پیر، 25 اپریل، 2016

کچھ لکھیے!

"کچھ لکھیے۔" آج کئی دن ہو گئے ہمارے اندر کھد بد سی جاری ہے۔ ہر کچھ دیر بعد اندر سے ایک آواز آتی ہے "کچھ لکھیے ناں"۔ ہمارے کان لال ہو جاتے ہیں، گالوں کا درجہ حرارت سو کو چھونے لگتا ہے۔ ہم پہلے ہڑبڑا کر ادھر اُدھر دیکھتے ہیں پھر خود کو لعنت ملامت کرتے ہیں کہ ایسی بھی کیا ۔۔اچھا خیر چھوڑیے۔ اصل میں مسئلہ ہے کہ اندر سے آنے والی یہ آواز خاصی لوچ دار اور نرم و نازک سی ہوتی ہے۔ جیسے بھلے وقتوں میں کوئی دروازے کے پیچھے سے مُنے کے ابا کو کہا کرتا تھا،" اجی سنیے بازار سے کشمش ہی لیتے آئیے گا"۔ تو شاید ہمیں ہسٹیریا، دو قطبیت یا اس کا قریبی رشتہ دار کوئی چھوٹا موٹا نفسیاتی عارضہ ہو گیا ہے جو  ہمارے کان بجنے لگتے ہیں۔ اور کمبخت کچھ ایسے ٹیون ہوئے ہیں کہ ایک ہی فریکوئنسی کی آواز کیچ کرتے ہیں۔ اللہ نہ کرے کبھی کوئی کھرکھراتی ہوئی، بیٹھی ہوئی، کھانستی ہوئی یا بلغم زدہ آواز میں "کچھ لکھیے ناں" کہے۔ جمالیات کا تو بیڑہ غرق جو ہو گا سو ہو گا، لکھا بھی ہسپتالوں کی حالتِ زار قسم کے موضوع پر جائے گا۔

تو صاحب آج کل ہمارے اندر سے کوئی آواز آتی ہے کہ کچھ لکھیے۔ ہم عرصہ پچیس یوم سے کچھ ایسی بنجر زمین ہوئے ہیں کہ جرمنی کی سرد بارشیں بھی اس پر ہریاول لانے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے سامنے ٹہنیوں پر بُور آیا اور اب نوجوان پتے لہلہاتے ہیں۔ لیکن ہم کچھ ایسی زمین بن گئے ہیں کہ گھاس بھی روٹھ گئی ہے۔ اب اس بے موسم خزاں میں بھلا کیا لکھا جائے۔ لیکن ہم نے بھی آج کچھ لکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے ۔ تو آئیں بسم اللہ کرتے ہیں۔ آپ پڑھتے جائیں ہم لکھتے جاتے ہیں۔

سیاست ، جسے پیار سے ہم سیاہ ست پکارا کرتے ہیں، پر کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے کشمیری میاں صاحب وزیرِ اعظم اور ان کی سیاسی فلم کے ولن عمران خان نیازی آج کل بڑھک آرا (بر وزن معرکہ آرا) ہیں۔ بڑا گرما گرم موضوع ہے اور یار لوگ دھڑا دھڑ پکوڑے تل تل کر بیچ رہے ہیں۔ ہم بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ وزیرِ اعظم کو دو چار دھولیں رسید کر لیں۔ ماہرِ دھرنا احتجاجیوں کی ٹانگ کھینچ لیں۔ پانامہ لیک کی بوری  سے کچھ مزید گندے کپڑے برآمد کر لیں۔ یا پہلے ہی برآمد شدہ کو ذرا اونچا کر کے ٹانگ کر ان پر تبصرہ کر دیں۔ لیکن پھر ہمیں ہر دو طرف کے "مجاہدین" کے ہاتھوں توپ دم ہونے سے کون بچائے گا؟ تو ہم اس موضوع پر اپنی رائے محفوظ رکھتے ہوئے کسی اور موضوع کی طرف چلتے ہیں۔

ہماری بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ کچھ مہینوں میں ہم فیس بُک پر بہت سے لکھاریوں کے پیروکار (فالور) بن گئے ہیں۔ کوئی دو ایک ایسی ویب سائٹس لانچ ہو گئی ہیں جن پر بہت بڑے بڑے گلیور قسم کے سخن ور اپنی دانش کے موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ آج کل فیس بُک پر ایک معرکہ حق و باطل برپا ہے جس کے ایک طرف اسلام کے "محافظ" رائٹسٹ اور دوسری طرف "نئے" بیانیے کے داعی سیکولر(فاشسٹ وغیرہ وغیرہ) اپنے اپنے قلم سونتے معرکہ آرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک گھُمسان کا رن پڑا ہے، کمنٹس کے چھینٹے اُڑ رہے ہیں، لائیکس چلائے جا رہے ہیں اور دھڑا دھڑ پوسٹس شیئر ہو رہی ہیں۔ مشورے دئیے اور لئے  جار ہے ہیں۔ ایک قیامت کا سا سماں ہے، سینگ سے سینگ لڑا ہے اور ہم کافی فاصلے سے چوری چوری دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا بھی دل کرتا ہے کہ ہم بھی کسی سے سینگ لڑائیں۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے ہمارے نازک سر پر ایک عدد ہیلمٹ ہونا چاہیئے جو ہمیں جوابی بھیڈوانہ (بھیڈو پنجابی میں بھیڑ کے جوان بچے کو کہتے ہیں) ٹکروں سے بچائے۔ تو ان ٹکروں بلکہ ڈھُڈوں سے بچنے کے لیے ہم اس موضوع پر لکھنے سے بھی توبہ کرتے ہیں۔

تو صاحب اس کا منطقی نتیجہ کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اس پر لکھا جائے۔ اور آج کل ہم لسانیات کر رہے ہیں۔ اللہ کی رحمت سے ہم پی ایچ ڈی کرنے کی کوشش شروع کر چکے ہیں۔ اپنا موضوعِ تحقیق جسے انگریزی میں ریسرچ پروپوزل کہتے ہیں تیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمارے سامنے طرح طرح کے پاکستانی انگریزی بلاگز کا ڈیٹا ہے اور اس کے ساتھ ہم لُکن میٹی کھیل رہے ہیں۔ گراف ہیں، ٹیبل ہیں، ایچ ٹی ایم ایل فائلیں ہیں اور ان سے ڈیٹا نکالنے کے لیے سی شارپ نامی ایک پروگرامنگ زبان میں کچھ شاعری (بقول شخصے  coding is poetry) فرمانا آج کل ہماری مصروفیات میں شامل ہے۔ آپ سے لسانیات کی بات کریں تو کیا کریں۔ ہم کون سا ادبی نقاد ہیں جو مصنف کی تحریر پڑھ کر ایک اور ادبی قسم کی تحریر لکھ ڈالیں۔ ہماری آٹھ سالہ تربیت تو کچھ ایسے ہوئی ہے کہ آنکھیں ایکسرے مشین بن گئی ہیں۔ لفظ مل کر ترکیب (فریز) بناتے ہیں، جس سے جملہ اور پھر پیرا گراف بنتا ہے۔ آوازیں اور صرفیے ، معانی اور سیاقی معانی (پریگمیٹکس) اور لسانی تغیرات۔ ہماری تربیت اگر آرٹسٹ کے طور پر ہوئی ہوتی تو ہم بھی کچھ لکھتے۔ ہم رینچ پانا پکڑے ایسے مستری جیسے ہیں جس کی نظر گاڑی کی خوبصورتی نہیں اس کے کُل پرزوں اور ڈھانچے پر جاتی ہے۔ اس کے ہونے کو انجوائے کرنے کی بجائے وہ بونٹ کھول کر اپنے ہاتھ کالے کرنے میں روحانی اطمینان اور سکون محسوس کرتا ہے۔ تو صاحب اب آپ ہی بتائیں آپ کو اپنے رینچ پانےاور سیاہی بھرے کالے ہاتھ دکھائیں یا یہ تحریر یہیں ختم کر کے آپ کی بھی خلاصی کروائیں؟ لگتا ہے کہ موخر الذکر آپشن بہتر ہے۔ 

تو اخلاقی سبق یہ ملا کہ ہم نے آج ناں ناں کرتے ہوئے بھی کچھ لکھ ہی لیا۔