ہفتہ، 15 نومبر، 2014

مولا میں تیری رحمت کا محتاج

آج سے کوئی تین ہفتے قبل میری زندگی کا ایک خواب پورا ہوا۔ ایک عرصہ قبل یہ خواہش کی تھی کہ خود کو کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوا دیکھوں۔ اور اللہ نے وہ خواہش آخرکار پوری کر دی۔ یونیورسٹی آف گجرات، حافظ حیات کیمپس میں بطور ایسوسی ایٹ لیکچرار تعیناتی نہ جانے کیسے جھٹ پٹ ہو گئی۔ اللہ سائیں کی رحمت تھی کہ اس نے ہر رکاوٹ دور کی۔ میں جب بھی لکھنے بیٹھوں تو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں، بولوں تو زبان کہاں سے لاؤں کہ میں اس قابل کہاں تھا کہ اتنی عطاء ہو جاتی۔

دل تو سالا پاگل ہے، دوسروں کو دیکھ کر مچلتا ہے دس والی چیز ہو تو پندرہ والی مانگتا ہے۔ اب بھی دل کرتا ہے کہ ایسوسی ایٹ کی بجائے لیکچرر کی مل جاتی تو کیا تھا۔ اور شہر سے اتنی دور کی بجائے ادھر فیصل آباد میں ہی مل جاتی تو کیا تھا۔ ایسے "تو کیا تھا" اور "کاش" میرے بلٹ ان ناشکرے پن کی وجہ سے کبھی نہیں ختم ہو سکتے۔ لیکن یہ جو اللہ کی رحمت ہوئی ہے اس پر میں تو اس قابل بھی نہیں کہ شکر ہی ادا کر سکوں۔ میں کیا اور میری اوقات کیا، اس کی عطاء اور کرم، رحمت اور فضل۔۔۔یہ جو سب کچھ اس کا دیا ہوا ہے میں اس پر کس منہ سے شکر ادا کروں۔ میری اتنی جرات کہ میں شکر ادا کروں۔

بابا جی سرفراز اے شاہ کہا کرتے ہیں کہ دعا میں دنیا مت مانگو بلکہ اللہ سے اس کی ذات ہی مانگ لو۔ کہ مولا تو ہی میرا ہو جا۔ بابا جی کی باتیں اللہ والوں والی ہیں۔ میرے جیسے دنیا کے کتے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں بھی تو دنیا ہی مانگیں گے۔ کھانی مولا کی اور چاکری دنیا کی۔ کیا کریں گندی نالی کے کیڑے کی یہی اوقات ہوتی ہے کہ گھوم پھر کر پھر وہیں گندگی میں جا گھستا ہے۔ وہی حال میرے جیسے دنیا داروں کا ہے، گھوم پھر کر پھر اسی گندگی میں جا گھستے ہیں۔ گندگی سے گردن نکال کر ذرا سی دیر کے لیے پالنے والے کی سمت دیکھا اور پھر گندگی میں دھنسا لی۔

لیکن رب تو سب کا ہے جی، وہ اپنے نیک بندوں کی بھی سنتا ہے اور میرے جیسے کمی کمینوں کی بھی سنتا ہے جن کا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا مردہ بدبودار بکری سے بھی حقیر دنیا ہی ہے۔ پچھلے دنوں سرفراز اے شاہ صاحب کی کتاب لوحِ فقیر پڑھتے ہوئے ان کا قول نظر سے گزرا کہ اللہ سے دعا میں اس کا فضل، اس کی رحمت اور اس کا کرم مانگیں۔ اللہ جانے یہ بابا جی کو پڑھ کر شروع کیا تھا یا میرے اندر کے دفاعی میکانزم نے خودبخود چرخہ چلا دیا تھا۔ چھوٹے کی مرگ سے اگلا دن تھا، سب روتے تھے اور میں چپ تھا۔ اسی دن ہی سے یاد پڑتا ہے کہ ایک جملہ میری زبان پر چڑھ گیا تھا "مولا میں تیری رحمت کا محتاج" اور آج وہ حرزِ جاں بن گیا ہے۔ میں بہت گنہگار ہوں، اتنا کہ شاید اس کی مخلوقات میں میرے جیسا رذیل کوئی نہ ہو۔ لیکن اس کی ذات مجھے اپنے سایہ رحمت میں لیے رکھتی ہے اور میری منہ سے بس اتنا نکلتا ہے کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج۔ مجھ سے دکھ برداشت نہیں ہوتے یا میں کرنا نہیں چاہتا، مشکل دیکھ کر پتلی گلی سے نکل لیا کرتا ہوں اور ہمیشہ شارٹ کٹ کی تلاش رہتی ہے۔ گاڑی بھی چلاؤں تو کم رش والے روڈ سے گزرتا ہوں کہ رش بھی ایک مشکل ہے۔ میری اسی چور بزدل ڈرپوک طبیعت نے مجھے اللہ کی رحمت میں پناہ ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا کہ اس سے مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ اللہ کی رحمت بھی اپنے فائدے کے لیے مانگتا ہوں، میں بھی کیسا بدنصیب ہوں۔

لیکن کیا کروں، میں جیسا بھی ہوں اس کے نبی ﷺ کے نام لیواؤں میں سے ہوں۔ ایمان کے جس کمترین درجے پر بھی کھڑا ہوں، بندہ تو اسی کا ہوں۔ پھر میں آخر کیوں نہ کہوں کہ مولا میں تیری رحمت کا محتاج، میں تیرے فضل کا امیدوار، میں تیری عطاء کا بھوکا، میں تیرے کرم کا محتاج، میرا ہر بال، میرا ہر سانس تیری رحمت کا محتاج۔ تو سخی مولا، تیرے نبی ﷺ کی ذات سخی مولا۔ تو نبی ﷺ کا صدقہ، تو آلِ نبی ﷺ کا صدقہ، تو اصحابِ نبی ﷺ کا صدقہ مجھ پر اپنی رحمت ہی رکھیو۔ میری جھولی میں تیری رحمت کے سوا بھلا اور کیا ہے۔ یہ تیرا کرم ہی تو ہے، تیرا فضل اور تیری عطاء ہی تو ہے کہ میں آج جو کچھ بھی ہوں صرف تیری وجہ سے ہوں۔ میری سانس کا آنا جانا بھی مجھ پر تیری رحمت ہے۔ میرے ہونے میں بھلا میرا کیا کمال ہے مالک۔ یہ تو تیرا کرم ہے کہ تو نے مجھے پیدا کیا۔ میرا لوں لوں تیری رحمت کا قرضدار میں سنکھوں بار پیدا ہو کر بھی یہ قرض چکا نہ پاؤں۔ میں بھلا تیرے در کے سوا کہاں جا سکتا ہوں۔ اگر تیری رحمت نہ ہو تو میرے پلے کیا رہ جائے بھلا۔
مولا میں تو بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں تیری رحمت کا محتاج۔ میں بھلا تیرا شکر کیسے کر سکتا ہوں۔