ہفتہ، 22 مارچ، 2014

نفاذِ اسلام

میں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے کالج سیکشن میں ایک کلاس پڑھا رہا تھا۔ بچوں کو لکھنے کے لیے ایک محرکاتی عنوان دیا ہوا تھا۔ آپ کے بس میں ہوتا تو کیا بہتر کرتے۔ کچھ اس قسم کا عنوان تھا اور بچے نے انگریزی میں کچھ فقرے لکھنے تھے۔ ایک بچہ کلین شیو، جینز پہنی ہوئی۔ اس نے ٹھیک کرنے کے لیے جو چیز لکھی تھی وہ مسلمانوں کا دین تھا۔ بچہ دینِ اسلام نافذ (اِمپوز) کرنا چاہتا تھا۔ اس کے الفاظ اور تاثرات کی شدت مجھے آج کئی ماہ بعد بھی ابھی کل کی بات لگتی ہے۔

مولوی ارشد میرے محلے میں کسی دوسرے شہر سے آ کر حجام کی دوکان کرتا ہے۔ اچھا ملنسار بندہ ہے۔ اس کے پاس بیٹھے ہوں تو حجاموں کی عادت کے عین مطابق باتیں کرنا اور سننا چلتا رہتا ہے۔ کوئی ایک ڈیڑھ برس سے اس سے ہی بال کٹوانے ہوتے ہیں، اچھا کام کر لیتا ہے اور اسے پتا ہے کہ میں کیسے بال کٹواتا ہوں۔ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ پہلے دوکان کے سامنے سے گزرا تو اس نے لکھ کر لگایا ہوا تھا ہمارے ہاں شیو نہیں کی جاتی۔ مجھے حیرت بھی ہوئی اور حسبِ عادت تپ بھی چڑھی۔ میں نے کوئی دو چار باتیں بھی کہیں سنیں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ بات کوئی ایسی غلط بھی نہیں، ویسے بھی اس کا حق ہے جو کام اس کا دل نہیں مانتا نہ کرے۔ خیر میں بال اب بھی اسی سے کٹواتا ہوں۔ اس تبدیلی کے بعد ایک آدھ بار ملاقات میں اس کے ساتھ اسلام پر بات چھڑ گئی اور بات کا اختتام سزاؤں پر ہوا۔ اللہ کی کتاب میں سزائیں بیان کی ہوئی ہیں، اس کا کہنا تھا۔ سزائیں نافذ کر دو، سارے تیر کی طرح کیسے سیدھے نہیں ہوتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ 

اسلام کے "نفاذ" اور مسلمانوں کو مزید مسلمان کرنے کے حوالے سے مسلمانوں میں یہ جذباتی بخار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ اسلام نافذ کر دو سب ٹھیک ہو جائے گا۔   خلافت ہوتی تو ایسا نہ ہوتا۔ امریکہ کو جواب خلافت ہی دے سکتی تھی۔ اور پھر لشکر اور مسواک والی روایات۔ جنگ نہ جیت سکنے کی وجہ مسواک کا نہ کرنا۔ 

جذبات ، بیانات اور گفتار یہ ہے اور عمل یہ ہے کہ شادی بیاہ پر رنڈیاں بھی نچواؤ اور ربیع الاول میں عاشقِ رسول کا ٹیگ ایک عدد نقش بھی سینے پر لگاؤ۔  میں سوچتا ہوں کہ نبی ﷺ نے مکے میں زندگی کے تیرہ سال گلا دئیے۔ اپنے رشتے داروں، رشتے کے بھائیوں، بیٹوں، چچاؤں، ماموؤں کو دعوتِ دین دیتے رہے۔ نبی ﷺ نے تو آتے ہی نہ کہا کہ اسلام نافذ کر دو۔ اپنی زندگی کے سنہرے تیرہ سال ان لوگوں پر قربان کیے اور پھر ہجرت کی، جب کوئی چارہ نہ رہا۔ مدینے کے دس سال اور ان دس سالوں میں بھی اسلام پہلے انفرادی زندگیوں میں آیا پھر اجتماعی زندگی میں، بیک جنبشِ قلم نہیں بتدریج۔ پہلے دعوت و تربیت اور پھر عمل کا تقاضا۔ کیا ہی پیارا طریقہ تھا اور کیا ہی پیارا انسان ﷺ تھا جس نے سب کیا۔

آج اس دوغلے اور منافق معاشرے کو ٹھیک کرنے کے دعوے دار انقلابی ، بندوق بردار اور "شرعی" داڑھیوں والے، ان کی سمجھ میں کیوں یہ بات نہیں آتی کہ اسلام نافذ کرنا ہوتا تو اللہ اور اس کے نبی نے اسی دن کر دینا تھا جس دن جبریل پہلی وحی لے کر اترا تھا۔ انہیں یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ حکومت کے اسلام "نافذ" کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ اس وقت ہوتا ہے جب عوام اپنے اوپر اسلام خود طاری کرے۔ 

خدا ان کو ہدایت دے، خدا ہمیں ہدایت دے، خدا ہم پر رحم کرے، خدا اس ملک اور قوم پر رحم کرے۔ ان لوگوں نے اسلام کا نام، شریعت کا نام بیچ بازار رسوا کر ڈالا۔ ان کی انقلابی پھُرتیوں، ان کی فرقہ وارانہ سازشوں، ان کے فہمِ دین نے آج اجتماعی سطح پر اسلام پر عمل کی کسی بھی کوشش کو اسلام مسلط کرنا بنا دیا۔ انہوں نے سیاست کے نام پر اسلام کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ انہوں نے سچ کر دکھایا کہ جہاں مذہب اور سیاست یکجا ہوئے وہاں یہی کچھ ہو گا۔ لوگ ڈرتے ہیں، اسلام کے نفاذ سے ڈرتے ہیں۔ لوگ خوف کھاتے ہیں، پتھر اٹھائے وحشی ہجوموں کا خوف جو کسی کو بھی زانی قرار دے کر پیوندِ زمین کر سکتا ہے۔ کٹے ہوئے ہاتھوں کا خوف، کسی نے روٹی چرائی ہو، دس روپے چرائے ہوں یا دس ہزار چرائے ہوں۔ سرِ بازار کوڑوں کا خوف، جرم کوئی بھی ہو سزا کوڑے ہوں گے۔ لوگ دھماکوں سے ڈرتے ہیں، سی ڈی اور حجاموں کی دوکانوں پر دھماکوں سے ڈرتے ہیں۔ سینماؤں میں دستی بموں کے حملوں سے ڈرتے ہیں۔ 

نفاذِ اسلام کے نام پر مافیائیں وجود میں آ چکی ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا ہے، ہر ایک کا اپنا نعرہ ہے، ہر ایک کا اپنا حلیہ ہے۔ ہر کوئی اسلام کے نام پر اپنے فرقے کا نمائندہ ہے۔ ہر کسی نے اسلام کو سیاست میں بیچ بازار بے پردہ کیا ہوا ہے۔ اسلام کے نام پر دوکان سجائے بیٹھا ہے، ڈگڈگی چل رہی ہے اور بندر اس ڈگڈگی پر محوِ رقص ہیں۔ نام اسلام کا، فائدہ سیاستدان کا۔ 

اور پھر میں سوچتا ہوں یہ کافر جو سارے ہیں، اس دنیا میں جو پچاس ساٹھ فیصد کافر ہیں اور کافر ملک ہیں۔ یہ جو امریکہ اور یورپ نامی کافروں کے علاقے ہیں۔ انہوں نے بھی کیا اسلام نافذ کیا ہوا ہے؟ وہ تو جمہوریت کی بات کرتے ہیں نا، کافروں کا نظامِ حکومت۔ پھر بھی ان کے شہری ہم سے زیادہ سکون میں کیوں رہتے ہیں؟ ادھر یہ بھارت میں کجریوال جیسے ہندو مشرک، وہ کیسے مسلمان نہ ہو کر بھی اچھے کام کر لیتا ہے۔ پھر میں اپنے ملک میں دیکھتا ہوں ہر کسی کے نام کے ساتھ نبی ﷺ کا نام ہے، آلِ نبی ﷺ کا نام لگا ہوا ہے۔ لیکن کام کیسے ہیں؟  اور پھر یہ نفاذِ اسلام کی بات، یہ کونسے نفاذ کی بات کرتے ہیں؟ ہر بات کا حل نفاذِ اسلام ، ہر بات کا حل ایک عدد "اسلامی" حکومت۔ 
میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں۔ اللہ مجھے معاف کرے پتا نہیں کیا کیا کفریہ سوچ سوچتا ہوں۔

5 تبصرے:

  1. جنہیں آپ سمجھانا چاہتے ہیں انہوں نے عقل کا سوئچ آف کیا ہوا ھے بلکہ اس کے پیچھ لٹھ لے کر پڑے ہوئے ہیں ۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. محترم ۔ میں نہ تو مولوی ہوں نہ سیاستدان ۔ عالم نہ اُستاذ اور نہ ہی مجھے پکا مسلمان ہونے کا دعوٰی ہے ۔ میں ایک عام سا آدمی ہوں ۔ البتہ عِلم کی طلب رکھتا ہوں اور سات دہائیوں کے لگ بھگ اس طلب میں گذر گئے جو حاصل ہوا وہ نہ حاصل کئے گئے کے مقابلہ میں اتنا کم ہے کہ ذکر کرتے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ میں نے داڑھی والے کی باتیں سُنیں اور جینز والے کی بھی اور یہ بھی سُنا کہ سب خراب ہے اسلئے نفاذ، اسلام نہیں ہو سکتا
    عالی قدر ۔ میرے تھوڑے سے علم کے مطابق عصرِ حاضر کا موازنہ عصرِ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ سے کرنا غلط ہے ۔ گو آج کا کوئی شخص کسی بھی خلیفہ راشد رضی اللہ عنہ کے اوصاف کا مالک کوئی شخص بعد میں نہ پیدا ہوا ۔ پھر بھی اگر موازہ کرنا ہی ہے تو خُلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانہ سے کرنا چاہیئے
    آپ نے امریکہ اور بھارت کا ذکر کیا ہے جو دُور کے ڈھول سہانے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ بھارت کا تو ماضی قریب میں میرٹھ میں ہونے والا واقع نہیں پڑھا ۔ بھارت کی ایک چھوٹی سی جھلک کیلئے مندرجہ ذیل روابط پر موجود تحاریر پر نظر ڈال لیجئے
    http://iabhopal.wordpress.com/2014/03/09/real-face-of-great-secular-democracy/
    http://alamullah.blogspot.ae/2014/03/blog-post_17.html
    امریکہ کے حالات کی چند ہلکی ہلکی جھلکیا آپ میرے اسی بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں جس کا ربط اُوپر دیا ہے
    بات لمبی ہو رہی ہے اسلئے اختتام کرتے ہوئے میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے عِلتیں تو سب گِنوا دیں مگر رہنمائی نہیں کی کہ لوگ عملی طور پر اپنے اُوپر اسلام کیسے نافذ کریں
    http://www.theajmals.com

    جواب دیںحذف کریں
  3. It's not your fault, we were never taught all the horrible things people did. No body was ever perfect and no one ever will be. You too are a prisoner as the child and the barber. You can see their prison and I can see yours. Maybe I have a box too that may be visible to others. Things will not change until we are able to look at all three sides of the coin. LM

    جواب دیںحذف کریں
  4. ماشااللہ خوب نقشہ کھینچ دیا، حل آپ نے بھی نہی بتایا، کیا آپ کے نزدیک بھی حل قوم کا اجتماعی استغفار ہے؟ آپ اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں میں اپنے آپ کو ٹھیک کرلیتا ہوں سارے مسئلے ہی ختم۔ اگر ایسا ہوتا تو ٹریفک پولیس کیوں بنائی جاتی وہ کیوں چالان کرتی پھرتی ہے، قوم کو شعور دے کر بھی تو سیدھا کیا جا سکتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  5. محترم! آپ نے بالکل صحیح فرمایا کہ اسلام کو پہلے انفرادی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ،جب انفرادی زندگی میں اسلام آیا ہی نہیں ہے تو نفاذ اسلام کی بات کیوں کر صحیح ہوسکتی ہے ۔ تاہم اسلام ہی انسانیت کو صحیح سکون فراہم کرسکتا ہے ، مغرب کی ترقی سے مسحور نہ ہوں، وہ اپنے پاس ہر طرح کا سامان تعیش رکھنے کے باوجود سکون کی دولت سے یک قلم محروم ہیں، ان کی انفرادی زندگی قلق واضطراب اور بے اطمینانی کی شکار ہے ، ٹینشن سے خودکشی کررہے ہیں۔ ہمیں اسلام کی ترجیحات کو سامنے ضرور رکھنا چاہیے لیکن شریعت کے احکام کونشانہ طعن نہیں بنانا چاہیے،اسلامی احکام ہمارے خالق ومالک کے نازل کردہ ہیں، جو مخلوق کی طبیعت کو سب سے بہتر جانتا ہے۔ الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔