جمعرات، 28 مارچ، 2013

سلیپ موڈ

کبھی کبھی کچھ اس قسم کی صورتحال بن جاتی ہے جیسے بندہ موبائل ہو اور اس پر سلیپ موڈ لگا ہوا ہو۔ سارا دن نیم خوابیدگی کی کیفیت میں گزر جاتا ہے۔ کام ہو بھی رہے ہوتے ہیں لیکن شاید ان کا کنٹرول کسی نیم سوئے دماغ کی  اتھاہ گہرائیوں میں موجود کسی شخص کے پاس ہوتا ہے۔ سارا دن ایک دھندلی سی کیفیت میں گزر جاتا ہے اور رات چلی آتی ہے۔ اور پھر ایک اور دن چڑھ جاتا ہے۔ دنوں کی گنتی بڑھتے بڑھتے ہفتوں میں بدل جاتی ہے اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔ عجیب آگہی و عدم آگہی کے برزخ کا عالم ہوتا ہے۔ جیسے دھواں بھی نہ اٹھ رہا ہو اور نیچے کہیں سلگاہٹ بھی موجود ہو۔ اوپر سے دیکھ تو ٹھنڈی راکھ ہو لیکن اندر کہیں گرمائش موجود ہو۔ اسی طرح یہ برزخ چلتا ہے، نیم اندھیرے نیم اجالے کی سی اس کیفیت میں کام بھی ہوتے چلے جاتے ہیں اور بے کاری بھی چلتی رہتی ہے۔ ایک عجیب سی اکتاہٹ بھی طاری رہتی ہے جو ویلے رہنے کا شاخسانہ ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بڑے اہتمام اور چاؤ کے ساتھ کام کرنے کی مصروفیت بھی مرنے نہیں پاتی۔

یہ دوہری کیفیت بالکل ایسے ہے جیسے کوئی ایسا موبائل فون جو ایمرجنسی موڈ پر لگا ہوا ہو، اور ضروری کمیونیکیشن کے علاوہ ہر چیز بند پڑی ہو۔ بٹن دبانے پر بس ایمرجنسی کال کی جا سکتی ہو اور اس کے علاوہ سب بند۔ اور اس ضروری کی تعریف میں ضروری، ضروری سے 180 درجے الٹ ہے۔ ہر وہ کام جس کی بظاہر ضرورت نہیں ہوتی بڑے اہتمام سے سر انجام دیا جاتا ہے، پورے پروٹوکول کے ساتھ کیا جاتا ہے اور جو کام کرنا ہو، ہاں اچھا کرتے ہیں ہاں یار یہ بھی کرنا ہے جیسے خیالات کے بعد اسے واپس ذہنی شیلف پر رکھ دیا جاتا ہے، کل کرنے کے لیے۔ کوئی بات کر لے تو تفصیلی جواب مل جاتا ہے کوئی نہ بات کرے تو دنیا جائے بھاڑ میں، ہمارے اندر اپنی ایک دنیا آباد ہے جسے کسی کی ضرورت نہیں۔ دماغ صرف انتہائی ایمرجنسی کی کیفیت میں مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے ورنہ ملگجی بیداری ہی طاری رہتی ہے۔ ایمرجنسی کی تعریف مختلف مواقع کے حوالے سے مختلف ہو سکتی ہے مثلاً کل کے لیے کوئی انتہائی ضروری ترجمہ کرنا ہو تو دماغ حاضر ہوتا ہے، یا کوئی کوئز، ٹیسٹ، ریڈنگ ملی ہوئی ہو تو دماغ ا س کے لیے حاضر ہوتا ہے۔ اور باقی کاموں کے لیے دماغ اسسٹنٹ کو کرسی پر بٹھا کر خود پچھلے کمرے میں جا کر سو جاتا ہے۔ یہ اسسٹنٹ بھی کم بخت مارا چرسی لگتا ہے جو ساری ترتیب الٹ دیتا ہے، جو کرنا ہو وہ نہیں کرنے اور جو نہیں کرنا ہو وہ کرنے کی فہرست میں ڈال کر خود انجوائے منٹ میں لگا رہتا ہے۔

انجوائے منٹ کی تفصیلات بھی انتہائی غیر اسلامی، غیر  اخلاقی اور تقریباً ہر "غیر جمع اسمِ صفت" کی ترکیب تلے آ جاتی ہیں۔ مثلاً دیہاڑی دار اسسٹنٹ دماغ فلموں کا رسیا ہے۔ ایک عدد بیسٹ موویز کی فہرست اتارنے کے بعد ایک ایک یا دو دو کر کے دو وقت روزانہ فلمیں دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اور ظاہر ہے فلمیں دیکھنا انتہائی غیر اسلامی کام ہے۔ اسسٹنٹ دماغ کی ایک اور مصروفیت پچھلے دور کی پڑھی ہوئی کہانیاں بھی ہے، یا کوئی بھی نئی کہانی مل جائے تو اسے بڑے اہتمام کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، اس کے ساتھ عموماً کچھ ٹھونگنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور ضرورت کے کام ایک جانب کھڑے بٹ بٹ منہ تک رہے ہوتے ہیں کہ "ساڈے اُتے وی اکھ رکھ وے"۔ لیکن ظاہر ہے انہیں لفٹ نہیں کروائی جاتی چونکہ یہ مستی ٹائم ہوتا ہے اسسٹنٹ مستی ٹائم چونکہ وڈا دماغ خوابِ خر گوش کے مزے لُوٹ رہا ہے۔ اسی انجوائے منٹ کا ایک تیسرا حصہ لامتناہی نیند کے سائیکل ہیں۔ ہر کچھ عرصے کے بعد اسسٹنٹ دماغ تھک کر چُور ہو جاتا ہے، جس کے بعد اسے ایک لمبی نیند کی ضرورت پڑتی ہے۔ منہ سے جمائیاں خارج ہوتی ہیں، سر بھاری ہو جاتا ہے اور آنکھیں دو کے چار دکھانے لگتی ہیں۔ چنانچہ بستر ڈھونڈا جاتا ہے اور اسسٹنٹ دماغ جسم کو بھی سُلا دیتا ہے۔ اس سلسلے میں جاگ تبھی آتی ہے جب کھانے کا وقت ہو یا شومئی قسمت اذان سنائی دے جائے۔

اس صورتحال کو ریچھوں کی سرمائی نیند سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے لیکن یہ اس نیند سے مناسب حد تک اختلاف کی حامل ہے۔ مثلاً یہ سال کے چھ مہینے طاری نہیں رہتی، بلکہ اس کا تجزیہ کیا جائے تو عُقدہ کھلتا ہے کہ یہ کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی معینہ مدت نہیں ہوتی۔ چند دن سے لے کر چند ہفتوں اور چند مہینوں تک یہ کسی بھی عرصے کے لیے طاری رہ سکتی ہے۔ مزید اس کے درجوں میں بھی فرق آتا رہتا ہے، جیسے برتن کا پیندہ کہیں سے مضبوط اور کہیں سے کمزور ہو جاتا ہے اسی طرح ایمرجنسی موڈ کی نیند کبھی کم کبھی زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ درمیان میں ایسے مواقع آتے رہتے ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ صاحبِ نیند تقریباً انسان بن چکا ہے لیکن پھر ایک جماہی آتی ہے اور بستر سیدھا کر کے اس پر لیٹنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ پرانا دوست/ سہیلی واپس آ چکی ہے۔

اس کیفیت پر تحقیق کی جائے تو کئی انکشافات بھی ہوں گے۔ چونکہ اسی کیفیت میں کئی مسائل کے سادہ سے حل سامنے آ جاتے ہیں جنہیں اگر نوٹ کر کے رکھ لیا جائے تو بعد میں خود پر تبرا بھیجنے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اسی نیم ملگجے جاگنے کی کیفیت میں بہت سے مسائل حل بھی کر لیے جاتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مکمل بیداری پر اس حل کو کوڑے دان میں پھینک کر دوبارہ سے ایک نیا حل نکالنا پڑتا ہے۔

کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ دماغ اس کیفیت میں ایک سست رفتار کچھوا ہو جاتا ہے جو چلتا چلا جاتا ہے چلتا چلا جاتا ہے لیکن یہ چلنا اتنا سست ہوتا ہے کہ دماغ کو خود بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ چل رہا ہے۔ وہی مدھم مدھم سلگاہٹ اور گرماہٹ، جس کا احساس خود کوئلے کو بھی نہیں ہوتا کہ وہ جل رہا ہے، جلتا چلا جا رہا ہے حتی کہ وہ اسی زُعم میں راکھ ہو جاتا ہے کہ ابھی تو بہت وقت باقی ہے۔۔ دماغ بھی اسی کیفیت میں، خود فراموشی کی کیفیت میں خود کو مبتلا کر کے جیسے سمجھ لیتا ہے کہ دنیا بھی اس کے ساتھ تھم گئی ہے، وقت کی لگام کھنچ گئی ہے اور وہ حقیقی برزخ میں آ کھڑا ہوا ہے۔ لیکن یہ دماغ کی خام خیالی ہوتی ہے، وقت بھلا کبھی رُکا ہے، وقت چلتا چلا جاتا ہے اور جب دن ہفتے مہینے گزرنے کے بعد ہوش آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یوگی کے مراقبے کے دوران اتنا وقت گزر گیا۔ اور وہ وقت، بظاہر دبے پاؤں دھیرے دھیرے چلتا وقت بھی خاموشی سے نہیں گزرتا، نشان چھوڑ جاتا ہے، جسم پر، گرد و نواح پر اور دماغ پر۔ دماغ کو ہوش آنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کیا تھا اور کیا ہو گیا، دماغ جو خود کو تین دن کے لیے غار میں بند کرتا تھا اس کے اٹھنے پر صدیاں بیت چکی ہوتی ہیں۔ بس یہاں کوئی معجزہ نہیں ہوتا، یہاں کوئی غار نہیں ہوتا، نیند اور جاگنے کی کیفیت میں کوئی وحی کار فرما نہیں ہوتی یہ عام سی نیند ہوتی ہے۔ بلکہ نیند کہنا بھی نیند کی توہین ہے، یہ نیم نیند بہت کچھ لے جاتی ہے۔

شاید یہ نیم نیند بہت کچھ دے بھی جاتی ہو۔ اٹھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ادھورے سے کئے ہوئے کام، کچھ ادھوری سی لکھی ہوئی سوچیں، کچھ نیم پروسیسنگ جو پسِ منظر میں ہوتی رہی اس کا ادھورا سا نتیجہ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ کچھ دے بھی جاتا ہے۔ کبھی کبھی اس حالت میں چلی ہوئی گولی نشانے پر لگ جاتی ہے اور پوبارہ بھی ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وہ کیفیت تھی جب بنزین کا چھ رُخا  مالیکیول چھ سانپوں کی صورت میں خواب میں آ وارد ہوا۔ شاید یہی وہ کیفیت ہو جس میں شاہکار تخلیق ہوتے ہوں۔ شاید یہی وہ کیفیت ہو جس میں پہاڑ جیسے مسائل کے اتنے سادہ حل سامنے آ جاتے ہوں کہ ان کی سادگی پر قربان ہو جانے کو دل کرے۔ شاید یہ کیفیت اچھی بھی ہو، لیکن بات تو فریکوئنسی پکڑنے کی ہے۔ اگر درست فریکوئنسی پکڑ لی تو پوبارہ، ورنہ ۔۔۔۔۔۔

بدھ، 27 مارچ، 2013

اینڈرائیڈ کے لیے انگریزی اردو لغت

قارئین اس بلاگ کا خادم، یعنی شاکر عزیز اینڈرائیڈ کے پرانے عاشقوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ اینڈرائیڈ ایپل آئی او ایس کے مقابلے میں ذرا "سستا" آپریٹنگ سسٹم گردانا جاتا ہے، اور یار لوگ اس پر مال وئیر اور وغیرہ وغیرہ 'وئیرز' کے خطرات کی نشاندہی فرماتے رہتے ہیں، پھر بھی میرا دل اینڈرائیڈ ہی مانگتا ہے۔ اسی عشق خانہ خراب کا شاخسانہ ایک عدد سام سنگ گلیکسی وائے اور پھر ایک عدد نیکسس سیون کی صورت میں میرے ہاں ظاہر ہو چکا ہے۔ اینڈرائیڈ چونکہ اب میری روزمرہ زندگی کا عمومی حصہ ہے تو اس کے لیے چھوٹے چھوٹے پروگراموں کی تلاش بھی رہتی ہے۔ انہیں میں سے ایک لغات کی تلاش ہے۔ پڑھتے ہوئے، براؤزنگ کرتے ہوئے، فلم دیکھتے ہوئے مجھے اکثر انگریزی سے انگریزی اور انگریزی سے اردو لغات کی ضرورت پڑی۔ انگریزی کے لیے تو مریم ویبسٹر کی بڑی شاندار ایپ موجود ہے۔ لیکن برا ہو اردو والوں کا اول تو کوئی ایپ دستیاب نہیں تھی، اگر ہونا شروع ہوئیں تو ان میں ڈھٹائی کی آخری حدوں کو بھی پار کر کے اشتہارات ٹھونسے ہوئے تھے۔ یعنی نستعلیقیت کا کوئی زمانہ ہی نہیں، ڈویلپر یہ سمجھتے ہیں کہ صارف کی ناک میں بھی چار پانچ اشتہار ٹھونس دئیے جائیں تو کم رہے گا۔ خدا کا غضب ڈیٹا سارا کلین ٹچ اردو لغت، مقتدرہ قومی لغت اور اردو انگلش ڈکشنری ڈاٹ کام جیسی جگہوں سے اٹھایا ہوا، اور صرف ایک سرچ ایپلی کیشن بنانے پر یہ سزا کہ انٹرنیٹ نہ ہو تو ایپ نہیں چلتی۔ اور ایپ نہ بھی چل رہی ہو تو نوٹیفکیشن بار میں اشتہار ٹھکا ٹھک چل رہے ہوتے ہیں۔ تو جناب ہم نے صرف ایک دن یہ گھٹیا پن برداشت کیا اور پھر کوئی اردو لغت استعمال کرنے سے توبہ کر لی۔ خدا بھلا کرے کوئک ڈکشنری والے کا جس نے ایک اوپن سورس اطلاقیہ بنا ڈالا، اشتہارات سے پاک اور بس کرنا یہ تھا کہ اردو ویب لغت والے ڈیٹا کو اس میں ڈال دیا جاتا۔ اللہ بھلا کرے محمد سعد کا اس نے اس ڈیٹا کو کوئک ڈکشنری لغت فائل کی صورت میں ڈھال دیا اور اب ہم ایک بہترین قسم کی آفلائن انگریزی اردو اور اکثر اردو انگریزی لغت سے مستفید ہوتے ہیں۔ تو جناب آپ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں، اینڈرائیڈ کے صارف ہیں تو انگریزی اردو لغت نصب کر کے اپنی زندگی آسان بنائیں۔ ہمارے لیے نوے فیصد مواقع پر یہ لغت کام دے جاتی ہے، امید ہے آپ کے لیے بھی دے گی۔ لغت نصب کرنے کے لیے مندرجہ ذیل مراحل پر نمبر وار عمل کریں اور ثوابِ دنیا و آخرت کمائیں:
انگریزی اردو لغت فائل اتاریں۔
اپڈیٹ: مقتدرہ قومی لغت فائل اتاریں۔
اپڈیٹ2: اردو انگلش ڈکشنری فائل اتاریں۔
اپڈیٹ 3: ابھی درج بالا دو لغات فائلز میں مسائل ہیں جن پر مزید تحقیق ہو رہی ہے۔ تب تک ایک سے کام چلائیں۔
3۔ یہ سیون زپ یا زپ فارمیٹ میں ہے، اس لیے سیون زپ نصب کر کے اس کو زپ فائل سے نکال لیں۔
4۔ اپنے اینڈرائیڈ آلے کو پی سی سے منسلک کریں۔
5۔ اپنے ایس ڈی کارڈ میں quickDic نامی فائل فولڈر تلاش کریں۔ اور اپنی پسندیدہ لغت فائل اس میں کاپی کر دیں۔
6۔ کوئیک ڈکشنری ایپ کو چلائیں اور یہ خوبخود موجودہ لغت فائلوں کاسراغ لگا لے گی۔
7۔ استعمال کریں اور موج لوٹیں۔ یہ فائلیں بنیادی طور پر انگریزی سے اردو لغت کے لیے ہیں، تاہم اردو سے انگریزی تلاش کی سہولت بھی کوئک ڈکشنری میں موجود ہے بس سرچ باکس کے ساتھ بائیں طرف ایک بٹن کو دبا کر زبان تبدیل کر لیں۔
اور جن احباب کو اس لغت کا علم نہیں انہیں مطلع ضرور کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ عوام اس سے مستفید ہو سکے۔
اور جاتے جاتے میرے نیکسس 7 پر لغت کی تصویر ملاحظہ کرتے جائیں۔

منگل، 26 مارچ، 2013

آنکھیں

غزال آنکھیں
کمال آنکھیں
وہ آپ اپنی
مثال آنکھیں
کہ بس سراپا
جمال آنکھیں
جو نم ذرا ہوں
وبال آنکھیں
جو جینا کر دیں
محال آنکھیں
اے یار تیری
کمال آنکھیں
(ذاتی تُک بندی)