ہفتہ، 2 اپریل، 2011

اٹھارہویں ترمیم، کنکرنٹ لسٹ اور تعلیم

پچھلے کچھ دنوں سے مزید وزارتیں صوبوں کو منتقل کرنے کی باتیں ہورہی ہے۔ میں عمومًا حکومت کے کُت خانے میں نہیں پڑتا لیکن تعلیم چونکہ میرا پیشہ بھی ہے، اور طالب علم بھی ہوں اس لیے مجھے تعلیم کی وزارت کی صوبوں کو منتقلی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ایک طرف ہمارے "وڈے" نظریہ پاکستان وغیرہم نظریات کے مامے بنتے ہیں اور دوسری طرف صوبوں کو وزارت تعلیم اور نصاب سازی کا اختیار دیا جارہا ہے۔ یعنی ہر صوبہ اپنی مرضی کا نصاب بنانے میں آزاد ہوگا۔ اور جہاں تک میرا خیال ہے نظریہ پاکستان کا بُخار لاہور کے دائیں بازو والوں کو ہی سب سے زیادہ ہے مُلک میں، بلوچستان کی طرف نکل جائیں تو وہاں نظریہ پاکستان کا ن بھی گھس گھس کر ختم ہوجاتا ہے۔ نصاب میں آئندہ پانچ سات برس میں آنے والی یہ مشرق و مغرب کی تفاوت، کسی مرکزی باڈی کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام میں مزید تقسیم در تقسیم ڈانواں ڈول ہوتے اس مُلک کے مفاد میں ہے بھلا؟
چلیں وزارت تعلیم کو چھوڑیں، میاں رضا ربانی صاحب کو ہائیر ایچوکیشن کمیشن سے اللہ واسطے کا بیر لگ رہا ہے۔ موصوف اس کے حصے بخرے کرکے بھی صوبوں کو دینا چاہ رہے ہیں۔ کہنے والے یہ کہتے ہیں کہ یہ غصہ نکالا جارہا ہے جعلی ڈگریوں کی جانچ پڑتال میں دیانت داری برتنے کا۔ موصوف بن بیٹھے تو منصف ہیں لیکن اس سارے قضیے کا حال بندر اور روٹی والا ہونا ہے کہ آخر میں ہاتھ کچھ بھی نہیں آنا اور عوام نے ذلیل و خوار ہوجانا ہے۔ ایچ ای سی اس وقت ملک میں اعلی تعلیم کو کنٹرول کرنے والا مرکزی ادارہ ہے۔ اس کے تحت سکالر شپس، ڈگریوں کی تصدیق،، یونیورسٹیوں کی ریٹنگ وغیرہ کے معاملات چلتے ہیں۔ اور ہمارے وژن لیس سیاہ ستدان اسے صوبوں کو منتقل کررہے ہیں، وہ بھی حصے بخرے کرکے۔ اس کے کچھ اختیارات مختلف وفاقی وزارتوں کو دے دئیے جائیں گے اور باقی صوبوں کے حوالے کردئیے جائیں گے۔ اور امیدوار جگہ جگہ دھکے کھاتے پھریں گے۔ عجیب ذلالت ہے ویسے، مشرف جیسا بھی تھا اُس نے اعلی تعلیم کو فری ہینڈ دئیے رکھا۔ ان لوگوں نے آکر ایچ ای سی کو پہلے دیوار سے لگانا شروع کیا اب ختم کرنے پر تُل گئے ہیں۔
ایچ ای سی کے سلسلے میں پچھلے دو تین دن سے خبریں پڑھ رہا ہوں۔ آپ بھی ملاحظہ کریں۔