ہفتہ، 23 جنوری، 2016

اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی محروم نہیں رہا۔

اس بلاگ کے ایک قاری زبیر صاحب کی کاوش
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّىْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَيْبًا وَّلَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم4)
کہا اے میرے رب! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور سر میں بڑھاپا چمکنے لگا ہے اور میرے رب! تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں ہوا۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔
اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی نامراد نہ رہا۔
بوڑھے زکریاؑ  کو اولاد کی تمنا ہے۔ آہستہ سے پالنے والے کو پکارتے ہیں۔ دعا کرتے ہوئے ان کے لہجے کی امید اور رب پر مان نے آج میری آنکھیں نم کر
دیں۔ کتنا مان تھا ان لفظوں میں کہ رب العالمین نے انہیں قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔
بندہ ہونے کا احساس کیسے اپنے عروج پر ہے۔ زکریاؑ جانتے ہیں کہ یہیں سے ملا ہے اور یہیں سے ملے گا۔ 
کاش میں بھی اُس کا ایسا ہی بندہ بن جاؤں۔ مجھے احساس ہو جائے کہ وہیں سے ملا ہے اور وہیں سے ملے گا۔ کاش مجھے اُس پر زکریاؑ کے مان کے ایک لاکھویں حصے جتنا ہی مان ہو جائے۔ کاش جب میرے ہاتھ اٹھیں تو اس نیت سے اٹھیں کہ اسی در سے میری حاجت روائی ہو گی۔
آج زکریاؑ کے الفاظ برت کر ہی ایک رذیل کمین بھی بارگاہِ ایزدی میں ہاتھ اٹھائے گا تو اپنے لہجے میں کچھ مان رکھنے کی کوشش کرے گا۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔
تیری بارگاہ سے سب کچھ ملا۔ 
تیرے ہی در سے ہمیشہ حاجت روائی ہوئی۔
تو ہی میرا مولا ہے۔
تو اپنے حبیب ﷺ کے صدقے مجھ پر اپنا کرم رکھیو۔
لَمْ اَكُنْ بِدُعَآئِكَ رَبِّ شَقِيًّا
اے میرے رب میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا۔

جمعرات، 21 جنوری، 2016

ایک سانحہ اور

آج صبح ناشتے کے دوران ہی فیس بک پر یہ خبر نظر آ گئی تھی۔ یہ واقعہ ہوئے بھی چار گھنٹے بیت چکے تھے۔ اس کے بعد سارا دن اندر کھُد بُد لگی رہی اور ہر کچھ دیر بعد موبائل پر بی بی سی اردو یا ایکسپریس پی کے کھل جاتی اور اب رات ہو چکی ہے۔ میرے سامنے بھانت بھانت کے لوگ بھانت بھانت کی باتیں کر کے اپنے اپنے بستروں میں جا چکے ہیں۔ آپریشن کے بعد جامعہ کو کلیئر قرار دیا جا چکا ہے۔ شہداء کے لواحقین پر قیامت کا سماں ہے۔ دہشت گرد چار بندے مروا کر بھی جشن کی کیفیت میں ہوں گے۔ میرے ملک کی سلامتی کے ذمہ دار بھی لکیر پیٹ چکے ہیں، کھرا نکالنے کے بیانات دے چکے ہیں۔ اور میں یہاں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ کیا لکھوں؟ میں ایک استاد ہوں۔ زندگی کے تین عشرے جس ایک کام کے لیے محنت کی وہ کسی جامعہ میں تدریسی عہدے کا حصول تھا۔ جب واپس جاؤں گا تو تدریس میرا اوڑھنا بچھونا ہو گی۔ تو میں یہ سوچ رکھوں کہ باچا خان یونیورسٹی کے دو پروفیسروں اور طلبہ کی طرح دہشت گرد میرے بھی منتظر ہوں گے؟ وہ میری یونیورسٹی کی دیواریں پھلانگ کر میرے بچوں کو میرے سامنے گولیاں مارنے چلے آئیں گے؟ کیا مجھے پی ایچ ڈی کے ساتھ ان سے نمٹنے کی ٹریننگ بھی لینی ہو گی؟

میں بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ میرے وطن میں نصف رات گزر چکی ہے اور میں یہاں اتنی دور بیٹھا ایسی ہی لایعنی باتیں سوچ رہا ہوں۔ کہ میرے وطن میں استاد کی کوئی اوقات تو نہیں رہی تھی اب اس کو جینے کا حق بھی نہیں ملے گا؟ میرے وطن میں تعلیم تو پہلے ہی نایاب تھی جو پڑھنا چاہتے ہیں گولیاں ہی ان کا مقدر رہیں گی؟ میں بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں۔ میری آنکھیں خشک ہیں، میرا دل سرد صحرا ہے جس میں دور دور تک کوئی سوچ نہیں ابھرتی۔ بس اس طرح کے سینکڑوں سوال بگولوں کی طرح چکراتے پھرتے ہیں۔

جمعرات، 7 جنوری، 2016

خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی

کچھ قارئین کے خیال میں کبھی کبھی میں بہت اچھا لکھ لیتا ہوں۔ لفظ جوڑنا بڑی پرانی بیماری ہے۔ عرصہ ہوا، ایک عشرہ اس بلاگ کو ہو گیا اور اس سے بھی پہلے سے لفظ جوڑ جوڑ کر ٹاٹ بُننے کی عادت ہے۔ کبھی کبھی لفظوں کی کُترن سے بنی یہ گدڑیاں اتنی اچھی بن جاتی ہیں کہ دیکھنے والے پسندیدگی کی رعایت دے جاتے ہیں۔ لفظ لکھاری کے غلام ہوتے ہیں۔ جیسے لوہا لوہار کا غلام ہوتا ہے، اس کے ہاتھوں میں ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ جیسے بڑھئی لکڑی میں سے اور مصور رنگوں میں سے شاہکار نکال لاتا ہے۔ لیکن میرے جیسے لفظوں کے لکھاری نہیں لفظوں کے بھکاری ہوا کرتے ہیں۔ کہ جب دل کرے لفظ مہربان ہو جاتے ہیں اور جب دل کرے رُوٹھ جاتے ہیں۔ لفظوں کی یہ لُکن میٹی تاعمر چلتی ہے، دھوپ چھاؤں کا کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اسی لیے کبھی کبھی تو پوبارہ ہو جاتے ہیں لیکن اکثر تین کانے ہی نکلتے ہیں۔

سنا ہے اقبال پر اشعار اُترا کرتے تھے۔ جب میرے جیسے بھکاری یہ سنتے ہیں تو خود کو اقبال نہیں تو اس کے آس پڑوس کی کوئی چیز سمجھ کر لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ لیکن لفظ رُوٹھے ہوں تو خالی کاغذ منہ چِڑاتا رہتا ہے۔ چار حرف جُڑ بھی جائیں تو معنی سے خالی، بے روح ڈھانچے وجود میں آتے ہیں۔ ذہن و دل میں جو کچھ کہنے کی تمنا ہوتی ہے اس کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ جب لکھنا بھی ہو اور لفظ نہ ملیں تو اندر مانو آرے چلتے ہیں، بن پانی کے مچھلی کے کلیجے پر بھی شاید ایسے ہی آرے چلتے ہوں گے۔ جہاں کچھ بھی نہ ہو، کوئی ہریاول نہ ہو، بنجر بیابان ویرانہ ہو، وہاں سے بھلا چشمہ کیسے پھُوٹے؟ جب زبردستی چشمہ نکالنے کی کوشش کرو تو پھر یہی کچھ ہو گا۔ خلا میں سانس لینے سے بھلا آکسیجن تو نہیں مل جائے گی نا۔

بے بسی، بے کسی، کم مائیگی، کونسا احساس ہے جو اس تڑپن میں شامل نہیں ہوتا۔ اور جب لکھنا کسی ایسی ہستی کے بارے میں ہو، کہ جس کے بارے میں لکھنے میں لوگ فخر محسوس کریں، اور شاکر جیسے کمی کمین بھی ان ﷺکے مدح خوانوں میں نام لکھوانا چاہیں، لیکن لفظ نہ ملیں۔ دل کا مُدعا زبان پر آنے سے پہلے ہی آنسوؤں کے راستے بہ نکلے۔ تو ایسی بے بسی اور بے کسی کو کیا نام دیا جائے۔ حسان بن ثابتؓ سے لے کر آج تک ان کے جتنے مدح خواں ہوئے، کتنے خوش نصیب لگتے ہیں۔ اور پھر اپنے جلے نصیبوں پر نگاہ جاتی ہے تو اور رونا آتا ہے۔ آنسو اور اُبل پڑتے ہیں۔ محمد الرسول اللہ ﷺ کی شان میں لکھنے والے کتنے خوش نصیب ہیں۔ شاعر ان کی شان میں شعر کہتے ہیں، کتنے خوبصورت شعر کہتے ہیں۔ شاکر جیسے کمی کمین شعر نہیں کہہ سکتے تو نثر کے چار لفظ بھی نہیں لکھ پاتے کہ ان کی اتنی اوقات نہیں ہے۔ رحمتِ ایزدی کی آس میں نظریں ہر بار خالی لوٹ آتی ہیں، کاسہ لفظوں سے خالی ہی رہتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ آنسو بھی خشک ہو جاتے ہیں۔ صرف سسکیاں باقی رہ جاتی ہیں۔ اور حسن نثار پر رشک آتا ہے۔

تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
کوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتا
سانس تُو لیتا اور میں جی اُٹھتا
کاش مکہ کی میں فضا ہوتا
خاک ہوتا میں تیری گلیوں کی
اور تیرے پاؤں چومتا ہوتا

اتوار، 3 جنوری، 2016

دو مناظر

میرے سامنے دو مناظر ہیں، دو تصاویر، ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ موجود لیکن متضاد تصاویر اور میں ان دونوں تصاویر میں ایک مِس فٹ عنصر:

میری کھڑی کے پار پہلا منظر جیسے صدیوں سے یونہی ساکن ہے۔۔کسی مصور کی پینٹنگ کی طرح۔۔۔تاحدِ نگاہ برستی بارش ۔۔ایک کے بعد ایک قطرہ ایسے قطار اندر قطار اترتا چلا آتا ہے جیسے آسمان سے زمین تک پانی کی چادر ٹنگی ہوئی ہو۔ ایک مخصوص ردھم میں ہلتے درخت اور اکثر کانوں تک پہنچ جانے والی ٹِپ ٹِپ کی  آواز۔ لیکن اس منظر کے سکون میں کبھی کبھی ہلچل پیدا ہو جاتی ہے اور جیسے زندگی انگڑائی لے کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگتی ہے۔۔۔کسی کار کے گزرنے سے، کسی چمنی سے دھواں برآمد ہونے سے، کسی پرندے کے منظر میں در آنے سے۔ اب پھر اس ابدی پینٹنگ میں زندگی نظر آ رہی ہے کہ ایک پرندہ بارش کے خلاف بغاوت کر کے گھر سے نکل آیا ہے۔۔۔۔

یہ میری نسل کے لوگوں کا ا لمیہ ہے یا خوش قسمتی کہ میرے سامنے ایک دوسرا منظر بھی ہے۔ میرے لیپ ٹاپ کی برقی اسکرین پر چلتا ہوا ڈیجیٹل منظر۔۔جس پر کھڑکی کے باہر ہونے والے عوامل کا کوئی اثر نہیں ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ منظر برقی اشاروں سے تخلیق کردہ ایک فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں، کہ ماؤس سے کلک کرنے اور لیپ ٹاپ اسکرین پر ہاتھ لگانے سے ردعمل کا احساس سب مصنوعی ہیں۔ لیکن حقیقت سے مجاز اور قدرتی سے مصنوعی کا فرق آج مجھے اچھا لگتا ہے۔ یہی وہ منظر ہے جس پر میرے اپنے، ہزاروں میل دور میرے دیس میں موجود میرے اپنے نمودار ہوتے ہیں تو میں چند لمحوں کے لیے کھڑکی کے باہر منجمد اس ازلی تصویر سے جدا ہو کر وہاں جا موجود ہوتا ہوں، ان گلی کُوچوں میں جن کا طواف میری روح اب بھی کرتی ہے۔ اور اسی مصنوعی منظر پر بار بار کچھ نئے چہرے بھی اُبھر آتے ہیں۔ زندہ، جوان، شوخ، چنچل، اور شرارت بھری آنکھوں والے کھلکھلاتے چہرے جنہیں ایک ماہ پہلے تک میں جانتا بھی نہ تھا۔ لیکن اب وہ ایک اجنبی دیس میں جیسے میرا خاندان ہیں۔ میرے دیس کی جانب کھُلنے والی کھڑکی، مجھے میرے اپنوں کی یاد دلاتے، حوصلہ دلاتے میرے اپنے، میرے مُلک کا سرمایہ، میرے مُلک کے ذہین ترین دماغ۔۔۔جن کا ساتھ میرے لیے باعثِ حوصلہ اور باعثِ فخر ہے۔

اور پھر میں ہوں، ان دونوں مناظر میں ایک مِس فٹ عنصر۔۔۔۔۔