منگل، 9 دسمبر، 2014

میں کیا لکھوں

کل صبح سے میرے اندر دھیمی آنچ جل رہی ہے، خون مسلسل کھولن کی کیفیت میں ہے۔ بار بار غصہ، فرسٹریشن، مایوسی ابلتی ہے، دل کرتا ہے کچھ تہس نہس کر دوں لیکن پھر ضبط کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔
میرا شہر کل سارا دن ان بے غیرتوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا۔ ایک اقتدار کا پجاری سائیکو کیس اور اس کے مخالفین بدمعاش حکمران۔ دو ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا ملیدہ۔ میرے شہر کا ایک نوجوان اپنی زندگی ہار گیا۔ ایک زندگی ہار گیا، اور سینکڑوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ فیس بک پر مرنے والے کی تصویریں لگا کر گو گو کے نعرے لگانے والے اپنے بستروں میں بیٹھے ہیں۔ ارے کوئی اس ماں سے بھی پوچھے جس کا لعل چلا گیا۔  یہ تو اپنی سیاست چمکا کر واپس چلا آیا، کوئی اس بہن سے پوچھے جس کا جوان بھائی قبر کی مٹی اوڑھ کر لیٹ گیا۔ میرے پاس لفظ ختم ہو رہے ہیں، دل کرتا ہے کہ دھاڑیں مار مار کر روؤں۔ میرا سوہنا شہر فیصل آباد، اور ان کنجروں نے اسے گلزار سے آتش فشاں بنا دیا۔
ایک حق نواز مرا ہے، سینکڑوں حق نواز ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ ان کی گندی سیاست نے بھائی کو بھائی کے سامنے کھڑا کر دینا ہے۔ اور یونیورسٹی، کالجوں اور سکولوں میں گرم خون کے نوجوان ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ یہ بے غیرت ہمیں جس ٹائم بم پر بٹھا گئے ہیں اس سے نقصان کسے ہو گا؟ ہم ہی مریں گے نا۔ پی ٹیائی والوں کا خون سفید ہے یا نونیوں کا؟ کون لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ پڑھنے والا نہیں ہے؟ کون پاکستانی نہیں ہے؟
بھاڑ میں گئی ان کی دھاندلی، بھاڑ میں گئے ان کے چار حلقے۔ خدا غارت کرے انہیں، خدا انہیں قبر میں بھی چین نصیب نہ ہونے دے۔ ان اقتدار کے بھوکے جنگلی جانوروں کو، خدا کی لعنت ہو ان سب پر۔ ان کے اقتدار کے اس گھناؤنے کھیل میں پتہ نہیں کتنے حق نواز جان سے جائیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔