پیر، 28 مارچ، 2016

ہر سانحے کے بعد

ہر کربلا کے بعد، ہر سانحے کے بعد، ہر گلشن اجڑ جانے کے بعد میں جو ایک پیشہ ور نوحہ گر ہوں بیٹھتا ہوں، نوحہ لکھتا ہوں۔ میں جو ایک پیشہ ور عزا دار ہوں، سینہ پیٹتا ہوں۔ ہر قیامت گزرنے کے بعد گریبان چاک کیے گلیوں میں مرثیے پڑھتا پھِرتا ہوں۔ ہر بار میرا دل کرتا ہے کاش میں اُن ﷺ کے قدموں میں جا کر بیٹھ سکتا۔ اُن ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر، اُن ﷺ کے سامنے بیٹھ کر رو رو کر پگھل جاتا۔ اُنھیں بتاتا کہ
سیدی ﷺ میرا وطن لہو لہو ہے۔
سیدی ﷺ، آپ کے نام لیواؤں نے ایک دوسرے پر زمین تنگ کر دی ہے۔
سیدی ﷺ میرے وطن میں بہار اُترے تو وہ بھی خزاں میں بدل جاتی ہے۔
سیدی ﷺ جہاں میرے نونہالوں کے گلشن ہونا تھے وہاں بارود اور موت کا راج ہے۔
سیدی ﷺ جہاں گلابوں کی کیاریاں ہونی تھیں وہاں خون کی سرخی کے کیارے ہیں۔
سیدی ﷺ اب تو لگتا ہے کہ نیلی چھتری والے نے بھی ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں۔
سیدی ﷺ آنکھیں رو رو کر صحرا ہو گئیں لیکن رحمت کی بارش نہیں برستی۔
سیدی ﷺ لگتا ہے کہ دعائیں بھی آدھ رستے سے واپس لوٹ آتی ہیں۔
سیدی ﷺ میں لاشے اُٹھا اُٹھا کر تھک گیا ہوں۔
کاش میں ان ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو سکوں۔ ان ﷺ کے سامنے رو رو کر پگھل جاؤں، ان ﷺ کے پیروں کی خاک ہو جاؤں ۔ کاش رنج و الم کی یہ گٹھڑی جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بھاری ہوتی چلی جاتی ہے، میں انﷺ کے سامنے لےجا  کر رکھوں، انھیں ایک ایک زخم کھول کھول کر دکھاؤں۔ کاش مالک مجھ پر یہ کرم کر دے کہ میں اُن ﷺ کے سامنے حاضر ہو سکوں۔ اور عرض کروں کہ سیدی ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے، ہم سے آسمان والا روٹھ گیا، ہماری سفارش کیجیے۔ سیدی ﷺ ہمیں کالی کملی کے سائے میں چھُپا لیجیے۔

اتوار، 27 مارچ، 2016

اللہ کے فضل کی تلاش

میں نے جب یہ سنا کہ اللہ کو گِڑ گِڑانا بہت پسند ہے، ہاتھ پھیلائے اس کے در پر بھیک مانگو تو اسے دینا اچھا لگتا ہے، تو میں نے اپنی دعاؤں میں گِڑگِڑانا شروع کر دیا۔ جب پتا چلا کہ اس کا شکر کرنے سے وہ اور دیتا ہے، تومیں نے طوطے کی طرح شکر کا رٹا لگانا شروع کر دیا۔ جب معلوم ہوا کہ ادھار دو تو وہ دس گُنا بڑھا کر دیتا ہے، میں نے اُس کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا، اس نیت سے کہ اب مال دس گُنا ہو کر واپس آئے گا۔ اُس نے ہر طرح سے مجھے دیا۔ مانگنے پر دیا، شکر کرنے پر دیا اور اپنی راہ میں دینے پر اور زیادہ دیا۔ بابا جی سرفراز اے شاہ صاحب اللہ سائیں سے اس کا فضل اور کرم مانگنے کا کہا کرتے ہیں۔ میں نے جب یہ جانا تو اپنی دعاؤں میں پوری مصنوعی عاجزی طاری کر کے اور مسکین منہ بنا کر اس کا فضل، رحمت، کرم ، عطاء جو لفظ میری لغت میں اس کی رحمت کو ڈیفائن کرنے کے لیے موجود تھا سب استعمال کر کر کے اس سے مانگنا شروع کر دیا۔ تب اُس نے مجھے اور زیادہ عطاء کیا۔

میں پاکستان کی نوے فیصد آبادی کی طرح غربت کو دیکھ کر پلا بڑھا۔ پالنہار کی مہربانی اس نے کبھی بھُوکا نہیں سُلایا، لیکن اپنے والدین کو روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جب سخت جدوجہد کرتے دیکھا تو میرے سامنے خودبخود پہلی منزل یہ آ گئی کہ اتنا کمالوں کہ انہیں دوبارہ وہ دن نہ دیکھنے پڑیں۔ تو میں نے اللہ سے جب اس کا فضل مانگنا شروع کیا تو اس کے بیک اینڈ پر بھی یہی معنی ہوتے کہ اللہ جی بہت سا رزق یعنی روپیہ دے دیجیے۔ کافی زیادہ، بلکہ بہت زیادہ سا۔ اور اس نے مجھے دیا۔ پھر میں نے سنا کہ رزق صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا، اس کی اور بھی بے شمار صورتیں ہیں جیسے اولاد۔ اسی طرح اس کا فضل صرف روپے کی صورت میں نہیں ملتا اس کی بھی بے شمار صورتیں ہیں۔

آج ہمارا جرمن لینگوئج کورس باضابطہ طور پر ختم ہو گیا، ہمارا آخری ٹیسٹ بھی ہو گیا اور ہم یونیورسٹی جانے کے لیے آزاد ہو گئے۔ آج اپنے احباب کے درمیان ایک الوداعی سی تقریب میں وقت گزارا تو احساس ہوا کہ اہل علم کی صحبت بھی اس کا فضل ہے۔ پچھلے چار ماہ مُجھ پر پالنہار کا یہ فضل رہا کہ میں پاکستان کے بہترین دماغوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا رہا۔ ان میں سے ہر ایک جو اپنے شعبے کا ماہر ہے، جس کا اظہار ان کی گفتگو سے ہوتا۔ ان کے اندازِ تخاطب، نشست و برخاست اور طرزِ عمل سے پتا چلتا کہ یہ لوگ اس مقام کے حقدار تھے۔ یہ پاکستان میں جب اپنے اپنے شعبے میں، تدریس یا تحقیق جہاں بھی ہوتے ہوں گے تو وہاں اس کی ترقی کے لیے کتنے مؤثر ہوں گے۔ اور آج جب یہ یہاں ہیں، اور تین برس بعد واپس ڈاکٹر بن کر جائیں گے تو ان کی مہارت سے میرے ملک کو کتنا فائدہ ہو گا۔ تو مجھے بڑی شدت سے یہ احساس ہوا کہ ان کے ساتھ رہنا بھی باعثِ سعادت تھا۔ میں جو کسی زمانے میں اپنے والد کی ناشتے کی ریڑھی پر بیرا گیری کرتا تھا، آج مُجھے اُس کریم کی ذات نے کہاں لا بٹھایا ہے۔ تو مجھے احساس ہوا کہ مجھ پر اس کا کِتنا فضل اور رحمت ہے۔ اور جو میں طوطے کی طرح ہر دعا میں آموختہ دوہراتا ہوں کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج، مجھ پر اپنا کرم کر دے، فضل کر دے، عطاء کر دے، تو وہ دعائیں رائیگاں نہیں جا رہیں۔ اس کی بارگاہ میں قبولیت پا رہی ہیں۔ تو میرا سر اس کی رحمت کے احساس سے جھُک گیا۔

میں نے آج یہ سیکھا کہ اچھا حلقۂ احباب بھی اس کا فضل ہے۔ علمِ نافع بھی اس کا فضل ہے۔ چاہے وہ دنیا کا ہو یا دین کا۔ میں نے یہ جانا کہ میں اور میرے یہ سب ساتھی، واپس جا کر اپنے اپنے شعبے میں اپنے وطن کی ترقی کے لیے کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔ جس کا فائدہ عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہونے کی صورت میں ہو گا۔ پالیسی سازی، قانون سازی، تدریس اور تحقیق میں اس کا بالواسطہ اور بلاواسطہ اثر ہو گا۔ ان سب کی نیت نیک ہے، تو ان کا علم حاصل کرنے کا عمل بھی ایک نیک عمل قرار پائے گا۔ اور اس کی توفیق بھی اُس ذات کا فضل ہے۔ میں اپنے رب سے دعا گو ہوں کہ وہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے ہم سب کو نیک نیتی کی توفیق دے، ہمیں اپنے اپنے شعبے کی بہتری کے لیے صدقِ دل اور دیانتداری سے کام کرنے کی توفیق دے۔ اور ہمارے اس علم کو اپنی مخلوق کی مدد کرنے کا آلہ، ان کی زندگی آسان بنانے کا ذریعہ اور ہمارے اہل و عیال کے لیے رزقِ حلال کے حصول کا وسیلہ بنا دے۔ آمین، یارب العالمین۔

اتوار، 20 مارچ، 2016

ایک شہر

شہر تھا، نہروں کا شہر ایمسٹرڈیم۔ جال تھا، ایک دوسرے کو کاٹتی ہر طرف کو بڑھتی چلی جاتی سڑکوں کا جال۔ مشینیں تھیں، سڑکوں پر دوڑتی ان گنت مشینیں۔ عمارتیں تھیں، قطار اندر قطار کھڑی چھوٹی  بڑی قدیم اور جدید عمارتیں۔ وجود تھے، دو ٹانگوں والے ہزاروں وجود، آپس میں مگن چلتے رکتے چہلیں کرتے وجود۔ اور ایک مسافر تھا، تنہا مسافر۔

پانی تھا، گدلا سبزئی پانی۔ بجرے تھے، کشتیاں تھیں اور گھر تھے۔ ان میں آنکھیں تھیں، متجسس آنکھیں، مگن آنکھیں، ٹٹولتی آنکھیں، کچھ ڈھونڈتی آنکھیں۔ جنگل تھا، کنکریٹ کا جنگل، آپس میں مگن، بے نیاز عمارتوں کا جنگل۔ اور ایک مسافر تھا، بے قرار مسافر۔

آسمان تھا، سرمئی چادر اوڑھے نیم روشن آسمان۔ ہوا تھی، سرد اور بے پرواہ ہوا۔ سورج تھا، بادلوں کی اوٹ میں چھپا شرمندہ سا سورج۔ درخت تھے، پتوں سے عاری ٹنڈ منڈ درخت۔ اور ایک مسافر تھا، اجنبی مسافر۔

بستی تھی، سرخی میں ڈوبی ایک بستی۔ پنجرے تھے، شیشے کے پنجرے۔ مال تھا، غازے میک اپ سے سجا مال، جوان بوڑھا خوبصورت بھدا مال۔ چہرے تھے، تاثرات سے عاری چہرے، لُبھاتے بُلاتے چہرے۔  نگاہیں تھیں، ہوس ناک نگاہیں، کھا جانے والی نگاہیں۔ اور ایک مسافر تھا، سزا جزا نیکی بدی کے بیچ معلق مسافر۔

رات تھی، سیاہ رات۔ روشنیاں تھیں، ہر طرف سے پھُوٹتی روشنیاں، دعوت انگیز روشنیاں۔ رنگ تھے، چمکیلے بھڑکیلے رنگ۔ اجنبیت تھی، زمین سے اُبلتی اجنبیت۔ تنہائی تھی، لامتناہی تنہائی۔ اور ایک مسافر تھا، سرگرداں مسافر۔

جمعہ، 18 مارچ، 2016

اعتراف

آج میرے لینگوئج سکول میں ہم نے اپنے اساتذہ کے لیے ایک الوداعی پارٹی رکھی تھی۔ یہاں چار ماہ گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ میرے ملک کے عظیم دماغ جن کی صحبت کا شرف مجھے حاصل رہا۔ سائنس، معیشت، قانون غرض ہر شعبے کے ابھرتے ہوئے ستارے اور مجھ جیسا ایک عام سا انسان جو بس تُکے سے ان کے ہمراہ ہو لیا۔ پنجابی میں اسے انھے ہتھ بٹیرا (اندھے کے ہاتھ بٹیر) والی مثال سے سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ میں استاد ہوں اور میں نے یہ بھی مشہور کر رکھا ہے کہ کئی برس سے ترجمہ کر کر کے میں اچھا خاصا مترجم ہو چکا ہوں۔ دوسروں کے الفاظ ترجمہ کر  کر کے اور لوگوں کی کتب سے پڑھا پڑھا کر مجھے چند لفظ کہنے اور لکھنے کا فن آ گیا ہے۔ میرے احباب نے میرے اس بہروپ کو سچ سمجھ کر جب الوداعی کلمات بولنے کے لیے کھڑا کیا تو اپنی کم مائیگی  کا احساس اور شدید ہو گیا۔ اتنے بڑے بڑے لوگ اور ان کے سامنے کھڑا ایک بونا بھلا کیا بولتا۔ انگریزی میں چند جملے بول کر رہ گیا۔ وہ لفظ تو میری زبان سے نکل گئے، لیکن مجھے بہت دیر بعد (جیسا کہ میرا معمول ہے) احساس ہوا کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے۔ کہ ان عظیم دماغوں کا ساتھ اب چند دنوں کا ہی ہے۔ پھر سب اپنے اپنے شہر پی ایچ ڈی کے لیے چلے جائیں گے، اور میں جو ان کی تابانی سے روشن ہو کر خود کو بھی ایک ہیرا سمجھنے لگ گیا تھا پھر سے بے قیمت کوئلہ رہ جاؤں گا۔

بھلا صلاح الدین جیسا ہنس مُکھ اور بے لوث دوست کہاں ملے گا۔ اس کی سدا بہار مسکراہٹ اور ایک خاص وقفے سے بلند ہوتی ہوئی ہنسی، عبدالرحمٰن کا افسرانہ انداز اور نپی تلی باتیں بھلا کون بھولے گا۔ عمران کی کھلکھلاتی ہوئی خاموش مسکراہٹ، رانا فیصل شہزاد کا اپنی تعریف پر جھینپتے ہوئے قہقہے لگانا، محمد فیصل کا میری جگت اندازی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا، ظفر صاحب  کا حیران کن حد تک وسیع جرمن ذخیرۂ الفاظ، سہیل آفتاب بھائی کامشفقانہ اور بزرگانہ انداز ۔۔ تنزیلہ علوی، غزالہ عنبرین، عظمیٰ علی جنہوں نے مجھے چھوٹا بھائی سمجھ کر سُدھارنے کی کوشش کی اور جو سخت ناکامی سے دوچار ہوئی، بشرٰی غفران احمد کا سو سنار کی کے جواب میں ایک لوہار کی چوٹ لگانا اور اس پر مخاطب کا بلبلا اُٹھنا، میمونہ منیر کا پانچ سالہ تدریسی تجربہ جو انہوں نے اس کلاس میں بے دریغ آزمایا اور ماریہ (اور ان کا بیٹا محمد عبداللہ)۔۔۔ یہ سب لوگ ستاروں کا ایک ایسا کلسٹر تھے جن کے قریب سے گزرتے گزرتے میں، ایک آوارہ سیارہ، کچھ عرصے کے لیے روشن ہو گیا۔ اور جب یہ سفر ختم ہوا تو پھر سے اندھیرا اس بے آب و گیاہ وجود کا مقدر ہو گا۔

جے میں ویکھاں عملاں ولے
کُجھ نئیں میرے پلے

جے ویکھاں تیری رحمت ولے
بلے بلے بلے

میرے پلّے تو کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔ میں کل بھی تہی دامن تھا، آج بھی خالی ہاتھ ہوں۔ جو کچھ ہے اُس کی رحمت ہے۔ ان احباب کا ساتھ بھی اس کی رحمتوں میں سے ایک رحمت تھی۔ میرے لیے بہت کچھ سیکھنے کا موقع، جو میری نالائقی سے ضائع جا رہا ہے۔ جب میرے ہاتھ اُٹھیں اور آنکھیں بھر آئی ہوں تو منہ سے یہی لفظ ادا ہوا کرتے ہیں کہ مالک یہ تو تُجھے اور مُجھے پتا ہے کہ میرے پلّے کچھ نہیں ہے۔ لیکن تُو تو ستّار ہے، تُو میرے عیبوں پر پردہ ڈالے رکھیو، یہ جو بہروپ میں نے بھر رکھا ہے، جو سوانگ رچا رکھا ہے اس پر اپنی عطاء کی چادر ڈالے رکھیو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاکر بہت کچھ ہے، لیکن یہ تو تُو اور میں جانتے ہیں کہ شاکر نامی یہ مٹی کا باوا ہر سانس تیری رحمت کا منتظر ہے، جس سانس تیرا کرم اس پر سے اُٹھا وہ سانس اس کی آخری سانس ہو گی۔

اتوار، 13 مارچ، 2016

میں کیسا بلاگر ہوں؟

میں ایک بلاگر ہوں۔ ایک عدد بلاگ بنا کر اردو بلاگنگ نامی سڑک کے کنارے عرصہ دس برس سے پڑا ہوا ایک ایسا پتھر ہوں جس پر دھوپ، بارش، گرمی، سردی  نے کچھ نشانات چھوڑ دئیے ہیں، کہیں کچھ کائی سی جمی ہے، کچھ خراشیں آ چکی ہیں، کچھ کنارے جھڑ چُکے ہیں اور کچھ رنگ اُڑ چکا ہے۔ یعنی بحیثیتِ مجموعی ایک "قدیم" حجر شمار ہو سکتا ہوں۔ اس "قدامت" پر اکثر اوقات مجھے ایک کمینہ سا فخر رہا کرتا ہے۔

میں اردو بلاگنگ نامی سڑک کا ایک ایسا سنگِ میل ہوں جو ایک ویرانے میں نصب ہے۔ جب یہ سڑک میرے پاس سے گزرتی ہے تو صرف ویرانہ اور بنجر بیابان زمین نظر آتی ہے۔ گو کہ یہ سڑک بڑے زرخیز خِطوں اور علاقوں سے گزرتی ہے،  اس کی راہ میں بڑے نابغۂ روزگار لکھاریوں کے گھر آتے ہیں اور پھر اب تو اردو بلاگنگ نامی یہ سڑک ڈان اردو، جنگ بلاگز، ہم سب اور لالٹین جیسے کئی بڑے بڑے شہروں تک بھی جاتی ہے۔ لیکن میں ایک تنہائی پسند پتھر ہوں جسے اس سڑک کا ایک گمنام سا سنگِ میل رہنا منظور ہے۔

میں بلاگر ہونے کے ناطے ایک لکھاری بھی ہوں۔ لیکن میری مثال راج مستری کے مقابلے میں ایک ایسے مزدور کی سی ہے جو اینٹیں ڈھونے کے ساتھ ساتھ فرش ہموار کر کے اس پر سیمنٹ ڈال کر ذرا پکا صحن بنانے کا کام بھی جاننے لگ جاتا ہے۔ اور اسی جاننے میں خود کو راج مستری سمجھنے لگتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی ایک نیم پکا ہوا لکھاری ہوں جس کا مطالعہ کم ہوتے ہوتے صفر تک آن پہنچا ہے۔ جس کے پاس مشاہدہ نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ وہ جب لکھتا ہے تو راج مستری نما مزدور کی طرح ایک اونچا نیچا فرش بنا دیتا ہے۔ دیوار کھڑی کرتا ہے تو ٹیڑھی ہوتی ہے، چھت ڈالتا ہے تو پہلی برسات میں ہی رِسنے لگتی ہے۔ میں ایک ایسا لکھاری ہوں جو کنویں میں رہنے والے مینڈک کی طرح صرف ایک اور شخصیت سے واقف ہوتا ہے : اس کا اپنا عکس۔ چنانچہ جب کنویں کا مینڈک کچھ ارشاد کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی شان میں ہی فرمائی گئی کوئی بات ہوتی ہے۔ میری تنگ دستی، کم فہمی اور کوتاہ نظری کسی بھی بیرونی معاملے پر میری تحریر کے امکانات صفر کر دیتی ہے نتیجتاً میں خود پر، اپنے بارے میں، اپنے سے متعلق اشیاء کے بارے میں لکھتا ہوں جس کا پڑھنے والے سے شاذ ہی کوئی تعلق نکلتا ہے۔

اپنے اس بے ترتیب، بے ڈھنگے سفر میں مُجھ سے نادانستگی میں کچھ ایسی بلاگ پوسٹیں سرزد ہو چکی ہیں جنہیں وسیع و عریض صحرا میں پانی کے سراب سے تشبیہ دینا زیادہ مناسب رہے گا۔ کہ کبھی کبھی میرے قارئین کو لگتا ہے کہ میں ایک ہنرمند مستری قسم کا لکھاری ہو چکا ہوں۔ لیکن یہ کیفیت برسوں میں ہی کبھی وارد ہوتی ہے۔ اپنی اس مختصر سی بلاگ زندگی میں چلتے چلتے بائی داو ے قسم کے دو چار ایسے کام مجھ سے سرزد ہو چکے ہیں جن پر بلاشبہ مذکورہ بالا کمینہ سا فخر میں اپنا حق خیال کرتا ہوں۔ ان میں کسی زمانے میں ورڈپریس کے ترجمے کی کوشش، لینکس آپریٹنگ سسٹم کی تنصیب کے اسباق، اردو بلاگنگ کے حوالے سے کچھ پوسٹس، کچھ اردو نیوز ویب سائٹس کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ایک ٹیکسٹ آرکائیو بنانا، اور حالیہ برسوں میں اپنے ترجمے کے کام کو آسان بنانے کے لیے ادھر اُدھر سے ڈیٹا اکٹھا کر کے دو تین آفلائن اردو لغت ڈیٹا بیسز کی تخلیق جیسی چیزیں شامل ہیں۔

تنہائی کا دائمی مریض ہونے کی وجہ سے اپنے بِل سے نکلنا مجھے کم ہی پسند ہے ۔ لیکن کبھی کبھی تجربے کی خاطر میں سوشل گیدرنگ میں بھی چلا جاتا ہوں۔ چنانچہ چند ایک اردو بلاگرز جو مجھ سے بالمشافہ ملاقات کا شرف رکھتے ہیں وہ تصدیق کریں گے کہ ان الفاظ کو لکھنے والی ٹنڈمنڈ شخصیت کو دیکھ ان شاخوں پر کبھی بہار نہ اترنے کا گمان یقین میں بدل جاتا ہے۔

چنانچہ اے میرے قارئین (اگر کوئی ہے تو) میری بلاگنگ پاکستان میں موسمِ گرما میں بجلی کی فراہمی جیسی ہے جو اکثر غائب رہتی ہے لیکن کبھی کبھار آ بھی جاتی ہے۔ بلاگنگ کے نام پر ایک داغ ہونے کی حیثیت سے میں شرمندہ شرمندہ کسی کو اپنے بلاگ پر کھینچنے کے لیے جگہ جگہ اپنی بلاگ پوسٹس کے ربط نہیں دیتا، کسی بڑی ویب سائٹ کو اپنی تحریر نہیں بھیجتا (اگر ایسا کبھی ہوا بھی تو ناقابلِ اشاعت کا پیغام بھی موصول نہیں ہوتا)، اپنے بلاگ پر سینکڑوں پیج ویوز کی شماریات کا اعلان نہیں کرتا (چونکہ سینکڑوں پیج ویوز ہوتے ہی نہیں) اور اپنے بلاگ پر لکھے کو دو چار ماہ بعد خود ہی پڑھ کر خوش ہو لیتا ہوں۔ 

تو جناب آج آپ نے جانا کہ میں کیسا (یعنی کس قسم کا) اور کیسے (یعنی کس طرح سے) بلاگر ہوں۔ تو آپ اگر مانیں یا نہ مانیں میں ایک بلاگر ہوں، اور بلاگنگ کے گلے میں اٹکا ایک ایسا کانٹا ہوں جو نہ نِگلا جا سکتا ہے اور نہ اُگلا جا سکتا ہے۔