منگل، 18 اگست، 2020

لفظ، علامت اور معنی

 کوئی ایک عشرہ قبل جب ہم نے لسانیات کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو زبان کے بنیادی خواص میں سے ایک کا علم حاصل ہوا۔ آربی ٹریری نیس یعنی آواز/ حروف اور معنی میں رشتے کا بے قاعدہ پن۔ آج ترجمہ کرتے ہوئے ایک لفظ 'اندر' پر نگاہ پڑی تو یہ لفظ انتہائی اجنبی معلوم پڑا۔ اشتقاقیات یا ایٹمالوجی (الفاظ کی تاریخ جاننے) کے علم کی رو سے اس لفظ کے حصے بخرے کر کے مزید ذیلی معنی دریافت کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ 'در' شاید فارسی سے آیا اور جس کا مطلب بھی 'اندر' یا شاید 'دروازہ' ہے۔

لیکن آوازوں یا حروف اور معنی کے درمیان بے قاعدہ رشتے کی خاصیت وہیں رہتی ہے۔ ان دو کے اس رشتے کی اجنبیت بالکل بھی کم نہیں ہوتی، اسے پنجابی میں جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی اور اردو میں زمین جنبد نہ جنبد گل محمد کہا جا سکتا ہے۔ درحقیقت یہ رشتہ صرف روایت یا کنونشن کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے، یعنی اگر ہمارے آباء و اجداد نے اس کی جگہ کوئی اور لفظ استعمال کر لیا ہوتا تو وہ آج اتنا ہی بامعنی ہوتا اور شاید اتنا ہی اجنبی بھی۔

اس معاملے میں مزید غور کرتے ہوئے آشکار ہوا کہ اگر اردو زبان یا اردو کی مادری زبانوں کے ارتقائی دور میں کسی نے گھوڑے کو پتھر اور پتھر کو گھوڑا کہہ دیا ہوتا اور ہمارے آباء و اجداد نے اس پر اتفاق رائے کر کے اسے روایت یا کنونشن کا درجہ دے دیا ہوتا تو آج کیا صورتحال ہوتی۔ اس حوالے سے ہمارے ذہن میں موجود زبان و بیان اور روزمرہ میں استعمال ہونے والے کچھ جملے آ گئے جن کی ترکیب کچھ یوں ہو جاتی:

اس نے گھوڑیلے لہجے میں کہا۔

گھوڑ دل۔

وہ کمال کا پتھر سوار ہے۔

پتھر ہڑبڑا کر سرپٹ بھاگ نکلا۔

مرد اور پتھر کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ان تمام جملوں کو درست کر کے بھی پڑھ لیا جائے لیکن تین چار مرتبہ دہرا کر اور ذرا غور کر کے پڑھا جائے تو۔۔۔ الفاظ یکدم اپنے معنی کے کپڑے اتار کر ننگ دھڑنگ بھاگ نکلتے ہیں۔ اور پیچھے قاری کے منہ پر بے اختیار پنجابی کا ایک روزمرہ جملہ آ جاتا ہے: اے کی بے غیرتی اے وئی۔

روایت سے یاد آیا کہ انسان کی سماجی زندگی اور اس کے سماج میں موجود ہر علامت کے معنی ایسے ہی متعین ہوتے ہیں جس میں برسوں، عشروں، صدیوں کے اتفاق رائے اور روایت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اور ہوتے ہوتے یہ علامتیں اتنی مقدس ہو جاتی ہیں کہ معنی اور علامت کے اس رشتے کی اٹوٹ اجنبیت پر سوال اٹھانا جرم بن جاتا ہے جس کا داغ خون سے دھو کر بھی دھل نہیں پاتا۔

منگل، 16 جون، 2020

ٹِڈ

اس ٹِڈ کے بڑھنے نے رسوا کیا مجھے (شاعر + روح یا بدروح سے اور بے وزنی پر معذرت)

لاک ڈاؤن کا ایک منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا ٹِڈ جسے انگریزی میں ڈھِڈ اور اردو میں پیٹ کہتے ہیں بڑھنے کی لت میں مبتلا ہو گیا، کہ ہم نے ورزش چھوڑے رکھی اور کھانا کھانے میں ہاتھ ہولا رکھنے کی بجائے ذرا زیادہ ہی رکھا۔

اب حالت یہ ہے کہ جینز پہنو تو اوپر سے ٹِڈ چاروں طرف تین فٹ لینٹر کے سے ناجائز تجاوزات کا منظر پیش کرتا ابل ابل کر بلکہ ڈُل ڈُل کر باہر کو نکل آتا ہے۔

امجد اسلام امجد سے معذرت کے ساتھ دوبارہ عرض ہے کہ
ٹ⁰ ٹِڈ اک ایسا دریا ہے
کہ بڑھنا¹ روک² بھی جائے
تو بڑھنا³ بند نہیں ہوتا
مندرجہ بالا کے مصداق، ہم اپنی پوری ٹِل لگا رہے ہیں کہ ٹِڈ
پھر عرض کیا ہے کہ
رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے ٹِڈی، پھر ٹِڈ اور پھر ٹِڈل ہو گئے
بے وزنی پر ایک مرتبہ پھر معذرت، لیکن کہنا یہ تھا کہ ٹِڈ بس ٹِڈ ہی رہے، اس کام کے لیے بہت زور لگ رہا ہے۔ دوڑ ہر دوسرے دن چار کلومیٹر اور ورزش ہر دوسرے دن (گوگل نے سارے زنانیوں کی ورزش والے اشتہار مجھے دکھانا شروع کیے ہوئے ہیں) جو ٹِڈ کے اطراف ہی گھومتی ہے۔
بس دعا کیجیے، بہت نازک صورتحال ہے، سات جینز کی پینٹیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے اور پھر نئی بھی لینا پڑیں گی۔

----------------

⁰ وزن پورا کرنے کے لیے

¹ آگے کو

² وزن کی مجبوری ہے اس لیے رک کی بجائے روک

³ باقی اطراف کو