ہفتہ، 25 جولائی، 2015

میں اور ترجمہ

آج سے کوئی آٹھ  برس قبل میرے گھر میں ایک بابا جی تشریف لائے۔ ان سے پہلے زندگی میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اردو محفل کے توسط سے دعا سلام تھی اور بس۔ اتنی واجبی سی دعا سلام کے باوجود وہ کمال شفقت سے نہ صرف میرے غریب خانے پر تشریف لائے بلکہ انہوں نے کچھ ایسے گراں قدر مشوروں سے بھی نوازا جنہوں نے آج کے شاکر کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطاء فرمائے۔ محمد اصغر صاحب جو اردو محفل پر تلمیذ  کی عرفیت سے جانے جاتے تھے، مورخہ 18 جولائی 2015 بروز عید الفطر  اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔ جس نے بھی سُنا سناٹے میں رہ گیا۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ وہ چلے گئے ، لیکن انہوں نے مجھ جیسے کئی نوجوانوں  کو گائیڈ کیا۔ انشاءاللہ اس صدقہ جاریہ کا اجر انہیں ملتا رہے گا۔

تو جناب  اصغر صاحب نے پہلی مرتبہ مجھے آگاہ کیا کہ آنلائن ترجمہ کر کے پیسے کمائے جا سکتے ہیں، اور اچھے خاصے پیسے کمائے جا سکتے ہیں۔ 2007 میں ابھی میں ایک گواچی گاں جیسی چیز تھا۔ بی کام کے بعد ایم بی اے کا داخلہ بھیج کر واپس منگوا چکا تھا، اور ایک عدد پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اِن انگلش لنگوئسٹکس فرما رہا تھا۔  مالی حالت پتلی تو ہمیشہ سے تھی، ٹیوشن  اور چھوٹے موٹے کاموں پر گزارا تھا۔ اصغر صاحب نے کھُل کر کہا کہ آپ اپنے والدین کے ساتھ مل کر بوجھ اٹھائیں اور اس کے لیے فری لانس ترجمہ ایک اچھا پیشہ ہے۔ آپ فلاں فلاں ویب سائٹ پر تشریف لے جائیں، اپنی پروفائل اور سی وی تیار کر کے ٹرانسلیشن ایجنسیوں کو تعارفی ای میل کے ساتھ بھیجا کریں۔ تو یہ وہ برس تھا جب میں نے یہ کام شروع کیا۔ اور آج آٹھ برس بعد جب میں اپنے آپ کو مترجم بتاتا ہوں تو اس وقت سے شروع کرتا ہوں جب میں نے اپنے آپ کو مترجم کہنا شروع کیا تھا۔  پہلی پیمنٹ دو یا ایک برس بعد ملی تھی اٹھانوے ڈالر جس سے ایک  پی فور کمپیوٹر لیا۔

فاسٹ فاورڈ ٹو 2015، آج فری لانس ترجمے میں آٹھ برس ہو گئے۔  سافٹویئر، آئی ٹی اور خبروں کا ترجمہ میرے بائیں ہاتھ  کا کھیل ہے۔ ترجمے کی رفتار ایک زمانے میں ایک عام مترجم سے  کوئی دوگنی تو ہو گی۔ اب بھی اچھے دنوں  کے کچھ اثرات باقی ہوں شاید۔ لیکن اب کام کبھی کبھی ملتا ہے، وہ روزانہ ہزار پندرہ سو الفاظ ترجمہ کرنے والا زمانہ گزر گیا۔ لیکن آج بھی میں اگر اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہوں تو لسانیات +ترجمہ جیسی کسی چیز کا طالبعلم سمجھتا ہوں۔ لسانیات میرا شوق ہے اور ترجمہ میر اپیشہ۔ لسانیات اور ترجمہ کا گہرا تعلق ہے۔ نقصِ امن کے خطرے سے میں علومِ ترجمہ کو لسانیات کی ذیلی شاخ قرار نہیں دے رہا چونکہ اب پاکستان میں بھی علومِ ترجمہ کے الگ سے شعبے قائم ہو رہے ہیں۔ 

تو جناب میں مترجم ہوں، ترجمہ میرا پیشہ ہے، میری روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ میں پچھلے آٹھ برس میں خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی دس لاکھ الفاظ ترجمہ کر چکا ہوں جن میں سافٹویئر لوکلائزیشن، ویب سائٹ ترجمہ، خبریں اور مضامین، قوانین اور ایکٹ وغیرہ، خطوط، سرٹیفکیٹس اور جرنل آرٹیکلز وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس بلاگ کو پڑھنے والے اور انٹرنیٹ پر مجھ سے شناسائی رکھنے والے احباب "جوانی" سے "بڑھاپے" کے اس سفر کو جانتے ہیں۔ آج سے چھ برس پہلے جو بندہ اردو وکی پیڈیا کی  جناتی اصطلاحات کے بارے میں لکھتا رہا، آج وہ کچھ اسی طرح کا کام کر کے اپنی روزی روٹی چلاتا ہے۔

فرانس کا ایک سماجی مفکر مِشل فُوکُو (یا شاید کوئی اور سڑیل بابا)کہتا ہے کہ میں کُتا نہیں جو ہر مرتبہ ایک ہی انداز میں بھونکے۔ بابے کے کہنے کا مطلب ہے  کہ انسان ارتقاء پذیر چیز ہے۔ چنانچہ پچھلے آٹھ برس میں آنے والی بہت سی تبدیلیوں میں سے ایک تبدیلی بطور مترجم میری سوچ میں بھی آئی۔ مَیں نے ترجمہ کر کے ترجمہ کرنا سیکھا ہے۔ اس کے لیے خاور کی ویب سائٹ پر میں نے جو ترجمہ کر کے سیکھا، وہ ہمیشہ بطور مترجم میری بنیاد رہے گا۔ میں نے اپنے کلائنٹس سے ، مارکیٹ سے، اور ٹھوکریں کھا کر سیکھا کہ ترجمہ میں کیا کرنا چاہیئے۔ اور پاکستان میں ترجمہ کا کیا مستقبل ہے۔ اتنی لمبی تمہید کے بعد بھی اگر آپ میرے ساتھ ہیں تو آپ کی مہربانی ہے چونکہ یہ  نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کے پاس آج ضائع کرنے کے لیے کافی وقت ہے۔ چنانچہ اب ہم کام کی بات شروع کرتے ہیں۔

پاکستان میں ترجمہ کا مستقبل کیا ہے؟ سچی بات بتاؤں تو پاکستان میں ترجمہ کا مستقبل آج سے چند برس پہلے(اور آج بھی)  ایک ٹکے کا بھی نہیں تھا۔ سارا کام بھارت کی ایجنسیاں لے جاتیں (آج بھی ایسا ہی ہے)۔ یہاں میری اکثر مثالیں سافٹویئر لوکلائزیشن کے حوالے سے ہوں گی ، چونکہ میرا بنیادی فیلڈ یہی  ہے۔ 2003  کے اطراف میں ایکس پی کا ترجمہ کرلپ لاہور نے کیاا ور اس کے بعد سارا کام غیر ملکی ایجنسیوں کے پاس چلا گیا۔ مائیکروسافٹ اپنے ہر سافٹویئر (آفس2007 سے اب تک ہر ورژن، ونڈوز وسٹا سے آج تک ہر ونڈوز) کا ترجمہ اردو میں کرواتا رہا ہے۔ اور یہ کام پاکستان کے فری لانسرز نے تو شاید کیا ہو، کوئی ادارہ اس میں کم ہی ملوث رہا ہے۔ (اب مائیکروسافٹ پاکستانی پنجابی میں بھی سافٹویئر کا ترجمہ کرواتا ہے۔) انفرادی سطح پر تو لوگ کچھ کما سکتے تھے، لیکن ادارہ جاتی پشت پناہی نہ ہونے، سرکاری سطح پر ترجمہ کی پالیسی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں ترجمے کی صنعت پنپ ہی نہیں سکی۔ آج  تک اس ملک میں شاید دو ہندسوں میں بھی ایسے ادارے نہ ہوں جو پیشہ ورانہ سطح پر ترجمہ کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ میں کورٹ کچہری کے احاطے میں بیٹھے مترجمین کی بات نہیں کر رہا ، ایسا مترجم تومیں بھی ہوں۔ لیکن آج 2015 میں، مجھے کچھ امید ہے کہ شاید اگلے چند برسوں میں پاکستان میں ادارہ جاتی سطح پر ترجمہ کی سپورٹ شروع ہو جائے، چونکہ پاکستان کی کم از کم تین جامعات میرے علم کے مطابق علومِ ترجمہ کے چار سالہ بیچلرز پروگرام شروع کر چکی /کرنے جا رہی ہیں۔ اور یہ سب لوگ مترجم ہوں گے، سند یافتہ مترجم۔ اب سادہ  ایم اے اردو یا ایم اے انگریزی کی دال نہیں گلے گی۔ علومِ ترجمہ کے فارغ التحصیل یا کم از کم قانون، طب، مالیات وغیرہ وغیرہ کے مخصوص شعبوں میں ترجمہ کی معتبر اسناد/ڈپلومہ رکھنے والے امیدوار آئندہ ایک دو برس میں سامنے آنے لگیں گے۔ جس سے ترجمہ کا معیار بھی بہتر ہو گا اور ادارے یعنی ٹرانسلیشن ایجنسیاں بھی وجود میں آئیں گی۔ سرکاری سطح پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات کے موجب بہت سی بہتریوں کی توقع ہے۔ کم از کم ، کچھ نہ کچھ دستاویزات ترجمہ ہونے لگیں گی۔ اور امید ہے کہ اردو کو سرکاری سطح پر انگریزی کے ہم پلہ کچھ نہ کچھ رتبہ ملے گا۔

یہ تو بطور ترجمہ صورتحال پر کچھ رائے، امیدیں اور تجزیہ تھا۔ اب ذرا صارفین یعنی جن کے لیے ترجمہ پیدا کیا جاتا ہے، ان کے حوالے سے کچھ حالات پر نظر ڈالی جائے۔ سرکاری سطح پر اردو کو اس کا جائز مقام دینے سے ترجمہ کی روایت کی داغ بیل پڑے گی اور اس سے عام عوام کو بھی فائدہ ہو گا کہ انہیں قومی زبان میں دستاویزات کا مطالعہ نصیب ہو گا۔ نجی شعبے کو بھی ترجمے کی کچھ نہ کچھ تحریک ملے گی۔ اگر سافٹویئر لوکلائزیشن کے حوالے سے بات کی جائے تو بہت سے ادارے پہلے ہی اپنے سافٹویئر اردو، سندھی، پشتو وغیرہ میں پیش کر رہے ہیں۔ مارکیٹ سے اینڈرائیڈ کا کوئی موبائل خرید لیں اس میں کم از کم گرافیکل یوزر انٹرفیس (جی یو آئی یا صارف مواجہ) اردو میں کرنے کا آپشن ضرور ملے گا۔ سام سنگ، لینووو، اوپو، ہاوے/ہواوے وغیرہ وغیرہ اور مائیکروسافٹ سب اردو زبان میں سافٹویئر دکھانے کی سہولت دیتے ہیں۔ اور تو اور ٹوئٹر، فیس بُک اور گوگل کی آنلائن ویب سائٹس/ایپس بھی اردو میں دستیاب ہیں۔ لیکن کیا صارفین اس کے لیے تیار ہیں؟

ایک لفظی جواب دوں تو "نہیں"۔ پاکستانی صارفین ایک ترجمہ شدہ صارف مواجہ استعمال کرنے کے لیے سو میں  سے زیادہ سے زیادہ دس فیصد تیار ہیں۔ اس کی وجہ/وجوہات کیا ہیں؟

اول تو یہ کہ ترجمہ غیر معیاری ہے۔ مختلف اوقات میں مختلف اداروں، ٹرانسلیشن ایجنسیوں اور فری لانسر مترجمین نے ترجمہ اور اصطلاح سازی کے ساتھ کھلواڑ کی جس سے غیر معیاری، کھچڑی ترجمہ وجود میں آیا۔ بطورِ خاص اصطلاحات سازی کا کوئی معیار مقرر نہیں، اور نجی سطح پر اردو وکی پیڈیا جیسے اداروں کو ایسی کسی بھی کوشش میں منہ کی کھانی پڑی۔ ان کی پیش کردہ اصطلاحات بری طرح مسترد ہوئیں۔ میرے دو تین مضامین اس سلسلے میں یہاں موجود ہیں۔ غیر معیاری ترجمے کی ایک اور وجہ اللہ واسطے کے تراجم ہیں۔ گوگل جی میل اب آپ کو اردو میں ملے گی۔ لیکن اس کا موازنہ آپ فیس بُک کے اردو مواجہ سے کریں۔ آپ کو فرق معلوم ہو جائے گا۔ فیس بُک اور ٹوئٹر اللہ واسطے ترجمہ کرواتے ہیں۔ جہاں مترجم کو بیج وغیرہ دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ گوگل سخت معیارات کے تحت پیشہ ور ایجنسیوں اور مترجمین سے ترجمہ کرواتا ہے ا س لیے کچھ نہ کچھ بہتری کی امید ہوتی ہے۔

ترجمہ کے لیے تیار نہ ہونے کی دوسری وجہ صارفین میں پائی جانے والی نامانوسیت ہے۔ جو چیز مانوس نہیں، وہ مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ ہم اس کی بھد اڑاتے ہیں، ہنسی ٹھٹھول کرتے ہیں۔ ترجمہ کو جب کوئی پہلی مرتبہ دیکھتا ہے اور لنک=ربط،  فارمیٹنگ = وضع کاری، کنفگریشن = تشکیل جیسے تراجم پڑھتا ہے تو پہلے حیران ہوتا  ہے پھر ہنستا ہے اور آخر میں دوسروں کو دکھانے کے لیے ایک طنزیہ پوسٹ کے ساتھ شیئر کر دیتا ہے۔ صارف کے ورلڈ ویو (world view)  یعنی دنیا کو سمجھنے کی طرزِ فکر میں یہ بات ہی فٹ نہیں بیٹھتی کہ سافٹویئر کا ترجمہ بھی ہو سکتا ہے، اور انگریزی کے علاوہ بھی ونڈوز کو کسی اور زبان میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اردو کو سرکاری زبان کے طور پر شاید کبھی ہمارے بابوں کو بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوئی، ہم تو آج قیامِ پاکستان کی ستر سال بعد والی نسل ہیں جس کے سر پر انگریزی ہی انگریزی سوار ہے (کمپیوٹر کے علاوہ بھی ہر جگہ)۔ ایک اور وجہ یہ کہ صارفین کو علم ہی نہیں کہ سافٹویئر جیسی کسی چیز کے تراجم بھی دستیاب ہیں۔ اس لاعلمی کی وجہ سے وہ اس کے استعمال سے محروم رہ جاتے ہیں۔

اور آخر میں تھوڑی سی بات اصطلاح سازی کے حوالے سے کرنا چاہوں گا۔ دو انتہائیں ہیں۔ یا تو آپ جناتی اصطلاحات تخلیق کریں جیسے اردو وکی پیڈیا نے کیا، یا پھر آپ دسویں تک کے اردو سائنسی نصاب کے ساتھ سرکار نے کچھ برس پہلے کیا وہ کریں یعنی جو کچھ بھی "سائنسی" یا "اصطلاح" سا لگے اسے نقلی حرفی کر کے لکھ دیں۔ حروف اور گرامر اردو کی ہو لیکن لکھی انگریزی ہو۔ سادہ لفظوں میں حروفِ جار کے علاوہ ساری انگریزی۔ "ای میل سینڈ کریں"، "ای میل بھیجیں"، "برقی چٹھی ارسال کریں" جیسے تراجم سے میری مختصر سی پیشہ ورانہ زندگی میں کئی مرتبہ واسطہ پڑا ہے۔ پہلا ترجمہ کسی اردو سے نابلد، غیر پیشہ ور اور بدنیت مترجم کا ہے جس کا مطلب صرف پیسے کمانا ہے۔ دوسرا ترجمہ کسی میرے جیسے آدھے تیتر آدھے بٹیر کا ہے جو انگریزی بھی رکھنا چاہتا ہے اور اردو بھی چھوڑنا نہیں چاہتا۔ اور تیسرا ترجمہ اردو میں  گردن گردن دھنسے کسی اردو دان کو زیادہ سوٹ کرتا ہے۔ میں ہمیشہ دو انتہاؤں کے درمیان چلنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ اصطلاح سازی میں ہم بہت سے تراجم پر تقریباً متفق ہو چکے ہیں۔ مثلاً سنکرونائزیشن کا ترجمہ مائیکروسافٹ کے ہائر کردہ مترجمین نے آج سے چند برس قبل "ہم وقت ساز کریں" کیا۔ اب میری کوشش ہوتی ہے کہ یہی ترجمہ استعمال کروں چونکہ سام سنگ، لینووو کے پچھلے تراجم میں ان گناہگار آنکھوں نے اسی ترجمہ کو استعمال ہوتے دیکھا ہے۔ تو ترجمے کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے میں یہی ترجمہ استعمال کرتا ہوں چونکہ تسلسل ہو گا تو معیار بندی اور مانوسیت ہوتی جائے گی۔ اس کا ترجمہ "ہم آہنگ" اور "مطابقت پذیر" بھی ہو سکتا تھا لیکن یہ ترجمہ "کمپیٹبلٹی" کے لیے پہلے ہی مختص ہو چکا تھاچنانچہ ایک امتیاز روا رکھنے کے لیے نئی اصطلاح تشکیل دی گئی۔ یہ سارا عمل بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اوپر بیان کردہ سارے مسائل کے باوجود، ایک مترجم جب ترجمہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے سامنے ایک زبان کے مافی الضمیر کو دوسری  زبان میں بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے کچھ اصول، کچھ پیشہ ورانہ پریکٹسز، کلائنٹ کے تقاضے، اپنی زبان کووسیع  (اِنرچ) کرنے کی خواہش، ترجمے میں معیاری بندی اور تسلسل کا قیام جیسی کئی اور چیزیں ہوتی ہیں۔ مترجم ہمیشہ یلل بللڑ نہیں ہوتا کہ آنکھیں بند  کر کے ترجمہ کر دیا۔ فیس بُک اور ٹوئٹر جیسے اللہ واسطے کے تراجم میں بھی آپ لاکھ کیڑے نکال لیں لیکن اس پر انسانی گھنٹے صرف ہوئے ہیں۔ آپ کا دل اگر اپنی قومی زبان میں سافٹویئر استعمال کرنے کو نہیں کرتا تو اس میں جتنا ترجمے کا مسئلہ ہے اتنا ہی آپ کی سوچ کا مسئلہ بھی ہے۔ آپ ترجمہ استعمال کریں، اس پر فیڈ بیک دیں تو یقیناً یہ ترجمہ بہتر ہو سکتا ہے۔ (رضاکارانہ تراجم میں کام ایسے ہی چلتا ہے۔ کمپنیوں کے کروائے گئے تراجم میں ان کا کوالٹی کنٹرول کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے اور میرے تجربے کے مطابق یہ طریقہ کار خاصا سخت اور مؤثر ثابت ہوتا ہے۔)

پچھلے دنوں ہمارے ایک محترم و مربی اور استاد جناب ڈاکٹر تفسیر احمد صاحب نے ایک فیس بُک پوسٹ شیئر کی جس پر دو تین تبصروں کے بعد زیرِ نظر بلاگ پوسٹ کا خیال آیا۔ جس میں ادھر اُدھر کی کئی باتوں کے علاوہ مذکورہ فیس بُک پوسٹ کے حوالے سے بھی کچھ باتیں بھی زیرِ بحث آ گئیں۔ امید کرتا ہوں کہ آج سے چند برس بعد ترجمہ کی صورتحال بہت بہتر ہو گی، مشینی ترجمہ کی ترقی، اصطلاحات کی معیار بندی اور تسلسل ،مانوسیت بڑھنے سے ترجمہ کردہ اورمقامیائے گئے سافٹویئر کا استعمال بڑھے گا۔ اور صارفین کی شکایات کم ہوں گی۔

3 تبصرے:

  1. اللہ پاک آپ کو خوش رکھے، کاش آپ جیسے کچھ ہمدرد آئندہ آنے والی نسلوں پر احسان کرتے جاتے کہ انہیں طب اور ہندسہ جیسے مضامین اپنی زبان میں پڑھنے کو دیتے جاتے، اس طرح وہ بہتر پڑھتے، سمجھتے اور اس میں آگے جاتے اور بہتری لاتے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اعلی اور اہم تحریر ۔۔۔۔ آپ کی دی گئی معلومات بہت لوگوں کے لئے افادیت کا باعث بنیں گی ۔۔۔ بہت شکریہ آپ کا

    جواب دیںحذف کریں
  3. شاکر پائی جی
    کوئی بندہ دو ، جو مشورے کم اور ترجمعہ زیادہ کرکے دے

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔