اتوار، 10 جولائی، 2011

کراچی

کراچی پر کیا لکھوں۔ ایک عرصے سے بلاگنگ کی دنیا میں رہ کر، اور جب سے کراچی سے نعمان کے بعد بلاگرز اور تبصرہ نگاروں کی دوسری کھیپ لانچ ہوئی ہے تب سے اگر کراچی کے حالات کے بارے میں کچھ لکھا تو طعنے سننے پڑے۔ ایک بڑے سقہ قسم کے تبصرہ نگار نے فورًا پنجابی ہونے کے طعنے دینے شروع کردئیے، پنجاب میں ایسا ہو تو کوئی بولتا نہیں کراچی میں ہوگیا تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ بات اس وقت ہورہی تھی ایک پل گرنے کی جو تعمیر کے دوران یا چند ہفتوں بعد ہی گر گیا تھا اور مجھے اس کے نیچے کھڑے ٹھیلے والوں کی موت پر بڑا افسوس ہوا تھا، کہ ایک بے ایمان کی وجہ سے غریبوں کی جان گئی، لیکن ان صاحب نے میرے لتے لینے شروع کردئیے۔
یہ ساری بات کرنے کا مقصد کسی کی گوشمالی، شکایت یا اختلافات کو ہوا دینا نہیں تھا بلکہ مقصد یہ تھا کہ ایسے موضوعات پر میں نے لکھنا ہی چھوڑ دیا۔ سیاست کے اتار چڑھاؤ پر کبھی کبھار کچھ لکھتا ہوں، دہشت گردی پر اس وقت لکھا جب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور تب چند ہفتے پہلے والی پوسٹ وجود میں آئی جس پر سب کو اعتراض تھا کہ فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، خیر اپنی اپنی سوچ، کراچی اور بلوچستان کے حالات پر بھی کچھ نہیں لکھتا، کیا لکھوں ہزاروں میل دور بیٹھ کر بندہ کیا لکھ سکتا ہے۔ جو حجاب شب، یا شعیب صفدر، ابن ضیاء یا ابوشامل لکھ سکتے ہیں وہ میں کہاں لکھ سکتا ہوں۔ میں تو ان ظالموں کے مرنے کی دعا ہی کرسکتا ہوں۔ دعا نہیں بدعا کہ خدا انھیں غارت کرے جنہوں نے کراچی کا سکون برباد کردیا، ان سیاہ ستدانوں اور ان بےغیرت حکمرانوں بھی غارت کرے جنہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہے، ان جماعتوں اور ان کے لیڈروں کے بال بچے اس میں مریں تو انھی احساس ہو کہ بےگناہوں پر ظلم کرنے سے کیا بیتتی ہے۔ کیا کہوں کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے بس غم بھری ایک چپ ہے،ان قانون کے رکھوالوں کی بےغیرتی پر جو مدد کے لے کال کرنے پر بھی یہ کہتے ہیں کہ اوپر سے حکم نہیں، ان حکمرانوں کی بےغیرتی پر جو لاشیں گرنے سے پہلے حالات کا ادراک نہیں کرسکتے، ہمیشہ سینچری پوری ہونے پر "نوٹس" لیتے ہیں۔ خدا انھیں ذلیل و خوار، مغضوب و مقہور کرے جو بےگناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں۔ اب تو دعائیں بھی بے اثر ہوگئی ہیں، گناہوں سے لتھڑے دلوں سے نکلی دعائیں اوپر جاتی ہی نہیں، یہیں ڈولتی رہ جاتی ہیں۔ دعائیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8 تبصرے:

  1. http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/07/110709_karachi_victim_a.shtml

    آفاق رضوی کا ماننا ہے کہ ان کے گھروں پر حملہ کرنے والے مقامی پشتون نہیں تھے، ان کے مطابق وہ مقامی پٹھانوں کو پہچانتے ہیں، وہ انہیں جانتے ہیں مگر یہ بربریت جنہوں نے مچائی ہے وہ طالبان تھے۔ بقول ان کے اوپر پہاڑی سے فائرنگ ہوتی تھی نیچے سے دفاع میں فائرنگ کی جاتی ان کے پاس تو اسلحہ نہیں ہے مگر جن کے پاس لائسنس یافتہ تھا انہوں نے جواب دیا۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کی بیوی فالج میں مبتلا ہے جن کو دوائی نہیں مل سکی۔ انہوں نے بچوں کو بکتر بند گاڑی کی مدد سے نکال کر سسرال پہنچایا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. الله ہم سب پر رحم فرمائے اور لوگوں کو یہ گریٹ گیم سمجھنے کی توفیق اتا فرمائے

    جواب دیںحذف کریں
  3. بھائی شاکر،
    یہی توہم سب کی غلطی ہےاگرکوئی بندہ خلوص نیت سےبھی کوئی چیزلکھےتوبجائےکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں اسکی ٹانگ کھینچنے کےلئےسب سےسرفہرست ہوتےہیں۔ آپ کی جنتی معلومات ہیں اس کےمطابق بندہ کولکھناچاہیےکوئی چاہیےکچھ بھی کہے۔ کیونکہ آپ کی سوچ آپکےدل کی آوازاس تحریروں سےہی عیاں ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کراچی اوراہل پاکستان پراپنارحم وکرم کردے۔ آمین ثم آمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. سقہ لکھنے سے مراد نظام سقہ والی پھبتی ہے؟

    جواب دیںحذف کریں
  5. جعفر سقہ بمعنی بزرک، جہاندیدہ۔ یہ پھبتی نہیں ہے۔ شاید املاء ٹھیک نہیں، اب مجھے یاد نہیں آرہا کہ اس معانی میں یہ لفظ کیسی لکھا جاتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. جب مُلک ميں بے حِسی بڑھ جائے اور بھائی بھائی سے لڑ جائے تو عِل و عقل کا جنازہ اُٹھ جاتا ہے اور غلط صحيح اور صحيح غلط نظر آنے لگتا ہے

    جواب دیںحذف کریں
  7. اس کو ثقہ ہی پڑھا جائے پھر۔ جو لفظ جتنی دیر بعد استعمال کریں اس کی املاء اتنا ہی گڑبڑ کرتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔