جمعرات، 27 اکتوبر، 2011

ماں بولی کا نوحہ

زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم
کبھی یہ محاورہ/کہاوت/ مصرع سنا تھا۔ زبان ثقافت، زبان کلچر، زبان زندگی جینے کا ڈھنگ، زبان  نسلوں کی وراثت کی امین۔ زبان نہ رہے تو  نسلوں کی نسلیں بدل جاتی ہیں۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ پنجاب میں، خیبر پختونخواہ میں، سندھ میں، بلوچستان میں یہی  ہور ہا ہے۔ مجھے دوسرے صوبوں کے شہری علاقوں کا نہیں پتا۔ لیکن مجھے اتنا پتا ہے کہ میرے صوبے پنجاب کے، سوہنے پنجاب کے شہری علاقوں لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات ، شیخوپورہ، ملتان سے میری ماں بولی مر رہی ہے۔ پنجاب سے پنجابی مر رہی  ہے۔ اور اسے مارنے والے پنجابی ہیں۔ آٹھ کروڑ پنجابی، جو مل کر اپنی ماں بولی کو قبر میں اتار رہے ہیں۔  اردو کے نام پر، قومی زبان کے نام پر، یکجہتی کے نام پر، اور انگریزی سے نفرت کے نام پر وہ پنجابی کا قتل کر رہے ہیں۔ اور  حیرت ہے، صد حیرت ہے کسی کو اپنے ہاتھوں پر لہو نظر نہیں آتا۔ انہیں اردو کی بےحرمتی یاد  رہتی ہے، پنجابی  کی اکھڑتی سانسیں نظر نہیں آتیں۔ حیرت ہے، صد حیرت ہے۔

یہ تحریر پڑھنے والے جان لیں کہ یہ کسی تعصب میں نہیں لکھی جا رہی، نہ ہی کسی کے جواب میں لکھی جار ہی ہے۔ یہ تحریر کسی عام بندے کے ہاتھوں نہیں لسانیات کے ایک طالبعلم کے ہاتھوں لکھی جا رہی ہے۔ چناچہ اسے سستی جذباتیت سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش نہ کیجیے گا۔ یہاں حقائق کی بات کی جائے گی،جذباتیت اوپر والے پیرا گراف میں ختم ہو گئی۔ آگے حقائق کی دنیا ہے۔ یہ تحریر اس لیے لکھی جارہی ہے کہ کل کو تاریخ گلا نہ کرنے کا کسی پنجابی نے اپنی زبان کے مرنے کا نوحہ نہیں پڑھا تھا۔ یہ تحریر اس لیے لکھی جا رہی ہے کہ لوگوں کو یاد رہے کہ پنجابی اپنی زبان کے قاتل تھے، انہوں نے اپنی ماں بولی کی قبر خود تیار کی اور خود قتل کر کے قبر میں بڑے اہتمام سے دفنا کر اوپر اردو میں لکھا ایک کتبہ لگا دیا۔

سائیں سب اردو کی بات کرتے ہیں۔ سب انگریزی کے ہاتھوں اردو کی بے حرمتی کی بات کرتے ہیں۔ پنجابی کی بات کیوں نہیں کرتا کوئی؟ پنجابیوں نے قیام پاکستان سے پہلے سے لے کر پنجابی کے ساتھ سوتیلوں کا سا سلوک روا رکھا۔ اس وقت بھی جب کسی نے پنجابی کو پنجاب کی  زبان کا درجہ دینے کی یا بات ہوئی، یا نصاب میں شامل کرنے کی بات ہوئی یا  ایسی  کوئی بھی بات ہوئی جہاں پنجابی کو رسمی طور پر حکومت نظم و نسق میں استعمال کرنے کو کہا جاتا۔ وہیں اردو بولنے والی پنجابی اردو کی حفاظت کے لیے آگے آ جاتے، پنجابی پیچھے چلی جاتی۔ اور آج یہ حال ہے کہ پنجابی کو کسی دفتر میں رائج کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔  دفتری زبان تو انگریزی ہے یا پھر اردو۔  مجھے بالکل یا دہے کہ یہ ہندوؤں کی اور سکھوں کی "سازش" تھی کہ پنجاب میں اردو کی بجائے پنجابی کو فروغ دیا جائے۔ "تاریخ" جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں یہی بتاتی ہے۔ لیکن ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں۔ آج دنیا میں پنجابی کا نام لیں تو ذہن میں کون آتا ہے؟ شاکر، امجد، ارشد، ماجھا، گاما؟ نہیں بلبیر سنگھ، دلیر سنگھ جیسے نام اور سکھوں کے داڑھیوں والے چہرے پگڑیوں والے سر ذہن میں آتے ہیں۔  پنجابی بولے تو سکھوں کی زبان ہے۔ پنجابی بولے تو کافروں کی زبان ہے، مسلمانوں کی زبان اردو ہے۔  یہی ہو رہا ہے نا سائیں۔ سکھوں نے ہر جگہ پنجابی کو فروغ دیا، پنجابی ثقافت کو فروغ دیا، بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں پنجابی کی لسانیات پر کام ہو رہا ہے۔ پنجابی کو ڈیجٹلائز کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ اس پر ڈاکٹریٹ ہو رہی ہے۔ اسے دفتری زبان بنانے کے سارے لوازمات ان کے پاس موجود ہیں۔ لغات ہیں جو قانون سے لے کر میڈیکل تک کی اصطلاحات کو کور کرتی ہیں۔  یہ سب کچھ ہے جو میں نے پچھلے چارسال میں بطور مترجم کام کرتے ہوئے اور بطور لسانیات کے طالبعلم پنجابی کے بارے میں جانا، کہ سکھ کیا کر رہے ہیں اپنی زبان کے لیے۔ چناچہ آج حال یہ ہے کہ پنجابی کا رسم الخط گورمکھی بن گیا ہے۔ میں ترجمہ کروں تو 99 فیصد جابز گورمکھی رسم الخط کی ہوتی ہیں، میں اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہوں۔ پنجابی کے سارے کمپیوٹر معیارات گورمکھی کی بنیاد پر بنے ہیں۔  اور شاہ مکھی؟ کچھ عرصہ پہلے گوگل پلس پر ایک صاحب سے بحث ہو گئی ۔ انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ پنجابی کا کوئی رسم الخط بھی ہے۔ ان کے خیال میں یہ اردو میں لکھی جاتی ہے۔ حالانکہ اردو کے پوتڑے پنجابی نے صاف کیے ہیں۔ اردو کو رسم الخط اور کسی زبان ہیں پنجابی نے دیا ہے۔ یہ جسے فارسی  رسم الخط کہتے ہیں اس میں صدیوں پہلے مسلمان صوفیا نے  پنجابی شاعری کی۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ پنجابی کا  رسم الخط گورمکھی ہے۔

 حیرت ہے نا جی؟ میرے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے سائیں یہ۔ شاید اور کسی کے لیے نہ ہو۔ پاکستانی پنجابی تو اردو کے مامے ہیں جی۔ ان کے تو گھروں سے بھی پنجابی کو دیس نکالا مل چکا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں پنجابی چوڑوں، چماروں، میراثیوں اور بھنگیوں کی زبان بن  گئی ہے۔ پنجابی نوکروں کی زبان ہے۔ پنجابی غیر تہذیب یافتہ زبان ہے۔ پنجابی ماں بہن ایک کرنے کی زبان ہے۔ پنجابی جگت بازی کی زبان ہے۔ پنجابی غصے میں آ کر "بہتر" ذریعہ اظہار کی زبان ہے۔ پنجابی اوئے توئے، تُو کی زبان ہے۔ "پڑھے لکھے" گھر کے بچے سے پنجابی میں بات کر لو تو وہ گالی سمجھتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ وہ زبان ہے جو دادا دادی بولتے ہیں یا ابا جی نوکروں سے بولتے ہیں۔ ورنہ ممی تو سوفیسٹیکیٹڈ ہیں، اردو میں بات کرتی ہیں۔ یہ پنجابیوں کے خیالات ہیں سائیں پنجابی کے بارے میں۔ زبان کی وکالت کہاں گئی سائیں؟  حق گوئی کہاں گئی؟ یہاں زبان نہیں مر رہی؟ یہاں زبان کا قتل عام نہیں ہو رہا؟ یہاں نئی نسل پر ماں بولی کا دروازہ بند نہیں کیا جار ہا جب اسے "تہذیب یافتہ" زبان کے نام پر اردو سکھائی جاتی ہے، جب اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ پنجابی نچلے طبقے کی زبان ہے جس  کی کوئی تہذیب نہیں ہے۔ یہ ذلیلوں اور کمیوں چوڑوں کی زبان ہے۔  تو حق پرستی کیا ہوئی سائیں؟  تو  زبان بچانے کے نعرے کہاں گئے سائیں؟ پر کہیں بھی تو کس سے کہیں۔ جن سے کہیں وہی اپنے ہیں،انہیں کے ہاتھ میں خنجر ہے۔  کوئی یہ لازمی کہے گا کہ پنجابی کیسے دفتری زبان، اسکول یا سرکار کی زبان بن سکتی ہے۔ تو میرا جواب ہے کہ مجھ سے نہیں سکھوں سے پوچھو۔ انہوں نے تو بنا لی۔ پر ہمارے لیے تو اردو ہے نا سائیں، قومی یکجہتی کی زبان۔  پنجابی جائے بھاڑ میں۔

اردو کے بارے میں  بڑی خود ترسی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اردو کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے، اردو مر رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو بولنے والے دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ میں پھر کسی اور صوبے کی بات نہیں کر رہا، میں پنجاب کی بات کررہا ہوں۔ یہاں کے شہری علاقوں، نیم شہری بلکہ اب تو دیہاتی علاقوں میں بھی ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ اردو بولنے والا ہے۔ ماں باپ دن بدن اردو سکھانے پر زیادہ سے زیادہ زور دے رہے ہیں۔ اردو پنجاب میں مادری زبان بن رہی ہے۔ مادری زبان مطلب جس میں بچے کے ساتھ بات کی جائے۔ اردوبولنے کا موقع محل تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ پہلے اردو دفاتر کی زبان تھی، اسکول کالج اور میڈیا کی زبان تھی۔ اب گھروں میں بھی بولی جا رہی ہے۔ اگلے پانچ دس سال میں بازاروں میں بھی بولی جانے لگے گی۔ بلکہ اب بھی بولی جانا شروع ہو گئی ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ، ادھر ادھر دیکھیں اپنے بیٹے، بیٹی، بھانجے، بھتیجے کو بولتا دیکھیں اور مجھے بتائیں کہ اردو مر رہی ہے؟


ایک اور بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اردو کے ذخیرہ الفاظ کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے انگریزی کے ہاتھوں۔  یہی کچھ پنجابی کے ساتھ ہو رہا ہے سائیں۔ آج کے پنجابی بولنے والے کے پاس پنجابی کا ذخیرہ الفاظ اردو کے تلفظ بدلے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ اصلی پنجابی الفاظ کہیں گم ہو گئے ہیں، بھول گئے ہیں چونکہ اردو کا اثر میڈیا، اخبارات اور سماجی رتبے کی وجہ سے اتنا زیادہ ہے کہ پنجابی  میں بھی اردو کے الفاظ استعمال کرنا "اچھا" سمجھا جاتا ہے۔ میری والدہ پنجابی بولتے ہوئے پچھلے کچھ سالوں سے اردو الفاظ کاتڑکا لگانے لگی ہیں، دور کہا جانا۔ چلیں پنجابی کی چھوڑیں سائیں اردو کی بات کرتے ہیں، ذخیرہ الفاظ کی بات کرتے ہیں۔ اردو میں ٹیکنالوجی کے الفاظ کا ذخیرہ سب سے زیادہ آرہا ہے۔ اس کے علاوہ  دوسرے الفاظ بھی ہیں، لیکن ذخیرہ الفاظ میں نئے لفظ در آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زبان کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے۔ زندہ زبانیں ہمیشہ تبدیل ہوتی ہیں۔ اردو کو کوئی خطرہ نہیں۔ تو پنجابی کو بھی خطرہ نہیں؟ اوپر والے پیرا گراف کو ایک بار پھر پڑھ لیں۔ پنجابی کو اردو اور انگریزی کے ذخیرہ الفاظ کی تکلیف ہی نہیں ہے۔ تکلیف رویوں کی ہے جو بڑی تفصیل سے بیان کیے جا چکے ہیں۔ چناچہ اردو  کے بارے میں خودترسی  کہ اس کا حلیہ بگڑ رہا ہے کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔ اردو اچھی بھلی ہے، ہٹی کٹی ہے اور اللہ کے فضل سے مقامی زبانوں  کو لقمہ لقمہ کھا رہی ہے، ڈکار لیے بغیر۔

تعلیم کی بات کرنے والے، مادری زبان میں تعلیم کی بات کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مادری زبان اردو نہیں ہے۔ پنجابی ہے، سندھی ہے، بلوچی ہے ، ہندکو  ہے، سرائیکی ہے، پشتو ہے۔ اردو تو رابطے کی زبان ہے نا سائیں۔  تو تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ پانچویں تک تو سارے مضامین ماں بولی میں ہونے چاہئیں۔ انصاف کی بات نہیں یہ بھلا؟ ہمارے ساتھ سب سےبڑا المیہ یہی رہا  کہ قائد اعظم کے ایک بیان کو لے کر ہم نے اردو کو  مقدس گائے بنا  دیا۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہی ہو گی۔ ارے بھائی ہو گی تو کب انکار کیا ہے، دوسری زبانوں  کا گلا تو نہ گھونٹو۔ بنگالی اپنی زبان کا حق مانگتے مانگتے الگ ہوگئے۔ بنگلہ دیش بننے کی ایک وجہ یہ بھی تھی نا سائیں۔ یا 51 یا 52 عیسوی میں بنگالی کے حق میں ہونے والے فسادات بھول گئے سب کو؟ ہم سے تو اچھا بھارت ہے۔ ان کے نوٹ پر 22 زبانوں میں  اس کی رقم پرنٹ ہوتی ہے۔ 22 سرکاری زبانیں۔ پاکستان میں؟ انگریزی ہے نا جی، اردو ہے نا جی۔ مقامی زبانوں کا کام ہی کیا  رسمی مواقع پر، وہ تو بولیاں ہیں بس۔ پنجابی کی طرح ہنسی ٹھٹھے اور گالم گلوچ کا ذریعہ اظہار۔ وہ بھلا سرکاری زبان، یا تعلیم کی زبان یا رسمی زبان کیسے بن سکتی ہیں۔

انگریزی کے خلاف اور اردو کے  حق میں (یہاں پنجابی کہیں نہیں ہے ) بولنے والے بڑے لمبےچوڑے دلائل دیتے ہیں کہ اردو ہی ذریعہ تعلیم ہو۔ اردو ہی سب کو سکھائی جائے ۔ انگریزی صرف چند لوگ سیکھیں جنہوں نے باہر جانا ہے، یا جو مترجم ہیں تاکہ باقیوں کو سیاپا نہ کرنا پڑے نئی زبان سیکھنے کا۔ جاپان اور چین کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ مجھے ایک بات بتائیں  جاپان اور چین سے پاکستان کا موازنہ ہے؟ وہاں باہر سے لوگ آ کر رہتے ہیں، کام کرتے ہیں اور یہاں کے لوگ باہر جا کر کام کرتے ہیں۔ کتنے لاکھ پاکستانی باہر ہیں ملک سے؟ مزدور پاکستانیوں کی بات کر رہا ہوں مستقل باہر منتقل ہونے والوں کی نہیں۔ انہیں رابطے کے لیے جس زبان کی ضرورت پڑتی ہے بدقسمتی سے اکثر وہ انگریزی ہوتی ہے۔ اور جاپان، چین کی اپنی زبان میں ذریعہ تعلیم وغیرہم کی خیالی جنت سے بھی نکال دوں۔ جتنا جاپان اور چین، اور اب یورپ بھی انگریزی سیکھنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں  آپ تصور بھی نہیں فرما سکتے۔  چین والے انھے وا  انگریزی سیکھ رہے ہیں چونکہ انہیں اپنا کاروبار پھیلانا ہے، جاپان میں انگریزی کے اہل زبان امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا سے آکر رہائش رکھتے ہیں۔ انگریزی سکھانے کا کوئی ڈپلومہ لے کر آتے ہیں اور مقامی بچوں بڑوں کو انگریزی کی تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں۔ اور اچھا کماتے ہیں، اپنے ملک سے بھی زیادہ۔  حقیقت اتنی بھی سیدھی نہیں ہے بھائی۔ آدھا کالا اور آدھا سفید نہیں ہے۔ درمیان میں  اتنا بڑا سارا حصہ گرے، سرخ، سبز،نیلا، پیلا بھی ہے۔ اردو کی خود ترسی میں دو جمع دو چار تو کر لیتے ہیں، حقیقت  دو جمع دو چار نہیں ساڑھے پانچ ہے۔

اور کیا نوحہ پڑھوں سائیں۔  میں اس بدنصیب زبان کا بولنے والا ہوں جس کے بولنے والے اسے لکھنا پسند نہیں کرتے۔لکھتے ہیں تو پڑھنا پسند نہیں کرتے، یا انہیں پڑھنا آتا ہی نہیں ہے۔ یہ  میرے بلاگ کی پچھلی تحریر پنجابی کی تھی۔ دو تبصرے ہوئے اس پر۔ اور یہاں درجن بھر لوگوں کے نام گنوا سکتا ہوں جو پنجاب سے ہیں اور پنجابی سمجھتے، بولتے ہیں۔ پنجابی چینلوں کا نوحہ بھی سنتے جائیں۔نام پنجابی ٹی وی ہے اور مشہوریاں اردو والی، فنکار سوفسٹیکیٹڈ زبان بولتے ہیں اردو  کی "بلینڈنگ" والی تاکہ پنجابی کا برا اثر نہ پڑے۔ ایک پروگرام میں ریمبو اور صاحبہ میزبانی کر رہے تھے (دونوں لاہور سے ہیں)۔ ریمبو پنجابی بول رہا تھا اور صاحبہ اردو، سوفسٹیکیٹڈ زبان جی۔ آخر زبان تو پھر اردو ہی ہے،پنجابی وہی مصلیوں،چوڑوں، چماروں کی زبان چاہے بولنے والے کو پیسے  ہی کیوں نہ ملیں۔ پنجابی بولنے والے  تسلی رکھیں اگلے بیس سالوں میں آپ کی اگلی نسل ساری اردو بولنے والی ہوگی۔  آپ پنجابی جانتے ہونگے ، آپ کے بچے اردو جانتے ہوں گے۔ آپ نے گلی محلے سے سیکھ لی پنجابی بولنی، آپ کے بچوں کو وہ سہولت بھی دستیاب نہیں ہوگی۔ چونکہ ساری آبادی اپنے بچوں کو اردو سکھا رہی ہو گی۔ پرانی نسل گزر جائے گی اور مجموعی طور پر اردو بولنے کا ٹرینڈ پروان چڑھے گا۔ پنجابی بولنے کے مواقع محدود ہو تے جائیں گے۔ اور پھرا یک دن آئے گا جب آخری پنجابی بولنے والا بھی مر جائے گا۔ اور پھر قومی یکجہتی پتھر پر لکیر ہو جائے گی۔  قومی یکجہتی کے نام، قومی زبان کے نام، پنجابیوں کی بے حسی کے نام، لسانیاتی اصلاحات نہ کرنے والے بزدلوں کے نام،  اس ملک کے عاقبت نا اندیش پالیسی سازوں اور جذبات پسند وڈوں کے نام، ایک مرتی زبان کے نام، ہیر رانجھے جیسی داستانیں لکھنے والے پنجابی صوفیوں کے نام ایک پنجابی بزدل کا عریضہ۔ جو اپنی زبان کا نوحہ بھی اپنی زبان میں نہیں پڑھ سکتا کہ اس کے اہل زبان پڑھنے کی زحمت نہیں کریں گے۔

18 تبصرے:

  1. ماشاءاللہ بہت خوب۔ پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ ہمیں ایک پاکستانی کی حیثیت سے اردو کی اور پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ ہونے کی حیثیت سے اپنی اپنی مقامی زبانوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔ ہمارا بہت بڑا ورثہ پنجابی میں ہے۔ اس ورثے سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہمیں پنجابی زندہ رکھنی ہو گی۔ ویسے میں ذاتی طور پر بچوں کو پنجابی سکھانے کے حق میں ہوں اور جب کوئی بچہ پنجابی میں بات کرے اور کوئی ٹوکے تو میں الٹا اسے ٹوکتا ہوں کہ بچے کو بولنے دو کیونکہ یہ ہماری زبان ہے۔ اگر ہم نہیں بولیں گے تو اور کون بولے گا۔
    ویسے آپ کی تحریر سے کافی کچھ جاننے اور سیکھنے کو ملا۔
    اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. سائیں کچھ تبصرہ نگاروں کے لئے بھی کہنے کو چھوڑ دیتے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت خوب لکھا جی
    پڑھ کر
    دل اداس هو گیا
    که کچھ اسی طرح کے خیالات هیں جی میرے بھی
    لیکن اپ کی تحریر میں زیاده وزن هے

    جواب دیںحذف کریں
  4. بہت خوب جناب۔
    آج سے بیس پچیس سال پہلے جس لہجہ یا انداز میں میں ہندکو بولتا تھا۔
    وہ بھولتا جا رہا ہوں۔
    مجھے اچھی طرح یاد ہے جب پنجابی اکثیریت والے لوگوں میں آیا تو۔۔شروع شروع میں پنجابی سمجھنے میں دقت ہوتی تھی۔
    پھر آہستہ آہستہ عادی ہوتا گیا۔
    اب پنجابی تو اچھی بول لیتا ہوں ۔ہندکو بولتے ہوئے اٹک جاتا ہوں۔
    جب بھی واپس پاکستان گیا تو ایک بات کا احساس ہمیشہ شدیش رہا کہ ہندکو اب ہندکو نہیں رہی پنجابی اور اردو کا چوں چوں کا مربہ بن گئی ہے۔
    میرے اپنی بھتیجے بھتیجیاں ، بھانجے بھانجیاں، کزن وغیرہ آپس میں اردو میں بات کرتے ہیں اور ہم بھی اردو ہی استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں۔
    ہمارے کزن وغیرہ پشتو سپیکر بھی ہیں ، اور پنجابی بھی سپیکر بھی جو کراچی میں روزگار کیلئے چلے گئے وہ اردو سپیکر ہو گئے۔
    یعنی ایک ہی خاندان کے لوگ مختلف زبان بولتے ہیں لیکن آپس میں رابطہ اور تبادلہ خیال کیلئے اردو استعمال کی جارہی ہے۔
    میرے خیال میں اردو اسی وجہ سے ایجاد ہوئی ہو گی کہ اس خطے کے لوگ ایک دوسرے سے آسانی سے بات چیت کر سکیں۔
    اردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے خیال میں ہماری ساری زبانوں کا مکسچر ہے۔علاقائی زبانوں کو بچانا چاھئے لیکن ماتم کرکے نہیں بالکل ایک تاریخی ورثہ سمجھ کر لیکن ایک قبیلے یا خاندان کی زبان کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے۔اور ہمارے قبیلے پاکستان کی زبان ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. حق آکھیا اے باو
    میرے نال تے ہر جگہ ایہو کجھ ہندا اے
    فیصل آباد دی فلائٹ چ ائیر ہوسٹس دے نام دے نال بٹ ویخ کے اوہدے نال پنجابی چ گل کرن دی کوشش کیتی
    تے اوہنے ایویں منہ بنایا جیویں میں اونہوں ساریاں دے سامنے گال کڈ دتی اے

    جواب دیںحذف کریں
  6. پیارے شاکر بھائی صاحب
    آپ کے اعلیٰ خیالات کی میں بہت قدر کرتا ہوں۔ شکر اور رزق کے موضوع پر آپ کا مضمون بے حد پسند آیا ، چنانچہ اپنے تمام دوستوں کو بھی بھیجا جنھوں نے اسے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ آپ یقینا ایک مخلص اور خاکسار قسم کے انسان ہیں۔ میں آپ کی شخصیت کے اس پہلو کی بڑی قدر کرتا ہوں۔ اللہ کریم آپ کو صحت تندرستی کے ساتھ خوشیوں بھری طویل عمر عطا کرے اور کبھی کسی کا محتاج نہ کرے۔
    سب سے پہلے یہ وضاحت کہ میں خود پنجابی اور اندرون لاہور کی جم پل ہوں۔ ہمارے گھر میں پنجابی بولی جاتی تھی۔میرے سسرال کا تعلق بھی گوالمنڈی سے ہے۔ یونیورسٹی سطح تک تعلیم پانے کے باوجود ہم میاں بیوی نے کبھی آپس میں اردو میں بات نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی بولی ہے۔ زمانے کے رواج کے مطابق بچوں کے ساتھ اردو پنجابی مکس چلتی رہی ہے چنانچہ ہمارے بچے بھی پنجابی بخوبی سمجھتے ہیں اور بآسانی بول سکتے ہیں۔
    اس پوسٹ میں آپ نے پنجابی کی قسطوں میں موت کا ذکر کیا ہے۔ یقینا پنجابی کی مقبولیت میں کافی کمی آرہی ہے لیکن میرے خیال میں اس پر اردو کو مورد الزام ٹھہرانا محل نظر ہے۔ یہ سب کچھ ایک تاریخی عمل کے تحت ہو رہا ہے۔ پنجابی اور دیگر پاکستانی زبانوں کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ بہت سے لوگ ان زبانوں کو زبردستی کھینچ تانچ کر پانچ چھے ہزار قدیم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔ ہڑپہ اور موئنجودڑو سر برآمد ہونے والے کتبے ابھی تک پڑھے نہیں جاسکے۔ اُس تہذیب کے خاتمے کی وجوہ کا ابھی تک تعین نہیں ہو سکا۔ سب اندازے، اٹکل اور ٹیوے ہیں۔ اُن لوگوں کے بارے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ وہ دراوڑ نسل سے تعلق رکھتے تھے جنھیں شمال سے آنے والے آریاوں نے قتل عام کا نشانہ بنایا، ان کے شہروں اور زمینوں پر قبضہ کیا اور بچے کھچوں کو جنوب میں دھکیل دیا۔ آج ہم جو آریاوں کے نسلی وارث اور بعد میں ہونے والے نسلی مکس اپ کا نتیجہ ہے، اسے تباہ شدہ تہزیب پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
    آپ ہی بتائئے کہ پنجابی کتنی پرانی ہے اور اس سے قبل پنجاب میں بولی جانے والی زبانوں کا کیا ہوا۔ اور اس میں پنجابی اور پنجابیوں کا کتنا ہاتھ تھا۔ پنجاب، پنجابی اور پنجابیوں کے ساتھ تاریخی ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ اپنا نام تک خود نہیں رکھ پائے۔ لفظ پنجاب فارسی سے ہے۔ ایرانیوں کی آمد سے قبل پہلے اس علاقے کو کیا کہا جاتا تھا ؟ مجھے نئیں پتہ۔
    آپ نے پنجابی کے کلاسیکی شاعروں کا حوالہ دیا ہے۔ یقئینا یہ بہت قابل احترام ہستیاں ہے۔ ازراہ کرم ذرا یہ تو بتا دیجیے کہ ان سب میں سے کس نے پنجابی زبان میں تعلیم حاصل کی تھی؟ جواب یقینا کوئی نہ ہو گا، کیونکہ پنجابی اُس عظیم دور میں بھی پڑھنے لکھنے کی زبان نہیں تھی۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں تعلیم پائی تھی۔
    آپ نے ہیر کا حوالہ دیا ۔ یقئینا یہ دنیا بھر کے کلاسیکی ادب میں ایک بلند مقام پانے کی حقدار ہے۔ براہ کرم یہ تو فرمائیے کہ ہیر وارث شاہ سمیت کسی بھی اصلی تے وڈی ہیر میں واقعات کے عنوانات کس زبان میں باندھے گئے ہیں ۔ جواب: پنجابی ہر گز نہیں بلکہ فارسی۔ سوال یہ ہے کہ ان بزرگوں کو کس نے یہ عنوانات پنجابی میں درج کرنے سے روکا تھا۔ کسی نے بھی نہیں۔ سچ تو یہی ہے کہ فارسی اس زمانے کی علمی و سرکاری ز بان تھی ۔ اسی کے زیر اثر وارث شاہ علیہ رحمہ نے یہ عنوانات فارسی میں درج کیے۔
    علی

    جواب دیںحذف کریں
  7. آپ نے سکھوں کی پنجابی خصوصا گورمکھی کے لیے خدمات کا حوالہ دیا۔ بہت خوب !!! آپ آج ہی کسی سکھی پنجابی چینل پر خبریں سنیے۔ یقینا ساٹھ فیصد سے زیادہ سمجھ نہ پائیں گے۔ کیوں؟؟؟ پنجابی سکھ ہندی اور سنسکرت پر ہاتھ صاف بلکہ گندے کر کے اپنی پوتر پنجابی کی پوترتا میں دن رات اضافہ کر رہے ہیں۔ پنجابی صوفی شاعروں کی استعمال کردہ پنجابی کے پیش نظر مجھے یقین ہے کہ اگر وہ بزرگ آج زندہ ہو جائیں تو دوردرشن اور دیگر ہندوستانی پنجابی چینلون، اخباروں اور علمی وا دبی رسالوں کی پنجابی کو کوئی غیر ملکی زبان ہی سمجھیں گے۔
    ارے ہاں یہ تو بتا دیجیے کہ سکھوں کی تاریخ کے سب سے اہم بلکہ واحد بادشاہ رنجیت سنگھ اور دیگر راجوں مہاراجوں کے درباروں کی سرکاری زبان کیا تھی؟؟؟؟ پنجابی؟؟؟ ہرگز نہیں۔۔۔۔فاااااااااااااارسیییییییییییی
    پیارے بھائی حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ پاکستانی علاقائی زبانوں میں سے کوئی بھی ّ زبان سوائے سندھی کے ، کبھی بھی سرکاری ، درباری اور تعلیمی زبان نہیں رہی۔
    اردو کے ساتھ پنجابی کی مخاصمت کا کوئی کیس ہی نہیں ۔ اردو قومی سرکاری زبان کا جو مقام حاصل کرنا چاہ رہی ہے وہ پنجابی یا کسی بھی دوسری زبان کے پاس کبھی موجود ہی نہیں رہا، نہ کبھی انھیں مل ہی سکتا ہے، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی اپنے محدود دائرے سے باہر بولی اور سمجھی نہیں جاتی۔ جبکہ اردو آج بھی برصغیر کے دور دراز علاقوں تک میں سمجھی جاتی ہے ۔ اور تو اور اردو کے خلاف تحریک چلانے والے بنگالی بھی نام نہاد ہندی فلموں کے توسط سے اچھی خاصی اردو بولتے اور سمجھتے ہیں۔ بھارتی بنگال کے پایہ تخت کولکتہ میں آج بھی اردو بولنے کا چلن عام ہے۔ بنگلہ دیش کے اکثر دینی مدارس میں اردو نصاب رائج ہے۔
    قائد اعظم کے فرامین کو اکثر غلط معنی پہنائے گئے ہیں ۔ مارچ ۱۹۴۸ کی ڈھاکہ تقریر میں انھوں نے واضح طور پر بنگالی کے بطور صوبائی سرکاری زبان کے حق اور امکان کو تسلیم فرمایا تھا۔ لیکن ایک قومی زبان کے طورپر صرف اور صرف اردو رائچ کرنے کے بات کی تھی ۔ اور اسی بنگال سے تعلق رکھنے والے مسلم قائدین اس سے قبل بڑے تواتر سے آل انڈیا مسلم لیگ کی اردو قومی زبان کی قراردادوں کی حمایت کرتے رہے تھے۔
    واہ بھٗی واہ ۔ بھارت کی بھی خوب رہی۔ شیڈول زبانوں کا لالی پاپ دے کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے بھی مقامیوں کا من خوب پرچایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین میں دیوناگری ہندی کو ہی سارے بھارت کی قومی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ لیکن ایک محدود مدت کے لیے ، اور جنوبی صوبوں کے احتجاج و اصرار پر ، انگریزی کو اس کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے۔
    میں سمجھتا ہوں کہ پنجابی ادیبوں اور شاعروں کو بھی پنجابی کے فروغ و اشاعت سے کبھی کوئی حقیقی دلچسپی نہیں رہی ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان میں سے اعلیٰ ایوانوں تک رسائی پانے والے شاعر اور ادیب ضرور پنجابی کی بقا اور سرکاری چلن کے لیے زبانی کلامی کوشش ہی سہی ، ضرور کرتے۔ لیکن انھوں نے ایسا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ذاتی مصلحت کے تحت یا روح عصر کے تقاضوں کی پیش نظر، یہ مجھے نہیں معلوم۔ اگر ایسا ضروری اور قابل عمل ہوتا تو کم از کم آپ کے ہم شہری ممبران اسمبلی شاعر افضل احسن رندھاوا اور فضل حسین راہی ضرور کچھ کرتے۔
    بات بہت لمبی ہو جانے پر معافی مانگتا ہوں۔ چاہیں تو چھاپ دیں، چاہیں تو حذف کر دیں۔
    علی

    جواب دیںحذف کریں
  8. بڑے بھائی تبصرے کا شکریہ۔ پنجاب کی تاریخ کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا۔ اگر اس سے پہلے پنجاب میں زبانیں موجود تھیں جو تاریخ کا حصہ بن گئیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ اس زبان کو بھی تاریخ کی قبر میں گاڑ دیا جائے؟ بس اسی بات کا رونا ہے۔ کہ ہم اپنی تاریخ کے وارث بھی نہیں بنتے۔ ایک طرف اپنے آپ کو آریا لٹیرے کہہ دیتے ہیں، پھر مکے مدینے سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں، جس دھرتری پر کھڑے ہیں اس سے رشتہ نہیں جوڑتے۔ مسلمان تو جہاں ہے وہی اس کا وطن ہے۔ پتا نہیں کسی مسلمانی ہے ہماری تاریخ جب چاہے جہاں چاہے موم کی ناک کی طرح مڑ جاتی ہے۔ چھ ہزار سال میں کہیں سے بھی ہماری تاریخ شروع ہو سکتی ہے۔ عجیب ہے جی یہ کلیہ بھی۔
    بڑے بھائی اس وقت فارسی سرکاری زبان تھی، تو اس کا پنجابی کے مزاج پر کیا برا اثر پڑتا ہے؟ یا اس سے یہ حقیقت ختم ہو جاتی ہے کہ فارسی کے بعد پنجابی پروان چڑھی پھر اردو۔ ان بزرگوں نے ایک مقامی زبان میں تصوف کا پیغام پہنچایا تو اس میں غلطی کہاں ہے؟ میں ہیر رانجھا کی علمی حیثیت پر بحث نہیں کر رہا۔ میں پنجابی کی کلاسیکس کی بات کر رہا ہوں، اس کے ورثے کی بات کر رہا ہوں۔ فارسی نہ مجھے آتی ہے، نہ میرے باپ کو اور نہ میرے باپ کے باپ کو آتی تھی۔ میں نسلی پنجابی ہوں اور مجھے پنجابی کی ہیر رانجھا ہی سمجھ میں آئے گی چاہے وہ فارسی والی کا پنجابی ترجمہ ہی ہو۔ میرے لیے وہی اصل ہے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مقصد پنجابی کے ورثے کی بات کرنا تھا۔
    سکھوں کی پنجابی بلاشبہ پاکستانی پنجابی سے قطعاً مختلف ہے۔ لیکن جس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی تھی وہ ان کا یقین ہے، اپنی زبان کو فروغ دینے کا عزم ہے۔ چاہے وہ جیسے بھی کر رہے ہیں۔ اور ادھر کے پنجابی؟ ان سے پنجابی کے مستقبل پر بات کر لو تو ناک چڑھاتے ہیں، پھر اس کے "گندے پن" پر اظہار خیال کرتے ہیں، پھر اردو کے فضائل گنوانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہی بات نا جی کہ اپنے ہی اپنی ماں بولی کے قاتل ہیں۔ وہ ماجھا، گاما، شاکر ہوں یا صوبائی اسبملی کے ممبر یا شاعر ادیب۔ سارے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، سارے ہی اردو کے پیچھے پنجابی کو مار رہے ہیں، اور قسطوں میں مار رہے ہیں۔
    آپ کی بات بجا کہ سندھی کے علاوہ کوئی بھی زبان سرکاری، تعلیمی زبان نہیں رہی۔ اور رنجیت سنگھ کی درباری زبان پنجابی نہیں تھی۔ کیا یہ بات اس حقیقت کو ختم کرتی ہے کہ آج گورمکھی ان جگہوں میں استعمال ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس میں ہر شعبے کی لغات موجود ہیں، آنلائن ڈکشنریا ہیں۔ اس کی ڈیجٹلائزیشن پر کام ہو رہا ہے۔ کل کی بات نہیں آج کی بات کریں سائیں۔ اور اردو، کب سرکاری زبان رہی ہے؟ مغل تھے تو فارسی سرکاری زبان تھی، پھر فارسی گئی تو انگریزی آ گئی۔ اردو چند سالوں تک نچلے درجے کی سرکاری زبان رہی لیکن پھر انگریزی آ گئی۔ پاکستان بنا تو اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کی باتیں ہوئیں۔ پھچلے 60 سالوں میں اردو کی اہمیٹ گھٹتی گئی اور انگریزی کی بڑھتی گئی۔ اور آج اردو اتنی سرکاری زبان ہے کہ تھانے کے پرانے محرر، اور کچہریوں کے پٹوری اور عرضی نویس اردو میں پرچے، فردیں اور عرضیاں لکھتے ہیں بس۔ باقی سب کچھ انگریزی میں ہوتا ہے۔ اردو کب سرکاری زبان رہی ہے؟ پیر کے ناختوں تک زور لگایا جاتا ہے نا سائیں۔ تو پھر یہی زور مقامی زبانوں کے لیے کیوں نہیں؟ سوال ہے نا جی ایک یہ۔
    بھائی اسی بات کو تو رونا ہے کہ بطور قومی زبان اردو کی ھد کہاں تک ہے؟َ اسی بات کا تو فیصلہ کرنا ہے کہ اردو کہاں تک ہے اور مقامی زبانیں کہاں تک ہیں۔ اسی بات پر بنگالی روتے تھے، اسی بات پر آج شاکر روتا ہے، کہ اردو کہاں تک، قومی یکجہتی کہاں تک، رابطے کی زبان کہاں تک۔ پنجابی پنجابی سے بات کرتا ہے تو پنجابی کیوں نہیں اردو کیوں؟ گھروں میں اردو کیوں؟ پنجابی کے ساتھ سوتیلی زبان کا سا سلوک کیوں؟ زمانے کے ساتھ چلنا ہے، زمانے سے ڈرنا ہے، اردو بولنی ہے تو پھر پنجابی مرتی ہے نا سائیں۔ قسطوں میں مرتی ہے ہے۔ کیوں؟ ارے ہم سے تو اچھے وہ ریڈ انڈین ہیں جن پر باہر سے حملہ آور آئے، ان کی زبانیں مردہ ہو گئیں، وہ انگریزی بولنا شروع ہو گئے، لیکن آج وہ اپنی کمیونٹی میں اپنی زبان بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی زبان بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارے بھائی جب پنجابی پر یہ وقت آ جائے گا تب ہوش آئے گا؟ تب بھی نہیں آئے گا۔ تب بھی زمانے کی بات ہو گی، ترقی کی بات ہو گی، اردو کی بات ہو گی، آگے جانے کی بات ہو گی، تاریخ کی موم کی ناک موڑ کر اپنے آپ کو آریا حملہ آور قرار دے کر، ادھر ادھر کی چند باتیں کہہ کر، پرانی زبانوں کے مرنے کی بات کر کے پنجابی کے اڑتے سانس بے حسی کے ساتھ دیکھے جاتے رہیں گے۔
    یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہی تھا، کہ یہ بے حسی ریکارڈ ہو جائے۔ تاکہ کل کا مورخ یہ دیکھ سکے کہ پنجابی ہی اپنی ماں بولی کے قاتل تھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  9. انڈیا میں ہندی بھی رابطے کی زبان نہیں ہے صاحب۔ انگریزی ہے، ہندی صرف شمال صوبوں میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ ان کے آئین میں کچھ بھی لکھا ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندی رابطے کی زبان کی بجائے ایک مخصوص علاقے کی زبان زیادہ بنتی جاتی ہے۔ انڈیا اور کسی چیز کے لیے نہیں تو کم از کم اس چیز کے لیے تو قابل تعریف ہے کہ وہاں ہر زبان میں علم کی منتقلی کا کام شد و مد سے جاری ہے۔ وہاں ترجمے کی صنعت جتنی وسیع ہے پاکستان اس کے عشر عشیر بھی نہیں۔ ایک زبان کا ادب دوسری زبان میں ترجمہ ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ سکے۔ اور یہاں؟ یہاں قومی زبان میں تخلیق کرکے بیٹھ جایا جاتا ہے۔ انڈیا زبانون کی ڈیجٹلائزیشن، ان کے ترجمے اور نقل حرفی پر کام کر رہا ہے تا کہ کثیر السانی سماج کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ انڈیا 22 سرکاری زبانی تسلیم کرتا ہے۔ اور پاکستان؟ انگریزی تسلیم کرتا ہے اردو کے دعوے کرتا ہے۔ اور مقامی زبانیں بولیاں سمجھی جاتی ہیں۔ پالیسی ساز عقل کے انھے اور اہل زبان بے حس۔ کسی کو احساس نہیں ہے کہ ماں بولیوں کا حق ہے، صرف اتنا احساس ہے کہ تہذیب یافتہ ہونا ہے تو اردو سیکھو اور نوکری حاصل کرنی ہے تو انگریزی سیکھو۔ مادہ پرستی کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اور پنجابی اس دوڑ میں پہلے نمبر پر ہیں۔ پشتو، بلوچی اور سندھی کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور کرتے ہیں۔ دو پٹھان چاہے دوصرے صوبوں کے لوگوں کے ساتھ محفل میں بیٹھے ہوں آپس میں پشتو میں بات کریں گے۔ سندھ میں سندھی کی پرائمری تعلیم لازمی ہے۔ اور پنجابی؟ ہاہاہا چھڈو سائیں اپنا تبصرہ ہی ایک بار پھر پڑھ لو۔ یہ سارے عذر پنجابیوں کے پاس گھڑے گھڑائے ہیں۔ تو قاتل ہوئے نا جی؟ اپنی ماں بولی کے قاتل، اسے قسطوں میں مارنے والے ٹھنڈنے خون کے بے حس قاتل۔ بس یہی بے حسی ریکارڈ کرنی تھی سائیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  10. تحریر تو اچھی لگی لیکن تبصرے میں پہنچ کر پتہ چلا کہ تبصرہ اردو ہی میں لکھنا ہے۔ اگر اردو میں ہی تبصرہ لکھنے کی پابندی ہے تو پھر یہ ساری ہی تحریر بے مقصد ہو جاتی ہے نا؟

    جواب دیںحذف کریں
  11. قیصرانی تحریر پڑھنے اور تبصرے کا شکریہ۔ اردو میں لکھنے کا مقصد سب کو یہ بتانا تھا کہ پنجابی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اور یہ پنجابی کا مقدر ہی نہیں پاکستان کی ساری زبانیں (سوائے اردو) اسی مقدر کی طرف جا رہی ہیں۔ آپ پنجابی میں تبصرہ کریں، ست بسم اللہ۔

    جواب دیںحذف کریں
  12. شاکر بھائی بہت اچھا لگا آپکا مضمون پڑھ کر۔ اور آپکے خیالات کی دلی قدر کرتا ہوں۔ گو کہ اس مضمون میں بہت سی باتیں میری ذاتی خیالات پر چوٹ کرتی ہیں مگر میں آپکو حق بجانب سمجھتا ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  13. I would appreciate if you had written this article in Punjabi ;-)

    جواب دیںحذف کریں
  14. ھر گروہ کو اپنی مادری زبان بولنے، لکھنے، پڑھنے، اوراپنے بچوں کو سکھانے کا پورا حق ہے، اور قومی زبان کے نام پر اسکو مٹانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ قومی زبان اپنی جگہ پر اور علاقائی زبانیں اپنی جگہ پر ۔ میری مادری زبان اردو ہے اور مجھے پاکستان کی کوئی اور علاقائی زبان نہیں آتی، لیکن میں پاکستان کی ہر علاقائی زبان کو قائم رکھنے، بلکہ اُس کو ترویج و ترقی دینے کا قائل اور حامی ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں
  15. آپ نے بہت اچھے طریقے سے پنجاب میں پنجابی زبان پر ہونے والے ظلم کا زکر کیا ہے، اور یہ ظلم کوئ اور نہیں ، بلکہ خود پنجابی سب سے زیادہ کر رہے ہیں، کوئ بندا دس جماعتیں پرھتا نہیں کہ اس کے پر نکل آتے ہیں، ہمارے لوگ اپنے بچوں کو اردو بولنے سے خود روک رہے ہیں، لاہور میں تو پنجابی بہت زیادہ اردو کی ملاوٹ ہو گئ ہے، میں نے "پرھے لکھے " لوگوں کو چپراسیوں سے اپنی "ماں بولی" کے کئ الفاظ کے مطلب پوچھتے دیکھا ہے، خآلص پنجابی بولو تو لوگ مزاق بھی اراتے ہیں، ۔آپ کی اپنی پوسٹ کے علاوہ ، کومنٹس پرھ کر بھی اچھا لگا۔

    جواب دیںحذف کریں
  16. ڄناب صدر صاحب تے گورنر کھوسہ صاحب!

    ١۔اسلام آباد تے کراچی وچ اردو یونی ورسٹی ھے پئی۔ہک سرائیکی میڈیم :سرائیکی یونیورسٹی برائے صحت انجینئرنگ تے سائنس آرٹس ٻݨاؤ جیندے کیمپس ہر وݙے شہر وچ ھوون۔.

    ۔٢.۔ تعلیمی پالسی ڈو ھزار نو دے مطابق علاقائی زباناں لازمی مضمون ھوسن تے ذریعہ تعلیم وی ھوسن۔ سرائیکی بارے عمل کرتے سرائیکی کوں سکولاں کالجاں وچ لازمی کیتا ونڄے تے ذریعہ تعلیم تے ذریعہ امتحان بݨاؤ۔.

    ٣۔سرائیکی کوں قومی زبان دا درجہ ڈیوو.۔.

    ۔٤۔ نادرا سندھی اردو تے انگریزی وچ شناختی کارݙ جاری کریندے۔ سرائیکی وچ وی قومی شناختی کارڈ جاری کرے۔.

    ۔٥۔ ھر ھر قومی اخبار سرائیکی سندھی تے اردو وچ شائع کیتا ونڄے۔کاغذ تے اشتہارات دا کوٹہ وی برابر ݙتا ونڄے۔.

    ۔٦۔ پاکستان دے ہر سرکاری تے نجی ٹی وی چینل تے سرائیکی، سندھی، پشتو ، پنجابی،بلوچی تے اردو کوں ہر روز چار چار گھنٹے ݙتے ونڄن۔.

    ۔٧۔سب نیشنل تے ملٹی نیشنل کمپنیاں سرائیکی زبان کوں تسلیم کرن تے ہر قسم دی تحریر تے تشہیر سرائیکی وچ وی کرن۔.

    ۔٨۔۔سرائیکی ہر ملک وچ وسدن ایں سانگے سرائیکی ہک انٹر نیشنل زبان اے۔ سکولاں وچ عربی لازمی کائنی ، تاں ول انگریزی تے اردو دے لازمی ھووݨ دا کیا ڄواز اے؟.

    جواب دیںحذف کریں
  17. میرا خیال ہے کہ پنجاب ہمیشہ سے غیرملکی حملہ آوروں کے ہاتھوں تہس نہس ہوتا رہا ہے۔ اس صورتحال میں مقامی زبان یا تہذیب کو کبھی سرکاری رتبہ نصیب ہی نہیں ہوسکا۔ اور شایددوسروں کی زبانیں اور تہذیب اپنا اپنا کرہمییں اپنی تہذیب بھول چکی ہے؟ ویسے بھی، مغلوب ہونے والی قوموں کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت اور زبان وغیرہ کو کمتر سمجھنا شروع کردیتی ہیں۔

    میں خود ایک مترجم ہوں، اور آپ کی بات بخوبی سمجھ سکتی ہوں۔ میری مادری زبان پنجابی ہے، بچپن سے پنجابی بولتے اور سنتے آرہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ پنجابی پڑھنے میں خود مجھے بھی تھوڑی مشکل پیش آتی ہے، کیونکہ ہمیں کبھی پنجابی پڑھنے کی عادت ہی نہیں ڈالی گئی۔ یا یوں کہیں کہ کبھی موقع ہی نصیب نہں ہوا۔

    ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اگر میں اپنے بیٹے سے پنجابی میں بات کروں تو میرے میاں کو اعتراض ہوتا ہے کہ بچے کو 'کنفیوز' نہ کرو۔ اور ان کے خیال میں پنجابی ایک غیر مہذب اور اجڈ زبان ہے۔ ان کے اپنے والدین نے اپنے بچوں کو پنجابی کی 'علت' سے دور رکھا، گو وہ خود پنجابی بولتے ہیں/تھے۔ میرا بچہ اردو بھی 'انگریزی نما' تلفظ میں بولتا ہے، کیونکہ انگریزی 'وقت کی ضرورت' ہے۔ ویسے میں تمامتر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکثروپیشترپنجابی بولنے کے جرم کا ارتکاب کرتی رہتی ہوں۔

    شکر ہے گاؤں دیہات میں ابھی تک پنجابی زندہ ہے، کم ازکم بولے جانے کی حد تک۔ شہروں کے لوگ تو پنجابی بولنا شدید توہین تصور کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ 'پینڈوؤں' اور 'نوکروں' کی زبان ہے۔ ہم لوگ اردو بول کر اپنے آپ کو 'پڑھا لکھا' اور انگریزی بول کر 'ماڈرن' ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ میں کئی ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو گھر میں تو پنجابی بولتے ہیں، لیکن دوستوں یا گھر سے باہر پنجابی بولنے کی 'غلطی' کبھی نہیں کرتے، کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ خدانخواستہ انہیں پینڈو سمجھا جائے۔

    میں عورتوں کو زیادہ قصوروار سمجھتی ہوں، کیونکہ عورتیں پنجابی سے زیادہ گریزاں نظر آتی ہیں اور اپنے بچوں کو انگریزی یا اردو سکھانے پرمصر ہوتی ہیں۔ اور زیادہ ترخواتین، اگر پنجابی جانتی بھی ہوں تو کسی محفل میں یوں ظاہر کریں گی جسیے اردو یا انگریزی کے علاوہ کسی زبان سے آشنائی نہیں۔ کم ازکم، مرد اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ یار دوستوں میں پنجابی بولنے سے شرماتے نہیں ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔