بدھ، 22 جون، 2011

مدیر گلوبل سائنس کی طرف سے ایک اور مراسلہ

یہ جان کر انتہائی مسرت ہوئی کہ اردو بلاگر احباب نے میری صدا کو صدا بہ صحرا نہیں ہونے دیا، اور میرا مان رکھا۔ آپ کی نوازش۔ اور اب جناب علیم احمد کی ای میل جو آج ہی موصول ہوئی ہے۔ (یہاں آپ کو ء کے مسائل نہیں ملیں گے چونکہ میں نے ء کو ئ سے بدل دیا تھا)
برادرم شاکر عزیز
السلام علیکم
سب سے پہلے تو حمزہ (ئ) کے دوسرے حروف کے ساتھ درست طور پر منسلک نہ ہونے پر معذرت کروں گا۔
آپ نے دیگر احباب کو گلوبل سائنس کے لیے لکھنے پر آمادہ کرنے کی جو سعی فرمائی ہے؛ اس پر میں تہ دل سے آپ کا مشکور ہوں۔ برائے مہربانی میرے اس اظہار خیال کو رسم دنیا کی پاسداری نہ سمجھیے گا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ آواز دوست میں میرے خط کی شمولیت پر کچھ احباب نے رابطہ بھی فرمایا ہے۔ بلال میاں نے اپنے بلاگ کے روابط بھی ساتھ ارسال کیے تھے؛ جنہیں میں نے کل شام ہی دیکھ لیا تھا۔ ایسے تمام احباب جو گلوبل سائنس کے لیے قلمکاری کرنا چاہتے ہیں (خواہ وہ کمپیوٹر کے میدان کے لیے ہو یا ساینس کے کسی اور شعبے کے حوالے سے) ان سے گزارش ہے کہ وہ اس احقر کی ایک رہنما تحریر ضرور پڑھ لیں جو گلوبل سائنس کی ویب سائٹ پر شایع ہوئی تھی۔
آپ تمام احباب اس لحاظ سے میرے اور دوسرے محبان اُردو کے شکریے کے حقدار ہیں کہ آپ لوگ اُردو زبان کا دامن صحیح؛ تصدیق شدہ اور مستند علم سے لبریز کرنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ البتہ؛ کسی بھی زبان میں قلمکاری کے حوالے سے دو نکات بظاہر الگ الگ ہیں لیکن ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں: اوّل وہ زبان لکھنے کا طریقہ؛ اور دوم اس زبان میں لکھنے کا سلیقہ۔ ماشائ اللہ؛ طریقہ آپ تمام احباب کو بخوبی آتا ہے۔ البتہ؛ مذکورہ بالا تحریر کے ذریعے آپ سلیقے کے بارے میں بھی تھوڑا بہت جان سکیں گے۔
رہا سوال گلوبل سائنس میں کوئی بھی تحریر تیار کرنے کا؛ تو پہلے ہی دن سے ہمارا ایک اصول ہے: پینڈووں کے لیے لکھیے۔ یہاں لفظ ’’پینڈو‘‘ سے میرا مقصد ہر گز ایسے کسی دوست کی تضحیک نہیں جو گاوں دیہات میں رہتا ہو؛ بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تحریر اتنی سادہ؛ سلیس اور رواں ہونی چاہیے کہ پڑھنے والا اسے متعلقہ شعبے کا کم سے کم علم رکھنے کے باوجود بھی سہولت سے سمجھ سکے؛ اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہوسکے؛ اور جب وہ اس تحریر کا مطالعہ مکمل کرے تو اپنے علم میں بجا طور پر اضافہ محسوس بھی کرسکے۔ دھیان رہے کہ یہ ’’علم‘‘ صرف کمپیوٹر سائنس یا انفارمیشن ٹیکنالوجی تک محدود نہیں؛ بلکہ یہ دنیا کا کوئی سا بھی علم ہوسکتا ہے۔
باقی کے نکات؛ ان شائ اللہ؛ آپ کو متذکرہ بالا تحریر میں مل جائیں گے۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی وضاحت طلب بات رہ گئی ہو تو آپ اسی برقی ڈاک کے پتے پر مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ تمام احباب سے وعدہ ہے کہ میں نے اب تک قلمکاری اور ابلاغ کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا ہے؛ وہ آپ تک پہنچانے میں کنجوسی یا بے ایمانی ہر گز نہ برتوں گا۔
درج ذیل اعلان ماہنامہ گلوبل سائنس کے شمارہ جون ۲۰۱۱ء میں شایع ہوا ہے؛ جسے احباب کی سہولت کے لیے یونی کوڈ میں تبدیل کرکے نقل کیا جارہا ہے۔
اعلانِ معاوضہ برائے آزاد قلمی معاونین
الحمدللہ! گزشتہ دو ماہ سے ”گلوبل سائنس“ میں شائع ہونے والی تحریروں پر قلمکاروں کو معاوضے دینے کا آغاز ہوچکا ہے۔ اِن شائاللہ، اب آپ کو عوامی سائنسی ابلاغ کے اس کارِ خیر میں بلا معاوضہ شرکت کرکے، کچھ حاصل نہ ہونے کا طعنہ نہیں سہنا پڑے گا۔ اس پیمانہء ادائیگی (پے اسکیل) کا مختصر احوال یہ ہے
معاوضہ برائے مختصر تحریر (100 تا 200 الفاظ، شائع شدہ): 50 روپے فی تحریر۔ مثلاً سائنسی خبریں بشمول دنیائے سائنس، صحت عامہ و طبّی ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر/ ہارڈویئر، ڈیفنس کارنر؛ کمپیوٹر ٹپس؛ سائنس دوست وغیرہ۔
معاوضہ برائے اوسط تحریر (200 تا 500 الفاظ، شائع شدہ): 100 روپے فی تحریر۔ مثلاً طویل خبر؛ خبری مضمون (نیوز فیچر)؛ کمپیوٹر ٹیوٹوریل؛ سائنسی تجربہ وغیرہ۔
معاوضہ برائے طویل تحریر (1,000 تا 2,000 الفاظ، شائع شدہ): 500 روپے فی تحریر۔ مثلاً 2 سے 3 صفحات پر مشتمل تحریر/ مضمون/ کمپیوٹر ٹیوٹوریل۔
معاوضہ خصوصی تحریر (3,000 یا زیادہ الفاظ، شائع شدہ): 1,000 روپے فی تحریر۔ یعنی تین سے زائد صفحات پر مشتمل تحریر یا خصوصی رپورٹ جو ایک سے زائد متعلقہ مضامین/ اضافی باکس آئٹمز وغیرہ پر مشتمل ہو۔
نوٹ
الف۔ مذکورہ بالا کے علاوہ، ایسی تحریریں یا رپورٹیں جو ادارہ گلوبل سائنس کسی قلمکار سے فرمائشی طور پر (یا بطورِ خاص) لکھوائے گا، اُن کا معاوضہ علیحدہ سے طے کیا جائے گا۔
ب۔ معاوضہ کسی بھی تحریر کی اشاعت کے بعد واجب الادا ہوگا، اور اشاعت کے 30 یوم کے اندر اندر ادا کردیا جائے گا۔
اس بارے میں مزید جاننے کےلئے
globalscience@yahoo.com
 پر مدیر گلوبل سائنس (علیم احمد) سے رابطہ کیجئے۔

4 تبصرے:

  1. معذرت پيشگی ۔ آج کی تحرير پڑھ کر مجھے کچھ دھچکا سا لگا ہے ۔ يوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جديد دور کا سائنس زدہ انسان ماديت ميں کھو کر رہ گيا ہے اور انسان کے اصل انعام جس کا تعلق اس کی روح اور ذہنی غذا سے ہے اُسے بھول گيا ہے
    ميں سوچ رہا تھا کہ خود بھی جو ہو سکے کروں اور کچھ ايسے اصحاب سے بھی رابطہ کروں جو علم بانٹتے ہيں زندگی کا سرور حاصل کرنے کيلئے ۔ اتفاق کی بات ہے کہ 28 ستمبر 2010ء سے آج تک صحت کی خرابی اور کچھ خانگی مصروفيات کے سبب کچھ کرنے ميں ناکام رہا ۔ اِن شاء اللہ جلد کوشش کروں گا

    جواب دیںحذف کریں
  2. اس تحریر کے ساتھ آپ کو گلوبل سائنس والوں کے ویب کا ایڈریس اور متعلقہ اصول و ضوابط جس کی طرف اس خط میں اشارہ کیا گیا ہے کا لنک (جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے آں لائن ہے) دینا چائے تھا!!!۔ میں سمجھتا ہوں!!! بلاگ کی پوسٹ کا یہ ہی حسن ہوتا ہے ممکنہ تمام لنک جو آن لائن ہوں بلاگ میں شامل ہوں۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو عجہ لکھ دی جائے کہ کیوں شامل نہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. پاء جی اس کا ربط موجود ہے۔ دوسرے پیرے کی سیکنڈ لاسٹ سطر میں۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. علیم احمد کا تبصرہ
    بھوپال سے ایک قاری کی راے کے جواب میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ معاوضوں کا یہ سلسلہ دو مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہویے کیا گیا ہے:۔
    ایک: نوآموز قلمکاروں کو علمی نوعیت کی قلمی مشق کی طرف راغب کیا جایے تاکہ یہ عذر دور ہوسکے کہ علمی نوعیت کی قلمکاری پر کچھ نہیں ملتا؛
    دوم: تحریر یا علمی نوعیت کی قلمی معاونت میں لکھنے والے کو بھی کچھ معیارات کا پابند بنایا جایے تاکہ وہ اپنے مبلغ علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے قلم کو اور اپنے انداز بیان کو بھی خوب سے خوب تر کی سمت گامزن کرسکے۔ میرا خیال کہ اس فورم پر موجود بیشتر احباب اس نکتے سے اتفاق کریں گے کہ معاوضہ تو محض اک بہانہ ہے؛ ورنہ دوسروں میں علم تقسیم کرکے جو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے؛ وہ کسی بھی معاوضے سے ماوراء ہے۔

    والسلام
    علیم احمد

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔