منگل، 23 اپریل، 2013

زبان

✩ کسی قوم کی خود داری کا اندازہ کرنا ہو تو  اپنی زبان کے متعلق اس کے رویّوں کا جائزہ لے لو۔

✩ زبان سیاسی نہیں ہوتی لیکن گندی سیاست زبان کو سیاسی بنا دیتی ہے۔

✩ زبان زندہ تو ثقافت، روایت اور کلچر زندہ۔ ایک زبان کی موت ایک ثقافت  کی موت ہوتی ہے۔

✩ زبان ہزاروں برس کے جینے مرنے، دکھ  سکھ، ان گنت زندگیوں کا جیتا جاگتا ریکارڈ ہوتی ہے۔

✩ زبان بولی جائے یا لکھی جائے، زبان  ہی کہلائے  گی۔

✩ کوئی زبان کسی دوسری زبان سے بہتر یا بد تر نہیں۔  ہر زبان اپنے اہلِ زبان کی لسانی ضروریات کے لیے عین کافی ہوتی ہے اور یہی زبان کے پرفیکٹ ہونے کی دلیل ہے۔

✩ کسی قوم کو یقین دلا دو کہ اس کی زبان کمتر ہے۔ اور وہ زبان اپنوں کی بے رخی کا زہر پیتے پیتے ہی گھُل گھُل کر دم توڑ جائے گی۔

✩ مادری زبان میں تعلیم کا حصول ہر انسان   کا بنیادی انسانی حق ہے۔

✩ اگر کسی عربی کو کسی عجمی پر ، کسی گورے کو کسی کالے  پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، تو  ایک زبان کو بھی کسی دوسری زبان پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔

✩ خدا زبان کا محتاج نہیں۔ دل کی زبان میں بات کرو  وہ جواب دے گا،  وہ جواب دیتا ہے، وہ جواب دیتا آیا ہے۔

✩ جس نے دشمن کی زبان سیکھ لی وہ اس کے شر سے محفوظ ہو گیا۔

✩ زبانیں سیکھو، ہر زبان  دنیا کو دیکھنے کا ایک نیا انداز ہوتی ہے۔ ہر زبان دنیا سے ایک نئے انداز میں ملاقات کرواتی ہے۔

✩ یک لسان کی مثال ایک کمرے کے مکان میں رہنے والے شخص کی طرح ہے، اور کثیر اللسان کئی کمروں کے پرتعیش مکان میں رہنے والا رہائشی، دونوں کی سوچ، رہن سہن، اندازِ فکر میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

✩ شاعر، ادیب اور لکھاری زبان کو  اوزار  عطا کرتے ہیں لیکن اگر عوام ان اوزاروں کو شرفِ قبولیت نہ بخشے تو  وہ تاریخ کے کباڑ خانے میں زنگ آلود پڑے رہ جاتے ہیں۔

✩ زبان وہ ہے جو عوام کی زبان پر ہو، زبان وہ ہے جو تھڑے، گلی محلے اور کوچے میں بولی جائے۔ لغات اور قواعد و انشاء کی کتب اگر اس زبان سے میل نہ کھائیں تو  ان کی حیثیت لسانی قبرستان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

✩ تغیر زبان کا مقدر ہے۔ تغیر ایک ایسا دریا ہے جس کے آگے بند باندھ بھی لو تو وہ کسی اور جانب سے راستہ بنا لے گا۔

✩ اہلِ زبان کے لیے آج، ابھی کی زبان ہی زبان ہوتی ہے۔ ان کے لیے زبان کی تاریخ وہیں سے شرو ع ہوتی ہے جب ان کا شعور پروان چڑھا۔ ان  کے لیے سو سال قبل کی زبان بے معنی ہوتی ہے، جیسے سو سال بعد کی زبان بے معنی ہو گی۔

جمعرات، 18 اپریل، 2013

زلزلے اللہ کا عذاب؟

ہر زلزلے کے بعد اس قوم میں جو بحث چھڑتی ہے اس کا عنوان یہ یا ملتا جلتا ہوتا ہے۔
"زلزلے اللہ کا عذاب ہیں"۔
"ہم گناہگار ہو چکے ہیں اور زلزلہ بطور وارننگ آیا ہے۔"
"فلاں علاقے میں بہت گناہ ہو رہے تھے اس لیے زلزلہ آیا۔"
"کشمیر میں عصمت فروشی بہت زیادہ تھی اس لیے زلزلہ آیا۔"
وغیرہ وغیرہ۔

میرے جیسا نیم سمجھ والا بندہ اس معاملے میں کنفیوز ہو جاتا ہے۔ اگر ہر زلزلہ اللہ کا عذاب ہے تو سمندروں میں جو زلزلے آتے ہیں وہ کس پر بطور عذاب آتے ہیں؟ اس تھیوری کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جاپانی دنیا کی سب سے زیادہ گناہگار قوم ہیں کہ زلزلے تو سب سے زیادہ وہیں آتے ہیں۔ اور باقی دنیا ان کی نسبت زیادہ نیک ہے اس لیے زلزلے یعنی اللہ کا عذاب ان پر کم آتا ہے۔

اس تھیوری کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے (جو کہ میرے خیال میں غیر شعوری ہے) کہ اس پر یقین رکھنے والے زلزلے سے بچنے کے اقدامات نہیں کرتے۔ چونکہ زلزلے اللہ کا عذاب ہیں، اور عذاب اسی صورت میں ٹل سکتے ہیں جب اللہ کی فرمانبرداری کی جائے، یعنی زلزلہ نہ آنے کے لیے سچے پکے مسلمان بنا جائے۔ توبہ استغفار کی جائے، رحم کی بھیک مانگی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ مزید یعنی زلزلے سے بچاؤ کے لیے کوئی آفات سے نمٹنے کا ادارہ، آفات سے نمٹنے کا منصوبہ نہ بنایا جائے، چونکہ زلزلے اللہ کا عذاب ہیں اس لیے آپ، میں جو مرضی کر لیں اب پیدا کرنے والے کی پکڑ سے تو نہیں بچ سکتے نا۔ تو زلزلے تو آئیں گے، وگرنہ اپنے آپ کو درست کر لیں؛ یعنی سچے پکے مسلمان۔

مجھے اس تھیوری سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ماشاءاللہ بڑے نمازی، پرہیز گار اور خوفِ خدا رکھنے والے مسلمان یہ سوچ رکھتے ہیں۔ میں بذاتِ خود ایمان کے آخری درجے پر کھڑے مسلمان کی حیثیت سے اللہ سے اس کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہوں۔ اللہ کو اللہ کریم کہہ کر پکارتا ہوں، کہ عذاب والی بات سے مجھے ڈر لگتا ہے، اس کی پکڑ سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ رحمت، کرم، فضل اور عطاء کا طلبگار ہوتا ہوں۔

لیکن، اُلٹی کھوپڑی، پُٹھی سوچ، میرے لیے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہیں۔ چونکہ میں زمین پر دیکھتا ہوں کہ زلزلے کئی ایسی جگہوں پر بھی آتے ہیں جہاں کوئی آبادی نہیں، تو میں انہیں عذاب نہیں سمجھ سکتا، چونکہ میں اللہ کو کریم، رحیم، رحمان کے روپ میں دیکھتا ہوں۔ اور وہ اپنی مخلوق پر (علاوہ انسان) زلزلے نہیں بھیجتا۔ اس کا نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیئے کہ انسانوں پر زلزلے پھر ہمیشہ عذاب ہوتے ہیں لیکن بے آباد جگہوں پر آنے والے زلزے عذاب نہیں ہوتے ہوں گے۔ یعنی جب بھی زلزلہ آبادی میں آیا اٹینشن ہو جاؤ تم خراب لوگ ہو اپنے آپ ٹھیک کر لو ورنہ پکڑ میں آ جاؤ گے۔

لیکن چونکہ میں ایک پُٹھی سوچ والا نچلے درجے کا مسلمان ہوں، میری نظر اللہ کی رحمت پر رہتی ہے اس لیے میرے لیے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہوتے۔ ہاں بعض اوقات اللہ کا عذاب، اللہ کی وارننگ ہوتے ہوں گے۔ زلزلے پر میں بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، لیکن میں زلزلے کو ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں سمجھتا۔ میری اس سوچ کی تصدیق قرآنی آیات سے ہوتی ہے۔ یہاں لفظ "زلزلہ" والی چھ قرآنی آیات (ترجمہ عرفان القرآن) پیش کر رہا ہوں۔ مجھے لفظ زلزلہ کے لیے تلاش میں یہی آیات ملیں۔ ملاحظہ کریں:

  1. 7|78|سو انہیں سخت زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا پس وہ (ہلاک ہو کر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،
  2. 7|91|پس انہیں شدید زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو وہ (ہلاک ہوکر) صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے،
  3. 7|155|اور موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر مَردوں کو ہمارے مقرر کردہ وقت (پر ہمارے حضور معذرت کی پیشی) کے لئے چن لیا، پھر جب انہیں (قوم کو برائی سے منع نہ کرنے پر تادیباً) شدید زلزلہ نے آپکڑا تو (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے رب! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی ان لوگوں کو اور مجھے ہلاک فرما دیتا، کیا تو ہمیں اس (خطا) کے سبب ہلاک فرمائے گا جو ہم میں سے بیوقوف لوگوں نے انجام دی ہے، یہ تو محض تیری آزمائش ہے، اس کے ذریعے تو جسے چاہتا ہے گمراہ فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے۔ تو ہی ہمارا کارساز ہے، سو ُتو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے،
  4. 22|1|اے لوگو! اپنے رب سے ڈرتے رہو۔ بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی سخت چیز ہے،
  5. 29|37|تو انہوں نے شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلا ڈالا پس انہیں (بھی) زلزلہ (کے عذاب) نے آپکڑا، سو انہوں نے صبح اس حال میں کی کہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ (مُردہ) پڑے تھے،
  6. 79|6|(جب انہیں اس نظامِ کائنات کے درہم برہم کردینے کا حکم ہوگا تو) اس دن (کائنات کی) ہر متحرک چیز شدید حرکت میں آجائے گی، 79|7|پیچھے آنے والا ایک اور زلزلہ اس کے پیچھے آئے گا،
مذکورہ بالا آیات میں پہلے سورہ نمبر ہے پھر آیت نمبر، اور ترجمہ عرفان القرآن ہے۔ یہاں چار آیات میں زلزلہ بمعنی عذاب آیا ہے۔ ہر مرتبہ ایک نبی علیہ السلام صورتحال میں موجود تھے۔ عموماً متعلقہ قوم انتہا درجے کے کفر میں مبتلا تھی، انہیں پہلے وارننگ دی گئی اور پھر جب نبی مایوس ہو گئے تو زلزلے نے انہیں آ گھیرا۔ بقیہ دو آیات قیامت کے زلزلے سے متعلق ہیں۔
 
انہیں آیات کا اقتباس دے کر "زلزلے عذاب ہیں" کی دلیل دی جاتی ہے۔ لیکن یہ اقتباسات سیاق و سباق سے ہٹ کر دئیے جاتے ہیں، اگر پورے سیاق و سباق کو مدِ نظر رکھا جائے تو انبیا کی نافرمان قوم کا سارا منظر نامہ بنتا ہے اور زلزلہ آخری حل کے طور پر بطور عذاب مسلط کیا جاتا ہے۔ اور یاد رہے ایسا صرف چار مرتبہ ہوا ہے۔ زلزلوں کی سالانہ فریکوئنسی (چند ہزار سال ارضیاتی پیمانے پر چند دن کے برابر ہیں، اس لیے آج اگر سالانہ ہزاروں زلزلے آتے ہیں تو دو تین ہزار سال قبل بھی یہی صورتحال ہونے کا اغلب امکان ہے۔) کو دیکھیں تو یہ بات محال لگتی ہے کہ ہر زلزلہ عذابِ الہی ہو۔ اگر ایسا تھا تو قرآن میں صرف چار واقعات ہی کیوں (میں آیات کی تعداد کے حوالے سے چار واقعات کہہ رہا ہوں لیکن تین آیات ایک جیسی اور ایک موسی علیہ اسلام والی مختلف ہے، اس طرح عذاب کے دو واقعات بنتے ہیں نہ کہ چار)، انسانی تاریخ تو کم از کم (بنی اسرائیل کے حوالے سے دیکھیں تو) کئی ہزار سال قبلِ مسیح تک جاتی ہے۔ تب سے نبی کریم ﷺ کے زمانے تک صرف چار زلزلے بطور عذاب؟ تو صاحب میری سوچ یہ ہے کہ زلزلے اللہ کا عذاب ہوتے ہیں، چونکہ قرآن کہتا ہے لیکن زلزلے ہمیشہ بطور عذاب نہیں آتے۔ یہ ایک ارضیاتی عمل ہے جو زمین جیسے سیاروں پر نارمل بات ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پیدا کرنے والا کبھی کبھی جھٹکا دینے کے لیے قدرتی مظاہر کو استعمال کرتا ہے تاکہ انسان سنبھل جائے۔

اور اس سوچ کے لیے میں ہوا اور آندھی کی مثال دینا چاہوں گا۔ قرآن میں عذاب کی دوسری صورتیں بھی بیان ہوئی ہیں، جن میں سے ایک ہوا کے عذاب کی ہے۔ مثلاً آیت ملاحظہ ہو۔

  • 46|24|پھر جب انہوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے: یہ (تو) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے، (ایسا نہیں) وہ (بادل) تو وہ (عذاب) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ (یہ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب (آرہا) ہے،
یہاں بادل اور آندھی جیسے قدرتی مظاہر کو وارننگ کے لیے استعمال کرنے کا ذکر ہے۔ بالکل جیسے زلزلے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن قرآن ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ بادل رحمت لے کر آتے ہیں۔ مثلاً
  • 15|22|اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں پھر ہم آسمان کی جانب سے پانی اتارتے ہیں پھر ہم اسے تم ہی کو پلاتے ہیں اور تم اس کے خزانے رکھنے والے نہیں ہو،
تو عزیزانِ گرامی میرے خیال سے زلزلے ہمیشہ اللہ کا عذاب نہیں ہوتے۔ اللہ تعالٰی کی ذات سے ہمیشہ عذاب کی امید رکھنے والے میری نظر میں رحمت سے ناامید لوگ ہیں۔ چونکہ میری نظر اُس کی پکڑ سے زیادہ رحمت پر ہے، اس لیے میں اس تھیوری سے انکار کرتا ہوں کہ ہر زلزلہ اللہ کا عذاب ہوتا ہے۔ زلزلہ ایک نارمل ارضیاتی عمل ہے، جیسے بادل اور ہوا ہیں۔ لیکن جیسا کہ قرآن بتاتا ہے کبھی ان ارضیاتی عوامل کو استعمال کر کے قوموں کو جھنجھوڑا بھی جاتا ہے اور ایسا عموماً بڑی سخت صورتحال میں ہوا، جب کسی قوم نے اپنے نبی کا مکمل انکار کر دیا، ان پر حجت تمام ہوگئی، ہدایت پہنچا دی گئی تو پھر بھی نہ ماننے والوں پر عذاب آ گیا چاہے وہ پتھر برسنے کی صورت میں ہو، ہوا یا بادل سے یا زلزلے کی صورت میں ہو۔

میرا نقطہ نظر کم علم کوتاہ نظر جاہل کی بڑ لگ سکتا ہے۔ لیکن جاہل ہوتے ہوئے بھی میں نظر اُس کی رحمت پر رکھنے کا عادی ہوں، پکڑ پر نہیں۔

مولا میں تیری رحمت کا محتاج، مولا میں تیری عطاء کا امیدوار، میرا ہر بال، میرا ہر سانس، میرا ہونا ہی مجھ پر تیری رحمت ہے میرے مالک، مجھ پر اپنا فضل کر دے، کرم کر دے، عطاء کر دے، رحمت کر دے۔ میں دو کوڑی کا، میں گندی نالی کا کیڑا میرے مالک تیری رحمت بے پناہ، تیرا فضل بے پایاں، تیری عطاء بے شمار، تیرا کرم بے کنار، تو اپنے نبی ﷺ، تو اپنے سوہنے نبی ﷺ کا صدقہ مجھے پر اپنی رحمت رکھنا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔

جمعہ، 5 اپریل، 2013

خلافت چاہیئے جی

عوام سیاستدانوں سے اکتائی ہوئی ہے، الیکشن سر پر ہیں۔ مشرف کے آخری دن تھے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے امیدیں تھیں، اب شرعی نظام اور خلافت سے امیدیں لگ گئی ہیں۔ خلافت کی ڈفلی بجانے والوں نے اپنی پوتھیاں پُستکیں جھاڑ پونچھ کر رکھ لی ہیں، اپنے تھیلے خالی کر کے سامان پھر سے سامنے سجا لیا ہے۔ دھڑا دھڑ اقتباسات دئیے جا رہے ہیں، دلائل اٹھائے جا رہے ہیں ، اور اسلام کا بول بالا کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اور ایسے میں کوئی میرے جیسا نیچ ذات بول پڑے تو وہ غیر مہذب، گدھا اور جانبدار کہلاتا ہے۔ خیر یہ تحریر اپنے آپ کو ان القابات سے بری الذمہ کرنے کے لیے نہیں  لکھی جا رہی، بلکہ مقصد یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران ایویں مفت میں ہی دو تین بار خلافت نام کی بحث میں گھسیٹا گیا۔ جس کا نتیجہ اکثر یہ نکلا کہ عوام میری منہ پھٹ طبیعت سے بے زار ہو گئی اور مجھے القاباتِ عالیہ سے بھی نوازا گیا۔ ابھی کل برادرم میم بلال نے فیس بک پر ایک سوال کر دیا ، موضوع یہی خلافت تھی اور میں نے حسبِ معمول خاصا چپیڑ جیسا جواب ٹھونک دیا۔ بعد میں بیس پچیس تبصروں تک اس پر بڑی لے دے ہوئی، رات کو دیکھا تو مجھے لگا کہ اب ذر ا مناسب لمبائی والی پوسٹ میں اپنا موقف بیان کرنا چاہیئے۔ چنانچہ تحریر لکھی جا رہی ہے۔

عوام خلافت مانگتی ہے۔ شاکر عوام کے ساتھ ہے، لیکن خلیفہ ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہو تو شاکر بیعت کرنے والوں میں سب سے پہلا، ورنہ شاکر کے ہاتھ کھڑے ہیں۔ چلو کوئی حسن ابنِ علی جیسا لے آؤ، حسین ابنِ علی، عبد اللہ ابنِ زبیر، معاویہ ابنِ ابو سفیان، عمر بن عبد العزیز رضوان اللہ علیم اجمعین تک بھی بات چلے گی۔ اس کے بعد؟ اس کے بعد معذرت کے ساتھ شاکر کے دونوں ہاتھ کھڑے ہیں۔ شاکر کے لیے خلافتِ راشدہ کے بعد کوئی خلافت نہیں۔ جس کو یہ عوام خلافت کہتی ہے وہ شاکر کے لیے ملوکیت ہے، خلافت کے نام پر بادشاہت۔ جس میں باپ کے بعد بیٹا، چچا، پھوپھا ، تایا، یا جس کا بس چلا وہ "خلیفہ" بن بیٹھا۔ چاہے وہ یزید ابن معاویہ جیسا گدھا ہی ہو۔ اور جب کوئی گدھا خلیفہ بن بیٹھے تو مذہبی ٹھیکے دار کیا کہتے ہیں؟ اولی الامر کی اطاعت کرو۔ اور اگر وہ گدھا ساری عمر کے لیے اقتدار پر براجمان رہے، جو خلافت/ بادشاہت/ ملوکیت کی اساس ہے تو شاکر جیسے نیچ ذات ساری عمر اس گدھے کو برداشت کریں؟ شاکر کے ہا تھ کھڑے ہیں جی، خلافت کی ڈفلی یہاں بے سُری ہو جاتی ہے۔

مسلمانوں کی تاریخ کے کوئی تیرہ سو سال ان پر یہی خلافت /ملوکیت / بادشاہت مسلط رہی۔ کبھی بنو امیہ ، کبھی بنو عباس، کبھی عثمانی ، کبھی فاطمی ، کبھی عبد الرحمن الداخل کی اندلسی بنو امیہ کی شاخ۔ اس میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی، بڑی بڑی حکومتیں اس خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت سے تھرتھراتی تھیں۔ مسلمانوں کا بڑ اسنہرا دور اسی عرصے میں رہا۔ بڑے بڑے علاقے فتح ہوئے۔ یعنی خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت کو بھی تسلیم کیا جائے، جیسی بھی ٹوٹی پھوٹی تھی، آخر تھی تو خلافت جی۔ خلفائے راشدین کی نشانی، پر شاکر چونکہ نیچ ذات ہے اس لیے نہیں مانتا۔ وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ یہ خلفائے راشدین کی نشانی نہیں اپنے باپ داداؤں کی نشانی تھی۔ یہ قیصر و کسری کی نشانی تھی۔ یہ اسلام سے پہلے کے اس سیاسی نظام کا تسلسل تھی جس میں سکندر اعظم سے لے کر ایران ور روم اور یورپ کی بادشاہتیں  آتی ہیں۔ بس نام بدلا تھا، نام بدلے تھے۔ نام خلافت ہو گیا، نام مسلمانوں والے ہو گئے۔ اور اعمال؟ اعمال وہی تھے جو قیصر و کسری کے تھے، جو اونچے کنگروں والے محلات بنانے والوں کے تھے، جو عیاشیاں کرنے والوں کے تھے، جو اپنی حکومت وسیع کرنے والوں کے تھے۔ بس نام اسلام کا لگ گیا، اور کام جس نے کیا وہ مسلمان اور پھر خلیفہ کہلایا، باقی کچھ نہ بدلا۔

زمانہ بدلا، زمانے کے تقاضے بدلے، اندازِ حکومت بدلے اور بادشاہتیں پکے ہوئے پھلوں کی طرح ٹپا ٹپ گرتی چلی گئیں ۔ جو رہ گئیں وہ آئینی بادشاہتیں رہ گئیں۔ اور وہی بات خلافت/ ملوکیت/ بادشاہت پر بھی صادق آئی۔ زمانہ بدلا، تقاضے بدلے اور عوام نے ہاتھ کھڑے کر دئیے، عثمانیوں کا پتہ کٹ گیا۔ یہی کوئی 1920 کے آس پاس کے دن ہیں، جب یہ واقعہ رونما ہوتا ہے۔ اور یہیں سے برصغیر کے مسلمانوں کا خلافت بخار شروع ہوتا ہے۔ تحریکِ خلافت بڑے زور و شور سے چلائی جاتی ہے، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جب ترکی کے عوام ہی نہیں چاہتے کہ خلافت ہو تو آپ میں بے گانی شادی میں عبداللہ دیوانہ؟ اور یہی کچھ ہوا بھی، تحریکِ خلافت کے غبارے سے پھونک نکل گئی۔ طبیعتیں پھُل گلاب ہو گئیں، عین روح تک سرشار ہو گئیں۔ وہ دن جائے اور آج کا دن آئے، خلافت ایک پرکشش نعرہ بن گیا۔ وہ خلافت تو نہ رہی لیکن ایک تحریک کی ڈفلی ہاتھ آ گئی، خلافت قائم کرنی ہے۔ خلافت قائم ہو گئی تو مسلمان پھر سے دنیا کے حاکم بن جائیں گے، جوتیوں سے اُٹھ کر ممبر پر جا بیٹھیں گے۔ خلافت ہو گئی تو اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ خلافت ۔۔۔۔۔خلافت ہر چیز کا حل، خلافت اسلام کا نظامِ حکومت۔

چلیں جی ماننا پڑتا ہے اب تو عوام اور نوجوان نسل بھی شرعی نظام کے حق میں ہے۔ اور یہی وقت ہے کہ لوہا گرم دیکھ کر چوٹ لگائی جائے،خلافت /ملوکیت / بادشاہت کے لیے کام کیا جائے۔ بس ایک سوال، یہ بھوکی ننگی عوام اسلام کی محبت میں ایسا کر رہی ہے یا روٹی کو ترسنے کے بعد؟ ترکی میں کوئی خلافت کا نعرہ کیوں نہیں لگاتا، وہاں تو خلافت نہیں بلکہ جب خلافت تھی اس سے بہتر صورتحال ہے اب۔ یہ پاکستان میں ہی خلافت کیوں؟ یہ ان جگہوں پر ہی خلافت کیوں جہاں حقوق غصب ہوتے ہیں، جہاں بھوک ننگا ناچ ناچتی ہے، جہاں  جنگل کا قانون ہے صرف وہیں خلافت کا نعرہ کیوں لگتا ہے؟  اگر آج اس ملک میں گڈ گورنس ہو جائے تو خلافتیوں کو ایندھن کہاں سے ملے؟ پاکستان سے تو نہ ملے کم از کم۔

تو مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ نظامِ حکومت میں ہے۔ بات پھر وہیں آ گئی۔ اور خلافت /ملوکیت / بادشاہت بہترین نظامِ حکومت ہے، ہیں جی۔ لیکن نہیں بہترین نہیں۔ جس کو ساری عمر کے لیے اقتدار میں لے آؤ گے وہ سر پر چڑھ کر ڈھول بجائے گا۔ اس لیے خلافت/ملوکیت/ بادشاہت نامنظور۔ حل؟ حل سادہ سا ہے اقتدار کی مدت مقرر کرو، ووٹ ڈلواؤ، ساتھ جو مرضی اسلامی ڈال لو۔ تھرمامیٹر لگا کر تقویٰ چیک کرو،  متھا اور گِٹے دیکھ کر متقی پرہیز گار لوگوں کی مجلس شوری بناؤ، لیکن وہ منتخب ہو، عوام کو حق دو، عوام کو حق ہے کہ وہ فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ جیسے نبی ﷺ کے جانشینوں نے مثال قائم کی، ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کر کے دکھایا۔ لیکن خلافت/ ملوکیت /بادشاہت؟ نا سائیں وہ دن لد گئے، جب سیاں جی کوتوال تھے۔ اب تو اور مسائل ہیں۔ اور بادشاہت آج کے مسئلوں کا حل کہیں سے بھی نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس نیم خلافت سے شاکر کو اتنی تکلیف کیوں؟ لیکن جوابی سوال یہ ہے کہ جمہوریت یا جو بھی آج کے نظامِ حکومت کو نام دیا جائے اس سے اتنی تکلیف کیوں ہے؟ جواب یہ کہ اس جمہوریت کے خمیازے آج بھگت رہے ہیں۔ سوال یہ کہ اگر جاگیر دار، وڈیرے، سرمایہ داروں کو ہی اقتدار سے باہر کرنا ہے تو یہ مسلمانوں کی تاریخ میں کب اقتدار میں نہ تھے۔ برصغیر کی تو تاریخ ہی جاگیر داروں اور بادشاہوں کے گرد گھومتی ہے، بادشاہ جاگیر دار کو نوازتا تھا اور جاگیر دار اپنے مزارعوں کو۔ چودہ سو سالہ تاریخ میں عہد نبوی ﷺ اور خلافتِ راشدہ کے علاوہ کونسا دور ہے جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون نہیں نافذ رہا؟ تو آج اگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہے تو اتنی تکلیف کیوں؟ تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت اسلام کا ملمع چڑھا ہوا تھا، تکلیف اس لیے ہے کہ اس وقت کھانے کو مل ہی جاتا تھا بھوگ کا ننگا ناچ نہیں ہوتا تھا جو آج ہوتا ہے۔ تو حل یہ ہے کہ دماغ کو وسیع کرو محمد الرسو ل اللہ ﷺ کا لایا ہوا دین خلافت و امامت سے اوپر کی چیز ہے۔ اگر خلافت اراکین اسلام میں سے ہوتی تو قرآن طلاق اور وراثت کے قوانین کی طرح خلافت کے قوانین بھی بتاتا۔ آخری نبی ﷺ صرف ایک عبوری فیصلہ کر کے، کہ خلیفہ قریش میں سے ہوگا ، اس دنیا سے پردہ نہ فرماتے۔ کیا محمد الرسول اللہ ﷺ اور محمد الرسول اللہ ﷺ کے خدا کو نہیں معلوم تھا کہ "خلیفہ قریش میں سے ہوگا" کا حکم تا قیامت نہیں چل سکے گا؟ اسلام میں کسی عربی کو عجمی پر، کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں والے اصول کا رد نہ ہو جاتا یہ؟ اس لیے خلافت فرض نہیں کی گئی، خلافت کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔ رسول ﷺ کے جانشینوں نے اپنے وقت میں بہترین طریقے سے نظامِ حکومت چلایا۔ اس بیک ورڈ قبائلی معاشرے میں اسلام پر عمل اور عوام کی فیصلہ سازی میں شمولیت کی ایسی درخشندہ مثال قائم کی کہ زمانہ انگشتِ بدنداں رہ گیا۔ لیکن اس کے بعد؟ اس کے بعد جب نیتیں صاف نہ رہیں تو وہی اندھیرا پھر سے لوٹ آیا ، کہیں کہیں ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں اور پھر ایک لمبا اندھیرا۔ اور آخر بیسویں صدی آ پہنچی، تقاضے بدلے، زمانہ بدلا تو نظام بھی بدل گئے۔ بدلنا تو مقدر ہے، انسان ہوں، زمانہ ہو یا نظام۔ لیکن اسلام اگر زمانے کا پابند رہ گیا تو  تاقیامت دینِ انسانیت تو نہ ہوا۔ اس لیے شاکر کی سوچ بڑی سادہ سی ہے۔ اسلام کے اصول بڑے سادہ ہیں، کسی بھی نظامِ حکومت پر اطلاق کر دو اسلامی نظام ہو جائے گا۔ اور بھوک کا ننگا ناچ رکوانا ہے تو عوام کو تعلیم دو کہ ان کا حق ہے پوچھنا، سوال کرنا، انہیں بتاؤ کہ سوال کریں۔ جو سوال کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کرتا ہے اسے رد کریں۔ آج کے نظام میں بہتری لاؤ۔ یہی نظام ترکی میں ہے، برطانیہ میں ہے، ملائیشیا میں ہے وہاں کیا تکلیف ہے کہ یہاں سے ہزار درجے بہتر صورتحال ہے؟ وہی کچھ یہاں کیوں نہیں ہو سکتا، اس کے حل کے لیے لیے برانڈ نیم کا چُوسا ہی کیوں؟

لیکن کیا کریں جی، برانڈ نیم سب کو اچھا لگتا ہے۔ خلافت /ملوکیت / بادشاہت حکومتی نظاموں میں ایک اسلامی برانڈ نیم ہے، اور پچھلے سو سال سے اس برانڈ نیم کی سیاست پر بہت سوں کی واہ واہ ہے، عزت ہے اور روزی روٹی لگی ہوئی ہے۔ عوام بھی سمجھتی ہے کہ بہتر ہے چیز "اسلامی" ہی ہو، چاہے اس پر اسلام کا ملمع ہی چڑھایا ہوا ہو، لیکن چیز اسلامی ہو۔ اس لیے عوام جمہوریت کو "کافرانہ" کہتی ہے، "خلافت" کو اسلامی سمجھتی ہے۔ بھولی عوام ہے، مذہبی ٹھیکے داروں نے چُوسا دیا ہوا ہے، اور عوام چُوس رہی ہے۔ کوئی سوال کر لے تو، خیر اس کا حال پھر شاکر جیسا ہوتا ہے۔ جس کے سوالنے کو گدھے کا رینکنا سمجھا جاتا ہے۔

خیر ایسے گدھے، نیچ ذات، ایمان کے آخری درجے پر کھڑے منش ہر دور میں ہوئے ہیں۔ ایک شاکر بھی ہو گیا تو کوئی گل نہیں۔ تحریر کسی کے متفق ہونے کے لیے نہیں لکھی، تحریر کوئی صفائی پیش کرنے کے لیے بھی نہیں لکھی ، تحریر صرف موقف بیان کرنے کے لیے لکھی ہے۔ اور غلط فہمی دور کرنے کے لیے کہ جو شاکر کو انٹلکچوئل سمجھتے تھے۔ غیر جانبدار سمجھتے تھے، سمجھدار سمجھتے تھے اپنی اپنی سمجھ پر نظرِ ثانی کر لیں۔ یہاں کوئی غیر جانبداری نہیں، یہاں سب کا ایجنڈا ہے، یہاں سب کے "سچ" ہیں، اپنے اپنے سچ۔ خلافتیوں کا اپنا سچ ہے، اور شاکر جیسے نیچ ذاتوں کا اپنا سچ۔ اور اپنے اپنے سچ میں گم ہیں۔ اس دن تک جس دن سارے جھوٹے سچ پرزے پرزے ہو جائیں اور سچے سائیں کا سچا سچ آنکھیں چندھیا دے۔

رہے نام اللہ کا۔