منگل، 14 مئی، 2013

موٹروے

موٹروے ویسے تو ایک سڑک کا نام ہے۔ لیکن مسافر کے لیے شاید یہ صرف ایک سڑک سے بڑھ کر ہے۔ موٹروے سے مسافر کا پہلا پہلا واسطہ دو سال پہلے پڑا۔ مسافر نے حسب معمول، جیسا کہ وہ ہر کام تاخیر سے کرتا ہے، دیر سے اپنے شہر سے نکلنا شروع کیا۔ اس کی وجوہات کیا تھیں وہ کہانی بیان ہو چکی ہے۔ تو اس مجبوراً نکلنے کی وجہ سے پہلے تو وہ بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جاتا رہا اور جب رزق کے معاملے میں اللہ کی رحمت بڑھی تو موٹروے سے واقفیت چل نکلی۔ تب سے ہر ہفتے لاہور آنا جانا ہوتا ہے اور ہر ہفتے اس سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ پورے ہفتے میں ایک ہی قابل ذکر کام ہوتا ہے اور وہ لاہور کا سفر ہے جس کے بہانے موٹروے سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے۔

موٹروے سے مسافر کی واقفیت کوئی بہت قریبی نہیں۔ یہی جیسے دو اجنبی روز ایک دوسرے کے قریب سے گزریں تو جیسے اک بے نام سا ربط بن جائے، شناسا لیکن اجنبی چہروں اور آنکھوں کے اس تعلق سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ جیسے راستے کے ہر پتھر اور گڑھے کی عادت ہو جاتی ہے اور جب تک وہاں سے گزرتے جھٹکا نہ لگے کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے ہی راستے میں ٹکرانے والے اجنبی چہروں کی عادت سی ہو جاتی ہے نظر نہ آئیں تو کوئی کمی سی رہ جاتی ہے۔ موٹروے اور اس کے نشیب و فراز، اس کے راستے میں آنے والے درخت، پتھر، کھیت کھلیان، بے فکرے دیہاتی اور وسیع و عریض لینڈ اسکیپ مسافر کے ساتھ کچھ ایسی ہی واقفیت رکھتے ہیں یا شاید یہ صرف مسافر کی اپنی سوچ ہے اور یہ سب اسے  دوسرے مسافروں جیسا ہی سمجھتے ہیں جو چلے جاتے ہیں اور لوٹ کر نہیں آتے۔ لیکن اس سے بھلا فرق بھی کیا پڑتا ہے تعلق تو اندر کہیں ہوتا ہے سوچ میں باہمی اظہار چاہے نہ بھی ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔۔

موٹروے سے یہ تعلق جیسا بھی ہو ابھی تک چل رہا ہے۔ اس وقت مسافر کے اردگرد موٹروے بھاگ رہی ہے اور اس کے محسوسات لفظوں میں ڈھل رہے ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے موٹروے اسلام آباد جیسی ہے سرد مزاج اور روکھی، پروٹوکول اور فاصلے کی دلدادہ، شاید اسلام آباد جاتی ہے اس لیے۔ جی ٹی روڈ اس کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے کالونی کے مقابلے میں محلہ ہو، عوامی، پر ہجوم، چہل پہل والا اور شور بھرا۔ جی ٹی روڈ پر ہر کچھ دیر بعد ایک شہر یا قصبہ آ جاتا ہے موٹروے پر یہی فرض اوورہیڈ پل سر انجام دیتے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر راستہ بنانا پڑتا ہے اور موٹروے پر راستہ گویا راہ دیکھتا ہے۔

موٹروے پر چڑھ کر یوں لگتا ہے گویا آپ اردگرد سے کٹ گئے ہیں۔ موٹروے کا ایک ڈیکورم ہے۔ ایک لمبی نیلی پٹی جو چلتی چلی جاتی ہے چلتی چلی جاتی ہے اور اس کے ارد گرد ایک الگ ہی دنیا۔ اس لمبی پٹی پر نظر رکھی جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے منزل ہر لمحہ آپ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آپ کھڑے ہیں اور منزل قدم بہ قدم آپ کو گلے لگانے کے لیے آ رہی ہے۔ اس پٹی پر نظر رکھیں تو جدت کا احساس ہوتا ہے۔ ہر کلومیٹر کے فاصلے پر بورڈ، موڑ، انٹرچینج، ہیلپ لائن کے بوتھ اور دورانِ سفر آرام کے لیے جدید ترین سہولیات۔

لیکن صرف ہلکا سا زاویہ نظر تبدیل کرنے سے گویا دنیا بدل جاتی ہے۔ ذرا دائیں یا بائیں دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ نیلی پٹی ہی دنیا نہیں، ایک اور دنیا کے اندر بسی ہوئی ہے۔ ایک وسیع و عریض سبز لینڈ اسکیپ جس کے اندر کسی مصور نے بڑے سے برش سے یہ نیلی پٹی کھینچ دی ہے۔ دور تک پھیلے ہوئے کھیت کھلیان، درخت اور چھوٹی چھوٹی سڑکیں، تہذیب کے نشان چھوٹی چھوٹی بستیاں، گھر گھروندے اور آتے جاتے انسان۔ لیکن اس وسیع لینڈ اسکیپ کے سامنے سب کیڑے مکوڑے۔ موٹروے پر دوڑتی بس کی سیٹ نمبر پینتالیس پر بیٹھا مسافر اس وسعت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔ مصورِ کائنات کے ذوق ِ مصوری کا ہلکا سا ادراک ہوتا ہے اور اس کا دل سبحان اللہ پکارنے کو مچل اٹھتا ہے۔ کہیں سبز رنگ ہے، کہیں گہرا سبز، کہیں ہلکا سبز، کہیں مٹیالا رنگ ہے، اور کہیں سنہری۔ جیسا موسم ہے ویسا رنگ ہے، آج کل گندم کے خوشے لہراتے تھے، ہر ہفتے گندم کا رنگ گہرے سبز سے پھیکا پڑتا پڑتا سنہری مائل ہوتا گیا اور اتنا سنہری ہو گیا کہ زمین جیسے سونے کی ہو گئی۔ اور اب کسان یہ سونا اکٹھا کر رہے ہیں۔ کہیں پھر سے مٹیالا رنگ نمودار ہو رہا ہے۔ اور کہیں ابھی یہ سنہری پن باقی ہے۔ کہیں پھر سے سبز شیڈ نمودار ہو جاتا ہے۔ اور مسافر کے منہ سے رنگوں کے اس خوبصور ت انتخاب پر موزوں الفاظ ِ تحسین بھی نہیں نکل پاتے۔

موٹروے صرف د و دنیاؤں کا نام ہی نہیں۔ یہاں ایک تیسری دنیا بھی پوری آن بان سے نمودار ہو جاتی ہے۔ اور وہ ہے مسافر کے اندر کی دنیا۔ مسافر فطری طور پر ایک تنہا شخص ہے۔ اپنے آپ میں گم رہنے ولا، خود ہی اندازے لگا کر خود ہی فیصلے کرنے والا ایک ایسا ریاضی دان جو دوسراہٹ کے نامعلوم متغیر کو اپنی ذات کی مساوات میں شامل کرنے سے کتراتا ہے۔ اس لیے صرف اپنے آپ کو ہی مساوات کے دونوں جانب رکھے زندگی گزار دیتا ہے۔ موٹر وے کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل تنہائی مسافر کے اندر کی تنہائی سے مل کر دو آتشہ ہو جاتی ہے۔ ایک نیلی پٹی جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آتی، افق تا افق چلتی چلی جاتی ہے اور اس پر دوڑتا تنہا مسافر۔ ایک وسیع لینڈ اسکیپ ، آسمان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا وسیع منظر اور اس میں ایک نیلی پٹی پر دوڑتا تنہا مسافر، اور مسافر کے اندر کی تنہائی یہ سب مل کر بعض اوقات اتنی وحشت پیدا کر دیتے ہیں جیسے سانس کے لیے ہوا  کم پڑنی شروع ہو جائے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر باہر کی تنہائی سے شروع ہوتا ہے، جیسے درخت تلے کھڑے ہونے کے باوجود بھی بارش دھیرے دھیرے اپنا راستا بنا لے اور بھگونے لگے، ایسے یہ وسیع و عریض تنہائی اثر انداز ہونے لگتی ہے۔ پھر جیسے مقناطیس کو مقنا طیس کشش کرتا ہے، مثبت کو منفی کھینچتا ہے ویسے باہر کی تنہائی اندر ایک ردعمل پیدا کرتی ہے ۔ اندر سے باہر کی جانب ایک سفر شروع ہوتا ہے اور جب یہ دو طرفہ سفر مکمل ہوتا ہے تو مسافر دوہری تنہائی کے حصار میں آ جاتا ہے۔

تنہا ہونے کا دکھ وہی جان سکتا ہے جو یا تو فطری طور پر تنہا ہو یا حالات کے ہاتھوں ستایا ہوا ہو۔ تنہائی کسی بھی طرح وارد ہو مسافر کے تجربے میں طبعیت کی قنوطیت تنہائی کے لیے عمل انگیز ہوتی ہے۔ گلاس کو آدھا خالی دیکھنے کی صلاحیت دھیرے دھیرے اس خالی پن کو پوری کائنات پر نافذ کر دیتی ہے۔ ذات کی تنہائی اور باہر کی تنہائی مل کر اتنی بڑی تنہائی تشکیل دیتی ہیں کہ وحشت کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ ایسے میں عجیب و غریب سوچیں پروان چڑھتی ہیں۔ کبھی تو یہ تنہائی اتنی پھیل جاتی ہے کہ آفاقی ہو جاتی ہے۔ مسافر کی تنہائی، راستے کی تنہائی، نسلِ انسانی کی تنہائی اور اس کرے پر موجود زندگی کی تنہائی۔ اتنی بڑی بڑی تنہائیاں کہ مسافر کی اپنی تنہائی ان کے سامنے ہیچ محسوس ہونے لگے۔

کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے موٹروے پر چڑھنا کسی مراقبے کی ابتدا ہو۔ مراقبہ بھی تو ایک خلا میں اترنے کا نام ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ اس خلا میں کوئی رہنما نہیں ہوتا ۔ تنہائی کوئی بھی ہو، اس تنہائی میں ایک دوسراہٹ ضرور ہوتی ہے۔ پالنے والے کی ذات، جو خود کہتا ہے کہ میں تمہاری رگِ جاں سے بھی قریب ہوں۔ لیکن جب ریسیور ہی کسی قابل نہ ہو، جب آنکھیں بینائی سے محروم ہوں، جب ہاتھ پکڑ کر اندھیرے میں راستہ دکھانے والا کوئی نہ ہو، جب پتنگ کی ڈور کو قابو کرنے والا کوئی نہ ہو تو تو روح بیکراں تنہائی میں ادھر اُدھر ڈولتی رہتی ہے۔ اپنی ہی تنہائی کے احساس میں سلگتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی موہوم سا احساس ہوتا ہے کہ شاید منزل کی جانب سفر جاری ہے لیکن اکثر یہ سفر سہ جہتی خلا میں معلق جسم کی بے معنی حرکات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موٹر وے اکثر مجھے ایسی کیفیات میں لے جاتی ہے۔ اور میں ان کے سامنے بے بس ہوتا ہوں۔ اس کا منطقی نتیجہ میرے لیے یہی ہوتا ہے کہ سارا بِس کاغذ پر اتار دوں ورنہ میرا اندر سلگ سلگ کر خاک ہو جائے۔ ڈیڑھ ہزار الفاظ کی یہ بک بک شاید بلا مقصد لگے، لیکن مجھے ایک بات کی خوشی ہوتی ہے کہ موٹر وے اتنی طویل نہیں ہوتی کہ میں اپنی ذات کی تنہائی میں اتنا گہرا اتر جاؤں کہ واپسی کا راستہ بھول جائے۔

بدھ، 1 مئی، 2013

سماجی شناخت اور فکری قحط سالی

قوم افراد سے مل کر بنتی ہے۔ قوم دیوار ہے تو افراد اس کی اینٹیں۔ لیکن یہ اینٹیں اکیلی ہی دیوار نہیں بناتیں۔ صرف اینٹیں کھڑی کرو تو دیوار ایک حد کے بعد کھڑی رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔ اینٹوں کو جوڑنے کے لیے سیمنٹ درکار ہوتا ہے۔ اور قوم نامی دیوار کو مضبوط کرنے والے سیمنٹ کا نام مشترکہ اقدار ہیں، مشترکہ سوچ اور ایک ہونے کا احساس۔ افراد میں اگر یہ احساس مفقود ہو جائے، ماند پڑنے لگے تو اس کے نتیجے میں قوم نامی دیوار اینٹوں کی گھوڑی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ راج مستریوں کی اصطلاح میں گھوڑی اینٹوں کا ایک ایسا مجموعہ ہوتی ہے جو سراسر  عارضی مقصد کے لیے ایک جگہ اوپر نیچے لگا دی جاتی ہیں بغیر کسی سیمنٹ یا جڑنے والے مادے کے، اکثر گارے کے بھی بغیر۔ افراد میں اقدار مشترک نہ رہیں تو وہ قوم کے اندر اینٹوں کی گھوڑیاں بن جاتے ہیں۔ ایک یہاں لگی ہے دوسری وہاں لگی ہے، اور ان گھوڑیوں کا کوئی مقصد مشترک نہیں ہوتا۔ ہر ایک کا اپنا ایجنڈا بن جاتا ہے، لیکن یہ ایجنڈے عارضی، نا پائیدار اور عدم استحکام پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ افراد کے یہ گروہ نہ صرف قوم کو کمزور کرتے ہیں بلکہ خود کو بھی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اسی لیے افراد میں قدرِ مشترک کا احساس پایا جانا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔

قدرِ مشترک کئی چیزوں کے اشتراک کا نام ہے۔ اس میں سیاسی، سماجی، لسانی، مذہبی، علاقائی، قبائلی، رنگ و نسل سے لے کر زمانے تک کے متغیر آ سماتے ہیں۔ انہیں میں کچھ متغیر تنوع بھی تشکیل دیتے ہیں لیکن متغیرات کی ایک اکثریت یکجہتی تشکیل دیتی ہے۔ جس کے تحت قوم آپس میں جڑی رہتی ہے۔ قدرِ مشترک کو ایک اور نام دیں تو سماجیات کی اصطلاح "سماجی شناخت" استعمال کی جا سکتی ہے۔ سماجی شناخت ایک تکنیکی اصطلاح ہے، لیکن یہاں ہم اوپر بیان کیے گئے تمام متغیرات میں سے ایک، کچھ یا تمام پر مشتمل احساسِ خودی اور پھر احساسِ یکجہتی کو سماجی شناخت کا نام دے سکتے ہیں۔ سماجیاتی تحقیق بتاتی ہے کہ سماجی شناخت کوئی لوہا پتھر نہیں، بلکہ یہ مائع جیسی کوئی چیز ہے جو شکلیں بدلتی رہتی ہے۔ سماجی شناخت کسی ایک متغیر پر مشتمل نہیں ہوتی، یہ کئی متغیرات کا مجموعہ ہو سکتی ہے، یہ مختلف مواقع پر مختلف متغیرات کو اپنا سکتی ہے۔ ذاتی طور پر میں نے جو کچھ پڑھا، دیکھا، سنا اور محسوس کیا، مجھے جو سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ سماجی شناخت کئی متغیرات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ جس میں اوپر بیان کردہ تقریباً تمام تر چیزیں آ جاتی ہیں۔ اور یہ متغیرات مختلف مواقع پر، مختلف سیاق و سباق میں، ہماری روز مردہ زندگی کے ہر مقام، جگہ، وقت کے حوالے سے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً میں ایک جگہ بیٹا ہوں، ایک جگہ استاد ہوں، ایک جگہ فری لانس مترجم ہوں، ایک جگہ بلاگر ہوں، ایک جگہ مسلمان ہوں، ایک جگہ پنجابی ہوں، ایک جگہ پاکستانی ہوں، ایک جگہ پڑھا لکھا نوجوان ہوں، ایک جگہ مریض۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اپنے روز مرہ میں مَیں کئی چہرے اپناتا ہوں، اپنی سماجی شناخت تشکیل دیتا ہوں۔ کبھی کوئی متغیر سامنے رکھتا ہوں کبھی کوئی، لیکن ان سب کے علاوہ میری ایک نسبتاً مستقل سماجی شناخت ہے، میری خودی، میری انا، جو میری یعنی محمد شاکر عزیز کی شخصیت وضع کرتی ہے، میری نظروں میں بھی اور میرے جاننے والوں، پڑھنے والوں کی نظر میں بھی۔

اتنی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ اس ساری سماجی شناخت کے باوجود میں شناخت کے بحران کا شکار ہوں۔ جیسے اس قوم کا قریباً ہر فرد تذبذب میں مبتلا ہے کہ کدھر جائے، کیا کرے۔ کچھ متذبذب ہیں اور کچھ نے ایک شناخت کو اتنی شدت سے تھام لیا ہے کہ چاہے انگلیوں سے خون رسنے لگے، وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے۔ اور اس شناخت کو خود پر اتنا طاری کرتے ہیں کہ وہ دوسرے متغیرات سے مکمل طور پر انکار کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا شناخت کسی ایک سماجی متغیر کا نام نہیں، سماج میں موجود بے شمار متغیرات مل کر آپ کی شخصیت تشکیل دیتے ہیں۔ یہ کم ہوں یا زیادہ وہ الگ بات ہے لیکن کثیر متغیرات موجود ضرور ہوتے ہیں، جب کوئی شخص یا اشخاص کسی ایک متغیر کو خود پر ایک حد سے زیادہ طاری کر لیتا/ لیتے ہیں تو جو چیز سامنے آتی ہے اسے میں انتہا پسندی، فکری قحط سالی اور اپنی سماجی شناخت کے ایک حصے کا قتلِ عام گردانتا ہوں۔

اجتماعی سطح پر دیکھوں تو میرے سامنے دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک جو متذبذب ہیں، جو کوئی ایک سماجی شناخت اپنانے/ اس کا اقرار کرنے سے گریزاں ہیں، یا ڈرتے ہیں اور اسی ڈر میں دوسری سماجی شناخت اوڑھے رہتے ہیں، دوسری جانب وہ ہیں جو اتنے سخت دل ہو چکے ہیں کہ اپنے شخصی تنوع کو قبول نہیں کرتے اور خود کو ایک خول میں بند کر لیتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے" اللہ نے تمہارے قبیلے بنا دئیے تاکہ تم پہچانے جاؤ" (مفہوم)۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ کسی گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر۔۔۔الخ کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ قرآن قبیلے کا ذکر کیوں کرتا ہے؟ قرآن ایک سماجی شناخت کا ذکر کرتا ہے کہ ہاں تنوع رکھا گیا ہے، لیکن ساتھ ہی نبی ﷺ کی زبان سے کہلوا بھی دیا گیا کہ خبردار خود کو افضل نہ سمجھ بیٹھنا۔

میں ایک پاکستانی ہوں، ایک مسلمان ہوں، میں ایک خاص جغرافیائی خطے کا رہائشی بھی ہوں، میں ایک خاص زبان بھی بولتا ہوں، میں ایک خاص پیشے سے منسلک بھی ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ سارے متغیرات، یہ ساری شناختیں میری تعریف کرتی ہیں، میری شخصیت کو سماج میں تعمیر کرتی ہیں۔ مجھے وہ بناتی ہیں جو میں ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ سوچ ہر ایک کی نہیں ہے۔ اس ملک کی اساس اسلام قرار دی جاتی ہے۔ میں بڑے بڑے مدلل مضامین پڑھتا ہوں جن میں نظریہ پاکستان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی ہوتی ہے، پاکستان کی "نظریاتی بنیادیں" کھودنے والوں پر لعنت کی گئی ہوتی ہے۔ تو میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ فکری بحران، فکری قحط سالی کیوں؟ ایک ہی شناخت کو خود پر اوڑھ لینے کا عمل کیوں؟ انتہا پسندی کیوں؟

نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور والے بڑے عظیم لوگ ہیں، نوائے وقت کے تربیت یافتہ ، پاکستان کے رکھوالے اور پھر اسلام کے رکھوالے، یہ پاکستان کو 712 ء سے تخلیق شدہ بتاتے ہیں جب محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کیا۔  ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ باقی سارے متغیرات نظر انداز کر جاتے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ اسلام کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں جو انہیں، مجھے اس قوم  کو شناخت عطاء کرتی ہیں۔ زبان، رنگ، نسل، جغرافیہ، پیشہ ،پانچ ہزار سالہ تاریخ اور آج کا زمانہ کچھ متغیرات ہیں جو مذہب کے علاوہ ہماری شناخت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ لیکن ان سب کو نظر انداز کر کے صرف مذہب کیوں؟ مذہب کو اپنانا افضل ہو گا، نبی ﷺ کے ساتھ خود کو موسوم کرنے سے بڑی بات بھلا دنیا میں کوئی ہو سکتی ہے؟ لیکن  پھر قرآن قبیلوں کا ذکر کیوں کرتا ہے؟ اللہ نے رنگ اور نسل کیوں الگ الگ رکھ دئیے؟ اتنا تنوع کیوں ہے؟ ہم عرب میں ہی کیوں نہ پیدا ہو گئے؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے؟ عمومی مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ عین حق لگتا ہے۔ آخر اسلام دنیا کا آخری دین، اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں  رہنی چاہیئے۔

لیکن پھر بار بار اس یقین کا انکار کیوں ہوتا ہے؟ 1947 میں پاکستان ( جو نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے مطابق دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا) کے بعد برصغیر میں کیا صرف مذہب  سماجی شناخت تشکیل دینے والا اکلوتا فیکٹر رہا ہے؟  کس کس کی مثال دوں؟ سقوطِ ڈھاکہ گنواؤں؟  جغرافیے کے نام پر بلوچوں کی بغاوت یاد کرواؤں؟ کراچی میں مہاجر نامی قومیت کی تشکیل کا ذکر کروں؟ پختون ، پنجابی ، سندھی کی اصطلاحات پیش کروں؟ کون کونسی مثال دوں جس سے یہ بات واضح ہو جائے کہ صرف مذہب سماجی شناخت تشکیل نہیں دیتا۔  عطاء اللہ شاہ بخاری اور ابو الکلام آزاد کے خطبات تحاریر گنواؤں؟  یا اسلام کا  مقصدِ دعوت  بیان کروں جس میں انسانیت اولین ہے، ساری دنیا اسلام کے لیے امتِ دعوت ہے۔ اسلام  دعوتِ دین کے لیے مذہب سے ماوراء ہو جاتا ہے، اسلام ایک انسان کے قتل کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے مسلمانیت کا قتل نہیں۔ اسلام دین میں جبر کا قائل نہیں۔ کیا کیا دلیل پیش کروں؟

ایک طرف یہ کم شدت والے مذہبی چادر اوڑھنے والے ہیں۔ دوسری طرف وہ  بندوق بردار ہیں جو اپنی ہزار سالہ تاریخ کا انکار کر کے صرف ایک  چیز کو خود پر طاری کر چکے ہیں۔ خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں اور اس میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی تعلیمات  کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ وہ نبی ﷺ جو جنگ میں ناحق درخت بھی کاٹنے سے منع کرے اس کے نام لیوا بے گناہ سروں کی فصلیں کاٹ  کر اس پر ذرا برابر شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔

مجھے آج کہنے دیں کہ اس ملک میں فکری انحطاط یہی نہیں، فکری قحط سالی ادھر ہی نہیں اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو مذہب کو زندگیوں سے نکال چکا ہے، اور اب صرف انسان کہلوانا چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں "انسان" کی سماجی شناخت انہیں زیادہ غیر جانبدار بنا کر پیش کرتی ہے۔ حالانکہ وہ  بھی ایک حقیقت سے انکار کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ مذہب انہیں ڈیفائن کرتا ہے، جیسے ان کے اجداد کو ڈیفائن کرتا تھا۔ مذہب ان کے خون میں بہتا ہے وہ مانیں یہ نا مانیں۔ ان کے نام، رہن سہن کے طور طریقے مذہب سے متاثر ہیں۔ وہ مصنوعیت جتنی مرضی طاری کر لیں لیکن وہ متغیر ، مذہب نامی متغیر ان کی سماجی شناخت کا اہم جزو تھا، ہے اور رہے گا۔  لیکن اس سے جب انکار کیا جاتا ہے تو نتیجہ ایک اور قسم کے فکری بحران کی شکل میں نکلتا ہے۔ ایک ایسا خلاء جسے پورا کرنے کے لیے وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں، کبھی ادھر سے اینٹ اٹھائی کبھی ادھر سے پتھرا ٹھایا اور عجیب الخلقت چیز تشکیل دے لیتے ہیں، چیز یعنی اپنی سماجی شخصیت۔ جس پر غصہ، ترس یا ہنسی  آتی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ  ڈر بھی آتا ہے۔ اس قوم کے فکری بحران سے ڈر لگتا ہے۔ شاکر ، اور شاکر جیسے بے شمار افراد اس قوم کی  کمزور ہوتی دیوار، گھوڑیاں بنتی دیوار سے تعلق کمزور کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا آپس کا بانڈ  غائب ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایک قدر کو اختیار کر کے دوسری سے انکار کرتے ہیں۔ کبھی مذہب سے، کبھی جغرافیے سے، کبھی رنگ سے، کبھی نسل سے، کبھی زبان سے۔ کوئی مہاجر ہوا جاتا ہے، کوئی پنجابی، کوئی پختون ہوا جاتا ہے، کوئی مسلمان، کوئی پاکستانی ہوا جاتا  ہے، کوئی سیکولر، کوئی انسانیت نواز، کوئی لبرل۔ کوئی مشرق کو رخ کیے ، کوئی مغرب کو ، کوئی شمال کو اور کوئی شمال مغرب کو ۔ ایک دوسرے کی جانب پشت کیے بیٹھے یہ افراد، جن کے مابین اکثریتی اشتراکی اقدار کی قحط سالی طویل ہوتی چلی جاتی ہے، شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ اور شاکر ڈرتا ہے اس وقت  سے۔ جب  اینٹوں کی یہ گھوڑیاں جو ابھی الگ الگ کھڑی ہیں، گر پڑیں اپنے وجود کھو بیٹھیں اور ساتھ اس کے قوم کا وجود بھی نابود کر ڈالیں۔ بہت ڈر لگتا ہے اس وقت سے سائیں۔ اللہ اس وقت سے بچائے۔ رب سائیں اس وقت سے بچائے۔

وما  علینا الا البلاغ