جمعہ، 2 اگست، 2013

اگست

ابو جی کبھی کبھی بتایا کرتے ہیں کہ تیرے دادے کے پاس بڑی زمین تھی۔ اور تیری دادی بڑی شیر دل عورت تھی۔ دادا جی آخری عمر میں ذہنی توازن کھو بیٹھے ۔ نماز پڑھنے نکلتے تو گھر کا پتا بھول جاتے تھے۔ چارپائی پر دھوپ پڑتی تھی تو نیچے اس کے سائے کو جانوروں کا کترا ہوا چارہ سمجھ کر اکٹھا کرنا شروع کر دیتے۔ آوازیں دینے لگتے کہ وچھے کو ڈالو وہ بھوکا ہے۔

ابو جی بتایا کرتے ہیں کہ دادی ایک بار اکیلی کماد میں ڈنڈا لے کر بیٹھ گئی۔ ایک باہر والا (خنزیر شاید) بہت تنگ کرتا تھا، دادی نے اکیلے ڈانگ کے ساتھ اس کا کریا کرم کر دیا۔
ابو جی سب سے چھوٹے تھے ۔ ابوجی سے پہلے چار پانچ بھائی چھوٹے ہوتے ہی فوت ہو گئے۔ ان کے اور دوسرے تایاؤں کے نام دوبارہ دوبارہ رکھے ہوئے تھے، مرنے والے بچوں کے نام پر۔ سنا ہے ہمارا سب سے بڑا تایا عبدالحق ہجرت کے وقت ہوش سنبھال چکا تھا۔ تایا عبدالحق اب اللہ بخشے اس دنیا سے گزر چکا ہے۔ تایا عبد الحمید بھی بس چارپائی سے لگ گیا ہے۔ تایا عبد الجمیل بھی سنا ہے اس وقت لڑکپن میں تھا، پر ان کا ذہنی توازن بھی اب ٹھیک نہیں رہا، انہیں اب باتیں یاد نہیں رہتیں۔ بس اپنی اولاد کے نام اور چہرے یاد ہیں، اور بھائیوں کے چہرے ۔ بس ۔۔۔۔ایک پھوپھی تھی وہ بھی چھ سات برس پہلے چل بسی۔

بڑے کزن بتاتے ہیں کہ دادے کا نام شیر محمد، پڑدادے کا نام ماموں تھا۔ لکڑ دادے کا نام بھی شاید بتایا وہ یاد نہیں رہا۔ ابو جی کی یادیں اکثر فیصل آباد آنے کے بعد کی ہیں، گٹی اسکول جاتے تھے پیدل، یا بھڑولیاں والا جو ڈجکوٹ، فیصل آباد کے نزدیک ایک پنڈ ہے۔ جہاں ہمارے دادے کو بارڈر پار آنے کے بعد پانچ ایکڑ زمین الاٹ ہوئی تھی، بھارتی پنجاب کی زمین کے بدلے۔ اب پتا نہیں دادے کی کتنی زمین تھی وہاں۔ لیکن یہاں پانچ کِلّے ہی ملی، جس میں سے کوئی دو کِلّے کلر زدہ ہے وہاں پیداوار بہت کم ہوتی ہے۔ ڈجکوٹ اور فیصل آباد سارا نہری علاقہ ہے زمین کا پانی آک جیسا کڑوا۔ پِنڈ وہاں ہے جہاں نہر چھوٹی ہوتے ہوتے راجباہ رہ جاتی ہے۔ وہاں پانی بھی بس ایسے ہی پہنچتا ہے۔ ابا جی کواب آ کر ان پانچ کِلّوں میں سے ایک حصے آئی ہے، تین چار ٹکڑوں میں۔ جہاں ہم پچھلے دو سال سے گندم کاشت کرتے ہیں۔
یہ ساری یادیں اور پھر اگست آ جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا مجھے اگست کا بڑا شوق تھا۔ بیج لے کر لگاتا تھا، جھنڈا لگایا جاتا تھا۔ اللہ بخشے پچھلے سال فوت ہونے والا چھوٹا بھائی باقر بھی جھنڈا لگانے اور چراغاں کرنے کا بڑا شوقین تھا۔ شاید میں بھی اس کی عمر میں ایسا ہی تھا۔ لیکن اب عرصہ ہوا، آٹھ دس سال ہو گئے مجھے چودہ اگست کا دن زہر لگتا ہے۔ اس وجہ سے کے میرے ارد گرد کے لوگ سلنسر نکال کر جشن آزادی مناتے ہیں۔ اور بین کرنے والی آوازوں والے واجے وجاتے ہیں۔ پہلے پہلے پریڈ وغیرہ بھی ہوا کرتی تھی، شاید 23 مارچ کو تو اس سے بھی کچھ "حب الوطنی" جاگ جاتی تھی۔ اب وہ بھی نہیں ہوتی، تو حب الوطنی کو ڈنڈا دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے حب الوطنی سوئی رہتی ہے۔
عرصہ ہوا میری سوچ اُلٹی ہو چکی ہے۔ مجھے جو پہلے سیدھا نظر آتا تھا اب اُلٹا نظر آتا ہے۔ پاکستان بننا جو ایک سادہ حقیقت لگتی تھی، جیسے دو جمع دو چار ہو اب یوں لگتا ہے جیسے سارا سیاست کا کھیل تھا۔ پنجاب کے جاگیر داروں نے پنجاب کو پاکستان بنا دیا، بلوچستان والے روتے ہیں کہ ہم سے ہاتھ ہوا، سابقہ سرحد والے شاید وہاں بھی کوئی ریفرنڈم کا چکر تھا سرحدی گاندھی وغیرہ۔ اور پھر سندھ اسمبلی تھی جہاں قرارداد پاس ہوئی تھی، اب پتا نہیں متفقہ تھی یا ہمارے آج کل کے وزرائے اعظم کے انتخاب کی طرح سادی اکثریت سے پاس ہوئی تھی۔ اور بنگال تھا جو پھر بنگلہ دیش بن گیا۔

اور پھر چودہ اگست کو شہداء کی قربانیاں، اور ان کے رونے، جو مر گئے ان کے بین۔ اور اس ملک کی بنیادیں اور ان کا خون وغیرہ وغیرہ۔ ایک عرصے تک میں اسے عظیم قربانی سمجھتا رہا۔ معلومہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت، پاکستان کے لیے ہجرت۔ ایک نظریاتی ملک کے لیے ہجرت۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ لاکھوں لوگ اس کے لیے کٹ مرے۔ پنجاب کے بزرگ، بڑے بوڑھے بتاتے کیسے انہوں نے خون کےدریا پار کیے۔ پھر میری سوچ الٹی ہو گئی۔ اور مجھے ادھر اُدھر سے پتا لگنے لگا کہ اُدھر والے "کافروں" نے بھی ایسے ہی چھوٹے موٹے دریا نہیں تو خون کی ندیاں کم از کم ضرور پار کی تھیں۔ مستنصر حسین تارڑ کہتا ہے لاہور میں لکشمی مارکیٹ ہوا کرتی تھی کہ محلہ ہوا کرتا تھا۔ امیر ہندوؤں کی آبادی، جسے پتا نہیں کس نے ساڑ کر سواہ کر دیا کہ کئی دن تک اس کی راکھ اطراف کے علاقوں پر گرتی رہی۔ اور پتا نہیں کتنے اس چتا میں جل گئے۔ اور وہاں، باقی رہ جانے والے لاہوریے ہندوؤں کے خزانے کھودنے جایا کرتے تھے۔ تارڑ جاٹ ہے، اور جاٹ سنا ہے سکھ ہوا کرتے تھے مسلمان ہونے سے پہلے۔ اور تارڑ کہتا ہے کہ سکھ جاٹ اور مسلمان جاٹ سارے خوشی غمی شادی بیاہ پر اکٹھے ہوا کرتے تھے مذہب سے بالا ہو کر۔ پر پھر ۔۔۔۔پھر شاید سینتالیس آ گیا یا اس سے پہلے ہی دیواریں کھڑی ہو گئی تھیں۔

پھر ہجرتیں ہوئیں۔ ادھر آنے والے مہاجر کہلاتے، اُدھر جانے والے شرنارتھی۔ سنا ہے پہلے "کافروں" نے مسلمانوں پر حملے کیے ان کے خون بہائے، ان کی بیٹیاں اغواء کیں اور ان کے بوڑھوں اور بچوں کو قتل کیا۔ پھر سنا ہے کہ اِدھر کے مسلمانوں کو بھی جوش آیا اور انہوں نے بھی یہی کچھ کیا۔ لیکن یہ دوسرا سنا ہے مجھے بعد میں پتا چلا جب میں اُلٹی سوچ والا ہو گیا تھا۔ جب میں نے آگ کا دریا کے بارے میں سن لیا تھا، پتا نہیں قراۃ العین حیدر کیا کہتی ہے اس میں لیکن ایسا ہی کچھ سنا ہے اس کے بارے میں۔ کہ مسلمان بھی حاجی لق لق نہیں ہو گئے تھے، انہوں نے بھی "کافروں" کی بینڈ بجائی تھی، جتنی ان سے بج سکی۔
پھر کچھ انصار بن گئے۔ انصار بن کر خود ہی مہاجروں کی اراضیوں، حویلیوں، مکانوں، جائیدادوں پر قابض ہو گئے۔ راتوں رات امیر ہو گئے۔ کچھ کے تکے لگ گئے وہ ادھر آ کر امیر ہو گئے۔ کچھ کے نہ لگے وہ غریب ہی رہے۔ پتا نہیں میرا دادا امیر تھا یا غریب۔ میرے ابو جی کی یادیں دھندلی ہیں، ہم کونسا سید ہیں جو شجرہ رکھتے، مجھے تو ابھی تک یہ نہیں یاد ہوا، کہ ہم جالندھرئیے تھے یا ہوشیار پورئیے۔ ہر بار کزن سے پتا کر کے بھول جاتا ہوں ۔ اگر یہ سب نہ ہوتا تو شاید ہم وہاں اچھے حال میں ہوتے، یا شاید نہ ہوتے۔
لیکن ہر سال چودہ اگست آ جاتا ہے۔ اور مجھے مجبوراً رونے والا منہ بنانا پڑتا ہے۔ کہ یہ روایت ہو گئی ہے مرنے والوں کا بین کرنے کے لیے، یاد دہانی کے لیے کہ یہ ملک کیسے وجود میں آیا تھا۔ پر جیسے جیسے وقت گزرتا ہے میرے پاس بین کے آپشن وسیع ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر پچھلے دس برس میں ادھر شمال مغرب کی جانب بین کے وسیع مواقع دستیاب ہوئے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ادھر کراچی میں جنوب میں بڑی زرخیزی ہے۔ ادھر جنوب مغرب میں، بلوچستان میں خون تھوک کے حساب سے بہہ رہا ہے۔ میرے پاس اب پینسٹھ سال پہلے مرنے والوں کے بین کے علاوہ بھی آپشن موجود ہیں۔ میں اتنا پُر ہو چکا ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کس کا بین کروں، کس کس کا بین کروں۔ بین کروں یا نہ کروں۔ اس ملک کے بننے کا بین کروں، یا بننے کے بعد بگڑنے کا بین کروں۔ سینتالیس میں مرنے والوں کا بین کروں، بے گناہوں کا جو مسلمان تھے ان کا یا جو مسلمان نہیں تھے ان کا (مسلمان نہیں تھے کا بین نہیں بنتا ویسے یہ ان کا کام ہے جو مسلمان نہیں ہیں، اصولی طور پر ایسے ہی ہوتا آیا ہے پینسٹھ سالوں سے ۔) غیر مسلمانوں کا بین تو قطعاً نہیں بنتا، رب جانے ان مردودوں میں سے کوئی مرا بھی تھا یا نہیں یا "کافروں" نے کہانیاں ہی گھڑ رکھی ہیں۔ یا آج کے کافر قرار دے کر مارے گئے مسلمانوں کا بین کروں۔ جنہیں پتا ہی نہیں کہ انہیں کس لیے مارا جا رہا ہے ان کا بین کروں، یا جو نا سمجھ بم باندھ کر ان کو مار رہے ہیں ان کا بین کروں۔ "مجاہدین" کا بین کروں یا "کرائے کی فوج" کے مرنے والے، دس ہزار تنخواہ کی خاطر اغواء ہو کر گلے کٹوانے والے ان خاصہ داروں کا بین کروں۔
میں اتنا پُر باش ہو چکا ہوں، اتنا لد گیا ہوں کہ سمجھ نہیں آتا کس کس کا بین کروں۔ اس سب کا یا اپنی عقل کا، اپنی وکھری سوچ کا، اپنی بے غیرت طبیعت کا جو کہیں فٹ نہیں بیٹھتی، جو ہر رویے پر سوال اٹھاتی ہے، ہر بات پر پہلے ناں کہتی ہے پھر ہاں کی طرف جاتی ہے، ہر جگہ گلاس آدھا خالی دیکھتی ہے۔ میرا خیال ہے مجھے یہی کرنا چاہیئے، اس بے غیرت طبیعت کا بین، جو سوال کرنے کی کُتی عادت کا شکار ہے، ہر جگہ سوالنے کی گندی عادت کا شکار۔

8 تبصرے:

  1. یہاں جاپان میں ایک ہاشمی صاحب نے بتایا تھا کہ
    ان کے گاؤں کے گامے کمیار نے وزیر آباد سٹیشن پر اکیلے ہی بہتر افراد بشمول عورتیں مرد کاٹ دیے تھے ۔
    تقسیم کے لفظ کو ہمارے علاقے میں اس زمانے کے لوگ " لٹ مار" کے زمانے کے لفظوں سے یاد کرتے ہیں ۔
    کوئین (برطانیہ کے تاج) کی سرتاجی میں قایم ہونے والے اس ملک کی عمر کوئین کی موت تک کی ہے کہ زیادہ ؟
    اب زیادہ دیر چلتا نہیں لگتا ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. پاکستان تاقیامت قائم ہوتے رہنے کیلئے بنا ہے۔
    آپ ہاغل ہو گئے۔
    پاکستان سے محبت کریں۔
    سیاستدانوں اور فوجیوں کو "واریاں" دیں
    خوش رہاکریں ۔کہ آپ کے پاس آزادی ہے۔
    روٹیاں منگ کر پیٹ پوجا کر لیا کریں۔
    خوش رہا کریں آپ آزاد ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ کی اس تحریر میں بہت سی باتیں درست ہیں ۔ آپ نے 1947ء نہیں دیکھا اسلئے اس کی آپ کو سمجھ بھی نہیں آ رہی ۔ میں 10 سال کا تھا جب پاکستان بنا ۔ میں اور میری 2 بہنیں اپنے خاندان سے بچھڑ گئے تھے اور پونے 3 ماہ بعد ملے تھے ۔ مسلمانوں کی نسبت ہندوؤں کی ہلاکتیں بہت کم ہوئیں ۔ آگ لگا کر جائیدادیں صرف لاہور اور سیالکوٹ میں جلائی گئیں ۔ البتہ بھارتی علاقے سے ٹرینوں کی ٹرینیں مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کی لاشوں سے بھری لاہور پہنچتی رہیں جس نے لاہور اور سیالکوٹ کے مسلمانوں کو تیش دلایا لیکن قاعد اعظم خود لاہور پہنچے اور غصے کا اظہار کیا اور لوگوں کو منع کیا ۔ یہ ایک لمبا مضمون ہے جس کے لکھنے کا بھی کوئی فایدہ نہ ہو گا ۔ آپ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو اپنے آپ کو ٹھیک کیجئے ۔ دوسروں کو تو سب ہی ٹھیک ہونے کے سندیسے دیتے رہتے ہیں اور اُن میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں ۔ جو کچھ ہو چکا ہے اُس کے ذمہ دار بھی ہم سب ہیں لیکن اُس کا تو اب کچھ ہو نہیں سکتا کیونکہ وقت پیچھے نہیں لیجایا جا سکتا البتہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر حال میں اپنا قبلہ درست کرنے کے بعد محنت کر کے مستقبل کو اچھا بنایا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سب بُرا نہیں تھا زیادہ خرابی 1965ء کے بعد شروع ہوئی

    جواب دیںحذف کریں
  4. از احمر

    http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2013/08/130801_book_review_zz.shtml

    مجھے امید ہے کی مذکورہ بالا کتاب کا موضوع آپ کو پسند آے گا،
    اور اس کتاب میں کچھ نہ کچھ ایسا مل جاے گا، جو آپ کی موجودہ پوسٹ سے متعلق ہوگا-
    بس تو پھر یہ کتاب خدید ڈالیے، پڑھیے اور ہمیں بھی بتایے کہ اس میں کیا لکھا ہے -

    جواب دیںحذف کریں
  5. از احمر

    کتاب کا نام: دی پنجاب بلڈیڈ، پارٹیشینڈ اینڈ کلینزڈ

    http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2013/08/130801_book_review_zz.shtml

    جواب دیںحذف کریں
  6. بالکُل درست کہا ہے آپ نے ہمارے پاس بین کرنے یا بے حِس ہوجانے کے سِوا کُچھ بچا ہی کب ہے

    جواب دیںحذف کریں
  7. بے تکلفی کے لیے پیشگی معذرت۔۔۔شاکر بھائی یہ پوسٹ پڑھتے ہوئے پہلے تو لگا کہ کسی "بابے" کی تحریر کاپی کی ہے۔ پھر سمجھ میں آیا کہ شاکر بھائی خود ہی بابے ہوئے چلے ہیں۔ لیکن پاکستان نہ بنتا تو بھی مسلمانوں کیلئے کوئی زیادہ اچھا نہیں ہونا تھا۔ بھارتی گجرات تو بہت قریب کی مثال ہے۔ میرے خیال میں رونے دھونے سے بہتر ہے کہ پڑھنے اور پڑھانے کا سلسلہ بڑھایا جائے۔ کبھی تو اس ملک کی حالت بدلے کی۔ ویسے بھی پینسٹھ ستر برس کوئی زیادہ مدت نہیں ہے، قومیں اس سے زیادہ عرصہ تاریک دور میں رہتی ہیں اور پھر نکل آتی ہیں۔

    عارف انجم

    جواب دیںحذف کریں
  8. شاکر بہت عمدہ
    گویا یہ سب بھی میرے دل میں تھا
    معاشی وجوہات کے علاوہ بھی اب دونوں سرحدوں کے آر پار والے اپنے آپ اور باقی دنیا کو دیکھتے ہیں کہ دنیا میں یہودی، عیسائی، بدھسٹ، نامزھبیے سارے لوگ مل جل کرایک شہر میں رہ سکتے ہیں ہم الگ الگ ملک بنا کر بھی چین سے نہیں رہتے۔
    کہتے ہیں کہ تاریخ کا سچ سامنے آنے میں پچاس سال لگ جاتے ہیں جانے ہماری نسل کو کتنے پچاس اور لگیں گے کہ تعصب کی عینک اتار کر نسیم حجازی کے تاریخی حصار سے باہر نکل سکیں۔

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔