ہفتہ، 15 اپریل، 2006

کیا زندگی ہے ہماری

صبح کا وقت تھا۔میں اپنے روزمرہ کام کے سلسلے میں جارہا تھا۔ابھی محلے میں ہی تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی گلی کے سامنے دو بابے لڑ
رہے تھے۔
میرے والد سے بھی زیادہ عمر کے وہ بزرگ ۔
‮میرے کانوں میں صرف اتنا پڑا کہ ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا: “چل وہابی۔۔۔” آگے ایک نحس
جانور کا نام ہے مگر میں اسے دوہرانا نہیں چاہتا۔عقلمند را اشارہ است۔میرے دوست سمجھ گئے ہونگے۔


خیر وہ بات تو ختم ہوگئی تو ختم ہوگئی مگر میرے جیسے فاسق و فاجر کے لیے ہزاروں سوال چھوڑ گئی۔وقت گزر جاتا ہے۔خیر وقت گزر گیا جمعہ کے دن ہمارے مولوی صاحب نے صفیں درست کرتے ہوئے ایک مسئلہ سنایا اور سمجھیے کہ پھر سے اس واقعے کو تازہ کردیا۔
‮مولوی صاحب فرما رہے تھے:” امام کے قریب اگلی صفوں میں کھڑے ہونے کا حق ان لوگوں کے پاس ہے
جو باشرع ہوں“۔
باشرع ہونے کو تو آپ جانتے ہیں نا۔ آج کل معیار ہے کہ فٹ بھر لمبی ڈاڑھی، شلوار گٹوں سے اونچی،ہاتھ میں تسبیح جو ہر وقت چلتی رہے چاہے چغلی ہی کیوں نہ کی جارہی ہوکسی سے،شلوار قمیض کی جگہ اگر کرتا شلوار ہو تو مزید باشرع ہونے کی سند مل جاٰئے گی آپ کو۔
مگر یہ سب سن کر مجھے جو خیال آیا وہ وہی واقعہ تھا جس کا ذکر میں شروع میں کرچکا ہوں۔دو بزرگ جو صبح کے وقت جب کہ فجر کا وقت بھی شاید ابھی باقی تھا،پرندے اپنے رب کی حمد و ثنا میں مصروف تھے اور وہ ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ ظاہر ہے"اسلام“کی خاطر ہی لڑرہے ہونگے۔اور ایک نے دوسرے کو گالی دی تھی ساتھ ہی اس کے مسلک کا ایسے لیا تھا جیسے ہندوؤں میں شودر کا نام برہمن حقارت سے لینا بھی گوارا نہیں کرتے۔میرے سامنے ان کی فٹ فٹ بھر لمبی ڈاڑھیاں جھولنے لگتی ہیں، ان کا باشرع حلیہ میری آنکھوں میں کانٹے کی طرح چبھنے لگتا ہے اگر سنت رسول پر عمل کرکے انسان اتنا شقی القلب ہوجاتا ہے تو میں باز آیا ایسے کسی بھی عمل سے۔
مگر ٹھہریے کیا میرے اور آپ کے نبیؐ سائیں جن کے ہم نام لیوا ہیں کیا ان کی سنت ان کی سیرت ان کا عمل ان کا کردار یہ ہی تھا۔کیا ان کے صحابہ بھی اسی طرح ایک دوسرے کو بھنبھوڑا کرتے تھے جیسے آج یہ ‮”باشرع‬” لوگ ایک دوسر ے کو کرتے ہیں۔
اگر نہیں تو کیوں یہ سب،کیوں ہر جگہ ان کی اجارہ داری ہے۔کیا ٹھیکہ لے رکھا ہے انھوں نے اسلام کا؟؟ کیا اسلام ان کی وجہ سے چل رہا ہے؟؟ کیا یہ اللہ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں؟؟ کیا باشرع ہونے سے ان کو مسلمان ہونے کی سند جاری ہوگئی ہے کہ جاؤ جو مرضی کرو؟؟؟
اگر نہیں تو پھر کب تلک یہ ہمارے سروں پر مسلط رہیں گے آخر سحر کب ہوگی۔

ہفتہ، 1 اپریل، 2006

عجب سی یہ چیز محبت ہے۔۔

عجب سی یہ چیز محبت ہے۔۔
“ہاہاہاہاہاہا،سالے محبت کو ہوّا بنایا ہوا ہے۔۔“
ابے ادھر آ۔۔
جی استاد
یہ پڑھ ۔۔۔ہاہاہاہا۔سالے کہتے ہیں محبت زندگی بدل دیتی ہے۔۔ہاہاہاہاہا۔
ابے محبت کیا کنپٹی پر بندوق رکھ دیتی ہے کہ اپنے کو بدلو۔۔
یہ سالے لکھاری بھی یونہی چھوڑتے ہیں۔۔
“استاد ایک بات کہوں“
“بول بے،تیرے کو ادھر میں نے اسی لیے بلایا تھا۔“
“استاد کبھی تیرے کو سر درد ہوا؟؟“
“ابے الو کے چرخے میں نے تیرے کو محبت کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے بلایا ہے وہاں سے۔اور تو مجھے سر درد کی سنا رہا ہے۔ابے کیا تو ڈسپرین بیچتا ہے۔۔۔ہاہاہاہا“ یہ کہہ کر استاد خود ہی اپنی بات کو انجوائے کرنے لگا۔
حمید نے ہمت نہیں ہاری“ استاد بتا نا۔“
“ابے میری جان کے دشمن کئی بار ہوا ہے سردرد۔ میں کیا آسمان سے اترا ہوں یا مجھ پر اللہ میاں نے سر درد حرام قراد دے دیا ہے۔“
“تو استاد سردرد جب ہو تو تب اس کا احساس ہوتا ہے۔ محبت بھی سر درد ہے جب ہو تب اس کا احساس ہوتا ہے اور جس کو نہیں ہوتی وہ اس پر ہنستا ہے۔“
“ابے دقراط کے سالے۔۔“
“دقراط نہیں استاد بقراط“
“ابے وہی وہ سالا بقراط،ابے بقراط کے سالے تو یہ فلسفہ کب سے بولنے لگا رے۔کام تو گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کرتا ہے اور مارتا بقراطیاں ہے۔“
“ارے استاد۔۔بڑی ودھیا خبر ہے میرے پاس سنے گا تو خوش ہوجائے گا۔“
“ابے موٹے اسی طرح آنا ہمیشہ دیکھتا نہیں کہ استاد میٹنگ میں ہے۔“
“ہیں؟؟ میٹنگ میں؟ استاد کس میٹنگ کی بات کرتا ہے۔“
“ابے یہ محبت کی میٹنگ ہے تو چپ رہ تیرے پلے یہ بات نہیں پڑے گی۔“
“پر استاد میری تو سن لے۔ ماں قسم ساری میٹنگیں بھول جائے گا۔“
“ہاں بول تو اپنی تل لے یہاں۔ ہم خاموش ہیں۔“
“استاد کیا زبردست فل فلوٹی آئی ہے اپنے محلے۔ خدا قسم دیکھے گا تو تُو بھی ایک بار ہل جائے گا۔ابھی اسے آئے دوسرا دن ہے اور آدھا محلہ اس کے پیچھے لگ گیا ہے۔ قسم سے استاد ایک چل تو سہی تیرا دل خوش ہوجائے گا۔“
“ابے کیا اول فول بک رہا ہے۔کیا گھاس کھا گیا ہے۔ابے عورت ہے کہ گڑ کی ڈلی ہے جو آدھا محلہ پیچھے لگ گیا ہے۔“
“استاد ایک بار چل تو سہی۔ وہ تو گڑ سے بھی میٹھی ہے۔“ یہ کہ کر موٹے نے ایک طویل چٹخارہ بھرا۔
“ابے سالے خوامخواہ میں سسپنس پھیلا رہا ہے۔چل بے حمیدے ذرا دیکھیں کیا چیز آئی ہے جس پر یہ موٹا بھی جھوم رہا ہے۔“
“وہ دیکھ استاد وہ جو سامنے پیلا سا مکان دیکھ رہا ہے نا۔وہیں آئے ہیں وہ اور اس کے گھر والے۔یہ دیکھ ادھر والی نکڑ پر سارے لونڈے اسی کے دیدار کو کھڑے ہیں۔“
“ابے ان کی تو۔۔۔،چلو بھئی بچو اب اپنے اپنے گھر چلو۔شاباش۔“
استاد کو دیکھ کر سب کائی کی طرح چھٹ گئے۔
“چل استاد یہیں بیٹھ جاتے ہیں۔“
“ابے زیادہ ٹائم نہیں اپنے پاس۔تو جانتا ہے ناں اپن مصروف بندہ ہے۔“
“بس استاد زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ۔ ہر پانچ منٹ بعد تو وہ دروازہ کھول کر جھانکتی ہے۔“
“لے بھئی وہ نکلنے لگی ہے استاد ۔۔دیکھ پردہ ہلا اور یہ لے۔۔“
مگر استاد کہاں اس کو سن رہا تھا۔ وہ تو اس کی شکل دیکھ کر ہی سکتے میں آگیا تھا۔
“استاد کیا ہوا۔۔“ موٹے نے استاد کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرائے۔
“ابے یہ تو وہی ہے!“
“کون؟ کس کی بات کررہے ہواستاد؟“
“تیری استانی بے اور کون۔“
“ہماری استانی؟“ دونوں کے منہ سے اک عالم تحیر میں نکلا۔
“استاد تو نے صبح کہیں پھر بھنگ تو نہیں پی لی۔پر نہیں۔۔۔۔۔۔ بھنگ تو تُو نے سال ہوا چھوڑ دی ہے۔“
“اوئے حمید! آج استاد کو کیا کھلا دیا ہے۔یہ بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہا ہے۔“
“ابے بکواس بند کرو۔یہ روز ملنے آتی مجھے۔تم اپنی ہانک رہے ہو۔“
“ہیں؟ کہاں استاد۔کب ملنے آتی ہے۔ تو تو ہماری نظروں کے سامنے رہتا ہے سارا دن“
“ابے رات کو ملنے آتی ہے؟“
“رات کو؟“
“پر استاد رات کو تو ایک ہفتہ ہوگیا تیرے ساتھ میں بھی ہوتا ہوں۔اوئے موٹے تو ٹھیک کہتا ہے استاد گیا کام سے۔“
“ابے کم عقلو یہ رات کو خواب میں ملنے آتی ہے روز۔اسی کم بخت کی وجہ سے تو میں نے بھنگ چھوڑ رکھی ہے سال بھر سے۔“
“ارے استاد۔ تو خوابوں پر بھی یقین رکھتا ہے؟؟“
“او بس یار رکھتا تو نہیں تھا پر تمہاری استانی نے آکر سیدھا کردیا ہے۔“استاد کا لہجہ اب استاد والا نہیں لگ رہا تھا۔
“اوووو۔یعنی استاد تو اندر ہی اندر عشق لڑاتا رہا اور ہمیں خبر نہ ہونے دی۔“
“ابے استاد اب بھنگ کیوں پیے گا اسے نشہ بن پیے ہی چڑھتا ہے تو بھنگ کیا ضرورت۔“
“پر استاد ایک بات تو بتا۔ تو نے اسے پہلی بار دیکھا کب تھا؟“
“یار بس یونہی راہ چلتے ایک بار نظر پڑی تھی۔سالی تب سے رات کو آنکھوں میں گھس آتی ہے۔“
“چل پھر استاد اس سے بات کر لے آج۔موقع اچھا ہے کہیں تو ساری عمر اس کے خواب ہی نہ دیکھتا رہے۔“
وہ سب اس کے گھر کی طرف چل پڑے۔
“اب اس کو باہر کس طرح نکالیں ۔۔۔“ حمید سوچ میں پڑ گیا۔
“اوئے ایسے نکالیں اور کس طرح۔“ استاد نے دروازہ کھٹکھٹادیا ۔تھوڑی دیر بعد ایک اماں نما چیز برآمد ہوئی۔
“ہاں بھئی کیا بات ہے۔کس سے ملنا ہے۔رض۔۔“ کہہ کر اپنی غلطی کا احساس ہوا تو رک گئی پھر بولی“ اسلم صاحب گھر پر نہیں۔“
“اماں جی ہمیں اسلم صاحب سے نہیں ان سے کام ہے جن کا ابھی آپ نام لے رہی تھیں؟“
“ہیں؟ رضیہ سے کام ہے؟؟“ اس بار اماں اپنی حیرت میں رضیہ کا نام بتا گئیں۔
“ہاں۔۔“ ابھی استاد اتنا ہی بولا تھا کہ پیچھے سے کراری سے آواز آئی۔
“کون ہے جو میرا نام اس طرح لے رہا ہے۔ تو یہ تُو ہے استاد غفورے۔ تجھے شرم نہیں آئی یہاں بھی میرے پیچھے آگیا۔سال بھر پہلے کی ڈانٹ تجھے بھولی نہیں لگتا ہے۔“
“وہ جی وہ بات یہ ہے کہ وہ۔۔۔“ استاد کی زبان سے لفظ نہیں نکل رہا تھا اور حمید اور موٹا استاد کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔جو ان کی ہونے والی استانی کے سامنے اس طرح ہکلا رہا تھا۔
“استاد تو ہمارا استاد ہے کچھ ہماری عزت کا خیال کر لے۔ تُو تو عورتوں کے سامنے انھی کی طرح ڈر رہا ہے۔“
حمیدے نے استاد کو غیرت دلانا چاہی جس کا یہ اثر ہوا کہ استاد کا ہکلانا بند ہوگیا۔
“وہ بات یہ ہے جی کہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔“استاد نے ایک ہی سانس میں جیسے سبق سنا کر سر سے بوجھ اتار دیا۔
“کیا؟ شادی کرنا چاہتا ہے۔ ابے اپنا حلیہ دیکھا ہے شادی والا۔چل بھاگ جا۔پہلے اپنے آپ کو بنا شادی والا پھر بات کرنا۔ اور سن یہ میرے اماں باوا کا کام ہے۔ انھی سے بات کرنا۔“اتنا کہہ کر رضیہ اندر غائب ہوگئی اور استاد اپنی سوچوں میں گم ایک طرف چل پڑا۔
“اررررےے۔۔۔ استاد۔ہمیں تو لیتا جا۔“ حمیدا چلایا۔ پر استاد اپنے آپ میں گم تھا۔
“استاد گیا کام سے“ موٹے نے استاد کے ہم قدم ہوتے ہوئے کہا۔
“ابے کام سے نہیں گیا کام کی سوچ رہا ہوں۔“اتنے میں جھورے نائی کی دوکان آگئی اور استاد اس میں داخل ہوگیا۔
جب اس نے اپنے لمبے لمبے پٹے جھورے کو کاٹنے کو کہا تو جھورے کے ساتھ ساتھ حمیدے اور موٹے کی آنکھیں بھی حیرت سے ابل پڑیں۔
“استاد تو آج ہمیں حیران کرنے پر کیوں تلا ہوا ہے۔“موٹے نے آخر حیرت سے باہر آکر کہا۔
“ابے وہ تیری استانی کیا کہہ رہی تھی پہلے شادی کے قابل بن پھر آگے بات کرنا۔ اس نے اتنے مان سے کہا ہے تو کیا اب بات نہ مانوں۔“
“لے بھئی استاد تُو تو گیا کام سے۔اب ذرا یہ بتا تو پہلے محبت پر ہنس کیوں رہا تھا۔“حمید نے پوچھا۔
“بس یار وہ تو ایسے ہی اندر کی آواز دبانے کے لیے تھا۔ورنہ محبت کا ہارن تو کب کا میرے اندر بج رہا تھا۔ میں ہی اسے راستہ دینے کو تیار نہیں تھا۔اب موٹے نے فل فلوٹی کے بہانے تیری استانی سے ملا دیا ہے۔اب کیا پردہ تم سے اور اپنے آپ سے۔“ استاد کے لہجے میں کچھ پانے اور کچھ کھونے کی حسرت ہلکورے لے رہی تھی۔
“لے بھی حمیدے اپنا استاد تو شہید محب ہوگیا۔چل تو میں کوئی اور ٹھکانا ڈھونڈیں۔“
“ابے ٹھہرو۔۔“ استاد نے دبکا مارا تو غفورے نائی اور اسکے گاہکوں سمیت سب ہل گئے۔
“ابے کدھر جاؤ گے ۔اب اگر میں سدھر رہا ہوں تو کیا تم کو خراب رہنے دوں گا۔خبردار جو کسی نے مجھ کو آج سے استاد کہا۔غفور بھائی کہا کرو۔اور موٹے تم کو اب موٹے کے نام سے نہیں اصلی نام سے سب پکاریں گے۔شکیل ہے اس کا اصلی نام۔ سن لیا تم لوگوں نے؟؟“
“سن لیا جی۔سب نے یک آواز ہوکر کہا۔
“اوئے حمید اگر اب مجھے تو چرس کے سوٹے لگاتا نظر آگیا تو وہیں تیری چھترول شروع کردوں گا۔ خبردار جو دوکانداروں سے بھتہ وصول کیا اب تو۔اور ہاں اگر تم میری بات سے متفق نہیں تو جاسکتے ہو۔ مگر اس محلے میں تمہاری بدمعاشی نہیں‌ چلے گی اب۔“
“ٹھیک ہے استاد جیسے تو کہے۔ ہمیں تو تیرے ساتھ ہی رہنا ہے۔“حیمد اور شکیل نے اداس سی آواز میں کہا۔
اب کی بار استاد نے مشفقانہ لہجہ اپنایا۔“اوئے میرا بیاہ ہولینے دو پھر تم دونوں کا بھی کروا دوں گا۔پہلے اچھی طرح کام سیکھ لو پھر کہیں تم دونوں کو ایک ورکشاپ کھلوا دوں گا۔“
“ٹھیک ہے استاد۔۔“ ابے کہا نہیں کہ استاد نہیں‌ غفور بھائی۔
“ٹھیک ہے غفور بھائی جیسے آپ کہیں“ حمید نے سر جھکا کر کہا اور استاد نے اسے اور شکیل دونوں کے اپنے آدھے کٹے بالوں سمیت اٹھ کر گلے سے لگا لیا۔