tag:blogger.com,1999:blog-37949507508110644442024-03-05T10:38:32.533+05:00آوازِ دوستآپ کے دوست شاکر کی تلخ و شیریں باتیں، تبصرے، تجزیے اور حال دلShakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.comBlogger461125tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-82024656936245438072021-01-25T02:31:00.003+05:002021-01-25T02:33:11.224+05:00مولا توفیق عطا فرما ! <div style="text-align: right;">آج بڑے عرصے بعد آنکھیں بھر آئیں، اپنی حالت پر غور کیا، رب العالمین کی رحمتیں یاد آئیں۔ میں ہمیشہ آزمائشوں سے پناہ مانگا کرتا ہوں، اس نے کسی آزمائش نہیں ڈالا، یہ رحمت یاد آئی۔ اور یہ احساس ہوا کہ توفیق نہیں مل رہی۔ ایک بُک چیپٹر لکھنا ہے۔ کام تو دنیاوی ہے لیکن میرے لیے رزقِ حلال کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بس اس لکھنے کے لیے توفیق نہیں مل رہی۔ آج بس یہی دعا کی ہے کہ مولا توفیق عطا فرما، اپنی رحمتوں میں سے ایک یہ رحمت مجھ سے دور نہ رکھ۔ مولا توفیق نہیں مل رہی، اپنے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا صدقہ یہ رحمت عطا فرما۔ مولا توفیق عطا فرما! </div>Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-8607856713033873862020-08-18T18:22:00.003+05:002020-08-18T18:45:09.439+05:00لفظ، علامت اور معنی<p dir="rtl" style="text-align: right;"> کوئی ایک عشرہ قبل جب ہم نے لسانیات کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو زبان کے بنیادی خواص میں سے ایک کا علم حاصل ہوا۔ آربی ٹریری نیس یعنی آواز/ حروف اور معنی میں رشتے کا بے قاعدہ پن۔ آج ترجمہ کرتے ہوئے ایک لفظ 'اندر' پر نگاہ پڑی تو یہ لفظ انتہائی اجنبی معلوم پڑا۔ اشتقاقیات یا ایٹمالوجی (الفاظ کی تاریخ جاننے) کے علم کی رو سے اس لفظ کے حصے بخرے کر کے مزید ذیلی معنی دریافت کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ 'در' شاید فارسی سے آیا اور جس کا مطلب بھی 'اندر' یا شاید 'دروازہ' ہے۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">لیکن آوازوں یا حروف اور معنی کے درمیان بے قاعدہ رشتے کی خاصیت وہیں رہتی ہے۔ ان دو کے اس رشتے کی اجنبیت بالکل بھی کم نہیں ہوتی، اسے پنجابی میں جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی اور اردو میں زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کہا جا سکتا ہے۔ درحقیقت یہ رشتہ صرف روایت یا کنونشن کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے، یعنی اگر ہمارے آباء و اجداد نے اس کی جگہ کوئی اور لفظ استعمال کر لیا ہوتا تو وہ آج اتنا ہی بامعنی ہوتا اور شاید اتنا ہی اجنبی بھی۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">اس معاملے میں مزید غور کرتے ہوئے آشکار ہوا کہ اگر اردو زبان یا اردو کی مادری زبانوں کے ارتقائی دور میں کسی نے گھوڑے کو پتھر اور پتھر کو گھوڑا کہہ دیا ہوتا اور ہمارے آباء و اجداد نے اس پر اتفاق رائے کر کے اسے روایت یا کنونشن کا درجہ دے دیا ہوتا تو آج کیا صورتحال ہوتی۔ اس حوالے سے ہمارے ذہن میں موجود زبان و بیان اور روزمرہ میں استعمال ہونے والے کچھ جملے آ گئے جن کی ترکیب کچھ یوں ہو جاتی:</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">اس نے گھوڑیلے لہجے میں کہا۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">گھوڑ دل۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">وہ کمال کا پتھر سوار ہے۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">پتھر ہڑبڑا کر سرپٹ بھاگ نکلا۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">مرد اور پتھر کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ان تمام جملوں کو درست کر کے بھی پڑھ لیا جائے لیکن تین چار مرتبہ دہرا کر اور ذرا غور کر کے پڑھا جائے تو۔۔۔ الفاظ یکدم اپنے معنی کے کپڑے اتار کر ننگ دھڑنگ بھاگ نکلتے ہیں۔ اور پیچھے قاری کے منہ پر بے اختیار پنجابی کا ایک روزمرہ جملہ آ جاتا ہے: اے کی بے غیرتی اے وئی۔</p><p dir="rtl" style="text-align: right;">روایت سے یاد آیا کہ انسان کی سماجی زندگی اور اس کے سماج میں موجود ہر علامت کے معنی ایسے ہی متعین ہوتے ہیں جس میں برسوں، عشروں، صدیوں کے اتفاق رائے اور روایت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اور ہوتے ہوتے یہ علامتیں اتنی مقدس ہو جاتی ہیں کہ معنی اور علامت کے اس رشتے کی اٹوٹ اجنبیت پر سوال اٹھانا جرم بن جاتا ہے جس کا داغ خون سے دھو کر بھی دھل نہیں پاتا۔</p>Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-14699621170714778742020-06-16T01:22:00.002+05:002020-06-16T01:23:05.354+05:00ٹِڈ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس ٹِڈ کے بڑھنے نے رسوا کیا مجھے (شاعر + روح یا بدروح سے اور بے وزنی پر معذرت)<br />
<br />
لاک ڈاؤن کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ٹِڈ جسے انگریزی میں ڈھِڈ اور اردو میں پیٹ کہتے ہیں بڑھنے کی لت میں مبتلا ہو گیا، کہ ہم نے ورزش چھوڑے رکھی اور کھانا کھانے میں ہاتھ ہولا رکھنے کی بجائے ذرا زیادہ ہی رکھا۔<br />
<br />
اب حالت یہ ہے کہ جینز پہنو تو اوپر سے ٹِڈ چاروں طرف تین فٹ لینٹر کے سے ناجائز تجاوزات کا منظر پیش کرتا ابل ابل کر بلکہ ڈُل ڈُل کر باہر کو نکل آتا ہے۔<br />
<br />
امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ دوبارہ عرض ہے کہ<br />
ٹ⁰ ٹِڈ اک ایسا دریا ہے<br />
کہ بڑھنا¹ روک² بھی جائے<br />
تو بڑھنا³ بند نہیں ہوتا<br />
مندرجہ بالا کے مصداق، ہم اپنی پوری ٹِل لگا رہے ہیں کہ ٹِڈ<br />
پھر عرض کیا ہے کہ<br />
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے<br />
پہلے ٹِڈی، پھر ٹِڈ اور پھر ٹِڈل ہو گئے<br />
بے وزنی پر ایک مرتبہ پھر معذرت، لیکن کہنا یہ تھا کہ ٹِڈ بس ٹِڈ ہی رہے، اس کام کے لیے بہت زور لگ رہا ہے۔ دوڑ ہر دوسرے دن چار کلومیٹر اور ورزش ہر دوسرے دن (گوگل نے سارے زنانیوں کی ورزش والے اشتہار مجھے دکھانا شروع کیے ہوئے ہیں) جو ٹِڈ کے اطراف ہی گھومتی ہے۔<br />
بس دعا کیجیے، بہت نازک صورتحال ہے، سات جینز کی پینٹیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور پھر نئی بھی لینا پڑیں گی۔<br />
<br />
----------------<br />
<br />
⁰ وزن پورا کرنے کے لیے<br />
<br />
¹ آگے کو<br />
<br />
² وزن کی مجبوری ہے اس لیے رک کی بجائے روک<br />
<br />
³ باقی اطراف کو</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-60655298169336078322018-06-23T20:36:00.001+05:002018-06-23T20:36:50.592+05:00سفر<p dir="rtl">آج پھر ایک سفر سا درپیش ہے۔ ویسے تو ساری زندگی ہی سفرِ مسلسل اور بقول شاعر جبرِ مسلسل سی کوئی چیز ہے۔ خیر آج کا یہ سفر تین ساڑھے تین برس پر محیط پی ایچ ڈی کے سفر میں شامل ایک ننھا سا بونس سفر ہے،صرف پانچ دن، کوئی لگ بھگ چھیانوے گھنٹے، دنیا کے مہذب ترین (اگرچہ اس پر بحث کی جا سکتی ہے) معاشروں اور ترقی یافتہ ترین علاقوں کا سہولیات بھرا سفر، جس میں بیشتر حصہ اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر انتظار کرتے اور گھر جیسے باسہولت کمروں میں قیام کرتے گزرے گا۔ لیکن سفر تو پھر سفر ہے، اس کی ٹینشن، تیاری، تھکن، ایکسائٹمنٹ، لطف وغیرہ وغیرہ ہر سفر کی طرح اس کا حصہ ہے۔ اور میرے جیسا کنٹرول فرِیک اور قنوطی جسے ہر کام بڑے ہی منظّم انداز میں کئی کئی دن قبل کرنے کی عادت ہے، ایسے بے ضرر سے سفر کی ٹینشن اور تھکن بھی کئی دن پیشگی خود پر طاری کر کے ایک طرح کا روحانی سکون محسوس کرتا ہے۔ اس وقت گھر سے نکل کر اسٹیشن پہنچا ہوں۔ تین گھنٹے کا سفر کر کے ایک دوست کے ہاں رات گزاروں گا اور پھر اگلے دن سویرے تڑکے پرواز سے سابقہ وڈی سرکار بلکہ آج بھی تقریباً مائی باپ برطانیہ عظمیٰ کی پرواز ہے۔ مانچسٹر، ساری عمر معاشرتی علوم میں پڑھا کہ میرا شہر فیصل آباد ٹیکسٹائل انڈسٹری کے حوالے سے پاکستان کا مانچسٹر ہے۔ اب اصلی مانچسٹر بھی دیکھ لیا جائے گا۔ <br>
سفر کا مقصد ایک چار روزہ سمر سکول ہے جسے ایک برطانوی یونیورسٹی اللہ واسطے منعقد کر رہی ہے، مع دوپہر کا کھانا۔ اور ہم بسم اللہ کر کے جا رہے ہیں، مقصد شماریات کا کچھ علم حاصل کرنا ہے۔ اللہ کرے اس بوڑھے ہوتے دماغ میں کوئی بات پڑ جائے۔ میری ٹرین آنے میں کوئی دس منٹ باقی ہیں، بس اتنا ہی لکھا جا سکتا تھا۔ <br>
</p>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-51177314430779984172017-11-15T20:30:00.001+05:002018-03-18T16:09:25.019+05:00تحت الشعور سے ابھر کر آنے والی ایک یاد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl">
<div style="text-align: right;">
آج دوپہر قیلولہ کرنے کے لئے لیٹا ہوا تھا تو پتا نہیں کہاں سے ذہن کی عمیق گہرائیوں میں دفن ایک یاد تحت الشعور سے نکل کر شعور کے پردے پر آ براجمان ہوئی. پانچویں جماعت کے بعد والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں قرآن پاک حفظ کروں اور اس کام کے لئے مجھے ایک مدرسہ میں ڈال دیا گیا تھا. کچھ مہینوں کے بعد میرے اندر کے شیطان نے ادھم مچایا تو میں نے مدرسے جانے سے انکار کر دیا تھا اور اس کی پاداش میں تشریف پر گھوڑے ہانکنے والے چھانٹے والی چھڑی سے ٹکور کے ساتھ ساتھ میری چھٹی بھی بند کر دی گئی تھی. چناں چہ مجھے پورا ہفتہ رات اور دن وہیں مدرسے میں گزارنا تھے. رات کو گرمی ہونے کی وجہ سے چار منزلہ مدرسے کی چھت پر زمین پر صفیں یا چٹائیاں اور ان پر گھر سے آیا ہوا بستر جو ایک عدد دری تکیہ اور کھیس وغیرہ پر مشتمل تھا بچھا کر سونا ہوتا تھا. اس یاد کا تعلق شاید اس چھٹی بند ہونے کی پہلی یا کسی اور رات سے ہے. قاری صاحب اور ان کے اہل خانہ بھی طلبہ کے ہمراہ چھت پر سویا کرتے تھے. سونے سے پہلے کبھی کبھار طلبہ پر مہربانی کرکے انہیں کچھ کھانے کے لیے منگوا کر دیا جاتا تھا جسے عرف عام میں پنجابی بچوں کے لئے چیجی اور انگریزی ماڈرن لوگ کینڈی وغیرہ کہتے ہیں. آج اس نیم نیند کی کیفیت میں یاد آگیا کہ اس رات میں مدرسے کی چھت پر حالتِ سزا میں اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹا تو قاری صاحب نے ایک مقیم طالب علم کو بلا کر اسے کچھ روپے تھمائے اور طلبہ کے لیے کون آئسکریم منگوائی. مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ اس میں میرے لیے بھی کچھ حصہ ہو گا. تاہم جب آئسکریم آئی اور سب میں تقسیم ہوئی اور مجھے یکسر نظر انداز کر دیا گیا تو ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کی وہ خِفّت شاید کسی بہت بھاری پتھر سے بندھ کر ذہن کی گہرائیوں میں جا بیٹھی تھی. اور قریباً اٹھارہ برس کے بعد آج اس پتھر سے بندھی رسی کمزور ہوئی تو یہ یاد بھی کہیں دُور گہرائی سے نکل کر سطح پر آ گئی. یہ سب لکھنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ایک یاد کو اس بلاگ پر شیئر کیا <u>جائے</u>. اس کے علاوہ کوئی چھپا ہوا مقصد موجود نہیں ہے یا شاید اس مقصد کو سامنے آنے کے لئے اٹھارہ برس مزید درکار ہوں. </div>
</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-21140043440624600072017-08-07T22:00:00.000+05:002017-08-07T22:00:05.636+05:00ہَمَک<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بچپن میں آٹا فریج میں پڑا خمیرہ ہو جاتا یا والد صاحب کی ناشتے کی ریڑھی سے روٹیاں اور سالن بچ کر آیا ہوتا تو والدہ یا والد صاحب ہی ایسے آٹے کی روٹیاں یا ایسا کھانا کھایا کرتے تھے۔ میں ہر بار نخرہ کر جاتا تھا۔ باسی ہونے کی ہمک مجھے پہلے نوالے سے محسوس ہو جاتی اور کھانا چھوڑ کر اٹھ جاتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آج تربوز کو ایک طرف سے گرنے کی وجہ سے دب لگی دیکھی تو کاٹ کر پھینکنے کی بجائے چکھتے ہوئے والدہ کی بات یاد آ گئی جو وہ میرے منہ بنانے پر کہا کرتیں۔ شاکر تیرا نک ای بڑا اُچا اے۔ اور پھر چکھ کر کہتیں، بڑا سوووہنا ذایقہ اے۔ کچھ ایسی ہی بات والد صاحب کے منہ سے ایسا کھانا کھاتے وقت نکلا کرتی تھی۔ آج مجھے بھی ذایقہ بڑا سوووہنا لگا، اس لیے بظاہر خراب نظر آنے والا تربوز بھی کافی سارا کاٹ کر کھانے کے لیے برتن میں ڈال لیا۔ آج مجھے باسی پن کی ہمک نہ آئی۔ رب جانے کیوں!</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-51405171345041373102017-08-01T12:48:00.001+05:002017-08-01T12:49:19.594+05:00کارپل ٹنل سنڈروم<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
چاچے جاپانی کے گوڈے کا حال پڑھ کر سوچا اپنی بپتا بھی سنائی جائے. بپتا کیا اپنے ہاتھوں سے ہاتھوں کا بیڑہ غرق کیا ہے. پچھلے ڈیڑھ برس میں ماؤس اور کی بورڈ کئی کئی گھنٹے اس طرح استعمال کیا کہ اب ہتھیلی کے درمیان سے گزرنے والی عصب جو تین انگلیوں اور انگوٹھے کو کنٹرول کرتی ہے دب گئی. بیماری کا نام کارپل ٹنل سنڈروم ہے. پہلے انگلیاں سونے لگتی ہیں، پھر سوئیاں چبھنے کا احساس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید ہوتا چلا جاتا ہے، میرا حال یہ ہے کہ اب دو منٹ بھی ٹائپ کر لوں تو انگوٹھے سے اوپر کی طرف درد کی لہر اٹھتی ہے اور جلن کا سا احساس ہوتا ہے. بیماری لمبے عرصے تک برقرار رہے تو مذکورہ حصے کے پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں. ٹائپنگ کُجا اب ڈنڈ پیلنے اور آٹا گوندھنے جیسے کام بھی کچھ عرصے کے لیے چھوڑ دئیے ہیں تا کہ عصب جو کلائی یا رِسٹ مڑنے سے دب جاتی ہے اسے آرام ملے. علاج درد کش گولیاں، کلائی کی حرکات محدود کرنے کے لیے سٹیل کی پٹیوں والا مخصوص دستانہ رات اور دن کو جس قدر ہو سکے پہننا، اور اگر آرام سے فرق نہ پڑے تو ہتھیلی کی ایک سرجری جس سے صحتیابی میں ڈیڑھ مہینہ لگتا ہے لیکن فزیو تھراپی کئی ماہ چلتی ہے.</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-24554190286412829822017-05-13T14:14:00.003+05:002017-05-13T20:42:32.959+05:00کہانیاں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میز نیازی کہتا ہے </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، ہر کام کرنے میں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کچھ ایسا ہی شاید ازل سے میرے ساتھ ہے۔ ہر کام میں دیر ہو جاتی ہے۔ جب سوچنے سمجھنے کی توفیق ہوتی ہے تو معاملہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ جب کام کرنے کا خیال آتا ہے تو وقت باقی نہیں رہا ہوتا۔ جب کسی رستے پر چلنے کی سمجھ آتی ہے تو اُس پر پہرے لگ چُکے ہوتے ہیں۔ اور لکھنا۔۔۔ لکھنا بھی تب سرزد ہوتا ہے جب احساسات وقت کی دھول میں اٹ کر دھول ہو جاتے ہیں، جیسے بارش کے بعد کچی مٹی پر بنے نقش و نگار یا موج گزرنے کے بعد ساحل پر بنے ریت کے گھروندے مِٹ جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ لکھنے میں ہوتا ہے، اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ پیچھے تاثرات کی بجائے ان کے بھُوت باقی رہ جاتے ہیں جنہیں لفظوں کا جا مہ پہنانے پر آسیب زدہ جملے وجود میں آتے ہیں اور ان آسیب زدہ جملوں کے مجموعے پچھلے دس برسوں میں جا بجا اس بلاگ کی زینت بن چکے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایک عرصے سے ارادہ کر رہا ہوں کہ لکھنا ہے، کچھ ہڈ بیتی اور کچھ جگ بیتی پر، خود پر گُزرے سانحات پر، ان لمحات پر لکھنا ہے جب زندگی اتنی اجنبی ہو گئی تھی کہ خوف آتا تھا، اور اس سے بھی پہلے کی کچھ کہانیوں پر کچھ لکھنا ہے۔ کہانیاں جن کے ساتھ تب سے واسطہ ہے کہ اب یادوں کے بھُوت بھی وقت کے اندھیرے میں گُم ہو چکے ہیں۔ پرائمری میں ایک دوست اپنے جیب خرچ میں سے پچاس پچاس پیسے کی عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں لے کر دیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میرے پاس وہ ننھی ننھی کہانیاں درجنوں میں جمع ہو گئی تھیں، لیکن پھر کہاں گئیں؟ اور وہ کہانیاں جو میں چوری کے پیسوں سے خرید کر پڑھا کرتا تھا اور پھر پکڑے جانے کے ڈر سے پھاڑ کر پھینک دیا کرتا تھا۔ اور پھر وہ کہانیاں جو نانا نانی کے ہاں جانے پر ماموں کی بیٹھک سے برآمد ہوتی تھیں نسیم حجازی، عمران سیریز، انسپکٹر جمشید اور حکایت ڈائجسٹ کی شکار کی کہانیاں، جرم و سزا کی کہانیاں، ایمان فروشوں کی کہانیاں۔ اور پھر وہ کہانیاں جب ایک لائبریری سے دوست نے کرائے پر عمران سیریز لینا شروع کی جو ہم اکٹھے پڑھتے تھے، اور پھر جب میں نے خود سے یہ کام شروع کر دیا ، ستر اسی کی دہائی میں ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں دیوتا، مجاہد، اِنکا۔۔۔ ہر مہینے درجن بھر زنانہ اور غیر زنانہ ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں، قدرت اللہ شہاب ، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کی چوکڑی، یوسفی، پطرس، اور اس عہد کے دیگر مزاح نگار، قمر اجنالوی کے تاریخی ناول اور ایم اے راحت کے سلسلے، علیم الحق حقی کے عشق اور اس کی پیروی میں لکھے گئے درجنوں ناول، اور تارڑ کے سفرنامے۔ اور پھر انگریزی سیکھتے ہوئے ایپِک فینٹیسی کی صنف سے تعلق رکھنے والی کہانیاں ہیری پوٹر، وہیل آف ٹائم، کوڈیکس الیرا۔۔۔اور پھر انگریزی فلمیں جن کی تعداد ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میں ہو گی محبت کی کہانیاں، ایڈونچر، ایکشن، سائنس فکشن اور فینٹیسی کی کہانیاں۔۔۔ اتنی کہانیاں ۔۔۔ہر کہانی کی اپنی ایک الگ دنیا، ہر کہانی میں اپنی اپنی زندگی جیتے کردار اور ہر کہانی کو پڑھتے ہوئے، سُنتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے اُن کے ساتھ جیتا اور مرتا ہوا میں۔ یوں لگتا ہے جیسے تیس برس نہیں تیس صدیاں گزر گئی ہیں، جیسے بار بار مر کر جیا ہوں اور جی جی کر مرا ہوں، ہر کہانی کے اتنے دُکھ ہیں کہ اصل زندگی کے دُکھ بھی کسی کہانی کا حصہ لگتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اتنی کہانیاں پڑھیں، اور جب خود کوئی کہانی لکھنی چاہی تو قلم نے یا تو چلنے سے انکار کر دیا یا چلتے چلتے جواب دے گیا۔ رب نے کہانیاں لکھنے والوں کو پتہ نہیں کیا خاص دے رکھا ہوتا ہے جو میرے جیسے معذوروں کے پاس نہیں ہوتا۔ کیسے ایسا سوچ لیتے ہیں، کیسے ایسا لکھ لیتے ہیں کہ ان کے کرداروں کے ساتھ قاری بھی جیتا اور مرتا ہے۔ ایک عرصے تک یہ زُعم رہا کہ شاید کہانیاں پڑھ پڑھ کر اور دیکھ دیکھ کر میری بھی ایسی تربیت ہو جائے، جیسی آ ج کل مشینی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس ) کے میدان میں گوگل، ایمازون اور اس جیسی کئی کمپنیاں کر رہی ہیں۔ جیسے میں ڈیپ لرننگ کا ایک الگورتھم ہوں جسے ہزاروں کہانیاں پڑھوائی جائیں اور پھر وہ خود کہانی کار ہو جائے۔ ایک عرصے تک یہی امّید رہی کہ شاید میرا ڈیپ لرننگ کا الگورتھم اس قابل ہو جائے گا۔ لیکن شاید ایسا کبھی نہ ہو سکے۔ میرے ہارڈوئیر اور سافٹ ویئر کو بنانے والے نے کچھ ایسے بنایا ہے کہ ٹریننگ ڈیٹا جتنا مرضی مل جائے اُس کی بنیاد پر پیٹرن تلاش کرنے کی اور پھر اس پیٹرن کو استعمال کر کے باز تخلیق کی صلاحیت عنقا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تو کہانی کار ہونے کا متمنی ایک کہانیاں پڑھنے والا اس کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح چند سو الفاظ کی تحریریں لکھتا چلا جائے۔ جن میں کوئی چسکا نہیں، کوئی سیاست، معاشرت، مذہب نہیں، کوئی ردعمل ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ نہیں، بس سات ارب انسانوں کی دنیا میں بسنے والے ایک اکلوتے انسان کی بالائی منزل پر اُٹھنے والے نادیدہ طوفانوں کی سرگزشت ہوتی ہے۔ جس میں سوائے لکھنے والے کے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ علمِ سماجیات انسانوں کے باہمی تعلق، اور معاشرت کو، انسانوں کے مجموعے کو موضوع بناتا ہے۔ اور علمِ نفسیات فرد کو موضوع بناتا ہے۔ تو شاید یہ تحریریں بھی جو انسانوں کے مجموعے کے لیے تو شاید بے کار ہوں، لیکن کسی فرد کے حالات سے مماثل ہوں۔ شاید میری طرح کہانیوں کا ڈسا، اور کہانیاں نہ کہہ سکنے کے ازلی دُکھ کا شکار کوئی اور بھی یہاں موجود ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-52990337090300960362017-04-15T03:03:00.000+05:002017-04-15T03:03:40.922+05:00گزارش<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میرے سامنے کچھ تصویریں ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایک سوختہ انسانوں کی ہے, نیچے کچھ لکھا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کچلے جسموں والے دو کمسن بچوں کی تصویریں ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اور ایک بے لباس لاشہ ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اور پھر جملے ہیں۔ چھوٹی بڑی طوالت کے لاتعداد جملے ۔ اگر مگر کرتے جملے، ثابت کرتے اور رد کرتے جملے، دھمکی دیتے اور شرم دلاتے جملے ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اور پھر میں ہوں، خالی الذہن، اس سب کی فہم و تشریح سے قاصر۔ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر۔ تصویروں، جملوں اور تبصروں میں پیش کردہ نتائج کو قبول یا رد کرنے سے قاصر۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس سب میں ایک نام، ہاں ایک نام بار بار آتا ہے، اور اس نام پر میرے اندر تک ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میرے نبی جی ﷺ کا نام آتا ہے۔ جب اُن ﷺ کا نام آتا ہے تو میرے لب اللہم صل علی محمد و اٰل و اصحابِ محمد میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بس اس سب میں ایک یہ وقفہ ہے جب مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بس جب ان ﷺ کا نام آتا ہے۔ تو لبوں سے اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد، و علی اٰل و اصحاب سیدنا و مولانا محمدنکلتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لرزتے لبوں سے اس سے آگے کچھ نہیں کہا جاتا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس کے علاوہ کچھ نہیں سُوجھتا، یوں جیسے چار دیواری ہے اور میں اس میں مقیّد۔ عجب بے بسی ہے ، عجب بے کسی ہے، عجب تنہائی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اپنی کھڑی کی گئی دیواروں کا قیدی ہوں، نیلی چھتری والے کا شکر ہے کہ ا س نے رحمت اللعالمین ﷺ کی صورت میں اپنی رحمت سے نواز رکھا ہے۔ بس انہیں ﷺ کا آسرا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انہیں ﷺ کے آگے عرض گزاری ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولاﷺ آپ کی گلیوں کے کُتے بھی مجھ سے افضل۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ یہ رذیل، کمینہ، یہ گھٹیا آپ کی اُمت میں سب سے کمزور ایمان ۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولاﷺ آپ کے آگے عرض گزار۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولاﷺ صبر ختم ہونے لگا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر ۔۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر کیا کیا کچھ کرنے لگی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ آپ کے عاشق۔۔۔۔۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولاﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ اپنے کرم کی نظر کیجیے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں۔۔۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولاﷺ آپ کے سوا کون ہے۔۔۔۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ نیلی چھتری والے سے سفارش کیجیے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے آقا و مولا ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے مائی باپ ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-66033189881673682592017-04-10T02:13:00.000+05:002017-04-10T03:09:51.208+05:00پیار کا آخری شہر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زمانہ حاضر کےمارکو پولو، البیرونی لیکن عموماً ال اندرونی (یعنی بیشتر وقت کمرے میں رہنے والی مخلوق یعنی ہم) نے اپنے ملک کے عظیم سیّاح، لکھاری اور دانشور جناب بابا مستنصر حسین تارڑ جٹ کی اقتداء میں یورپ کی سیاحت، جہاں گردی وغیرہ وغیرہ کا ارادہ فرمایا تو اس مرتبہ نظرِ انتخاب پیرس پر اور طلبہ کے "تفریحی" دوروں کا بندوبست کرنے والی ایک ایجنسی پر پڑی۔ مابدولت نے پاکستانیوں کی آفاقی عادت کے عین مطابق کچھ احباب کو بھی ساتھ گھسیٹ لیا تاکہ ہم پھنسیں تو ان کے پیچ بھی کسیں۔ اگر شومئی قسمت انجوائے منٹ کا ایک آدھ کلو ان کی قسمت میں آ جائے تو اس میں حصہ داری کر کے ہر ممکن حد تک ورچوئل "شریک" (یہاں ابرار کا گانا شریکاں نوں اگ لگدی گنگنانے سے معنی و معرفت کے نئے جہان کھلنے کا امکان پایا جاتا ہے) ہونے کا ثبوت دیا جا سکے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایک دوست (جو سیانے واقع ہوئے ہیں) عین موقع پر ود ڈرا کر گئے چنانچہ بقیہ آوارہ گردانِ ملت نے سفر جاری رکھا اور بھاگم بھاگ بس پکڑی جس نے علی الصبح انہیں پیرس ڈیلیور کرنا تھا۔ تو جناب سفر شروع ہوا، اور جیسا کہ ہر سفر کے شروع میں ہوتا ہے، کئی ماہ کی جمع شدہ باتوں کی ٹنکی سے پانی دھڑا دھڑ بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ نل پر چشمے کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ نل واسا کا نل بن جاتا ہے، تھکن اور نیند غلبہ پا لیتی ہے، تو ایسے ہی یہ سفر بھی شروع ہوا۔ جرمنی سے بیلجیئم اور پھر فرانس میں صبح سویرے ایک نخلستان (یہاں پٹرول پمپ پڑھا جائے) میں چہرے کی مرمت اور دیگر متعلقہ امور کی انجام دہی کے بعد دونوں بسوں نے صبح ساڑھے سات بجے "مال" آئفل ٹاور پر لا پھینکا۔ اور پھر حسبِ رواج عوام نے چڑھتے سورج کی مخالف سمت میں انھّے وا کالی تصاویر بنائیں جن میں ازقسم سیلفی، ویلفی، اکلوتی، گروپی اور کہیں کہیں آئفل ٹاور اور اس کے اطراف کو بھی شرفِ عکس بندی سے نوازا گیا تھا۔ اور آخر میں آئفل ٹاور کی قدم بوسی کی نشانی کے طور پر وہاں سے کچھ بچہ آئفل ٹاور خریدے گئے جن میں چابیاں ڈال کر آئندہ زندگی آئفل ٹاور کی یاد میں گزاری جائے گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تصاویر بنانے کی آدھ گھنٹے کی رخصت کے بعد "بچوں "کو دوبارہ بسوں میں ٹھونس کر پیرس کا مفت ٹور کروایا گیا۔ ساتھ ناشتے کے نام پر دو دو سانپ نما ڈبل روٹیاں پیش کی گئیں جن کے بعد عوام کا عام خیال پیرس کی بجائے نیند کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا۔ فرنچ جرمن خاتون گائیڈ کی انگریزی اور کہیں کہیں زبردستی گھُس آنے والی جرمن کبھی کبھی ناشتے کے خمار جو ناشتے سے زیادہ رات بھر کی تھکن کا کمال تھا، کو چیرتی ہوئی کانوں میں گھُس جاتی۔ ایسی ہی ایک ٹِپ "پِٹّی پےَلی" (چھوٹا محل) کا تعارف تھا، جہاں خاتون کے بقول کوئی مفت نمائش وغیرہ لگی ہوئی تھی یا لگی رہتی تھی۔ چنانچہ جہاں جہاں جس جس کو جو جو کچھ یاد رہا سب نے ذہنی نوٹس بنا لیے تاکہ بس سے اُتر کر دماغ کونیند کے چنگل سے چھڑانے کے لیے کچھ لالی پاپ ملے رہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے نیند آور ٹور، اندرونِ شہر پیرس کے چند کلومیٹر کے علاقے میں کئی ایک چکروں، دریائے سَین کے متعدد نظاروں اور پُلوں، اگلے دن ہونے والی پیرس میراتھن ریس کے درجنوں تذکروں اور کچھیاں پہنے بابے بابیوں کو دوڑ کی تیاری میں سویرے سویرے سڑکوں پر ہانپتے دیکھنے کے دوران ہی کسی وقت ٹور ختم ہو گیا۔ ہمیں نقشے اور رہنما کتابچے پکڑائے گئے اور رات ساڑھے گیارہ اسی جگہ دوبارہ جمع ہونے کی تلقین کر کے خداوندانِ ٹور نے بسیں خالی کروا لیں۔ اس کے بعد غریب الوطن تھے، اور غریب الوطنوں جیسے ہزارہا اور سیاح جن پر آج کے دن ان سڑکوں پر رُلنا اور ان دیواروں سڑکوں درختوں مجسموں پُلوں اور از قسم دیگر "وں" کا نظارہ فرض کر دیا گیا تھا۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ابتدائی فوٹو گرافی کا شوق پورا ہو چکا تھا۔ آئفل ٹاور جو تصویروں میں کسی مسجد کے مینار جتنا ہی لگتا ہے قریب سے دیکھنے پر دیو قامت عمارات کا کزن ثابت ہو کر ہم پر رعب جما چکا تھا، لیکن اب نکوٹین کی طلب اور دیگر جسمانی ضرورتیں پوری کرنے کا تقاضا ان احساسات کو بُلڈوز کر رہا تھا۔ چنانچہ کسی ریستوران کی تلاش شروع ہوئی جہاں ترجیحاً بیت الخلاء کا فرانسیسی ورژن دستیاب ہوتا، کچھ پوچھ تاچھ کے بعد ایک ڈرگ سٹور سے مساوی داموں میں کافی پینے اور پہلے سے نوش کردہ مائعات نکالنے کا اہتمام کیا گیا اور پھر خاتون گائیڈ کے مشوروں کی روشنی میں اگلا لائحہ عمل طے کیا گیا، خلاصہ جس کا یوں تھا کہ چلا جائے اور چلتے رہا جائے۔ تو پھر چلنا شروع ہوا، تصویر کشی جاری رہی۔ محرابِ فتح سے شانزے لیزے پر چلتے چلتے پیرس کے نظاروں سے آنکھیں گرم ٹھنڈی کرتے ہم، جو آوارہ گرد ہونے کے شدّت سے خواہشمند تھے، اور ہم جیسے ہزاروں جو کچھ ایسی ہی خواہشات رکھتے تھے، اور ان کے درمیان پیرس والے جوہر دو سے بے نیاز اپنے کام نمٹا رہے تھے۔ چلتے چلتے نِکّا محل آ گیا جہاں گائیڈ کے مطابق مُفت بری کی جا سکتی تھی، تو اکثریت رائے سے نمائش دیکھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ سیکیورٹی سے گزر کر معلوم ہوا کہ نمائش مفت نہیں، یا یہ جگہ پِٹّی پے لی نہیں، خیر وجہ جو کچھ بھی ہو چار حرف بھیج کر پرانا کام یعنی چلنا پھر سے شروع کیا گیا۔ اور چلتے چلتے بالآخر شانزے لیزے کو رحم آ گیا، کہ بائیں طرف کچھ باغات سے نظر آئے جہاں بنچ لگے تھے اور دھوپ تھی اور آرام کا موقع تھا، تو عوام نے یا تھکن نے یا فریاد کُناں ٹانگوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کھایا جائے۔ چنانچہ معروف ریستورانوں کے جھرمٹ میں سامنے پبلک بنچ پر بیٹھ کر گھر سے پکا کر لایا گیا چکن پکوڑا کھایا گیا اور فیس بُک پر شریکوں کو ساڑنے کے لیے قُرعہ اندازی سے ایک ریستوران کو "چیک اِن" کے لیے چُنا گیا۔ لنچ ختم ہونا تھا ہو گیا، دن البتہ وہیں تھا اور پیرس بھی باقی تھا، چنانچہ پھِر سےسڑکیں تھیں اور ان پر کچھ تردد سے چلتی ٹانگیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جاری ہے۔۔۔۔۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-69117042376087962122017-02-02T23:41:00.000+05:002017-02-03T00:30:57.046+05:00ایک خواہش<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ وسطی پنجاب کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں سے ہم باہر نکل رہے ہیں۔ نہر کا پُل پار کرتے ہی بائیں طرف کو ایک سڑک مُڑتی ہے۔ چھ سات فٹ چوڑی یہ سڑک جو پچھلی سے پچھلی سرکار نے بنا کر دی تھی اب عمر کے اس حصے میں ہے کہ ہموار چلتے چلتے اچانک غوطہ کھا جاتی ہے۔ کہیں سے تارکول اور بجری اڑ گئی ہے، کہیں سے پتھر بھی داغِ مفارقت دے گیا ہے اور وہاں ایک گھاؤ منہ پھاڑے اپنے شکار کا منتظر ہے۔ اور اگر سڑک سے بے وفائی کر کے کچے میں نہ اترا جائے تو اس کی بوڑھی ہڈیوں کا درد جیسے سواری سے ہوتا ہوا سوار کے اندر تک اترتا چلا جاتا ہے۔ کچھ دیر نہر کے ساتھ چلنے کے بعد سڑک دائیں مڑ کر اس سے جدا ہو جاتی ہے۔ دونوں جانب کھیت ہیں اور بیچ میں یہ ادھڑی ہوئی پٹی جس پر سواری چلتی جاتی ہے۔ کچھ دور جا کر یہ ٹکڑا ختم ہوتا ہے تو ایک نسبتاً نیا ٹکڑا شروع ہو جاتا ہے جو موجودہ صوبائی سرکار کے ازحد کرم کا نتیجہ ہے۔ سواری کچھ تیز ہوتی ہے اور پھر پنجاب کے دیہی علاقوں کا منظر ابھرنے لگتا ہے۔ درمیان سے گزرتی سڑک، ایک جانب اسکول، دوسری جانب دوکانیں اور پنجاب کی مٹی کے رنگ جیسے گندمی لوگ، جنہیں اب ایسی سواریاں دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ کچھ برس پہلے تک جہاں فصلیں تھیں اب وہاں کچی گلیاں اور پکی اینٹوں سے اٹھائی کچی دیواروں کے مکان کھڑے ہیں۔ یہ مکان بھی لیکن کچھ دیر بعد ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور کھیت منظر میں واپس چلے آتے ہیں۔ سڑک چلتی جاتی ہے اور سڑک کے ساتھ سواری اور سوار، اور پھر چلتے چلتے کچھ کہے سنے بغیر وہ سڑک کو چھوڑ کر ایک اور دیہے کی جانب مُڑجاتے ہیں۔ سڑک کو شاید ایسی الوداعی ملاقاتوں کی اب عادت ہو گئی ہے، وہ کچھ کہے بغیر آگے بڑھ جاتی ہے اور سوار پکی اینٹوں والی کچی گلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ سواری رکتی ہے، اور سوار اتر تے ہیں۔ تیس کے قریب پہنچتی عمر کے دو جوان اور بڑھاپے کی دہلیز میں داخل ہو چکی ایک خاتون۔ پکی اینٹوں لیکن گارے کی کچی دیواروں سے بنے مکان کا دروازہ کھلتا ہے اور ہم اندر داخل ہوتے ہیں۔ ایک طویل گلی ہے، جس کے بعد ایک مختصر سا کچا قطعہ اور پھر پکی اینٹوں کا فرش ہے۔ ایک طرف بیری کا درخت چھاؤں کیے ہے دوسری طرف بوڑھی کنیر کا پھولدار درخت ہے۔ اور ان کی چھاؤں میں ایک ہڈیوں بھرا وجود، جس میں آنے والوں کو دیکھ کر جیسے زندگی بھر گئی ہے، دئیے کی سی ٹمٹماتی آنکھوں میں روشنی جاگ اٹھی ہے ، چارپائی سے اٹھنے کے لیے کوشاں ہے۔ اپنی بیٹی کے بیٹوں کو پیار دیتا ہوا ، اپنی بیٹی سے ملتا ہوا یہ وجود میری نانی اماں، میری ماں کی ماں جن کے توانائی بھرے، متحرک وجود کی یادیں میرے ذہن کی تختی پر کندہ ہیں، اور آج ان کا وجود کتنا اجنبی ہو گیا ہے۔ جیسے اصل کا صرف سایہ باقی رہ گیا ہو۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بیس برس پیچھے چلتے ہیں۔ وہی مکان ہے، ویسی ہی لمبی گلی ہے، صحن ابھی کچا ہے، تین کمروں کے سامنے ابھی برآمدہ تعمیر نہیں ہوا، کنیر ہے لیکن بیری ابھی نہیں ہے، ایک سایہ دار دھریک کا درخت گرمیوں کی اس شام اندھیرے میں سیاہ وجود سمیت کھڑا ہے۔ کچے صحن میں چارپائیاں بچھی ہیں اور ایک طرف ایک بوڑھا وجود لیٹا ہے۔ اور اس کے قریب چند جوان مرد اور بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی ایک خاتون، اس سے محوِ کلام ہیں۔ بوڑھا وجود میری والدہ کی دادی اور ان کی بیٹی اور ان کے بچے، جنہیں دیکھ کر اس بوڑھے کی وجود کی آنکھوں میں بھی روشنی اترتی ہو گی، جن کے قدموں کی چاپ پر وہ بھی اٹھ بیٹھنے کو بے تاب ہوتی ہوں گی، جن کے چلتے پھرتے، متحرک اور توانائی بھرے وجود کی یادیں ان جوان بچوں کے ذہنوں میں بھی نقش ہوں گی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
حال میں واپس آتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایک تصویر زیرِ گردش ہے، ایک بوڑھا وجود، چارپائی پر غربت اور پیرانہ سالی کی چادر تلے چھپے ایک اور بوڑھے وجود کے ہمراہ ہے۔ ایک اور تصویر میں وہ اسے کھینچتا ہوا لے جا رہا ہے۔ کسی نے یہ تصویر شیئر کر رکھی ہے، کسی نے اس کے نیچے سرکار کو گالیاں لکھ رکھی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تین منظر ہیں، لیکن کردار یکساں ہیں پیرانہ سالی، دکھ، بے کسی، لاچاری، محتاجی۔ کہیں یہ لاچاری اولاد نے کچھ سنبھال رکھی ہے کہیں ہسپتالوں اور سڑکوں پر رُل رہی ہے۔ اور دیکھنے والی آنکھ جب یہ سب کچھ دیکھتی ہے تو پالنے والے سے اپنے اور ان کے لیے پناہ اور رحم مانگتی ہے۔ ان کے آخری دن آسان کرنے کی دعا مانگتی ہے۔ کریم نے اپنے آخری نبی ﷺ کو یہ دن دیکھنے سے پہلے اپنے پاس بلا لیا، بڑھاپے کی لاچاری سے محفوظ رکھا۔ لیکن جو بوڑھے ہو جاتے ہیں وہ اپنی جان تو نہیں لے سکتے۔ انہیں تو لکھی ہوئی زندگی گزارنا ہے۔ یہ زندگی کیسے گزرے گی، ترس ترس اور سسک سسک کر یا کچھ آسانی کے ساتھ، آج حضرتِ انسان کو ٹیکنالوجی اور ایجادات نے جو سہولیات مہیا کر دی ہیں ان کے استعمال سے یا چارپائی پر پڑے اولاد یا سرکار کی طرف دیکھتے ہوئے، معذوری کی حالت میں۔ چند دن قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ جرمن آمر ہٹلر کے پراپیگنڈہ وزیر گوئبلز کی سیکرٹری 106 برس کی عمر میں انتقال کر گئی۔ یہ مائی اتنا عرصہ جی، سوال اٹھا کہ کیا ایسے ہی جی ہو گی جیسے میرے وطن میں بزرگ جیتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ جرمنی اور جاپان جیسے ممالک میں بزرگوں کو یقیناً ایسی سہولیات حاصل ہیں کہ ان کی آخری عمر ہر ممکن حد تک آرام دہ گزرتی ہے۔ لیکن میرا ملک تو جوان اور بچوں کی صحت کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے، کُجا بزرگ۔ کوئی گلہ شکوہ شکایت نہیں ہے، کوئی تجویز مشورہ حل بھی نہیں ہے۔ بس ایک خواہش ہے، کاش کہ رب اتنی توفیق دے دے، کہ ان بزرگوں کی بہتری کے لیے کچھ کیا جا سکے۔ کاش کوئی ایسا سلسلہ بن جائے کہ ان کی زندگیوں کو آرام دہ بنایا جا سکے۔ بس ایک خواہش ہے۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-1394363980887833322017-01-04T03:51:00.001+05:002017-01-04T13:35:34.854+05:00بلاگیات، چلغوزیات اور باہمی دلچسپی کے کچھ دیگر امور<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تو بات بلاگنگ کی ہو رہی تھی۔ بات کیا ہو رہی تھی کچھ احباب نے اس پر جاندار تبصرے فرمائے، کچھ ارشادات ادھر اُدھر سے آئے، کسی نے بلاگنگ کو فوت فرمایا، کسی نے فوت شدہ کو دوبارہ قبر سے نکال کر کھڑا کیا اور کسی نے بلاگروں کے حالات پر سیرِ حاصل گفتگو فرمائی۔ تو عرض ہے کہ فدوی بھی عرصہ (دور) دراز سے ایک عدد بلاگ رکھتا ہے اور اس پر کبھی کبھار ایک آدھ پوسٹ کا اضافہ کر کے اپنا نام شہیدوں (یہاں بلاگروں پڑھا جائے) میں شامل کروانے کا خواہشمند رہتا ہے۔ تو فدوی نے بھی اس پُر فِتن دور میں کہ جب بلاگنگ پر آزمائش و ابتلا کا نزول جاری ہے، کچھ کہنے کے لیے مائیکروسافٹ ورڈ (2016 ورژن ہے ویسے میرے پاس) کے کچھ صفحات سیاہ کیے ہیں۔<br />
<br />
تو جناب بلاگنگ کے نباضوں کا کہنا ہے کہ اردو بلاگنگ (پیچھے جہاں جہاں بلاگنگ لکھا ہے اسے بھی اردو بلاگنگ پڑھ لیجیے، اگر نہیں پڑھا تو اب جا کر پڑھ لیں صرف ایک پیراگراف تو ہے، تب تک میں یہ پیرا گراف مکمل کر لوں۔۔)ایک انجمن ستائشِ باہمی والوں کا گروہ تھا جو ایک نِکّے یعنی چھوٹے گروہ سے ایک وڈّے یعنی بڑے گروہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ تو ہم نباضوں کے اس ارشاد (مس عالیہ کہہ نہیں سکتے مسٹر کہے لیتے ہیں تو مسٹر) عالیہ سے پانچ سات سو (یا جتنے سو آپ کو مناسب لگیں) فیصد متفق ہیں۔ اگر ہم متفق ہیں تو آپ کا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ اس کے لیے اگلے پیرا گراف میں تشریف لائیں۔ یہیں نیچے بھائی، اس کے ساتھ ہی لکھا ہے۔<br />
<br />
ہاں جی یہاں۔ تو ہم نے کچھ اپنی عرض بھی کرنا تھی۔ تو عرض یہ ہے کہ ایک عرصہ ہوا ہم بھی وہی کچھ اپنے یک صفحاتی بلاگ پر کرتے تھے جو آج لوگ ان پورٹلز پر کرتے ہیں۔ (کون سے پورٹل؟ بھولے بادشاہو یہی میڈیا کے وڈّے اور فیس بکی لکھاریوں کی زیرِ سرپرستی چلنے والے پورٹل)۔ تو لوگ کیا کرتے ہیں؟ اس کے لیے وڈّے بزرگوں نے کہا تھا چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ فیس بک پر چند ہزار لوگوں کا ایک آئینہ خانہ وجود میں آ چکا ہے جہاں ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں ناز و انداز دکھاتا ہے۔ ان ناز و انداز کو دیکھ کر کسی کے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے اکثر اوقات آپ اسے ان پورٹلز پر مضامین (یعنی بلاگز) کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک جگہ عرض کیا تھا کہ ارشادات، جوابی ارشادات، یعنی عمل اور ردعمل کی ایک دنیا ہے۔ دو دو پیرا گراف کی تحاریر ہیں، کچھ اچھی ہیں کچھ بری ہیں، کچھ سے عطر کی سی خوشبو آتی ہے کچھ سے قے کی سی بدبو آتی ہے، تو یہ سب کچھ ان پورٹلز پر چلتا ہے جسے اردو بلاگنگ کے نباض اردو بلاگنگ کا مستقبل قرار دیتے ہیں۔ ہم جب یہی کچھ کرتے تھے تو دیکھنے سننے پڑھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا، ہمارا شیش محل ہی ایک کمرے کا تھا (غریب کا مکان ایک کمرہ وہیں کچن وہیں بیڈ روم اور ساتھ بکری کی رہائش کا بندوبست بھی، گھٹیا سٹیج ڈرامے والی مثال ہے ناں، تو جو زبان پر آئے اسے لکھنے کو ہی تو بلاگنگ کہتے ہیں، یعنی ہور چُوپو تحریر چھوڑ کر تشریف لے جائیں ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے) تو بقیہ ماندہ قارئین کے لیے، عرض تھی کہ ہمارا شیش محل یک کمرہ جاتی تھا، موجودہ شیش محل کے پانچ سو کمرے ہیں اور ہر کمرے میں ایک الگ مہاراجہ /مہارانی نے اپنا دربار سجا رکھا ہے۔ کسی نے چلغوزے لگائے ہوئے ہیں، کسی نے ۔۔۔ چلیں چھوڑیں۔ یہ چلغوزے بھی ایسے ہی ہمارے دماغ میں آ گئے۔ اور چلغوزوں سے یاد آیا کہ بس یہی اردو کی خدمت ہے کہ ہر روز ایک نیا کٹا کھلا ہوتا ہے۔ اور اس پر باں باں کرتی اور سینگیں لڑاتی بھیڈیں جنہیں اردو میں بھیڑیں کہا جاتا ہے یعنی اس ترقی یافتہ دور کے اردو لکھاری (جمع مفتی، ناصح، ملحد، اسلام پسند، ترقی پسند، رجعت پسند، مارکسسٹ، سوشلسٹ، عظیم، عجیب، غریب، بے تکے، بے ڈھنگے۔۔۔) یعنی بلاگر ۔ آپ کو ہر روز ایک نیا تماشہ دیکھنے کو ملتا ہے، ایسا ہی تماشہ جیسے ہمارے بچپن میں مداری نے ریل کے پھاٹک کے ساتھ خالی جگہ پر لگا رکھا ہوتا تھا۔<br />
<br />
تو عرض یہ کہ اگر اب ہم نے بلا وجہ سات سو (ورڈ ویسے سات سو چوبیس بتا رہا ہے) الفاظ لکھ مارے ہیں، تو ہم سے بہتر اور لائق لوگ کیا قیامت نہ ڈھاتے ہوں گے۔ ہماری مجبوری بس یہ ہو گئی ہے کہ سینگ تڑوائے ایک عرصہ ہو گیا۔ جب جب لکھنے والوں کو پڑھا تو پتا چلا کہ پڑھیں تو اچھا لکھا جا تا ہے، اب یہ حال ہے کہ نہ پڑھیں نہ لکھ سکیں۔ اور فیس بک کے اس آئینہ خانے میں سچ پوچھیں تو اتنے لوگ روڑے اٹھائے پھرنے لگے ہیں کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کوئی ہمیں ہی نہ (کڈھ ) مارے۔ تو اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے بھائی، ہم ردعمل میں کچھ نہیں لکھتے، ہم بغیر پڑھے بھی کچھ نہیں لکھتے، ہم کسی مذہبی ، غیر مذہبی، سیاسی ، غیر سیاسی موضوع پر بھی کچھ نہیں لکھتے کہ ابھی ہمارے بچے بھی اللہ میاں کے پاس ہیں اور ہمارا سنگسار ہونے کا قطعی موڈ نہیں ہے، اور ہمارے مامے کا کوئی پُتر کوئی وڈی ویب سائٹ بھی نہیں چلاتا کہ ہماری ہر ڈیڑھ پیرے کی تحریر جھٹ سے شائع کر دے۔ اس لیے ہم آج بھی اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں، کوئی پڑھے تو اس کا بھلا، کوئی نہ پڑھے تو اس کا بھی بھلا ۔ مولا خوش رکھے۔ کبھی کبھار برسوں میں ایک تحریر افادۂ عام والی سرزد ہو جائے تو پہلے کسی رسالے میگزین کو ارسال ہو جاتی تھی اب ان آنلائن ویب سائٹوں کو بھیج دیتے ہیں۔ کوئی شائع کر دے تو مولا خوش رکھے ، اس کے بچوں کے بچوں کے بچوں کی بھی خیر کرے، نہ شائع کرے تو ہمارا بلاگ تو ہے ہی، ہم وہیں شائع کر کے اپنا لکھاریانہ سٹیٹس برقرار رکھتے ہیں، اور پھولے نہیں سماتے۔ تو جناب ہم ایک بلاگر ہیں، بہت پرانے ، پڑے پڑے ٹھُس ہو چکے ہیں لیکن کبھی کبھی راکھ میں سے چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں اس بے تُکی تحریر پر تین مجازی صفحے سیاہ کیے اور دو چار لوگوں کا وقت برباد کیا ہی ہو گا۔<br />
<br />
[اگر آپ نے یہاں تک اس تحریر کو پڑھا ہے تو آپ کی عظمت کو اکتالیس توپوں کی ورچوئل سلامی۔ لگتا ہے آپ کے پاس بھی ہماری طرح کوئی اور چنگا کام نہیں تھا۔]</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-6916834082963288372016-12-31T01:38:00.000+05:002016-12-31T01:38:09.189+05:00دعا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے میرے رب</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے بزرگ تر</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے سب سے زیادہ عزت والے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے عزت دینے والے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے ذلتوں سے بچانے والے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے پردہ رکھنے والے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے ارحم الراحمین</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے رحمان</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں قعرِ مذلت کی گھاٹیوں میں پڑا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں ذلتوں میں لُتھڑا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں قلب و رُو سیاہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں گناہوں میں پھنسا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیری رحمت کا طلبگار</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیری آزمائشوں سے پناہ کا طالب</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیری ستّاری کا بھکاری</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیرے در پہ بیٹھا</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیرے حبیب ﷺ کے صدقے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیرے سخی حبیب ﷺ کے صدقے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تجھے تیری عزت، جبروت، سخاوت، بزرگی اور ستّاری کا واسطہ دے کر</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیری رحمت کا طلبگار ہوں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیری عطاء کا بھوکا ہوں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تیری نظرِ کرم کا منتظر ہوں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے میرے مالک</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مجھ پر اپنے فضل و کرم کا سایہ رکھیو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میری خطاؤں پر پردہ رکھیو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مجھے آزمائشوں سے بچائے رکھیو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مجھے علمِ نافع عطاء کیجیو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مجھے رزقِ حلال کی توفیق دیجیو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اے عزت والے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اپنے عزت والے نبی ﷺ کے صدقے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میری عزت کو کم ظرفوں سے اپنی امان میں رکھیو</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آمین یا رب العالمین</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-70301680747048079182016-12-08T01:53:00.001+05:002016-12-08T01:53:47.980+05:00تھوڑ دِلا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ممتاز مفتی کہتا ہے کہ رب جی سے یاری لگا لو۔ رات سونے لگو تو ساری باتیں رب جی کو سنا کر، دل کا بوجھ ہلکا کر کے سویا کرو۔ میری خوش قسمتی یا بدقسمتی کہ کوئی آٹھ دس برس پہلے مفتی کو پڑھ لیا۔ اور اس کے دئیے گئے اس سبق کو بھی دل پر لے لیا۔ اور اب رب جی کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔ رب جی سے سب کہہ دیتا ہوں۔ سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، اکیلے یا محفل میں رب جی سے باتیں جاری رہتی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پنجابی میں تھوڑ دِلا کہتے ہیں، ایسا شخص جس کا دِل بہت تھوڑا سا ہو۔ مطلب تو اس کا شاید یہ ہے کہ تھوڑ دِلا دوسروں کے ساتھ کچھ بانٹنے سے بھاگتا ہے۔ شاید کچھ مطلب یہ بھی ہے کہ تھوڑ دِلا زود غم اور زود حس ہوتا ہے۔ ذرا سی بات پر دل دھڑک اٹھتا ہے کہ کچھ ہو گیا۔ اور یہ کچھ اکثر بُرا والا کچھ ہوتا ہے، اچھا والا نہیں۔ تو میں اس قسم کا تھوڑ دِلا ہوں۔ ہر بات پر بِدک جاتا ہوں، ہر آہٹ پر تریہہ جاتا ہوں اور خاموشی بھی کسی طوفان کا پیش خیمہ زیادہ اور سکون کی علامت کم لگتی ہے۔ میرے جیسا تھوڑ دِلا پھر اور کس کے در پر جا سوال کرے گا؟ بس رب جی کے آگے دستِ سوال دراز کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
رب جی کے ساتھ یاری بڑا اوکھا کام ہے جی۔ میرے جیسے منافقوں کی یاری بھی مطلب کی یاری ہوتی ہے۔ آپ سے کیا چھپانا بس ڈر لگتا ہے، بہت ڈر لگتا ہے، رب جی کی آزمائشوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے، یا میرے اندر کا تھوڑ دِلا مجھے خبردار کرتا ہے کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے تو میرے روئیں روئیں میں الارم بجنے لگتے ہیں۔ بس پھر ایک ہی اُپائے ہوتا ہے، رب جی کے حضور درخواست گُذاری۔ رب جی کے حضور درخواست کرتا ہوں۔ بار بار کرتا ہوں۔ دیکھ لے مولا تُو تو رب ہے ناں، تیرا کیا چلا جائے گا۔ ایک میرے ساتھ اگر رحمت والا معاملہ کر دیا تو تیرے خزانے میں کونسا کمی آ جائے گی۔ میں مانتا ہوں کہ میرے پلّے کچھ نہیں ہے، لیکن تُو تو رب ہے۔ پالنہار ہے، تجھے پُوچھنے والا کون ہے۔ تُو تو آل اِن آل ہے، میرے ساتھ رحمت والا معاملہ کر دے میرے مالک۔ تجھے پتا ہے مجھے تیری آزمائش سے ڈر لگتا ہے، بہت ڈر لگتا ہے۔ مجھے تیرے عذاب سے بھی ڈر لگتا ہے۔ مجھے تیرے مُنصف بن جانے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ کہ اگر تُو مُنصف بن گیا تو میرے پاس تو کچھ بھی نہیں پاس ہونے کےلیے۔ تُو رحمت والا معاملہ کر دے ناں، تو میرے لیے اس دنیا میں بھی اپنا کرم کر دے ناں۔ تو مجھ پر اپنی عطاء کر دے گا تو تیرا کیا چلا جائے گا۔ رب جی سے ایسی ایسی باتیں کہ کوئی اور سُن لے تو مجھے پاگل کہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اور جب کوئی چارہ نہیں رہتا، جب کوئی اور امید نہیں رہتی تو پھر ایک ہی واسطہ ہوتا ہے۔ رب جی، نبی جی ﷺ کا صدقہ اپنی عطاء کر دو۔ نبی جی ﷺ کا نام ایسا ہے کہ بس اس کے بعد کچھ اپنے بس میں نہیں رہتا۔ نبی جی ﷺ کے نام کے بعد لفظ نہیں صرف آنسو کام کرتے ہیں۔ رب جی کے دربار میں نبی جیﷺ کے واسطے دے کر بھی تھوڑ دِلا کیا مانگتا ہے؟ دنیا ۔ لیکن تھوڑ دِلا کیا کرے، رب جی کی مہربانی سے اگر اب کچھ ملا ہے، تو تھوڑ دِلا تریہہ جاتا ہے۔ ہر آہٹ اور خاموشی پر بدک اٹھتا ہے۔ رب جی کی آزمائش کا خوف اسے چین نہیں لینے دیتا۔ تو پھر تھوڑ دِلا اگر رب جی سے رحمت مانگنے کی ٹیپ نہ چلائے تو اور کیا کرے؟ تھوڑ دِلا تو یہی کر سکتا ہے کہ رب جی سے معافی مانگتا رہے، اور رحمت مانگتا رہے اور نبی جی ﷺ کا واسطہ دیتا رہے۔ اور بھلا تھوڑ دِلا کیا کر سکتا ہے؟</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-7795170208911753952016-09-08T16:17:00.000+05:002016-09-08T16:17:07.858+05:00اردو بلاگنگ اور انٹرنیٹ پر اردو کا ارتقاء<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بلاگنگ پچھلی صدی کے آخری عشرے کے اواخر میں شروع ہوئی تھی۔ ہماری ناقص معلومات کے مطابق لوگوں نے اپنی ویب سائٹوں پر personal یا اپنے نام سے ایک ڈائریکٹری یا سب ڈومین بنا کر اس پر دن بھر کی مصروفیات، روئداد یا کسی ذاتی یا غیر ذاتی موضوع پر اپنے خیالات کو ایک ڈائری یا بیاض کی شکل میں بیان کرنا شروع کیا۔ زبان کی یہ تحریری صنف مضمون لکھنے جیسے ہی تھی، لیکن یہ اس سے مقابلے میں زیادہ بے تکلفانہ اور ذاتی رنگ لئے ہوئے تھی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انگریزی اور دیگر زبانوں کی بلاگنگ کو دیکھتے ہوئے اردو میں بھی لوگوں نے 2004 یا اس کے بعد بلاگنگ شروع کی۔ اور چند برسوں میں چند لوگوں سے یہ تعداد سو کا ہندسہ پار کر گئی۔اردو بلاگرز نے 2005 سے 2010 بلکہ تین چار برس بعد تک بھی بلاگز چلائے، اور ان پر قارئین کی ایک مناسب (چند درجن سے سو یا زیادہ وزٹر فی پوسٹ) تعداد بھی آتی رہی۔ لیکن جیسا کہ انٹرنیٹ پر ہر چیز تیزی سے ارتقاء پذیر ہو کر نئی نئی شکلوں میں ظہور پذیر ہوتی رہی، ویسے ہی بلاگنگ کی شکل بھی بدلی اور اس میں پہلے جیسی دلچسپی بھی برقرار نہ رہ سکی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انگریزی کی بلاگنگ 2010 سے ایک دو برس پہلے سے ہی اپنا رخ تبدیل کر رہی تھی۔ اب لوگوں نے ذاتی بلاگنگ کی بجائے عنواناتی بلاگنگ پر توجہ دینا شروع کی۔ انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعے آمدن، اور اشتہارات لگانے کے لیے نئے تحریری (اب تصویری، ویڈیو مواد بھی) کی ضرورت محسوس ہوئی تو لوگوں نے مختلف شعبوں میں مدد کے لیے بلاگز بنائے (فلاں کام کیسے کریں، جنہیں انگریزی میں ہاؤ ٹُو قسم کی تحاریر کہا جاتا ہے)، کسی خاص شعبے کے حوالے سے خبریں، تازہ ترین اور معلومات کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوا (مثلاً انگریزی میں ٹیکنالوجی، قانون، مذہب وغیرہ سے متعلق بلاگز وجود میں آئے)، کمپنیوں نے بلاگنگ کی طاقت دیکھتے ہوئے اپنی ویب سائٹس پر عوام سے انٹرایکشن کے لیے بلاگ سیکشن شروع کر دئیے، اخبارات میں بلاگ سیکشن شروع ہوئے (پاکستان کے انگریزی اخبارات 2009 سے بلاگز چلا رہے ہیں، اردو اخبارات نے دو تین برس تاخیر سے یہی کام شروع کیا)۔ اب بلاگنگ سے ارتقاء پذیر ہو کر تحریری (اور دیگر اقسام کے) مواد کی تخلیق کا عمل اتنا کمرشل ہو گیا ہے کہ باقاعدہ آنلائن میڈیا ہاؤسز موجود ہیں جو اخبارات کی طرح (لیکن کاغذ پر چھاپے بغیر صرف آنلائن) مواد تخلیق کرتے ہیں۔ ان کمرشل سائٹوں میں ٹیکنالوجی سے متعلق ویب سائٹیں بھی ہیں (یہ اتنی ترقی کر چکی ہیں کہ کبھی کبھار بلاگ کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں)، اپنی مدد آپ کے حوالے سے بلاگز یا ویب سائٹس بھی ہیں، اور وائرل مواد (میش ایبل اور اس کی پاکستانی نقل مینگو باز) کی خبر دینے والی ویب سائٹس بھی موجود ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اردو کے حوالے سے (جیسا کہ اوپر بتایا گیا) لوگوں نے بلاگنگ کچھ برس تاخیر سے شروع کی۔ لیکن انہوں نے انگریزی والے رجحانات کی پیروی کر کے اپنے ذاتی بلاگز سے ہی ابتدا کی۔ بدقسمتی سے اردو میں بلاگز کا ارتقاء انگریزی والے پیٹرن پر نہیں ہو سکا جس کی بنیادی وجہ اردو میں دستیاب مواد کو کمرشل بنیادوں پر استعمال نہ کر سکنا تھا۔ اردو میں لوگ مواد تخلیق کرنے کو تو تیار تھے، لیکن انہیں اردو زبان میں موجود ویب سائٹس کے لیے اشتہارات (جو انٹرنیٹ پر آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، اور اس حوالے سے آج بھی گوگل ایڈ سینس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں) نہیں ملتے تھے ۔ چنانچہ ذاتی قسم کے بلاگز لوگوں نے کچھ عرصہ لکھے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ رجحان اب بہت کم رہ گیا ہے (جیسا کہ انگریزی اور دیگر زبانوں میں ہوا تھا)۔ اس وقت اردو زبان میں موضوعاتی بلاگنگ کے نام پر کرک نامہ، سائنس کی دنیا اورآئی ٹی نامہ جیسے چند ایک بلاگز ہی موجود ہیں، جو اشتہارات کے بغیر بھی معیاری اردو مواد تخلیق کر رہے ہیں۔ اردو زبان میں ذاتی بلاگز میں دلچسپی کم ہونے کی ایک اور وجہ سوشل میڈیا ویب سائٹس جیسے فیس بُک اور ٹوئٹر کی مقبولیت بھی تھی۔ ٹرینڈ فالو کرنے کی دوڑ، کم الفاظ یعنی کم وقت میں بات کہنے کی صلاحیت، زیادہ لوگوں سے انٹرایکشن کا موقع وغیرہ نے اردو بلاگرز کو فیس بک اور ٹوئٹر کا قیدی بنا دیا، اور ان کے بلاگ ماضی کے مزار بن گئے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
انٹرنیٹ پرتحریری اردو کے فروغ میں بلاگنگ اصل میں تیسرا قدم تھی۔ اس سے پہلے انٹرنیٹ پر اردو فورمز (اردو محفل فورم، ہماری اردو فورم وغیرہ) تحریری اردو اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز مہیا کر رہے تھے۔ درحقیقت بیشتر اردو بلاگرز یہیں سے بلاگنگ کی طرف آئے۔ اور اِن آنلائن اردو چوپالوں سے بھی پہلے بی بی سی اردو، وائس آف امریکہ وغیرہ کی اردو ویب سائٹس نے تحریری اردو کے فروغ کی بنیاد ڈال دی تھی۔ روزنامہ جنگ کی تحریری اردو کی ویب سائٹ بھی بہت پرانی ہے اگرچہ لوگ زیادہ تر نستعلیق (یعنی تصویری اردو) والی ویب سائٹ پر ہی جانا پسند کرتے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اردو بلاگنگ کے بعد؟ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ اردو بلاگنگ کا مختصر سا عروج جو 2007 اور اس کے بعد پانچ سات برس تک رہا، اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اب لوگ بلاگ کی بجائے اپنی فیس بک وال پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ فیس بُک اور دیگر سوشل میڈیا پر لوگوں کی دھڑا دھڑ آمد نے ہمارے روزمرہ کے ٹاکرے (یا مناظرے) بھی آنلائن کر دئیے، چنانچہ یہاں لبرل، سیکولر، ملحد، قدامت پسند، اسلام پسند اور دیگر "پسندوں" نے سینگ اڑا کر مناظرے کیے۔ وہ مناظرے ختم ہو گئے یا ختم ہوں گے، اس سوال سے قطع نظر لوگوں نے سوچا کہ ان سوشل میڈیا ٹاکروں کے لیے جو کچھ لکھا جاتا ہے اسے مناسب جگہ پر شائع کیا جائے چونکہ فیس بک پر تو مواد چند دنوں میں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق اپڈیٹس کے انبار تلے دفن ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ہر نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے ویب سائٹس کی بنیاد رکھی جن میں لالٹین، ہم سب، دلیل، مکالمہ، ایک روزن، آئی بی سی اردو۔۔۔وغیرہ وغیرہ ایک لمبی فہرست گنوائی جا سکتی ہے۔ ان میں سے کچھ ایک خاص نقطہ نظر کی ترجمان ہیں، کچھ ایسی نہیں ہیں، لیکن حاصلِ گفتگو یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے وڈّوں کی زیرِ سرپرستی چلنے والی یہ تحریری اردو کی ویب سائٹس ہمارے خیال میں بلاگنگ کے بعد انٹرنیٹ پر اردو کے ارتقاء کا اگلا قدم ہیں۔ (اگرچہ اردو پوائنٹ اردو آنلائن جرنلزم کا بہت پرانا نام ہے، لیکن ان کی ویب سائٹ آج بھی نیم تحریری اور باقی تصویری اردو پر چلتی ہے، اور ان کی آمدن کے ذرائع آغاز سے ہی مقامی کمپنیوں سے ملنے والے اشتہارات ہیں۔) ان ویب سائٹس کے اجراء نے نئے لکھاریوں کو لکھنے اور چھپنے کے آسان ذرائع مہیا کر دئیے ہیں جو اگرچہ ذاتی بلاگ کی شکل میں پہلے موجود تو تھے لیکن قارئین کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے بددل ہو جاتے تھے۔ میڈیا کے وڈّے وڈّے ناموں کے سایہء عاطفت میں آج آپ جہاں بھی چلے جائیں، آپ کو تجزیہ کاروںِ، مضمون نگاروں، جوابی مضمون نگاروں، نوٹ نگاروں، اختلافی نوٹ نگاروں اور لکھاریوں کی ایک فوج ظفر موج نظر آتی ہے۔ ان میں سے کچھ بہت اچھے ہیں، کچھ اچھے ہیں، کچھ مناسب ہیں اور کچھ راقم کی طرح دھکا سٹارٹ ہیں۔ لیکن لوگ لکھ رہے ہیں، اردو لکھ رہے ہیں، یہ ایک اچھی بات ہے چونکہ اس سے اردو ترقی کرتی ہے، اردو پڑھنے سے تماشائیوں کو بھی اردو کو اردو میں لکھنے کی ترغیب ملتی ہے۔ ان ویب سائٹس نے نوجوانوں کو اپنی فرسٹریشن نکالنے کے ذرائع بھی مہیا کر دئیے ہیں جس سے مختلف علاقوں کا درجہ حرارت معمول پر رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ تفنن برطرف، آخر میں ہم آپ کی خدمت میں چند سوالات رکھ کر اجازت چاہیں گے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کیا مستقبل قریب میں انٹرنیٹ پر اردو مذہبی، نیم مذہبی، غیر مذہبی، سیاسی اور اس قسم کی دیگر مضمون بازی اور لفظی کُشتی سے آگے نکل پائے گی؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کیا اردو اس قابل ہو سکے گی کہ اسے تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے (مثلاً سائنس کی دنیا جیسی کاوشیں جو سائنس سے متعلق تحاریر کا اردو ترجمہ مہیا کر رہے ہیں)؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کیا اردو اس قابل ہو سکے گی کہ اس میں معیاری تفریحی، تعلیمی، یا کسی بھی قسم کا مواد پیدا کر کے روزگار کمایا جا سکے؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اور کیا مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہے کہ مذکورہ بالا فرضی اردو ویب سائٹس کو گوگل جیسی عالمی کمپنیاں نہیں تو مقامی کمپنیاں ہی اشتہارات دے کر ان کی روزی روٹی کے ذرائع پیدا کریں؟ (الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے وڈّوں کے زیرِ سایہ چلنے والی ویب سائٹس کو آج بھی کچھ نہ کچھ اشتہارات مل سکتے ہیں، جس کے لیے اکثر اوقات ان کا نام ہی کافی ہو گا، چونکہ ان ویب سائٹس کوآ گیا چھا گیا کے مصداق آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اس لیے ٹریفک اور وزٹرز کی تعداد، نیز رینکنگ وغیرہ کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں چنانچہ کمپنیاں انہیں اشتہارات مہیا کرنے میں زیادہ دلچسپی لیں گی۔)</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-51563613860497673732016-07-23T15:21:00.000+05:002016-07-23T15:21:13.683+05:00مرد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پدر سری معاشروں میں مرد ایک مظلوم جانور کا نام ہے۔ معاشرہ اس کی کچھ ایسی تربیت اور کردار سازی کرتا ہے، اس کے اوپر کنکریٹ کا کچھ ایسا لیپ کرتا ہے کہ وہ دُور سے "مردِ آہن" اور "سنگ دل" نظر آتا ہے۔ اپنے معاشرتی کردار سے مجبور ہو کر وہ مروّجہ رسوم و رواج کی پیروی کرتا ہے، صنفِ مخالف کو دباتا ہے، طرح طرح سے اپنی بڑائی اور طاقت کا اظہار کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اسی معاشرے کے ترقی پسند لبرل حلقوں کی جانب سے بھی گالیاں کھاتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
مرد کے مروجہ معاشرتی کردار کو عطاء کردہ ایک صفت "مرد روتا نہیں ہے"، "کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہا رہے ہو"، "مرد بنو مرد"، "تم اب بچے نہیں ہو" جیسے جملوں کی صورت میں زبان میں ظاہر ہوتی ہے۔ آنسو بہانا انسان کے بنیادی خصائل میں سے ایک ہے۔ انسان جب جذبات سے اوور لوڈ ہو جاتا ہے، جب دل و دماغ میں اُبال آتا ہے تو پانی آنکھوں کے راستے چھلک پڑتا ہے۔ یہ اُبال کبھی خوشی کی وجہ سے ہوتا ہے، اور کبھی غم کی وجہ سے۔ پدرسری معاشروں میں مرد کو عطاء کردہ معاشرتی کردار یا سماجی سانچے میں آنسو بہانے والا مرد فِٹ نہیں بیٹھتا۔ نتیجتاً ایسے مردوں کے سماجی کردار یا ان کی "مردانگی" پر سوال اُٹھایا جاتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
فیس بک پر ایک تحریر پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ انسان آج کے دور میں اتنی مواصلاتی سہولیات کے باوجود تنہا ہے، تو اس میں مرد ذات کی تنہائی عورت ذات کی نسبت زیادہ ہے۔ ایک پدر سری معاشرے کا پروردہ مرد جسے اوور لوڈ ہو کر اپنا جذباتی بوجھ ڈمپ کرنے کی اجازت نہیں ہے، جو انتہائی خوشی اور انتہائی غمی کے موقع پر عزم و ہمت کا پیکر نظر آنے کی توقعات تلے پِسا چلا جاتا ہے، جسے پنجابی کلچر کا وڈّا بن کر دکھانا ہوتا ہے؛ اس مظلوم مخلوق سے بڑھ کر تنہائی اور کس کے نصیب میں ہو گی۔ اوپر سے طاقتور، مطمئن، اور پُر سکون نظر آنے والا مرد اندر سے کتنا ناتواں، برانگیختہ اور بے چین ہوتا ہے، یہ پہلو وہ کم ہی کسی کو دکھا سکتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ایسے میں اگر پالنہار سے اس کا رابطہ نہ ہو تو یہ کیفیات شاید ڈپریشن، بلڈ پریشر اور سرطان جیسی بیماریوں کا باعث ہی بنتی ہوں گی۔ باہر سے ٹھنڈا اور اندر سے گرم نظر آنے کی یہ کیفیت پنجابی والا تتّا ٹھنڈا کر دیتی ہے تو چڑھنے والا بخار کسی بند دروازے کے پیچھے نیم ملگجے اندھیرے کمرے کے ایک کونے میں بچھے جائے نماز پر پالنے والے کے سامنے سجدہ ریزے ہونے سے ہی اتر سکتا ہے۔ اس کے سامنے سارے حجاب اُٹھ جاتے ہیں۔ وہ جو شہ رگ سے بھی قریب ہے، اسے سب معلوم ہے۔ اسے اندر باہر چلنے والے ٹھنڈی اور گرم ہر دو طرح کیفیات کا علم ہے۔ اس کے سامنے آ کر معاشرتی کردار، سماجی سانچہ اور اپنے جیسے دو پیروں پر چلنے والوں کی توقعات بھری گڑی نظریں سب کہیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ "تعلیم" اور "تربیت" کا لبادہ اتار کر جب مخلوق خالق کے سامنے ایک ننگ دھڑنگ، بے چین اور بے قرار، کُرلاتا ہوا بچہ بن کر پیش ہوتی ہے تو پھر کائنات میں صرف دو ہی کردار باقی بچتے ہیں: مخلوق اور خالق۔ اور اس رشتے کے ناتے مخلوق اپنے خالق سے سب کچھ کہہ ڈالتی ہے۔ پہلے پہل الفاظ ساتھ دیتے ہیں، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لفظوں کے پر جلنے لگتے ہیں، جذبات کے سمندر میں لفظ چھوٹی چھوٹی بے معنی کشتیاں بن کر ڈوبنے لگتے ہیں اور پیچھے صرف آنسوؤں کا جوار بھاٹا رہ جاتا ہے۔ جیسے چودھویں کی رات سمندر بے قرار ہو ہو کر ساحل سے سر پٹکتا ہے، ایسے ہی جذبات بے قرار ہو ہو کر دل و دماغ سے آنکھوں کے ساحل تک پہنچتے ہیں، چھلکتے ہیں، بہہ نکلتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب خالق اور مخلوق کا کنکشن مضبوط ترین ہوتا ہے، سگنل فُل ہوتے ہیں اور تصویر بالکل ٹھیک آ رہی ہوتی ہے۔ مخلوق کا ریسیور اور انٹینا دھل کر صاف ہو جانے سے خالق کے ہونے کا احساس اور اسے حال بتانے کی صلاحیت، ہر دو کیفیات حاصل کر لیتے ہیں۔ تب ان کہی بھی کہی بن جاتی ہے، تب شکوے شکایتیں، اور گِلے بیان ہوتے ہیں۔ تب خالق کی رحمت کا احساس بھی بدر کی طرح اپنی روشنی سے منوّر کر دیتا ہے۔ تب دعائیں، مناجاتیں اور حاجتیں پیش اور قبول ہوتی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اس کیفیت کا طاری ہو جانا بھی اس کی عطاء ہے۔ اور جس پر اس کی عطاء ہوتی ہے وہ کبھی نامراد نہیں رہتا۔ دعا ہے کہ آپ اور مجھے رب العالمین اپنے سامنے ایسے پیش ہونے کی توفیق دیتا رہے۔ آمین</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-75090861153210764052016-07-02T15:28:00.000+05:002016-07-02T15:28:09.988+05:00اردو محفل فورم کی گیارہویں سالگرہ پر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
عرض کیا ہے کہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
وہ بھی کیا دن تھے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جب ہم جِن تھے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اب ہم چھوٹے موٹے ہی سہی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دیو ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یعنی</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جِنوں کے پیو ہیں</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
قصہ 2005 کے اواخر 2006 کے اوائل کسی وقت کا ہے۔ جب ہم اتنی ہی صحت، کچھ کم وسیع متھا شریف اور متھا جمع بُوتھا شریف پر ذرا کم کم جُھریوں کے حامل تھے۔ بی کام تقریباً کر لیا تھا۔ اور اس کے بعد کیا کرنا ہے، کچھ نہیں پتہ تھا۔ عرصہ کئی برس سے کمپیوٹر پر اردو لکھنے کی کوششیں فرما رہے تھے۔ ان دنوں یاہو اور ایم ایس این نیٹ ورک کی چَیٹ سروس بڑی مقبول تھی۔ اور ہم ایک بیرون ملک مقیم پاکستانی کے تیار کردہ سافٹویئر اردو لنک میسنجر کو استعمال کر کے اردو میں چَیٹنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے۔ بس انہیں دنوں کا قصہ ہے کہ ہمیں اعجاز عبید صاحب کے یاہو اردو کمپیوٹنگ گروپ کا پتہ چلا۔ اور پھر ایک نئے اردو فورم "<a href="http://www.urduweb.org/mehfil/portal/" target="_blank">اردو محفل</a>" کی بھنک پڑی۔ اور ہم اس پر جا پدھارے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میرا خیال یہ فورم قائم ہوئے کوئی چھ ماہ کا عرصہ ہو چلا تھا۔ فورم کے ممبران کی بڑی تعداد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی تھی۔ ہندوستانی احباب بھی چند ایک موجود تھے۔ ان میں سے اکثر لوگ اردو بلاگ بھی لکھتے تھے یا بعد میں لکھنے لگے۔ تو یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ہم ذرا جوان شوان تھے، اور اردو کے لیے بہت کچھ کرنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ آج سے گیارہ برس قبل یہ فورم ایک عملی ثبوت تھا کہ کمپیوٹر پر اردو لکھی جا سکتی ہے۔ ہم اتنے خوش تھے کہ کئی ایک پراجیکٹ شروع کرنے کی ٹھانی۔ ایک لائبریری جس میں اردو کی کلاسک کتابیں ٹائپ کر کے رکھی جائیں۔ تاکہ آئندہ نسلوں کے لیے اردو متون کمپیوٹر پر دستیاب ہوں۔ اس کے لیے ہم نے ایک عدد کتاب ہاتھ سے ٹائپ فرمائی اور پھر ایسے بھاگے کہ پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ شاید ایک آدھ اور کسی کام میں بھی حصہ لیا ایک اردو فہرستِ الفاظ کی تیاری میں کچھ ہاتھ بٹایا (جسے بعد میں اوپن آفس میں اردو املاء یعنی سپیل چیکنگ کے لیے استعمال کیا گیا)، لائبریری پراجیکٹ کے لیے ایک آدھ سافٹویئر (جسے بعد میں کبھی اپڈیٹ نہیں کیا) جس کا کام امیج کو دیکھ کر ٹائپنگ میں مدد دینا تھا، اور پھر خاموشی کے طویل وقفوں کے بعد کبھی کبھی کفن پھاڑ پوسٹنگ (ادھر اُدھر سے اکٹھی کر کے کچھ اردو انگریزی اور انگریزی اردو لغات ڈیٹابیسز کی تیاری وغیرہ)۔ عرصہ ساڑھے دس برس کا یہی خلاصہ ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ان گیارہ برسوں میں اس فورم نے اردو کمپیوٹنگ کے حوالے سے کئی ایک کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ اس کے اراکین نے ویب پر نستعلیق کی فراہمی سے لے کر کرننگ، اور کئی ایسے سافٹویئر بنانے کا کام سرانجام دیا جو کمیونٹی ڈویلپمنٹ ماڈل کے تحت اردو کمپیوٹنگ کے فروغ کا باعث بنے۔ یہ فورم انٹرنیٹ پر اردو کے عروج کے معماروں میں سے ہے۔ اس کا حصہ رہنا میرے لیے باعثِ فخر رہا ہے اور رہے گا۔ آج مجھے وہ رونق نظر نہیں آتی جو پانچ سات برس قبل اس کا خاصا تھی، بہت سے آشنا چہرے کسی اور منزل کے راہی ہو چکے ہیں، انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا سائٹس کی مقبولیت نے بلیٹن بورڈ فورمز کے بل پر اپنی یوزر بیس میں اضافہ کیا ہے، لیکن پھر بھی ایسے فورمز کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ انٹرنیٹ کے لامحدود خلاء میں یہ چھوٹی چھوٹی انسانی بستیاں اپنائیت کا احساس دلاتی ہیں۔ اس تیز رفتاری سے بدلتی دنیا میں یہ بستیاں ہمارے ماضی (سمجھ لیں کہ انٹرنیٹ کے دس برس شاید عام زندگی کے پچاس یا سو برس ہیں) کی یاد دلاتی ہیں کہ ہم نے ابتدا کہاں سے کی تھی۔ جب تک انٹرنیٹ ہے ہماری کوشش رہے گی کہ ایسی بستیاں آباد رہیں۔ ہم کہیں بھی چلے جائیں، واپس لوٹ کر یہاں ضرور آتے ہیں۔ اس بستی سے کچھ ایسی محبت ہے کہ یہاں کسی سے کلام نہ بھی کریں، چپ چاپ کسی گلی کوچے میں بیٹھے رہنا، آتے جاتے رہنا، اور پنجابی والی جھاتیاں مارتے رہنا اچھا لگتا ہے۔ اللہ اس فورم کو آباد رکھے۔ اس بستی کو سلامت رکھے کہ اس کے در و دیوار پر ہماری آپ کی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-41660125196423293312016-05-11T01:24:00.001+05:002016-05-22T22:18:21.595+05:00مہلت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
زندگی مہلت نہیں دیتی۔ ہے نا؟</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہر کسی کو بس روز و شب گزارنے اور کام کاج نپٹانے کا لالچ ہوتا ہے۔ اسی لالچ میں 24 گھنٹے گزر جاتے ہیں اور اگلے 24 گھنٹوں کے ساتھ اگلا لالچ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ منحوس چکر کبھی ختم نہیں ہوتا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ سیانوں نے سچ کہا ہے۔ جب احباب ساتھ ہوں تو وہی زندگی ہوتے ہیں۔ جب ساتھ نہ رہے تو ایک اور طرح کی زندگی وجود میں آ جاتی ہے۔ دوستوں کے حلقے ٹوٹتے بنتے یونہی زندگی گزرتی جاتی ہے۔ اور ایک دن ایک اکیلا جیسے آیا تھا ویسے ہی مٹی کی چادر اوڑھ لیتا ہے۔ اور یہی زندگی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ان دوستوں کے نام جو کبھی میری زندگی کا حصہ تھے۔ لیکن زمان و مکان کی گردشوں نے ہمیں اتنا دور کر دیا کہ شاید ہی کبھی ملاقات ہو سکے۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-86101451911026204912016-05-09T00:43:00.000+05:002016-05-09T00:43:20.397+05:00بہار کی شام<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آج کا سورج اپنی آخری سانسوں پر آ کر آسمان کو سرخ کیے ہوئے ہے۔ لمحہ بہ لمحہ ماند پڑتی روشنی منظر کو دھیرے دھیرے رنگین سے بلیک اینڈ وائٹ میں منتقل کرتی جاتی ہے۔ ابھی مغرب کو عازمِ سفر ایک طیارہ سورج کی روشنی میں کسی غیر ارضی جسم کی طرح نظر آ رہا تھا، اور ابھی وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ پتوں سے بوجھل درخت ہوا سے ایسے لہلہاتے ہیں جیسے فقیر کو توقع سے بڑھ کر خیرات مل جائے تو وہ جھوم اُٹھتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اس تاریک پڑتے منظر میں نہ ہو تو دنیا گونگی ہو جائے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
یہ منظر میری حسِ بصارت اور حسِ سماعت سے ٹکرا کر اتنا مجبور کر دیتا ہے کہ میں کامن روم کی بالکنی میں جا کھڑا ہوتا ہوں۔ اور تب مجھ پر اس منظر کی ایک اور جہت کھُلتی ہے، سوندھی سوندھی سی خوشبو۔ میرے وطن میں جب رُکھوں (رُکھ= درخت، شجر) پر بہار اترتی ہے تو بُور (ننھے پھول) کھِلتا ہے۔ ٹاہلی کے پھول، نیم کے پھول اور دھریک کے پھول۔ ان پھولوں کی مہک بھی ایسی ہی جاں فزا ہوتی ہے، سوندھی سوندھی، ہلکی ہلکی اور مسلسل۔ اس اجنبی دیس کی اجنبی فضاؤں میں گھُلی یہ مہک جب میری سانسوں سے ہم آغوش ہوتی ہے تو میں بے خود ہو کر اپنے دیس، دور اپنے سوہنے دیس اُڑ جانے کے لیے مچل اُٹھتا ہوں۔ لیکن میں ایک پر کٹا پرندہ صرف پھڑپھڑا کر رہ جاتا ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لیکن میری سوچ کی اُڑان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ مہک، یہ بو باس مجھے ان گلی کُوچوں میں، کھیت کھلیانوں میں لے جاتی ہے، اس وقت میں لے جاتی ہے جب میرے دیس میں بہار اترتی تھی۔ اور دھریک پر ننھے ننھے پھول کھلا کرتے تھے۔ اور ان کی مست کر دینے والی خوشبو گرد و نواح کو مہکا دیتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مہک اور بو باس کے ساتھ بھی یادیں وابستہ ہوتی ہیں۔ خوشی اور غم کے احساسات منسلک ہوتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں کہوں تو مالیکیول جب ایک خاص تناسُب سے نتھنوں سے ٹکراتے ہیں تو خاص قسم کے برقی سگنل پیدا کرتے ہیں۔ جو دماغ میں عصبی خُلیوں کو متحرک کر دیتے ہیں۔ مہک محسوس کرواتے ہیں۔ اور اس سے وابستہ یادوں کو بیدار کر دیتے ہیں۔ آج ، اس وقت، یہ دھیرے دھیرے اترتی شام، گزرے برسوں کی بہاروں کی ان ہزاروں شاموں میں سے ایک شام بن کر مجھ پر اترتی ہے۔ اور میں اس خوشبو کو سانسوں میں بسا کر، پہلی تاریخوں کے ہلال کو دیکھ کر، اپنے رب سے اُس کی رحمت کا طلبگار ہوتا ہوں۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-50274767282258181112016-05-04T04:46:00.000+05:002016-05-04T04:46:30.546+05:00دس منٹ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"اچھا وقت کتنی جلد ختم ہو جاتا ہے نا؟"، اس کے لہجے میں شکوہ نُما سوال چھُپا تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"وقت بھلا کہاں رُکتا ہے۔" جواباً میری افسوس زدہ سی آواز بلند ہوئی تھی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ابھی بسیں چلنے میں کچھ وقت تھا۔ ڈرائیور باہر کھڑے متوقع نظروں سے شرکاء کو دیکھ رہے تھے۔ ابھی اُمید باقی تھی، کہ ابھی وہ لمحہ نہیں آیا۔ کچھ لوگ الوداعی کلمات ادا کر کے سوار ہو چکے تھے۔ اور کچھ ہم جیسے لوگ جیسے کسی معجزے کے منتظر تھے، شاید ہونی ان ہونی ہو جائے۔ یا شاید چند لمحے اور چُرانے کے لالچ میں حقیقت سے آنکھیں چُرا رہے تھے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"مجھے فیس بُک پر ایڈ کر لینا یاد سے۔" اس نے تاکیداً کہا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"میں جلد ہی تمہارے شہر آؤں گا۔ اپنا شہر گھماؤ گی نا؟" میں نے غیر محسوس انداز میں بات پلٹی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"ہاں، ہاں ضرور۔۔۔" اس کی آنکھیں یکدم چمکیں اور آواز میں اُمید کی کھنکھناہٹ در آئی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
دس منٹ، دس صدیاں تھے یا دس لمحے۔۔۔ گزرنے کا احساس تب ہوا جب ڈرائیور نے سٹیرنگ سنبھال لیا۔ مہلت ختم ہو گئی۔ اب جانا تھا۔ میں نے آخری بار اس کا ہاتھ دبایا۔ آخری مرتبہ نظریں ملیں، ایک دوسرے کے خال و خد جیسے حفظ کرنے کی آخری کوشش ہوئی۔ اور پھر میں کچھ کہے بغیر بس کی جانب پلٹ آیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"اپنا خیال رکھنا۔۔۔" پیچھے سے اُس کی آواز میں لرزاہٹ اُتر آئی تھی، یا میرا وہم تھا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"تُم بھی اپنا خیال رکھنا۔۔۔" میں نے مُڑے بغیر کہا۔ اور بس میں سوار ہو گیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں نے دانستہ دوسری طرف کی نشست چُنی۔ دوبارہ نظر پڑتی تو صبر کا دامن ہاتھ سے چھُوٹ سکتا تھا۔ بس چل پڑی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"وہ بھی اپنی منزل کی جانب رواں ہو گئی ہو گی۔" میں نے سوچا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اور میرا ہاتھ موبائل سے کھیلنے لگا۔ "فیس بُک پر ایڈ کر لینا۔۔۔"۔ اُس کی ہدایت یاد آئی لیکن میں نے سُنی ان سُنی کر دی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
اب میرے سامنے تصاویر تھیں۔ کانفرنس کے پہلے دن جب ہم ملے تھے۔ چائے پیتے ہوئے، لنچ کرتے ہوئے، لیکچر سُنتے ہوئے، اور پھر ان تصویروں میں وہ بھی آ شامل ہوئی تھی۔ اگلے دن چائے پر، لنچ پر اور پھر ڈنر پر جب ہم آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ اس نے ہاتھ میں سرخ وائن پکڑے جام سے جام ٹکراتے ہوئے مُجھے ٹوکا تھا "میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر۔۔۔" اور میں نے خجل ہو کر دوبارہ سے وہ عمل دوہرایا تھا۔ اُس کی مُسکراتی آنکھیں، جن کا سحر جوان ہوتی رات کے ساتھ ساتھ جوبن پر آتا چلا گیا تھا۔ اور پھر موسیقی کی لے تیز ہوئی تو اس نے مجھے بھی ساتھ کھینچ لیا تھا۔ میری رقص کرنے کی کوشش میں ناکامی پر اس کی رقص سکھانے کی کوشش بھی جب ناکام ہوئی، تو ہمارے مشترکہ قہقہے۔ اور پھر ڈی جے نے جب بھنگڑا میوزک لگایا تو ہر کسی کا مُڑ مُڑ کر میرا ذرا کم لڑکھڑاتا اور اس کا بہت زیادہ لڑکھڑاتا ہوا بھنگڑا دیکھنا۔۔۔اور پھر ہماری نقل کی کوشش کرنا۔۔۔ناکام ہونا اور پھر ہمارا کھِلکھِلانا۔۔۔۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ان سب یادوں کے کچھ عکس محفوظ تھے۔ جیسے کوئی مووی چلتے چلتے رک گئی ہو اور کلک کرنے پر دوبارہ چل جائے، یونہی لگتا تھا کہ یہ منظر دوبارہ چل پڑے گا۔ میں نے ایک آخری بار اس کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اور اس کے عکس حذف کر دئیے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"کاش کسی طرح اپنی یادوں سے بھی اس کے عکس مٹا سکتا"، میں نے موبائل بند کرتے ہوئے تمنا کی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بس آٹو بان پر فراٹے بھرتی میرے شہر کی طرف رواں تھی۔ دھوپ بھرا روشن منظر بس ایک لحظے کے لیے دھندلایا تھا۔ اور "آنکھ میں کُچھ پڑ گیا ہے"، بڑبڑاتے ہوئے میں نے آنکھیں رگڑ ڈالی تھیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
---</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بابا مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں سے متاثر ہو کر لکھی گئی ایک تحریر۔ کرداروں اور مقامات کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-2820031684095319872016-04-25T01:32:00.000+05:002016-04-25T01:43:33.975+05:00کچھ لکھیے!<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
"کچھ لکھیے۔" آج کئی دن ہو گئے ہمارے اندر کھد بد سی جاری ہے۔ ہر کچھ دیر بعد اندر سے ایک آواز آتی ہے "کچھ لکھیے ناں"۔ ہمارے کان لال ہو جاتے ہیں، گالوں کا درجہ حرارت سو کو چھونے لگتا ہے۔ ہم پہلے ہڑبڑا کر ادھر اُدھر دیکھتے ہیں پھر خود کو لعنت ملامت کرتے ہیں کہ ایسی بھی کیا ۔۔اچھا خیر چھوڑیے۔ اصل میں مسئلہ ہے کہ اندر سے آنے والی یہ آواز خاصی لوچ دار اور نرم و نازک سی ہوتی ہے۔ جیسے بھلے وقتوں میں کوئی دروازے کے پیچھے سے مُنے کے ابا کو کہا کرتا تھا،" اجی سنیے بازار سے کشمش ہی لیتے آئیے گا"۔ تو شاید ہمیں ہسٹیریا، دو قطبیت یا اس کا قریبی رشتہ دار کوئی چھوٹا موٹا نفسیاتی عارضہ ہو گیا ہے جو ہمارے کان بجنے لگتے ہیں۔ اور کمبخت کچھ ایسے ٹیون ہوئے ہیں کہ ایک ہی فریکوئنسی کی آواز کیچ کرتے ہیں۔ اللہ نہ کرے کبھی کوئی کھرکھراتی ہوئی، بیٹھی ہوئی، کھانستی ہوئی یا بلغم زدہ آواز میں "کچھ لکھیے ناں" کہے۔ جمالیات کا تو بیڑہ غرق جو ہو گا سو ہو گا، لکھا بھی ہسپتالوں کی حالتِ زار قسم کے موضوع پر جائے گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تو صاحب آج کل ہمارے اندر سے کوئی آواز آتی ہے کہ کچھ لکھیے۔ ہم عرصہ پچیس یوم سے کچھ ایسی بنجر زمین ہوئے ہیں کہ جرمنی کی سرد بارشیں بھی اس پر ہریاول لانے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے سامنے ٹہنیوں پر بُور آیا اور اب نوجوان پتے لہلہاتے ہیں۔ لیکن ہم کچھ ایسی زمین بن گئے ہیں کہ گھاس بھی روٹھ گئی ہے۔ اب اس بے موسم خزاں میں بھلا کیا لکھا جائے۔ لیکن ہم نے بھی آج کچھ لکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ تو آئیں بسم اللہ کرتے ہیں۔ آپ پڑھتے جائیں ہم لکھتے جاتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیاست ، جسے پیار سے ہم سیاہ ست پکارا کرتے ہیں، پر کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے کشمیری میاں صاحب وزیرِ اعظم اور ان کی سیاسی فلم کے ولن عمران خان نیازی آج کل بڑھک آرا (بر وزن معرکہ آرا) ہیں۔ بڑا گرما گرم موضوع ہے اور یار لوگ دھڑا دھڑ پکوڑے تل تل کر بیچ رہے ہیں۔ ہم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ وزیرِ اعظم کو دو چار دھولیں رسید کر لیں۔ ماہرِ دھرنا احتجاجیوں کی ٹانگ کھینچ لیں۔ پانامہ لیک کی بوری سے کچھ مزید گندے کپڑے برآمد کر لیں۔ یا پہلے ہی برآمد شدہ کو ذرا اونچا کر کے ٹانگ کر ان پر تبصرہ کر دیں۔ لیکن پھر ہمیں ہر دو طرف کے "مجاہدین" کے ہاتھوں توپ دم ہونے سے کون بچائے گا؟ تو ہم اس موضوع پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہوئے کسی اور موضوع کی طرف چلتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہماری بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ کچھ مہینوں میں ہم فیس بُک پر بہت سے لکھاریوں کے پیروکار (فالور) بن گئے ہیں۔ کوئی دو ایک ایسی ویب سائٹس لانچ ہو گئی ہیں جن پر بہت بڑے بڑے گلیور قسم کے سخن ور اپنی دانش کے موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ آج کل فیس بُک پر ایک معرکہ حق و باطل برپا ہے جس کے ایک طرف اسلام کے "محافظ" رائٹسٹ اور دوسری طرف "نئے" بیانیے کے داعی سیکولر(فاشسٹ وغیرہ وغیرہ) اپنے اپنے قلم سونتے معرکہ آرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک گھُمسان کا رن پڑا ہے، کمنٹس کے چھینٹے اُڑ رہے ہیں، لائیکس چلائے جا رہے ہیں اور دھڑا دھڑ پوسٹس شیئر ہو رہی ہیں۔ مشورے دئیے اور لئے جار ہے ہیں۔ ایک قیامت کا سا سماں ہے، سینگ سے سینگ لڑا ہے اور ہم کافی فاصلے سے چوری چوری دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ ہم بھی کسی سے سینگ لڑائیں۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمارے نازک سر پر ایک عدد ہیلمٹ ہونا چاہیئے جو ہمیں جوابی بھیڈوانہ (بھیڈو پنجابی میں بھیڑ کے جوان بچے کو کہتے ہیں) ٹکروں سے بچائے۔ تو ان ٹکروں بلکہ ڈھُڈوں سے بچنے کے لیے ہم اس موضوع پر لکھنے سے بھی توبہ کرتے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تو صاحب اس کا منطقی نتیجہ کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس پر لکھا جائے۔ اور آج کل ہم لسانیات کر رہے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے ہم پی ایچ ڈی کرنے کی کوشش شروع کر چکے ہیں۔ اپنا موضوعِ تحقیق جسے انگریزی میں ریسرچ پروپوزل کہتے ہیں تیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارے سامنے طرح طرح کے پاکستانی انگریزی بلاگز کا ڈیٹا ہے اور اس کے ساتھ ہم لُکن میٹی کھیل رہے ہیں۔ گراف ہیں، ٹیبل ہیں، ایچ ٹی ایم ایل فائلیں ہیں اور ان سے ڈیٹا نکالنے کے لیے سی شارپ نامی ایک پروگرامنگ زبان میں کچھ شاعری (بقول شخصے coding is poetry) فرمانا آج کل ہماری مصروفیات میں شامل ہے۔ آپ سے لسانیات کی بات کریں تو کیا کریں۔ ہم کون سا ادبی نقاد ہیں جو مصنف کی تحریر پڑھ کر ایک اور ادبی قسم کی تحریر لکھ ڈالیں۔ ہماری آٹھ سالہ تربیت تو کچھ ایسے ہوئی ہے کہ آنکھیں ایکسرے مشین بن گئی ہیں۔ لفظ مل کر ترکیب (فریز) بناتے ہیں، جس سے جملہ اور پھر پیرا گراف بنتا ہے۔ آوازیں اور صرفیے ، معانی اور سیاقی معانی (پریگمیٹکس) اور لسانی تغیرات۔ ہماری تربیت اگر آرٹسٹ کے طور پر ہوئی ہوتی تو ہم بھی کچھ لکھتے۔ ہم رینچ پانا پکڑے ایسے مستری جیسے ہیں جس کی نظر گاڑی کی خوبصورتی نہیں اس کے کُل پرزوں اور ڈھانچے پر جاتی ہے۔ اس کے ہونے کو انجوائے کرنے کی بجائے وہ بونٹ کھول کر اپنے ہاتھ کالے کرنے میں روحانی اطمینان اور سکون محسوس کرتا ہے۔ تو صاحب اب آپ ہی بتائیں آپ کو اپنے رینچ پانےاور سیاہی بھرے کالے ہاتھ دکھائیں یا یہ تحریر یہیں ختم کر کے آپ کی بھی خلاصی کروائیں؟ لگتا ہے کہ موخر الذکر آپشن بہتر ہے۔ </div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
تو اخلاقی سبق یہ ملا کہ ہم نے آج ناں ناں کرتے ہوئے بھی کچھ لکھ ہی لیا۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-58348442673191492512016-03-28T14:39:00.000+05:002016-03-28T16:09:57.991+05:00ہر سانحے کے بعد<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
ہر کربلا کے بعد، ہر سانحے کے بعد، ہر گلشن اجڑ جانے کے بعد میں جو ایک پیشہ ور نوحہ گر ہوں بیٹھتا ہوں، نوحہ لکھتا ہوں۔ میں جو ایک پیشہ ور عزا دار ہوں، سینہ پیٹتا ہوں۔ ہر قیامت گزرنے کے بعد گریبان چاک کیے گلیوں میں مرثیے پڑھتا پھِرتا ہوں۔ ہر بار میرا دل کرتا ہے کاش میں اُن ﷺ کے قدموں میں جا کر بیٹھ سکتا۔ اُن ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر، اُن ﷺ کے سامنے بیٹھ کر رو رو کر پگھل جاتا۔ اُنھیں بتاتا کہ</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ میرا وطن لہو لہو ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ، آپ کے نام لیواؤں نے ایک دوسرے پر زمین تنگ کر دی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ میرے وطن میں بہار اُترے تو وہ بھی خزاں میں بدل جاتی ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ جہاں میرے نونہالوں کے گلشن ہونا تھے وہاں بارود اور موت کا راج ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ جہاں گلابوں کی کیاریاں ہونی تھیں وہاں خون کی سرخی کے کیارے ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ اب تو لگتا ہے کہ نیلی چھتری والے نے بھی ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ آنکھیں رو رو کر صحرا ہو گئیں لیکن رحمت کی بارش نہیں برستی۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ لگتا ہے کہ دعائیں بھی آدھ رستے سے واپس لوٹ آتی ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
سیدی ﷺ میں لاشے اُٹھا اُٹھا کر تھک گیا ہوں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کاش میں ان ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو سکوں۔ ان ﷺ کے سامنے رو رو کر پگھل جاؤں، ان ﷺ کے پیروں کی خاک ہو جاؤں ۔ کاش رنج و الم کی یہ گٹھڑی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بھاری ہوتی چلی جاتی ہے، میں انﷺ کے سامنے لےجا کر رکھوں، انھیں ایک ایک زخم کھول کھول کر دکھاؤں۔ کاش مالک مجھ پر یہ کرم کر دے کہ میں اُن ﷺ کے سامنے حاضر ہو سکوں۔ اور عرض کروں کہ سیدی ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے، ہم سے آسمان والا روٹھ گیا، ہماری سفارش کیجیے۔ سیدی ﷺ ہمیں کالی کملی کے سائے میں چھُپا لیجیے۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-20520847517151384992016-03-27T04:36:00.000+05:002016-03-27T11:46:07.225+05:00اللہ کے فضل کی تلاش<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں نے جب یہ سنا کہ اللہ کو گِڑ گِڑانا بہت پسند ہے، ہاتھ پھیلائے اس کے در پر بھیک مانگو تو اسے دینا اچھا لگتا ہے، تو میں نے اپنی دعاؤں میں گِڑگِڑانا شروع کر دیا۔ جب پتا چلا کہ اس کا شکر کرنے سے وہ اور دیتا ہے، تومیں نے طوطے کی طرح شکر کا رٹا لگانا شروع کر دیا۔ جب معلوم ہوا کہ ادھار دو تو وہ دس گُنا بڑھا کر دیتا ہے، میں نے اُس کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا، اس نیت سے کہ اب مال دس گُنا ہو کر واپس آئے گا۔ اُس نے ہر طرح سے مجھے دیا۔ مانگنے پر دیا، شکر کرنے پر دیا اور اپنی راہ میں دینے پر اور زیادہ دیا۔ بابا جی سرفراز اے شاہ صاحب اللہ سائیں سے اس کا فضل اور کرم مانگنے کا کہا کرتے ہیں۔ میں نے جب یہ جانا تو اپنی دعاؤں میں پوری مصنوعی عاجزی طاری کر کے اور مسکین منہ بنا کر اس کا فضل، رحمت، کرم ، عطاء جو لفظ میری لغت میں اس کی رحمت کو ڈیفائن کرنے کے لیے موجود تھا سب استعمال کر کر کے اس سے مانگنا شروع کر دیا۔ تب اُس نے مجھے اور زیادہ عطاء کیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں پاکستان کی نوے فیصد آبادی کی طرح غربت کو دیکھ کر پلا بڑھا۔ پالنہار کی مہربانی اس نے کبھی بھُوکا نہیں سُلایا، لیکن اپنے والدین کو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جب سخت جدوجہد کرتے دیکھا تو میرے سامنے خودبخود پہلی منزل یہ آ گئی کہ اتنا کمالوں کہ انہیں دوبارہ وہ دن نہ دیکھنے پڑیں۔ تو میں نے اللہ سے جب اس کا فضل مانگنا شروع کیا تو اس کے بیک اینڈ پر بھی یہی معنی ہوتے کہ اللہ جی بہت سا رزق یعنی روپیہ دے دیجیے۔ کافی زیادہ، بلکہ بہت زیادہ سا۔ اور اس نے مجھے دیا۔ پھر میں نے سنا کہ رزق صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا، اس کی اور بھی بے شمار صورتیں ہیں جیسے اولاد۔ اسی طرح اس کا فضل صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا اس کی بھی بے شمار صورتیں ہیں۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آج ہمارا جرمن لینگوئج کورس باضابطہ طور پر ختم ہو گیا، ہمارا آخری ٹیسٹ بھی ہو گیا اور ہم یونیورسٹی جانے کے لیے آزاد ہو گئے۔ آج اپنے احباب کے درمیان ایک الوداعی سی تقریب میں وقت گزارا تو احساس ہوا کہ اہل علم کی صحبت بھی اس کا فضل ہے۔ پچھلے چار ماہ مُجھ پر پالنہار کا یہ فضل رہا کہ میں پاکستان کے بہترین دماغوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا رہا۔ ان میں سے ہر ایک جو اپنے شعبے کا ماہر ہے، جس کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا۔ ان کے اندازِ تخاطب، نشست و برخاست اور طرزِ عمل سے پتا چلتا کہ یہ لوگ اس مقام کے حقدار تھے۔ یہ پاکستان میں جب اپنے اپنے شعبے میں، تدریس یا تحقیق جہاں بھی ہوتے ہوں گے تو وہاں اس کی ترقی کے لیے کتنے مؤثر ہوں گے۔ اور آج جب یہ یہاں ہیں، اور تین برس بعد واپس ڈاکٹر بن کر جائیں گے تو ان کی مہارت سے میرے ملک کو کتنا فائدہ ہو گا۔ تو مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ رہنا بھی باعثِ سعادت تھا۔ میں جو کسی زمانے میں اپنے والد کی ناشتے کی ریڑھی پر بیرا گیری کرتا تھا، آج مُجھے اُس کریم کی ذات نے کہاں لا بٹھایا ہے۔ تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ پر اس کا کِتنا فضل اور رحمت ہے۔ اور جو میں طوطے کی طرح ہر دعا میں آموختہ دوہراتا ہوں کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج، مجھ پر اپنا کرم کر دے، فضل کر دے، عطاء کر دے، تو وہ دعائیں رائیگاں نہیں جا رہیں۔ اس کی بارگاہ میں قبولیت پا رہی ہیں۔ تو میرا سر اس کی رحمت کے احساس سے جھُک گیا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میں نے آج یہ سیکھا کہ اچھا حلقۂ احباب بھی اس کا فضل ہے۔ علمِ نافع بھی اس کا فضل ہے۔ چاہے وہ دنیا کا ہو یا دین کا۔ میں نے یہ جانا کہ میں اور میرے یہ سب ساتھی، واپس جا کر اپنے اپنے شعبے میں اپنے وطن کی ترقی کے لیے کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا فائدہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہونے کی صورت میں ہو گا۔ پالیسی سازی، قانون سازی، تدریس اور تحقیق میں اس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر ہو گا۔ ان سب کی نیت نیک ہے، تو ان کا علم حاصل کرنے کا عمل بھی ایک نیک عمل قرار پائے گا۔ اور اس کی توفیق بھی اُس ذات کا فضل ہے۔ میں اپنے رب سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے ہم سب کو نیک نیتی کی توفیق دے، ہمیں اپنے اپنے شعبے کی بہتری کے لیے صدقِ دل اور دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق دے۔ اور ہمارے اس علم کو اپنی مخلوق کی مدد کرنے کا آلہ، ان کی زندگی آسان بنانے کا ذریعہ اور ہمارے اہل و عیال کے لیے رزقِ حلال کے حصول کا وسیلہ بنا دے۔ آمین، یارب العالمین۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-86720355950361003482016-03-20T04:33:00.001+05:002016-03-20T04:33:57.567+05:00ایک شہر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
شہر تھا، نہروں کا شہر ایمسٹرڈیم۔ جال تھا، ایک دوسرے کو کاٹتی ہر طرف کو بڑھتی چلی جاتی سڑکوں کا جال۔ مشینیں تھیں، سڑکوں پر دوڑتی ان گنت مشینیں۔ عمارتیں تھیں، قطار اندر قطار کھڑی چھوٹی بڑی قدیم اور جدید عمارتیں۔ وجود تھے، دو ٹانگوں والے ہزاروں وجود، آپس میں مگن چلتے رکتے چہلیں کرتے وجود۔ اور ایک مسافر تھا، تنہا مسافر۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
پانی تھا، گدلا سبزئی پانی۔ بجرے تھے، کشتیاں تھیں اور گھر تھے۔ ان میں آنکھیں تھیں، متجسس آنکھیں، مگن آنکھیں، ٹٹولتی آنکھیں، کچھ ڈھونڈتی آنکھیں۔ جنگل تھا، کنکریٹ کا جنگل، آپس میں مگن، بے نیاز عمارتوں کا جنگل۔ اور ایک مسافر تھا، بے قرار مسافر۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آسمان تھا، سرمئی چادر اوڑھے نیم روشن آسمان۔ ہوا تھی، سرد اور بے پرواہ ہوا۔ سورج تھا، بادلوں کی اوٹ میں چھپا شرمندہ سا سورج۔ درخت تھے، پتوں سے عاری ٹنڈ منڈ درخت۔ اور ایک مسافر تھا، اجنبی مسافر۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بستی تھی، سرخی میں ڈوبی ایک بستی۔ پنجرے تھے، شیشے کے پنجرے۔ مال تھا، غازے میک اپ سے سجا مال، جوان بوڑھا خوبصورت بھدا مال۔ چہرے تھے، تاثرات سے عاری چہرے، لُبھاتے بُلاتے چہرے۔ نگاہیں تھیں، ہوس ناک نگاہیں، کھا جانے والی نگاہیں۔ اور ایک مسافر تھا، سزا جزا نیکی بدی کے بیچ معلق مسافر۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
رات تھی، سیاہ رات۔ روشنیاں تھیں، ہر طرف سے پھُوٹتی روشنیاں، دعوت انگیز روشنیاں۔ رنگ تھے، چمکیلے بھڑکیلے رنگ۔ اجنبیت تھی، زمین سے اُبلتی اجنبیت۔ تنہائی تھی، لامتناہی تنہائی۔ اور ایک مسافر تھا، سرگرداں مسافر۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-3794950750811064444.post-86007348321043994412016-03-18T02:59:00.000+05:002016-03-18T11:52:38.444+05:00اعتراف<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
آج میرے لینگوئج سکول میں ہم نے اپنے اساتذہ کے لیے ایک الوداعی پارٹی رکھی تھی۔ یہاں چار ماہ گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ میرے ملک کے عظیم دماغ جن کی صحبت کا شرف مجھے حاصل رہا۔ سائنس، معیشت، قانون غرض ہر شعبے کے ابھرتے ہوئے ستارے اور مجھ جیسا ایک عام سا انسان جو بس تُکے سے ان کے ہمراہ ہو لیا۔ پنجابی میں اسے انھے ہتھ بٹیرا (اندھے کے ہاتھ بٹیر) والی مثال سے سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
لوگ سمجھتے ہیں کہ میں استاد ہوں اور میں نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ کئی برس سے ترجمہ کر کر کے میں اچھا خاصا مترجم ہو چکا ہوں۔ دوسروں کے الفاظ ترجمہ کر کر کے اور لوگوں کی کتب سے پڑھا پڑھا کر مجھے چند لفظ کہنے اور لکھنے کا فن آ گیا ہے۔ میرے احباب نے میرے اس بہروپ کو سچ سمجھ کر جب الوداعی کلمات بولنے کے لیے کھڑا کیا تو اپنی کم مائیگی کا احساس اور شدید ہو گیا۔ اتنے بڑے بڑے لوگ اور ان کے سامنے کھڑا ایک بونا بھلا کیا بولتا۔ انگریزی میں چند جملے بول کر رہ گیا۔ وہ لفظ تو میری زبان سے نکل گئے، لیکن مجھے بہت دیر بعد (جیسا کہ میرا معمول ہے) احساس ہوا کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے۔ کہ ان عظیم دماغوں کا ساتھ اب چند دنوں کا ہی ہے۔ پھر سب اپنے اپنے شہر پی ایچ ڈی کے لیے چلے جائیں گے، اور میں جو ان کی تابانی سے روشن ہو کر خود کو بھی ایک ہیرا سمجھنے لگ گیا تھا پھر سے بے قیمت کوئلہ رہ جاؤں گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بھلا صلاح الدین جیسا ہنس مُکھ اور بے لوث دوست کہاں ملے گا۔ اس کی سدا بہار مسکراہٹ اور ایک خاص وقفے سے بلند ہوتی ہوئی ہنسی، عبدالرحمٰن کا افسرانہ انداز اور نپی تلی باتیں بھلا کون بھولے گا۔ عمران کی کھلکھلاتی ہوئی خاموش مسکراہٹ، رانا فیصل شہزاد کا اپنی تعریف پر جھینپتے ہوئے قہقہے لگانا، محمد فیصل کا میری جگت اندازی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، ظفر صاحب کا حیران کن حد تک وسیع جرمن ذخیرۂ الفاظ، سہیل آفتاب بھائی کامشفقانہ اور بزرگانہ انداز ۔۔ تنزیلہ علوی، غزالہ عنبرین، عظمیٰ علی جنہوں نے مجھے چھوٹا بھائی سمجھ کر سُدھارنے کی کوشش کی اور جو سخت ناکامی سے دوچار ہوئی، بشرٰی غفران احمد کا سو سنار کی کے جواب میں ایک لوہار کی چوٹ لگانا اور اس پر مخاطب کا بلبلا اُٹھنا، میمونہ منیر کا پانچ سالہ تدریسی تجربہ جو انہوں نے اس کلاس میں بے دریغ آزمایا اور ماریہ (اور ان کا بیٹا محمد عبداللہ)۔۔۔ یہ سب لوگ ستاروں کا ایک ایسا کلسٹر تھے جن کے قریب سے گزرتے گزرتے میں، ایک آوارہ سیارہ، کچھ عرصے کے لیے روشن ہو گیا۔ اور جب یہ سفر ختم ہوا تو پھر سے اندھیرا اس بے آب و گیاہ وجود کا مقدر ہو گا۔</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جے میں ویکھاں عملاں ولے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
کُجھ نئیں میرے پلے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
جے ویکھاں تیری رحمت ولے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
بلے بلے بلے</div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
<br /></div>
<div dir="rtl" style="text-align: right;">
میرے پلّے تو کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ میں کل بھی تہی دامن تھا، آج بھی خالی ہاتھ ہوں۔ جو کچھ ہے اُس کی رحمت ہے۔ ان احباب کا ساتھ بھی اس کی رحمتوں میں سے ایک رحمت تھی۔ میرے لیے بہت کچھ سیکھنے کا موقع، جو میری نالائقی سے ضائع جا رہا ہے۔ جب میرے ہاتھ اُٹھیں اور آنکھیں بھر آئی ہوں تو منہ سے یہی لفظ ادا ہوا کرتے ہیں کہ مالک یہ تو تُجھے اور مُجھے پتا ہے کہ میرے پلّے کچھ نہیں ہے۔ لیکن تُو تو ستّار ہے، تُو میرے عیبوں پر پردہ ڈالے رکھیو، یہ جو بہروپ میں نے بھر رکھا ہے، جو سوانگ رچا رکھا ہے اس پر اپنی عطاء کی چادر ڈالے رکھیو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاکر بہت کچھ ہے، لیکن یہ تو تُو اور میں جانتے ہیں کہ شاکر نامی یہ مٹی کا باوا ہر سانس تیری رحمت کا منتظر ہے، جس سانس تیرا کرم اس پر سے اُٹھا وہ سانس اس کی آخری سانس ہو گی۔</div>
</div>
Shakirhttp://www.blogger.com/profile/02677756315715064558noreply@blogger.com1