اتوار، 7 فروری، 2016

مسافر

مسافر بنیادی طور پر ایک سیف پلیئر ہے۔ اپنی زندگی کے ساتھ کبھی رسک لینے کی حماقت کم ہی کرتا ہے۔ راستہ مشکل ہو جائے تو آسانی کا متلاشی ہوتا ہے۔ بند گلی مل جائے تو پیچھے مُڑ کر کوئی اور گلی لے لیتا ہے۔ ہمیشہ ایک سے زیادہ متبادل تیار رکھتا ہے اور ایک میں ناکام ہونے پر دوسرے متبادل کو اپنی منزل بنا لیتا ہے۔ اور پھر اس پر باقاعدگی سے فخر بھی کرتا ہے۔ مسافر نے آج سے چند برس قبل جب لاہور کا سفر شروع کیا تھا تو اس کی وجہ بھی ایک راستہ بند ہونے پر متبادل کو اپنی منزل بنا لینا تھا۔ آج کئی برس بعد بھی مسافر کا سفر جاری ہے۔

مسافر کی زندگی کو اگر کوئی کمپیوٹر گیم فرض کر لیا جائے، تو آپ باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اسٹیج در اسٹیج اپنی زندگی کی اننگز کھیل رہا ہے۔ ایک اسٹیج ختم ہوتی ہے تو اگلی تیار کھڑی ہوتی ہے۔ اسی اور نوے کی دہائی میں آنے والی کمپیوٹر گیمز میں ہر اسٹیج کے آخر پر ایک باس /بلا آیا کرتی تھی جس سے نمٹے بغیر اگلی اسٹیج پر جانا ناممکن ہوا کرتا تھا۔ تو مسافر کی زندگی کی ہر اسٹیج بھی کچھ ایسی ہی بلاؤں سے پُر ہے۔ ہر اسٹیج کے آخر پر پچھلی اسٹیج سے زیادہ بڑی اور سخت بلا راستے روکے کھڑی ہوتی ہے۔ اور مسافر کو اپنی پتلی گلی سے نکل لینے والی طبیعت کے برعکس اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی تو ا س کی ٹانگوں تلے سے نکلنے کی جگہ مل جاتی ہے، اکثر البتہ ایسا نہیں ہوتا اور بلا سے مقابلہ کیے بغیر آگے جانا ناممکن ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں پار کردہ ہر اسٹیج ، اور ہر اسٹیج پر آنے والی بلا سے نپٹنے کے بعد ایک عرصے تک مسافر کو یہ گمان رہا کہ شاید اب والی اسٹیج آسان ہو گی۔ لیکن وقت نے مسافر کو سمجھا دیا ہے کہ آنے والی ہر اسٹیج پچھلی سے ایک درجہ زیادہ مشکل ہی ہو گی۔ اس لیے مسافر کے لیے یہ صورتحال چاہے کتنی بھی ناگوار کیوں نہ ہو، ایک حقیقت ہے۔

ایک دوسرے انداز میں دیکھیں تو مسافر کی زندگی گویا قسطوں میں چلنے والا ایک ڈرامہ ہے۔  فرق صرف اتنا ہے کہ اس ڈرامے کی قسطیں اتنی تیز رفتاری سے ایک کے بعد ایک آتی چلی جاتی ہیں کہ ان پر بیک وقت چلنے کا گمان ہوتا ہے۔ کمپیوٹر کی زبان میں اس چیز کو ملٹی ٹاسکنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ مسافر کی زندگی بھی کچھ ایسی ہی ملٹی ٹاسکنگ کا مجموعہ ہے، جس میں مسافر مختلف پروگرامز میں مختلف کردار نبھا رہا ہو اور وہ سارے پروگرام بیک وقت کھُلے ہوئے ہوں۔ آسان لفظوں میں کہیں تو مسافر کی زندگی خانوں میں بٹی ہوئی ہے اور اس کے وجود کا ایک ایک ٹکڑا رئیل ٹائم (حقیقی وقت) میں اس خانے میں متعین زندگی کو بیک وقت گزار رہا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے کمپیوٹر کا پروسیسر بیک وقت کئی ایک تھریڈز ہینڈل کر رہا ہوتا ہے۔

اس انداز سے دیکھیں تو مسافر کی زندگی کے خانے کسی آئینے کے ٹوٹے ہوئے بے شمار ٹکڑے محسوس ہوتے ہیں جن کے سامنے کھڑا وجود اتنے ہی ٹکڑوں میں بٹ کر اُن میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ شاید کچھ لوگوں کی زندگی ایک مکمل اور بڑے آئینے جیسی بھی ہوتی ہو، کہ جس میں کوئی بال بھی نہ ہو اور انہیں اپنا آپ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑ کر تقسیم بھی نہ کرنا پڑے۔ لیکن مسافر کے مشاہدے کے مطابق عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ اکثر و بیشتر، یا کم از کم مسافر کے ساتھ تو یہی معاملہ ہے۔ مسافر کو ملٹی ٹاسکنگ یا ایک ہی وقت میں کئی خانوں میں بٹی زندگی گزارنے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ خانہ بندی اور تقسیم تنہائی کے چھوٹے چھوٹے لاتعداد فرنچائز کھول دیتی ہے۔ مسافر گویا لاتعداد کائناتوں کا تنہا باسی بن جاتا ہے، اور ہر کائنات میں اتنی ہی تنہائی اور خلاء موجود ہوتا ہے جیسا کہ حقیقی کائنات میں ہے۔ تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اس عمل کے نتیجے میں مسافر کی زندگی اور شخصیت تو تقسیم در تقسیم سے گزرتی ہے، لیکن اس کی ازلی تنہائی ضرب در ضرب سے گزر کر رائی کا پہاڑ بن جاتی ہے۔

مسافر کی زندگی کا ایک خانہ کتاب سے جڑا ہے۔ کتاب سے مراد اہلِ علم والی کتاب نہیں، بلکہ سکول، کالج، یونیورسٹی والی کتاب جس کے پڑھنے کے بعد نوکری کا دروازہ کھُلتا ہے۔ اسی خانے سے جڑا ایک خانہ ایک مستقل کلاس روم ہے جہاں مسافر کی زندگی کی ہر اسٹیج پر موجود کلاس روم اکٹھا ہو کر ایک اچھی خاصی لمبی فلم بن جاتا ہے۔ نرسری اور کے جی ون، پرائمری، مڈل اور ہائی اسکول، کالج، یونیورسٹی اور ٹریننگ ، لینگوئج کورس غرض ایسے متعدد کلاس رومز ہیں جو مسافر کی زندگی کے اس خانے میں پائے جاتے ہیں۔ کبھی آپ اس خانے میں نظر ڈالیں تو مسافرکو ایک مریل سے بچے سے ایک تقریباً جوان ہو چکے وجود میں تبدیل ہوتا  دیکھ سکتے ہیں۔

مسافر کی زندگی کے یہ دو خانے ایک تیسرے خانے سے جڑے ہیں جس کا نام سفر ہے۔ مسافر، جیسا کہ اوپر صراحت کی جا چکی ہے، مشکلات سے بچ بچا کر ، چیلنجز سے نبرد آزما ہوئے بغیر ہی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے۔ سفر بھی مسافر کی نظر میں ایک مشکل صورتحال کا نام ہے جس سے ہر ممکن حد تک احتراز گویا ایک فرضِ عین ہے۔ لیکن ستم ظریفی کہ مسافر کے اپنے آسانی تلاش کرنے والے فیصلے ہی اس کے پیروں میں چکر کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں اس خانے میں ایک لمبی بے ہنگم لکیر نظر آتی ہے۔ کبھی یہ لکیر دو نقاط کے درمیان شٹل کاک کی طرح چلتی ہے، کبھی کوئی تیسرا نقطہ بھی ساتھ آ لگتا ہے، کبھی نقاط کی تعداد بڑھ کر چار اور پھر پانچ ہو جاتی ہے۔ کبھی شٹل کاک کی آنیاں جانیاں ایک مختصر وقت کے لیے ہوتی ہیں اور کبھی عرصہ طویل ہو جاتا ہے۔ 

حسابی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ تین خانے مسافر کی زندگی کے ایک بڑے حصے کی تشکیل کرتے ہیں۔ بظاہر ان خانوں میں مسافر ایک شوریلا بچہ نظر آتا ہے ، جو سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ پسِ پردہ البتہ کچھ اور معاملہ چلتا ہے۔ مسافر، جیسا کہ اس سے جڑی پچھلی تحریر سے پتاچلتا ہے، فطری طور پر ایک تنہا شخص ہے۔ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کا عادی، تنہائی اور اندھیرے میں تلخی کے باوجود سکون محسوس کرنے والا ایک ایسا وجود جو ان ساری کیفیات سے بیک وقت لوْ ہیٹ کا تعلق رکھتا ہے۔ ایک ایسی عمارت جس کے سامنے والے پورشن میں چاہے ہر وقت بینڈ باجے والے اترے رہتے ہوں، لیکن سب سے پچھلے کمرے میں اندھیرا ہی رہتا ہے۔ مسافر کی دوہری زندگی بھی کچھ ایسی ہی ہے، سرد و گرم اور پرسکون و متلاطم جیسی متضاد کیفیات سے عبارت ،لیکن مسافر اس پر اندر ہی اندر فخر و غرور جیسے جذبات بھی رکھتا ہے۔ ہاں البتہ اس کی وجہ سے مسافر خود بھی لاعلم ہے۔ شاید مسافر کو جاننے والے اس پر کچھ روشنی ڈال سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احباب آسانی کے لیے اسے آج سے تین برس قبل لکھی گئی تحریر موٹروے کا تقریباً سیکوئل سمجھ سکتے ہیں۔ اس وقت موٹروے تھی، آج جرمنی کی بے کراں وُسعتیں مجھے اپنی آغوش میں لیتی ہیں تو کچھ ویسی کیفیات لوٹ آئیں جنہیں کاغذ پر اتار دیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔