جمعہ، 28 دسمبر، 2007

بےنظیر چلی گئی۔۔۔۔۔

بی بی سی پر تازترین میں‌ بینظیر کی ہلاکت کی خبر موجود ہے۔ ابھی سرکاری ٹیلی وژن نے بھی یہی خبر دی ہے۔ میں بے نظیر سے نظریاتی اختلاف رکھتا تھا اور بے شک میں‌ اسے ووٹ بھی نہ دیتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ وہ جیسی بھی تھی ایک لیڈر تھی۔ لیڈر میں‌ پوری قوم کی جان ہوتی ہے۔ لیڈر کی موت قوم کے اندر ایسے نامٹنے والے زخم چھوڑ جاتی ہے جو ناسور بن کر قوم کو کھا جاتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کی موت ایک سیاسی عمل کی موت ہے۔ اگر پہلے انتخابات سے ہمیں‌ کچھ بہتری کی امید بھی تھی تو بھی نہیں‌۔ بے نظیر ایک ایسے طبقہ فکر کی نمائندہ تھی جو ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن دیکھنا چاہتا تھا۔ بے شک اس کی موت کا خلاء کبھی بھی پورا نہیں ہوسکے گا۔
بےنظیر ایک جینوئن لیڈر تھی۔ بلاشک ذولفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کی تربیت ایسے ہی کی تھی۔ اس کے اندر اظہار کی جرات تھی اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف اس کا موقف بہت سخت اور واضح تھا۔ یہی موقف اس کی موت کا سبب بن گیا۔ لعنت ہے ایسی حکومت پر جو ایک لیڈر کو سیکیورٹی بھی فراہم نہ کرسکی۔ یہ سب کچھ مشرف کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اس ایک ہلاکت کے ردعمل میں کیا کیا فتنے سراٹھائیں‌گے ان کا تصور ہی لرزہ طاری کردیتا ہے۔ اب پیچھے رہ ہی کیا گیا ہے لوٹے اور چمچے۔
اللہ سائیں لواحقین کو صبر جمیل عطاء کرے اور مرحومہ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام نصیب فرمائے۔ یاللہ ہمیں‌ استقامت اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطاء‌فرما۔ آمین

پیر، 24 دسمبر، 2007

ویکیا (Wikia) کے پرائیویٹ بی‌ٹا کا اجراء

ویکیا ایک اوپن سورس تلاش گر کا نام ہے۔ تلاش گری یعنی سرچ انجن کے میدان کا بادشاہ گوگل ہے۔ کبھی یاہو اور الٹا وسٹا کا نام بھی اسی ضمن میں بہت اونچا تھا آجکل لوگ ان کی طرف کم کم ہی جاتے ہیں۔ تلاش گری میں مائیکروسافٹ نے بھی ونڈوز لائیو سرچ کی صورت میں ٹانگ اڑائی ہوئی ہے لیکن گوگل کو ان پر واضح برتری حاصل ہے۔
ویکیا سرچ کا قیام شاید گوگل کی حاکمیت کو چیلنج ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسی لیے گوگل نے نول پراجیکٹ کے نام سے وکی پیڈیا کے مقابل ایک مجمع العلوم بنا ڈالا ہے۔ اس میں کتنی سچائی ہے یا نہیں یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اصل میں بتانا یہ تھا کہ ویکیا کے قیام کا اعلان ہوئے کوئی سال بھر ہونے کو ہے۔ اس کے بعد اب جاکر ویکیا کے بانی جمی ویلز نے ویکیا کے پرائیویٹ بی ٹا ورژن کے اجراء کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ویکیا کی ایک میلنگ لسٹ میں کیا گیا ہے تفصیل آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ ویکیا کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اس کی ویب سائٹ سے رجوع کیجیے۔ میں ویکیا کے لیے اپنے سسٹم کے کچھ ریسورسز دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں تاکہ یہ اوپن سورس پراجیکٹ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ قابل استعمال حالت میں آسکے۔

اتوار، 23 دسمبر، 2007

اردو کوڈر فورم اپگریڈ کے بعد

محمد علی مکی کو عربی اور عربوں سے روحانی قسم کی وابستگی ہے۔ چناچہ سافٹویرز کو عربی سے اردو کرنا ان کی اضافی خوبی ہے۔ اردو کوڈر کو بھی ایک عربی فورم پیکج پر اپگریڈ کردیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ساتھ عربی مترجم لائیں ۔۔۔سافٹویر کا اردو ترجمہ احتیاطًا کردیا گیا تھا۔ یہ فورم سافٹویر پی ایچ پی بی بی کی اولاد میں سے ہی لگتا ہے شاید اس کا کوئی کزن شزن ہے۔ یعنی تھوڑا سا مختلف ہے کچھ اختیارات زیادہ ہیں جیسے ذیلی فورم وغیرہ۔ چناچہ آپ بلاخطر تشریف لائیے اور ہمیں اس اپگریڈ کی خوبیوں اور خامیوں سے بھی آگاہ کیجیے۔ فورم کا ٹیپلیٹ ابھی ڈیفالٹ سا ہے اسے بدلنا ہے۔
وسلام

ہفتہ، 22 دسمبر، 2007

اردو کوڈر فورمز کی اپگریڈ

اردو کوڈر فورمز اپگریڈ کے سلسلے میں بند ہیں۔ محمد علی مکی آج اسے پی ایچ پی بی بی کے ایک ایکسٹرا پیکج پر اپگریڈ کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔ آپ اور میں دونوں دیکھتے ہیں کہ کیا بنتا ہے یا تو اپگریڈ ہوجائے گا یا موج ہوجائے گی۔ ;)

جمعہ، 21 دسمبر، 2007

دوستوں سجنوں کو عید مبارک

عید کی نماز میں‌ ایک گھنٹے کے قریب وقت رہ گیا ہے اور میں اس وقت تمام دوستوں کو ایس ایم ایس کرنے بیٹھا ہوں‌۔ سوچا یہ پوسٹ بھی لکھ لی جائے۔
ّ

عید مبارک


خوش رہیے مسکراتے رہیے شاد آباد رہیے۔ اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم آپ کی قربانی قبول کرے اور ہم سب پر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی رحمت رکھے۔
آمین

جمعرات، 20 دسمبر، 2007

گوگل ٹاک میں اب زبانوں کے مابین ترجمہ

اگرچہ یہ خبر اوپن سورس سے متعلق نہیں لیکن مجھے اتنی پسند آئی کہ اس کے بارے میں‌ لکھنے پر مجبور ہوگیا۔
گوگل ٹرانسلیٹ‌ کی سہولت سے ایک زمانہ واقف ہے اور رزانہ لاکھوں‌ یا شاید کروڑوں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ اب تو گوگل نے عربی انگریزی ترجمے کی سہولت بھی دینی شروع کردی ہے۔ شاید کسی دن اردو انگریزی کی سہولت بھی میسر آجائے۔ خیر خبر یہ ہے کہ گوگل ٹرانسلیٹ‌ کی طرح ترجمہ کرنے کی یہ سہولت اب گوگل ٹاک میں‌ بھی دستیاب ہوگی۔ یعنی آپ انگریز ہیں اور آپ کا چیٹ‌ کرنے والا دوست چینی تو بھی آپ دونوں اپنی زبانوں یعنی انگریزی اور چینی میں ایک دوسرے سے گفتگو کرسکتے ہیں۔ کرنا صرف یہ ہے کہ آپ کو کنورسیشن میں‌ ترجمہ کرنے کے لیے ایک عدد گوگل بوٹ شامل کرنا ہوگا۔ جیسے انگریزی سے چینی میں ترجمے کے لیے یہ بوٹ شامل کرنا ہوگا:‌en2zh@bot.talk.google.com۔ اسی طرح چینی سے انگریزی میں ترجمے کے لیے بھی ایک عدد بوٹ شامل کرنا ہوگا۔ آپ کے چینی دوست کا پیغام انگریزی ترجمہ کرنے والے بوٹ‌ کے پاس جائے گا اور پھر چیٹ ونڈو میں آپ کو انگریزی میں ترجمہ ہوکر دکھائی دے گا۔ یہی حال انگریزی سے چینی ترجمہ کرنے والا بوٹ آپ کی انگریزی کا کرے گا۔ ونڈو ملاحظہ کیجیے۔ ترجمہ صرف انگریزی سے غیر انگریزی زبان میں نہیں بلکہ دو غیر انگریزی زبانوں‌ کے لیے بھی دستیاب ہوگا جیسے فرنچ اور ہسپانوی زبانیں‌ وغیرہ۔ زبانوں‌ کے ترجمے کے لیے متعلقہ بوٹس کے کوڈز یہاں‌‌ سے حاصل کریں۔

بدھ، 19 دسمبر، 2007

ہاہاہاہاہا

قدیر رانا انتہائی نامعقول اور مہزب‌ الاخلاق چیز ہے۔ ذرا س کے بلاگ کی یہ تصویر ملاحظہ فرمائیں۔
Free Image Hosting at www.ImageShack.us
اوپر دائیں کونے میں لکھے گئے انتباہ میں کس ڈھٹائی سے اپنے "خصوصی" کپڑوں کا ذکر کررہا ہے۔
:D :D :D :D :D :D :D
آپ بھی پڑھیں گے تو آپ کے ہنسی کے فوارے چھوٹ پڑیں گے۔
;)

مجلس سائنس

مجلس سائنس اردو فورمز میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ محمد سعد نے اس چوپال کو خالصتًا سائنسی موضوعات پر گفتگو و معلومات کے لیے بنایا ہے۔ اس سلسلے میں تھوڑا سا تعاون اردو کوڈر کا بھی ہے کہ ہم نے اپنے مسکین سے ہوسٹ پر انھیں ہوسٹنگ فراہم کی ہے۔ ابھی فورم پر آپ کو شاید ایک آدھ پوسٹ ہی نظر آئے لیکن امید ہے سعد کی محنت اور سائنس سے محبت رکھنے والوں کے تعاون سے یہ فورم بھی ہل چل والی محفل میں بدل جائے گا۔ ابھی فورم کا حلیہ بھی خاصا ڈیفالٹ سا ہے ذرا اس پر چہل پہل ہو تو ہم انشاءاللہ پی ایچ پی بی بی کے نئے تھیم اور بہتر سہولیات دینے والے موڈز بھی مہیا کردیں گے۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ اب عمومی انداز سے ہٹ کر مخصوص قسم کے فورمز بھی اردو میں بن رہے ہیں۔ اردو کوڈر پر بھی ہماری کوشش ہے کہ مقصد صرف اور صرف لینکس اور اوپن سورس ہی ہو لیکن ہمارے اراکین کا اصرار ہے کہ کچھ مزید زمرے بھی بنائے جائیں۔ ہم ان کی خواہشات کے احترام میں کچھ مزید فورمز تو بنا دیں گے لیکن بحیثیت انتظامیہ ہمارا فوکس لینکس اور اوپن سورس ہی ہوگا۔ اسی امید کے ساتھ کہ سعد بھی اپنے فورم کو پاکستان کا بہترین اردو سائنس فورم بنا دیں گے۔ اللہ انھیں مزید اچھا کام کرنے کی توفیق دے۔
اتنا سارا خطبہ سن لیا آپ نے اور مجلس سائنس کا وزٹ نہیں کیا۔ اب میں آپ کو کیا کہہ سکتا ہوں۔
:D

زبان:‌ کیا ہونا چاہیے اور کیا ہوتا ہے!!

لسانیات میں‌ ہمیں دو بہت ہی اہم تصورات سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر لسانیات اور خصوصًا اطلاقی لسانیات (Applied Linguistics) میں زیادہ تر کام انگریزوں کا ہے یا ایسے لوگوں کا جو انگریز نہیں لیکن انگریزی بول سکتے ہیں اور انھوں نے یہ کام انگریزی کے نکتہ نظر سے کیا۔ اطلاقی لسانیات کی بات چلی تو بتاتا چلوں زبان کو سیکھانے کے سلسلے میں ہونے والے تمام اعمال اسی شعبے میں آتے ہیں۔ اچھا لینگوئج ٹیچر اطلاقی لسانیات پر گہری نظر رکھتا ہے اور اس میں ہونے والی پیشرفت سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے جیسے سکھانے کے نئے طریقے وغیرہ۔
واپس موضوع کی طرف آتے ہیں ان تصورات کی طرف۔ اٹھارہویں صدی یا اس سے پہلے انگریزی کے ماہرین لسانیات ایک چیز پر بڑی سختی سے اعتقاد رکھتے تھے اور وہ تھا کہ زبان کو "پابند" ہونا چاہیے۔ پابندی سے مراد یہاں یہ ہے کہ گرامر لکھتے وقت یہ بتایا جاتا کہ انگریزی ایسے لکھی اور بولی جائے نہ کہ کسی اور طرح۔ "معیاری" اور "غیر معیاری" زبان کے بارے میں‌ ان کا نظریہ یہ تھا کہ معیاری زبان وہ ہے جو ماہرین گرامر و لسانیات کے بیان کردہ قواعد کے مطابق لکھی اور بولی جاتی ہے۔ غیر معیاری سے مراد وہ زبان تھی جو عام لوگ بولتے تھے اور عمومًا ان قواعد سے ہٹ‌ کر۔ اب یہ قواعد کیا تھے؟ انگریزی کی "آبائی" زبانوں یعنی لاطینی، یونانی وغیرہ کے قوانین جو وہ اس پر بھی لاگو کرنے کی کوشش کرتے۔ اس نظریے کو Prescriptive Approach کے نام سے ہمیں پڑھایا جاتا ہے۔ یعنی زبان میں "کیا ہونا چاہیے"۔
وقت نے ان کے اِن نظریات کو غلط ثابت کیا اور آج ہم جانتے ہیں کہ زبان ایک دریا کی مانند ہے۔ جو وقت کے راستے پر بہتا چلا جاتا ہے۔ اس پر ہم بند نہیں باندھ سکتے۔ اگر باندھیں گے بھی تو یہ کسی اور طرف سے آگے جانے کا راستہ نکال لے گا۔ چناچہ زبان کو پرانے قواعد کا پابند کرنے کی بجائے ہمیں صرف موجودہ حالت کو "بیان" کرنا چاہیے۔ بجائے کہ ہم یہ بتائیں یہ ایسے نہیں ایسے ہونا چاہیے ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ اس زبان کے بولنے والے یہ چیز اس طرح استعمال کرتے ہیں۔ اسے ہم Descriptive Approach کے نام سے جانتے ہیں۔
بیان کردینے کا مطلب یہ نہیں کہ زبان قواعد کی پابندیوں سے آزاد ہوگئی بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان زبانوں کے قواعد کی جان اب چھوڑ دی جائے جو کئی سو سال پہلے اس زبان کی آبائی یا مادری زبانوں میں موجود تھے۔ انگریزی اب ایک الگ زبان ہے چناچہ اس پر لاطینی اور یونانی زبان کے قواعد لاگو نہیں ہوسکتے۔ اگر انگریزی نے وہاں سے گرامر، ذخیرہ الفاظ اور آوازیں مستعار لی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان زبانوں کے تمام قواعد اس پر فٹ بیٹھیں گے۔
اصل میں اس سارے پس منظر کا مقصد اردو کے حوالے سے کچھ ایسی ہی گفتگو کرنا تھا۔ اردو کی آبائی زبانیں فارسی، عربی، قدیم ہندی یا ہندوی اور دوسری علاقائی زبانیں ہیں۔ اردو جب ظہور پذیر ہورہی تھی تو اس نے بہت سی چیزیں عربی، فارسی اور سنسکرت وغیرہ سے لیں۔ لیکن آج چار سو سال کے بعد اردو کی اپنی ایک شناخت ہے۔ اس کا اپنا ذخیرہ الفاظ، الفاظ بنانے اور ملانے کی تراکیب، گرامر اور آوازیں ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ یا سب ہی کسی دوسری زبان جیسے عربی یا فارسی سے اخذ کردہ ہیں تو کیا ہوا؟ اردو کی ہر چیز اپنے اندر مکمل ہے اور اس کے صارفین کی ضروریات کو بہ احسن پورا کرتی ہے۔
اکثر احباب قواعد کی غلطیوں کو عربی، فارسی اور ہندی تک لے جاتے ہیں۔ چند دن ہوئے محفل پر املاء کی درستگی کے دھاگے میں کسی دوست نے بات کی کہ "لاپرواہ" نہیں‌ بے پرواہ ہونا چاہیے۔ چونکہ لا عربی سے ہے اور عربی میں‌ پ کی آواز کی نہیں ہوتی اس لیے لاپرواہ کی بجائے بے پرواہ ہونا جاہیے۔ اسی طرح کبھی سکول میں غلط درست محاورے وغیرہ رٹا لگایا کرتے تھے وہ وہاں‌ بھی کچھ اس قسم کے قواعد بتائے جاتے تھے کہ فلاں‌ فارسی سے اور فلاں ہندی سے چناچہ ان کو ملانا درست نہیں۔
میرا اس معاملے میں استدلال یہ ہے کہ یہ اردو ہے اور اس میں ہمارے پاس یہ قواعد موجود ہیں کہ ہم کسی سابقے یا لاحقے کو دوسرے لفظ سے مرکب کرکے نئی ترکیب تشکیل دے سکتے ہیں قطع نظر اس بات کے کہ اس لفظ‌ کا ماخذ‌ عربی، فارسی یا ہندی ہے۔ ان میں یہ لفظ یقینًا اس طرح استعمال نہیں‌ ہوتا ہوگا اور نوے فیصد یہ چانس ہے کہ یہ لفظ‌ سرے سے اس شکل میں موجود ہی نہیں‌ ہوگا۔
زبان میں تبدیلی آرہی ہے آپ اسے غلط جانیں یا صحیح۔ املاء میں بہت تیزی کے ساتھ بولی کے حساب سے لکھنے کا رواج فروغ پا رہا ہے ۔ مختلف حروف کی آوازیں آپس میں بہت تیزی سے گڈ‌ مڈ‌ہورہی ہیں اور میں نے جہاں تک دیکھا ہے ذ اور ز کی املاء‌کی غلطیاں اب بہت سامنے آرہی ہیں۔
جاتے جاتے ایک تصویر دیکھیے آپ کو یقین آجائے گا کہ زبان بدلتی ہے۔

آپ اسے برا جانیں یا اچھا لیکن یہ حقیقت ہے۔ میرے گھر کے قریب ہی ایک ریسٹوران کا بورڈ ہے یہ۔ ال عربی کا آرٹیکل ہے جیسے انگریزی میں‌دی ہوتا ہے۔ ال کسی نام کے ساتھ لگا کر اسے خاص بنا دیا جاتا ہے۔ عام تاثر یہی ہے کہ یہ ترکیب صرف عربی نژاد الفاظ یا اسماء کے ساتھ ہی آسکتی ہے لیکن صارفین ثابت کررہے ہیں کہ وہ عربی تھی یہ اردو ہے۔ میں اسے غلط ٹھیک نہیں‌کہہ رہا صرف بیان کررہا ہوں کہ "ایسے ہوتا ہے"۔
ذرا سوچئیے اور غور کیجیے آپ کے اردگرد زبان میں کس کس طرح تبدیلیاں آرہی ہیں اور زبردستی آرہی ہیں۔

اتوار، 16 دسمبر، 2007

میں 16 دسمبر 1971 کا نوحہ کہوں یا اپنے حال کا؟

آج سولہ دسمبر ہے۔ اہل دل اور اہل وطن یقینًا خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہمارا بازو کٹ کر جدا ہوگیا۔ لیکن میں جو ایک عام آدمی ہوں اس پر کیا کہوں؟
کیا لکھوں؟
میرا حال یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی ملنی مشکل ہوگئی ہے۔ سارا سارا دن یوٹیلٹی سٹور پر لائن میں کھڑے ہو کر چار کلو گھی اور ایک تھیلا آٹے کا ملتا ہے۔ ساتھ میں یوٹیلیٹی سٹور والا اور خریداری کے بغیر گھی اور آٹا بھی نہیں دیتا۔ کہتا ہے ہم نے یہ کہاں بیچنا ہے۔
ہر تین گھنٹے بعد بجلی بند ہوجاتی ہے۔ یہ آنکھ مچولی سارا دن جاری رہتی ہے میں کاروبار کیا خاک کروں؟
میرے ملک کے حکمران اس بات پر سراپا فخر و غرور ہیں کہ ایک کروڑ عوام کے پاس موبائل ہیں۔ موٹر سائیکلوں اور کاروں کی ریل پیل ہوچکی ہے اور خزانہ بھرا ہوا ہے۔ کیا یہ موبائل فون، یہ کاریں اور موٹر سائیکل مجھے دو وقت کی روٹی دے سکتے ہیں؟
مجھے کھانے کو نہ ملے تو کیا ان موبائل فونوں کو ہی چبانا شروع کردوں؟
میں کس بات کا نوحہ پڑھوں؟
اپنے اور اپنے خاندان کے فاقہ زدہ اور محروم چہروں کا یا چھتیس سال پہلے کا؟
کوئی بتائے مجھے میں کس کی نوحہ خوانی کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہفتہ، 15 دسمبر، 2007

مونو (Mono) میری نظر سے

منگوئل ڈی اکازا صاحب جن کی جوہر شناس نظروں نے ڈاٹ نیٹ کے ابتدائی دور سے ہی بروا کے چکنے چکنے پات پہچان لیے تھے۔ اسی دوران انھوں میں سی شارپ میں بطور مشق سی شارپ کا ہی ایک عدد کمپائلر لکھا۔ کمپائلر وہ سافٹویر ہوتا ہے جو ہائی لیول لینگوئج جیسے جاوا، سی شارپ وغیرہ کو مشین کوڈ یعنی صفر ایک کے "قابل پڑھائی" کوڈ میں بدلتا ہے تاکہ کمپیوٹر اسے سمجھ سکے اور اس پر عمل بھی کرسکے۔ زیمین وہ کمپنی تھی جس میں یہ صاحب کام کررہے تھے۔ زیمین ایک مرحوم کمپنی ہے جو لینکس اور یونکس کے لیے آزاد سافٹویر بنانے میں خاصی مشہور تھی بعد میں اسے نووِل نے خرید لیا اور آج کل اس کے ڈویلپرز نووِل کے انڈر ہی کام کررہے ہیں۔ سو بات یہاں پہنچی کی زیمین کو بھی منگوئل صاحب کا آئیڈیا پسند آٰیا اور انھوں نے ڈویلپرز کی اکھاڑ پچھاڑ کرکے ایک عدد پراجیکٹ تشکیل دے ڈالا جس کا نام مونو رکھا گیا۔ اس کے بارے میں پہلا اعلان مورخہ 19 جولائی 2001 کو ایک کانفرنس میں کیا گیا۔Mono
مونو کا پہلا ورژن تین سال کی محنت کے بعد 30 جون 2004 میں جاری کیا گیا جسے مونو 1.0 کہا جاتا ہے۔
مونو کا نشان ایک بندر ہے۔ ہسپانوی میں مونو بندر کو کہتے ہیں۔
مونو مائیکرو سافٹ ڈاٹ نیٹ فریم ورک کا آزاد مصدر متبادل ہے اور اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ڈاٹ نیٹ کو لینکس ،یونکس، بی ایس ڈی اور میک تک پھیلایا جائے۔ مائیکرو سافٹ کے ایک بیان کے مطابق وہ تحقیق و تلاش کے سلسلے میں مختص اپنے وسائل کا اسی فیصد ڈاٹ نیٹ پر خرچ کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاٹ نیٹ فریم ورک بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے اور اس میں شامل زبانوں کا ڈھیر ہی لگتا جارہا ہے۔ ڈاٹ نیٹ فریم ورک ایک پھر دو، تین اور اب 3.5 موجود ہے۔ اس رفتار کا مقابلہ کرنا مونو جیسے پراجیکٹ کے لیے شاید ممکن بھی نہیں۔ تاہم اس وقت مونو کی صورت حال یہ ہے کہ اس کے تازہ ترین ورژن 1.2.6 بتاریخ 12 دسمبر 2007 میں سی شارپ 2 اور وژوئل بیسک ڈاٹ نیٹ مع سی شارپ 3 کی جزوی سپورٹ موجود ہے۔ ونڈوز ڈاٹ فارمز اور دوسری اے پی آئیز کی سپورٹ ابھی تک مکمل نہیں ہے۔ ڈاٹ نیٹ فریم ورک 3 کی سپورٹ تجرباتی ورژن بنام اولیو تلے ارتقائی مراحل میں ہے تاہم ابھی اس کو جاری کرنے کا کوئی امکان نہیں۔
میں تکنیکی باتوں میں جانے سے قاصر ہوں چونکہ اتنا علم میرے پاس نہیں کہ اس کی وضاحت کرسکوں۔ مونو کی تاریخ کے سلسلے میں معلومات انگریزی وکی پیڈیا اور اس کی آفیشل سائٹ سے لی گئی ہیں۔ میں اس کے دوسرے پہلوؤں پر کچھ گفتگو کرنا چاہوں گا۔
مونو مائیکرو سافٹ کے ملکیتی مال کی اوپن سورس نقل ہے۔ اور اس میں مائیکرو سافٹ کی ہی پینٹنٹ شدہ کچھ ٹیکنالوجیز بھی استعمال کی جارہی ہیں۔ اے ایس پی۔ نیٹ، اڈو۔ نیٹ اور ونڈوز فارمز نامی کئی حصے ایسے ہیں جو مونو میں اس لیے شامل ہیں تاکہ اسے ونڈوز کے ساتھ مشابہہ رکھا جاسکے۔ لیکن ان کی بنیاد پر مائیکرو سافٹ مونو پر مقدمہ بھی کرسکتا ہے۔ مونو کا سب سے بڑا سپانسر نوویل ہے۔ نوویل اوپن سورس حلقوں میں ایک متنازعہ کمپنی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ ریڈ ہیٹ کی طرح یہ سوسی لینکس انٹر پرائز ایڈیشن کے نام سے ایک لینکس او ایس تیار کرتی ہے۔ سوسی لینکس کا ایک عدد کمیونٹی ورژن بھی ہے جو اوپن سورس کے عمومی فلسفے کے تحت مل جل کر تیار اور جاری کیا جاتا ہے۔ نوویل مائیکرو سافٹ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو برا نہیں سمجھتی۔ اس سلسلے میں اس نے مائیکرو سافٹ سے کئی ایک معاہدے بھی کررکھے ہیں جیسے لینکس اور ونڈوز سرورز کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کا معاہدہ۔۔اس کے ساتھ مائیکرو سافٹ کئی کمپنیوں کے ساتھ ایک دوسرے پر پیٹنٹ مقدمات نہ کرنے کے معاہدے بھی کرچکی ہے جس میں نوویل بھی شامل ہے۔
اوپن سورس والوں کو اعتراض اس بات پر ہے کہ مائیکرو سافٹ پر اعتبار کیونکر کیا جائے۔ پچھلے بیس سالوں میں م س نے جب چاہا اپنے معیارات بدل ڈالے، اس کے معاہدوں کا اعتبار نہیں اور اسے صرف اپنی اجارہ داری قائم رکھنے سے غرض ہے تو ڈاٹ نیٹ کو اوپن سورس میں کیوں قبول کیا جائے۔ اوپن سورس کا یہ اعتراض کہ کل کو اگر م س نے اپنے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مونو پر مقدمہ کردیا تو یہ پراجیکٹ تو ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا۔ نیز مونو صرف اور صرف ڈاٹ نیٹ کی نقل ہے چناچہ م س جب چاہے اپنے معیارات آئندہ آنے والے ورژنوں میں بدل کر مونو کی ساری ترقی کا بیڑہ غرق کرسکتا ہے۔
لیکن بعض لوگ مونو کے سلسلے میں بہت پرامید ہیں۔ بلاشبہ م س نے ڈاٹ نیٹ میں اب تک کی تمام اہم زبانوں کی خوبیاں سمو دی ہیں۔ سی، سی پلس پلس اور جاوا کے بہترین فیچرز سی شارپ میں موجود ہیں۔ سب سے اہم بات ڈاٹ نیٹ کا جاوا کے بائٹ کوڈ کی طرح کا طرز عمل ہے۔ ڈاٹ نیٹ کی درجن بھر سے زیادہ زبانیں پہلے ایک انٹرمیڈیٹ لینگوئج میں ترجمہ ہوتی ہیں جہاں سے اس کو ڈاٹ نیٹ فریم ورک مشین کوڈ میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ خوبی ان تمام زبانوں کے کوڈ کو ایک دوسرے کی کلاسز استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ جاوا میں یہی کام جاوا رن ٹائم انوائرمنٹ کرتا ہے لیکن اس میں صرف جاوا کا بائٹ کوڈ ہوتا ہے جو کہ پلیٹ فارم کی قید سے آزاد ہوتا ہے۔ ڈاٹ نیٹ میں کوڈ نہ صرف پلیٹ فارم کی قید سے آزاد ہے بلکہ جاوا کی طرح صرف جاوا میں لکھنے کی قید نہیں۔ آپ سی شارپ استعمال کرسکتے ہیں، وی بی ڈاٹ نیٹ اپنی پیشرو وی بی 6 سے بہت حد تک ملتی جلتی ہے اسے آزمائیں۔ جاوا شارپ موجود ہے جو جاوا کو ڈاٹ نیٹ سے ملاتی ہے۔ پائتھون کے لیے بھی آئرن پائتھون کے نام سے ایک زبان موجود ہے۔
پچھلے چھ سال سے مونو لینکس یونکس مارکیٹ میں پہچانا جارہا ہے اور 3 سال سے اس کے مستحکم ورژن مارکیٹ میں موجود ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوگ اب بھی مونو کا نام ہی کیوں جانتے ہیں؟ اس سلسلے میں کئی قسم کی رکاوٹیں موجود ہیں۔ مونو کو اوپن سورس برادری کا اعتبار شاید ابھی مکمل طرح سے حاصل نہیں ہوسکا۔ اس میں کچھ بگز بھی موجود ہیں۔ بیگل ایک ڈیسکٹاپ تلاش گر ہے لیکن اکثر اوقات جب یہ چلے تو میموری لیک ہونے کی شکایت کی جاتی ہے۔ یعنی آپ کا سسٹم یکلخت کی میموری کے قحط میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پچھلے دنوں میں نے ایک مونو میں بنا ہوا فائل مینجر اتارا۔ یہ چند کلو بائٹس کا ڈیبین پیکج تھا۔ لیکن جب میں نے اسے اپنے کبنٹو سسٹم پر انسٹال کرنے کےلیے چلایا تو موصوف نے مجھے 73 پیکجز کی ڈیپنڈنسی لسٹ پکڑا دی۔ لینکس میں ڈیپنڈنسی سے مراد وہ سافٹویرز یا پیکجز ہوتے ہیں جو پروگرام چلنے کے لیے مطلوبہ سپورٹ و ماحول فراہم کرتے ہیں۔ ان پیکجز میں مونو کے پیکج بھی شامل تھے۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ مونو کو ابھی تک ڈسٹروز میں آفیشلی شامل نہیں کیا گیا۔ چاہیے تو یہ کہ اسے ڈسٹرو کی انسٹالیشن سی ڈی میں شامل کیا جائے نا کہ متعلقہ پروگرام کی تنصیب کے وقت صارف کو اسے اتارنا پڑے۔
مونو میں ابھی تک تجارتی استعمال کے لیے کوئی خاص اطلاقیہ سوائے آئی فولڈر کے نہیں لکھا جاسکا۔ البتہ ڈیسک ٹاپ کے لیے کافی اطلاقیے یعنی ایپلی کیشنز لکھی جاچکی ہیں۔ جو خاصے مقبول بھی ہوئے ہیں۔ کچھ دن ہوئے میں نے پالڈو کے بارے میں سنا جس کا پیکجنگ سسٹم یو پیکج نامی ایک نظام پر مشتمل ہے جو مونو اور ایکس ایم ایل کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ کئی ایک اطلاقیے اور پروجیکٹس ایسے ہیں جن میں مونو کا استعمال جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ ان میں وکی پیڈیا بھی شامل ہے جو اپنے تلاش کے نظام کے لیے مونو کی بنیاد پر بنے ہوئے اطلاقیوں سے کام لیتا ہے۔
مونو ابھی اتنا مقبول نہیں جتنا ڈاٹ نیٹ ہوچکا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر بننے والے اطلاقیے اب منظر عام پر آرہے ہیں۔ مونو کا مستقبل بلاشبہ روشن ہے۔ اس پراجیکٹ نے مجھے متوجہ کیا کہ میں ڈاٹ نیٹ سیکھوں۔ پچھلے کچھ دن سے میں اس سلسلے میں کچھ کام کررہا ہوں۔ مونو کو بنیاد بنا کر شاید میں سی شارپ یا وی بی ڈاٹ نیٹ نہ سیکھ سکوں لیکن سیکھنے کے بعد میں مونو میں پروگرامز لکھنا پسند کروں گا۔ آپ بھی اسے ٹرائی کیجیے اور یقین کریں آپ مایوس نہیں ہونگے۔

جمعرات، 13 دسمبر، 2007

چین میں‌ لینکس مارکیٹ

چین میں 2003 سے 2006 کے دوران لینکس کی مارکیٹ بیس ملین ڈالر کے حساب سے بڑھی ہے۔ اگر اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو لینکس ڈیکسٹاپ سافٹویر کی مارکیٹ سولہ فیصد سے بارہ فیصد پر آچکی ہے۔ لیکن سی سڈ کنسلٹنگ کے مطابق اس سال کی تیسری سہ ماہی میں لینکس ڈیسکٹاپ سافٹویر کی فروخت 25.1 فیصد بڑھی ہے۔
چینی حکومت کی سافٹویر قذاقی کے خلاف مہم نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومت نے اس سلسلے میں دو قانون پاس کیے تھے جن کے مطابق حکومتی ادارے اور مقامی حکومتیں چوری شدہ ملکیتی سافٹویرز کی جگہ اب کم قیمت لینکس سافٹویر استعمال کررہی ہیں۔ حکومت نے کم قیمت لینکس ڈیسکٹاپ پر اپنا خرچ بھی بڑھا دیا ہے۔ پچھلے سال یہ مہم صرف بڑے شہروں اور وہاں کی مقامی حکومتوں تک محدود تھی لیکن اب یہ گاؤں اور قصبوں تک پھیل گئی ہے۔ اس وقت حکومت لینکس سافٹویر مارکیٹ کے ایک چوتھائی کی خریدار ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ چین کے اپنے بنائے گئے ریڈ فلیگ لینکس کا ہے۔
انڈسٹری کے صارفین جیسے ہوٹل، لاٹری سیلر اور ٹیلی مواصلاتی کمپنیوں نے بھی اس سال لینکس ڈیسکٹاپ کے سلسلے میں اپنے فنڈز کو بڑھا دیا ہے۔سی سی ڈبلیو ریسرچ کے مطابق چین کی ہوٹل انڈسٹری کے آنلائن کاروبار نے اس سال 30 فیصد سے زیادہ ترقی کی ہے جس نے یہاں کمپیوٹرز اور سستے لینکس سافٹویرز کی کھپت کو بڑھا دیا ہے۔
چین میں اکثر کمپیوٹرز لینکس کی تنصیب کے ساتھ فروخت کئے جارہے ہیں جن کی وجہ سے لینکس کا مارکیٹ میں حصہ مزید بڑھ جائے گا۔ لیکن اس سارے عمل کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ صارفین کمپیوٹر خریدنے کے بعد لینکس کو اڑا کر ونڈوز کا چوری شدہ ورژن نصب کرلیتے ہیں۔ کمپیوٹر فروخت کرنے والے بھی صارفین کو لینکس اڑا کر ونڈوز کا چوری شدہ ورژن انسٹال کردیتے ہیں۔ دوسری طرف مائیکروسافٹ نے بھی ونڈوز کی قمیتیں چین میں بہت کم کردی ہیں جو قریبًا لینکس کمپنیوں کی سروس فیس کے برابر ہیں۔ چناچہ لوگ ونڈوز کو استعمال کرنا زیادہ پسند کررہے ہیں۔ تاہم یہ لینکس کی فتح ہے کہ مائیکروسافٹ کو اپنی پراڈکٹس کی قمیتیں کم کرنا پڑی ہیں۔

اتوار، 9 دسمبر، 2007

مونو(Mono): مونو کے ساتھ میں؟ چہ معنی دارد

بندہ کس کو دوش دے۔ اردو محفل کے لوگوں کو جنھوں نے میرا اتنا دماغ خراب کردیا کہ میرے جیسا سیدھا سادھا بندہ جو زیادہ زیادہ ایم بی اے کرکے کسی فرم میں چھوٹے موٹے عہدے پر لگ جاتا، کچھ سال بعد ٹنڈ ہوجاتی اور صاحب توند ہوجاتا۔ ایک بیوی مع چند بچوں کے معرض وجود میں آجاتی اور پھر فوت ہوجاتا۔ چند ایک لوگ جانتے کہ فلانا تھا اور چنگا تھا فوت ہوگیا۔
2005 کی بات ہے شاید ستمبر تھا جب پہلی بار میں اردو محفل پر آیا۔ اس کے بعد جو میں نے یہ پنگا اور وہ پنگا یعنی پنگا در پنگا لینا شروع کیے۔ کبھی ورڈپریس کا ترجمہ، پھر بلاگنگ کی شروعات۔ اس کے بعد ورڈپریس پر بلاگنگ۔ فری ہوسٹس کے چکر۔ پھر لینکس کا بھوت سوا ہوا۔ لینکس چلائی، اڑائی پھر چلائی پھر اڑائی، کبھی اوپن آفس کی لغت بنائی۔ ان دوسالوں نے مجھے بدل دیا۔ میں جو ایک بی "کامی" کمین تھا میرا دن میں آدھے سے زیادہ وقت اس موئے نیٹ پر گزرنے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ میرا بی کام کے بعد ایم کام میں ایڈمیشن نہ ہوسکا اور اگلے چھ ماہ میں نے ٹیوشنز پڑھا کر اور انٹرنیٹ گردی میں گزارے۔ پھر ۔۔۔پھر یہ ہوا کہ مجھے دو فرشتے مل گئے۔ یہ میرے اساتذہ تھے سر عاصم اور سر راشد۔۔۔پی ایچ ڈی کی ریسرچ کررہے تھے اور موضوع تھا پاکستانی انگلش۔۔۔انھیں ایک بندہ چاہیے تھا جو ڈیٹا کی پروسیسنگ کا کام کرسکے۔ میں ویلا تھا سو میں نے حامی بھر لی۔ کہتے ہیں جی جو قسمت میں ہو مل ہی جاتا ہے جانا کدھر تھا اور آکدھر گیا۔ انھوں نے اوپن آفس کے لیے اردو ورڈ لسٹ کی شمولیت کے بارے میں جانا اور جب یہ پتا چلا کہ اس کی تیاری میں کچھ کوشش میری بھی شامل ہے تو مجھے لسانیات کی طرف آنے کا مشورہ دے دیا۔ اور میں تو جیسے تیار بیٹھا تھا۔ گھر مشورہ کیا دو ایک دن سوچا اور اللہ تیری یاری فیس جمع کروا دی۔ ایسا نہ ہوتا تو میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم بی اے کررہا ہوتا۔
اس کے بعد مجھے احساس ہوا کہ دنیا کتھے وسدی ہے۔ ان کا شعبہ کارپس لسانیات تھا۔ انھوں نے تجزیے وغیرہ کے لیے کوئی بیس لاکھ الفاظ پاکستانی انگریزی کے اکٹھے کئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستانی انگریزی کو بطور ایک ورائٹی تسلیم کروایا جائے۔ کارپس لنگوئسٹکس اور کمپیوٹیشنل لنگوئسٹکس میں بس تھوڑا سا فرق ہے۔ کارپس والے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کے لیے انھیں مختلف سافٹویر اور ٹول درکار ہوتے ہیں۔ ان سافٹویرز اور ٹولز کو بنانا ایک پروگرامر مع لنگوئسٹ کا کام ہے۔ یعنی جو ہر دو شعبوں میں مہارت رکھتا ہو۔ عمومًا ایسے لوگ بڑے "گوڑھے" پروگرامر ہوتے ہیں۔ ایپلی کیشن بنانا خالہ جی کا واڑہ نہیں۔ اور وہ بھی جس میں بہت ہی خاص قسم کی پروسیسنگ اور معیار و نتائج درکار ہوتے ہیں۔
میرے اساتذہ اس معاملے میں بالکل کورے تھے۔ چناچہ جب پاکستانی انگریزی کو پروسیس کرنے کا مرحلہ آیا تو اول تو درکار سافٹویرز دستیاب ہی نہ تھے جو دستیاب تھے ان کے استعمال کا پتا نہ تھا۔ نیز پاکستانی انگریزی کی "گھنڈیاں" ان سے سلجھائی ہی نہ جاسکتی تھیں۔ ( آپ کے لیے شاید انگریزی انگریزی ہی ہو جیسے سارے چینی اور جاپانی اور کورین ایک جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہی ہر ملک کی انگریزی بس انگریزی ہے۔ لیکن اہل فن و علم جانتے ہیں کہ زبان میں کس کس لیول پر کس طرح کے تغیرات ہوسکتے ہیں اور ان کی بنیاد پر زبان کی مزید ذیلی اقسام کیسے بن جاتی ہیں۔ سادہ سی مثال وکلاء اور ججوں کی انگریزی ہے جو وہ فیصلوں میں لکھتے ہیں یا بائبل اور قرآن کے انگریزی تراجم جن کے الفاظ ہی عام مروج زبان سے مختلف اور بڑے روایتی قسم کے ہوتے ہیں) یہاں آکر مجھے پتا چلا کہ میں نے اگر لسانیات میں کچھ کرنا ہے تو مجھے پروگرامر بننا پڑے گا۔ کم از کم اتنا کہ لینکس میں بیٹھ کر دو چار سکرپٹس لکھ سکوں یا پہلے سے موجود پروگرامز میں کچھ تبدیلی کرسکوں جو میرے مقصد کے تحت کام آسکیں۔ شاید زندگی میں پہلی بار میں نے اس فیلڈ میں سوچ سمجھ کر قدم رکھا ہے۔ اور ساری کشتیاں جلا کر اس سپین میں داخل ہوا ہوں۔ اب میرے سامنے لسانیات کی وسیع و عریض دنیا ہے اور پیچھے مڑا تو شاید پتھر کا ہی ہوجاؤں۔ میرا مقصد یہ بھی تھا کہ اردو زبان کے لیے کچھ کام کیا جائے۔ گرامر پر کام کرنا ایک تو مجھے پسند ہے دوسرے اردو کی گرامر پر ابھی تک کوئی خاص کام نہیں ہوسکا اگرچہ اس پر کچھ محققین مختلف جگہوں پر کام کررہے ہیں لیکن یہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ کرلپ لاہور میں بہت قابل قدر کام ہورہا ہے اور اگر زندگی رہی اور جذبہ بھی رہا تو ڈاکٹر سرمد حسین سے بھی ضرور رہنمائی لوں گا۔ ان سب مقاصد کو مدنظر رکھ کر میری منزل یہ ہے کہ لسانیات میں ایم ایس سی تو کرنا ہی ہے ساتھ کوئی پروگرامنگ کورس وغیرہ بھی کروں۔ ایک عرصے سے اس سلسلے میں متجسس تھا۔ کل رات بھی سر سے اس سلسلے میں بات ہوئی تو پھر واپس آکر کافی دیر مونو اور ڈاٹ نیٹ کے بارے میں تحقیق کی۔
کمپیوٹنگ فورمز، اردو محفل پر جو وقت گزرا اس سے یہ پتا چلا کہ ڈاٹ نیٹ اس وقت آسان ترین لینگوئج ہے جس میں پروگرامنگ کی جاسکتی ہے۔ لینکس میرا شوق ہے اور ونڈوز میری مجبوری۔ چناچہ مونو کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ اس کی وجہ سے ونڈوز کی ایپلیکیشنز لینکس پر چلائی جاسکیں گی۔ اگرچہ ابھی پروگرامنگ کی دنیا میں میرے دودھ کے دانت بھی نہیں آئے اور مجھے پروگرامنگ کی الف بے کا بھی پتا نہیں سوائے وی بی سکس کے ان اسباق کے جو میں نے چھ سال پہلے میٹرک کرنے کے بعد کمپیوٹر پر اپنی ابتدائی کورس کے ساتھ دو تین ماہ ایویں مذاق ہی مذاق میں پڑھے تھے، لیکن میرا خیال ہے کہ بنیادی تصورات سیکھنے کے بعد مجھے ڈاٹ نیٹ کو ہی سیکھنا ہوگا اور اسی لیے میں نے مونو کے بارے میں رات تفصیلًا تحقیق کی۔ اور وہ تحقیق کیا تھی یہ اگلی کسی قسط میں ملاحظہ کیجیے۔ آپ کا شکریہ آپ نےاتنی دیر تک میری میں میں برداشت کی۔

مونو (Mono) لینکس میں ڈاٹ نیٹ ٹیکنالوجی کا پلیٹ فارم

اس وقت رات کے بارہ بج رہے ہیں بلکہ بج گئے ہیں اور پچھلے تین گھنٹوں‌ سے میں مونو کے بارے میں کئی ویب پیج اور آرٹیکلز کھنگال چکا ہوں‌۔ اس وقت میرا دماغ بقول محمد علی مکی لسی کے ساتھ ساتھ شاید کچی لسی ہورہا ہے۔ کل بروز اتوار اس پر اپنے مطالعے کے نتائج لکھوں گا مع ان "تکالیف" کے جن کی وجہ سے میرے ذہن پر اس کے بارے میں جاننے کا بھوت سوار ہوا۔
(اردو بلاگرز سے معذرت کے ساتھ باوجود کوشش کے میں‌ اس وقت کے ہاٹ ٹاپک یعنی عورتوں کو گھورنا شورنا پر لکھنے کا موڈ نہیں بنا سکا۔ لکھتا کیا کہنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔)

جمعہ، 7 دسمبر، 2007

ایران کا سپر کمپیوٹر اور اے ایم ڈی

کمپیوٹر ورلڈ کی ایک خبر کے مطابق ایرانیوں نے اپنے ایک تحقیقاتی مرکز میں چھوٹا موٹا کلسٹر کمپیوٹر بنا لیا ہے۔ گیگا فلوپس کی حد میں آنے والا یہ سپر کمپیوٹر بقول ایرانیوں کے اے ایم ڈی کے آپٹرون پروسیسرز کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جس میں آپریٹنگ سسٹم کے طور پر لینکس کو استعمال کیا گیا ہے۔ ایرانی بھی عجیب لوگ ہیں اب امریکہ بہادر میں پسوڑی پڑی ہوئی ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کو امریکی کمپنی نے کس طرح ٹیکنالوجی مہیا کردی۔ ادھر اے ایم ڈی حریان و پریشان ہے کہ میرے نال بنی کی۔۔۔
ایران والے ویسے بھی پراپیگنڈے میں خاصے ماہر ہیں اور میزائل، جنگی کشتیاں اور اب جنگی طیارے بھی اپنے ہاں ہی "بنا" رہے ہیں۔ اب رب جانے یا ایران والے جانیں کہ یہ بھی ایران کے پروپیگنڈے کا ہی حصہ ہے یا سچ مچ میں کچھ کام ہوا ہے۔ کمپیوٹر ورلڈ والوں کو کچھ کچھ شک ہوا ہے کہ شاید ایران کے اس تحقیاتی مرکز کی فوٹو گیلری میں موجود تصویریں یو اے ای کی طرف کوئی اشارہ کررہی ہیں۔
ہمیں بہرحال خوشی ہے کہ ایران نے مغرب کو پسوڑی پائی ہوئی ہے۔ اور دعا ہے کہ یہ خبر سچ ہی ہو۔ ان کے مطابق اسے موسمیاتی پیش گوئیوں وغیرہ میں استعمال کیا جائے گا۔

سورس فورج مارکیٹ‌ پلیس

سورس فورج کو انٹرنیٹ کی بڑی ویب سائٹوں میں شمار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کے ایک دعوے کے مطابق اس وقت قریبًا سترہ لاکھ صارفین ان کے پاس مندرج ہیں۔ سورس فورج کی بنیادی خاصیت اس کی وہ خدمات ہیں جو یہ اوپن سورس پراجیکٹس کی ہوسٹنگ کی صورت میں فراہم کرتی ہے۔ سورس فورج پر ان کے بقول اس وقت ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد پراجیکٹس رجسٹر ہیں۔
اس سال مئی سے سورس فورج ایک بی ٹا سروس چلا رہی تھی۔ کبھی آپ سورس فورج پر گئے ہوں تو کسی بھی پراجیکٹ سے فائل اتارنے والے صفحے پر Get Support For xxx کا آئکن بھی نظر آتا ہوگا۔ میں بھی ایک عرصے تک اس بارے میں حیران ہوتا رہا ہوں۔ بہرحال اب سورس فورج نے اس سروس کو آزمائشی بنیادوں سے نکال کر آفیشلی جاری کردیا ہے۔ اسے سورس فورج مارکیٹ پلیس کا نام دیا گیا ہے۔ اس نئے چہرے و انداز کی بدولت سورس فورج اب اوپن سورس سافٹویرز کی مفت میں میزبانی کے ساتھ ساتھ ان کی خرید و فروخت میں بھی حصہ لےگا اور گاہک و پروفیشنل میں رابطے کا ذریعہ بنے گا۔ اس وقت مارکیٹ پلیس پر رجسٹرڈ پراجیکٹس کی تعداد 700 کے قریب ہے جس میں بہت تیزی سے بڑھوتری کی توقع کی جارہی ہے۔

بدھ، 5 دسمبر، 2007

سی این آر کا اجراء

لِن سپائر اور فری سپائر کے ڈویلپرز لِن سپائر کارپوریشن نے سی این آر ڈاٹ کوم کا بی ٹا ورژن جاری کردیا ہے۔ یہ ویب 2 پر مشتمل سافٹویر ڈیلیوری سروس ہے جو دنیا بھر کے لینکس صارفین کے لیے جاری کی گئی ہے۔ اس سروس کا مقصد ڈیبین اور آر پی ایم بیسڈ لینکس سسٹمز کے لیے سافٹویر کا حصول اور ان کی تنصیب آسان بنانا ہے۔ سی این آر کا یہ نیا اور مفت ورژن فی الحال فری سپائر 2، لِن سپائر 6، اوبنٹو 7.04 اور 7.10 کے لیے دستیاب ہے۔ جلد ہی اس کی معاونت مقبول لینکس ڈسٹروز کے لیے بھی جاری کردی جائے گی جیسے ڈیبین، فیڈورا، سوسی وغیرہ وغیرہ۔
یاد رہے سی این آر لِن سپائر کی کمرشل سافٹویر سروس تھی۔ لیکن فری سپائر کے اجراء کے بعد انھوں نے اسے فری سپائر میں بھی متعارف کروایا۔ اس سروس کو استعمال کرنے کے لیے ایک سافٹویر بنام سی این آر کلائنٹ فری سپائر کے ورژن 1.0 میں موجود تھا۔ لِن سپائر نے وعدہ کیا تھا کہ اس ملکیتی مال کی جگہ سی این آر کا آزاد مصدر اور مفت ورژن ڈویلپ کیا جائے گا۔ یہ اعلان اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ فری سپائر 2 سے اسے اوبنٹو بیسڈ کردیا گیا ہے۔ یعنی لِن سپائر اوبنٹو کو لے کر اس کے مواجے میں کچھ تبدیلیاں کرکے(فری سپائر کا طےشدہ ڈیسکٹاپ مواجہ کیڈی پر مشتمل ہے) اور کلوزڈ سورس ڈرائیورز و پلگ انز ڈال کر اسے فری سپائر کے نام سے جاری کرتا ہے۔ لِن سپائر نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ سی این آر اوبنٹو کے لیے جلد ہی دستیاب ہوگا اور اب اسے سب سے پہلے اوبنٹو کے لیے ہی جاری کیا گیا ہے۔ اگرچہ بعد میں دوسری ڈسٹروز کے لیے بھی جاری کردیا جائے گا۔ ایک عام صارف کے لیے لینکس میں سافٹویر انسٹال کرنا اچھا خاصا درد سر ہوتا ہے۔ چونکہ اس کام کے لیے کئی پیکج مینجمنٹ سسٹم ہیں۔ ڈیبین کا .deb اور ریڈ ہیٹ و فیڈورا پر مشتمل ڈسٹروز کا .rpm اور تو اور مینڈریوا کا اپنا الگ ہی پیکج سسٹم ہے۔ پیکج لینکس میں ایگزی فائل کی طرح ہی ہوتے ہیں جو سافٹویر کو انسٹال کرنے کے کام آتے ہیں۔ لینکس دنیا میں ایک عرصے سے کسی ایک پیکج مینجمنٹ سسٹم پر اتفاق کے سلسلے میں متفق ہونے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ ایسے نظام جاری بھی کیے گئے ہیں جو ڈسٹرو سے آزاد ہوتے ہیں یعنی ایسے فارمیٹ میں موجود سافٹویر کسی بھی ڈِسٹرو میں انسٹال ہوسکتا ہے۔ سی این آر بھی اسی سلسلے کی ایک منظم اور مربوط کڑی ہے۔
بحوالہ

مینڈریوا فلیش 2008

مینڈریوا نے 2008 مینڈریوا فلیش 4 جی بی متعارف کروائی ہے۔ مینڈریوا فلیش فیملی کی نئی رکن اس پراڈکٹ کی مدد سے آپ اپنا ڈیسکٹاپ ساتھ اٹھا کر جہاں چاہیں لے جا سکتے ہیں۔ اس میں ezBoot نامی ایک نیا فنکشن شامل کیا گیا ہےجس کی بدولت پی سی بائیوس میں جائے بغیر لینکس میں ری بوٹ ہوجاتا ہے۔ مینڈریوا کا یہ ورژن جو کہ کیڈی پر مشتمل ہے کسی بھی قسم کی تنصیب نہیں مانگتا۔ یہ ایک بوٹ ایبل یو ایس بی فلیش پر ہے۔ آپ صرف اس کو پی سی میں لگائیں اور مینڈریوا چلنے کے لیے تیار۔ اس میں 4 جی بی تک کی سپیس موجود ہے جس کے ذریعے تمام اہم امور سے باآسانی نمٹا جاسکتا ہے۔ اس میں ویڈیو کارڈز، موڈیمز اور وائرلیس اڈاپٹرز وغیرہ کے ڈرائیورز کے ساتھ ساتھ سافٹویرز کی بہترین کلیکشن موجود ہے۔ کیڈی، فائرفاکس، جاوا، فلیش پلئیر، رئیل پلئیر، سکائپ اور اوپن آفس اسے آپ کے ہر قسم کے کام کے لیے ایک دم تیار کردیتے ہیں۔ رہی بات قیمت کی تو یہ صرف 79 یورو یا 89 ڈالر ہے۔ حاصل کرنے کے لیے مینڈریوا سٹور سے رابطہ کیجیے۔ ورنہ پڑھ کر سر دھنیے۔
بحوالہ

پیر، 3 دسمبر، 2007

پی ٹی سی ایل کا پاکستان پیکج


ملک کی پرائیویٹ شدہ قومی فون کمپنی نے ایک نیا پیکج شروع کیا ہے۔ سرکاری چینل کے ساتھ ساتھ دوسرے چینلز پر بھی یہ مشہوری بڑے زوروشور سے آرہی ہے کہ اب پورے پاکستان میں لامحدود وقت کے لیے کال کریں۔ لیکن ان کی ویب سائٹ پر تشریف لے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس میں‌ کتنا جھوٹ ملا کر بول رہے ہیں۔
    پہلی چیز کہ یہ مفت نہیں ہے صارف کو اس کے لیے ماہانہ 200 روپیہ (ایک روپیہ کم کرلیں) علاوہ ٹیکس ادا کرنا پڑیں گے
    یہ وقت لامحدود نہیں ہے صرف پانچ ہزار منٹ ہیں۔
    یہ لوکل کالز پر لاگو نہیں ہوگا۔ یعنی اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے رشتے دار بیرونی شہروں میں‌ ہوں۔
    َ

    سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ آپ پر یہ سروس زبردستی لگا دی گئی ہے۔ یعنی اگر استعمال نہیں کرنی تو اسے ڈی ایکٹیویٹ کرواؤ


    غضب خدا کا ہونا تو یہ چاہیے تھا جو کوئی چاہتا اسے ایکٹیویٹ کروا لیتا لیکن ان کی منطق ہی نرالی ہے۔ کوئی ان کے باپ کا نوکر ہے جو فون کرکر کے اس کو ڈی ایکٹیویٹ کرواتا پھرے۔

سب سے بڑا نقصان ان بے چاروں کو ہے جنھیں پتا ہی نہیں کہ انھیں‌ ہر ماہ اضافی بل پڑنا شروع ہوگیا ہے۔ چاہے وہ اسے استعمال کریں یا نہ کریں۔ دیہات کے سیدھے سادھے پی ٹی سی ایل صارفین کی تو واٹ لگ گئی۔ آپ بھی اگر اس زبردستی کے ڈھول سے جان چھڑوانا چاہتے ہیں تو 1236 پر کال کرکے اسے ختم کروائیے۔
اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہی دیجیے تاکہ اگر لوگ نہ اسے استعمال نہ کرنا چاہیں تو اس زبردستی کے ڈھول کو اتار پھینکیں۔
اس ملک کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ عجیب لوگ ہیں اور عجیب حکومت ہے جس کو ذرا بھی خیال نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ پی ٹی اے والے کہاں سوئے پڑے ہیں۔

اتوار، 2 دسمبر، 2007

حسب معمول سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹی جائے گی

سوات میں‌ہونے والا "آپریشن" اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ طالبان کا "صفایا" کردیا گیا ہے۔
اب ہر طرف امن اور سکھ چین ہے۔
اطلاعات سے پتا چل رہا ہے کہ طالبان اچانک اپنے مورچے چھوڑ کر غائب ہوگئے ہیں۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ شاید اب وہ چھاپہ مار جنگ کریں۔ لیکن اس سے بھی وڈی چیز وہ سوالیہ نشان ہیں جو لال مسجد آپریشن کے بعد قوم کے سامنے ناچتے رہے۔ اب پھر سے خٹک ڈانس کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بڑے سادہ سے سوالات ہیں۔
جیسے مولانا فضل اللہ کو آخر اتنی ڈھیل ہی کیوں دی گئی؟
ایک عرصے تک آخر کیسے اپنا ایف ایم ریڈیو مولانا موصوف بغیر کسی رکاوٹ کے چلاتے رہے؟ آپس کی بات ہے اگر میں مشرف کی جگہ ہوتا تو پہلے اس ریڈیو کے ٹاور پر نیپام بم گروا کر اس کو نیست کرواتا اور پھر کوئی اور کام کرواتا۔
طالبان نے پولیس اسٹیشنوں پر قبضہ کیوں کیا اور انھیں‌ وہ خالی ہی کیوں ملتے رہے؟ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
چونکہ یہ ہماری پرانی عادت ہے کہ سانپ نکل جائے تو پھر لکیر پیٹنا شروع کرتےہیں۔ سو اخبارات میں‌ بھی کالم نگاروں کو اس سلسلے میں‌ ہوش آگیا ہے۔ حمید اختر ایکسپریس کے سینئیر کالم نگار ہیں ان کا دو حصوں میں‌ موجود کالم پڑھیے اور سر دھنئے۔



قیاسات اور خیالی گھوڑوں کی ایک فوج ہے جو دوڑائی جاسکتی ہے۔ لیکن جس نے بھی یہ کیا ہے بڑے منظم انداز میں کیا ہے۔ ادھر بی بی سی اردو پر ملاحظہ کیجیے مشرف صاحب کا بیان
پتا نہیں اس شخص کے جانے کے بعد ہمیں کب تک اس کے "ضمنی اثرات" سے نمٹنا ہوگا۔

ہفتہ، 1 دسمبر، 2007

تلاش گری کا جن اب وائرلیس کے میدان میں

تلاش گروں کا گرو گوگل اب موبائل اور وائرلیس نیٹ ورکس میں بھی ٹانگ اڑانے کی کوشش میں ہے۔ گوگل کی اینڈرائڈ سافٹویر ڈیلوپمنٹ کٹ کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہونگے۔ اینڈرائد موبائل کی ایپلی کیشنز تیار کرنے کے لیے ایک اوپن ڈویلپمنٹ کٹ ہے۔ اس سلسلے میں گوگل کو موبائل انڈسٹری کے دیووں کا تعاون حاصل ہے۔
اب گوگل امریکہ میں اپنا ایک وائرلیس نیٹ ورک شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی ماہ پہلے گوگل نے اعلان کردیا تھا کہ وہ امریکہ میں ہونے والی 700 میگا ہرٹز وائرلیس طیف کے لیے بولی لگائے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ریڈیائی امواج کی مختلف فریکوئنسی ہوتی ہے۔ مختلف قسم کے آلات کو بذریعہ وائرلیس چلانے کے لیے ان سے نکلنے والی امواج کو ایک خاص فریکوئنسی حد ہی الاٹ کی جاتی ہے۔ جبکہ طیف سے مراد ہم ایسا سکیل لیتے ہیں جس پر مختلف امواج کو ان کی فریکوئنسی یا طول موج کے حساب سے ظاہر کیا جاسکتا ہے۔ طیف کی سادہ سی مثال سورج کی روشنی کو منشور میں سے گزارنے سے حاصل ہونے والے رنگ ہیں۔ یہ سات رنگ جب سفید کاغذ پر ظاہر ہوتے ہیں تو ان کی ایک خاص ترتیب ہوتی ہے۔
گوگل اس طیف یعنی 700 میگا ہرٹز طیف کے لیے اگر بولی جیت جاتا ہے تو وہ اپنا وائرلیس نیٹ ورک لانچ کرسکے گا یا پھر ہوسکتا ہے وہ کسی کو اپنا پارٹنر بنا لے۔ اپنی سروس دینے کے ساتھ ساتھ گوگل وائرلیس سروس "تھوک" کے بھاؤ بھی بیچ سکتا ہے جسے آگے اینڈ یوزر تک دوسرے لوگ پہنچائیں گے۔