بدھ، 11 مئی، 2016

مہلت

زندگی مہلت نہیں دیتی۔ ہے نا؟
ہر کسی کو بس روز و شب گزارنے اور کام کاج نپٹانے کا لالچ ہوتا ہے۔ اسی لالچ میں 24 گھنٹے گزر جاتے ہیں اور اگلے 24 گھنٹوں کے ساتھ اگلا لالچ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ منحوس چکر کبھی ختم نہیں ہوتا۔
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ سیانوں نے سچ کہا ہے۔ جب احباب ساتھ ہوں تو وہی زندگی ہوتے ہیں۔ جب ساتھ نہ رہے تو ایک اور طرح کی زندگی وجود میں آ جاتی ہے۔ دوستوں کے حلقے ٹوٹتے بنتے یونہی زندگی گزرتی جاتی ہے۔ اور ایک دن ایک اکیلا جیسے آیا تھا ویسے ہی مٹی کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اور یہی زندگی ہے۔

ان دوستوں کے نام جو کبھی میری زندگی کا حصہ تھے۔ لیکن زمان و مکان کی گردشوں نے ہمیں اتنا دور کر دیا کہ شاید ہی کبھی ملاقات ہو سکے۔

پیر، 9 مئی، 2016

بہار کی شام

آج کا سورج اپنی آخری سانسوں پر آ  کر آسمان کو سرخ کیے ہوئے ہے۔ لمحہ بہ لمحہ ماند پڑتی روشنی منظر کو دھیرے دھیرے رنگین سے بلیک اینڈ وائٹ میں منتقل کرتی جاتی ہے۔ ابھی مغرب کو عازمِ سفر ایک طیارہ سورج کی روشنی میں کسی غیر ارضی جسم کی طرح نظر آ رہا تھا، اور ابھی وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ پتوں سے بوجھل درخت ہوا سے ایسے لہلہاتے ہیں جیسے فقیر کو توقع سے بڑھ کر خیرات مل جائے تو وہ جھوم اُٹھتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اس تاریک پڑتے منظر میں نہ ہو تو دنیا گونگی ہو جائے۔

یہ منظر میری حسِ بصارت اور حسِ سماعت سے ٹکرا کر اتنا مجبور کر دیتا ہے کہ میں کامن روم کی بالکنی میں جا کھڑا ہوتا ہوں۔ اور تب مجھ پر اس منظر کی ایک اور جہت کھُلتی ہے، سوندھی سوندھی سی خوشبو۔ میرے وطن میں جب رُکھوں (رُکھ= درخت، شجر) پر بہار اترتی ہے تو بُور (ننھے پھول) کھِلتا ہے۔ ٹاہلی کے پھول، نیم کے پھول اور دھریک کے پھول۔ ان پھولوں کی مہک بھی ایسی ہی جاں فزا ہوتی ہے، سوندھی سوندھی، ہلکی ہلکی اور مسلسل۔ اس اجنبی دیس کی اجنبی فضاؤں میں گھُلی یہ مہک جب میری سانسوں سے ہم آغوش ہوتی ہے تو میں بے خود ہو کر اپنے دیس، دور اپنے سوہنے دیس اُڑ جانے کے لیے مچل اُٹھتا ہوں۔ لیکن میں ایک پر کٹا پرندہ صرف پھڑپھڑا کر رہ جاتا ہوں۔

لیکن میری سوچ کی اُڑان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ مہک، یہ بو باس مجھے ان گلی کُوچوں میں، کھیت کھلیانوں میں لے جاتی ہے، اس وقت میں لے جاتی ہے جب میرے دیس میں بہار اترتی تھی۔ اور دھریک پر ننھے ننھے پھول کھلا کرتے تھے۔ اور ان کی مست کر دینے والی خوشبو گرد و نواح کو مہکا دیتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مہک اور بو باس کے ساتھ بھی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ خوشی اور غم کے احساسات منسلک ہوتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں کہوں تو مالیکیول جب ایک خاص تناسُب سے نتھنوں سے ٹکراتے ہیں تو خاص قسم کے برقی سگنل پیدا کرتے ہیں۔ جو دماغ میں عصبی خُلیوں کو متحرک کر دیتے ہیں۔ مہک محسوس کرواتے ہیں۔ اور اس سے وابستہ یادوں کو بیدار کر دیتے ہیں۔ آج ، اس وقت، یہ دھیرے دھیرے اترتی شام، گزرے برسوں کی بہاروں کی ان ہزاروں شاموں میں سے ایک شام بن کر مجھ پر اترتی ہے۔ اور میں اس خوشبو کو سانسوں میں بسا کر، پہلی تاریخوں کے ہلال کو دیکھ کر، اپنے رب سے اُس کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہوں۔

بدھ، 4 مئی، 2016

دس منٹ

"اچھا وقت کتنی جلد ختم ہو جاتا ہے نا؟"، اس کے لہجے میں شکوہ نُما سوال چھُپا تھا۔
"وقت بھلا کہاں رُکتا ہے۔" جواباً میری افسوس زدہ سی آواز بلند ہوئی تھی۔
ابھی بسیں چلنے میں کچھ وقت تھا۔ ڈرائیور باہر کھڑے متوقع نظروں سے شرکاء کو دیکھ رہے تھے۔ ابھی اُمید باقی تھی، کہ ابھی وہ لمحہ نہیں آیا۔ کچھ لوگ الوداعی کلمات ادا کر کے سوار ہو چکے تھے۔ اور کچھ ہم جیسے لوگ جیسے کسی معجزے کے منتظر تھے، شاید ہونی ان ہونی ہو جائے۔ یا شاید چند لمحے اور چُرانے کے لالچ میں حقیقت سے آنکھیں چُرا رہے تھے۔
"مجھے فیس بُک پر ایڈ کر لینا یاد سے۔" اس نے تاکیداً کہا۔
"میں جلد ہی تمہارے شہر آؤں گا۔ اپنا شہر گھماؤ گی نا؟" میں نے غیر محسوس انداز میں بات پلٹی۔
"ہاں، ہاں ضرور۔۔۔" اس کی آنکھیں یکدم چمکیں اور آواز میں اُمید کی کھنکھناہٹ در آئی۔
دس منٹ، دس صدیاں تھے یا دس لمحے۔۔۔ گزرنے کا احساس تب ہوا جب ڈرائیور نے سٹیرنگ سنبھال لیا۔ مہلت ختم ہو گئی۔ اب جانا تھا۔ میں نے آخری بار اس کا ہاتھ دبایا۔ آخری مرتبہ نظریں ملیں، ایک دوسرے کے خال و خد جیسے حفظ کرنے کی آخری کوشش ہوئی۔ اور پھر میں کچھ کہے بغیر بس کی جانب پلٹ آیا۔
"اپنا خیال رکھنا۔۔۔" پیچھے سے اُس کی آواز میں لرزاہٹ اُتر آئی تھی، یا میرا وہم تھا۔
"تُم بھی اپنا خیال رکھنا۔۔۔" میں نے مُڑے بغیر کہا۔ اور بس میں سوار ہو گیا۔
میں نے دانستہ دوسری طرف کی نشست چُنی۔ دوبارہ نظر پڑتی تو صبر کا دامن ہاتھ سے چھُوٹ سکتا تھا۔ بس چل پڑی۔
"وہ بھی اپنی منزل کی جانب رواں ہو گئی ہو گی۔" میں نے سوچا۔
اور میرا ہاتھ موبائل سے کھیلنے لگا۔ "فیس بُک پر ایڈ کر لینا۔۔۔"۔ اُس کی ہدایت یاد آئی لیکن میں نے سُنی ان سُنی کر دی۔
اب میرے سامنے تصاویر تھیں۔ کانفرنس کے پہلے دن جب ہم ملے تھے۔ چائے پیتے ہوئے، لنچ کرتے ہوئے، لیکچر سُنتے ہوئے، اور پھر ان تصویروں میں وہ بھی آ شامل ہوئی تھی۔ اگلے دن چائے پر، لنچ پر اور پھر ڈنر پر جب ہم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ اس نے ہاتھ میں سرخ وائن پکڑے جام سے جام ٹکراتے ہوئے مُجھے ٹوکا تھا "میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔" اور میں نے خجل ہو کر دوبارہ سے وہ عمل دوہرایا تھا۔ اُس کی مُسکراتی آنکھیں، جن کا سحر جوان ہوتی رات کے ساتھ ساتھ جوبن پر آتا چلا گیا تھا۔ اور پھر موسیقی کی لے تیز ہوئی تو اس نے مجھے بھی ساتھ کھینچ لیا تھا۔ میری رقص کرنے کی کوشش میں ناکامی پر اس کی رقص سکھانے کی کوشش بھی جب ناکام ہوئی، تو ہمارے مشترکہ قہقہے۔ اور پھر ڈی جے نے جب بھنگڑا میوزک لگایا تو ہر کسی کا مُڑ مُڑ کر میرا ذرا کم لڑکھڑاتا اور اس کا بہت زیادہ لڑکھڑاتا ہوا بھنگڑا دیکھنا۔۔۔اور پھر ہماری نقل کی کوشش کرنا۔۔۔ناکام ہونا اور پھر ہمارا کھِلکھِلانا۔۔۔۔
ان سب یادوں کے کچھ عکس محفوظ تھے۔ جیسے کوئی مووی چلتے چلتے رک گئی ہو اور کلک کرنے پر دوبارہ چل جائے، یونہی لگتا تھا کہ یہ منظر دوبارہ چل پڑے گا۔ میں نے ایک آخری بار اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اور اس کے عکس حذف کر دئیے۔
"کاش کسی طرح اپنی یادوں سے بھی اس کے عکس مٹا سکتا"، میں نے موبائل بند کرتے ہوئے تمنا کی۔
بس آٹو بان پر فراٹے بھرتی میرے شہر کی طرف رواں تھی۔ دھوپ بھرا روشن منظر بس ایک لحظے کے لیے دھندلایا تھا۔ اور "آنکھ میں کُچھ پڑ گیا ہے"، بڑبڑاتے ہوئے میں نے آنکھیں رگڑ ڈالی تھیں۔
---
بابا مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں سے متاثر ہو کر لکھی گئی ایک تحریر۔ کرداروں اور مقامات کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔