جمعرات، 26 مارچ، 2009

ہجرت

ایک بار پھر سے ہجرت۔۔اور اب کے لگتا ہے ہمیں بھی کوئی بلاگر مہاجر موومنٹ بنا لینی چاہیے جس کی صدارت وغیرہ وغیرہ ظاہر ہے ہمارے ہی ناتواں کندھوں پر ہوگی۔ خیر یہ تو نکتہ معترضہ تھا۔ عرض یہ ہے کہ ہمارا ڈومین اردو کوڈر ڈاٹ کوم بہ کمال مہربانی منتظمین اردو ویب، اردو ویب کے سرور پر ہی ہوسٹ شدہ تھا۔ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے اردو ویب کی تمام ویب سائٹس کے ساتھ خاصے مسائل آرہے ہیں جن میں سرفہرست میموری اوو فلو کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں کئی بار سائٹس کو ڈاؤن رکھا گیا تاکہ میموری اور پروسیسنگ وغیرہ کی ضروریات کا اندازہ لگایا جاسکے۔ خیر ایرر اب تو خاصے کم ہوگئے ہیں لیکن ہم نے اسی دوران ایک فیصلہ کرلیا تھا کہ بلاگ کو بلا گر پر ہی ایک بار پھر سے منتقل کرلیا جائے۔ ورڈپریس چنگی چیز ہے لیکن یہ ہم اس وقت استعمال کریں گے جب اپنی ویب ہوسٹنگ وغیرہ لیں گے۔ فی الحال مفت والی سروس چلنے دیتے ہیں۔ احباب کو بھی زحمت دینے کو دل نہیں کرتا۔ نبیل اور زکریا کی مہربانی انھوں نے اردو کوڈر کی ویب سائٹس کو ہوسٹنگ سپیس دی لیکن ہمارے ذاتی خیال میں اردو ویب پر آنے والے ایررز کی ایک وجہ اردو کوڈر کی ویب سائٹس بھی تھیں۔
بلاگر پر بلاگ منتقل ہوگیا ہے تو ورڈپریس والی موجیں نہیں ہونگی اب۔ نہ ہی مسکراہٹیں، نہ ہی سسٹم سپورٹ کے بغیر اردو لکھنے کی سہولت اور نہ ہی گریواٹر۔۔خیر گزارہ کیجیے اور ہمیں چھما کیجیے۔ اور دعا بھی کیجیے کہ جلد ہی اپنی ویب ہوسٹنگ لے سکیں۔ ننھا سا بلاگ ہے اس کے لیے ننھی سی ویب ہوسٹنگ ہم نے لے لینی ہے۔ تب تک بلاگر پر آوازِ دوست کے مزے لیجیے۔ اس سڑی بُسی پوسٹ کے علاوہ بھی میرے پاس کچھ آئیڈیاز تھے جن پر کام کرنا ہے۔ کچھ پنگے لینے ہیں، آج کل کچھ وڈے لوگ بلاگنگ اور اردو بلاگرز کا قبلہ درست کرنے کی کوشش کررہے ہیں ان کی شان میں کچھ مطلعے اور مقطعے کہنے ہیں۔ انشاءاللہ ایک آدھ دن میں آپ قصیدہ گوئی دیکھ لیں گے۔ تب تک کے لیے اجازت دیجیے۔

پیر، 9 مارچ، 2009

چیز ونڈی دی

کڑیو والو چیز ونڈی دی لئی ی ی ی ی ی جاؤ
یہ آواز کانوں میں پڑتے ہی گھر سے ہاتھ میں کوئی پلیٹ یا کولی لے کر نکل پڑتے اور آواز کے مخرج کا پتا لگا کر گائیڈڈ میزائل کی طرح وہاں جاکر گرتے۔ یہ بچپن کے دن تھے۔ فکر نہ فاقہ۔ کونڈوں کے ختم پر حلوہ پوری کے بٹنے کا انتظار رہتا۔ محرم پر میٹھے پانی اور کُجی ٹھوٹھیوں میں کھیر اور چاولوں کے بٹنے کا انتظار رہتا۔ ساتھ میٹھی یا نمکین لسی ہوا کرتی۔ محلے دار کبھی پیسے، کبھی ٹافیاں کبھی پھُلیاں بانٹتے تو بھی سب سے آگے ہوا کرتے۔
پھر عمر نے کچھ آگے قدم بڑھایا اور ہاتھ میں کولی پکڑ کر باہر جانے سے جھجک ہونے لگی۔ لوگ کیا کہیں گے۔ تو چھوٹوں سے کہا جاتا باجی سے کہنا میرے بھائی کا حصہ بھی دے۔ یا ایسے ہی ان سے دو چار نوالے لے لینا۔
آہ کتنے اچھے دن تھے۔ آج وہ دن پھر سے یاد آگئے۔ آج سماجی لسانیات کا پرچہ تھا۔ وہ دے کر اگلے پرچے کی تیاری کرتے رہے۔ شام پانچ بجے وہاں سے جان چھوٹی۔ کل شام سے پیٹ میں گڑ بڑ تھی اس لیے دودھ اور ایک کپ چائے کے ناشتے کے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ واپسی پر ہمیں ایک جگہ چیز ونڈی دی نظر آگئی۔ ہاتھ میں موبائل تھا ایک کلاس فیلو کو سلیبس کے بارے میں میسج کا جواب دیا جارہا تھا، دیکھا پھر سوچا چھڈ یار لیکن پھر آگے جاکر سائیکل روک لی۔ کہ چھڈ یار چیز ونڈی دی لے ہی لے۔ سائیکل کو تالا لگایا، بیگ کندھے پر لٹکایا اور لائن میں لگ گئے۔ جتنی دیر میں میسج مکمل کرکے بھیجا ہماری باری آگئی۔ تازہ سا نان اور اس پر گھی سے بھرپور اچھا خاصا حلوہ۔۔ کچھ کھڑے ہو کر اور کچھ وہیں فٹ پاتھ پر سائیکل کے قریب بیٹھ کر کھایا۔ نہ پوچھیں اس کا جو سواد تھا۔ ہلکا سا نمکین نان اور میٹھا گھی سے ترتراتا حلوہ۔ چیز ونڈی دی کھانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ کبھی ٹرائی کیجیے گا۔ :razz:
بہت سی دوسری روایات کی طرح ہماری یہ روایت بھی مہنگائی، معاشی اور معاشرتی ناہمواری اور بڑے بڑے شہروں کی بے حسی کی نظر ہوتی جارہی ہے۔
کڑیو: اردو لڑکیو
والو: بال (بال بچے والا بال) کی بگڑی ہوئی شکل بالو یعنی بچو
چیز: اردو چیز
ونڈی: اردو بانٹنا سے بانٹی جانے والی، بٹنے والی
دی: اردو کی
کولی: اردو نہیں یاد آرہی :oops:
کُجی اور ٹھوٹھی: اول الذکر ننھی سی ہانڈی اور موخر الذکر ننھی سی پرات جیسی چیز جسے کنالی بھی کہتے ہیں مٹی کے برتن ہوتے ہیں یہ۔ کُجی میں لسی وغیرہ اور ٹھُوٹی میں چاول یا کھیر ہوا کرتی تھی۔ اب بھی ہوتی ہے لیکن کم کم۔