پیر، 17 اکتوبر، 2011

شکر اور رزق

چند برس پرانی بات ہے، ایک دن مجھے یونہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا نام تو میرا شاکر ہے پر کام میرے ناشکروں والے ہیں۔ میں بات بات پر گلہ کرتا ہوں، شکوہ کرتا ہوں لیکن جو میرے پاس ہے اس پر شکر نہیں کرتا۔ پھر میرا دل کیا کہ میں شکر کیا کروں اور اصل میں شاکر ہو جاؤں۔ اور آہستہ آہستہ میں نے کوشش شروع کر دی کہ شکر کیا جائے۔ شکر کرنا بڑا اوکھا کام ہے۔ شکر ایسے نہیں کیا جا سکتا کہ آپ بھیتر شکوہ رکھیں اور منہ سے شکر کا کلمہ پڑھتے رہیں۔ بھلا پالنہار سے کیا پردہ، اسے تو سب پتا ہے، اندر باہر کی خبر ہے۔ ایسا شکر تو طوطے کے "میاں مٹھو چوری کھاؤ گے" جیسا نعرہ ہی ہوتا ہے جس کے مطلب کا طوطے کو خود پتا نہیں ہوتا۔ تو میں نے شکر کرنا شروع کر دیا۔ طوطے کی طرح۔ اٹھتے بیٹھتے رٹنا شروع کر دیا "یا اللہ  تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے"۔ لیکن صاحبو عرصہ دراز تک اندر ہی اندر ساڑا رہتا۔ اوپر اوپر سے شکر اندر سے شکوہ، لو دسو ابھی کوئی نوکری نہیں ملی، گھر سے حالات اتنے تنگ ہو گئے ہیں پیسے مل جاتے تو کیا تھا، میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہو رہا ہے، وہ فلاں کہاں کا کہاں پہنچ گیا اور میری پڑھائی ہی ختم نہیں ہوتی، پتا نہیں میرے گھر پر اتنی تنگی کیوں آ گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ایک عرصے تک یہ شغل جاری رہا۔ خیر جاری تو اب بھی ہے، اب بھی اندر سے حسد کا پھن نکل آتا ہے دیکھو فلاں کو نوکری مل گئی، فلاں وہاں پہنچ گیا، فلاں یہ کرنے لگا اور شاکر، شاکر بس شکر کرتا رہ گیا اور گھر بیٹھا رہ گیا۔ شاکر میں کمی ہے، کسی کام کا نہیں، یا پھر اللہ سے براہ راست شکوہ کہ مولا اب سختی ختم کر دے، اب نہیں رہا جاتا۔

ان برسوں میں مَیں نے اندازہ لگایا کہ شکر زبانی نعروں کا نام نہیں۔ یہ بھیتر سے، دل سے، جسم کے ہر سوتے سے پھوٹنے والے تشکر کا نام ہے۔ اگر شکر کرتے ہوئے احساس ہو کہ زبان سے نیچے سارا بدن بے حس ہے تو سمجھ لیں کہ شکر بندہ نہیں طوطا کر رہا ہے جسے شکر کے مطلب کا اور اس کے معانی کا احساس ہی نہیں۔ وہ بس "میاں مٹھو چوری کھاؤ گے" کی گردان کی طرح گردان کیے جا رہا ہے۔ شکر اس وقت کریں جب کچھ ایسا ملے جو آپ کے لیے قیمتی ہو، شکر اس وقت کریں جب رزق سامنے ہو، گوشت ہو پلاؤ ہو مرغا ہو، ٹھنڈا پانی ہو، میٹھے میں کوئی مہنگی ڈش سامنے پڑی ہو تب شکر ہو، جب پیسے ہاتھ آئیں رزق ہاتھ میں آئے تب شکر ہو، جب پروموشن ہو، جاب ملے، جب غم یا مصیبت ٹل جائے تب شکر ہو۔ اور شکر ایسا ہو کہ آنکھوں میں آنسو آجائیں۔ جسم کے ہر سوتے سے صدا آئے یا اللہ تیرا شکر ہے، مالک میں گنہگار، میری طاقت سے باہر ہے جو تو نے عطا کیا، یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے رزق دیا، ترقی دی، خوشحالی دی، صحت دی۔ اگر ایسا موقع نہ ملے تو بھی شکر کیا جائے۔ دل کی گہرائی سے ، کوشش کر کے، پورا زور لگا کر، ان نعمتوں کو یاد کیا جائے تو اللہ کریم نے عطا کی ہیں۔ نعمتوں کا ذکر کیا تو کس کس کا ذکر ہو یہ کم ہے کہ سانس آ جا رہی ہے، کھڑے ہیں، چل سکتے ہیں، صحت ہے یہی بہت ہے شکر کرنے کے لیے۔ تو شکر ایسے کیا جائے کہ بس زمین پر پلکیں بچھانے کی کسر رہ جائے۔ اگر ایک جائے نماز، دو نفل نماز شکرانہ اور تنہائی نصیب ہو جائے اور خوش نصیبی سے آنسوؤں کی جھڑی بھی عطا ہو جائے تو شکر کا سواد ہی الگ ہوتا ہے۔ دل بھر آتا ہے، آنکھیں چھما چھم برستی ہیں، اپنی ہستی حقیر لگنے لگتی ہے، رب عظیم کی ذات پر اتنا پیار آتا ہے۔ اللہ سائیں مجھے اتنا دیا، مجھے اتنا دے دیا، مجھے جو گندی نالی کا کیڑا، جس کی دو ٹکے کی اوقات نہیں، جس کا ہر بال تیری رحمت کا امیدوار، جس کا ہر سانس تیرے کرم کا محتاج اللہ سائیں اسے اتنا دے دیا۔ مولا تیرا شکر کیسے کروں، مولا میں تو شکر بھی نہیں کر سکتا ، مولا میں تو اس بات کا شکر نہیں کر سکتا کہ تو نے شکر کی توفیق دی۔ مولا میں تو تیری نعمتوں کا شمار بھی نہیں کر سکتا، میں بھلا کیسے شکر کر سکتا ہوں۔ سبحان اللہ، اگر یہ کیفیت نصیب ہو جائے تو کیا کہنے۔ ایسی کیفیت کہ جیسے بارش کے بعد موسم خوشگوار ہو جائے، بارش بھی رحمت والی بارش زحمت والی نہیں، شکر کی بارش، عطا کی بارش اس چیز سے دل کو جو شادمانی ملتی ہے اس کا سواد بس محسوس کرنے کی بات ہے۔

شروع شروع میں کوشش کرنی پڑتی ہے۔ طوطے کی طرح رٹنا پڑتا ہے۔ میری عادت تھی کہ سائیکل پر یونیورسٹی جاتے ہوئے میں باآواز بلند اپنے آپ سے باتیں کرتا، پھر اللہ سائیں سے شکوے شکایت کی عادت ہو گئی، اور پھر شکر کرنے کی عادت ہو گئی۔ سائیکل چل رہا ہوتا ساتھ شکر کا چرخہ چل پڑتا، چرخہ کیا طوطے کی رٹ ہی تھی۔ پھر سائیکل چھوڑ دیا اللہ سائیں نے موٹرسائیکل دے دیا الحمد اللہ اور اس پر بھی کبھی کبھار یہی معمول جاری رہا، اور اب بھی رہتا ہے کبھی کبھار۔ آہستہ آہستہ اتنی توفیق ہو گئی کہ رزق کھاتے ہوئے، کوئی نعمت مل جائے تو، آمدن ہاتھ میں آئے تو، یا اپنے حالات کا احساس ہو تو شکر کرنے کو دل کرتا ہے۔ دل گداز ہونے کی کوشش کرتا ہے، نصیب میں ہو تو دو چار آنسو ٹپک پڑتے ہیں، لیکن بڑا سرور ملتا ہے، دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ لیکن حسد اور شکوے کا پھن اب بھی سر اٹھا لیتا ہے۔ نہیں جاتا، اندر سے شکوہ نہیں جاتا۔ یوں لگتا ہے جیسے میں یہیں پھنسا ہوا ہوں اور ساتھ والے آگے بڑھتے جا رہے ہیں، یہ احساس نہیں ہوتا کہ ابھی کیا کچھ ہے جو میرے پاس ہے اور دوسروں کے پاس نہیں۔ چار پانچ دن پہلے ایک یونیورسٹی میں انٹرویو دیا، متعلقہ بندے کو میرا انگریزی تلفظ پسند نہ آیا۔ اتنی ڈپریشن ہوئی، اتنا دل بیٹھا کہ کیا بتاؤں اور جب ایک ہم جماعت جو وہیں انٹرویو کے لیے گئی تھی اس سے پتا چلا کہ اس کو اگلے مرحلے کے لیے بلا لیا ہے تو اندر سے حسد کا پھن باہر آیا۔ بڑی مشکل سے خود کو لعن طعن کی، کہ شرم کر، تمہارے پاس کیا نہیں ہے، اور جو نہیں مل سکا اس میں تمہاری غلطی ہی تو ہے سراسر اپنے آپ کو بہتر کر لیتے پتا تھا یہ کمزوری ہے لیکن محنت نہ کی تو بھگتو اب۔ بڑی مشکل سے دل کو سمجھا بجھا کر اب ہفتے بھر کے بعد کچھ رام کیا ہے، اب بھی اندر سے شکوے کا پھن سر نکال لیتا ہے۔ لیکن رٹو طوطے کی طرح ورد نہیں ٹوٹتا، یا اللہ تیرا شکر ہے۔ شاید وہ وقت بھی جلد آئے جب خالص شکر کی توفیق ہو۔ ابھی تو منافق شکر ہے، آدھا شکر آدھا شکوہ۔
چلتے چلتے ایک بات، شکر کے سلسلے میں یہ معمول بھی رہا کہ جب رزق ملے، آمدن ہاتھ میں آئے تو اتنا صدقہ کیا جائے کہ ہاتھ سے نکلتے ہوئے احساس ہو۔ ہزاروں میں کمایا تو ہزاروں میں نکالا تاکہ شکر کا احساس ہو، اپنی کم مائیگی کا احساس ہو، یہ احساس ہو کہ یہ قرضے کی واپسی لگی ہوئی ہے، نہیں دو گے تو نہیں ملے گا۔ اس سے یہ ہوا کہ رزق کہیں نہ کہیں سے، کچھ نہ کچھ لگا آتا ہے۔ کچھ نہ کچھ ملتا جاتا ہے، الحمد للہ، ملتا جاتا ہے اور دینے کی توفیق ہوتی جاتی ہے۔ اور شکر کا احساس بھی تازہ رہتا ہے کہ یہ نعمت ہے، تمہاری کوئی صلاحیت یا چیز اس میں ملوث نہیں یہ سراسر اوپر والے کی رحمت ہے، ان گنت رحمتوں کی طرح جو ہر وقت تم پر سایہ فگن ہیں، یہ رزق بھی رحمت ہے۔ اس لیے شکر کرو۔
الحمد للہ، ثم الحمد للہ، ثم ثم الحمد للہ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے شکر کی توفیق دی ورنہ میری کیا اوقات مولا، میرے پلے پھوٹی کوڑی بھی نہیں سب تیری عطا ہے مالک، سب تیرا کرم ہے اور میں تیرے کرم، تیری رحمت کا محتاج، یا اللہ تیرا شکر ہے، یا اللہ تیرا شکر ہے۔

14 تبصرے:

  1. مبارک ہو آپ نے اندر کا راز پالیا!
    :)

    Abdullah

    جواب دیںحذف کریں
  2. شکر کا درس دیتے دیتے ہمیں حسد کرنے پر مجبور کردیا ہے
    ایسا لکھا ہے کہ وہ کیا کسی شاعر نے کہا تھا کہ
    میں نے جانا گویا یہ بھی مرے دل میں ہے

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ تو ہر بندے کی اپنی اپنی سوچ پر منحصر ہے۔ کوئی ایک وقت کی سوکھی روٹی پر بھی دل سے شکر ادا کرتا ہے اور کوئی گوشت، پلاؤ، مرغا، ٹھنڈا پانی، میٹھے میں کوئی مہنگی ڈش سامنے پڑی ہو تب بھی سمجھتا ہے کہ یہ سب کم ہے بلکہ اور بہت کچھ ہونا چاہئے۔
    بہر حال اگر ہم انا کے بغیر یہ سوچیں کہ ہم بہتوں سے بہتر ہیں اور اسی پر اپنے ضمیر کو مطمئن کریں لیں تو شکر کا مزہ بھی آتا ہے اور اگر ہم یہ سوچیں کہ ہم بہتوں سے نیچے ہیں تو شکر بھی ناشکری ہی لگتا ہے۔
    آپ کی تحریر بہت اچھی ہے۔ خاص طور پر ایک بہت بڑی بات کو سمجھانے کوشش بہت خوب ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت بہترین۔۔۔
    اچھی بات کو اچھے طریقے سے سمجھنا اور پھر سمجھانا بھی بڑا ہی اوکھا کام ہے۔
    اللہ ہم سب کو ایسا شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیسے کے اس کا حق ہے۔۔ آمین۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. محترم آپ کی تحریر مجحے بہت اچحی لگتی ہے، کیوکہ یہ دل کی گہرائیوں سے گزر کر قلم پر آتی ہے، میں آپ کی تحریر سے بہت سیکتا ہوں، لگے ریہں۔

    جواب دیںحذف کریں
  6. میں آپ کی تحریروں میں ایک ایسے فرد کو پاتا ہوں جو تصنع و ریاکاری سے پاک ہے

    آپ کی تحریروں میں ایک سالک کا عکس جھلکتا ہے جو ابھی حالات کے زیر تربیت ہے

    موقع ملے تو اشفاق احمد کی کتاب زاویہ ۱، ۲، ۳ پڑھ ڈالیے انٹرنیٹ ہر نہیں کتابی صورت میں

    احمر

    جواب دیںحذف کریں
  7. Buhat uhmda ... Ik duw'a ...
    Ya-LLAH mujay dusaroo ki nazroo Mai bhara aur apni nazar mai Chota ker day ..
    Tu wasa khuda hai jasa insaan ko chaheyeh .. Tu mujay wasa Banda bana day Jo tujay pasand ho ..
    Alhumdlilah per ki khawish Buhat achi hai ...
    Kush rahay

    جواب دیںحذف کریں
  8. ایک اللہ کا ہی سہارا ہوتا ہے جو آخر تک کام آتاہے

    جواب دیںحذف کریں
  9. شاکر صاحب آپ نے خوب کہا لیکن ابتدا میں ایسے ہی ہوتا ہے،سب کاموں کی رب ہی توفیق دیتا ہے، وہ تو آپ کی لگن دیکھتا ہے اور جب زبان کا کہا دل پر اترتا ہے تو دل کی حالت بدل جاتی ہے۔شکر زبانی سے زیادہ عمل چاہتا ہے ،وہ جو اللہ نے کہا ہے نا کہ مجھے چپکے چپکے رات کی تنہا ئی میں یاد کیا کرو تو وہی اصل کام ہے، اللہ سبکو توفیق دے اس کی توفیق کے بغیر کچھ نہیں ہے، مالک کے آگے نوکر کی حقیقت ہی کیا ہے، جیسے وہ رکھے عطا محمد تبسم کراچی۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. بہت ہی عمدہ بھائ!! الفاظ ہیں یا موتی۔ یقین کرو بہت کم لوگوں کے قلم میں اتنا اثر ہوتا دیکھا ہے جو دل موم کر کے رکھ دے۔ ماہنامہ پھول لاہور کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے اختر عباس المعروف ایڈیٹر بھیا ـ اللہ انہیں سلامت رکھے - آپ کی تحریر پڑھ کر انکی یاد آتی ہے۔۔۔ کیا خوب لکھتے ہو بھائ، اپنا قلم ہمیشہ تھامے رکھنا
    والسلام

    جواب دیںحذف کریں
  11. :) بھیا۔۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ آپکی یہ تحریر نظر سے گذری۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔