوسٹ مارٹم کی شاندار کامیابی کے بعد، کہ جس کو عوام نے بلیک میں ٹکٹ خرید کر بھی دیکھا اور آخر میں اتنا پرجوش ہوگئے کہ فلم میکر کے بھی لتے لینے شروع کردئیے، اب پیش ہے دُنیا گوگل بھگوان کے بعد۔
اب آپ سوچ فرما رہے ہونگے کہ دُنیا گوگل بھگوان کے بعد کیسی ہوگی؟ تو ہم بتاتے ہیں کہ دُنیا گوگل بھگوان کے بعد گول ہوگی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ گول کیسے ہوگئی؟ تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ فرض کریں گوگل بھگوان کے گاف کو بُخار چڑھ گیا تو پِچھے کیا رہ گیا؟ گول۔ ہوا نا پھر گول۔ پر یہ گول ہوتا ہے کیا؟ اب آپ یہ پوچھیں گے تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ جیسے مُحلے کا اکلوتا خارشی کُتا جب وجد میں آکر اپنی ہی دم منہ میں لے کر گول گول گھومنے لگتا ہے تو ویسا ہوتا ہے یہ گول۔ ویسے گول گول تو طوطے کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں جو طوطے کی طرح کمبخت پھیر بھی لیتا ہے وقت آنے پر۔ لیکن یہاں ورلڈ آفٹر گوگل بھگوان ڈسکس ہورہا ہے اس لیے ہم اپنے آپ سے ہی التماس کرتے ہیں کہ براہ کرم ٹاپک پر رہیں ورنہ ہم اپنی پوسٹ ڈیلیٹ فرما دیں گے۔ ہیں جی یہ کیا ہوگیا؟ یہ بھی کچھ گول ہی نہیں ہوگیا کہ ہم اپنے آپ کو ہی مُڑ کر کچھ فرما رہے ہیں اور خود ہی جواب بھی دے رہے ہیں۔ لو دسو یہ بھی گول ہوگیا۔ گول گول سے یاد آیا کہ گول منطق بھی ہوتی ہے جسے اللہ والے اکثر استعمال کرتے ہیں، اگرچہ یہ ڈیٹ ایکسپائر شدہ مال ہے اور ناخدا پرست (یہ ٹرم ہم نے ابھی ایجاد کی ہے) اس پر خدا پرستوں کی مٹی پلید کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی بابا جی نے ارشاد فرمایا ہے۔
بابا جی چونکہ گولائیاں ماپ رہے ہیں تو ہم نے بھی سوچا کہ گوگلائیاں ماپیں، اسی ناپ تول میں ہمارے پلے یہ بات پڑی کہ سرکولر لاجک کیا ہوتی ہے۔ گوگل (ریٹائرڈ) بھگوان کو زحمت دے کر ہم نے عیسائیوں کے بائبل کو بائبل سے سچ ثابت کرنے والے کچھ "کلاسک" قسم کے دلائل دیکھے۔ ان دلائل کا وہی حشر ہوتا ہے جو ہمارے اپنے آپ سے باتیں کرنے کا ہوا۔ یعنی مُڑ کھُڑ کے جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔ چناچہ ہمیں دائرے کو کاٹ کر سیدھا کرنا پڑا تاکہ وہ صراط مستقیم اپنائے۔ چناچہ اب دائرہ مسلمان ہوچکا ہے اور اسلامی انداز میں صراط مستقیم والی منطق یعنی Linear Logic کا راگ سُناتا ہے۔ ملاحظہ کریں دو انترے۔ ابتدائی طور پر، اور اتنے شارٹ نوٹس پر ہم یہ دو انترے ہی تیار کرسکے۔ کبھی وقت ملا تو پوری غزل کہیں گے اس معاملے پر۔ فی الحال ان پر گزارہ کریں۔
--------------------------------------
سلیم: قرآن خدا کا کلام ہے۔
جاوید: کیوں؟
سلیم: کیونکہ قرآن ایسی باتیں‌ بتاتا ہے جو محمد ﷺ بطور مصنف قرآن میں لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ اسلیے قرآن خدا کا کلام ہے
————————-
سلیم: خدا موجود ہے۔
جاوید: وہ کیسے؟
سلیم: اس کائنات میں موجود انتہا درجے کا توازن اس بات کا گواہ ہے کہ کوئی بیرونی طاقت اس بات کا خیال رکھ رہی ہے کہ کہیں قوانین کا یہ توازن بگڑ نہ جائے۔ اور وہ ہستی اس کائنات سے ماوراء اور طاقتور ہی ہوسکتی ہے۔ چناچہ ایک ایسی ہستی خدا ہی ہوسکتی ہے۔ چناچہ خدا موجود ہے
————————
یہ مستقیمی منطق بابا جی کے بلاگ پر بھی تبصرے میں پوسٹ کی گئی ہے تاکہ کچھ تبصرہ نگار جو گول گول گھوم کر کچھ ڈھونڈے کی کوشش میں مصروف ہیں انھیں کچھ آرام دیا جاسکے۔
اور آخر میں التماس کروں گا کہ اس پوسٹ میں موجود کسی بھی علامت کو کسی کی شخصیت پر منطبق کرنے کی کوشش نہ فرمائی جائے تو بہتر ہے۔ نہ پچھلی پوسٹ میں محمد علی مکی کی ہجو مقصود تھی اور نہ اب ہے، یہ ایک بلاگ پوسٹ کا جواب ہے، اور آئندہ بھی ایسے جوابات وقتًا فوقتًا معرض وجود میں آتے رہیں گے۔ بابے مکی کا سٹائل اب ہمیں سمجھ آگیا ہے، اس لیے پہلے گوگل فرما کر بابا جی کی رمز سمجھنی پڑتی ہے، اس کے بعد ذرا فیصل آبادی تڑکا لگا کر جواب لکھا جاتا ہے۔ جن احباب کو یہ تحاریر نہیں پسند، وہ بے شک تبصرہ نہ کریں۔ مہذب الاخلاق تبصرے اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔

9 تبصرے:

  1. چل اسی بہانے سے سہی
    بلاگ پر رونق تو لگی
    تحریر مزے دار ہے
    اور فیصلابادی انداز کی تو بات ہی فیر کش اور ہے

    جواب دیںحذف کریں
  2. یہ مہذب الاخلاق والی بات بھی خوب کی تم نے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. عرض یہ کہ مکی بھائ نہایت ہوشیاری سے آپ کو بہت خطرناک راستے پر لے آئے ہیں آپ سمجھدار آدمی ہیں۔ "اگر ادیان کا معاملہ منطق سے حل ہوسکتا تو جنت ایمان لانے پر نا ملتی"۔۔ آپ کی "کاؤنٹر لاجک" بخوبی ہر فکشن رائٹر کو پیغمبر ثابت کردے گی ایسے میں یا تو آپ کو اپنی لاجک سے دست بردار ہونا پڑے گا یا خطرناک راستے پر اور آگے جانا پڑے گا۔۔

    دوم یہ کہ "بھگوان" کا لفظ ہندو مت کے ماننے والے اپنے خدا کے لیے استعمال کرتے ہیں اگر ہم اپنے خدا اور رسول کی تکریم چاہتے ہیں تو دوسرے مذاہب کی تکریم بہت ضروری ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. انشااللہ کل میں ایمانیات اور عقلیات پر ایک پوسٹ کروں گا ، راشد کامران بھای نے ایک بہت اہم بات اس حوالے سے کی ہے ۔ اور میرے خیال سے ساتھیوں کو اس پر بھی کچھ توجہ دینی چاہیے

    جواب دیںحذف کریں
  5. یار اسے کسی اچھے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ
    آثار ویسے کچھ اچھے نہیں ہیں۔
    کچھ ایکسٹرا نالج نے اس کو راہ سے بھٹکا دیا ہے
    لینکس کے روزانہ استعمال نے اسے خطرناک پاگل بنا دیا ہے۔
    اسے ونڈوز کی جانب راغب ہونے کا شمورہ دو شاید افاقہ ہوجائے

    جواب دیںحذف کریں
  6. اوپر شمورہ کو مشورہ پڑھا جائے۔

    جواب دیںحذف کریں
  7. "یہ ایک مہزب الخلاق تبصرہ ہے"
    کر کے وکھائو ہن حزف۔۔
    :(

    جواب دیںحذف کریں
  8. خدا حضرت عمر کی مغفرت کرے۔ مجھے ان کی دو باتوں میں سے ایک کی سمجھ مکھی کی حرکات کی باعث لگیں۔

    حالانکہ میں خود بہت شوق رکھتا ہوں کہ قران اور قرانی کہانیوں میں سے توریت اور انجیل کے قصے کہانیاں الگ ہوں اور قصص النبیا کے نام پر لکھی گئِ بائبل اور اسرایلی روایات میں تمیز کی جا سکے مگر مکھی صاب کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ جو وہ بک رہے ہیں اس کو درست مانا جائے اختلاف کے جواب میں ان کا انداز طنزیہ ہوتا ہے نا کہ ایک عالم کا۔ ان کی قابلیت اور ذہنی سطح اس کا شروع سے بلاگ پڑھنے والوں کو بخوبی علم ہے۔ فی الوقت اس کی قابلیت صرف اورصرف عربی زبان جاننا ہے۔
    باقی میں راشد سے اختلاف کرونگا باوجود اس کے کہ مکھی پر دو حرف بھیج دینے چاہئے مگر توجیح غلط ہو گی کہ ایسے فتنے ہر زمانے میں پیدا ہوتے رہے اور ان کے جواب میں علما کتابیں پڑھتے رہے وہی کتابیں جن کو پڑھ کر ایک فتنی اردو محفل کو مسلمان کرتی رہی تھی اور اب یہ یہاں کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر مجھے سمجھ نہیں آتی آپ سوال پڑھ کر اس کا جواب بھی ادھر ہی کیوں نہیں پڑھ آتے؟ بلاگ پر چول مارنی ضروری ہے؟
    دوئم جو صاھب وہاں گھوم گھوم کر کچھ تلاش کر رہے ہیں ان کو آرام نہیں آنا وہ پہلے بھی ایسی حرکات کر کے اولین نکلنے والوں میں سے ہیں۔ اور کیا معلوم ہندو ہی ہو۔ بھگوان اور ہندوستان سنتے ہی رونے تو ایسے ہی نکلے تھے۔دیکھنا بس اتنا ہے مکھی صاحب کو کب باہر کیا جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. بھگوان والی بات واقعی قابل غور ہے، دوسروں کے مذہب کا احترام ضرور ہونا چاہیے۔
    راشد آپ جس لاجک کو خطرناک بتا رہے ہیں اس پر کسی بھی فکشن رائٹر کو لے آئیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ محمد ﷺ کے بارے میں ملنے والی تمام روایات اس بات پر متفق ہیں کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ چناچہ ان میں اور عام فکشن رائٹر میں فرق یہیں سے نکل آتا ہے۔ اور اس طرح کے بےشمار نکتے ہیں جو منطقی انداز میں ثابت کیے جاسکتے ہیں۔ شاید میری اس لاجک کے الفاظ کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہو، لیکن مافی الضمیر وہی رہے گا۔ محمد ﷺ اور قرآن کا تعلق دنیا کے کسی بھی فکشن رائٹر اور اس کی تصنیفات سے یکسر مختلف ہے
    بدتمیز مجھے تمہاری بات آدھی سمجھ آئی ہے، دوسری آدھی چونکہ تم نے راشد سے کی ہے اس لیے جواب نہیں دے رہا۔ باقی احباب کا تبصرہ کرنے کا شکریہ۔ یہ ہفتہ ذرا ویلا تھا اس لیے چار پانچ پوسٹیں ہوگئیں۔ اب دو ہفتے ذرا مصروف ہیں، کم ہی نظر آؤں گا۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔