جمعہ، 30 دسمبر، 2005

نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنی چھابڑی لگائے بیٹھا تھا۔ کافی دیر کوئی گاہک نا آیا تو ساتھ والے سے اخبار لے کرپڑھنے لگا۔ ابھی اخبار پڑھتے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ جمعے کی نمازکا وقت قریب آگیا۔ تمام مساجد کے سپیکروں سے مولاناؤں نے وعظ نشر کرنے شروع کردیے۔
ایک طرف سے گوہر افشانیاں ہورہی تھیں اور اس کا دھیان بار بار بٹ رہا تھا مولانا فرما رہے تھے
“ان لوگوں نے تو اسلام کو مذاق بنایا ہوا ہے غضب خدا کا جب اہل بیت زندہ ہیں تب سوگ مناتے ہیں جب شہید ہوگئے پھر چپ۔ ان لوگوں میں صحابہ کا کچھ احترام نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ ابھی مولانا نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اب اس کا دھیاں لاشعوری طور پر ایک اور مسجد سے آتی آواز پر لگ گیا ۔ کچھ دیر سننے کے بعد اسے اندازہ ہوا مولانا غالبًادیو بندیوں کے بخیے ادھیڑ رہے تھے۔
“اجی ان لوگوں نے تو گند مچا رکھا ہے یعنی اللہ کے رسول کا ذرا بھی احترام نہیں کہتے ہیں وہ ہم میں موجود نہیں۔۔۔۔“
اس نے چشم تصور سے دیکھا لوگ بیٹھےوجد میں ہل رہے ہیں داد دے رہے ہیں پھر دفعتًا ایک نعرہ بلند ہوا
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“ اور اسکے بعد نعروں کی سیریز شروع ہوگئی۔
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
نعرے ختم ہوئے تو مولانا ازسرِ نو دیوبندیوں کے بخیے ادھیڑنے لگے۔اس کا دھیان اس طرف سے اچاٹ ہو گیا دھیان لگایا تو ایک اور مسجد میں سے اس قسم کی آواز آرہی تھی۔
“یعنی دین میں اتنا گند مچا دیا ہے کہ لوگ پیروں کو سب کچھ سمجھنے لگے ہیں ان لوگوں نے قبر پرستی پھیلا رکھی ہے کہتے ہیں اولیا سب کرسکتے ہیں اجی کرنے والی تو صرف اللہ کی ذات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
ایک اور مسجد میں مولانا نغمہ سرا تھے:
“واہ کہتے ہیں اولیا کچھ نہیں کر سکتے اجی اللہ کے بندے کچھ نہیں کریں گے تو یہ لوگ کریں گے ۔۔۔۔۔“
اور ساتھ ہی پھر نعرے
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔“
اب اس کا ذہن بے زار ہو چکا تھا مگر پھر بھی ایک مسجد نے اسکی توجہ کھینچ لی
“کہتے ہیں سب حق پر ہیں کیسے حق پر ہوں۔ کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔حسین رضی للہ عنہ بھی حق پر ہیں اور معاویہ ابن ابوسفیان(رضی اللہ عنہ) بھی حق پرہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب حق پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔“
اور پھر وہی نعروں کی سیریز
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“یزیدیت۔۔۔۔۔۔۔مردہ باد“
“حسینیت۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد“
وہ اب ان باتوں سے بے نیاز ہوکر اخبار پڑھ رہا تھا۔ مگر یہ کیا اخبار میں کیا خبریں تھیں۔
“امریکیوں نے عراق میں ایک گاؤں بمباری کرکے تباہ کردیا انھیں شک تھا کہ یہاں حریت پسند چھپے ہوئے ہیں“
“روسیوں نے چیچنیا میں اتنے مسلمان قتل کردیے ان پر چیچن مجاہد ہونے کاشبہ تھا“
“اسرائیل نے غزہ میں اپنے تازہ فضائی حملوں میں تین فلسطینی شہید کردیے۔“
“بھارتی فوج نےکشمیر میں ایک طالب علم کو سرِعام گولیوں سے اڑا دیا ۔“
اور وہ سوچ رہا تھا کیا یہ امریکی،اسرائیلی،روسی اور بھارتی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کون ہیں سنی،شیعہ،بریلوی،اہلحدیث یا دیوبندی۔ اس کے اندرسے کوئی بولا نہیں وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمان ہیں اور انھیں ٹھوک دو۔ دوسری کوئی بات نہیں۔
دفعتًا اس کے اندر کوئی ہنسنے لگا۔ بے تحاشا ہنسنے لگاقریب تھا کہ اس ہنسی سے گھبرا کر وہ بھی ہنسنے لگتا مگر اس کے کانوں میں آوازیں آنے لگیں۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔اللہُ اکبر“
“نعرہِ رسالت۔۔۔۔۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم“
“نعرہِ حیدری۔۔۔۔یاعلی رضی اللہ عنہُ“
“نعرہِ غوثیہ۔۔۔۔۔۔یاغوث اعظم“
اس نے اخبار پھینکی اور سر بازار نعرے لگانے شروع کردیے۔
“نعرہِ تکبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر
نعرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منگل، 13 دسمبر، 2005

پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک عام سا لڑکا تھا ۔ نہ خدو خال میں کوئی انوکھا پن تھا نہ باتوں میں۔ وہی لاابالی سا انداز جو ایک نوجوان کا خاصہ ہوتاہے۔ اپنی جوانی کا جوش بلکہ زعم دنیا جیسے کوئی حقیر ترین شے ہو۔ مگر دوسرے ہمجولیوں کی طرح ایک چیز کو وہ کبھی نظر انداز نہیں کر سکا تھا۔ وہ چیزتھی صنف مخالف۔
جب اپنے دوستوں کے منہ سے ان کے معاشقوں کی تفصیل سنتا۔ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی خواہش میں وہ کچھ اس طرح نمک مرچ لگا کر داستان سناتے جیسے راجہ اندر کے جانشین ہوں۔ اس کا دل یہ سن سن کر مچل اٹھتا۔
“آخر ایسا کیا ہے جو سب ایک ہی ڈگڈگی بجائے چلے جاتے ہیں ۔ لڑکی لڑکیاں لڑکی۔۔۔۔۔“
جب اس نے اپنی عمر سے ذرا بڑے اور بزعم خود پرانے پاپیوں سے اسکی تفصیل جاننا چاہی تو پہلے تو وہ سب خوب ہنسے۔ پھر طنز سے ایک نے جواب دیا“نہ نہ یہ بچوں کے کرنے کا کام نہیں۔“ اسکے ساتھ ہی سب پھر قہقہے لگانے لگے جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔
آخر عمر کچھ آگے بڑہی تو اسے آگاہی ہوئی یہ سب تو اس کی فطرت ہے۔ جیسے مقناطیس کے مخالف سرے کشش رکھتے ہیں ایسے ہی انسانوں میں بھی اپنی مخالف جنس کے لیے کشش رکھ دی گئی ہے۔ “اسی لیے یہ سب ہوتا ہے۔“ اس نے سوچا۔ پھر اس کے دل میں خواہش بیدار ہوئی کوئی ایسا ساتھ ہونا چاہیے جس کا اظہار وہ بھی اپنے دوستوں میں فخر سے کرسکے۔
مگر فطرتًا بزدل تھا۔ آسانی کا قائل۔ پکا پکایا کھانے کا عادی۔ چناچہ اس نے انٹرنیٹ سے یاری لگالی۔ اس وبا نے اسے صرف اتنا فائدہ دیا کہ اس کی زندگی میں ایک لڑکی آگئی۔ اب وہ بھی اپنی عمر اور اپنی عمر سے چھوٹوں میں یہ بات بڑی بے نیازی سے اپنی لمبی لمبی چیٹ کا تذکرہ کر جاتا۔ لڑکے اس کی طرف حیرت مسرت اور رشک سے دیکھتے تو جیسے نفس کے غبارے میں ہوا بھر جاتی اور وہ پھٹنے کے قریب ہوجاتا۔ شاید اس کی بنیادی خواہش یہ ہی تھی۔ کہ اپنے آُپ کو بھی نمایاں کیا جائے۔
“کیا بات کرتے ہو اس سے“ کسی نے ایک دن پوچھ ہی لیا تو اسی بے نیازی سے جواب دیا“بھائی دکھ سکھ کہہ لیتے ہیں کچھ وہ کچھ ہم ۔ دل کا غم ہلکا ہو جاتاہے۔“
وقت بھلا رکا ہے چناچہ وقت چلتا رہا۔اس کا تعلق دوستی سے محبت میں بدل گیا مگر وقت اس کو چلتے چلتے ایک داغ دے گیا۔ انٹرنیٹ پر بے وفائی عام سی بات تھی اس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چناچہ اب وہ اپنے تئیں مجنوں بن گیا۔ لیلی کے عشق میں پاگل ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ بکھرے بال،بے ترتیب ڈاڑہی اور لباس سے بے پرواہی۔
اسی دور میں شاید وہ ہمیشہ رہتا مگر ایک دن یوں ہی نہر کنارے بیٹھا جب بیتے دنوں کو یاد کر رہا تھا تو ایک اسی جیسا آدمی پاس آ کر بیٹھ گیا۔
بے ترتیب بال،چیتھڑوں میں ملبوس ناخن میل سے بھرے۔ “کیا ہے بے کیوں اتنا اداس ہے“ آنے والے کا لہجہ بھی اس کے لباس کی طرح تھا۔
“تمہیں کیا اپنا کام کرو جا کر“ وہ بے نیازی سے بولا اور اپنے پرانے شغل میں لگ گیا نہر کے پانی پر نظریں جما کر جیسے کچھ تلاشنے لگا۔
“سالے عاشق ہے۔ تبھی یہ حال کیا ہوا ہے“ اور وہ یہ سن کر حیران رہ گیا ۔
“تمہیں کیسے پتا چل گیا یہ سب بابا“ اب کے اس کا لہجہ عجز سے بھرا ہواتھا۔
“ہاہاہاہاہا ساری ہوا نکل گئی بس اتنا ہی دم تھا“ بابا اب ہنسا تھا۔ “چل بتا دے سنادےجوتیرے ساتھ ہوا“
پھوڑے پر نشتر لگے اوراوہ بہے نہ۔ وہ تو جیسے بھرا بیٹھا تھا۔ سب سنا چکا تو بابا بولا“بے تو نے اس سے رشتہ داری کیوں نکالی تھی“
“بابا ایک دوست کی ضرورت تھی کسی غم خوار کی“
“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا“ بابا یہ سن کر بے اختیارہنسنے لگا بے تحاشا جب ہنس ہنس کر تھک گیا تو بولا
“غم خوار کی ضرورت تھی۔ہاہاہاہا غم خوار ابے یوں کیوں نہیں کہتا کہ اندھا ہو گیا تھا۔“
اس کے بعد پھر وہ ہنسنے لگا تھا۔
“ابے اگر غم خوار کی ضرورت تھی تو جس نے پیدا کیا ہے کیا وہ مرگیا۔ اس کے کہتا وہ تیرا دکھ درد نہ سنتا۔ ہاہاہاہاہا پر تو نہیں مانے گا تیرے اندرتونفس نے ادھم مچایا ہوا تھانا تجھے غم خوار کی نہیں نمائش کی ضرورت تھی۔ ابے کبھی اس کی طرف بھی تو توجہ کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے پھر دیکھ تیرے غم کیسے ہلکے کرتا ہے وہ۔ہاہاہاہاہاہا پاگل“
بابے پر پھر ہنسی کا دور پڑا تھا اور پھر وہ ہنستا ہوا بھاگ گیا۔ اس کے پیچھے اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے درخت گھاس اور آتی جاتی گاڑیاں لوگ سب قہقہے لگا رہے ہوں اور چیخ رہے ہوں پاگل پاگل پاگل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدھ، 30 نومبر، 2005

علماءے دين

ایک متنازعہ موضوع پر قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہوں یا شاید حالات نے کردیا ہے۔ عنوان آپ کے سامنے ہے یعنی “علمائے دین“۔ میں نہ ہی کوئی طنز کا تیر چلاؤں گا نہ ہی ان کی تعریف کروں گا۔ بلکہ اپنے محدود علم اور تجربے کی روشنی میں کچھ حقائق بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ کچھ مسائل بیان کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر اپنی محدود عقل کے مطابق ان کا حل پیش کرنے کی جسارت بھی کروں گا۔ میرا لکھا غلط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ میرا علم خام ہے اس لیے میرے قارئین کو حق حاصل ہے کہ مجھے ٹوک دیں میں بصد احترام ان کی تنقیدوتصحیح پر لبیک کہوں گا۔ بات شروع کرتے ہیں۔ علماء کیا ہیں۔ آپ میں سب جانتے ہیں کہ ہر شعبے کے سپشلائزڈ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے متعلقہ شعبے کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ جیسے ایک فزکس کے ڈاکٹر کو میں چیلنج نہیں کر سکتا کہ میرا علم اس سے کم ہے۔ آخر اس نے سالوں اس علم کے حصول میں لگا دیےہیں۔ کچھ تو ہوگا نا اس کے پاس جو اس کو مجھ سے ممتاز کرتا ہے ۔ اسی طرح علمائے دین ایسے لوگ ہیں جو دین کے معاملے میں سپیشلائزڈ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دین کا صحیح پتا ہے ۔ ان لوگوں نے سالوں اس بات کی تعلیم حاصل کرنے میں لگا دیے ہیں کہ فلاں آیت کب نازل ہوئی،اس کا پس منظر کیا ہے، فلاں حدیث کب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں سے موتی بن کر بکھری اور اس کا پس منظر کیا تھا۔مختصرًا ان معلومات پر ان لوگوں کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تو تھی بات کہ علماء کا مقام کیا ہے۔ اب بات کرتے ہیں ان کااسلام کے لیے کیا کردار ہے۔ یہ بات میں مانتا ہوں کہ ہر زمانے میں ایک ٹولہ ایسا رہا ہے جو درباری تھا سرکار کا کھا کر حق نمک ادا کرتا تھا ان لوگوں کو علمائے سوء کہتے ہیں ۔ یہ بات بھی میں مانتا ہوں کہ صوفیا کرام رحمتہ اللہ علیھم کا کردار اسلام کو پھیلانے میں انتہائی اہم بلکہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ مگر دین کو محفوظ کرنے کے لیے جن لوگوں نے ٹھوکریں کھائیں،رات کا چین اور دن کا سکون برباد کیا،حق بات کہنے کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی ان میں علماء بھی ہیں۔ اصل میں دین کے معاملات کو علماء ہی چلا سکتے ہیں۔ صوفیا کا تبلیغ میں اہم کردار ہے رہا ہے اور رہے گا مگر عام لوگ براہِ راست صوفیا سے متعلق نہیں ہوتے۔ صوفیا کا ایک مخصوص اسلوب ہوتاہے وہ بات کچھ اور کرتے ہیں اور مطلب کچھ اور ہوتا ہے جسے صاحبِ نظر ہی پہچان سکتاہے ۔ دوسرے صوفیا کرام اللہ کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ بیٹھتے ہیں ظاہر ہے وہ جو کچھ دیکھیں گے،محسوس کریں گے وہ ہی بیان کریں گے اسی کی نصیحت کریں گے اکثر اوقات یہ باتیں عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں(صوفیا باطن کو اہمیت دیتے ہیں ہم آپ ٹھہرے دنیا دار اس لیے ان کی باتیں جو ان کے لحاظ سے ٹھیک ہیں ہمارے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہوتیں کیونکہ ان کا ایک مقام ہے اس مقام کے اپنے تقاضے ہیں۔ اسکی مثال ایسے لے لیں ایک بازی گر جو رسے پر چل رہا ہے اور ایک بندہ جو نیچے زمین پر۔ صوفیا رسے پر چلنے والے بازیگر کی طرح ہیں اپنی زندگی بلکہ اپنا ایمان تک خطرے میں ڈال کر اللہ کو پہچاننے کی کوشش کوئی دیوانہ ہی کر سکتا ہے اور سچ پوچھیں تو کئی لوگ اس رسے سے گر کر اپنے ہوش خرد بھی گنوا بیٹھے تاریخ کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں اس لیے تفصیل میں نہیں جارہا جبکہ ہم عام لوگ سیدھی سادھی تشریح چاہتے ہیں ہمیں بازی گر سے کیا واسطہ ہم تو زمین پر چل رہے ہیں ہمارے تقاضے بھی مختلف ہیں) ۔ اس لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جو دین کی باتیں بتائے ان اصولوں کے مطابق ان راوایات کے مطابق ان واقعات کے مطابق جو اللہ کے رسول صلی علیہ وسلم سے ماخوذ ہیں۔چناچہ اس کل وقتی کام کو علماء بہتر طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں بہ نسبت صوفیاکے۔ اگلی بات مذہب کی تبلیغ میں بھی ان کا بڑا ہاتھ ہے۔ صوفیا کا اپنا انداز ہے وہ کسی کے منانے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہیں(یا ان کے ہاتھوں سرزد کرادیا جاتاہے) جو عقل تسلیم نہیں کرسکتی اس طرح سائل اسلام کی حقانیت جان کر مسلم ہو جاتاہے۔ علماء دلیل سے بات کرتے ہیں عام خوبیاں خامیاں گنواتے ہیں اور پھر نتیجہ کے طور پر اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہیں مگر ایک مختلف انداز میں۔(ہر مسلمان اسلام کا سفیر اور مبلغ ہے اور ہونا چاہیے اور ہم کوشش بھی کرتے ہیں کہ جب کوئی غیر مسلم ہم سے اسلام کے بارے میں پوچھے تو اس کو مطمئن کریں مگر بات وہی آجاتی ہے ہمارا علم خام ہے۔ ہمارے مقابلے میں ان لوگوں کا علم زیادہ ہے اس لیے وہ بہتر طریقے سے یہ کام کرسکتے ہیں بلاشبہ اسلام کی تبلیغ میں عام مسلمانوں کابھی ہاتھ ہے تاہم اس وقت موضوع گفتگو کچھ ایسا ہے کہ میں اس ذکر کو مختصرًا یہیں ختم کرتا ہوں۔) دین کی تبلیغ کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اسلام کے شروع سے مختلف طریقے اپنائے گئے جو آخر کار ایک منظم نظام کی صورت میں سامنے آئے یعنی دینی مدارس۔ پہلے ان مدارس میں غیر دینی علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی جیسے سائینس ۔ قرونِ و:سطٰی کے مسلم سائنسداں اسکی واضح مثال ہیں۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ ان اداروں میں علوم عمرانیات اور پھر دینی علوم تک محدود ہوگئے۔ ایک اور خرابی جو پیدا ہوئی وہ ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر تھا۔ جب ہر کسی نے ریسرچ کی اپنی عقل کے مطابق جو بات اسے ٹھیک لگی اس نے اپنا لی جس سے مختلف مکتبہ فکر وجود میں آئے جنھیں مسالک یا فرقے کہاجاتاہے۔ اختلاف کوئی ایسی بات نہیں جسکی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً ایک بار دو مختلف مسالک کے علماء آپس میں ملے تو نماز کے وقت دونوں نے ایک دوسرے کے احترام میں اپنا طریقہ نماز چھوڑ کر دوسر
ے کا طریقہ نماز اپنا لیا۔ یہ احترام تھا محبت تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احترام نہیں رہا اب بات بہت مختلف ہوچکی ہے اب تو فرقے ایسے جزیرے ہیں جن کے مابین اختلافات کے سینکڑوں میل وسیع سمندر حائل ہیں۔ اب کچھ بات برِصغیر کے علماء کی اور یہاں کے دینی تعلیمی نظام کی۔یہ نظام انگریزوں کے دور میں انگریزی تعلیم کے خلاف رد عمل میں شروع ہوا جسے درسِ نظامی کہتے ہیں(میں پہلے عرض کر چکا ہوں میرا علم خام ہے اسلئے اگر یہاں غلطی پر ہوں تو درست فرما دیجیے گا۔) ایک طرف انگریزی تعلیمی نظام دوسری طرف درسِ نظامی۔ درسِ نظامی اصل میں دین کو بچانے کی ایک کوشش تھی مگر اس کوشش کے نتائج آج کل کچھ اچھے نہیں مل رہے۔ اس زمانے کے مطابق بھلے یہ ٹھیک تھی مگر آج کل جو دور چل رہا ہے یہ نظامِ تعلیم بدلنا چاہیے۔ بے شک اس بات میں کوئی شک نہیں اس نظام سے ہی وہ ہیرے نکلے جنھوں نے انگریز مشنری پادریوں کے ناطقے بند کردیے۔ جنھوں نے اس دور میں اسلام کو بچایا جب انگریز سرکار،انکے حمایت یافتہ مشنری اور ہندو قوم اسلام کو ہڑپ کرلینے کے چکر میں تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مساجد کو آباد کرتے ہیں۔ انھی کی وجہ سے آج بھی سخت سردی میں فجر کی اذان وقت پر ہوتی ہے۔ بارش ہو،مینہ ہو ، سردی ہو گرمی ہو جنازہ یہی لوگ پڑھاتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ صداحترام ہیں۔ بے شک یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وارثین میں سےہیں (ظاہری علوم میں)۔ یہ ہم سے بر تر ہیں ہم وہ وقت گالم گلوچ یا خرافات میں گزارتے ہیں اور یہ لوگ وہی وقت قرآن کو سمجھنے اور حدیث رسول کو یاد کرنے اور اس کا علم حاصل کرنے میں گزارتے ہیں۔ قابل صداحترام ہیں یہ علم حاصل کرنے والے اور اس کے اساتذہ۔ بے شک یہ ہی لوگ ہیں جنھوں نے اردو کو اس بات کا اعزاز بخشا کہ اس میں دینی علوم کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود ہے جو شاید ہی کسی زبان میں ہو شاید عربی میں بھی نہیں۔ ہر قابل ذکر دینی کتاب خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہو کا اردو ترجمہ موجود ہے جو ان کاایک اور اعزاز ہے۔ مگر میں جو عرض کررہا تھا وہ بھی اپنی جگہ درست ہے۔ اس نظام میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مسالک کے پیچھے لگ کر علماء دین کی اصل کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگانا معمول بن چکا ہے۔ ان کی ایک دوسرے کے پیچھے نماز تک نہیں ہوتی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر مسلک کی الگ مسجد ہے اور ایک ہی محلے میں یوں کئی کئی مساجد ہیں۔ مسجد کے ساتھ لکھا ہے فلانی مسجد اہلحدیث،اہلسنت بریلوی،اہلسنت دیوبندی یا اہل تشیع ۔۔ انڈیا میں مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اس قدر اختلافات ہوگئے کہ وہاں اہل تشیع نے آل انڈیا شیعہ مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم کرلیا ان کے خیال میں انکے دینی تقاضے اکٹھے رہ کر پورے نہیں ہورہے تھے۔ پاکستان میں مدارس کے پانچ وفاق قائم ہیں یعنی ہر مسلک کا الگ وفاق(اسے آپ یوں سمجھ لیں جیسے یونورسٹی جو امتحان لینے کی ذمہ دار ہو اور سلیبس وغیرہ بھی مہیا کرے ساتھ ہی سند بھی امتحان پاس کرنے کے بعد جاری کرے )۔ آپ میں بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ اندازہ کیا جانتے ہیں کہ ان مدارس سےنکلنے والے طلبا دوسرے مسلک بارے کس قدر متعصب ہوتے ہیں۔ جہاں دو عالم اکٹھے ہوجائیں عام سے مسائل پر بحث شروع ہوجاتی ہے جن پرپہلے ہی ہر فرقے نے مخالفت اور موافقت میں درجنوں کتب تحریر کر رکھی ہیں۔ہر فرقہ خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط کہتا ہے۔ یہ سب کیوں ہورہا ہے آج کے دور میں جبکہ ہم دین کے پہلے سے بہتر جانتے ہیں۔ اس کی وجہ میری ناقص عقل کے مطابق یہ ہے کہ ہم لوگ اس طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دے ہے۔ بے شک تبدیلی کی مخالفت ہو رہی ہے تاہم تبدیلی ہونی چاہیے۔ دوسرے اس شعبے کو انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سچ پوچھیے تو ماں باپ اپنے بچے کو صرف اسی صورت میں اس شعبے میں بھیجتے ہیں جب یقین ہوجائے کہ یہ اب کسی کام کا نہیں۔ تو سوچا جاتا ہے کہ آخرت ہی سنوار لیں۔ یا وہ بچے جو یتیم ہیں۔ دیانتداری سے بتایے اگر یہ شعبہ خیرات پر نہ چلے، یہ لوگ بھی فیس لیں ،ان سے فارغ التحصیل افراد کی معاشرے میں ویسی ہی مانگ ہو جو کسی ڈاکٹر یا انجینئیر کی ہے تو کیا اس کا معیار بہتر نہیں ہوگا۔ بالکل ہوگا۔ مگر اس شعبے کے حصے میں وہ طلبا آتے ہیں جو کچرا ہوتے ہیں کند ذہن ماں باپ کی نظر میں جن کی کھپت اور کہیں نہیں۔(یاد رہے میں عمومی بات کر رہا ہوں ایسے لوگ بے شک موجود ہیں جو اپنے بچوں کے دین کی تعلیم خصوصًا دلواتے ہیں۔) دیانتداری سے بتایے اس سب کا فائدہ کس کو ہورہا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ہمارے دشمنوں کو ظاہر سی بات ہے۔ہم جو توانائیاں اس بات پر لگا رہے ہیں کہ فلانے کافر ہیں اپنے ہی بھائیوں کو ذلیل کر ہے ہیں کیا وہ ان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہییں جو اسلام پر قدغن لگا رہے ہیں ۔ میری مراد جدید دنیا کے ان غیر مسلم نام نہاد مفکرین سے ہے جن کی کتابیں اس بنیاد پر بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل کرتی ہیں کہ اسلام ایک غلط مذہب ہے اور مسلمان دہشت گرد۔(نیز نومسلموں کو بڑی دقت ہوتی ہے جب وہ مسلمان تو ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں اندر کے حالات کا پتا چلتاہے ان سے بار بار پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا مسلک کیا ہے۔ اس طرح اسلام کی بدنامی ہوتی ہے۔) علم کے محاذ پر،دلیل کے ساتھ میں یا میرے جیسے عام لوگ انھیں قائل نہیں کرسکتے انھیں شکست نہیں دے سکتے۔ انکے ساتھ بحث اور مناظرہ نہیں کرسکتے یہ کام علماء ہی کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ انھیں تقابل ادیان کا خصوصی علم سکھایا جاتا ہے انھیں منطق پر عبور حاصل ہوتاہے وہ دلیل دینا اور دی گئی دلیل کو رد کرنے کے قاعدے جانتے ہیں جو میں اور میرے جیسے جاہل نہیں جانتے۔ تو اس سب ک

اتوار، 27 نومبر، 2005

قبرُو

شہرمیں وہ رات بہت بھیانک تھی جب بڑے قبرستان میں ایک قبر کے پاس دینو گورکن کو وہ بچہ ملا تھا۔ کسی کے گناہ کی نشانی تھا یا کسی غریب کا پالنے والے سے شکوہ دینو نے اسے اولاد سمجھ کر گلے سے لگا لیا۔ دینو ان پڑھ تھا نا کوئی نام نہ سوجھا تو اس کا نام قبرُو ہی رکھ دیا دینو کے سارے بچے حتٰی کہ ماں جسے وہ بھی ماں ہی کہتا اسے قبرُو ہی کہتی تھی۔

قبرو دینو کے دوسرے بچوں کے ساتھ پلابڑھا۔ اسے ان لوگوں سے زیادہ نواز دیا گیا تھا جو اس کے ارد گرد تھے۔ گورکن کا تو کام ہوتا ہےقبر کھودنا اوربس۔ اور کیا پر دینو قبر کھودتا اور قبرو اسکے بعد جنازے کے ساتھ آنے والوں کے چہرے کھودتا اور کھوجتا۔ ایک چیز جو اسے سب میں مشترک ملتی وہ عجیب سا ڈر تھا۔ خوف ساتھا۔ سب میت کو دفن کر کے ایسے بھاگتے جیسے پیچھے کتے لگے ہوں۔ قبرو کے خیال میں کتے ہی ایسی چیز تھے جو بھاگنے پر مجبور کر سکتے تھے خود اس سے قبرستان کے کتوں نے کئی بار دغا کیا تھا پہچاننے کے باوجود اسکے پیچھے دوڑتے جس سے وہ ڈرجاتا۔

اس کے خیال میں لوگ بھی شاید اسی قسم کی کسی وجہ سے ڈرتے ہونگے۔ ایک دن اس نےدینو سے پوچھ ہی لیا

“ابا! یہ سب لوگ جو جنازے کے ساتھ آتے ہیں اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہوتے ہیں“

دینو ششد رہ گیا۔ اتنا سا بچہ اور مشاہدہ اس نے ٹالنے کی کوشش کی پر قبرو اپنی ہٹ کا پکا تھا۔ جان کو آگیا تو دینو گورکن کو بتانا پڑا کہ لوگ قبرستان کے کتوں سے نہیں موت سے ڈرتے ہیں۔

“پت موت بڑی ظالم شے ہے۔ بڑے بڑے اسکے سامنے گھٹنے ٹیک دیتےہیں“ دینو حقے کے کش لگاتے ہوئی کسی گہری سوچ سے بولاتھا۔

اور قبرو کی چھوٹی سے دنیا میں بھونچال آگیا تھا۔ موت؟ کیا موت بھی کوئی چیز ہے موت کیا ہے ابا۔ پھر دینو نے اسے بتایا موت کامطلب ہے سب ختم اور پھر قبر ۔دینو کی باتوں سے قبرو جان گیا کہ لوگ ڈرتے ہیں موت سے اور موت کی ان نشانیوں سے جنھیں قبریں کہتے ہیں۔

“پرمجھےکبھی کسی قبر نے کچھ نہیں کہا“ قبرو حیرت سے سوچ رہا تھا وہ تو بڑے پیر سائیں کی کچی قبر جس پر جھنڈے لگ ہوئے تھے سے اکثر گھنٹوں باتیں کرتا رہتا تھا۔ اسے تو ایسے لگتا جیسے اس کی باتوں کا جواب بھی دیا جا رہا ہو۔ “پریہ لوگ کیوں ڈرتے ہیں۔“

وہ پھر سوچنے لگا۔ مگر اس کا ذہن اس کو مطمئن نہ کرسکا۔ وقت گرزتا گیا اور دینو بھی قبر میں چلا گیا اب گورکنی کا کام اس کے بڑے بیٹے نے سنبھال لیا تھا۔ قبرو کے ساتھ وہ اب بھی ویسے ہی تھے جیسے دینو کی زندگی میں ۔ مگر قبرو کا دل اب آلنے سے اڑنے کو کرنے لگا تھا۔ شاید ان قبروں سے اکتا گیا تھا۔ بڑا قبرستان جہاں ہر طرف قبریں ہی قبریں تھیں حد نگاہ تک قبریں اب ان قبروں سے اس کی دوستی پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ پھر ایک دن قبرو نے اڈاری ماری اور بڑے قبرستان کو چھوڑ دیا۔ جب وہ اپنی چھوٹی سے دنیا سے باہر نکلا تو حیران رہ گیا دنیا میں یہ سب بھی ہے ۔ اس نے حیرت سے سوچا اتنے سارے لوگ اور عجیب عجیب سی سواریاں۔

قبرو حیران تو ہوا مگر سیکھنے بھی لگا۔ قبرو دنیاکے طور طریقے سیکھ گیا مگر ایک بات نہ سیکھ سکا ۔ اس کے خیال میں یہاں بھی سب اسکے دوست تھے جیسے بڑے قبرستان میں تھے بڑے پیر جی ، انکے مرید اور وہ ایک منے کی قبر۔ سب دنیا والے اس کی نظر میں ایسے ہی تھے۔ مگر جب ایک جیب کترے کے جرم میں اسے جیل ہوئی تو وہ حیران رہ گیا۔ “یہ سب بھی ہوتاہے ؟“

وہ تو معصوم تھا اس نے تو کوئی جرم نہیں کیا تھا جیب کترا تو نکل گیا تھا وہ تو میٹھی باتوں کے جال میں آگیا اس کے خیال میں یہ بھی اس کا دوست بن گیا تھا یہی وجہ تھی جب بس میں ایک مسافر نے شور مچایا “میری پونجی“

اور ایک خوش پوش سے لڑکا اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑا کر بولا “دوست ذرا پکڑنا“تو وہ خوشی سے پھول گیا یہاں بھی ایک دوست بن گیا۔ مگر بعد میں اسے جیب کترنے کے الزام میں مار بھی ملی اور پھر جیل۔

جیل سے نکلا تو قبرو پھر اپنے آلنے کی طرف اڑا۔ دنیا والے قبروں سے خوف کھاتے تھے مگر قبرو اب دنیا والوں سے خوف کھانے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی پیر سائیں کی قبر کے پاس بیٹھ کر ڈھیروں رویا تھا۔انھیں سب سناتا رہا ان دنوں اسکے ساتھ جو بیتی تھی اور جب وہ خاموش ہوگیا تو جیسے پیر سائیں کی قبر سے جواب آیا تھا۔

“پتر! یہ موت اور قبر سے نہیں اپنی بد اعمالیوں اور اپنے اندر سے ڈرتے ہیں۔ یہاں آئیں گے تو ان کا سارا کچہ چٹھہ کھل جائے گا اس لیے ڈرتے ہیں منہ چھپاتے ہیں۔ پر کب تک! کب تک منہ چھپائیں گے لانے والا لے آتا ہے چاہے یہ ہزار نہ نہ کریں سب نے یہیں آنا ہے پتر۔یہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں قبروں سے نہیں وہ تواستعارہ ہے ایک نشانی ہے جس کو انھوں نے خود پر طاری کر لیاہے اپنے آپ سے تو نہیں ڈر سکتے نا اس لیے انھوں نے اپنی میں پر قبر کا پردہ ڈال لیا ہے۔“

ہفتہ، 26 نومبر، 2005

زلزلہ زدگان کی بحالی کچھ تجاویز

زلزلہ زدگان کی بحالی اور دوبارہ بسانے کے سلسلے میں کافی کام ہورہاہے۔ فی الحال جس چیز پر توجہ مرکوز ہے وہ آئندہ سردیوں میں انھیں پناہ گاہ کی فراہمی ہے۔ اس کام کے لیے ہر تنظیم اور حکومت اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ کچھ لوگ جست کی چادریں دے رہے ہیں کچھ لوگ شیڈ بنا کر دے رہے ہیں۔ بعض معروف این جی اوز نے فائبر کے بنے ہوئے گھر بھی تقسیم کیے ہیں اور حکومت فی گھر پچیس ہزار روپیہ تقسیم کر رہی ہے (اس میں اب اضافے کی نوید سنائی جارہی ہے نیز اس رقم کی تقسیم کیں خردبرد کی شکایات بھی آرہی ہیں)
اسی ذیل میں ملک کے ایک معروف روزنامے میں دو الگ الگ تجاویز پڑھیں تو دل کیا اسے آن لائن کر دیا جائے۔
دونوں تجاویر گھر بنا کر دینے کے سلسلے میں ہیں ۔ دونوں تجاویز باری باری پیش کرتا ہوں۔
1۔ محمد اشرف جن کا تعلق ایک کرافٹ مین فیملی سے ہے لاہور کالج آف آرٹس کے طالبعلم ہیں نے کنٹینروں کی تجویز پیش کی ہے۔ انکے مطابق کنٹینر
ایک تو زلزلہ پروف ہیں
دوسرے آسانی سے اور فوری دستیاب ہیں
تیسرے کم خرچ اور موسم جیسے نمی سرد ہوا کو برداشت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں انسولیشن سے انھیں سردی گرمی پروف بنایا جاسکتا ہے
نیز ایک اوسط خاندان کے لیے اسی ہزار (80,000) سے ڈیڑھ لاکھ (150,000)روپے تک کنٹیزکا حصول ممکن ہے جس کی عمر سو سال تک ہوسکتی ہےبشرطہ ہر سال اندر اور باہر سے اینیمل پینٹ کیا جاتارہے۔
پارلیمنٹ کی موجودہ قائم ہونے والی کمیٹی کو سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے۔
2۔پانچ لوگوں کی ایک ٹیم جس میں ایک کارپینٹر باقی مزدور ہوں یا اس میں مناسب رد وبدل کر کے ایک ٹیم یعنی ایک یونٹ بنا لیا جائے (بہتر یہ ہے کہ یہ لوگ آرمی انجینئرنگ کور کے ہوں چونکہ یہ نظم و ضبط کے پابند ہوتے ہیں اس لیے بہتر کارکردگی دکھا سکیں گے) اور اس طرح کے ہزار یونٹ تجرباتی طور پر ان علاقوں جیسے نیلہ بٹ جہاں زیادہ تباہی ہوئی اور جلد برفباری اور سردی آنے کا امکان ہے تعینات کیا جائے اور ان کے گھروں کی مرمت اور تعمیر کروائی جائے پھرایک یونٹ ایک گھر بنانے میں جتنا وقت لیتا ہے اس کی اوسط لے کر مزید یونٹ مناسب تعداد میں تعینات کیے جائیں تاکہ جلد از جلد گھروں اور پناہ گاہ کی فراہمی کا مسئلہ حل ہوسکے۔
تجاویز کئی ایک ہو سکتی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کو حکومتی اور نجی سطح پر ایک پالیسی کے طور پر اپنا لیا جائے تاکہ کام باآسانی اور بروقت ہوسکے ۔ اب حال یہ ہے کہ کوئی تنظیم خیمے فراہم کر رہی ہے، کوئی جستی چادریں اور کوئی فائبر کے گھر اور جست کے بنے ہوئے گھر۔
اس سلسلے میں مزید تجاویز دی جائیں تاکہ متعلقہ اداروں کے اس سلسلے میں آگاہ کیا جائے۔

اتوار، 20 نومبر، 2005

یہ ہمارے “سیاہ”ستدان

بنی اسرائیل پر بخت نصر نے حملہ کر دیا
تھا۔ اور بنی اسرائیل کا گلہ بان اپنی ہی بھیڑوں کی عزت لوٹنے میں مصروف
تھا۔ پھر اللہ نے ان کا جوحال کیا وہ تاریخ جانتی ہے۔ ستر سال کی غلامی کے
بعد انھیں آزادی ملی تھی
ہمارے
حاکموں اور حاکمیت کے امیدواروں کو صرف اپنی پڑی ہے کسی طرح اپنی سیاست
چمکا لیں۔ خود مدد نہیں کر سکتے تو کسی کو مدد کرتے ہوئے دیکھ بھی نہیں
سکتے۔کشمیر اور سرحد میں متاثرین کا جو حال ہے وہ کون نہیں جانتا۔ جی کرتا
ہے دھاڑیں مار مار کر روئیں ان کی حالت زار پر نہیں ان بے حسوں پر۔ جو ان
کی مدد کرنے آنے والوں کو بھی نہیں بخش رہے۔
کوئی اور ایشو نہیں تھا تو اس بات کو سر پر اٹھا کے ناچ رہے ہیں کہ امریکہ
اور نیٹو کے جو فوجی یہاں امدادی سرگرمیوں کے لیے آئے ہیں وہ ملکی سلامتی
کے لیے خطرہ ہیں۔
عقلوں پر پتھر پڑ گئے ہیں یا بے حسی کی انتہا ہے۔ وہ ہزار کے لگ بھک فوجی
کیا کر لیں گے وہاں۔ یہ جو دس لاکھ کی فوج ہم نے پال رکھی ہے جس کے
اخراجات اپنا پیٹ کاٹ کر ہم پورا کرتے ہیں یہ بھاڑ جھونکنے کے لیے
ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس کا کیا مقصد ہے کیا ہم اتنے ہی کمزور ہوگئے ہیں ان مٹھی بھر کو وہاں سے
نہیں نکال سکیں گے۔
قارئین یہ سوچ رہے ہونگے کہ کتنا بے وقوف بندہ ہے اسے یاد نہیں کہ اس وقت
اس فوج نے کیا کر لیا تھا جب افغانستان پر حملے کے لیے امریکیوں کو اڈے
دیے گئے تھے۔ مگر میں پوچھتا ہوں اس وقت انھوں نے کیا کرلیا تھا جو آج
دموں کے بل پر پھر ناچ رہے ہیں اس وقت بھی ناچ کر رہ گئے تھے ہوا وہی تھا
جو فرد واحد نے چاہا تھا۔ تو اب کیوں اپنی انرجی ضائع کرتے ہیں ۔ انکی مدد
نہیں کرسکتے تو کم از کم مدد کرنے والوں کا کباڑہ تو نہ کریں۔
مگر انکی تو ایک ہی رٹ ہے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لو۔ کونسی پارلیمنٹ یہ
پارلیمنٹ ہے مچھلی منڈی بے وقوفوں کا میلہ ۔ہاہ یہ پارلیمنٹ ہے۔اور اوپر
سے انکو اعتماد میں لو وہ جو امداد کے انتظار میں بیٹھے ہیں وہ چاہیں مر
جائیں وہاں یہ اس بات پر ایک ہفتہ لگاتے کہ یہاں نیٹو اور امریکی فوج آئے
یا نہیں۔
آڈٹ کروایا جائے فنڈز کا اب جب حکومت نے اعلان کیاہے کہ عالمی اداروں سے
اس کا آڈٹ کروائیں گے تو پھر اچھل رہے ہیں یہ سب عوام کو اندھیرے میں
رکھنے کے لیے ہے۔سوال یہ ہے کہ پیسہ آپ کا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جن کا ہے ان کا حق بھی ہے کہ آڈٹ کریں جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف آپ کو
امداد دے رہے ہیں تو جیسے چاہیں اس پر مانیٹرنگ کریں آپ اپنا کام کریں۔
خود جتنی توفیق ہوئی ہے سب جانتےہیں ۔ تصاویر اتروانا اور دورے کرنا بس
اور کوئی کام نہیں۔ حاکم ہوں یا حزب اختلاف۔ دو ٹرک امداد کے اور پبلسٹی
مفت کی۔ موج ہے نا۔جن کی آمدن کروڑوں میں ہے وہ امداد لاکھوں میں دے کر
اور بونس میں دلاسے دے کر چپ ہوگئے۔
یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔جن کو اس طرح جگہ نہیں ملتی اخبار میں
وہ اس طرح بناتے ہیں اور جو حاکم ہیں انکی تو موج ہے ایک دورہ کیا اور
سرکاری ٹیلی وژن الاپنے لگا فلانے چوہدری نے آج یہاں کا دورہ کیا اور
متاثرین سے اظہار یکجہتی کیا۔
کرنے والے چپ چاپ اپنا کام کر رہے ہیں دریافت کرنے پر پتہ چلتاہے کہ انھوں
نے کیا کیا کِیا ہے۔کبھی جماعت الدعوتہ،ایدھی اور تبلیغی جماعت کی
کارکردگی دیکھیں اور پھر ان سیاستدانوں کے چیلوں کی حقیقت خود جان لیں گے۔
اب تو تعوذ ایسے ہونا چاہیے “یا اللہ ہم سیاستدان مردود سے تیری
پناہ مانگتے ہیں“

اتوار، 13 نومبر، 2005

محبت

اللہ سے محبت کیجئے جینا آسان ہو جائے گا۔
مگر آپ یہ ضرور پوچھیں گے کہ محبت کس طرح کی جائے ہم جو اللہ کی عبادت کرتے ہیں نمازیں پڑہتے ہیں یہ محبت ہی تو ہے۔ صدقہ دیتے ہیں۔ زکٰوتہ دیتے ہیں یہ محبت ہی تو ہے۔
یہ محبت نہیں۔ کبھی سوچا آپ نے آپ ایسا کیوں کرتے ہیں۔
آپ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ آپ کو اللہ سے لالچ ہے۔ اللہ جی یہ کام نکلوادو تو اتنے پیسے صدقہ دوں گا۔ اللہ جی یہ کام کروا دو اتنے نفل پڑھوں گا۔
اور فرائض کی جہاں تک بات ہے تو ہمارے دلوں میں یہ لالچ بٹھادیا گیا ہے کہ آپ کو جنت میں حوریں اور دودھ،شہد شراب کی نہریں ملیں گی۔ ہم اسی لالچ میں نماز پڑھتے ہیں اور پڑھتے چلے جارہےہیں زکٰوتہ دیتے ہیں اور حج پر حج کرتے چلے جاتے ہیں۔
کبھی سوچا آپ نے آپ رب کی عبادت کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ بیوپار اور کاروبار کرتے ہیں۔ یہ تو بنیے کاکام ہے ہم مسلمان ہو کر ایسے۔ عجیب بات نہیں ۔
اللہ کہتا ہے میری طرف ایک قدم بڑھاؤ میں تمہاری طرف دو قدم بڑھاؤں گا۔ مگر اس قدم میں اخلاص تو ہو۔ جو بندہ جو چاہتا ہے اللہ اس کو دے دیتے ہیں ۔
جو دنیا کی آرزو رکھتا ہے اسے دنیا ملتی ہے اور جو جنت اور حوروں کی آرزو رکھتا ہےاسے بھی ہہ ہی ملیں گی۔اور جو اللہ کی خواہش کرتے ہیں کبھی سوچا انھیں کیا ملے گا۔
انھیں اللہ ملے گا۔ آپ ہم صوفی نہیں۔ ہم تو دنیا دار بندے ہیں۔ ہم کہاں اللہ کو پا سکتے ہیں ۔مگر کوشش تو کی جاسکتی ہے۔ مانا کہ راہِ عشق میں ٹھوکریں بہت ہیں ۔ ہم یہ سب برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ بڑے لوگ تھے داتا صاصب اور خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیھم جیسے، جو اللہ کو راضی کرتے تھے۔
جن کو بخار چڑھتا تھا اور اللہ سے شفا کرنے کی دعا کرتے تو جواب آتا کہ بخار بھی ہمارا اور بندہ بھی ہمارا پھر تو کون بولنے والا۔
مگر ہم اللہ کو دوست تو بنا سکتے ہیں۔ اس سے اپنے لیے رحمت تو مانگ سکتے ہیں ۔ اس کو اپنے ساتھ تو رکھ سکتے ہیں ۔ کھانے میں ، پہننے میں ، چلتے پھرتے اور سوتے ہوئے اسے یاد تو رکھ سکتے ہیں۔
اللہ بہت رحیم ہے مانا کہ وہ جبار قھار بھی ہے مگر رحیم اور رحمان بھی تو ہے۔تو اسکو اپنی زندگی میں شامل رکھیے۔ نماز پڑھ کر اللہ کو مسجد میں نہ چھوڑ آیے۔ اسے اپنے ساتھ رکھیے۔ یہ احساس رکھیے کہ وہ آپ سے ساتھ ہے پھر دیکھیے جینے کا مزہ کس طرح آتا ہے۔
جب آپ اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے ساتھ شیئر کرنے کے عادی ہو جائیں گے تو وہ بھی آپ کی سننے لگے گا پھر یہ گلہ بھی ختم ہو جائے گا کہ اللہ سنتا نہیں ۔کوئی کام ہو گیا تو اس کا شکر کیجیے، نہیں ہوا تو پھر سے دعا کیجئے رحمت اللعالیمین صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کیجئے وہ کس طرح نہیں سنے گا ضرور سنے گا۔ اگر کام نہیں ہوتا تو اس سے صبر کی دعا کیجیے کہ کامیابی نہیں تو صبر دے دے۔
بخدا زندگی بالکل ایسے ہو جائے گی جیسے جنت ہو۔ کبھی آزما کر دیکھیے گا۔

جمعرات، 3 نومبر، 2005

عيد اور ہماري ذمہ دارياں

اللہ کی رحمتوں کا مہینہ ختم ہو چلا ہے۔ اس کے بعد جس چیز کا ہم کو شدت سے انتظار ہوتا ہے اور اس بار بھی ہے وہ عیدالفطر یعنی میٹھی عید ہے۔ جسے روزہ داروں کا انعام بھی کہا گیا ہے۔
مگر اس بارکچھ خاص ہے۔
عید کی خوشیوں میں کچھ غم بھی شامل ہو گئے ہیں۔ کسی کی یتیمی کا غم،کسی کی بیوگی کا غم کسی کی بے اولادی کا غم،کسی کی معذوری کا غم اور کسی کی بےگھری کا غم۔ مگر ان غموں کو برداشت کرنا ہے۔ کہ رضائے الٰہی یہ ہی تھی۔
ہمارا عید کا فلسفہ تو ویسے بھی ہمیں ایثار و قربانی سکھاتا ہے۔ اپنے مفلس و مسکین بھائیوں کی مدد کرنا ہم پر لازم قرار دے دیا گیا ہے۔
تو اس کا بالخصوص خیال رکھیے گا کہ کوئی ہے جو آپ کی امداد کا منتظر وہاں غیروں کے ٹکڑوں پر پل رہا ہے ۔ اگر یہ ہی مقدر میں ہے تو ہم کیوں نہیں۔
اور غیر بھی کہ سو بار یاد دلانے پر ایک بار کچھ دیتے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق اقوامِ متحدہ کے پاس صرف چند ہفتوں تک امدادی آپریشن چلانے کے فنڈز ہیں۔ جتنی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا اس سے آدھی بھی نہیں دی گئی۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ پہلے ڈیڑھ ہفتے جو جوش و خروش ہم میں تھا اب کم ہوتا جارہا ہے۔ شائد ہم مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہیں کہ اب کرنے والے آگئے ہیں۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے والے آپ ہیں۔ اپنے اپنوں کی مدد نہیں کریں گے تو غیر کیا خاک توجہ دیں گے۔ ابھی وقت نہیں ہوا کہ ہم امدادی سرگرمیوں سے منہ موڑ لیں ۔ ابھی تو کئی علاقوں تک خیمے نہیں پہنچ سکے ۔وہاں کے روزانہ فضائی آپریشن کا خرچہ ہی اتنا ہے کہ ہماری دی گئی امداد دنوں میں اڑ جائے گی۔ آسان لفظوں میں پُھنک جائے گی۔ یہ تو ایسا گڑھا ہے کہ بھرنے کے لیے اس طرح کے کئی گنا جذبات کی ضرورت ہے۔
اس لیے میری ایک درخواست۔
“فطرانہ“ ہر صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ آپ، ہم سب ادا کرتے ہیں۔ کسے ادا کرتے ہیں۔ اکثر پیشہ وروں کو۔ اس بار مستحقین کا بھی خیال کر لیجیے گا۔ میں شریعت کا عالم نہیں نہ ہی فقہی ہوں بس جو دل میں آئی وہ عرض کر رہا ہوں میرے خیال میں اس کے سب سے بڑھ کر مستحقین وہ ہیں جو اس وقت کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔
خدارا اس عید پر یہ بھی خیال کیجیے گا اپنے بچوں کو عیدی دیتے وقت یہ سوچ ضرور لیجئے گا کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایسے بچے بھی ہیں جنھیں عیدی تو کیا گھر نصیب نہیں،کھانا نصیب نہیں۔
اگر اس بار آپ وہ عیدی اپنے بچوں کو دینے کی بجائے ان بچوں کے لیے دے دیں تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی بلکہ اپنے بچوں کو باور کرائیں کہ آپ کے کچھ دوست ایسے بھی ہیں جو اس کے اصل مستحق ہیں۔ بچے معصوم ہوتے ہیں خدا کی قسم مجھے اس بات کا یقین ہے کہ کوئی بچہ بھی ایسا نہیں ہو گا جو یہ نا کہے ڈیڈی یہ عیدی آپ ان کو دے دیں ہم نہیں لیں گے۔
مجھے امید ہے میرے قارئین اس بات پر توجہ دیں گے کہ اس بار عید ذرا سادگی سے منا لی جائے،عید کیک نا لایا جائے،اچھے اچھے کھاناے ڈھیر سارے کی بجائے ایک دو ڈش پکا لی جائیں،کہیں گھومنے نہ جایا جائے ،اپنا اور اپنے گھر والوں کا فطرانہ اور ہو سکے تو اپنے بچوں کی رضامندی سے انھیں بتا کر احساس دلا کر انکی عیدی بھی یہ سب ان کو دیا جائے جن کا ہم پر حق ہے۔
یاد رکھیے گا یہ ان پر احسان نہیں یہ ان کا آپ پر حق ہے مسلمان کا مسلمان پر حق ہے نیز یہ آپ اپنی آخرت سنوارنے کے لیے کریں گے اور کسی کے لیے نہیں۔
اللہ رب العٰلمین سے دعا ہے کہ وہ رحمت اللعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اس آزمائش میں پورا اترے کی توفیق دے۔
آمین یا ربّ العٰلمین۔


اتوار، 30 اکتوبر، 2005

پراجيكٹ گٹن برگ كي طرز پر اردو ميں ايك منصوبہ

اردو ہم جس کو کہتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
اردو اور سائنس آجکل اردو کے چاہنے والوں کا پسندیدہ موضوع ہے۔ کچھ کریں یا نہ کریں مگر یہ ضرور کہیں گے کہ ہر چیز اردو میں ہو۔ استعمال چاہیں نہ کریں ۔ کمپیوٹر بھی سائنس میں شمار کیا جاتا ہے ۔ زندگی میں کمپیوٹر کے عمل دخل نے جہاں ہمیں اور پہلوؤں سے متاثر کیا ہے وہاں ہماری زباندانی پر بھی اثرات اور بڑے بد اثرات چھوڑے ہیں ۔ اس کی مثال یہ لے سکتے ہیں کہ رومن میں چیٹ کر کر کے اب میرا یہ حال ہو گیا ہے کہ بعض اوقات شبہ ہونے لگتا ہے کہ شاید اردو میں لکھے اس لفظ کے ہجے ٹھیک نہیں حالانکہ ٹھیک ہوتے ہیں ۔ بات چلی تو عرض کرتا چلوں اردو کا ہاتھ سے لکھنا بھی چونکہ تقریبا عنقا ہوتا ہے، بعد از میٹرک تو اس کا حال بھی برا ہے۔ اس بات کا انکشاف ہم پر اس وقت ہوا جب بی کام پارٹ ون کا اسلامیات کا پرچہ دے رہے تھے اور کسی سے لکھا نہیں جا رہا تھا اردو لکھنے کی عادت نہیں تھی ہاتھوں کو پچھلے ٣ سالوں سےتو کیا خاک لکھا جاتا نتیجتًا تمام لڑکے پرچہ دینے کے بعد دیر تک ہاتھ اور بازو ملتے رہے کہ درد ہو رہا تھا۔
خیر یہ تو بات سے بات تھی۔ ذکر ہو رہا تھا کمپیوٹر میں اردو کا ۔ کمپیوٹر کی بات ہو اور انٹرنیٹ کی نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اردو کا نام بھی کمپیوٹر کے لیے حرام تھا چند سال پہلے تک مگر اب کچھ نئی تکنیکوں اور کچھ ٹوٹکوں نے کمپیوٹر پر اردو لکھنا اردو پڑہنا ممکن بنا دیا ہے۔ جب یہ سب ہو گیا تو اردو کے چاہنے والوں کو ہوش آیا کہ اب انٹرنیٹ پر بھی بس ہر طرف اردو ہی اردو کر دیں ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر اردو ویب آرگ کا قیام عمل میں آیا ۔ جہاں سے ناچیز کے اصرار پر ایک پراجیکٹ یا منصوبہ بسلسلہ اردو ای بکس شروع کیا گیا۔
اگرچہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل مریض کی طرح اس کی حالت نازک ہے مگر امید ہے کہ بہتری ہوگی۔ اردو ای بکس یوں تو موجود ہیں انٹرنیٹ پر مگر یہ سب تصویری اردو میں ہیں تحریری اردو میں نہیں ۔ تصویری اردو وقتی حل ہے مستقل حل نہیں چناچہ یہ منصوبہ جو اردو محفل کے اراکین کی طرف سے ترقی پذیر ہے میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اردو کی کتابیں مہیا کی جائیں جو:
١۔تحریری اردو میں ہوں
٢۔مفت اور ہر ایک کے لیے ہوں
٣۔ خصوصًا اردو کی کلاسیکل کتابیں جن کے نایاب ہونے کا خدشہ ہے یا کم ملتی ہیں یا انھیں اردو میں ایک مقام حاصل ہےاور صاحبان ذوق ان کو سینت سینت کر رکھنا پسند کرتے ہیں۔
٤۔اسلامی کتابیں جیسے قرآن بہ ترجمہ و تفسیرقرآن،احادیث کی کتب،سیرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کتب، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی سیرت وغیرہ۔
٥۔اردو کی لغات جن سے اردو داں طبقے میں اردو کی صلاحیت بڑھے۔
٦۔ایسی کتابیں جن کی کاپی رائٹ نہ ہو یہ ختم ہو گیا ہو ہو یا متعلقہ ادارہ انکی آن لائن اشاعت کی اجازت دے دے۔
اس سلسلے میں ہمیں ہرممکن تعاون درکار ہے ہم فی الحال علمی تعاون مانگ رہے ہیں۔ اگر:
١۔ آپ کے پاس کوئی کتاب ان پیچ یا کسی بھی اردو اڈیٹر میں لکھی ہوئی موجود ہے، آپ اپنی غیر مطبوعہ تحاریر(بشرطیکہ معیار پر پوری اتریں ) یا اپنی یا اپنے ادارہ کی کسی کتاب کا کاپی رائٹ دے سکتے ہوں۔
٢۔آپ کچھ وقت نکال کے ہمارے ساتھ اس کام میں ہاتھ بٹا سکتے ہوں لکھنے کے سلسلے میں(اور انشاءاللہ مستقبل قریب میں تحاریر کی پروف ریڈنگ کے سلسلے میں جب کام کی رفتار زیادہ ہوگی)
٣۔آپ اس کام کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ہمیں کوئی مفید مشورہ دینا چاہتے ہوں کوئی تکنیکی بات جس سے اس منصوبے کو نکھارنے میں مدد ملے۔
٤۔اس کے علاوہ کوئی بھی ایسی بات، کوئی تعاون جو آپ کے خیال میں اس سلسلے میں مفید ثابت ہو سکتا ہو
اگر ہمیں فراہم کریں گے ہم بصد شکریہ اسے قبول کریں گے اور اسے آپکے نام کے ساتھ اپنے منصوبے میں شامل کریں گے۔ اس صدقہ جاریہ کا صلہ تو اللہ ہی دے سکتا ہے مگر دنیا میں جو خوشی اس سے آپ کو اور اردو کے چاہنے والوں کو ملے گی اس کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا ۔
اللہ کریم ہمیں توفیق دے ۔
خیر اندیش
www.urduweb.org کی جانب سے‘دوست‘

منگل، 25 اکتوبر، 2005

عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

کلاس شروع ہوئی تو ایک لڑکے نے اٹھ کر پوچھ لیا سر یہ کہ رہا ہے کہ حضورصلی علیہ وسلم زندہ ہیں یا نہیں اور دوسرےنبی کا رتبہ شہید سے زیادہ ہے یا نہیں ۔
سر نے جواب دیا ایک دو لڑکوں نے اپنے عقیدے کے مطابق جواب دیا کہ رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم درود شریف کا جواب دیتے ہیں یا ایک فرشتہ ہمارا درود ان تک پہنچاتا ہے۔
اور میں سوچتا رہا ہم سب یہ کن بحثوں میں پڑے ہوئےہیں۔
کیا عاشق اس بات کو سوچتا ہے کہ محبوب سامنے ہے یا نہیں۔
وہ تو عشق کیے جاتا ہے۔ عشق کیا جانے ان چیزوں کو اس کا تو دل مدینہ ہوتا ہے۔ اور جس کے عشق میں وہ سرتاپاغرق ہے وہ اسےنا جانے یہ کہاں لکھا ہے۔ ہم صرف بے معنی باتوں میں الجھے ہیں۔ عشق کر کے تو دیکھیں آپ ان چیزوں سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ عاشق کو تو محبوب کی رضا چاہیے اور یہ آپس میں لڑ لڑ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔

جمعرات، 20 اکتوبر، 2005

پاگل دل

آج بہت دن بعد دکھ برداشت سے باہر ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک بہت عزیز ہستی کو دکھ میں غرق دیکھ کر بے اختیار دل میں شکوہ ابھر آیا۔

“مالک کیا ہم اتنے ہی بے وقعت ہیں جو آئے روند کر چلا جائے ۔تُو تو سنتا ہے ہم نے تمہیں پکارا مگر ہماری کیوں نہیں سنتا! دکھ دینا تھا تو صبر دے دیتا یہ اتنا سارا دکھ کہاں لے جائیں“

دل اور بھی شکوہ کرتا نادان تھا نا مگر عقل نے روک دیا۔

“رک کیا کر رہا ہے۔ کفر بکتا ہے اللہ تم پر مہربان ہے بھلا وہ تمہاری کیوں نہ سنےگا“

دل پھر مچلا

“مگر پھر یہ کیوں! کیا اسے سنتا نہیں کیا اسے دکھتا نہیں کوئی کتنی تکلیف میں ہے “

اس سے آگے سوچنے کی مہلت نہ ملی ۔ عقل نے ایک نیا زاویہ دکھایا۔

“کیا ہے تیرا دکھ اپنی من پسند چیز نہیں ملی تو اس کے احسان بھلا دیے ایک ایسی چیز کے لیے اس کے غضب کو آواز دیتا ہے جو سراسر دنیاوی ہے“

“تیرا دکھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ سے تو بڑا نہیں یاد کر جب انھوں نے کہا تھا ہمیں دکھ ہے مگر ہم رو نہیں سکتے۔ یاد کر وہ وقت جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا قاسم اس دنیا سے چلا گیا۔ کیا تیرا دکھ اس سے بڑا ہےایک باپ کے دکھ سے جس کے سامنے اس کی اولاد چلی جائے وہ بھی بیٹا۔ اور پھر بھی وہ آنکھ سے آنسو نہیں ٹپکنے دیتے کہ اللہ کی رضا اسی میں تھی“

دل اب پشیمان ہو گیا“ میرا غم تو کچھ بھی نہیں اس کے آگے۔“ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھ کو محسوس کیا تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تو تھے ایک باپ بھی تو تھے انھوں نے کیا محسوس کیا ہوگا مگر پھر بھی اللہ کی رضا کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ۔

“اور تو ایک دنیاوی چیز کے نہ ملنے سے بلک رہا ہے۔

ان کی حالت دیکھ جن کے عزیز ان سے بچھڑ گئے گھر اجڑ گئے اولاد والے بے اولاد ہو گئے بچے یتیم ہو گئے اپنے دکھ کےساتھ انکے دکھ کو بھی تو رکھ کر دیکھ وہ بھی تو انسان ہیں وہ تو شکوہ نہیں کرتے وہ تو اب بھی شکر کرتے ہیں اور تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناشکرا انسان“

عقل نے اب سختی اختیار کی تھی اور دل ۔۔۔۔۔۔دل اپنے دکھ کو اس دکھ کے سامنے ہیچ محسوس کر رہا تھاجو ہزاروں دل جھیل رہے ہیں۔

پھر عقل نے پیار سے سمجھایا

“پاگل دنیا میں ہر چیز نہیں مل جاتی ۔ کہیں اپنی منوائی جاتی ہے کہیں اسکی رضا پر چلنا پڑتا ہے۔ نہ چلےگا تو پھر کیا کر لےگا چلا تو لے گا وہ تجھے اپنی رضا پر! تو اپنی رضا سے چل۔۔۔ مفت میں اسکے سامنے نمبر بن جائیں گے ۔۔۔یہ بھی تو سوچ جو تجھ پر بیتی ہے اس میں تیرا کتنا ہاتھ ہے۔ کبھی تو نے سوچا کہ میں اس کے حقوق پورے ادا کروں اپنے حقوق کی فکر ہے تجھے۔کبھی سوچا کتنا گنہگار ہے اور وہ تجھے ڈھیل دیے جا رہا ہے اور تو پھر۔۔۔۔۔۔۔ “

دل و دماغ کی اس جنگ نے کئی عقدے سلجھا دیے۔ اگر دکھ جھیلنا ہے تو اپنے دکھ کا موازنہ دوسروں کے دکھ کے ساتھ کرو اپنا دکھ بھول جاؤ گے اپنے دکھ پر دکھی ہوتے شرم آئے گی اتنا ہیچ ہو جائے گا۔

پھر بے اختیار دل سے دعا نکلی

“مالک! ہم خطاکار،سیاہ کار،گناہ گار! تیری رحمت کے طلبگار باوجود کہ اس کے لائق نہیں پھر بھی ہم پراپنا رحم کرم اور فضل فرما۔ رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہم سے رحمت بھرا سلوک فرما۔ ہم تجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ مانگتے ہیں ہماری توبہ قبول فرما ہمیں اس مصیبت کی گھڑی میں جو ہمارے بہن بھائیوں پر آئی ہے ان کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرما اور ان کو صبرِ جمیل عطاء فرما آمین یا ربّ العالمین “

اتوار، 9 اکتوبر، 2005

شکر کیجئے

ہر طرف غصہ ،نفرت ،لاتعلقی،بے حسی اور بے زاری کا دور دورہ ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ سے غرض رکھنا چاہتا ہے۔ دوسروں سے لاتعلقی،بے زاری ۔اپنوں سے ،غیروں سے ،چیزوں سے ،ماحول سے غرض ہر چیز سے بے زاری ،لاتعلقی، بے حسی ۔ آخر کیوں ؟۔ اسکی وجہ لوگ زندگی کی تیز رفتاری کو قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس اپنے لئے وقت نہیں بچا۔ تو خدا کے لیے کہاں سے وقت نکالیں گے۔ ہم پانچ وقت کی نمازاور بعض جمعہ یا عیدین کے دو فرائض پڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسلمان ہونے کا حق ادا کردیا۔ عیسائیت کی طرح ہم اسلام کو مسجد کے اندر محصور کر دینا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ زبانی طور پر "دینِ فطرت " کا راگ ہر کوئی الاپتا ہے مگر عمل کوئی نہیں ۔ یاد رکھیں اسلام آپ کی رگوں میں لہو بن کر دوڑتا ہے جب آپ زندگی سے اسلام کو نکالیں گے تو اپنے آپ سے گویا دستبردار ہونگے جس کا نتیجہ یہ ہی ہوگا جو آج ہے۔
کتنے چھوٹے چھوٹے اعمال ہیں جو ہم بھولتے جارہے ہیں ۔ جن پر کوئی توانائی خرچ نہیں ہوتی مگر کوئی دھیان تو کرے۔ میں واعظوں کی طرح مسواک کرنے،داڑھی رکھنے یا شلوار کو ٹخنوں سے اونچا کرنے کی بات نہیں کررہا ۔ بلاشبہ انکی اپنی اہمیت ہے مگر یہاں بات رویوں کو درست کرنے کی ہو رہی ہے۔
عام زندگی میں ہم ہر اس شخص کے شکر گزار ہوتے ہیں جو ہم پر کوئی چھوٹا سا بھی احسان کرے۔ مگر ہم اپنے سب سے بڑے محسن کو بھولتے جارہے ہیں ۔رسمی طور پر تو اسکا شکر ہر کوئی ادا کرتا ہے جیسے :
"اسلم بھائی کیا حال ہے"
"اللہ کا شکر ہے ارشد بھائی "
"کاروبار کا سنائیں"
"بس یار نہ ہی پوچھو بس گھسیٹ رہے ہیں"
عجیب بات ہے نا۔ ایک طرف تو اللہ کا شکر دوسری طرف شکوہ۔یہ عام سی بات ہے کوئی بھی اپنی طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم شکر نہیں کرتے۔ سوچیں اللہ جس کی رحمت لمحہ لمحہ ،ہر سانس کے ساتھ ہم پر برس رہی ہے وہ تھکتا نہیں ہمیں نوازتا اور ہم،اس کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتے؟ مگر اس سے کیا ہوگا؟ شائد یہ سوال کچھ دلوں میں اٹھے تو اس سے یہ ہو گا کہ آپ کے ہر اس کام میں برکت دے دی جائے گی جس بارے شکر کیا جائے۔ شکر کا اصول ہے کہ جس بارے یہ کیا جائے اللہ اس کام میں بڑہوتری دے دیتے ہیں ۔ تو احساس رکھیں کہ کوئی ہے جس کی رحمت ہر لمحہ ہم پر سایہ فگن ہے۔ جب یہ احساس رہے گا تو شکر گزاری کے جذبات بھی پیدا ہو نگے اور شکر کے چند الفاظ ہماری زندگیوں میں انقلاب لے آئینگے کہ ہم پر خدا کی رحمت ہو گی۔ اور جس پراس کی رحمت ہو وہ بھلا کبھی ناکام ،بے بس ، مجبور ، پریشان ،بے زار ہوسکتا ہے ؟
نہیں کبھی نہیں ۔
تو آئیے شکر ادا کریں ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں مسلمان بنایا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں محمدکا امتی بنایا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں بغیر عیب کے پیدا کیا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں لاکھوں سے بہتر زندگی دی۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں پاکستان عطاءکیا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے تو نے ہمیں رزق دیا۔ یا اللہ تیرا شکر ہے ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے۔ آئیے آئندہ سے شکر کرنے کا عہد کریں اللہ ہمیں شکر کرنے کی توفیق دے آمین۔