بدھ، 15 نومبر، 2017

تحت الشعور سے ابھر کر آنے والی ایک یاد

آج دوپہر قیلولہ کرنے کے لئے لیٹا ہوا تھا تو پتا نہیں کہاں سے ذہن کی عمیق گہرائیوں میں دفن ایک یاد تحت الشعور سے نکل کر شعور کے پردے پر آ براجمان ہوئی. پانچویں جماعت کے بعد والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں قرآن پاک حفظ کروں اور اس کام کے لئے مجھے ایک مدرسہ میں ڈال دیا گیا تھا. کچھ مہینوں کے بعد میرے اندر کے شیطان نے ادھم مچایا تو میں نے مدرسے جانے سے انکار کر دیا تھا اور اس کی پاداش میں تشریف پر گھوڑے ہانکنے والے چھانٹے والی چھڑی سے ٹکور کے ساتھ ساتھ میری چھٹی بھی بند کر دی گئی تھی. چناں چہ مجھے پورا ہفتہ رات اور دن وہیں مدرسے میں گزارنا تھے. رات کو گرمی ہونے کی وجہ سے چار منزلہ مدرسے کی چھت پر زمین پر صفیں یا چٹائیاں اور ان پر گھر سے آیا ہوا بستر جو ایک عدد دری تکیہ اور کھیس وغیرہ پر مشتمل تھا بچھا کر سونا ہوتا تھا. اس یاد کا تعلق شاید اس چھٹی بند ہونے کی پہلی یا کسی اور رات سے ہے. قاری صاحب اور ان کے اہل خانہ بھی طلبہ کے ہمراہ چھت پر سویا کرتے تھے. سونے سے پہلے کبھی کبھار طلبہ پر مہربانی کرکے انہیں کچھ کھانے کے لیے منگوا کر دیا جاتا تھا جسے عرف عام میں پنجابی بچوں کے لئے چیجی اور انگریزی ماڈرن لوگ کینڈی وغیرہ کہتے ہیں. آج اس نیم نیند کی کیفیت میں یاد آگیا کہ اس رات میں مدرسے کی چھت پر حالتِ سزا میں اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹا تو قاری صاحب نے ایک مقیم طالب علم کو بلا کر اسے کچھ روپے تھمائے اور طلبہ کے لیے کون آئسکریم منگوائی. مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ اس میں میرے لیے بھی کچھ حصہ ہو گا. تاہم جب آئسکریم آئی اور سب میں تقسیم ہوئی اور مجھے یکسر نظر انداز کر دیا گیا تو ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کی وہ خِفّت شاید کسی بہت بھاری پتھر سے بندھ کر ذہن کی گہرائیوں میں جا بیٹھی تھی. اور قریباً اٹھارہ برس کے بعد آج اس پتھر سے بندھی رسی کمزور ہوئی تو یہ یاد بھی کہیں دُور گہرائی سے نکل کر سطح پر آ گئی. یہ سب لکھنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ایک یاد کو اس بلاگ پر شیئر کیا جائے. اس کے علاوہ کوئی چھپا ہوا مقصد موجود نہیں ہے یا شاید اس مقصد کو سامنے آنے کے لئے اٹھارہ برس مزید درکار ہوں.

پیر، 7 اگست، 2017

ہَمَک

بچپن میں آٹا فریج میں پڑا خمیرہ ہو جاتا یا والد صاحب کی ناشتے کی ریڑھی سے روٹیاں اور سالن بچ کر آیا ہوتا تو والدہ یا والد صاحب ہی ایسے آٹے کی روٹیاں یا ایسا کھانا کھایا کرتے تھے۔ میں ہر بار نخرہ کر جاتا تھا۔ باسی ہونے کی ہمک مجھے پہلے نوالے سے محسوس ہو جاتی اور کھانا چھوڑ کر اٹھ جاتا۔
آج تربوز کو ایک طرف سے گرنے کی وجہ سے دب لگی دیکھی تو کاٹ کر پھینکنے کی بجائے چکھتے ہوئے والدہ کی بات یاد آ گئی جو وہ میرے منہ بنانے پر کہا کرتیں۔ شاکر تیرا نک ای بڑا اُچا اے۔ اور پھر چکھ کر کہتیں، بڑا سوووہنا ذایقہ اے۔ کچھ ایسی ہی بات والد صاحب کے منہ سے ایسا کھانا کھاتے وقت نکلا کرتی تھی۔ آج مجھے بھی ذایقہ بڑا سوووہنا لگا، اس لیے بظاہر خراب نظر آنے والا تربوز بھی کافی سارا کاٹ کر کھانے کے لیے برتن میں ڈال لیا۔ آج مجھے باسی پن کی ہمک نہ آئی۔ رب جانے کیوں!
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا

منگل، 1 اگست، 2017

کارپل ٹنل سنڈروم

چاچے جاپانی کے گوڈے کا حال پڑھ کر سوچا اپنی بپتا بھی سنائی جائے. بپتا کیا اپنے ہاتھوں سے ہاتھوں کا بیڑہ غرق کیا ہے. پچھلے ڈیڑھ برس میں ماؤس اور کی بورڈ کئی کئی گھنٹے اس طرح استعمال کیا کہ اب ہتھیلی کے درمیان سے گزرنے والی عصب جو تین انگلیوں اور انگوٹھے کو کنٹرول کرتی ہے دب گئی. بیماری کا نام کارپل ٹنل سنڈروم ہے. پہلے انگلیاں سونے لگتی ہیں، پھر سوئیاں چبھنے کا احساس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید ہوتا چلا جاتا ہے، میرا حال یہ ہے کہ اب دو منٹ بھی ٹائپ کر لوں تو انگوٹھے سے اوپر کی طرف درد کی لہر اٹھتی ہے اور جلن کا سا احساس ہوتا ہے. بیماری لمبے عرصے تک برقرار رہے تو مذکورہ حصے کے پٹھے کمزور ہونے لگتے ہیں. ٹائپنگ کُجا اب ڈنڈ پیلنے اور آٹا گوندھنے جیسے کام بھی کچھ عرصے کے لیے چھوڑ دئیے ہیں تا کہ عصب جو کلائی یا رِسٹ مڑنے سے دب جاتی ہے اسے آرام ملے. علاج درد کش گولیاں، کلائی کی حرکات محدود کرنے کے لیے سٹیل کی پٹیوں والا مخصوص دستانہ رات اور دن کو جس قدر ہو سکے پہننا، اور اگر آرام سے فرق نہ پڑے تو ہتھیلی کی ایک سرجری جس سے صحتیابی میں ڈیڑھ مہینہ لگتا ہے لیکن فزیو تھراپی کئی ماہ چلتی ہے.

ہفتہ، 13 مئی، 2017

کہانیاں

میز نیازی کہتا ہے  
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، ہر کام کرنے میں
کچھ ایسا ہی شاید ازل سے میرے ساتھ ہے۔ ہر کام  میں دیر ہو جاتی ہے۔ جب سوچنے سمجھنے کی توفیق ہوتی ہے تو معاملہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ جب کام کرنے کا خیال آتا ہے تو وقت باقی نہیں رہا ہوتا۔ جب کسی رستے پر چلنے کی سمجھ آتی ہے تو اُس پر پہرے لگ چُکے ہوتے ہیں۔ اور لکھنا۔۔۔ لکھنا بھی تب سرزد ہوتا ہے جب احساسات وقت کی دھول میں اٹ کر دھول ہو جاتے ہیں، جیسے بارش کے بعد کچی مٹی پر بنے نقش و نگار یا موج گزرنے کے بعد ساحل پر بنے ریت کے گھروندے مِٹ جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرے ساتھ لکھنے میں ہوتا ہے، اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ پیچھے تاثرات کی بجائے ان کے بھُوت باقی رہ جاتے ہیں جنہیں لفظوں کا جا مہ پہنانے پر آسیب زدہ جملے وجود میں آتے ہیں اور ان آسیب زدہ جملوں کے مجموعے پچھلے دس برسوں میں جا بجا اس بلاگ کی زینت بن چکے ہیں۔

ایک عرصے سے ارادہ کر رہا ہوں کہ لکھنا ہے، کچھ ہڈ بیتی اور کچھ جگ بیتی پر، خود پر گُزرے سانحات پر، ان لمحات پر لکھنا ہے جب زندگی اتنی اجنبی ہو گئی تھی کہ خوف آتا تھا، اور اس سے بھی پہلے کی کچھ کہانیوں پر کچھ لکھنا ہے۔ کہانیاں جن کے ساتھ تب سے واسطہ ہے کہ اب یادوں کے بھُوت بھی وقت کے اندھیرے میں گُم ہو چکے ہیں۔ پرائمری میں ایک دوست اپنے جیب خرچ میں سے پچاس پچاس پیسے کی عمرو عیار اور ٹارزن کی کہانیاں لے کر دیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میرے پاس وہ ننھی ننھی کہانیاں درجنوں میں جمع ہو گئی تھیں، لیکن پھر کہاں گئیں؟  اور وہ کہانیاں جو میں چوری کے پیسوں سے خرید کر پڑھا کرتا تھا اور پھر پکڑے جانے کے ڈر سے پھاڑ کر پھینک دیا کرتا تھا۔ اور پھر وہ کہانیاں جو نانا نانی کے ہاں جانے پر ماموں کی بیٹھک سے برآمد ہوتی تھیں نسیم حجازی، عمران سیریز، انسپکٹر جمشید اور حکایت ڈائجسٹ کی شکار کی کہانیاں، جرم و سزا کی کہانیاں، ایمان فروشوں کی کہانیاں۔  اور پھر وہ کہانیاں جب ایک لائبریری سے دوست نے کرائے پر عمران سیریز لینا شروع کی جو ہم اکٹھے پڑھتے تھے، اور پھر جب میں نے خود سے یہ کام شروع کر دیا ، ستر اسی کی دہائی میں ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں دیوتا، مجاہد، اِنکا۔۔۔ ہر مہینے درجن بھر زنانہ اور غیر زنانہ ڈائجسٹوں میں چھپنے والی کہانیاں، قدرت اللہ شہاب ، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد کی چوکڑی، یوسفی، پطرس، اور اس عہد کے دیگر مزاح نگار، قمر اجنالوی کے تاریخی ناول اور ایم اے راحت کے سلسلے، علیم الحق حقی کے عشق اور اس کی پیروی میں لکھے گئے درجنوں ناول، اور تارڑ کے سفرنامے۔ اور پھر انگریزی سیکھتے ہوئے ایپِک فینٹیسی  کی صنف سے تعلق رکھنے والی کہانیاں ہیری پوٹر، وہیل آف ٹائم، کوڈیکس الیرا۔۔۔اور پھر انگریزی فلمیں جن کی تعداد ہزاروں نہیں تو سینکڑوں میں ہو گی محبت کی کہانیاں، ایڈونچر، ایکشن، سائنس فکشن اور فینٹیسی کی کہانیاں۔۔۔ اتنی کہانیاں ۔۔۔ہر کہانی کی اپنی ایک الگ دنیا، ہر کہانی میں اپنی اپنی زندگی جیتے کردار اور ہر کہانی کو پڑھتے ہوئے، سُنتے ہوئے اور دیکھتے ہوئے اُن کے ساتھ جیتا اور مرتا ہوا میں۔ یوں لگتا ہے جیسے تیس برس نہیں تیس صدیاں گزر گئی ہیں، جیسے بار بار مر کر جیا ہوں اور جی جی کر مرا ہوں، ہر کہانی کے اتنے دُکھ ہیں کہ اصل زندگی کے دُکھ بھی کسی کہانی کا حصہ لگتے ہیں۔

اتنی کہانیاں پڑھیں، اور جب خود کوئی کہانی لکھنی چاہی تو قلم نے یا تو چلنے سے انکار کر دیا یا چلتے چلتے جواب دے گیا۔ رب نے کہانیاں لکھنے والوں کو پتہ نہیں کیا خاص دے رکھا ہوتا ہے جو میرے جیسے معذوروں کے پاس نہیں ہوتا۔ کیسے ایسا سوچ لیتے ہیں، کیسے ایسا لکھ لیتے ہیں کہ ان کے  کرداروں کے ساتھ قاری بھی جیتا اور مرتا ہے۔ ایک عرصے تک یہ زُعم رہا کہ شاید کہانیاں پڑھ پڑھ  کر اور دیکھ دیکھ کر میری بھی ایسی تربیت ہو جائے، جیسی آ ج کل مشینی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس ) کے میدان میں گوگل، ایمازون اور اس جیسی کئی کمپنیاں کر رہی ہیں۔ جیسے میں ڈیپ لرننگ کا ایک الگورتھم ہوں جسے ہزاروں کہانیاں پڑھوائی جائیں اور پھر وہ خود کہانی کار ہو جائے۔ ایک عرصے تک یہی امّید رہی کہ شاید میرا ڈیپ لرننگ کا الگورتھم اس قابل ہو جائے گا۔ لیکن شاید ایسا کبھی نہ  ہو سکے۔ میرے ہارڈوئیر اور سافٹ ویئر کو بنانے والے نے کچھ ایسے بنایا ہے کہ ٹریننگ ڈیٹا جتنا مرضی مل جائے اُس کی بنیاد پر پیٹرن تلاش کرنے کی اور پھر اس پیٹرن کو استعمال کر کے باز تخلیق کی صلاحیت عنقا ہے۔

تو کہانی کار ہونے کا متمنی ایک کہانیاں پڑھنے والا  اس کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے کہ ہر کچھ عرصے کے بعد اس طرح چند سو الفاظ کی تحریریں لکھتا چلا جائے۔ جن میں کوئی چسکا نہیں، کوئی سیاست، معاشرت، مذہب نہیں، کوئی ردعمل ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ نہیں، بس سات ارب انسانوں کی دنیا میں بسنے والے ایک اکلوتے انسان کی بالائی منزل پر اُٹھنے والے نادیدہ طوفانوں کی سرگزشت ہوتی ہے۔ جس میں سوائے لکھنے والے کے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ علمِ سماجیات انسانوں کے باہمی تعلق، اور معاشرت کو، انسانوں کے مجموعے کو موضوع بناتا ہے۔ اور علمِ نفسیات فرد کو موضوع بناتا ہے۔ تو شاید یہ تحریریں بھی جو انسانوں کے مجموعے کے لیے تو شاید بے کار ہوں، لیکن کسی فرد کے حالات سے مماثل ہوں۔ شاید میری طرح کہانیوں کا ڈسا، اور کہانیاں نہ کہہ سکنے کے ازلی دُکھ کا شکار کوئی اور بھی یہاں موجود ہو۔ یا شاید نہیں۔۔۔

ہفتہ، 15 اپریل، 2017

گزارش

میرے سامنے کچھ تصویریں ہیں۔
ایک سوختہ انسانوں کی ہے, نیچے کچھ لکھا ہے۔
کچلے جسموں والے دو کمسن بچوں کی تصویریں ہیں۔
اور ایک بے لباس لاشہ ہے۔
اور پھر جملے ہیں۔ چھوٹی بڑی طوالت کے لاتعداد جملے ۔ اگر مگر کرتے جملے، ثابت کرتے اور رد کرتے جملے، دھمکی دیتے اور شرم دلاتے جملے ۔
اور پھر میں ہوں، خالی الذہن، اس سب کی فہم و تشریح سے قاصر۔ کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر۔ تصویروں، جملوں اور تبصروں میں پیش کردہ نتائج کو قبول یا رد کرنے سے قاصر۔
اس سب میں ایک نام، ہاں ایک نام بار بار آتا ہے، اور اس نام پر میرے اندر تک ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔
میرے نبی جی ﷺ کا نام آتا ہے۔ جب اُن ﷺ کا نام آتا ہے تو میرے لب اللہم صل علی محمد و اٰل و اصحابِ محمد میں مگن ہو جاتے ہیں۔ بس اس سب میں ایک یہ وقفہ ہے جب مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے۔
میں کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟ 
بس جب ان ﷺ کا نام آتا ہے۔ تو لبوں سے اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد، و علی اٰل و اصحاب سیدنا و مولانا محمدنکلتا ہے۔
لرزتے لبوں سے اس سے آگے کچھ نہیں کہا جاتا۔ 
اس کے علاوہ کچھ نہیں سُوجھتا، یوں جیسے چار دیواری ہے اور میں اس میں مقیّد۔ عجب بے بسی ہے ، عجب بے کسی ہے، عجب تنہائی ہے۔
اپنی کھڑی کی گئی دیواروں کا قیدی ہوں، نیلی چھتری والے کا شکر ہے کہ ا س نے رحمت اللعالمین ﷺ کی صورت میں اپنی رحمت سے نواز رکھا ہے۔ بس انہیں ﷺ کا آسرا ہے۔
انہیں ﷺ کے آگے عرض گزاری ہے۔
مولاﷺ آپ کی گلیوں کے کُتے بھی مجھ سے افضل۔
مولا ﷺ یہ رذیل، کمینہ، یہ گھٹیا آپ کی اُمت میں سب سے کمزور ایمان ۔
مولاﷺ آپ کے آگے عرض گزار۔
مولاﷺ صبر ختم ہونے لگا ہے۔
مولا ﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر ۔۔۔
مولا ﷺ میری قوم آپ کے نام پر کیا کیا کچھ کرنے لگی ہے۔
مولا ﷺ آپ کے عاشق۔۔۔۔۔۔
مولاﷺ اپنی رحمت کا سایہ کیجیے
مولا ﷺ اپنے کرم کی نظر کیجیے
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں۔۔۔۔
مولاﷺ آپ کے سوا کون ہے۔۔۔۔۔
مولا ﷺ نیلی چھتری والے سے سفارش کیجیے
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے آقا و مولا ہیں
مولا ﷺ آپ ہی تو ہمارے مائی باپ ہیں
مولا ﷺ آپ کے سوا کس سے کہیں
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد 
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد
اللہم صل علی سیدنا و مولانا محمد

پیر، 10 اپریل، 2017

پیار کا آخری شہر

زمانہ حاضر کےمارکو پولو، البیرونی لیکن عموماً ال اندرونی (یعنی بیشتر وقت کمرے میں رہنے والی مخلوق یعنی ہم) نے اپنے ملک کے عظیم سیّاح، لکھاری اور دانشور جناب بابا مستنصر حسین تارڑ جٹ کی اقتداء میں یورپ کی سیاحت، جہاں گردی وغیرہ وغیرہ کا ارادہ فرمایا تو اس مرتبہ نظرِ انتخاب پیرس پر اور طلبہ کے "تفریحی" دوروں کا بندوبست کرنے والی ایک ایجنسی پر پڑی۔ مابدولت نے پاکستانیوں کی آفاقی عادت کے عین مطابق کچھ احباب کو بھی ساتھ گھسیٹ لیا تاکہ ہم پھنسیں تو ان کے پیچ بھی کسیں۔ اگر شومئی قسمت انجوائے منٹ کا ایک آدھ کلو ان کی قسمت میں آ جائے تو اس میں حصہ داری کر کے ہر ممکن حد تک ورچوئل "شریک" (یہاں ابرار کا گانا شریکاں نوں اگ لگدی گنگنانے سے معنی و معرفت کے نئے جہان کھلنے کا امکان پایا جاتا ہے) ہونے کا ثبوت دیا جا سکے۔

ایک دوست (جو سیانے واقع ہوئے ہیں) عین موقع پر ود ڈرا کر گئے چنانچہ بقیہ آوارہ گردانِ ملت نے سفر جاری رکھا اور بھاگم بھاگ بس پکڑی جس نے علی الصبح انہیں پیرس ڈیلیور کرنا تھا۔ تو جناب سفر شروع ہوا، اور جیسا کہ ہر سفر کے شروع میں ہوتا ہے، کئی ماہ کی جمع شدہ باتوں کی ٹنکی سے پانی دھڑا دھڑ بہتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ نل پر چشمے کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ  نل واسا کا نل بن جاتا ہے، تھکن اور نیند غلبہ پا لیتی ہے، تو ایسے ہی یہ سفر بھی شروع ہوا۔ جرمنی سے بیلجیئم اور پھر فرانس میں صبح سویرے ایک نخلستان (یہاں پٹرول پمپ پڑھا جائے) میں چہرے کی مرمت اور دیگر متعلقہ امور کی انجام دہی کے بعد دونوں بسوں نے صبح ساڑھے سات بجے "مال" آئفل ٹاور پر لا پھینکا۔ اور پھر حسبِ رواج عوام نے چڑھتے سورج کی مخالف سمت میں انھّے وا کالی تصاویر بنائیں جن میں ازقسم سیلفی، ویلفی، اکلوتی، گروپی اور کہیں کہیں آئفل ٹاور اور اس کے اطراف کو بھی شرفِ عکس بندی سے نوازا گیا تھا۔  اور آخر میں آئفل ٹاور کی قدم بوسی کی نشانی کے طور پر وہاں سے کچھ بچہ آئفل ٹاور خریدے گئے جن میں چابیاں ڈال کر آئندہ زندگی آئفل ٹاور کی یاد میں گزاری جائے گی۔

تصاویر بنانے کی آدھ گھنٹے کی رخصت کے بعد "بچوں "کو دوبارہ بسوں میں ٹھونس کر پیرس کا مفت ٹور کروایا گیا۔ ساتھ ناشتے کے نام پر دو دو سانپ نما ڈبل روٹیاں پیش کی گئیں جن کے بعد عوام کا عام خیال پیرس کی بجائے نیند کی طرف منتقل ہوتا چلا گیا۔ فرنچ جرمن خاتون گائیڈ کی انگریزی اور کہیں کہیں زبردستی گھُس آنے والی جرمن کبھی کبھی ناشتے کے خمار جو ناشتے سے زیادہ رات بھر کی تھکن کا کمال تھا، کو چیرتی ہوئی کانوں میں گھُس جاتی۔ ایسی ہی ایک ٹِپ "پِٹّی پےَلی" (چھوٹا محل) کا تعارف تھا، جہاں خاتون کے بقول کوئی مفت نمائش وغیرہ لگی ہوئی تھی یا لگی رہتی تھی۔ چنانچہ جہاں جہاں جس جس کو جو جو کچھ یاد رہا سب نے ذہنی نوٹس بنا لیے تاکہ بس سے اُتر کر دماغ کونیند کے چنگل سے چھڑانے کے لیے کچھ لالی پاپ ملے رہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کے نیند آور ٹور، اندرونِ شہر پیرس کے چند کلومیٹر کے علاقے میں کئی ایک چکروں، دریائے سَین کے متعدد نظاروں اور پُلوں، اگلے دن ہونے والی پیرس میراتھن ریس کے درجنوں تذکروں اور کچھیاں پہنے بابے بابیوں کو دوڑ کی تیاری میں سویرے سویرے سڑکوں پر ہانپتے دیکھنے کے دوران ہی کسی وقت ٹور ختم ہو گیا۔ ہمیں نقشے اور رہنما کتابچے پکڑائے گئے اور رات ساڑھے گیارہ اسی جگہ دوبارہ جمع ہونے کی تلقین کر کے خداوندانِ ٹور نے بسیں خالی کروا لیں۔ اس کے بعد غریب الوطن تھے، اور غریب الوطنوں جیسے ہزارہا اور سیاح جن پر آج کے دن ان سڑکوں پر رُلنا اور ان دیواروں سڑکوں درختوں مجسموں پُلوں اور از قسم دیگر "وں" کا نظارہ فرض کر دیا گیا تھا۔ 

ابتدائی فوٹو گرافی کا شوق پورا ہو چکا تھا۔ آئفل ٹاور جو تصویروں میں کسی مسجد کے مینار جتنا ہی لگتا ہے قریب سے دیکھنے پر دیو قامت عمارات کا کزن ثابت ہو کر ہم پر رعب جما چکا تھا، لیکن اب نکوٹین کی طلب اور دیگر جسمانی ضرورتیں پوری کرنے کا تقاضا ان احساسات کو بُلڈوز کر رہا تھا۔ چنانچہ کسی ریستوران کی تلاش شروع ہوئی جہاں ترجیحاً بیت الخلاء کا فرانسیسی ورژن دستیاب ہوتا، کچھ پوچھ تاچھ کے بعد ایک ڈرگ سٹور سے مساوی داموں میں کافی پینے اور پہلے سے نوش کردہ مائعات نکالنے کا اہتمام کیا گیا اور پھر خاتون گائیڈ کے مشوروں کی روشنی میں اگلا لائحہ عمل طے کیا گیا، خلاصہ جس کا یوں تھا کہ چلا جائے اور چلتے رہا جائے۔ تو پھر چلنا شروع ہوا، تصویر کشی جاری رہی۔ محرابِ فتح سے شانزے لیزے پر چلتے چلتے پیرس کے نظاروں سے آنکھیں گرم ٹھنڈی کرتے ہم، جو آوارہ گرد ہونے کے شدّت سے خواہشمند تھے، اور ہم جیسے ہزاروں جو کچھ ایسی ہی خواہشات رکھتے تھے، اور ان کے درمیان پیرس والے جوہر دو سے بے نیاز اپنے کام نمٹا رہے تھے۔ چلتے چلتے نِکّا محل آ گیا جہاں گائیڈ کے مطابق مُفت بری کی جا سکتی تھی، تو اکثریت رائے سے نمائش دیکھنے کا پروگرام بنایا گیا۔ سیکیورٹی سے گزر کر معلوم ہوا کہ نمائش مفت نہیں، یا یہ جگہ پِٹّی پے لی نہیں، خیر وجہ جو کچھ بھی ہو چار حرف بھیج کر پرانا کام یعنی چلنا پھر سے شروع کیا گیا۔ اور چلتے چلتے بالآخر شانزے لیزے کو رحم آ گیا، کہ بائیں طرف کچھ باغات سے نظر آئے جہاں بنچ لگے تھے اور دھوپ تھی اور آرام کا موقع تھا، تو عوام نے یا تھکن نے یا فریاد کُناں ٹانگوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کھایا جائے۔ چنانچہ معروف ریستورانوں کے جھرمٹ میں سامنے پبلک بنچ پر بیٹھ کر گھر سے پکا کر لایا گیا چکن پکوڑا کھایا گیا اور فیس بُک پر شریکوں کو ساڑنے کے لیے قُرعہ اندازی سے ایک ریستوران کو "چیک اِن" کے لیے چُنا گیا۔ لنچ ختم ہونا تھا ہو گیا، دن البتہ وہیں تھا اور پیرس بھی باقی تھا، چنانچہ پھِر سےسڑکیں تھیں اور ان پر کچھ تردد سے چلتی ٹانگیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔

جمعرات، 2 فروری، 2017

ایک خواہش

یہ وسطی پنجاب کا ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں سے ہم باہر نکل رہے ہیں۔ نہر کا پُل پار کرتے ہی بائیں طرف کو ایک سڑک مُڑتی ہے۔ چھ سات فٹ چوڑی یہ سڑک جو پچھلی سے پچھلی سرکار نے بنا کر دی تھی اب عمر کے اس حصے میں ہے کہ ہموار چلتے چلتے اچانک غوطہ کھا جاتی ہے۔ کہیں سے تارکول اور بجری اڑ گئی ہے، کہیں سے پتھر بھی داغِ مفارقت دے گیا ہے اور وہاں ایک گھاؤ منہ پھاڑے اپنے شکار کا منتظر ہے۔ اور اگر سڑک سے بے وفائی کر کے کچے میں نہ اترا جائے تو اس کی بوڑھی ہڈیوں کا درد جیسے سواری سے ہوتا ہوا سوار کے اندر تک اترتا چلا جاتا ہے۔ کچھ دیر نہر کے ساتھ چلنے کے بعد سڑک دائیں مڑ کر اس سے جدا ہو جاتی ہے۔ دونوں جانب کھیت ہیں اور بیچ میں یہ ادھڑی ہوئی پٹی جس پر سواری چلتی جاتی ہے۔ کچھ دور جا کر یہ ٹکڑا ختم ہوتا ہے تو ایک نسبتاً نیا ٹکڑا شروع ہو جاتا ہے جو موجودہ صوبائی سرکار کے ازحد کرم کا نتیجہ ہے۔ سواری کچھ تیز ہوتی ہے اور پھر پنجاب کے دیہی علاقوں کا منظر ابھرنے لگتا ہے۔ درمیان سے گزرتی سڑک، ایک جانب اسکول، دوسری جانب دوکانیں اور پنجاب کی مٹی کے رنگ جیسے گندمی لوگ، جنہیں اب ایسی سواریاں دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ کچھ برس پہلے تک جہاں فصلیں تھیں اب وہاں کچی گلیاں اور پکی اینٹوں سے اٹھائی کچی دیواروں کے مکان کھڑے ہیں۔ یہ مکان بھی لیکن کچھ دیر بعد ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور کھیت منظر میں واپس چلے آتے ہیں۔ سڑک چلتی جاتی ہے اور سڑک کے ساتھ سواری اور سوار، اور پھر چلتے چلتے کچھ کہے سنے بغیر وہ سڑک کو چھوڑ کر ایک اور دیہے کی جانب مُڑجاتے ہیں۔ سڑک کو شاید ایسی الوداعی ملاقاتوں کی اب عادت ہو گئی ہے، وہ کچھ کہے بغیر آگے بڑھ جاتی ہے اور سوار پکی اینٹوں والی کچی گلیوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ سواری رکتی ہے، اور سوار اتر تے ہیں۔ تیس کے قریب پہنچتی عمر کے دو جوان اور  بڑھاپے کی دہلیز میں داخل ہو چکی ایک خاتون۔ پکی اینٹوں لیکن گارے کی کچی دیواروں سے بنے مکان کا دروازہ کھلتا ہے اور ہم اندر داخل ہوتے ہیں۔ ایک طویل گلی ہے، جس کے بعد ایک مختصر سا کچا قطعہ اور پھر پکی اینٹوں کا فرش ہے۔ ایک طرف بیری کا درخت چھاؤں کیے ہے دوسری طرف بوڑھی کنیر کا پھولدار درخت ہے۔ اور ان کی چھاؤں میں ایک ہڈیوں بھرا وجود، جس میں آنے والوں کو دیکھ کر جیسے زندگی بھر گئی ہے، دئیے کی سی ٹمٹماتی آنکھوں میں روشنی جاگ اٹھی ہے ، چارپائی سے اٹھنے کے لیے کوشاں ہے۔ اپنی بیٹی کے بیٹوں کو پیار دیتا ہوا ، اپنی بیٹی سے ملتا ہوا یہ وجود میری نانی اماں، میری ماں کی ماں جن کے توانائی بھرے، متحرک وجود کی یادیں میرے ذہن کی تختی پر کندہ ہیں، اور آج ان کا وجود کتنا اجنبی ہو گیا ہے۔ جیسے اصل کا صرف سایہ باقی رہ گیا ہو۔

بیس برس پیچھے چلتے ہیں۔ وہی مکان ہے، ویسی ہی لمبی گلی ہے، صحن ابھی کچا ہے، تین کمروں کے سامنے ابھی برآمدہ تعمیر نہیں ہوا، کنیر ہے لیکن بیری ابھی نہیں ہے، ایک سایہ دار دھریک کا درخت گرمیوں کی اس شام اندھیرے میں سیاہ وجود سمیت کھڑا  ہے۔ کچے صحن میں چارپائیاں بچھی ہیں اور ایک طرف ایک بوڑھا وجود لیٹا ہے۔ اور اس کے قریب چند جوان مرد اور بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑی ایک خاتون، اس سے محوِ کلام ہیں۔ بوڑھا وجود میری والدہ کی دادی اور ان کی بیٹی اور ان کے بچے، جنہیں دیکھ کر اس بوڑھے کی وجود کی آنکھوں میں بھی روشنی اترتی ہو گی، جن کے قدموں کی چاپ پر وہ بھی اٹھ بیٹھنے کو بے تاب ہوتی ہوں گی، جن کے چلتے پھرتے، متحرک اور توانائی بھرے وجود کی یادیں ان جوان بچوں کے ذہنوں میں بھی نقش ہوں گی۔

حال میں واپس آتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایک تصویر زیرِ گردش ہے، ایک بوڑھا وجود، چارپائی پر غربت اور پیرانہ سالی کی چادر تلے چھپے ایک اور بوڑھے وجود کے ہمراہ ہے۔ ایک اور تصویر میں وہ اسے کھینچتا ہوا لے جا رہا ہے۔ کسی نے یہ تصویر شیئر کر رکھی ہے، کسی نے اس کے نیچے سرکار کو گالیاں لکھ رکھی ہیں۔

تین منظر ہیں، لیکن کردار یکساں ہیں پیرانہ سالی، دکھ، بے کسی، لاچاری، محتاجی۔ کہیں یہ لاچاری اولاد نے کچھ سنبھال رکھی ہے کہیں ہسپتالوں اور سڑکوں پر رُل رہی ہے۔ اور دیکھنے والی آنکھ جب یہ سب کچھ دیکھتی ہے تو پالنے والے سے اپنے اور ان کے لیے پناہ اور رحم مانگتی ہے۔ ان کے آخری دن آسان کرنے کی دعا مانگتی ہے۔ کریم نے اپنے آخری نبی ﷺ کو یہ دن دیکھنے سے پہلے اپنے پاس بلا لیا، بڑھاپے کی لاچاری سے محفوظ رکھا۔ لیکن جو بوڑھے ہو جاتے ہیں وہ اپنی جان تو نہیں لے سکتے۔ انہیں تو لکھی ہوئی زندگی گزارنا ہے۔ یہ زندگی کیسے گزرے گی، ترس ترس اور سسک سسک کر یا کچھ آسانی کے ساتھ، آج حضرتِ انسان کو ٹیکنالوجی اور ایجادات نے جو سہولیات مہیا کر دی ہیں ان کے استعمال سے یا چارپائی پر پڑے اولاد یا سرکار کی طرف دیکھتے ہوئے، معذوری کی حالت میں۔ چند دن قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ جرمن آمر ہٹلر کے پراپیگنڈہ وزیر گوئبلز کی سیکرٹری 106 برس کی عمر میں انتقال کر گئی۔ یہ مائی اتنا عرصہ جی، سوال اٹھا کہ کیا ایسے ہی جی ہو گی جیسے میرے وطن میں بزرگ جیتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ جرمنی اور جاپان جیسے ممالک میں بزرگوں کو یقیناً ایسی سہولیات حاصل ہیں کہ ان کی آخری عمر ہر ممکن حد تک آرام دہ گزرتی ہے۔ لیکن میرا ملک تو جوان اور بچوں کی صحت کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے، کُجا بزرگ۔ کوئی گلہ شکوہ شکایت نہیں ہے، کوئی تجویز مشورہ حل بھی نہیں ہے۔ بس ایک خواہش ہے، کاش کہ رب اتنی توفیق دے دے، کہ ان بزرگوں کی بہتری کے لیے کچھ کیا جا سکے۔ کاش کوئی ایسا سلسلہ بن جائے کہ ان کی زندگیوں کو آرام دہ بنایا جا سکے۔ بس ایک خواہش ہے۔

بدھ، 4 جنوری، 2017

بلاگیات، چلغوزیات اور باہمی دلچسپی کے کچھ دیگر امور

تو بات بلاگنگ کی ہو رہی تھی۔ بات کیا ہو رہی تھی کچھ احباب نے اس پر جاندار تبصرے فرمائے، کچھ ارشادات ادھر اُدھر سے آئے، کسی نے بلاگنگ کو فوت فرمایا، کسی نے فوت شدہ کو دوبارہ قبر سے نکال کر کھڑا کیا اور کسی نے بلاگروں کے حالات پر سیرِ حاصل گفتگو فرمائی۔ تو عرض ہے کہ فدوی بھی عرصہ (دور) دراز سے ایک عدد بلاگ رکھتا ہے اور اس پر کبھی کبھار ایک آدھ پوسٹ کا اضافہ کر کے اپنا نام شہیدوں (یہاں بلاگروں پڑھا جائے) میں شامل کروانے کا خواہشمند رہتا ہے۔ تو فدوی نے بھی اس پُر فِتن دور میں کہ جب بلاگنگ پر آزمائش و ابتلا کا نزول جاری ہے، کچھ کہنے کے لیے مائیکروسافٹ ورڈ (2016 ورژن ہے ویسے میرے پاس) کے کچھ صفحات سیاہ کیے ہیں۔

تو جناب بلاگنگ کے نباضوں کا کہنا ہے کہ اردو بلاگنگ (پیچھے جہاں جہاں بلاگنگ لکھا ہے اسے بھی اردو بلاگنگ پڑھ لیجیے، اگر نہیں پڑھا تو اب جا کر پڑھ لیں صرف ایک پیراگراف تو ہے، تب تک میں یہ پیرا گراف مکمل کر لوں۔۔)ایک انجمن ستائشِ باہمی والوں کا گروہ تھا جو ایک نِکّے یعنی چھوٹے گروہ سے ایک وڈّے یعنی بڑے گروہ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ تو ہم نباضوں کے اس ارشاد (مس عالیہ کہہ نہیں سکتے مسٹر کہے لیتے ہیں تو مسٹر) عالیہ سے پانچ سات سو (یا جتنے سو آپ کو مناسب لگیں) فیصد متفق ہیں۔ اگر ہم متفق ہیں تو آپ کا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ اس کے لیے اگلے پیرا گراف میں تشریف لائیں۔ یہیں نیچے بھائی، اس کے ساتھ ہی لکھا ہے۔

ہاں جی یہاں۔ تو ہم نے کچھ اپنی عرض بھی کرنا تھی۔ تو عرض یہ ہے کہ ایک عرصہ ہوا ہم بھی وہی کچھ اپنے یک صفحاتی بلاگ پر کرتے تھے جو آج لوگ ان پورٹلز  پر کرتے ہیں۔ (کون سے پورٹل؟ بھولے بادشاہو یہی میڈیا کے وڈّے اور فیس بکی لکھاریوں کی زیرِ سرپرستی چلنے والے پورٹل)۔ تو لوگ کیا کرتے ہیں؟ اس کے لیے وڈّے بزرگوں نے کہا تھا چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ فیس بک پر چند ہزار لوگوں کا ایک آئینہ خانہ وجود میں آ چکا ہے جہاں ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں ناز و انداز دکھاتا ہے۔ ان ناز و انداز کو دیکھ کر کسی کے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے اکثر اوقات آپ اسے ان پورٹلز پر مضامین (یعنی بلاگز) کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک جگہ عرض کیا تھا کہ ارشادات، جوابی ارشادات، یعنی عمل اور ردعمل کی ایک دنیا ہے۔ دو دو پیرا گراف کی تحاریر ہیں، کچھ اچھی ہیں کچھ بری ہیں، کچھ سے عطر کی سی خوشبو آتی ہے کچھ سے قے کی سی بدبو آتی ہے، تو یہ سب کچھ ان پورٹلز پر چلتا ہے جسے اردو بلاگنگ کے نباض اردو بلاگنگ کا مستقبل قرار دیتے ہیں۔ ہم جب یہی کچھ کرتے تھے تو دیکھنے سننے پڑھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا، ہمارا شیش محل ہی ایک کمرے کا تھا (غریب کا مکان ایک کمرہ وہیں کچن وہیں بیڈ روم اور ساتھ بکری کی رہائش کا بندوبست بھی، گھٹیا سٹیج ڈرامے والی مثال ہے ناں، تو جو زبان پر آئے اسے لکھنے کو ہی تو بلاگنگ کہتے ہیں، یعنی ہور چُوپو تحریر چھوڑ کر تشریف لے جائیں ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے) تو بقیہ ماندہ قارئین کے لیے، عرض تھی کہ ہمارا شیش محل یک کمرہ جاتی تھا، موجودہ شیش محل کے پانچ سو کمرے ہیں اور ہر کمرے میں ایک الگ مہاراجہ /مہارانی نے اپنا دربار سجا رکھا ہے۔ کسی نے چلغوزے لگائے ہوئے ہیں، کسی نے ۔۔۔ چلیں چھوڑیں۔ یہ چلغوزے بھی ایسے ہی ہمارے دماغ میں آ گئے۔ اور چلغوزوں سے یاد آیا کہ بس یہی اردو کی خدمت ہے کہ ہر روز ایک نیا کٹا کھلا ہوتا ہے۔ اور اس پر باں باں کرتی اور سینگیں لڑاتی بھیڈیں جنہیں اردو میں بھیڑیں کہا جاتا ہے یعنی اس ترقی یافتہ دور کے اردو لکھاری (جمع مفتی، ناصح،  ملحد، اسلام پسند، ترقی پسند، رجعت پسند، مارکسسٹ، سوشلسٹ، عظیم، عجیب، غریب، بے تکے، بے ڈھنگے۔۔۔) یعنی بلاگر ۔ آپ کو ہر روز ایک نیا تماشہ دیکھنے کو ملتا ہے، ایسا ہی تماشہ جیسے ہمارے بچپن میں مداری نے ریل کے پھاٹک کے ساتھ خالی جگہ پر لگا رکھا ہوتا تھا۔

تو عرض یہ کہ اگر اب ہم نے بلا وجہ سات سو (ورڈ ویسے سات سو چوبیس بتا رہا ہے) الفاظ لکھ مارے ہیں، تو ہم سے بہتر اور لائق لوگ کیا قیامت نہ ڈھاتے ہوں گے۔ ہماری مجبوری بس یہ ہو گئی ہے کہ سینگ تڑوائے ایک عرصہ ہو گیا۔ جب جب لکھنے والوں کو پڑھا تو پتا چلا کہ پڑھیں تو اچھا لکھا جا تا ہے، اب یہ حال ہے کہ نہ پڑھیں نہ لکھ سکیں۔ اور فیس بک کے اس آئینہ خانے میں سچ پوچھیں تو اتنے لوگ روڑے اٹھائے پھرنے لگے ہیں کہ ہمیں ڈر لگتا ہے کوئی ہمیں ہی نہ (کڈھ ) مارے۔ تو اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے بھائی، ہم ردعمل میں کچھ نہیں لکھتے، ہم بغیر پڑھے بھی کچھ نہیں لکھتے، ہم کسی مذہبی ، غیر مذہبی، سیاسی ، غیر سیاسی موضوع پر بھی کچھ نہیں لکھتے کہ ابھی ہمارے بچے بھی اللہ میاں کے پاس ہیں اور ہمارا سنگسار ہونے کا قطعی موڈ نہیں ہے، اور ہمارے مامے کا کوئی پُتر کوئی وڈی ویب سائٹ بھی نہیں چلاتا کہ ہماری ہر ڈیڑھ پیرے کی تحریر جھٹ سے شائع  کر دے۔ اس لیے ہم آج بھی اپنے بلاگ پر لکھتے ہیں، کوئی پڑھے تو اس کا بھلا، کوئی نہ پڑھے تو اس کا بھی بھلا ۔ مولا خوش رکھے۔ کبھی کبھار برسوں میں ایک تحریر افادۂ  عام والی سرزد ہو جائے تو پہلے کسی رسالے میگزین کو ارسال ہو جاتی تھی اب ان آنلائن ویب سائٹوں کو بھیج دیتے ہیں۔ کوئی شائع کر دے تو مولا خوش رکھے ، اس کے بچوں کے بچوں کے بچوں کی بھی خیر کرے، نہ شائع کرے تو ہمارا بلاگ تو ہے ہی، ہم وہیں شائع کر کے اپنا لکھاریانہ سٹیٹس برقرار رکھتے ہیں، اور پھولے نہیں سماتے۔ تو جناب ہم ایک بلاگر ہیں، بہت پرانے ، پڑے پڑے ٹھُس ہو چکے ہیں لیکن کبھی کبھی راکھ میں سے چنگاری بھڑک اٹھتی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں اس بے تُکی تحریر پر تین مجازی صفحے سیاہ کیے اور دو چار لوگوں کا وقت برباد کیا ہی ہو گا۔

[اگر آپ نے یہاں تک اس تحریر کو پڑھا ہے تو آپ کی عظمت کو اکتالیس توپوں کی ورچوئل سلامی۔ لگتا ہے آپ کے پاس بھی ہماری طرح کوئی اور چنگا کام نہیں تھا۔]