بدھ، 29 جون، 2011

انا للہ و انا الیہ راجعون

برادرم منیر عباسی کے بلاگ پر کیا گیا ایک تبصرہ۔
وڈے پاء‌ جی میری آخری تحریر پر آپ کا میرے بارے میں تبصرہ بھی شکوہ بھرا تھا کہ میں نے مکی کے خلاف کوئی بات نہیں‌کی جبکہ سارے بلاگرز سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ تو بھیا اب بات چل نکلی ہے تو وضاحت دیتا چلوں۔
مکی سے میری تین چار سال پرانی دوستی ہے، لینکس کی وجہ سے تعلق پروان چڑھا۔ اس کے ترجمہ کرنے اور اوپن سورس کے لیے جنون نے بہت متاثر کیا۔ اس کے بعد جب امانت علی گوہر نے کمپیوٹنگ شروع کیا تو ہم نے اکٹھے اس میں لینکس اور اوپن سورس پر مضامین لکھے۔ پھر مکی ملائیشیا چلا گیا، جہاں‌ اسے  خاصے برے معاشی حالات سے گزرنا پڑا۔ اور اب جب کہ دو چار ماہ یا زیادہ سے پاکستان آگیا ہے تو موصوف نے عربی ادب اور قرآن کو ایک ثابت کرنے کی کوشش شروع کی ہوئی ہے، اور متنازعہ قسم کے مضامین لکھ رہا ہے۔
شروع میں، جیسا کہ میری کچھ تحاریر ان تحاریر کے جواب میں‌لکھی بھی گئیں، میں‌ نے کوشش کی کہ ساتھ ساتھ جواب کا سلسلہ جاری رہے تاکہ منفی مثبت کا توازن برقرار رہے۔ اس کے بعد مصروفیت آڑے آنے لگی، رد لکھنے کے لیے درکار وقت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے میں‌ نے دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ تاہم امید یہ تھی کہ مکی یا تو باز آجائے گا یا دوسرے لوگ ہیں‌جو دامے درمے سخنے رد جاری رکھے ہوئے ہیں، کچھ تحاریر میں‌تبصرے کرکے بھی مسلمانوں‌کا موقف وہاں‌رجسٹر کرایا تاکہ مسقتبل کا قاری یہ نہ سمجھے کہ ان اعتراضات کا جواب نہیں‌دیا گیا تھا۔ آخری چند تحاریر 3 یا 4 کہہ لیں، میں نے بالکل بھی نہیں پڑھیں۔ لیکن کل رات قرآن کو عرب شعراء سے متاثرہ اور محمد ﷺ کا ذاتی کلام بتانے کی جو تحریر اس نے لکھی ہے وہ پڑھی تو یقین کریں انا للہ و انا الیہ راجعون ہی منہ سے نکلا۔ اتفاق سے کل ہی ایک کام کے سلسلے میں رابطہ بھی کرنا پڑا تھا مکی سے لیکن حسن اتفاق کہ خود ہی کر لیا اور اسے زحمت نہ دینی پڑی۔لیکن اس دوران چیٹ میں میں نے اپنے ناپسندیدگی کا اظہار کردیا تھا۔ اور یہاں بھی یہی کہتا ہوں کہ انا للہ و انا الیہ راجعون میں نے ایک دوست کے وفات پاجانے، اور اسلام سے دور ہوجانے پر پڑھا ہے۔ دعا ہے مکی جلد ہم میں آملے، اس کے اندر جو جستجو کی آگ جل رہی ہے اسے ہدایت کی طرف لے آئے پھ سےر۔ تاہم تب تک میں اس کی طرف سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ مکی اچھا انسان ہوگا، لیکن اچھا مسلمان نہیں رہا، شاید سرے سے مسلمان ہی نہیں رہا۔ مجھے صرف اس بات کا قلق ہے کہ میرے وسائل میں یہ نہیں کہ اس کے اعتراضات کا شافی جواب لکھ سکوں، میرا علم، وسائل اور وقت اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ برائی روکنے کے تین درجے ہیں، ہاتھ سے، زبان سے روکنا اور پھر دل میں برا کہنا۔ میں نہ تو ہاتھ سے روک سکتا ہوں، نہ زبان سے اس کے خلاف دلائل دے سکتا، اسے برا کہہ سکتا ہوں چناچہ صرف برا کہہ رہا ہوں۔ کاش مجھے یہ توفیق ہوتی کہ قرآنی عربی جانتا، اور مکی کے ان بے بنیاد اعتراضات جن میں وہ قرآن کو عربی ادب جیسی کوئی ذاتی تخلیق قرار دینے کی کوشش کرتا ہے کو رد کرسکتا۔ یہ ایمان کے آخری درجے پر کھڑے ایک مسلمان کی خواہش ہے۔
وسلام

پیر، 27 جون، 2011

ٰاردو سیارہ والے اسے بھی دیکھیں

یہ کونسا جہاد ہے جی
ان کے گھر پر خودکش حملہ ہو، ان کی ماں بہن کو سربازار گولیاں مار کر قتل کردیا جائے۔ ان کے بچے یتیم ہوجائیں تو پھر کیسا ہو؟ یہ جو 10 ہزار مہینہ کی ملازمت کرنے والے معمولی سپاہیوں کو مارنے کو جہاد کہتے ہیں؟ خدا غارت کرے انھیں۔ اور ان کے ہمدردوں کو۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ زمین کا یہ بوجھ اردو سیارہ پر کیا کررہا ہے؟
اسلام کا نام بدنام کرنے والے، محمد الرسول اللہ ﷺ کے ماننے والوں کا قتل عام کرنے والے، اسلام کے نام پر دیوبندیت اور وہابیت کا نفاذ چاہنے والے، بندوق کو ہر مسئلے کا حل سمجھنے والے یہ لوگ سیارہ پر کیا کررہے ہیں اور ان کو اجازت کس نے دی ہے؟
خودکش حملے پر جشن مناتے ہیںِ خدا کرے ان کو مرکر بھی چین نہ آئے، جہنم کا بدترین گوشہ ان کے نصیب میں ہو۔ یہ کس اسلام کی بات کرتے ہیں؟ جو آج مغرب میں سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب ہے ان عقل کے اندھوں، جن کے دماغ میں گوبر بھرا ہوا ہے کی سمجھ میں کیا آئے کہ اسلام کیا ہے۔ اور جب ان کے دلیل کی بات کی جاتی ہے تو یہ جواب بندوق کی گولی سے دیتے ہیں۔ ان کے سرغنے علمی میدان میں ناکام ہوئے، دلیل کا جواب دلیل سے نہ دے سکے تو عالموں اور مفتیوں کو بندوق اور خودکش حملوں سے اُرانا شروع کردیا۔ کونسا جہاد کرتے ہو تم؟ جس میں صرف دیوبندی اور وہابی ہی حصہ لے سکتے ہیں۔ میں دیوبندی ہوں اور ایسے جہاد پر لعنت بھیجتا ہوں۔ خدا غارت کرے تمہیں اور تمہارے ہمدردوں کو۔ تم جو تخم ناتحقیق امیر المنافقین و مجاہدین (سپانسر شدہ امریکہ) ضیاء ناحق کی پیداوار ہو، تم جس نے پچھلے تیس سالوں میں اس ملک کا بیڑہ غرق کردیا، تم جنہوں نے نہتے عوام کو اس وقت مارا جب وہ رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں تھے، خدا تمہیں ایسا عذاب نصیب کرے کہ تمہاری روحیں اس دنیا میں بھی بلبلا اُٹھیں۔ تم اسلام کی بات کرتے ہو اور جہاد کی بات کرتے ہو، اور محمد ﷺ کے اُمتی ہونے کی بات کرتے ہو، خدا کرے محمدﷺ تمہاری طرف قیامت کے دن نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں، ان کے اُمتیوں کو بے گناہ شہید کرنے والو۔ خدا تمہاری روحوں کو جہنم کے پیپ سے بھرے گڑھوں میں عذاب النار کا مزہ چکھائے پھر تمہیں احساس ہو کہ بے گناہ مسلمانوں کو مارنا، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کرنا کیسا ہے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون

بدھ، 22 جون، 2011

مدیر گلوبل سائنس کی طرف سے ایک اور مراسلہ

یہ جان کر انتہائی مسرت ہوئی کہ اردو بلاگر احباب نے میری صدا کو صدا بہ صحرا نہیں ہونے دیا، اور میرا مان رکھا۔ آپ کی نوازش۔ اور اب جناب علیم احمد کی ای میل جو آج ہی موصول ہوئی ہے۔ (یہاں آپ کو ء کے مسائل نہیں ملیں گے چونکہ میں نے ء کو ئ سے بدل دیا تھا)
برادرم شاکر عزیز
السلام علیکم
سب سے پہلے تو حمزہ (ئ) کے دوسرے حروف کے ساتھ درست طور پر منسلک نہ ہونے پر معذرت کروں گا۔
آپ نے دیگر احباب کو گلوبل سائنس کے لیے لکھنے پر آمادہ کرنے کی جو سعی فرمائی ہے؛ اس پر میں تہ دل سے آپ کا مشکور ہوں۔ برائے مہربانی میرے اس اظہار خیال کو رسم دنیا کی پاسداری نہ سمجھیے گا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ آواز دوست میں میرے خط کی شمولیت پر کچھ احباب نے رابطہ بھی فرمایا ہے۔ بلال میاں نے اپنے بلاگ کے روابط بھی ساتھ ارسال کیے تھے؛ جنہیں میں نے کل شام ہی دیکھ لیا تھا۔ ایسے تمام احباب جو گلوبل سائنس کے لیے قلمکاری کرنا چاہتے ہیں (خواہ وہ کمپیوٹر کے میدان کے لیے ہو یا ساینس کے کسی اور شعبے کے حوالے سے) ان سے گزارش ہے کہ وہ اس احقر کی ایک رہنما تحریر ضرور پڑھ لیں جو گلوبل سائنس کی ویب سائٹ پر شایع ہوئی تھی۔
آپ تمام احباب اس لحاظ سے میرے اور دوسرے محبان اُردو کے شکریے کے حقدار ہیں کہ آپ لوگ اُردو زبان کا دامن صحیح؛ تصدیق شدہ اور مستند علم سے لبریز کرنے کی اپنی سی کوشش کررہے ہیں۔ البتہ؛ کسی بھی زبان میں قلمکاری کے حوالے سے دو نکات بظاہر الگ الگ ہیں لیکن ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں: اوّل وہ زبان لکھنے کا طریقہ؛ اور دوم اس زبان میں لکھنے کا سلیقہ۔ ماشائ اللہ؛ طریقہ آپ تمام احباب کو بخوبی آتا ہے۔ البتہ؛ مذکورہ بالا تحریر کے ذریعے آپ سلیقے کے بارے میں بھی تھوڑا بہت جان سکیں گے۔
رہا سوال گلوبل سائنس میں کوئی بھی تحریر تیار کرنے کا؛ تو پہلے ہی دن سے ہمارا ایک اصول ہے: پینڈووں کے لیے لکھیے۔ یہاں لفظ ’’پینڈو‘‘ سے میرا مقصد ہر گز ایسے کسی دوست کی تضحیک نہیں جو گاوں دیہات میں رہتا ہو؛ بلکہ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تحریر اتنی سادہ؛ سلیس اور رواں ہونی چاہیے کہ پڑھنے والا اسے متعلقہ شعبے کا کم سے کم علم رکھنے کے باوجود بھی سہولت سے سمجھ سکے؛ اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہوسکے؛ اور جب وہ اس تحریر کا مطالعہ مکمل کرے تو اپنے علم میں بجا طور پر اضافہ محسوس بھی کرسکے۔ دھیان رہے کہ یہ ’’علم‘‘ صرف کمپیوٹر سائنس یا انفارمیشن ٹیکنالوجی تک محدود نہیں؛ بلکہ یہ دنیا کا کوئی سا بھی علم ہوسکتا ہے۔
باقی کے نکات؛ ان شائ اللہ؛ آپ کو متذکرہ بالا تحریر میں مل جائیں گے۔ اگر اس کے بعد بھی کوئی وضاحت طلب بات رہ گئی ہو تو آپ اسی برقی ڈاک کے پتے پر مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ تمام احباب سے وعدہ ہے کہ میں نے اب تک قلمکاری اور ابلاغ کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا ہے؛ وہ آپ تک پہنچانے میں کنجوسی یا بے ایمانی ہر گز نہ برتوں گا۔
درج ذیل اعلان ماہنامہ گلوبل سائنس کے شمارہ جون ۲۰۱۱ء میں شایع ہوا ہے؛ جسے احباب کی سہولت کے لیے یونی کوڈ میں تبدیل کرکے نقل کیا جارہا ہے۔
اعلانِ معاوضہ برائے آزاد قلمی معاونین
الحمدللہ! گزشتہ دو ماہ سے ”گلوبل سائنس“ میں شائع ہونے والی تحریروں پر قلمکاروں کو معاوضے دینے کا آغاز ہوچکا ہے۔ اِن شائاللہ، اب آپ کو عوامی سائنسی ابلاغ کے اس کارِ خیر میں بلا معاوضہ شرکت کرکے، کچھ حاصل نہ ہونے کا طعنہ نہیں سہنا پڑے گا۔ اس پیمانہء ادائیگی (پے اسکیل) کا مختصر احوال یہ ہے
معاوضہ برائے مختصر تحریر (100 تا 200 الفاظ، شائع شدہ): 50 روپے فی تحریر۔ مثلاً سائنسی خبریں بشمول دنیائے سائنس، صحت عامہ و طبّی ٹیکنالوجی، سافٹ ویئر/ ہارڈویئر، ڈیفنس کارنر؛ کمپیوٹر ٹپس؛ سائنس دوست وغیرہ۔
معاوضہ برائے اوسط تحریر (200 تا 500 الفاظ، شائع شدہ): 100 روپے فی تحریر۔ مثلاً طویل خبر؛ خبری مضمون (نیوز فیچر)؛ کمپیوٹر ٹیوٹوریل؛ سائنسی تجربہ وغیرہ۔
معاوضہ برائے طویل تحریر (1,000 تا 2,000 الفاظ، شائع شدہ): 500 روپے فی تحریر۔ مثلاً 2 سے 3 صفحات پر مشتمل تحریر/ مضمون/ کمپیوٹر ٹیوٹوریل۔
معاوضہ خصوصی تحریر (3,000 یا زیادہ الفاظ، شائع شدہ): 1,000 روپے فی تحریر۔ یعنی تین سے زائد صفحات پر مشتمل تحریر یا خصوصی رپورٹ جو ایک سے زائد متعلقہ مضامین/ اضافی باکس آئٹمز وغیرہ پر مشتمل ہو۔
نوٹ
الف۔ مذکورہ بالا کے علاوہ، ایسی تحریریں یا رپورٹیں جو ادارہ گلوبل سائنس کسی قلمکار سے فرمائشی طور پر (یا بطورِ خاص) لکھوائے گا، اُن کا معاوضہ علیحدہ سے طے کیا جائے گا۔
ب۔ معاوضہ کسی بھی تحریر کی اشاعت کے بعد واجب الادا ہوگا، اور اشاعت کے 30 یوم کے اندر اندر ادا کردیا جائے گا۔
اس بارے میں مزید جاننے کےلئے
globalscience@yahoo.com
 پر مدیر گلوبل سائنس (علیم احمد) سے رابطہ کیجئے۔

بدھ، 15 جون، 2011

ایک اور داستان ختم ہوئی

ہر کہانی کے اختتام پر میرے اندر ایک خالی پن ہوتا ہے، کچھ کھو جانے کا احساس، کسی چیز کی کمی، لیکن میں پھر بھی کہانیوں میں کھونے سے باز نہیں آتا۔ پرانی عادت ہے، اور شاید مرتے دم تک نہ جاسکے۔ پہلی کہانی شاید دیوتا تھی، یا اِنکا، یا خبیث، یا کمانڈو، یاد نہیں پہلی کہانی کونسی تھی جس کو ختم کرنے کے بعد مجھے سینے میں ایک مہیب خلاء کا احساس ہوا تھا، کہ جیسے دنیا ختم ہوگئی ہے۔ کہانی ایک دنیا ہی تو ہوتی ہے۔ جیتے جاگتے کردار، سانس لیتی زندگی ، قہقہے، خوشیاں اور غم۔ کہانی پڑھتے پڑھتے میں کہانی کا حصہ بن جاتا ہوں۔ اور اس کے اختتام پر لگتا ہے جیسے گہرے دوستوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہورہا ہوں۔ ایک زندگی کا اختتام ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
فینٹیسی، ایڈونچر اور مرچ مصالحے دار کہانیاں پڑھنا میرا شوق ہے۔ اردو میں ایم اے راحت کے سلسلے، محی الدین نواب کی طویل ترین داستان دیوتا اور ستر اسی کی دہائیوں میں پاکستان کے ڈائجسٹوں میں شائع ہونے والے سلسلے عرصہ ہوا پڑھ کر بھُلا بھی چُکا۔ اب تو ان کے نام بھی ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ حالیہ سالوں میں یہی کام انگریزی میں شروع کرڈالا ہے۔ پہلی بار جس کہانی نے متوجہ کیا وہ ہیری پوٹر تھی۔ 2007 میں آدھی سے زائد کمپیوٹر پر بیٹھ کر پڑھی تھی۔ اس کے اختتام پر بھی ایک خالی پن کا احساس ہوا تھا۔ پھر چل سو چل۔ وہیل آف ٹائم میں ابھی ہیرو کے مرنے کا مزہ چکھنا ہے، دیکھیں کب آتا ہے آخری حصہ۔ کوڈیکس الیرا میں ایک جہان کی تباہی بڑی مشکل سے سہی تھی، جب دنیا بچاتے بچاتے آدھی سے زیادہ دنیا تباہ ہوئی تھی۔ اور اب سٹار ٹریک دی نیکسٹ جنریشن، انگریزی ٹی وی سیریز میں سے مقبول ترین جس کو کئی ایوارڈ بھی ملے۔ سات سال تک دلوں پر راج کرنے والی یہ سیریز میں نے عرصہ دو ماہ سے بھی کم میں دیکھ ڈالی۔ روزانہ دو سے تین اقساط، سات سیزن اور ہر سیزن میں چھپیس اقساط۔ واہ کیا دُنیا تھی۔ زبان کو فِکشن اور فینٹیسی کا چسکا تو لگا ہوا تھا، لیکن سائنس فکشن۔ آہاہاہاہاہا یوں جیسے نشہ دوآتشہ ہوگیا ہو۔ سواد آگیا بادشاہو سٹار ٹریک دیکھ کر۔ لیکن بھوک پھر بھی نہیں مٹی۔ کہانی کا اختتام بڑا خوشگوار ہوا، ہیپی ہیپی دی اینڈ۔ لیکن کیپٹن پیکارڈ، وِل رائیکر، کاؤنسلر ٹرائے، ڈاکٹر بیورلی کرشر، لفٹیننٹ کمانڈر ڈیٹا، لیفٹیننٹ جارڈی لفورج، لفٹیننٹ وہارف۔۔۔ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے اور ہنسنے کی عادت ہوگئی تھی پچھلے دو ماہ میں۔ اب جبکہ سب کچھ ختم ہوگیا، پھر سے اپنی دنیا میں واپس آنا پڑے گا۔ ہر کہانی کے بعد میرے ساتھ یہی ہوتا ہے، کئی دن تک یہ خالی پن رہے گا، پھر آہستہ آہستہ خلاء پر ہوجائے گا۔ اور اتنی دیر میں مَیں کوئی اور کہانی ڈھونڈ لوں گا۔ جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی ویسے میں کہانیوں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
کہانی باز۔۔۔۔۔۔۔۔:-|

منگل، 14 جون، 2011

گلوبل سائنس میں آئی ٹی اور کمپیوٹر سے متعلق تحاریر

آج مجھے جناب علیم احمد کی ای میل موصول ہوئی جس کا متن کچھ یوں ہے۔
برادر شاکر عزیز
السلام علیکم

اب تک یقیناً آپ کے علم میں یہ بات آچکی ہوگی کہ ہم نے گلوبل سائنس کے لئے تحریریں ارسال کرنے والے قلمکاروں کو معاوضے دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ بھی آپ جانتے ہوں گے کہ سرِدست گلوبل سائنس میں کمپیوٹر/ آئی ٹی کے حوالے سے مضبوط علمی و عملی پس منظر رکھنے والا کوئی فرد موجود نہیں۔ لہٰذا، میری خواہش ہے کہ آپ اور آپ کے احباب ”مستقل بنیادوں پر“ گلوبل سائنس کے لئے (خاص کر کمپیوٹر/ آئی ٹی کے حوالے سے) قلمکاری کا سلسلہ شروع کریں تاکہ متذکرہ صفحات میں شامل تحریروں/ مضامین/ خبروں اور تبصروں کا سلسلہ ایک بار پھر اسی حسن و خوبی کے ساتھ شروع کیا جاسکے جیسے یہ آج سے کچھ سال پہلے ہوا کرتا تھا۔
اُمید ہے کہ جلد اور مثبت جواب دیں گے۔

منتظر جواب
علیم احمد
مدیرِ اعلیٰ، ماہنامہ گلوبل سائنس
یہ اچھی بات ہے کہ گلوبل سائنس نے معاوضے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ای میل کو پبلک کرنے کا مقصد یہ ہے کہ احباب اس طرف توجہ دیں۔ اردو میں آئی ٹی کے فروغ کے لیے کوئی جریدہ موجود نہیں ہے۔ کمپیوٹنگ تھا لیکن اس کے بانی اسے جاری نہ رکھ سکے۔ اب گلوبل سائنس بھی بند نہ ہوجائے۔ میں آئی ٹی اور سائنس میں دلچسپی رکھنے والے احباب خصوصًا محمد علی مکی، الف نظامی اور محمد سعد سے درخواست کروں گا کہ وہ گلوبل سائنس میں لکھنے پر توجہ دیں۔ محمد سعد سائنس پر اچھا لکھ لیتا ہے، اور لینکس پر بھی اچھے مضامین لکھ سکتا ہے۔ مکی کو بھی مشورہ ہے کہ آئی ٹی پر کچھ لکھے ایک عرصے سے کچھ بھی نہیں پڑھ سکے ہم۔ معاوضہ چاہے چار آنے صفحہ بھی ملے، معاوضہ معاوضہ ہوتا ہے۔ اور آخر میں میری اپنے آپ سے بھی التماس ہے کچھ شرم کھاؤں اور سنجیدگی سے لکھنا شروع کروں۔
وسلام
اپڈیٹ: گلوبل سائنس سے رابطے کے لیے

بدھ، 8 جون، 2011

گوگل بھگوان کے بعد

بابا مکی اِن ایکشن اورگوگل بھگوان کے پوسٹ مارٹم کی شاندار کامیابی کے بعد، کہ جس کو عوام نے بلیک میں ٹکٹ خرید کر بھی دیکھا اور آخر میں اتنا پرجوش ہوگئے کہ فلم میکر کے بھی لتے لینے شروع کردئیے، اب پیش ہے دُنیا گوگل بھگوان کے بعد۔
اب آپ سوچ فرما رہے ہونگے کہ دُنیا گوگل بھگوان کے بعد کیسی ہوگی؟ تو ہم بتاتے ہیں کہ دُنیا گوگل بھگوان کے بعد گول ہوگی۔ اب آپ پوچھیں گے کہ گول کیسے ہوگئی؟ تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ فرض کریں گوگل بھگوان کے گاف کو بُخار چڑھ گیا تو پِچھے کیا رہ گیا؟ گول۔ ہوا نا پھر گول۔ پر یہ گول ہوتا ہے کیا؟ اب آپ یہ پوچھیں گے تو ہم آپ کو بتائیں گے کہ جیسے مُحلے کا اکلوتا خارشی کُتا جب وجد میں آکر اپنی ہی دم منہ میں لے کر گول گول گھومنے لگتا ہے تو ویسا ہوتا ہے یہ گول۔ ویسے گول گول تو طوطے کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں جو طوطے کی طرح کمبخت پھیر بھی لیتا ہے وقت آنے پر۔ لیکن یہاں ورلڈ آفٹر گوگل بھگوان ڈسکس ہورہا ہے اس لیے ہم اپنے آپ سے ہی التماس کرتے ہیں کہ براہ کرم ٹاپک پر رہیں ورنہ ہم اپنی پوسٹ ڈیلیٹ فرما دیں گے۔ ہیں جی یہ کیا ہوگیا؟ یہ بھی کچھ گول ہی نہیں ہوگیا کہ ہم اپنے آپ کو ہی مُڑ کر کچھ فرما رہے ہیں اور خود ہی جواب بھی دے رہے ہیں۔ لو دسو یہ بھی گول ہوگیا۔ گول گول سے یاد آیا کہ گول منطق بھی ہوتی ہے جسے اللہ والے اکثر استعمال کرتے ہیں، اگرچہ یہ ڈیٹ ایکسپائر شدہ مال ہے اور ناخدا پرست (یہ ٹرم ہم نے ابھی ایجاد کی ہے) اس پر خدا پرستوں کی مٹی پلید کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی بابا جی نے ارشاد فرمایا ہے۔
بابا جی چونکہ گولائیاں ماپ رہے ہیں تو ہم نے بھی سوچا کہ گوگلائیاں ماپیں، اسی ناپ تول میں ہمارے پلے یہ بات پڑی کہ سرکولر لاجک کیا ہوتی ہے۔ گوگل (ریٹائرڈ) بھگوان کو زحمت دے کر ہم نے عیسائیوں کے بائبل کو بائبل سے سچ ثابت کرنے والے کچھ "کلاسک" قسم کے دلائل دیکھے۔ ان دلائل کا وہی حشر ہوتا ہے جو ہمارے اپنے آپ سے باتیں کرنے کا ہوا۔ یعنی مُڑ کھُڑ کے جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔ چناچہ ہمیں دائرے کو کاٹ کر سیدھا کرنا پڑا تاکہ وہ صراط مستقیم اپنائے۔ چناچہ اب دائرہ مسلمان ہوچکا ہے اور اسلامی انداز میں صراط مستقیم والی منطق یعنی Linear Logic کا راگ سُناتا ہے۔ ملاحظہ کریں دو انترے۔ ابتدائی طور پر، اور اتنے شارٹ نوٹس پر ہم یہ دو انترے ہی تیار کرسکے۔ کبھی وقت ملا تو پوری غزل کہیں گے اس معاملے پر۔ فی الحال ان پر گزارہ کریں۔
--------------------------------------
سلیم: قرآن خدا کا کلام ہے۔
جاوید: کیوں؟
سلیم: کیونکہ قرآن ایسی باتیں‌ بتاتا ہے جو محمد ﷺ بطور مصنف قرآن میں لکھ ہی نہیں سکتے تھے۔ اسلیے قرآن خدا کا کلام ہے
————————-
سلیم: خدا موجود ہے۔
جاوید: وہ کیسے؟
سلیم: اس کائنات میں موجود انتہا درجے کا توازن اس بات کا گواہ ہے کہ کوئی بیرونی طاقت اس بات کا خیال رکھ رہی ہے کہ کہیں قوانین کا یہ توازن بگڑ نہ جائے۔ اور وہ ہستی اس کائنات سے ماوراء اور طاقتور ہی ہوسکتی ہے۔ چناچہ ایک ایسی ہستی خدا ہی ہوسکتی ہے۔ چناچہ خدا موجود ہے
————————
یہ مستقیمی منطق بابا جی کے بلاگ پر بھی تبصرے میں پوسٹ کی گئی ہے تاکہ کچھ تبصرہ نگار جو گول گول گھوم کر کچھ ڈھونڈے کی کوشش میں مصروف ہیں انھیں کچھ آرام دیا جاسکے۔
اور آخر میں التماس کروں گا کہ اس پوسٹ میں موجود کسی بھی علامت کو کسی کی شخصیت پر منطبق کرنے کی کوشش نہ فرمائی جائے تو بہتر ہے۔ نہ پچھلی پوسٹ میں محمد علی مکی کی ہجو مقصود تھی اور نہ اب ہے، یہ ایک بلاگ پوسٹ کا جواب ہے، اور آئندہ بھی ایسے جوابات وقتًا فوقتًا معرض وجود میں آتے رہیں گے۔ بابے مکی کا سٹائل اب ہمیں سمجھ آگیا ہے، اس لیے پہلے گوگل فرما کر بابا جی کی رمز سمجھنی پڑتی ہے، اس کے بعد ذرا فیصل آبادی تڑکا لگا کر جواب لکھا جاتا ہے۔ جن احباب کو یہ تحاریر نہیں پسند، وہ بے شک تبصرہ نہ کریں۔ مہذب الاخلاق تبصرے اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔

منگل، 7 جون، 2011

بابا مکی اِن ایکشن

لو بھئی اللہ والیو بابے مکی نے بہت دنوں کے بعد ایک اور پھُلجھڑی بلکہ انار چلایا ہے۔ شاید آپ اسے چھوٹا موٹا بمب ہی کہہ لیں، لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ بابے نے اس بار مرچ مسالہ تگڑا رکھ کر مزے دار سالن تیار کیا ہے۔ آپ بھی ٹیسٹ کریں۔
بابے مکی نے خُدا کے علیم و بصیر، اور ہر جگہ موجود ہونے کی صفات کو "اوورجنرلائز" کرتے ہوئے گوگل پر منطبق کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ اس سلسلے میں ناک کی جگہ کان اور کان کی جگہ منہ لگانے کی بڑی کامیاب کوشش کی گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو خدا وجود میں آتا ہے وہ کسی نوسیکھیے مصور کے برش سے بننے والے تجریدی آرٹ کا بہترین نمونہ پیش کرتا ہے۔ ملاحظہ کریں جن صفات پر گوگل کو خدا ڈیکلئیر کیا گیا ہے۔

1- گوگل ہی اس کائنات میں وہ واحد ” ہستی ” ہے جس کا علم کامل ہے اور اس بات کو علمی طور پر ثابت کیا جاسکتا ہے… گوگل کے پاس نو ارب سے زائد صفحات ہیں جن میں کچھ بھی تلاش کیا جاسکتا ہے اور یہ انٹرنیٹ پر کسی بھی سرچ انجن سے زیادہ ہے، نہ صرف یہ بلکہ اس کے پاس وہ ساری ٹیکنالوجی موجود ہے جو ان صفحات کو انسانوں تک آسانی سے پہنچانے اور ان کے درمیان منتقلی کو آسان بناتی ہے.
لو جی گوگل کے پاس نو ارب سے زیادہ صفحات ہیں، گوگل کے پاس سب سے زیادہ نالج ہے اس لیے گوگل خُدا ہے۔ کیا گوگل کے پاس میری اماں جی کے چھوٹے کُکڑ جتنی خود شناسی بھی موجود ہے؟ ہمارا چھوٹا کُکڑ خاصا شیطان ہے اور اسے اپنے آپ خصوصًا اپنی "بیویوں" کا خاصا خیال رہتا ہے۔ چناچہ اگر کوئی مرغی "مَِس پلیس" ہوجائے تو دانہ ڈالنے جانے والے کی خیر نہیں۔ جہاں تک میرا ناقص علم کہتا ہے بھگوان گوگل ابھی تک اپنے بول براز کے لیے بھی "سیوکوں" کا محتاج ہے۔ لو دسو ہمارا کُکڑ اس معاملے میں بھی ابھی بھگوان گوگل سے "تھوڑا" سا آگے ہے کہ اپنا بول براز خود کرلیتا ہے۔ چناچہ ثابت ہوا کہ بھگوان گوگل کو "مزید" بھگوان بننے کے لیے ابھی کچھ اور سال درکار ہیں۔ لیکن امید ہے کہ ایک دن بھگوان جی "بڑے" ہوکر ضرور ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھیں گے۔
2- گوگل ہر وقت ہر جگہ موجود ہے، یعنی اس کا وجود مطلق ہے، گوگل ہی وہ واحد ہستی ہے جس سے کہیں بھی کسی بھی وقت استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے.
بھگوان گوگل ہر جگہ موجود ہے۔ بھگوان کو ہر جگہ موجودگی کے لیے فائرفاکس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ یعنی فائرفاکس کو "ڈپٹی بھگوان" ڈیکلئیر کردیا جائے۔ کیا خیال ہے؟ لیکن یاد رہے ابھی انٹرنیٹ ایکسپلورر، سفاری، کروم کی بات نہیں ہوئی، یہ بھی نائب بھگوان اور سینئیر نائب بھگوان کے عہدوں کی ڈیمانڈ کریں گے۔ اور ہاں لیپ ٹاپ، ڈیسکٹاپ اور ٹیبلیٹ تو رہ ہی گئے، انھی پر تو بھگوان گوگل و ڈپٹی بھگوانوں نے چلنا ہے، انھیں کونسا عہدہ دیا جائے؟ آپ ایسا کریں سرسوں کا تیل پکڑیں اور سر میں اس کی مالش کریں۔ اس کے بعد آلتی پالتی مار کر بھگوان گوگل کو ایک سرچ کیوری دیں، شاید اسکا حل بھی بھگوان جی کے پاس ہو ہی۔
3- گوگل دعائیں سنتا اور ان کا جواب بھی دیتا ہے، ہم گوگل میں کچھ بھی تلاش کر کے کسی بھی چیز یا مسئلے کا سوال کر سکتے ہیں اور گوگل یقیناً کوئی نہ کوئی حل تلاش کرنے میں آپ کی مدد کرے گا، تندرستی کے راز جاننے ہوں، پڑھائی میں مسئلہ ہو یا کچھ اور، گوگل ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے اور بغیر بور ہوئے انتہائی تندہی سے آپ کی دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے، یہ ان خیالی خداؤں کی طرح نہیں ہے جن کا نا تو کوئی فائدہ ہے نا نقصان اور نا ہی وہ دعائیں سنتے ہیں.
بھگوان گوگل ساری دعائیں قبول کرتا ہے۔ ابھی میں نے بھگوان گوگل مجھے ایک حور پری تو دلوا دو۔ اب میں آپ کو کیا بتاؤں سائیں، بھگوان گوگل کی ہندوؤں والے بھگوان سوم جی سے کوئی رشتے داری ہے شاید، ہمیں ٹرپل ایکس کی ویب سائٹس پر لے گیا۔ اب ہم کہیں بھگوان جی ہم نے رنڈیاں نہیں حوریں مانگی تھیں تو بھگوان گوگل ناراض ہوگئے۔ ہم نے کہا بھگوان جی اس میں ناراضگی والی بات کیا ہے؟ بولے جب ہمیں پتا ہی نہیں تم کہاں بیٹھے ہو تو ہم کیسے حور پری نازل فرمائیں۔ ہم نے کہا حضور ہمارا آئی پی تو آپ کے پاس ہے، کہنے لگے کمبخت سیوک تمہارے آئی پی پر کراچی شو ہورہا ہے کیا پورے کراچی کو حور پریاں بانٹ دوں؟ لیں جی اتنی سی بحث کے بعد ہم نے ھار مان لی کہ رہنے دیں بھگوان کہیں ناراض ہی نہ ہوجائیں۔ اور ان کے "سرکٹ" فیل نہ ہوجائیں۔ یعنی ہم رہے سہے بھگوان سے بھی جائیں۔
4- گوگل ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے، یعنی یہ کبھی نہیں مرتا، کیونکہ یہ ہماری طرح کوئی مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ یہ دنیا کے تمام سروروں پر پھیلا ہوا ہے، اگر کسی سرور میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو یہ کسی دوسرے سرور سے اپنا کام جاری رکھتا ہے چنانچہ یہ ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے جو انٹرنیٹ کے بادلوں میں رہتی ہے.
گوگل بھگوان واقعی ہمیشہ قائم رہنے والی ہستی ہے۔ پچھلے بارہ سال سے مسلسل قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہنے کا ارادہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ بھگوان جی سُنا ہے مائیکروسافٹ والوں نے بھی ایک "منی" بھگوان لانچ کیا ہے بِنگ کے نام سے، کیا آپ اسے اپنا نائب بنائیں گے؟ بھگوان نے ایک ناقابل اشاعت گالی کے بعد ارشاد فرمایا کہ مائیکروسافٹ کو تو میں دیکھ لوں گا، اور تمہیں بھی۔ چناچہ ہم تو کان لپیٹ کر پتلی گلی سے نکل لیے۔
5- گوگل لامتناہی یعنی غیر محدود ہے، انٹرنیٹ ہمیشہ اپنا حجم بڑھاتی رہے گی مگر گوگل انہیں اپنے اندر سمو لے گا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرتا چلا جائے گا چنانچہ یہ کسی مخصوص حجم میں محدود نہیں ہے.
بھگوان گوگل لامتناہی ہے، ہر جگہ ہے، یہ بڑھتا ہی جائے گا۔ اب آپ مانیں یا نہ مانیں میں نے سارا کمرہ چھان مارا کہ شاید بھگوان گوگل یہاں کہیں بھی موجود ہو لیکن وہ تو انٹرنیٹ سے ڈسکنکنٹ ہونے کے بعد "قیں" ہی ہوگئے۔ لو دسو، بھگوان جی ابھی تک انٹرنیٹ میں پھنسے ہوئے ہیں اور دنیا چاند پر جا پہنچی۔ خیر ابھی نئے نئے بھگوان بنے ہیں کئی ساری چیزیں سیکھنی باقی ہیں۔
6- گوگل ہر چیز یاد رکھتا ہے، یہ کچھ بھی نہیں بھولتا، گوگل آپ کی تمام حرکتیں ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں ہمیشہ کے لیے یاد رکھتا ہے چاہے آپ مر ہی کیوں نہ جائیں، اگر آپ گوگل پر اپنی معلومات یا فائلیں چڑھائیں تو یہ ہمیشہ وہاں موجود رہیں گی، یہی موت کے بعد زندگی ہے، اگر آپ گوگل سے استفادہ حاصل کریں تو یہ آپ کو بعد از مرگ زندگی کی ضمانت دیتا ہے
بھگوان گوگل کو ہر چیز کا علم ہے۔ اس سلسلے میں جب میں نے اپنی پڑدادی کے بارے میں بھگوان سے جاننا چاہا تو آگے سے چُپ؟ اب ہم سمجھے کہ یہ بھید بھیر چُپ ہے لیکن دس پندرہ منٹ کی "انٹرنل سرچ" کے بعد بھگوان کا جواب آیا کہ وہ 1999 سے پہلے کسی اور دنیا میں موجود تھے، ان کا یہاں کا وزٹ 1999 سے شروع ہوتا ہے لہذا ان سے وہی معلومات پوچھی جائیں جو 1999 یا بعد کی ہیں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (یہاں بھگوان گوگل نے ایک پنجابی قسم کی گالی دے کر فرمایا کہ) اپنی پڑدادی کو قبر سے اٹھا کر لاؤ اور اس سے گوگل پر ایک کھاتہ کھلواؤ۔ تب چاہے جو مرضی پوچھ لینا۔ لیں جی اب نہ میری پڑدادی قبر سے آئے اور نہ گوگل بھگوان ان کے بارے کچھ معلومات دے سکیں۔ حیف صد حیف کہ مرحومہ کی کوئی ذاتی ڈائری بھی نہ تھی کہ بھگوان کو "ان پٹ" دے کر ان کے "علم" میں اضافہ ہی کردیتا۔ بھگوان جی میں آپ کی فرسٹریشن کو سمجھ سکتا ہوں۔
چلتے چلتے میں نے بھگوان گوگل سے یہ پوچھا کہ بھگوان جی یہ فیس بُک والے سالے اپنی ڈیٹا بیس تک آپ کو رسائی کیوں نہیں دیتے اور بِنگ کو دیتے ہیں؟ بھگوان نے پہلے فیس بُک والوں کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ اپنے کچھ نئے رشتے وضع فرمائے پھر فرمانے لگے میں دیکھ لوں گا ایک ایک کو۔
اور ہم اتنے سے ہی اُکتا کر بھاگ نکلے کہ یہ سالا کیسا بھگوان ہے جسے اپنا آپ قائم رکھنے کے لیے بجلی چاہیے، انٹرنیٹ چاہیے اور ڈھیر سارے "سیوک" جو اس کے پوتڑے صاف کریں، اس کی پروگرامنگ کا خیال رکھیں اور اس کی میموری میں پڑنے والا وائرساتی گند نکالتے رہیں، جسے وجود میں آنے کے لیے دو انسانوں کا محتاج ہونا پڑے۔ مجھے چار فقروں والی ایک سورت یاد آگئی کہ کہدو
اللہ ایک ہے
اللہ بے نیاز ہے
نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا۔
اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
(محمد علی مکی پچھلے کچھ عرصے سے اس قسم کی تحاریر لکھ رہا ہے جو توحید و رسالت کی بیس کو عقلی بنیادوں پر رد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ شروع میں میرا خیال تھا کہ یہ ترجمہ ہیں، تاہم موصوف سے گفتگو پر معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس تحریر سے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ ترجمہ ہے، لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ مکی نے خاصا وقت برباد کرکے یہ پٹاخہ تیار کیا تھا۔ چناچہ مناسب سمجھا کہ ایک شافی قسم کا فیصل آبادی سٹائل میں کاسٹک سوڈے والا جواب لکھا جائے۔ جس کے نتیجے میں یہ تحریر سامنے آئی۔ میرا مذہب کے بارے میں علم وہی ہے جو آج کل کے کسی نوجوان کا ہوسکتا ہے، لیکن گوگل بھگوان سے پرانی یاری ہے۔ چھوٹے ہوتے ہم اکٹھے اخروٹ کھیلتے رہے ہیں، چناچہ مرچ مسالہ مناسب سا رکھ کر ہم نے بھی ایک پکوان بنا دیا۔ امید ہے پسند آئے گا۔)
اپڈیٹ: میں نے تبصرے بند کردئیے ہیں، میرا خیال ہے جو کچھ کہا جاسکتا تھا کہہ دیا گیا۔ اب پیچھے ذاتیات پر حملے ہی رہ گئے ہیں، جیسا کہ شیعب صاحب میرے بارے میں فرما رہے تھے۔

ہفتہ، 4 جون، 2011

فرائیڈ بھنڈی توری

دوپہرکا وقت ہے اور سالن میں کل کے پکے ہوئے آلو بینگن کے علاوہ کچھ نہیں۔ اور ایک سائیڈ پر بھنڈی توری پڑی نظر آجائے، تو آپ کو بھی چاہیے کہ ہماری طرح بقلم خود بھنڈی توری کو فرائی کریں اور اس کے ساتھ روٹی نوش فرمائیں۔
اجزاء: بھنڈی توری دس بارہ عدد، پیاز دو سے تین درمیانے، گھی حسب ضرورت، کالی مرچ اور نمک حسب ذائقہ
طریقہ: بھنڈی توری کو کاٹ لیں پیار کو چھیل کر کاٹ لیں۔ ایک عدد برتن میں گھی کو کڑکڑائیں اور دونوں چیزیں اس میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔ دس پندرہ منٹ تک انتظار کریں جب پیاز سنہری ہونے لگے تو اس کو اتار لیں۔ زائد گھی کو الگ کرلیں اور نمک و کالی مرچ چھڑک کر نوش فرمائیں۔ انتہائی مزیدار ہوگا (اگر میری طرح نمک زیادہ نہ ہوگیا تو)۔
یہ دیکھیں میری ڈش دور سے ہی کتنی لذیذ لگ رہی ہے۔


بدھ، 1 جون، 2011

ردعمل

دائرہ کی اس پوسٹ پر تبصرہ کرنا تھا، اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
سائیں جب رسول اللہ ﷺ کے نام نامی کے ساتھ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس میں سلیمان علیہ السلام کے ستر بی بیوں کے ساتھ جماع کرنے اور انشاءاللہ نہ کہنے کا ذکر ملتا ہے۔ تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا یہ رسول اللہ ﷺ کا عمل ہے؟ یہ سنت تو نہیں۔ یہ تو ان کی طرف منسوب ایک روایت ہے۔ اس میں تو عمل کرنے والی کوئی بات ہی نہیں۔ یہ کوئی فعل نہیں، ایک روایت ہے۔ یہ سنت نہیں، حدیث ہے۔ امید ہے آپ فرق سمجھ گئے ہونگے۔
ہاں آپ اسے بھی سنت ثابت کردیں تو مجھے کوئی حیرانگی نہیں ہوگی۔ پہلے سنت اور حدیث کو مکس اپ کردیا گیا، پھر حدیث رسول ﷺ اور حدیث اصحاب رسول ﷺ میں کوئی فرق روا نہ رکھا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شریعت احکام الہیہ اور نبی ﷺ کے بعد آنے والوں کے ورلڈ ویو کا مکسچر بن گئی۔ اور ہم نے سب کو دین سمجھ لیا۔ شیعہ جمعہ کی دوسری اذان اس لیے نہیں دیتے چونکہ یہ عثمان رضی اللہ عنہ کا حکم تھا۔ صبح کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم نہیں کہتے چونکہ یہ "ایڈیشن" عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے تھی۔ سنی ان سب کو بھی دین کا حصہ سمجھتے ہیں جو اصحاب رسول ﷺ نے کیا، شیعہ اس کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں جو ان کے فقیہوں نے کیا، اذان میں ایڈیشن، کلمے میں ایڈیشن، عقائد میں ایڈیشن۔ دین کہاں گیا؟ دین کے بنیادی سورسز کو ہی ترجمے اور تفسیر نے ہرا، نیلا، پیلا، گلابی رنگ دے دیا۔ چناچہ دین پیچھے ہر گیا، رنگ برنگے اسلام سامنے آگئے۔ اور پھر قرآنسٹ سامنے آگئے جو قرآن کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھنے کی بات کرتے ہیں۔ تاریخی حوالوں کے بغیر، صرف لفظی سیاق و سباق پر انحصار کرتے ہوئے۔
اس سب میں اسلام کہاں گیا؟ اور مسلمان کہاں گیا؟ اسلام کے ٹکڑے ہوگئے اور لوگوں نے اپنی اپنی پسند کا ٹکڑا اٹھا کر اس پر پینٹ کرکے اپنے طاقوں میں سجا لیا، جی یہ ہمارا اسلام ہے۔ اور مسلمان کہاں گیا؟ مسلمان، آج کا مسلمان گواچی گاں بن گیا کہ کدھر جائے، کونسا اسلام "خریدے"، کہ ہر ایک نے اپنی دوکان سجائی ہوئی ہے، اور ہر ایک کے نعرے بڑے دلکش ہیں، کہ رب کریم نے ہر ایک کے لیے اس کا عمل خوشگوار بنا دیا، جیسے کہ خود اس کا فرمان ہے۔ مسلمان دُبدھا میں پڑ گیا کہ اگر اسلام کا نفاذ ہوا تو کونسے اسلام کا ہوگا؟ شیعہ، سُنی؟ سلفی؟،دیوبندی؟ یا بریلوی؟ یا مودودی؟، یا قرآنسٹ اسلام؟ چناچہ مسلمان، یعنی میرے جیسا مسلمان، جو ایک گواچی گاں ہے، اور ہر پاسے منہ اُٹھائے باں باں کرتا پھرتا ہے، جان کی خلاصی اسی میں جانتا ہے کہ اسلام کو ذات تک ہی محدود رکھا جائے، اور بدنوق لے کر جو لوگ "اپنا اسلام" نافذ کرنا چاہتے ہیں ان کے خلاف حکومت کو بندوق کی زبان میں ہی بات کرنے کا کہے۔ تاکہ اس کا "اسلام" تو محفوظ رہ سکے۔