اتوار، 27 مارچ، 2016

اللہ کے فضل کی تلاش

میں نے جب یہ سنا کہ اللہ کو گِڑ گِڑانا بہت پسند ہے، ہاتھ پھیلائے اس کے در پر بھیک مانگو تو اسے دینا اچھا لگتا ہے، تو میں نے اپنی دعاؤں میں گِڑگِڑانا شروع کر دیا۔ جب پتا چلا کہ اس کا شکر کرنے سے وہ اور دیتا ہے، تومیں نے طوطے کی طرح شکر کا رٹا لگانا شروع کر دیا۔ جب معلوم ہوا کہ ادھار دو تو وہ دس گُنا بڑھا کر دیتا ہے، میں نے اُس کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا، اس نیت سے کہ اب مال دس گُنا ہو کر واپس آئے گا۔ اُس نے ہر طرح سے مجھے دیا۔ مانگنے پر دیا، شکر کرنے پر دیا اور اپنی راہ میں دینے پر اور زیادہ دیا۔ بابا جی سرفراز اے شاہ صاحب اللہ سائیں سے اس کا فضل اور کرم مانگنے کا کہا کرتے ہیں۔ میں نے جب یہ جانا تو اپنی دعاؤں میں پوری مصنوعی عاجزی طاری کر کے اور مسکین منہ بنا کر اس کا فضل، رحمت، کرم ، عطاء جو لفظ میری لغت میں اس کی رحمت کو ڈیفائن کرنے کے لیے موجود تھا سب استعمال کر کر کے اس سے مانگنا شروع کر دیا۔ تب اُس نے مجھے اور زیادہ عطاء کیا۔

میں پاکستان کی نوے فیصد آبادی کی طرح غربت کو دیکھ کر پلا بڑھا۔ پالنہار کی مہربانی اس نے کبھی بھُوکا نہیں سُلایا، لیکن اپنے والدین کو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جب سخت جدوجہد کرتے دیکھا تو میرے سامنے خودبخود پہلی منزل یہ آ گئی کہ اتنا کمالوں کہ انہیں دوبارہ وہ دن نہ دیکھنے پڑیں۔ تو میں نے اللہ سے جب اس کا فضل مانگنا شروع کیا تو اس کے بیک اینڈ پر بھی یہی معنی ہوتے کہ اللہ جی بہت سا رزق یعنی روپیہ دے دیجیے۔ کافی زیادہ، بلکہ بہت زیادہ سا۔ اور اس نے مجھے دیا۔ پھر میں نے سنا کہ رزق صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا، اس کی اور بھی بے شمار صورتیں ہیں جیسے اولاد۔ اسی طرح اس کا فضل صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا اس کی بھی بے شمار صورتیں ہیں۔

آج ہمارا جرمن لینگوئج کورس باضابطہ طور پر ختم ہو گیا، ہمارا آخری ٹیسٹ بھی ہو گیا اور ہم یونیورسٹی جانے کے لیے آزاد ہو گئے۔ آج اپنے احباب کے درمیان ایک الوداعی سی تقریب میں وقت گزارا تو احساس ہوا کہ اہل علم کی صحبت بھی اس کا فضل ہے۔ پچھلے چار ماہ مُجھ پر پالنہار کا یہ فضل رہا کہ میں پاکستان کے بہترین دماغوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا رہا۔ ان میں سے ہر ایک جو اپنے شعبے کا ماہر ہے، جس کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا۔ ان کے اندازِ تخاطب، نشست و برخاست اور طرزِ عمل سے پتا چلتا کہ یہ لوگ اس مقام کے حقدار تھے۔ یہ پاکستان میں جب اپنے اپنے شعبے میں، تدریس یا تحقیق جہاں بھی ہوتے ہوں گے تو وہاں اس کی ترقی کے لیے کتنے مؤثر ہوں گے۔ اور آج جب یہ یہاں ہیں، اور تین برس بعد واپس ڈاکٹر بن کر جائیں گے تو ان کی مہارت سے میرے ملک کو کتنا فائدہ ہو گا۔ تو مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ رہنا بھی باعثِ سعادت تھا۔ میں جو کسی زمانے میں اپنے والد کی ناشتے کی ریڑھی پر بیرا گیری کرتا تھا، آج مُجھے اُس کریم کی ذات نے کہاں لا بٹھایا ہے۔ تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ پر اس کا کِتنا فضل اور رحمت ہے۔ اور جو میں طوطے کی طرح ہر دعا میں آموختہ دوہراتا ہوں کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج، مجھ پر اپنا کرم کر دے، فضل کر دے، عطاء کر دے، تو وہ دعائیں رائیگاں نہیں جا رہیں۔ اس کی بارگاہ میں قبولیت پا رہی ہیں۔ تو میرا سر اس کی رحمت کے احساس سے جھُک گیا۔

میں نے آج یہ سیکھا کہ اچھا حلقۂ احباب بھی اس کا فضل ہے۔ علمِ نافع بھی اس کا فضل ہے۔ چاہے وہ دنیا کا ہو یا دین کا۔ میں نے یہ جانا کہ میں اور میرے یہ سب ساتھی، واپس جا کر اپنے اپنے شعبے میں اپنے وطن کی ترقی کے لیے کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا فائدہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہونے کی صورت میں ہو گا۔ پالیسی سازی، قانون سازی، تدریس اور تحقیق میں اس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر ہو گا۔ ان سب کی نیت نیک ہے، تو ان کا علم حاصل کرنے کا عمل بھی ایک نیک عمل قرار پائے گا۔ اور اس کی توفیق بھی اُس ذات کا فضل ہے۔ میں اپنے رب سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے ہم سب کو نیک نیتی کی توفیق دے، ہمیں اپنے اپنے شعبے کی بہتری کے لیے صدقِ دل اور دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق دے۔ اور ہمارے اس علم کو اپنی مخلوق کی مدد کرنے کا آلہ، ان کی زندگی آسان بنانے کا ذریعہ اور ہمارے اہل و عیال کے لیے رزقِ حلال کے حصول کا وسیلہ بنا دے۔ آمین، یارب العالمین۔

2 تبصرے:

  1. جزاک اللہ - کچھ عرصے آپ کی تحریریں پڑھ رہاہوں - مجھے آپ کی تحریروں تک لایا گیا -فضل یہ بھی ہے آپ کی راہ میں روشنیاں ہوجائیں ، آپ کو راہ ہدایت مل جائے - اُس کے فضل کا شمار نہیں اور نہ اس کی رحمتوں کا -

    جواب دیںحذف کریں
  2. سبہان اللہ ۔۔۔ آپک کی سب دعاؤں پر آمین

    جواب دیںحذف کریں

براہ کرم تبصرہ اردو میں لکھیں۔
ناشائستہ، ذاتیات کو نشانہ بنانیوالے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے حذف کر دئیے جائیں گے۔