جمعہ، 30 دسمبر، 2005

نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی چھابڑی لگائے بیٹھا تھا۔ کافی دیر کوئی گاہک نا آیا تو ساتھ والے سے اخبار لے کرپڑھنے لگا۔ ابھی اخبار پڑھتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جمعے کی نمازکا وقت قریب آگیا۔ تمام مساجد کے سپیکروں سے مولاناؤں نے وعظ نشر کرنے شروع کردیے۔
ایک طرف سے گوہر افشانیاں ہورہی تھیں اور اس کا دھیان بار بار بٹ رہا تھا مولانا فرما رہے تھے
“ان لوگوں نے تو اسلام کو مذاق بنایا ہوا ہے غضب خدا کا جب اہل بیت زندہ ہیں تب سوگ مناتے ہیں جب شہید ہوگئے پھر چپ۔ ان لوگوں میں صحابہ کا کچھ احترام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ابھی مولانا نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اب اس کا دھیاں لاشعوری طور پر ایک اور مسجد سے آتی آواز پر لگ گیا ۔ کچھ دیر سننے کے بعد اسے اندازہ ہوا مولانا غالبًادیو بندیوں کے بخیے ادھیڑ رہے تھے۔
“اجی ان لوگوں نے تو گند مچا رکھا ہے یعنی اللہ کے رسول کا ذرا بھی احترام نہیں کہتے ہیں وہ ہم میں موجود نہیں۔۔۔۔“
اس نے چشم تصور سے دیکھا لوگ بیٹھےوجد میں ہل رہے ہیں داد دے رہے ہیں پھر دفعتًا ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ اور اسکے بعد نعروں کی سیریز شروع ہوگئی۔
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
نعرے ختم ہوئے تو مولانا ازسرِ نو دیوبندیوں کے بخیے ادھیڑنے لگے۔اس کا دھیان اس طرف سے اچاٹ ہو گیا دھیان لگایا تو ایک اور مسجد میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی۔
“یعنی دین میں اتنا گند مچا دیا ہے کہ لوگ پیروں کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں ان لوگوں نے قبر پرستی پھیلا رکھی ہے کہتے ہیں اولیا سب کرسکتے ہیں اجی کرنے والی تو صرف اللہ کی ذات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
ایک اور مسجد میں مولانا نغمہ سرا تھے:
“واہ کہتے ہیں اولیا کچھ نہیں کر سکتے اجی اللہ کے بندے کچھ نہیں کریں گے تو یہ لوگ کریں گے ۔۔۔۔۔“
اور ساتھ ہی پھر نعرے
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔“
اب اس کا ذہن بے زار ہو چکا تھا مگر پھر بھی ایک مسجد نے اسکی توجہ کھینچ لی
“کہتے ہیں سب حق پر ہیں کیسے حق پر ہوں۔ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔حسین رضی للہ عنہ بھی حق پر ہیں اور معاویہ ابن ابوسفیان(رضی اللہ عنہ) بھی حق پرہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب حق پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔“
اور پھر وہی نعروں کی سیریز
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“یزیدیت۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد“
“حسینیت۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد“
وہ اب ان باتوں سے بے نیاز ہوکر اخبار پڑھ رہا تھا۔ مگر یہ کیا اخبار میں کیا خبریں تھیں۔
“امریکیوں نے عراق میں ایک گاؤں بمباری کرکے تباہ کردیا انھیں شک تھا کہ یہاں حریت پسند چھپے ہوئے ہیں“
“روسیوں نے چیچنیا میں اتنے مسلمان قتل کردیے ان پر چیچن مجاہد ہونے کاشبہ تھا“
“اسرائیل نے غزہ میں اپنے تازہ فضائی حملوں میں تین فلسطینی شہید کردیے۔“
“بھارتی فوج نےکشمیر میں ایک طالب علم کو سرِعام گولیوں سے اڑا دیا ۔“
اور وہ سوچ رہا تھا کیا یہ امریکی،اسرائیلی،روسی اور بھارتی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں سنی،شیعہ،بریلوی،اہلحدیث یا دیوبندی۔ اس کے اندرسے کوئی بولا نہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور انھیں ٹھوک دو۔ دوسری کوئی بات نہیں۔
دفعتًا اس کے اندر کوئی ہنسنے لگا۔ بے تحاشا ہنسنے لگاقریب تھا کہ اس ہنسی سے گھبرا کر وہ بھی ہنسنے لگتا مگر اس کے کانوں میں آوازیں آنے لگیں۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اس نے اخبار پھینکی اور سر بازار نعرے لگانے شروع کردیے۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
نعرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 13 دسمبر، 2005

پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک عام سا لڑکا تھا ۔ نہ خدو خال میں کوئی انوکھا پن تھا نہ باتوں میں۔ وہی لاابالی سا انداز جو ایک نوجوان کا خاصہ ہوتاہے۔ اپنی جوانی کا جوش بلکہ زعم دنیا جیسے کوئی حقیر ترین شے ہو۔ مگر دوسرے ہمجولیوں کی طرح ایک چیز کو وہ کبھی نظر انداز نہیں کر سکا تھا۔ وہ چیزتھی صنف مخالف۔
جب اپنے دوستوں کے منہ سے ان کے معاشقوں کی تفصیل سنتا۔ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش میں وہ کچھ اس طرح نمک مرچ لگا کر داستان سناتے جیسے راجہ اندر کے جانشین ہوں۔ اس کا دل یہ سن سن کر مچل اٹھتا۔
“آخر ایسا کیا ہے جو سب ایک ہی ڈگڈگی بجائے چلے جاتے ہیں ۔ لڑکی لڑکیاں لڑکی۔۔۔۔۔“
جب اس نے اپنی عمر سے ذرا بڑے اور بزعم خود پرانے پاپیوں سے اسکی تفصیل جاننا چاہی تو پہلے تو وہ سب خوب ہنسے۔ پھر طنز سے ایک نے جواب دیا“نہ نہ یہ بچوں کے کرنے کا کام نہیں۔“ اسکے ساتھ ہی سب پھر قہقہے لگانے لگے جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔
آخر عمر کچھ آگے بڑہی تو اسے آگاہی ہوئی یہ سب تو اس کی فطرت ہے۔ جیسے مقناطیس کے مخالف سرے کشش رکھتے ہیں ایسے ہی انسانوں میں بھی اپنی مخالف جنس کے لیے کشش رکھ دی گئی ہے۔ “اسی لیے یہ سب ہوتا ہے۔“ اس نے سوچا۔ پھر اس کے دل میں خواہش بیدار ہوئی کوئی ایسا ساتھ ہونا چاہیے جس کا اظہار وہ بھی اپنے دوستوں میں فخر سے کرسکے۔
مگر فطرتًا بزدل تھا۔ آسانی کا قائل۔ پکا پکایا کھانے کا عادی۔ چناچہ اس نے انٹرنیٹ سے یاری لگالی۔ اس وبا نے اسے صرف اتنا فائدہ دیا کہ اس کی زندگی میں ایک لڑکی آگئی۔ اب وہ بھی اپنی عمر اور اپنی عمر سے چھوٹوں میں یہ بات بڑی بے نیازی سے اپنی لمبی لمبی چیٹ کا تذکرہ کر جاتا۔ لڑکے اس کی طرف حیرت مسرت اور رشک سے دیکھتے تو جیسے نفس کے غبارے میں ہوا بھر جاتی اور وہ پھٹنے کے قریب ہوجاتا۔ شاید اس کی بنیادی خواہش یہ ہی تھی۔ کہ اپنے آُپ کو بھی نمایاں کیا جائے۔
“کیا بات کرتے ہو اس سے“ کسی نے ایک دن پوچھ ہی لیا تو اسی بے نیازی سے جواب دیا“بھائی دکھ سکھ کہہ لیتے ہیں کچھ وہ کچھ ہم ۔ دل کا غم ہلکا ہو جاتاہے۔“
وقت بھلا رکا ہے چناچہ وقت چلتا رہا۔اس کا تعلق دوستی سے محبت میں بدل گیا مگر وقت اس کو چلتے چلتے ایک داغ دے گیا۔ انٹرنیٹ پر بے وفائی عام سی بات تھی اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چناچہ اب وہ اپنے تئیں مجنوں بن گیا۔ لیلی کے عشق میں پاگل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ بکھرے بال،بے ترتیب ڈاڑہی اور لباس سے بے پرواہی۔
اسی دور میں شاید وہ ہمیشہ رہتا مگر ایک دن یوں ہی نہر کنارے بیٹھا جب بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا تو ایک اسی جیسا آدمی پاس آ کر بیٹھ گیا۔
بے ترتیب بال،چیتھڑوں میں ملبوس ناخن میل سے بھرے۔ “کیا ہے بے کیوں اتنا اداس ہے“ آنے والے کا لہجہ بھی اس کے لباس کی طرح تھا۔
“تمہیں کیا اپنا کام کرو جا کر“ وہ بے نیازی سے بولا اور اپنے پرانے شغل میں لگ گیا نہر کے پانی پر نظریں جما کر جیسے کچھ تلاشنے لگا۔
“سالے عاشق ہے۔ تبھی یہ حال کیا ہوا ہے“ اور وہ یہ سن کر حیران رہ گیا ۔
“تمہیں کیسے پتا چل گیا یہ سب بابا“ اب کے اس کا لہجہ عجز سے بھرا ہواتھا۔
“ہاہاہاہاہا ساری ہوا نکل گئی بس اتنا ہی دم تھا“ بابا اب ہنسا تھا۔ “چل بتا دے سنادےجوتیرے ساتھ ہوا“
پھوڑے پر نشتر لگے اوراوہ بہے نہ۔ وہ تو جیسے بھرا بیٹھا تھا۔ سب سنا چکا تو بابا بولا“بے تو نے اس سے رشتہ داری کیوں نکالی تھی“
“بابا ایک دوست کی ضرورت تھی کسی غم خوار کی“
“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا“ بابا یہ سن کر بے اختیارہنسنے لگا بے تحاشا جب ہنس ہنس کر تھک گیا تو بولا
“غم خوار کی ضرورت تھی۔ہاہاہاہا غم خوار ابے یوں کیوں نہیں کہتا کہ اندھا ہو گیا تھا۔“
اس کے بعد پھر وہ ہنسنے لگا تھا۔
“ابے اگر غم خوار کی ضرورت تھی تو جس نے پیدا کیا ہے کیا وہ مرگیا۔ اس کے کہتا وہ تیرا دکھ درد نہ سنتا۔ ہاہاہاہاہا پر تو نہیں مانے گا تیرے اندرتونفس نے ادھم مچایا ہوا تھانا تجھے غم خوار کی نہیں نمائش کی ضرورت تھی۔ ابے کبھی اس کی طرف بھی تو توجہ کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر دیکھ تیرے غم کیسے ہلکے کرتا ہے وہ۔ہاہاہاہاہاہا پاگل“
بابے پر پھر ہنسی کا دور پڑا تھا اور پھر وہ ہنستا ہوا بھاگ گیا۔ اس کے پیچھے اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے درخت گھاس اور آتی جاتی گاڑیاں لوگ سب قہقہے لگا رہے ہوں اور چیخ رہے ہوں پاگل پاگل پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔